موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تیرا شکر کس طرح کروں ارشاد ہوتا ہے مجھے یاد رکھو بھولو نہیں یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے حسن بصری وغیرہ کا قول ہے کہ اللہ کی یاد کرنے والے کو اللہ بھی یاد کرتا ہے اس کا شکر کرنے والے کو وہ زیادہ دیتا ہے اور ناشکرے کو عذاب کرتا ہے بزرگان سلف سے مروی ہے کہ اللہ سے پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے غفلت نہ برتی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال ہوتا ہے کہ کیا زانی ، شرابی ، چور اور قاتل نفس کو بھی یاد کرتا ہے؟ فرمایا ہاں برائی سے ، حسن بصری فرماتے ہیں مجھے یاد کرو یعنی میرے ضروری احکام بجا لاؤ میں تمہیں یاد کروں گا یعنی اپنی نعمتیں عطا فرماؤں گا سعید بن جیر فرماتے ہیں میں تمہیں بخش دوں گا اور اپنی رحمتیں تم پر نازل کروں گا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کا یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے ایک قدسی حدیث میں ہے جو تجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ وہ جماعت فرشتوں کی ہے جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہوں اور اگر تو اے بنی آدم میری طرف ایک ہاتھ بڑھائے گا میں تیری طرف دو ہاتھ بڑھاؤں گا اور اگر تو میری طرف چلتا ہوا آئے گا تو میں تیری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے بھی زیادہ قریب ہے پھر فرمایا میرا شکر کرو ناشکری نہ کرو اور جگہ ہے آیت ( لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ) 14 ۔ ابراہیم:7 ) یعنی تیرے رب کی طرف سے عام آگہی ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں برکت دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھنا میرا عذاب سخت ہے ، مسند احمد میں ہے کہ عمربن حصین ایک مرتبہ نہایت قیمتی حلہ پہنے ہوئے آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی پر انعام کرتا ہے تو اس کا اثر اس پر دیکھنا چاہتا ہے ۔
153۔ 1 انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں آرام اور راحت (نعمت) یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکر الہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے مدد کی تاکید ہے۔ حدیث میں ہے ـ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لئے خیر ہیں۔ (صحیح مسلم) صبر کی دو قسمیں ہیں، برے کام کے ترک اور اس سے بچنے پر صبر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا احکام الٰہی کے بجا لانے میں جو مشکلیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر اور ضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا چاہے وہ نفس اور بدن پر کتنی ہی گراں ہوں اور اللہ کی ناپسندیدگی سے بچنا چاہیے اگرچہ خواہشات و لذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھنچیں۔ (ابن کثیر)
[١٩٢] مشکل اور آڑے وقت میں صبر اور نماز سے مدد لینے کا حکم پہلے اسی سورة کی آیت نمبر ٤٥ میں بھی گزر چکا ہے۔ اس مقام پر اس کی مناسبت یہ ہے۔ تحویل قبلہ کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو جس امامت کے لیے تیار کرنا مقصود ہے تو اس کی راہ میں بیشمار مشکلات اور مصائب پیش آنے والے ہیں۔ لہذا اے مسلمانو ایسے اوقات میں صبر اور نماز سے کام لو۔ صبر سے انسان بہت سی مشکلات پر قابو پا لیتا ہے اور نماز ان حالات میں نفس انسانی کو اطمینان بخشتی ہے۔ بندہ کا اللہ پر توکل بڑھتا ہے اور یہی توکل مشکلات میں ثابت قدم رہنے کے لیے ایک بہت بڑا سہارا ثابت ہوتا ہے۔- [ ١٩٣] صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی معیت کا معنیٰ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعانت اور توفیق نصیب ہوتی رہتی ہے۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور یہ بات ہر انسان کو اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر بھی معلوم ہوسکتی اور ہوتی رہتی ہے۔
ذکر و شکر کے ساتھ صبر اور نماز کی تعلیم دی ہے۔ احکام شریعت پر عمل کرنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں اور مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں صبر اور نماز پر ہمیشگی ان مشکلات کا مقابلہ کرنے میں معاون ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا سارا کام ہی خیر ہے اور یہ چیز کسی اور کو حاصل نہیں۔ (خیر اس طرح کہ) اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو شکر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔ “ - [ مسلم، الزہد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩، عن صہیب (رض) ]- اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے تذکرہ کے بعد (جن میں بیت اللہ کو قبلہ قرار دے کر اپنی نعمت تمام کرنا اور اپنے آخری رسول کو بھیجنا شامل ہے) اپنے ذکر و شکر کا حکم دیا اور اس آیت میں مصیبتوں کے آنے پر صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا حکم ہے۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٤٥) اگرچہ اس میں ایمان والوں پر آنے والی ہر مصیبت کا علاج بتایا گیا ہے، مگر آیات کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کو جہاد کے لیے تیار کرنے کی تمہید ہے، کیونکہ قبلہ کی تبدیلی رجب یا شعبان ٢ ہجری میں ہوئی اور غزوۂ بدر رمضان ٢ ہجری میں ہوا۔ دونوں کے درمیان تقریباً دو ماہ کا وقفہ ہے۔ - (اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ) اس سے معیت خاصہ (خصوصی ساتھ) مراد ہے اور جسے اللہ کا ساتھ مل جائے اسے کیا غم ہے ؟ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) سے فرمایا : (لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ ) [ التوبۃ : ٤٠ ] ” غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ [ بخاری، المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام : ٣٦١٥ ] مقصد یہ ہے کہ صبر کرو، تاکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا ساتھ نصیب ہوجائے۔
ربط :- تحویل قبلہ میں جو مخالفین کی طرف سے اعتراض تھا اس کے دو اثر تھے ایک مذہب اسلام پر کہ اعتراض سے مذہب کی حقانیت میں شبہ پیدا کیا جایا کرتا ہے، اوپر کی آیتوں میں اس اعتراض کا جواب دے کر اس کا اثر کا دفع کرنا مقصود تھا دوسرا اثر طبائع اہل اسلام پر کہ اعتراض سے بالخصوص جواب دینے کے بعد بھی اس پر بےجا اصرار کرنے سے قلب میں رنج اور صدمہ پیدا ہوتا ہے آیت آئندہ میں تخفیف حزن کا طریقہ کہ صبر وصلوۃ ہے بتلا کر اس دوسرے اثر کو زائل فرماتے ہیں، - خلاصہ تفسیر :- اے ایمان والو (طبیعتوں میں غم ہلکا کرنے کے بارے میں) صبر اور نماز سے سہارا (اور مدد) حاصل کرو بلاشبہ حق تعالیٰ (ہر طرح سے) صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں (اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ تو بدرجہ اولیٰ وجہ یہ کہ نماز سب سے بڑی عبادت ہے جب صبر میں یہ وعدہ ہے تو نماز جو اس سے بڑھ کر ہے اس میں تو بدرجہ اولیٰ یہ بشارت ہوگی) - معارف و مسائل :- اِسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ اس آیت میں یہ ہدایت ہے کہ انسان کی تمام حوائج و ضروریات کے پورا کرنے اور تمام آفات و مصائب اور تکالیف کو دور کرنے کا نسخہ اکسیر دو جزء سے مرکب ہے ایک صبر دوسرے نماز اور اس نسخہ کے تمام حوائج اور تمام مصائب کے لئے عام ہونے کی طرف قرآن عظیم نے اس طرح سے اشارہ کردیا ہے کہ اِسْتَعِيْنُوْا کو عام چھوڑا ہے کوئی خاص چیز ذکر نہیں فرمائی کہ فلاں کام میں ان دونوں چیزوں سے مدد حاصل کرو،- اس سے معلوم ہوا کہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ ان سے انسان کی ہر ضرورت میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے تفسیر مظہری میں اس عموم کو واضح کردیا ہے اب اس دو جزئی نسخے کے دونوں اجزاء کو سمجھ لیجئے،- صبر کی اصل حقیقت :- صبر کے اصلی معنی اپنے نفس کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے ہیں قرآن وسنت کی اصطلاح میں صبر کے تین شعبے ہیں ایک اپنے نفس کو حرام و ناجائز چیزوں سے روکنا۔ دوسرے طاعات و عبادات کی پابندی پر مجبور کرنا تیسرے مصائب وآفات پر صبر کرنا یعنی جو مصیبت آگئی اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا اور اس کے ثواب کا امیدوار ہونا اس کے ساتھ اگر تکلیف و پریشانی کے اظہار کا کوئی کلمہ بھی منہ سے نکل جائے تو وہ صبر کے منافی نہیں (ذکرہ ابن کثیر عن سعید بن جبیر) - یہ تینوں شعبے صبر کے فرائض میں داخل ہیں ہر مسلمان پر یہ پابندی عائد ہے کہ تینوں طرح کے صبر کا پابند ہو عوام کے نزدیک صرف تیسرے شعبے کو تو صبر کہا جاتا ہے دو شعبے جو صبر کی اصل اور بنیاد ہیں عام طور پر ان کو صبر میں داخل ہی نہیں سمجھا جاتا،- قرآن و حدیث کی اصطلاح میں صابرین انھیں لوگوں کا لقب ہے جو تینوں طرح کے صبر میں ثابت قدم ہوں بعض روایات میں ہے کہ محشر میں نداء کی جائے گی کہ صابرین کہاں ہیں ؟ تو وہ لوگ جو تینوں طرح کے صبر پر قائم رہ کر زندگی سے گذرے ہیں وہ کھڑے ہوجائیں گے اور ان کو بلاحساب جنت میں داخلہ کی اجازت دے دیجائے گی ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ آیت قرآن اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (١٠: ٣٩) سے بھی اس طرف اشارہ ہوتا ہے ،- نماز، دوسرا جزء اس نسخہ کا جو تمام انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور تمام پریشانیوں اور آفتوں سے نجات دلانے میں اکسیر ہے نماز ہے صبر کی جو تفسیر ابھی لکھی گئی ہے اس سے معلوم ہوگیا ہے کہ درحقیقت نماز اور تمام عبادات صبر ہی کے جزئیات ہیں مگر نماز کو جداگانہ بیان اس لئے کردیا کہ تمام عبادات میں سے نماز ایک ایسی عبادت ہے جو صبر کا مکمل نمونہ ہے کیونکہ نماز کی حالت میں نفس کو عبادت وطاعت پر محبوس بھی کیا جاتا ہے اور تمام معاصی ومکروہات سے بلکہ بہت سے مباحات سے بھی نفس کو بحالت نماز روکا جاتا ہے اس لئے صبر جس کے معنی نفس کو اپنے قابو میں رکھ کر تمام طاعات کا پیرو اور تمام معاصی سے مجتنب و بیزار بنانا ہے نماز اس کی ایک عملی تمثیل ہے،- اس کے علاوہ نماز کو انسان کی تمام حاجات کے پورا کرنے اور تمام آفتوں مصیبتوں سے نجات دلانے میں ایک خاص تاثیر بھی ہے گو اس کی وجہ اور سبب معلوم نہ ہو جیسے دواؤں میں بہت سی ادویات کو مؤ ثر بالخاصہ تسلیم کیا جاتا ہے، یعنی کیفیات حرارت وبرودت کے حساب سے جیسے کسی خاص مرض کے ازالہ کے لئے بعض دوائیں بالخاصہ مؤ ثر ہوتی ہیں جیسے درد گردہ کے لئے فرنگی دانہ کو ہاتھ یا منہ میں رکھنا اور بہت سے امراض کے لئے عود صلیب وغیرہ کو گلے میں ڈالنا مؤ ثر بالخاصہ ہے سبب نامعلوم ہے لوہے کو کھنچنے میں مقناطیس مؤ ثر بالخاصہ ہے وجہ معلوم نہیں اسی طرح نماز تمام انسانی ضروریات کی کفالت اور تمام مصائب سے نجات دلانے میں مؤ ثر باالخاصہ ہے بشرطیکہ نماز کو نماز کی طرح آداب اور خشوع خضوع کے ساتھ پڑھا جائے ہماری جو نمازیں غیر مؤ ثر نظر آتی ہیں اس کا سبب ہمارا قصور ہے کہ نماز کے آداب اور خشوع و خضوع میں کوتاہی ہوتی ہے ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب کوئی مہم پیش آتی تو نماز کی طرف رجوع فرماتے تھے اور اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس مہم کو پورا فرما دیتے تھے حدیث میں ہے،- اذاحزبہ امر فزع الی الصلوٰۃ۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی ضرورت پیش آتی تو نماز کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔- صبر اور نماز تمام مشکلات و مصائب سے نجات کا سبب اس لئے ہے کہ صبر سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے :- اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ اس کلمہ میں اس کا راز بتلا دیا گیا ہے کہ صبر حل مشکلات اور دفع مصائب کا سبب کیسے بنتا ہے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ صبر کے نتیجہ میں انسان کو حق تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کے ساتھ رب العزت کی طاقت ہو اس کا کونسا کام رک سکتا ہے اور کونسی مصیبت اس کو عاجز کرسکتی ہے،
