Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت سے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ تیرا شکر کس طرح کروں ارشاد ہوتا ہے مجھے یاد رکھو بھولو نہیں یاد شکر ہے اور بھول کفر ہے حسن بصری وغیرہ کا قول ہے کہ اللہ کی یاد کرنے والے کو اللہ بھی یاد کرتا ہے اس کا شکر کرنے والے کو وہ زیادہ دیتا ہے اور ناشکرے کو عذاب کرتا ہے بزرگان سلف سے مروی ہے کہ اللہ سے پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے غفلت نہ برتی جائے اس کا شکر کیا جائے ناشکری نہ کی جائے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال ہوتا ہے کہ کیا زانی ، شرابی ، چور اور قاتل نفس کو بھی یاد کرتا ہے؟ فرمایا ہاں برائی سے ، حسن بصری فرماتے ہیں مجھے یاد کرو یعنی میرے ضروری احکام بجا لاؤ میں تمہیں یاد کروں گا یعنی اپنی نعمتیں عطا فرماؤں گا سعید بن جیر فرماتے ہیں میں تمہیں بخش دوں گا اور اپنی رحمتیں تم پر نازل کروں گا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کا یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے ایک قدسی حدیث میں ہے جو تجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے کہ وہ جماعت فرشتوں کی ہے جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہوں اور اگر تو اے بنی آدم میری طرف ایک ہاتھ بڑھائے گا میں تیری طرف دو ہاتھ بڑھاؤں گا اور اگر تو میری طرف چلتا ہوا آئے گا تو میں تیری طرف دوڑتا ہوا آؤں گا صحیح بخاری میں بھی یہ حدیث ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس سے بھی زیادہ قریب ہے پھر فرمایا میرا شکر کرو ناشکری نہ کرو اور جگہ ہے آیت ( لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ) 14 ۔ ابراہیم:7 ) یعنی تیرے رب کی طرف سے عام آگہی ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں برکت دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھنا میرا عذاب سخت ہے ، مسند احمد میں ہے کہ عمربن حصین ایک مرتبہ نہایت قیمتی حلہ پہنے ہوئے آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی پر انعام کرتا ہے تو اس کا اثر اس پر دیکھنا چاہتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

152۔ 1 پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر کرو اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکر گزاری (کفران نعمت) ہے شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے۔ جیسے (لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزَیْدَنَّکُمْ ْ وَلَئِنَ کَفَرْ تُمْ اِنَّ عذَابِیْ لَشَدِیْد) 014:007

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٠] لہذا تمہیں لازم ہے کہ ہر دم مجھے یاد کرتے رہو، اور اگر تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد کروں گا چناچہ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجمع میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہو تو میں ایک کلاوہ (دونوں بازو پھیلائے) اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ چلتا ہوا میرے پاس آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ (وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ 28 ؀) 3 ۔ آل عمران :28) - [ ١٩١] اللہ کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ وہ نعمت بحال ہی نہیں رکھتے بلکہ مزید بھی عطا فرماتے ہیں اور ناشکری کی صورت میں وہ نعمت ہی نہیں چھنتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا بھی ملتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :- آیت (لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ۝) 14 ۔ ابراھیم :7) - اگر تم شکر کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (سمجھ لو) کہ میرا عذاب سخت ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ړفَاذْكُرُوْنِيْٓ) اس میں ” فاء “ کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے رسول اور قرآن کے ذریعے سے نعمت پوری کرنے کا انعام تم پر کیا ہے، سو تم پر بھی لازم ہے کہ تم مجھے یاد کرو اور یاد رکھو۔ ذکر کا معنی زبان سے یاد کرنا بھی ہے اور دل اور عمل سے بھی۔ یہ نسیان (بھولنے) کی ضد ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ ) [ آل عمران : ١٣٥ ] ” اور وہ لوگ کہ جب کوئی بےحیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔ “ جب کوئی شخص اللہ کے کسی حکم پر عمل کرتا ہے، نیکی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے تو وہ بھی اللہ کو یاد کرتا ہے، یاد کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روزانہ لاکھ مرتبہ زبان سے ذکر کیا جائے اور اللہ کے احکام کو اور اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داریوں کو بھلا ہی دیا جائے۔ کفار خواہ تمام بلاد اسلام پر قابض ہوجائیں ہمیں اپنی روزانہ کی ہزار رکعت پوری کرنے ہی سے فرصت نہ ہو۔ (اَذْكُرْكُمْ ) ” میں تمہیں یاد کروں گا “ یہ اللہ کو یاد کرنے کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص مجھے اپنے نفس میں یاد کرے، میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی جماعت میں یاد کرے، میں اس سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ “ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و یحذرکم اللہ ۔۔ ) : ٧٤٠٥۔ مسلم، الذکر والدعاء والاستغفار، باب الحث علی ذکر اللہ تعالیٰ : ٢٦٧٥ ] - ( وَاشْكُرُوْا لِيْ ) شکر زبان سے بھی ہوتا ہے اور عمل سے بھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا ۭ ) [ سبا : ١٣ ] ” اے داؤد کے گھر والو شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔ “ عمل نعمت کے مطابق نہ ہو تو شکر بھی نہیں۔ - (وَلَا تَكْفُرُوْنِ ) اس میں ہر ناشکری اور کفر شامل ہے، وہ زبان سے ہو یا عمل سے۔ زبان سے تو الحمد للہ کہنا، لیکن بیٹوں کا نام پیراں دتہ رکھنا، غیر اللہ کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھنا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ سن کر بھی سود کھائے جانا، گھر میں بےحیائی کو فروغ دیتے جانا، رشوت لے کر اسے فضل ربی قرار دینا، صدقے یا رسول اللہ کہنا اور ڈاڑھی منڈوا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حسین صورت سے بےزاری کا اظہار شکر نہیں، بلکہ کفر اور ناشکری کی بدترین صورتیں ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ذکر اللہ کے فضائل :- بے شمار ہیں اور یہی ایک فضیلت کچھ کم نہیں ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد فرماتے ہیں ابو عثمان نہدی نے کہا کہ میں اس وقت کو جانتا ہوں جس وقت اللہ تعالیٰ ہمیں یاد فرماتے ہیں لوگوں نے کہا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے فرمایا اس لئے کہ قرآن کریم کے وعدے کے مطابق جب کوئی بندہ مومن اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتے ہیں اس لئے سب کو یہ سمجھ لینا آسان ہے کہ جس وقت ہم اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یاد فرمائیں گے،- اور معنی آیت کے یہ بھی ہیں کہ تم مجھے اطاعت احکام کے ساتھ یاد کرو تو میں تمہیں ثواب اور مغفرت کے ساتھ یاد کروں گا حضرت سعید بن جبیر نے ذکر اللہ کی تفسیر ہی اطاعت و فرمانبرداری سے کی ہے وہ فرماتے ہیں، - فمن لم یطعہ لم یذکرہ وان کثر صلوتہ و تسبیحہ۔ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہ کی اس نے اللہ کو یاد نہیں کیا اگرچہ ظاہر میں اس کی نماز اور تسبیح کتنی بھی ہو،- ذکر اللہ کی اصل حقیقت :- قرطبی نے بحوالہ احکام القرآن ابن خویز منذاذ ایک حدیث بھی اس مضمون کی نقل کہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی یعنی اس کے احکام حلال و حرام کا اتباع کیا اس نے اللہ کو یاد کیا اگرچہ اس کی (نفل) نماز روزہ وغیرہ کم ہوں اور جس نے احکام خداوندی کی خلاف ورزی کی اس نے اللہ کو بھلا دیا اگرچہ (بظاہر) اس کی نماز روزہ تسبیحات وغیرہ زیادہ ہوں، - حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ جو شخص حقیقی طور پر اللہ کو یاد کرتا ہے وہ اس کے مقابلے میں ساری چیزوں کو بھول جاتا ہے اور اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے ساری چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں اور تمام چیزوں کا عوض اس کو عطا کردیتے ہیں، - اور حضرت معاذ نے فرمایا کہ انسان کا کوئی عمل اس کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے میں ذکر اللہ کے برابر نہیں اور ایک حدیث قدسی بروایت ابوہریرہ میں ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میرے ذکر میں اس کے ہونٹ ہلتے رہیں ذکر اللہ کے فضائل بیشمار ہیں ان کا مختصر خلاصہ احقر نے اپنے رسالہ ذکر اللہ میں جمع کردیا ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝ ١٥٢ ۧ- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ می۔ 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ذکر اللہ کے وجوب کا بیان - قول باری ہے : فاذکرونی اذکرکم ( لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا) یہ آیت اللہ کی یاد کے امر اور حکم کو متضمن ہے۔ ہم اللہ کو کئی طریقوں سے یاد کرسکتے ہیں، اس بارے میں سلف سے کئی اقوال منقول ہیں۔ ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے تم مجھے میری اطاعت کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں اپنی رحمت کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول ہے تم مجھے میری نعمتوں پر حمد و ثناء کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں تمہاری اطاعت کو سراہنے کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول ہے تم مجھے شکر کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں ثواب کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ ایک اور قول کے مطابق تم مجھے دعا کے ذریعے یاد رکھو میں تمہیں دعا کی قبولیت کے ذریعے یاد رکھوں گا۔ تاہم آیت کے الفاظ ان تمام معانی کا احتمال رکھتے ہیں۔ آیت کے الفاظ ان سب کوش امل اور ان سب کو متحمل ہیں۔- اگر یہاں کہاجائے کہ یہ جائز نہیں ہے کہ ایک ہی فقط سے تمام معانی کو اللہ کی مراد قرار دیاجائے کیونکہ مذکورہ لفظ مختلف معانی میں مشترک ہیں، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ یاد الٰہی کی یہ تمام مختلف صورتیں ایک ہی معنی کی طرف راجع ہوتی ہیں ذکر کا لفظ ایسا ہی ہے جیسے انسان کا اسم جو مذکر اور مونث سب کو شامل ہے یا اخواہ کا لفظ جو عینی، علاتی اور اخیانی تمام بھائیوں کو شامل ہے۔ اسی طرح لفظ شراکت اور اس جیسے دیگر الفاظ ہیں ان کا اطلاق اگرچہ مختلف معانی پر ہوتا ہے لیکن جس وجہ سے ان سب کو ایک نام دیاجاتا ہے وہ ہم معنی ہوتا ہے۔ یہی کیفیت ذکر اللہ کے لفظ کی ہے اس میں چونکہ طاعت کا معنی ہے اور اللہ کی طاعت کبھی ذکر باللسان سے کی جاتی ہے کبھی اعضاء وجو اروح سے صادر ہونے والے افعال و اعمال کے ذریعے کبھی اعتقاد قلب کے ذریعے، کبھی اس کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل سے، کبھی اس کی عظمت کے بارے میں غور و فکر کے ذریعے اور کبھی اس کے سامنے دست و عادرازکر نے اور اسے پکارنے سے، اس لئے ایک لفظ کے اندر ان تمام معانی کا ارادہ کرلیناجائز ہے جس طرح خود لفظ طاعت ہے کہ اس کے ذریعے مختلف قسموں کی تمام طاعات کا ارادہ کرنا درست ہے جبکہ طاعت کا حکم علی الاطلاق وارد ہو مثلاً یہ قول باری : اطیعو اللہ واطیعو الرسول ( اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو) ۔- اسی طرح لفظ معصیت ہے شریعت میں مذکور نہی کا لفظ معصیت کی تمام تر صورتوں کو شامل ہے۔ اس بنا پر قول باری : فاذکرونی ذکر الٰہی کی تمام صورتوں کے امرا ور حکم کو متضمن ہے ذکر کی ایک صورت تو اللہ کی اطاعت کی تمام شکلیں ہیں اور اطاعت ذکر الٰہی کی سب سے بڑھ کر عمومی صورت ہے۔ ذکر کی دوسری صورت یہ ہے کہ زبان سے اللہ کی ذات کی تعظیم کے لئے حمد و ثناء کی جائے۔ نیز شکر کے طورپر اور اس کی نعمتوں کے اعتراف کے طورپر اس کا نام لیاجائے اور ذکر الٰہی کی تیسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کو اس کی ذات کی طرف بلا کر اس کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل و براہین سے آگاہ کرکے انہیں ان میں غورو فکر کی دعوت دی جائے اور اس کا ذکر کیا جائے۔- اسی طر ح لوگوں کے سامنے اللہ کی واحدانیت اور اس کی حکمت و قدرت ثابت کرکے نیز اس کی آیات و بنیات کی طرف توجہ دلا کر اس کا ذکر کیا جائے۔ ذکر الٰہ کی یہ تیسری قسم ذکر کی سب سے افضل قسم ہے اور ذکر کی دیگر تمام صورتیں اس پر مبنی اور اسی کی تابع ہیں اس کے ذریعے ہی یقین و طمانیت قلب حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ( آگاہ رہو اللہ ہی کی یاد سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے) اس سے ذکر قلب مراد ہے جو اللہ کی ذات کی نشاندہی کرنے والے دلائل و براہین نیز اس کی ایات و بنیات پر غور و فکر کا دوسرا نام ہے) ۔- ان دلائل و براہین نیز آیات و بینات پر غور و فکر میں جس قدر اضافہ ہوگا اسی قدر قلوب کو زیادہ اطمینان اور سکون نصیب ہوگا۔ یہی وہ افضل ذکر ہے جس کے ثبوت پر تمام اذکار درست ہوئے اور ان کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو یعنی دل میں کیا جائے۔ ابن قانع نے روایت بیان کی ہے کہ ان سے عبدالمالک بن محمد نے، ان سے مسدد نے، ان سے یحییٰ نے اسامہ بن زید سے، انہوں نے محمد بن عبدالرحمن سے انہوں نے حضرت سعد بن مالک (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کافی ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٢) اور اطاعت کے ذریعے مجھے بخوبی یاد کرو، میں جنت کے ساتھ تمہیں یاد کروں گا۔- ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ فراخی اور خوشحالی میں مجھے یاد کرو میں تنگیوں اور پریشانیوں میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میری نعمت کا شکر ادا کرو اور اس شکر گزاری کو ہرگز بھی نہ چھوڑو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٢ (فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ ) - یہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایک بہت بڑا میثاق اور معاہدہ ہے۔ اس کی شرح ایک حدیث قدسی میں بایں الفاظ آئی ہے : (اَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ ‘ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِیْ نَفْسِیْ ‘ وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاءٍ ذَکَرْتُہٗ فِیْ مَلَاءٍ خَیْرٍ مِنْھُمْ ) (١٦) میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں ‘ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں ‘ اور اگر وہ مجھے کسی محفل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہت بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اس کی محفل تو بہت بلند وبالا ہے ‘ وہ ملأاعلیٰ کی محفل ہے ‘ ملائکہ مقربین کی محفل ہے۔ امیر خسروؔ معلوم نہیں کس عالم میں یہ شعر کہہ گئے تھے : ؂- خدا خود میر محفل بود اندر لامکاں خسروؔ - محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم - (وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ ) - میری نعمتوں کا ادراک کرو ‘ ان کا شعور حاصل کرو۔ زبان سے بھی میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اپنے عمل سے بھی ‘ اپنے اعضاء وجوارح سے بھی ان نعمتوں کا حق ادا کرو۔ - یہاں اس سورة مبارکہ کا نصف اوّل مکمل ہوگیا ہے جو اٹھارہ رکوعوں پر مشتمل ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani