حق بات کا چھپانا جرم عظیم ہے اس میں زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی باتیں یعنی شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں ، اہل کتاب نے نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپا لیا تھا جس پر ارشاد ہوتا ہے کہ حق کے چھپانے والے ملعون لوگ ہیں ۔ جس طرح اس عالم کے لیے جو لوگوں میں اللہ کی باتیں پھیلائے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی مچھلیاں اور ہوا کے پرند بھی اسی طرح ان لوگوں پر جو حق کی بات کو جانتے ہوئے گونگے بہرے بن جاتے ہیں ہر چیز لعنت بھیجتی ہے ، صحیح حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا جس شخص نے کسی شرعی عمر کی نسبت سوال کیا جائے اور وہ اسے چھپا لے اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائی جائے گی ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں تھے آپ نے فرمایا کہ قبر میں کافر کی پیشانی پر اس زور سے ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ جاندار اس کا دھماکہ سنتے ہیں سوائے جن و انس کے ۔ پھر وہ سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ان پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے یعنی تمام جانداروں کی حضرت عطاء فرماتے ہیں آیت ( لاعنون ) سے مراد تمام جانور اور کل جن و انس ہے ۔ حضرت مجاھد فرماتے ہیں جب خشک سالی ہوتی ہے بارش نہیں برستی تو چوپائے جانور کہتے ہیں یہ بنی آدم کے گنہگاروں کے گناہ کی شومی قسمت سے ہے اللہ تعالیٰ نبی آدم کے گنہگاروں پر لعنت نازل کرے ، بعض مفسرین کہتے اس سے مراد فرشتے اور مومن لوگ ہیں ، حدیث میں ہے عالم کے لئے ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی اس آیت میں ہے کہ علم کے چھپانے والوں کو اللہ لعنت کرتا ہے اور فرشتے اور تمام لوگ اور کل لعنت کرنے والے یعنی ہر بازبان اور ہر بےزبان چاہے زبان سے کہے چاہے قرائن سے اور قیامت کے دن بھی سب چیزیں ان پر لعنت کریں گی واللہ اعلم ۔ پھر ان میں سے ان لوگوں کو الگ کر لیا گیا جو اپنے اس فعل سے باز آ جائیں اور اپنے اعمال کی پوری اصلاح کرلیں اور جو چھپایا تھا اسے ظاہر کریں ان لوگوں کی توبہ وہ اللہ تواب الرحیم قبول فرما لیتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص کفر و بدعت کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو وہ بھی جب سچے دل سے رجوع کر لے تو اس کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے ، بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی امتوں میں ایسے زبردست بدکاروں کی توبہ قبول نہیں ہوتی تھی لیکن نبی التوبہ اور نبی الرحمہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ساتھ یہ مہربانی مخصوص ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جو کفر کریں توبہ نصیب نہ ہو اور کفر کی حالت میں ہی مر جائیں ان پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، یہ لعنت ان پر چپک جاتی ہے اور قیامت تک ساتھ ہی رہے گی اور دوزخ کی آگ میں لے جائے گی اور عذاب بھی ہمیشہ ہی رہے گا نہ تو عذاب میں کبھی کمی ہوگی نہ کبھی موقوف ہوگی بلکہ ہمیشہ دوام کے ساتھ سخت عذاب میں رہیں گے نعوذباللہ من عذاب اللہ حضرت ابو العالیہ اور حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں ، قیامت کے دن کافر کو ٹھہرایا جائے گا پھر اس پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے گا پھر فرشتے پھر سب لوگ کافروں پر لعنت بھیجنے کے مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور آپ کے عبد کے ائمہ کرام سب کے سب قنوت وغیرہ میں کفار پر لعنت بھیجتے تھے ، لیکن کسی معین کافر پر لعنت بھجنے کے بارے میں علماء کرام کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ جائز نہیں اس لئے کہ اس کے خاتمہ کا کسی کو علم نہیں اور اس آیت کی یہ قید کہ مرتے دم تک وہ کافر رہے معین کافر دلیل ہے کسی پر لعنت نہ بھیجنے کی ، ایک دوسری جماعت اس کی بھی قائل ہے جیسے فقیہ ابو بکر بن عربی مالکی ، لیکن ان کی دلیل ایک ضعیف حدیث ہے ، بعض نے اس حدیث سے یہ بھی دلیل لی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص بار بار نشہ کی حالت میں لایا گیا اور اس پر بار بار حد لگائی گئی تو ایک شخص نے کہا اس پر اللہ کی لعنت ہو بار بار شراب پیتا ہے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو یہ اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے ، اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص اللہ رسول سے دوستی نہ رکھے اس پر لعنت بھیجنی جائز ہے واللہ اعلم ۔