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ١٥٣- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - استِعَانَةُ :- طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45]- الا ستعانہ - مدد طلب کرنا قرآن میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )
قول باری ہے : یایھا الذین اٰمنو استعینوا بالصبروالصلاۃ ( ایے ایمان لانے والو، صبر اور نماز سے کام لو) اللہ سبحانہ نے اس آیت کا ذکر اپنے قول : فاذکرونی اذکرکم کے بعد فرمایا، جو اس امرپر دلالت کرتا ہے کہ صبر کرنا، نیز نماز پڑھنا اللہ کے ذکر کی ( جو اس کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل و براہین ، نیز اس کی قدرت و عظمت پر غور و فکر کا دوسرا نام ہے) انسانی عقول کے نزدیک ایک لطیف صورت ہے۔ یہ قول باری اس قول باری کی طرح ہے ان الصلوۃ تنھی علی الفحشاء والمنکر ( بیشک نماز بےحیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی رہتی ہے) اس کے بعد فرمایا : ولذکر اللہ اکبر۔ ( اور اللہ کا ذکر بڑھ کر ہے) یعنی اپنے دلوں کے اندر اللہ کو یاد کرنا، دوسرے الفاظ میں کائنات کے اندر اس کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل پر غور و فکر کرنا نماز پڑھنے سے بڑھ کر ہے کیونکہ نماز اس ذکر کو قائم و دائم رکھنے میں صرف مدد دیتی اور اس کی راہ ہموار کرتی ہے۔
(١٥٣) یعنی فرائض خداوندی کی ادائیگی اور گناہوں کے چھوڑنے اور رات دن نفلیں ادا کرنے اور گناہوں کے ختم کرنے پر ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ مددگار اور حفاظت کرنے والا ہے اور صبر کرنے والوں کی مدد کرنے والا ہے۔
سورة البقرۃ کے انیسویں رکوع سے اب امت مسلمہ سے براہ راست خطاب ہے۔ اس سے قبل اس امت کی غرض تأسیس بایں الفاظ بیان کی جا چکی ہے : (لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط) (آیت ١٤٣) ” تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہی دینے والا بنے “۔ گویا اب تم ہمیشہ ہمیش کے لیے ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نوع انسانی کے درمیان واسطہ ہو۔ ایک حدیث میں علماء حق کے بارے میں فرمایا گیا ہے : (اِنَّ الْعُلَمَاءَ ھُمْ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ ) (١٧) ” یقیناً علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں “۔ اس لیے کہ اب نبوت تو ختم ہوگئی خاتم المرسلینٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ پر ‘ لیکن یہ آخری کتاب قیامت تک رہے گی ‘ اس کو پہنچانا ہے ‘ اس کو عام کرنا ہے ‘ اور صرف تبلیغ سے نہیں عمل کر کے دکھانا ہے۔ وہ نظام عملاً قائم کر کے دکھانا ہے جو محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قائم کیا تھا ‘ تب حجت قائم ہوگی۔ اس کے لیے تمہیں قربانیاں دینی ہوں گی ‘ مشکلات جھیلنی ہوں گی ‘ جان و مال کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ آرام سے گھر بیٹھے ‘ ٹھنڈے پیٹوں حق نہیں آجائے گا ‘ کفر اس طرح جگہ نہیں چھوڑے گا۔ کفر کو ہٹانے کے لیے ‘ باطل کو ختم کرنے کے لیے اور حق کو قائم کرنے کے لیے تمہیں تن من دھن لگانے ہوں گے۔ چناچہ اب پکار آرہی ہے :- آیت ١٥٣ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط) - پانچویں رکوع کی سات آیات کو میں نے بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں بمنزلۂ فاتحہ قرار دیا تھا۔ وہاں پر یہ الفاظ آئے تھے : (وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ الاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّہُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) ” اور مدد چاہو صبر اور نماز سے ‘ اور یقیناً یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں ‘ جو گمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اب یہی بات اہل ایمان سے کہی جا رہی ہے۔- (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ) ” - اللہ تعالیٰ کی معیتّ سے کیا مراد ہے ایک بات تو متفق علیہ ہے کہ اللہ کی مدد ‘ اللہ کی تائید ‘ اللہ کی نصرت ان کے شامل حال ہے۔ باقی یہ کہ جہاں کہیں بھی ہم ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے ‘ لیکن خود اس کا فرمان ہے کہ ” ہم تو انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ (قٓ: ١٦)
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :153 منصب امامت پر مامور کرنے کے بعداب اس اُمّت کو ضروری ہدایات دی جارہی ہیں ۔ مگر تمام دُوسری باتوں سے پہلے انہیں جس پات پر متنبہ کیا جا رہا ہے ، وہ یہ ہے کہ یہ کوئی پھُولوں کا بستر نہیں ہے ، جس پر آپ حضرات لِٹائے جارہے ہوں ۔ یہ تو ایک عظیم الشّان اور پُر خطر خدمت ہے ، جس کا بار اُٹھانے کے ساتھ ہی تم پر ہر قسم کے مصائب کی بارش ہوگی ، سخت آزمائشوں میں ڈالے جاؤ گے ، طرح طرح کے نقصانات اُٹھانے پڑیں گے ۔ اور جب صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے خدا کی راہ میں بڑھے چلے جاؤ گے ، تب تم پر عنایات کی بارش ہوگی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :154 یعنی اس بھاری خدمت کا بوجھ اُٹھانے کے لیےجس طاقت کی ضرورت ہے ، وہ تمہیں دو چیزوں سے حاصل ہوگی ۔ ایک یہ کہ صبر کی صفت اپنے اندر پرورش کرو ۔ دُوسرے یہ کہ نماز کے عمل سے اپنے آپ کو مضبوط کرو ۔ آگے چل کر مختلف مقامات پر اس امر کی تشریحات ملیں گی کہ صبر بہت سے اہم ترین اخلاقی اوصاف کے لیے جامع عنوان ہے ۔ اور حقیقت میں یہ وہ کلیدِ کامیابی ہے ، جس کے بغیر کوئی شخص کسی مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح آگے چل کر نماز کے متعلق بھی تفصیل سے معلوم ہوگا کہ وہ کِس کِس طرح افرادِ مومنین اور جماعتِ مومنین کو اس کارِ عظیم کے لیے تیار کرتی ہے ۔
101: اس سورت کی آیت نمبر ٤٠ سے بنی اسرائیل سے متعلق جو سلسلہ کلام شروع ہوا تھا وہ پورا ہوگیا اور آخر میں مسلمانوں کو ہدایت کردی گئی کہ وہ فضول بحثوں میں الجھنے کے بجائے اپنے دین پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوں، چنانچہ اب مختلف اسلامی عقائد اور احکام کا بیان شروع ہورہا ہے، اس بیان کا آغاز صبر کی تاکید سے ہوا ہے ؛ کیونکہ یہ دور وہ ہے جس میں مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ میں دشمنوں کی طرف سے طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آرہی تھیں، اسی زمانے میں جنگوں کا سلسلہ بھی جاری تھا اور بہت سی سختیاں برداشت کرنی پڑرہی تھیں، جنگوں میں اپنے عزیز رشتہ دار اور دوست شہید بھی ہورہے تھے یا ہونے والے تھے۔ لہذا اب مسلمانوں کو تلقین کی جارہی ہے کہ دین حق کے راستے میں یہ آزمائشیں تو پیش آنی ہیں، ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی رہ کر صبر کا مظاہرہ کرے، واضح رہے کہ صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کسی تکلیف یا صدمہ پر روئے نہیں، صدمے کی بات پر رنج کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے اس لئے شریعت نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی، جو رونا بے اختیار آجائے وہ بھی بے صبری میں داخل نہیں، البتہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ صدمے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہ ہو ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر انسان عقلی طور پر راضی رہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر آپریشن کرے توانسان کو تکلیف تو ہوتی ہے اور بعض اوقات اس تکلیف کی وجہ سے انسان بیساختہ چلا بھی اٹھتا ہے ؛ لیکن اسے ڈاکٹر سے شکایت نہیں ہوتی ؛ کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس کی ہمدردی میں اور اس کی مصلحت کی خاطر کررہا ہے۔