159۔ 1 اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔
[ ١٩٨] اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کا دینی لحاظ سے معاشرہ میں کچھ مقام ہوتا ہے اور ان کی اتباع کی جاتی ہے۔ مثلاً علماء، پیرو مشائخ، واعظ اور مصنفین وغیرہ ایسے حضرات اگر اللہ تعالیٰ کے واضح احکام اور ہدایات کو چھپائیں تو اس کا نتیجہ چونکہ عام گمراہی اور فساد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لہذا یہ لوگ بدترین قسم کے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے گناہ کے بار کے علاوہ اپنے بیشمار متبعین کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر اٹھاتے ہیں۔ لہذا ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے۔ فرشتے بھی، انسان بھی اور بری اور بحری مخلوق بھی۔ حتیٰ کہ پانی کی مچھلیاں بھی۔ اس لیے کہ فساد فی الارض یا عذاب الٰہی کی صورت میں انسانوں کے علاوہ دوسری مخلوق بھی متاثر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر علمائے یہود جنہوں نے تورات کے علم کو بس اپنے ہی حلقہ میں محدود کر رکھا تھا اور مثلاً رجم کی آیت کو چھپاتے تھے اور عوام میں زنا کی سزا ہی دوسری تجویز کرلی تھی۔ یا دیدہ دانستہ عوام میں مشہور کردیا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) یا اسحاق (علیہ السلام) وغیرہ یہودی تھے یا قبلہ کے متعلق صحیح معلومات عوام سے چھپا رکھی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) بہت حدیثیں بیان کرتا ہے (حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اگر کتاب اللہ میں یہ دو آیتیں نہ ہوتیں (یہی آیت نمبر ١٥٩۔ ١٦٠) تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب حفظ العلم) - اور حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ (رض) کو تین بار پکارا، پھر فرمایا : معاذ جو شخص سچے دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ اسے آگ پر حرام کر دے گا۔ معاذ (رض) کہنے لگے میں لوگوں کو یہ بات بتلا دوں کہ وہ خوش ہوجائیں ؟ فرمایا پھر وہ توکل کر بیٹھیں گے (لہٰذا ایسی بشارت نہ دو ) پھر معاذ نے موت کے وقت گنہگار ہونے کے ڈر سے لوگوں سے یہ بیان کردی۔ (بخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قومادون قوم)
” اَللَّعْنَۃُ “ کا اصل معنی ” اَلطَّرْدُ “ یعنی دور دفع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت سے مراد ملعون شخص کو اپنے پاس سے اور اپنی رحمت سے دورکرنا ہے اور دوسرے تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت سے مراد اللہ تعالیٰ سے اسے دور کرنے کی دعا کرنا ہے۔ لعنت کرنے والوں سے مراد تمام مومن جن و انس اور فرشتے ہیں۔ (طبری)- الْكِتٰبِ سے مراد یہاں تورات ہے اور ” لِلنَّاسِ “ سے مراد خاص لوگ یعنی یہود کے علماء ہیں، یعنی علمائے یہود کے لیے تورات و انجیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واضح خوش خبری اور صفات بیان ہونے کے بعد ان میں سے جو لوگ اسے چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں ان پر لعنت ہے۔ اگرچہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی مگر آیت کے الفاظ عام ہیں، اس میں وہ مسلم علماء بھی شامل ہیں جو قرآن و حدیث کی بات جانتے ہوئے اسے چھپا جاتے ہیں اور اپنے فرقے کی بات کو دین ظاہر کرکے بیان کردیتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَن سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ ) ” جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔ “ [ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : ٢٦٤٩۔ أحمد : ٢؍٢٦٣، ح : ٧٥٨٨۔- أبو داوٗد : ٣٦٥٨، عن أبی ہریرۃ (رض) و صححہ الألبانی ]- اگر کسی مسئلہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہو اور عوام میں فتنہ و فساد کا خوف ہو تو اسے عوام کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہاں مقصود حق کا چھپانا نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوہریرہ (رض) کو ” لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ “ پر جنت کی بشارت عام لوگوں کو بیان کرنے سے منع کردیا تھا۔ [ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علی أن من ۔۔ : ٣١ ] اور علی (رض) نے فرمایا : ” لوگوں سے وہ بات بیان کرو جسے وہ سمجھ سکیں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھوٹا کہا جائے ؟ “ [ بخاری، العلم، باب من خص بالعلم قومًا ۔۔ ، قبل ح : ١٢٧ ] اور عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : ” تم کسی قوم کو ایسی بات بیان کرو گے جس تک ان کی عقلیں نہ پہنچتی ہوں تو ضرور ان میں سے کسی کے لیے وہ فتنہ بنے گی۔ “ [ مسلم، المقدمۃ، باب النہی عن الحدیث بکل ما سمع : ١٤؍٥ ]
ربط :- اوپر بحث قبلہ کے ضمن میں صاحب قبلہ کی نبوت کے متعلق اہل کتاب کی حق پوشی کا مضمون مذکور تھا اس آیت میں اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗا الی قولہ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ آگے اس مضمون کی تکمیل کے واسطے حق کو چھپانے والوں کی اور کتمانِ حق پر اصرار کرنے والوں کی وعید اور توبہ کرنے پر معافی کا وعدہ ارشاد فرماتے ہیں۔- خلاصہ تفسیر :- جو لوگ اخفاء کرتے ہیں ان مضامین کا جن کو ہم نے نازل کیا ہے جو کہ (اپنی ذات میں) واضح ہیں اور (دوسروں کے لئے) ہادی ہیں (اور اخفاء بھی) اس (حالت) کے بعد کہ ہم ان (مضامین) کو کتاب (الہیٰ توراۃ و انجیل) میں (نازل فرما کر) عام لوگوں پر ظاہر کرچکے ہوں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ بھی لعنت فرماتے ہیں (کہ اپنی رحمت خاصہ سے ان کو بعید کردیتے ہیں) اور (دوسرے بہتیرے) لعنت کرنے والے بھی (جن کو اس فعل سے نفرت ہے) ان پر لعنت بھیجتے ہیں (کہ ان پر بد دعا کرتے ہیں ہاں) مگر جو لوگ (ان اخفاء کرنے والوں میں اپنی اس حرکت سے) توبہ (یعنی حق تعالیٰ کے رو برو گذشتہ سے معذرت) کرلیں اور (جو کچھ ان کے اس فعل سے خرابی ہوگئی تھی آئندہ کے لئے اس کی) اصلاح کردیں ( اور اس اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ ان اخفاء کئے ہوئے مضامین کو عام طور پر) ظاہر کردیں (تاکہ سب کو اطلاع ہوجائے اور ان پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا بار نہ رہے اور اظہار معتبر عند الشرع یہ ہے کہ اسلام کو قبول کرلیں کیونکہ اسلام نہ لانے میں نبوت محمدیہ کے متعلق عوام پر بھی حق مخفی رہے گا وہ یہی سمجھیں گے کہ اگر نبوت حق ہوتی تو یہ کتاب جاننے والے لوگ کیوں نہ ایمان لاتے خلاصہ یہ کہ یہ لوگ مسلمان ہوجاویں) تو ایسے لوگوں (کے حال) پر میں (عنایت سے) متوجہ ہوجاتا ہوں (اور ان کی خطاء معاف کردیتا ہوں) اور میری تو بکثرت عادت ہے تو یہ قبول کرلینا اور مہربانی فرمانا (کوئی توبہ کرنے والا ہونا چاہئے) البتہ جو لوگ (ان میں سے) اسلام نہ لاویں اور اسی حالت غیر اسلام پر مرجاویں ایسے لوگوں پر (وہ) لعنت (مذکورہ) اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں اور آدمیوں کی بھی سب کی (ایسے طور پر برسا کرے گی کہ) وہ ہمیشہ ہمیشہ کو اسی (لعنت) میں رہیں گے (حاصل یہ کہ وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوں گے اور ہمیشہ کا جہنم میں رہنے والا ہمیشہ ہی خدا کی خاص رحمت سے دور بھی رہے گا اور ہمیشہ ملعون رہنا یہی ہے اور ہمیشگی لعنت کے ساتھ یہ بھی ہے کہ داخل ہونے کے بعد کسی وقت) ان (پر) سے (جہنم کا) عذاب ہلکا (بھی) نہ ہونے پاوے گا اور نہ (داخل ہونے کے قبل) ان کو (کسی میعاد تک) مہلت دی جاوے گی (کیونکہ میعاد اس وقت دی جاتی ہے جب کہ مقدمہ میں گنجائش ہو اور گنجائش نہ ہونے پر اول ہی پیشی میں حکم سزا ہوجاتا ہے) - معارف و مسائل :- علم دین کا اظہار اور پھیلانا واجب اور اس کا چھپانا سخت حرام ہے :- آیت مذکورہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایات بینات نازل کی گئی ہیں ان کا لوگوں سے چھپانا اتنا بڑا جرم عظیم ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ بھی لعنت کرتے ہیں اور تمام مخلوق لعنت بھیجتی ہے اس سے چند احکام حاصل ہوئے،- اول : یہ کہ جس علم کے اظہار اور پھیلانے کی ضرورت ہے اس کا چھپانا حرام ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ؛- من سئل عن علم یعلمہ فکتمہ الجمہ اللہ یوم القیامۃ بلجام من النار (رواہ ابوہریرۃ وعمروبن العاص اخرجہ ابن ماجۃ (ازقرطبی) - " یعنی جو شخص دین کے کسی حکم کا علم رکھتا ہے اور اس سے وہ حکم دریافت کیا جائے اگر وہ اس کو چھپائے گا تو قیامت کے روز اس کے منہ میں اللہ تعالیٰ آگ کا لگام ڈالیں گے،- حضرات فقہاء نے فرمایا کہ یہ وعید اس صورت میں ہے جب کہ اس کے سوا کوئی دوسرا آدمی مسئلہ کا بیان کرنے والا وہاں موجود نہ ہو اور اگر دوسرے علماء بھی موجود ہوں تو گنجائش ہے کہ یہ کہہ دے کہ دوسرے علماء سے دریافت کرلو (قرطبی، جصاص) - دوسری : بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جس کو خود صحیح علم حاصل نہیں اس کو مسائل و احکام بتانے کی جرأت نہیں کرنا چاہئے،- تیسرا مسئلہ : یہ معلوم ہوا کہ علم کو چھپانے کی یہ سخت وعید انہیں علوم و مسائل کے متعلق ہے جو قرآن وسنت میں واضح بیان کئے گئے ہیں اور جن کے ظاہر کرنے اور پھیلانے کی ضرورت ہے وہ باریک اور دقیق مسائل جو عوام نہ سمجھ سکیں بلکہ خطرہ ہو کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں گے تو ایسے مسائل و احکام کا عوام کے سامنے بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور وہ کتمان علم کے حکم میں نہیں ہے آیت مذکورہ میں لفظ من البینات والھدے سے اسی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ایسے ہی مسائل کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ تم اگر عوام کو ایسی حدیثیں سناؤ گے جن کو وہ پوری طرح نہ سمجھ سکیں تو ان کو فتنہ میں مبتلا کردو گے (قرطبی) - اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے انہوں نے فرمایا کہ عام لوگوں کے سامنے صرف اتنے ہی علم کا اظہار کرو جس کو ان کی عقل وفہم برداشت کرسکے کیا تم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تکذیب کریں کیونکہ جو بات ان کی سمجھ سے باہر ہوگی ان کے دلوں میں اس سے شبہات وخدشات پیدا ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے انکار کر بیٹھیں، - اس سے معلوم ہوا کہ عالم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مخاطب کے حالات کا اندازہ لگا کر کلام کرے جس شخص کے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو اس کے سامنے ایسے مسائل بیان ہی نہ کرے اسی لئے حضرات فقہاء بہت سے مسائل کے بیان کے بعد لکھ دیتے ہیں مما یعرف ولا یعرف یعنی یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اہل علم کو خود تو سمجھ لینا چاہئے مگر عوام میں پھیلانا نہیں چاہئے،- ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- لا تمنعوا الحکمۃ اہلھا فتظلموھم ولا تضعوھا فی غیر اہلھا فتظلموھا۔ یعنی حکمت کی بات کو ایسے لوگوں سے نہ روکو جو اس بات کے اہل ہوں اگر تم نے ایسا کیا تو ان لوگوں پر ظلم ہوگا اور جو اہل نہیں ہیں ان کے سامنے حکمت کی باتیں نہ رکھو کیونکہ اس صورت میں اس حکمت پر ظلم ہوگا،- امام قرطبی نے فرمایا کہ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی کافر کو جو مسلمانوں کے مقابلہ میں مناظرے کرتا ہو یا کوئی مبتدع گمراہ جو لوگوں کو اپنے غلط خیالات کی طرف دعوت دیتا ہو اس کو علم دین سکھانا اس وقت تک جائز نہیں جب تک یہ ظن غالب نہ ہوجائے کہ علم سکھانے سے اس کے خیالات درست ہوجائیں گے،- اسی طرح کسی بادشاہ یا حاکم وقت کو ایسے مسائل بتلانا جن کے ذریعہ وہ رعیت پر ظلم کرنے کا راستہ نکال لیں جائز نہیں اسی طرح عوام کے سامنے احکام دین میں رخصتیں اور حیلوں کی صورتیں بلا ضرورت بیان نہ کرنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ احکام دین پر عمل کرنے میں حیلہ جوئی کے عادی بن جائیں (قرطبی) - حدیث رسول بھی قرآن کے حکم میں ہے :- صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر قرآن کی یہ آیت نہ ہوتی تو میں تم سے کوئی حدیث بیان نہ کرتا آیت سے مراد یہی آیت ہے جس میں کتمان علم پر لعنت کی وعید شدید مذکور ہے ایسے ہی بعض دوسرے صحابہ کرام نے بھی بعض روایات حدیث کے ذکر کرنے کے ساتھ ایسے ہی الفاظ فرمائے کہ اگر قرآن کریم کی یہ آیت کتمان علم کے بارے میں نہ ہوتی تو میں یہ حدیث بیان نہ کرتا،- ان روایات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کے نزدیک حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن ہی کے حکم میں ہے کیونکہ آیت میں تو کتمان کی وعید ان لوگوں کے لئے آئی ہے جو قرآن میں نازل شدہ ہدایات وبینات کو چھپائیں اس میں حدیث کا صراحۃ ذکر نہیں لیکن صحابہ کرام (رض) اجمعین نے حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی قرآن ہی کے حکم میں سمجھ کر اس کے اخفاء کرنے کو اس وعید کا سبب سمجھا۔- بعض گناہوں کا وبال ایسا ہوتا ہے کہ اس پر ساری مخلوق لعنت کرتی ہے :- وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ میں قرآن کریم نے لعنت کرنے والوں کو متعین نہیں کیا کہ کون لوگ لعنت کرتے ہیں امام تفسیر مجاہد اور عکرمہ نے فرمایا کہ اس عدم تعیین سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دنیا کی ہر چیز اور ہر مخلوق ان پر لعنت کرتی ہے یہاں تک کہ تمام جانور اور حشرات الارض بھی ان پر لعنت کرتے ہیں کیونکہ ان کی بداعمالی سے ان سب مخلوقات کو نقصان پہونچتا ہے حضرت براء بن عازب کی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللاّٰعِنُوْنَ مراد تمام زمین پر چلنے والے جانور ہیں (قرطبی بحوالہ ابن ماجہ باسناد حسن)
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْہُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ٠ ۙ اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُہُمُ اللہُ وَيَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ ١٥٩ ۙ- كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، وقال : وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] ، وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] ، وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ [ آل عمران 71] ، وقوله : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] فَكِتْمَانُ الفضل : هو کفران النّعمة، ولذلک قال بعده : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] ، وقوله : وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] قال ابن عباس : إنّ المشرکين إذا رأوا أهل القیامة لا يدخل الجنّة إلّا من لم يكن مشرکا قالوا : وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] فتشهد عليهم جوارحهم، فحینئذ يودّون أن لم يکتموا اللہ حدیثا «2» . وقال الحسن : في الآخرة مواقف في بعضها يکتمون، وفي بعضها لا يکتمون، وعن بعضهم : لا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] هو أن تنطق جو ارحهم .- ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے ۔ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] مگر ایک فریق ان میں سچی بات جان بوجھ کر چھپا رہا ہے ۔ وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] اور ( دیکھنا ) شہادت کو مت چھپانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو ( مال ) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں ۔ میں کتمان فضل سے کفران نعمت مراد ہے اسی بنا پر اس کے بعد فرمایا : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے کی تفسیر میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے روز مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہو رہے ہیں جو مشرک نہیں تھے ۔ تو چھٹ سے پکارا اٹھیں گے وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے ۔ مگر اس کے بعد ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت وہ تمنا کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپائے ہوتی حسن بصری فرماتے ہیں کہ آخرت میں متدد واقف ہوں گے بعض موقعوں پر وہ اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کریں گے ۔ اور بعض میں نہیں چھپائیں گے بعض نے کہا ہے کہ کوئی چھپا نہ سکنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دینگے ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔
کتمان علم سے نہی کا بیان - قول باری ہے ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینات والھدی۔ ( جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں) تاکہ آخر آیت۔ دوسری جگہ فرمایا۔ ان الذین یکتمون ما انزل اللہ من الکتب ویشترون بہ ثمناً قلیلاً ( جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دینویں فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں) تا آخر آیت۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا۔ واذا اخذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتب لتبینۃ للناس ولا تکتمونہ ( ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلائو جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا) یہ تمام آیتیں لوگوں کے سامنے علوم دین کو واضح کرنے کی موجب ہیں اور علوم دین کو چھپانے سے روکتی ہیں۔ یہ آیتیں چونکہ منصوص علیہ کے بیان کے لزول پر دلالت کرتی ہیں اس لئے یہ مدکول علیہ علم کو بیان کرنا بھی واجب کرتی ہیں۔ ارشاد باری ہے یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی۔ یہ حکم اللہ سبحانہ کے تمام احکام کو شامل ہے کیونکہ ” الھدیٰ “ کا اسم سب کو شامل ہے اور قول باری یکتمون ما انزل اللہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس بارے میں نص یا دلیل کی جہت سے علم میں آنے والے احکام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ قول باری لتبینتہ ولا تکتمونہ تمام احکامات کے لئے عام ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے علم میں آنے والے احکامات بھی ان آیات کے تحت ہیں۔ کتاب اللہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اخباء آحاد قبول کرنے پر بھی دلالت موجود ہے۔ خواہ یہ نص کی جہت سے ہو یا دلالت کی جہت سے۔- یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا ہے کہ اگر اللہ کی کتاب میں ایک آیت موجود نہ ہوتی تو میں کبھی تم سے حدیثیں بیان نہ کرتا۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی۔ ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینت والھدی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ بتادیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی حدیث بھی بینات اور ہدی میں داخل ہے۔- شعبہ نے قتادہ سے قول باری :( واذا خذا اللہ میثاق الذین اوتو الکتب تا آخر آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ وہ عہد ہے جو اللہ سبحانہ نے اہل علم سے لیا ہے اس لئے جو شخص کسی حکم کا علم رکھتا ہو اسے چاہیے کہ دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔ خبر دار تم کتمان علم سے ہمیشہ بچتے رہو کیونکہ کتمان علم ہلاکت ہے۔ علم کو بیان کرنے کے سلسلے میں اس آیت کی نظریہ قول باری ہے اگرچہ اس میں علم کو چھپانے والے کے لیے کسی وعید کا ذکر نہیں ہے۔ فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھو ا فی الدین ولینذرواقومھم اذا رجعو ا الیھم لعلھم یحذرون (مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روشن سے ) پرہیز کرتے)- حجاج نے عطاء سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی بات کا علم رکھتا ہو اور پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اسے آگ کی لگام پہنا دی گئی ہوگی۔ - اگر یہاں یہ کہاجائے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ زیر بحث آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی تھی جب انہوں نے اپنی کتابوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو چھپالیا ؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایک سبب آیت کے عموم کے دائرے کو ان تمام صورتوں اور احکامات تک وسیع کردینے میں رکاوٹ نہیں بنتا جنہیں مذکورہ آیت اپنے ضمن میں لے لے۔ حکم کا مدار لفظ ہے سبب نہیں۔ الہ یہ کہ ایسی کوئی دلالت قائم ہوجائے جس سے صرف سبب پر اقتصار کرنا واجب قرار پائے۔- زیر بحث آیات سے ان اخبار کو قبول کرنے کے سلسلے میں استدلال کیا جاتا ہے جو اس درجہ تک پہنچ نہ سکے جہاں پہنچ کر وہ سننے والوں کے لیے امور دین کے اندر ایجاب علم کا ذریعہ بن جائیں۔ دلیل یہ ارشاد باری ہے : ان الذین یکتمون ما انز اللہ من الکتب۔ نیز ارشاد ہے : واذا اخذ اللہ میثاق الذین اوتو الکتب یہ آیات ایک طرف کتمان علم سے نہی کی اور دوسری طرف اظہار علم سے وقوع بیان کی متقضی ہیں۔ اگر سامعین پر انہیں قبول کرلینا لازم نہ ہوتا تو ان کی خبر دینے والا اللہ کے احکام بیان کرنے والا قرار نہ پاتا۔ اس لیے کہ جو خبر کسی حکم کو واجب نہ کرے اسے بیان کرنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جن لوگوں کو کتمان علم سے منع کیا گیا ہے وہ جب بھی اپنے چھپائے ہوئے علم کا اظہار کرکے اس کی خبر دے دیں اسی وقت سننے والوں پر اس خبر کے متقضا پر عمل پیرا ہونا لازم ہوجائے گا۔ اس بات پر سیاق خطاب میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے۔- ( البتہ جو لوگ اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلیں اور جو کچھ چھپاتے ہیں اسے بیان کرنے لگیں۔- اگر کوئی یہ کہے کہ اس میں دئی ہوئی خبر سے متعلق عمل کے لزوم پر کوئی دلالت نہیں ہے اور یہ کہنا درست ہے کہ علم کو چھپانے والوں میں سے ہر ایک کو کتمان سے روک دیا گیا تھا تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لیے کہ انہیں کتمان سے اس لیے روکا گیا تھا کہ کتمان پر ان کا گٹھ جوڑ ہوسکتا تھا اور جو لوگ کتمان پر گٹھ جوڑ کرسکتے ہیں وہ اپنی طرف سے کوئی بات بنانے پر بھی گٹھ جوڑ کرسکتے ہیں۔ اس لیے ان کی خبر علم کا موجب نہیں ہوسکتی جبکہ آثار کی دلالت اس امر پر ہے کہ ایسی خبر قبول کرلی جائے جو اس درجے پر نہ پہنچی ہو جہاں وہ علم کا موجب نہ بنتی ہو جس کی خبر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں معترض نے جب بات کا دعویٰ کیا ہے اس کے پاس اپنے دعوے کی صداقت کے لیے کوئی دلیل اور برہان موجود نہیں ہے۔ زیر بحث آیات کے ظواہر اس بات کو قبول کرلینے کے متقضی ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے اللہ کے دیے ہوئے حکم کا بیان عمل میں آ جاتا ہے۔- زیر بحث آیت میں ایک اور حکم بھی ہے۔ وہ یہ کہ آیت چونکہ اظہار علم کے لزوم اور اس کے کتمان کے ترک پر دلالت کرتی ہے اس لئے وہ اس پر اجرت لینے کے جواز کے امتناع پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ ایک شخص پر جس فعل کا کرنا لازم ہو اس پر اجرت کا استحقاق جائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اسلام لانے پر اجرت کا استحقاق درست نہیں ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں نے اپنی قوم کو سو بکریاں اس غرض سے دی ہیں کہ وہ اسلام لے آئیں۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری سو بکریاں تمہیں واپس ہوجائیں گی اور اگر یہ لوگ اسلام نہ لائے تو ہم ان کے ساتھ جنگ کریں گے۔ اس پر ایک اور جہت سے دلالت ہورہی ہے وہ یہ کہ ارشاد باری ہے : ان الذین یکتمون ما انزل اللہ من الکتب ویشترون بہ ثمناً قلیلاً ( جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دینوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں) آیت کا ظاہر اظہار اور کتمان دونوں پر اجرت لینے سے روکتا ہے، اس لیے کہ مذکورہ آیت کا آخری حصہ اللہ کے احکام پر معاوضہ وصول کرنے کی ہر صورت کے لیے مانع ہے۔ کیونکہ لغت میں ثمن معاوضہ اور بدل کو کہتے ہیں۔ عمر بن ابی ربیعہ کا شعر ہے ؎- ان کنت حاولت دنیا اور ضیت بھا فما اصبت بترک الحج من ثمن - ( اگر تم نے دنیا حاصل کرنے کا ارادہ کیا یا دنیا پر رضا مند ہوگئے تو تمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے کہ حج کا فریضہ چھوڑنے پر تمہیں کوئی معاوضہ اور بدل ہاتھ نہیں آیا)- درج بالا وضاحت سے تعلیم قرآن نیز علوم دین سکھانے پر اجرت ینے کا بطلان ثابت ہوگیا۔
(١٥٩) اوامرو نواہی (نیک کام کرنے اور برے کام نہ کرنے) اور علامات نبوت توریت میں بیان کردینے کے بعد اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت بنی اسرائیل کے لیے توریت میں بیان ہونے کے بعد جو لوگ ان چیزوں کو چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب قبر دے گا اور جنوں و انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات خداوندی جب قبر میں سے انکی آوازوں کو سنے گی تو ان پر لعنت بھیجے گی۔- شان نزول : (آیت) ” ان الذین یکتمون ماانزلنا (الخ)- حضرت ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے سعید یا عکرمہ (رض) کے واسطے سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں معاذ بن جبل (رض) سعد بن معاذ اور خارجہ بن زید (رض) نے یہود کے علماء سے توریت کی بعض باتوں کے بارے میں پوچھا تو ان یہودیوں نے ان حضرات سے ان باتوں کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی اور ان کے بیان کرنے سے اعراض کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان یہودیوں کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ان الذین یکتمون ماانزلنا (الخ) (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٥٩ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی) (مِنْم بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ للنَّاسِ فِی الْْکِتٰبِ لا) (اُولٰٓءِکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ )- اس آیت میں یہود کی طرف اشارہ ہے ‘ جن کی معاندانہ روش کا ذکر پہلے گزر چکا۔ یہاں اب گویا آخری قطعی صفائی ( ) کے طور پر ان کے بارے میں چند باتوں کا مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں بیناتّ اور ہدیٰ سے خاص طور پر وہ نشانیاں مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تورات میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہود کی راہنمائی کے لیے واضح فرمائی تھیں۔ لیکن یہود نے ان نشانیوں سے راہنمائی حاصل کرنے کے بجائے ان کو چھپانے کی کوشش کی۔ آیت ١٤٠ میں ہم پڑھ آئے ہیں : (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَھَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ) اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی تھی جسے اس نے چھپالیا۔ یہاں اسی کی وضاحت ہو رہی ہے کہ تورات اور انجیل میں کیسی کیسی کھلی شہادتیں تھیں ‘ اور ان کو یہ چھپائے پھر رہے ہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :160 علمائے یہود کا سب سے بڑا قصُور یہ تھا کہ انہوں نے کتاب اللہ کے علم کی اشاعت کرنے کے بجائے اس کو ربّیوں اور مذہبی پیشہ وروں کے ایک محدُود طبقے میں مقید کر رکھا تھا اور عامّہء خلائق تو درکنار ، خود یہُود عوام تک کو اس کی ہوا نہ لگنے دیتے تھے ۔ پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان کے اندر گمراہیاں پھیلیں ، تو علما نے نہ صرف یہ کہ اصلاح کی کوئی کوشش نہ کی ، بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیّت برقرار رکھنے کے لیے ہر اس ضلالت اور بدعت کو ، جس کا رواج عام ہو جاتا ، اپنے قول و عمل سے یا اپنے سکوت سے اُلٹی سندِ جواز عطا کرنے لگے ۔ اسی سے بچنے کی تاکید مسلمانوں کو کی جارہی ہے ۔ دنیا کی ہدایت کا کام جس اُمّت کے سپرد کیا جائے ، اس کا فرض یہ ہے کہ اس ہدایت کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے ، نہ یہ کہ بخیل کے مال کی طرح اسے چھپا رکھے ۔
104: اشارہ ان یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف ہے جو پچھلی آسمانی کتابوں میں مذکور ان بشارتوں کو چھپاتے تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں نازل ہوئی تھیں