Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

صفا اور مروہ کا طواف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طواف نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں آپ نے فرمایا بھتیجے تم صحیح نہیں سمجھے اگر یہ بیان مد نظر ہوتا تو ان لا یطوف بھما ہوتا ۔ سنو آیت شریف کا شان نزول یہ ہے کہ مثلل ( ایک جگہ کا نام ہے ) کے پاس مناۃ بت تھا اسلام سے پہلے انصار اسے پوجتے تھے اور جو اس کے نام لبیک پکار لیتا وہ صفا مروہ کے طواف کرنے میں حرج سمجھتا تھا ، اب بعد از اسلام ان لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صفا مروہ کے طواف کے حرج کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی کے بعد حضور علیہ السلام نے صفا مروہ کا طواف کیا اس لئے مسنون ہو گیا اور کسی کو اس کے ترک کرنے کا جواز نہ رہا ( بخاری مسلم ) ابو بکر بن عبدالرحمن نے جب یہ روایت سنی تو وہ کہنے لگے کہ بیشک یہ علمی بات ہے میں نے تو اس سے پہلے سنی ہی نہ تھی بعض اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ انصار نے کہا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے صفا مروہ کے طواف کو جاہلیت کا کام جانتے تھے اور اسلام کی حالت میں اس سے بچتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ، ابن عباس سے مروی ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان بہت سے بت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں کے طواف کی بابت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں کے طواف کی بابت مسئلہ دریافت کیا جس پر یہ آیت اتری اساف بت صفا پر تھا اور نائلہ مروہ پر ، مشرک لوگ انہیں چھوتے اور چومتے تھے اسلام کے بعد لوگ اس سے الگ ہو گئے لیکن یہ آیت اتری جس سے یہاں کا طواف ثابت ہوا ، سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ اساف اور نائلہ دو مردو عورت تھے ان بدکاروں نے کعبہ میں زنا کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھر بنا دیا ، قریش نے انہیں کعبہ کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو لیکن کچھ زمانہ کے بعد ان کی عبادت شروع ہو گئی اور صفا مروہ پر لا کر نصب کر دئے گئے اور ان کا طواف شروع ہو گیا ، صحیح مسلم کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر چکے تو رکن کو چھو کر باب الصفا سے نکلے اور آیت تلاوت فرما رہے تھے پھر فرمایا میں بھی شروع کروں گا اس سے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم شروع کرو اس سے جس سے اللہ نے شروع کیا یعنی صفا سے چل کر مروہ جاؤ ۔ حضرت حبیبہ بنت تجزاۃ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صفا مروہ کا طواف کرتے تھے لوگ آپ کے آگے آگے تھے اور آپ ان کے پیچھے تھے آپ قدرے دوڑ لگا رہے تھے اور اس کی وجہ سے آپ کا تہمبند آپ کے ٹخنوں کے درمیان ادھر اھر ہو رہا تھا اور زبان سے فرماتے جاتے تھے لوگوں دوڑ کر چلو اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی لکھ دی ہے ( مسند احمد ) اسی کی ہم معنی ایک روایت اور بھی ہے ۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو صفا مروہ کی سعی کو حج کا رکن جانتے ہیں جیسے حضرت امام شافعی اور ان کے موافقین کا مذہب ہے ، امام احمد سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ، بعض اسے واجب تو کہتے ہیں لیکن حج کا رکن نہیں کہتے اگر عمداً یا سہواً یا کوئی شخص اسے چھوڑ دے تو ایک جانور ذبح کرنا پڑے گا ۔ امام احمد سے ایک روایت اسی طرح مروی ہے اور ایک اور جماعت بھی یہی کہتی ہے اور ایک قول میں یہ مستحب ہے ۔ امام ابو حنیفہ ، ثوری ، شعبی ، ابن سیرین یہی کہتے ہیں ۔ حضرت انس ابن عمر اور ابن عباس سے یہی مروی ہے امام مالک سے عتیبہ کی بھی روایت ہے ، ان کی دلیل آیت ( فمن تطوع خیرا ) ہے ، لیکن پہلا قول ہی زیادہ راجح ہے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا مروہ کا طواف کیا اور فرمایا احکام حج مجھ سے لو ، پس آپ نے اپنے اس حج میں جو کچھ کیا وہ واجب ہو گیا اس کا کرنا ضروری ہے ، اگر کوئی کام کسی خاص دلیل سے وجوب سے ہٹ جائے تو اور بات ہے واللہ اعلم ۔ علاوہ ازیں حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرسعی لکھ دی یعنی فرض کر دی ۔ غرض یہاں بیان ہو رہا ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام میں سے ہے جنہیں حضرت ابراہیم کو بجا آوری حج کے لیے سکھائے تھے یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کی اصل حضرت ہاجرہ کا یہاں سات پھیرے کرنا ہے جبکہ حضرت ابراہیم نے انہیں ان کے چھوٹے بچے سمیت یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے پاس کھانا پینا ختم ہو چکا تھا اور بچے کی جان پر آ بنی تھی تب ام اسمٰعیل علیہ السلام نہایت بےقراری ، بےبسی ، ڈر ، خوف اور اضطراب کے ساتھ ان پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے اللہ سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں ۔ یہاں تک کہ آپ کا غم و ہم ، رنج و کرب ، تکلیف اور دکھ دور ہوا ۔ یہاں سے پھیرے کرنے والے حاجی کو بھی چاہئے کہ نہایت ذلت و مسکنت خضوع و خشوع سے یہاں پھیرے کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنے دل کی صلاحیت اور اپنے مال کی ہدایت اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور نقائص اور عیبوں سے پاکیزگی اور نافرمانیوں سے نفرت چاہے اور ثابت قدمی نیکی فلاح اور بہبودی کی دعا مانگے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ گناہوں اور برائیوں کی تنگی کی راہ سے ہٹا کر کمال و غفران اور نیکی کی توفیق بخشے جیسے کہ حضرت ہاجرہ کے حال کو اس مالک نے ادھر سے ادھر کر دیا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی خوشی نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے سات پھیروں کے آٹھ نو کرے نفلی حج و عمرے میں بھی صفا و مروہ کا طواف کرے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے یعنی ہر نیکی میں زیادتی کرے واللہ اعلم پھر فرمایا اللہ تعالیٰ قدر دان اور علم والا ہے ، یعنی تھوڑے سے کام پر بڑا ثواب دیتا ہے اور جزا کی صحیح مقدار کو جانتا ہے نہ تو وہ کسی کے ثواب کو کم کرے نہ کسی پر ذرہ برابر ظلم کرے ، ہاں نیکیوں کا ثواب بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنے پاس عظیم عنایت فرماتا ہے فالحمد والشکر للہ

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

158۔ 1 شَعْآئِرُ جس کے معنیٰ علامتیں ہیں یہاں حج کے وہ مناسک (مثلا سعی اور قربانی کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ 158۔ 2 صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ ) 002:158 سے بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ شاید ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کے علم میں جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا ( فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا) 002:158 ۔ جب لوگ مسلمان ہوئے تو ان کے ذہین میں آیا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیونکہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم کو اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٩٧] صفا اور مروہ خانہ کعبہ کے نزدیک دو پہاڑیاں ہیں۔ جن کے درمیان سات بار دوڑنا مناسک حج میں شامل تھا۔ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سکھلائے تھے۔ زمانہ مابعد میں جب مشرکانہ جاہلیت پھیل گئی تو مشرکوں نے صفا پر اساف اور مروہ پر نائلہ کے بت رکھ دیئے تھے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صفا اور مروہ کے درمیان سعی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا یہ محض مشرکانہ دور کی ایجاد ہے ؟ چناچہ اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس غلط فہمی کو دور کر کے صحیح بات کی طرف رہنمائی فرما دی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔- عاصم بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابتدائے اسلام میں ہم اسے جاہلیت کی رسم سمجھتے تھے۔ لہذا اسے چھوڑ دیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ ان الصفا والمروۃ) - نیز اہل مدینہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو اس لیے برا سمجھتے تھے کہ وہ منات کے معتقد تھے اور اساف اور نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ چناچہ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا جبکہ میں ابھی کمسن تھا کہ اللہ تعالیٰ کے قول آیت ان الصفا والمروۃ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص صفا اور مروہ کا طواف نہ کرے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے جواب دیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں۔ اگر یہ مطلب ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے۔ اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں۔ یہ آیت انصار کے حق میں اتری ہے۔ وہ حالت احرام میں منات کا نام پکارتے تھے اور یہ بت قدید کے مقام پر نصب تھا۔ انصار (اسی وجہ سے) صفاء مروہ کا طواف برا سمجھتے تھے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکور)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(يَّطَّوَّفَ ) یہ باب تفعل سے ہے، ” طَافَ یَطُوْفُ “ کا معنی طواف کرنا، چکر لگانا ہے، جب باب تفعل میں حروف زیادہ ہوئے تو اس کا معنی ” خوب طواف کرے “ ہوگیا۔ ” شَعَاۗىِٕرِ “ یہ ” شَعِیْرَۃٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی نشانی ہے۔ بعض لوگوں نے صفا اور مروہ کو جاہلیت کے بتوں کی نشانی سمجھ کر ان کے طواف کو گناہ سمجھا، تو اس پر فرمایا کہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ - صفا اور مروہ کعبہ کے قریب دو چھوٹی پہاڑیوں کے نام ہیں۔ ان کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا) ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے حج اور عمرہ کے مناسک (یعنی احکام) میں شامل تھا، مگر زمانۂ جاہلیت میں مشرکین نے حج اور عمرہ کے مناسک میں کئی شرکیہ رسوم شامل کرلی تھیں، حتیٰ کہ انھوں نے صفا اور مروہ پر دو بت نصب کر رکھے تھے۔ ایک کا نام ” اساف “ اور دوسرے کا ” نائلہ “ تھا۔ ان مشرکین میں سے بعض وہ تھے جو جاہلیت میں ان کے درمیان سعی کرتے اور ان بتوں کا استلام بھی کرتے، یعنی انھیں بوسہ بھی دیتے۔ انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ہم صفا ومروہ (کی سعی) کو جاہلیت کا کام سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالیٰ : ( إن الصفا والمروۃ ۔۔ ) : ٤٤٩٦ ] اور ان مشرکین میں سے بعض وہ تھے جو جاہلیت ہی میں صفا ومروہ کی سعی کے بجائے ” منات “ نامی بت کا طواف کرتے تھے اور مکہ پہنچ کر صفا ومروہ کے طواف کو گناہ سمجھتے تھے، ان کے رد میں بھی یہ آیت نازل ہوئی۔ سعی کے ضروری ہونے پر تو مسلمان متفق تھے، تاہم آیت کے ظاہری الفاظ سے بعض لوگوں کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ سعی نہ بھی کی جائے تو کوئی حرج نہیں، چناچہ عروہ بن زبیر (رض) نے اپنی خالہ عائشہ (رض) کے سامنے اس شبہ کا اظہار کیا، تو عائشہ (رض) نے فرمایا کہ اگر آیت کا مفہوم یہی ہوتا تو قرآن میں یوں ہوتا : ” اَنْ لاَّ یَطَّوَّفَ بِھِمَا “ یعنی طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں۔ پھر ام المومنین عائشہ (رض) نے مزید وضاحت کے لیے فرمایا کہ عرب کے بعض قبائل (ازد، غسان) ” مناۃ الطاغیۃ “ بت کی پوجا کرتے تھے۔ یہ بت انھوں نے مشلَّلپہاڑی پر نصب کر رکھا تھا۔ یہ لوگ حج کے لیے جاتے تو اس بت کا نام لے کر لبیک کہتے اور اس کا طواف کرتے۔ مکہ میں پہنچ کر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے، مسلمان ہونے کے بعد اس بارے میں انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ بخاری، الحج، باب وجوب الصفا والمروۃ ۔۔ : ١٦٤٣۔ مسلم : ١٢٧٧ ] یعنی ان لوگوں نے صفا اور مروہ کے درمیان طواف کو گناہ خیال کیا تھا، اس بنا پر قرآن نے (فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں، ورنہ جہاں تک خود سعی کا تعلق ہے، تو اس کے متعلق عائشہ (رض) نے فرمایا کہ یہ سعی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرما دی ہے، اب کسی کو اس کے ترک کرنے کا اختیار نہیں، نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِسْعَوْا اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ السَّعْیَ ) [ أحمد : ٦؍٤٢١، ٤٢٢، ح : ٢٧٤٣٥ ]” سعی کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کردی ہے۔ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں فرمایا : (لِتَاْخُذُوْا مَنَاسِکَکُمْ ) [ مسلم، الحج، باب استحباب رمی۔۔ : ١٢٩٧ ] ” مجھ سے حج کے مناسک (یعنی احکام) سیکھ لو۔ “ ان میں سعی بھی داخل ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط :- آیات متقدمہ میں وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ سے دور تک خانہ کعبہ کا مفصل ذکر ہوا ہے جس کے اول میں خانہ کعبہ کے جائے عبادت ہونے کا بیان تھا اور اس کے آگے دعائے ابراہیمی کی حکایت تھی کہ انہوں نے یہ درخواست کی تھی کہ ہمیں احکام مناسک سکھلا دئیے جاویں اور مناسک میں حج وعمرہ بھی داخل ہے پس بیت اللہ کا معبد ہونا جیسے اس کے قبلہ نماز بنانے سے ظاہر کیا گیا اسی طرح حج وعمرہ میں بیت اللہ کو مقصد بنا کر اس کی اہمیت کو واضح کیا گیا،- اب آیت آئندہ میں اس کے مقصد حج وعمرہ بننے کے متعلق ایک مضمون کا بیان ہے وہ یہ کہ صفا ومروہ دو پہاڑیاں مکہ میں ہیں حج وعمرہ میں کعبہ کا طواف کرکے ان کے درمیان میں دوڑتے چلتے ہیں جس کو سعی کہتے ہیں چونکہ زمانہ جاہلیت میں بھی یہ سعی ہوتی تھی اور اس وقت صفا ومروہ پر کچھ مورتیاں رکھی تھیں اس لئے بعض مسلماں کو شبہ پڑگیا کہ شاید یہ رسوم جاہلیت سے ہو اور موجب گناہ ہو اور بعض جاہلیت میں بھی اس کو گناہ سمجھتے تھے ان کو یہ شبہ ہوا کہ شاید اسلام میں بھی گناہ ہو اللہ تعالیٰ کو یہ شبہ دفع فرمانا مقصود ہے پس مضمون سابق میں کعبہ کے قبلہ نماز ہونے پر اعتراض کفار کا دفع کرنا مقصود تھا اور مضمون لاحق میں کعبہ کے مقصد حج وعمرہ ہونے کے متعلق ایک امر یعنی صفا ومروہ کی سعی پر خود مسلمانوں کے شبہ کا ازالہ فرمانا مقصود ہے یہ وجہ دونوں مضمونوں میں ربط کی ہے،- خلاصہ تفسیر :- (صفا ومروہ کی سعی میں کوئی شبہ نہ کرو کیونکہ) تحقیقاً صفا اور مروہ اور ان کے درمیان میں سعی کرنا) منجملہ یادگار (دین) خداوندی ہیں سو جو شخص حج کرے بیت اللہ کا یا (اس کا) عمرہ کرے اس پر ذرا بھی گناہ نہیں (جیسا تم کو شبہ ہوگیا) ان دونوں کے درمیان (سعی کے معروف طریقہ کے مطابق) آمد ورفت کرنے میں (جس کا نام سعی ہے اور گناہ کیا بلکہ ثواب ہوتا ہے کیونکہ یہ سعی تو شرعاً امر خیر ہے) اور ہمارے یہاں کا ضابطہ ہے کہ جو شخص خوشی سے کوئی امر خیر کرے تو حق تعالیٰ (اس کی بڑی) قدردانی کرتے ہیں ( اور اس خیر کرنے والے کی نیت و خلوص) خوب جانتے ہیں، - پس اس ضابطہ کی رو سے سعی کرنے والے کو بمقدار اخلاص ثواب عنایت ہوگا) - معارف و مسائل :- بعض لغات کی تحقیق :- شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ شعائر جمع ہے شعیرہ کی جس کے معنی علامت کے ہیں، شعائر اللہ سے مراد وہ اعمال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دین کی علامتیں قرار دیا ہے حج کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں اور اصطلاح قرآن وسنت میں خاص خانہ کعبہ کا قصد کرنے اور وہاں افعال مخصوصہ کے ادا کرنے کو حج کہا جاتا ہے عمرہ کے لفظی معنی زیارت کے ہیں اور اصطلاح شرع میں مسجد حرام کی حاضری اور طواف وسعی کو کہا جاتا ہے، - صفا ومروہ کے درمیان سعی واجب ہے :- حج اور عمرہ اور سعی کا طریقہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے اور یہ سعی امام احمد کے نزدیک سنت مستحبہ ہے اور مالک اور شافعی کے نزدیک فرض ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے کہ ترک سے ایک بکری ذبح کرنا پڑتی ہے،- آیت مذکورہ کے الفاظ سے یہ شبہ نہ کرنا چاہئے کہ اس آیت میں تو صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے کے متعلق صرف اتنا فرمایا گیا ہے کہ وہ گناہ نہیں اس سے تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوا کہ سعی مباحات میں سے ایک مباح ہے وجہ یہ ہے کہ اس جگہ عنوان لَا جُنَاحَ کا سوال کی مناسبت سے رکھا گیا ہے سوال اسی کا تھا کہ صفا ومروہ پر بتوں کی مورتیں رکھی تھیں اور اہل جاہلیت انہی کی پوجا پاٹ کے لئے صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے تھے اس لئے یہ عمل حرام ہونا چاہئے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں چونکہ یہ دراصل سنت ابراہیمی ہے کسی کے جاہلانہ عمل سے کوئی گناہ نہیں ہوجانا یہ فرمانا اس کے واجب ہونے کے منافی نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ۝ ٠ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِہِمَا۝ ٠ ۭ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا۝ ٠ ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاكِـرٌ عَلِــيْمٌ۝ ١٥٨- صفا - أصل الصَّفَاءِ : خلوصُ الشیءِ من الشّوب، ومنه : الصَّفَا، للحجارة الصَّافِيَةِ. قال تعالی:- إِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ [ البقرة 158] ، وذلک اسم لموضع مخصوص، ( ص ف و ) الصفاء کے اصل معنی کسی چیز کا ہر قسم کی آمیزش سے پاک اور صاف ہونا کے ہیں اسی سے الصفا ہے جس کے معنی صاف اور چکنا پتھر کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ الصَّفا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ [ البقرة 158] بیشک کوہ صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ میں الصفا ایک پہاڑی کا نام ہے ۔- شَعَاۗىِٕرَ- ومَشَاعِرُ الحَجِّ : معالمه الظاهرة للحواسّ ، والواحد مشعر، ويقال : شَعَائِرُ الحجّ ، الواحد :- شَعِيرَةٌ ، قال تعالی: ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج 32] ، وقال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة 198] ، لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة 2] ، أي : ما يهدى إلى بيت الله، وسمّي بذلک لأنها تُشْعَرُ ، أي : تُعَلَّمُ بأن تُدمی بِشَعِيرَةٍ ، أي : حدیدة يُشعر بها .- اور مشاعر الحج کے معنی رسوم حج ادا کرنے کی جگہ کے ہیں اس کا واحد مشعر ہے اور انہیں شعائر الحج بھی کہا جاتا ہے اس کا واحد شعیرۃ ہے چناچہ قرآن میں ہے : ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج 32] اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة 198] مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں ۔ اور آیت کریمہ : لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة 2] خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا ۔ میں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے وہ جانور ہیں جو بیت اللہ کی طرف بھیجے جاتے تھے ۔ اور قربانی کو شعیرۃ اس لئے کہا گیا ہے ۔ کہ شعیرۃ ( یعنی تیز لوہے ) سے اس کا خون بہا کر اس پر نشان لگادیا جاتا تھا ۔- حج - أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعر : يحجّون بيت الزّبرقان المعصفرا خصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔.- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - عُمْرَةُ- والِاعْتِمَارُ والْعُمْرَةُ : الزیارة التي فيها عِمَارَةُ الودّ ، وجعل في الشّريعة للقصد المخصوص . وقوله : إِنَّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللَّهِ [ التوبة 18] ، إمّا من العِمَارَةِ التي هي حفظ البناء، أو من العُمْرَةِ التي هي الزّيارة- الا عتمار والعمرۃ کے معنی ملاقات کے ہیں کیونکہ ملاقات سے بھی محبت اور دوستی کا خانہ آباد ہوتا ہے اصلاح شریعت میں حج کے علاوہ بیت اللہ کی زیارت اور طواف وسعی کرنے کو عمرۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللَّهِ [ التوبة 18] خدا کی مسجدوں کو تو ۔۔۔۔ آباد کرتے ہیں ۔ میں یعمر کا لفظ یا تو العمارۃ سے ہے جس کے معنی آباد اور حفاظت کرنا ہیں اور یا العمرۃ سے ہے جس کے معنی زیارت کے ہیں - جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- طوف - الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها .- قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ.- ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

صفا اور مروہ کے درمیان سعی - ارشاد باری ہے : ان الصفاء والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او امتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما ( یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ا ن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرے) ابن عینیہ سے مروی ہے انہوں نے زہری سے اور انہوں نے عروہ سے روایت بیان کی ہے کہ میں نے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت حضرت عائشہ (رض) کے سامنے کرکے ان سے کہا کہ اگر میں سعی نہ کروں تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی۔ یہ سن کر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : بھانجے تم نے بہت بری بات کہی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان سعی کی ہے اور مسلمانوں نے بھی ان کے درمیان سعی کی ہے۔ اس طرح سعی ایک سنت بن گئی۔ مناۃ بت کے نام لیوا ان کے درمیان سعی نہیں کرتے تھے۔ جب اسلام آگیا تو مسلمانوں نے ان کے درمیان سعی کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان سعی کی اور اس طرح یہ بات سنت قرار پائی۔- عروہ کہتے ہیں کہ میں نے اس بات کا تذکرہ ابوبکر بن عبدالرحمن (رض) سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ : یہی علم کی بات ہے ۔ بہت سے اہل علم کا قول ہے کہ اس بارے میں صرف ایسے لوگوں نے سوال کیا تھا جو صفا مروہ کے درمیان سعی کیا کرتے تھے میرے خیال میں آیت کا نزول دونوں گروہوں کے بارے میں ہوا ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ صفا پہاڑی پر بہت سے بت نصب تھے اور مسلمان ان بتوں کی وجہ سیس عی نہیں کرتے تھے اس پر اللہ نے آیت نازل فرمائی۔ فلا جناح علیہ ان یطوف بھما۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کے نزدیک اس آیت کے نزول کا سبب ان لوگوں کا سوال تھا جہ مناۃ بت کا نام بلند آواز سے پکارتے تھے اور اس کے پجاری ہونے کی بنا پر صفا اور مروہ کے درمیان چکر نہیں لگاتے تھے۔ جبکہ حضر ت ابن عباس اور ابوبکر بن عبدالرحمن کے قول کے مطابق آیت کا نزول ان لوگوں کے سوال کی وجہ سے ہوا تھا جو ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرتے تھے۔ ان پہاڑوں پر بہت بت نصب تھے جس کی وجہ سے اسلام آنے کے بعد بھی لوگ ان کے درمیان سعی کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ ممکن ہے آیت کے نزول کا سبب ان دونوں گروہوں کا سوال ہو۔- صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور ایوب نے ابن ابن ملیکہ سے اور دونوں حضرت عائشہ (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی شخص کے حج اور عمرہ کو اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جب تک کہ اس نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرلی۔ ابو الطفیل نے حضرت ابن عباس (رض) سے ذکر کیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان سعی سنت ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ادائیگی کی ہے۔ عاصم الاحوال نے حضرت انس (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو ناپسند نہیں کرتے تھے، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی۔ ان کے درمیان سعی نقل ہے۔ عطاء سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن الزبیر (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جو شخص چاہے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرے۔ عطاء اور مجاہد سے منقول ہے کہ جو شخص صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرے اس پر کوئی چیز عائد نہیں ہوگی۔- اس بارے میں فقہائے امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب سفیان ثوری اور امام مالک کا قول ہے کہ حج اور عمرہ کے اندر سعی واجب ہے اور اگر اسے ترک کردیا گیا ہو تو اس کے بدلے دم، یعنی ایک جانور قربانی کردینا کافی ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ سعی ترک کرنے کی صورت میں دم دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ متعلقہ شخص پر واپس آکر سعی کرنا لازم ہوگا۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں ہمارے اصحاب کے نزدیک سعی حج کے توابع میں شمار ہوتی ہے اور جو شخص سعی کیے بغیر اپنے گھر واپس آ جائے اس کے لئے اس سعی کے بدلے دم دے دینا اسی طرح کافی ہوگا جس طرح مزدلفہ میں وقوف یا رمی جماریا طواف صدر ترک کردینے پر کافی ہوجاتا ہے۔- صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کے فرائض میں داخل نہیں ہے اس کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث ہے جسے شعبی نے حضرت عروہ بن مضرس الطائی (رض) سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اللہ کے رسول میں قبیلہ طے کے پہاڑ کے پاس سے آیا ہوں، میں نے کوئی بھی پہاڑ اس پر وقوف کیے بغیر نہیں چھوڑا، تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا : جس شخص نے ہمارے ساتھ یہ نماز پڑھی، اور اس مقام پر ہمارے ساتھ وقوف کیا جب کہ وہ اس سے پہلے عرفات میں دن یا رات کے وقت وقوف کرچکا ہو تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور اب وہ اپنا میل کچیل دور کرلے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دو وجوہ سے حج کے اندر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی فرضیت کی نفی کر رہا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سائل کو بتادیا کہ اس کا حج مکمل ہوگیا ہے۔ حالانکہ اس میں سعی کا ذکر نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر سعی فرض ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سائل کو اس کے متعلق ضرور ہدایت دیتے۔- اگر یہاں یہ کہا جائے کہ مذکورہ بالا حدیث میں طواف زیارت کا بھی ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ حج کے فرائض میں داخل ہے تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا ظاہر لفظ اسی بات کا متقضی ہے البتہ ہم نے ایک دلالت کی بنا پر اس کی فرضیت ثابت کی ہے۔- اگر یہ کہاجائے کہ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ سعی مسنون یعنی واجب نہ ہو بلکہ نفل اور تطوع ہو جیسا کہ حضرت انس (رض) اور حضرت ابن الزبیر (رض) کی روایت سے ظاہر ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر لفظ اسی کا متقضی ہے البتہ ہم نے ایک دلالت کی بنا پر توابع حج کے اندر اس کی مسنونیت کا اثبات کیا ہے۔ سعی کے وجوب پر اس بات سے استدلال کیا ج اتا ہے کہ اللہ کی کتاب میں فرض حج کا بیان مجمل طورپر ہوا ہے اس لئے کہ لغت میں حج کے معنی قصد کے ہیں۔ شاعر کہتا ہے۔ ع - یحج ما مومۃ فی قعرھا الجف - ( وہ ایسے کنویں کا قصد کرتا ہے جس کی تہہ میں بڑی کشادگی ہے) ۔- یہاں لفظ ” یحج “ کے معنی ” یقصد “ کے ہیں۔- شرع کے اندر لفظ حج کو دوسرے معانی کی طرف منتقل کردیا گیا جن کے لئے لغت کے اعتبار سے یہ لفظ وضع نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک مجمل لفظ تھا جسے بیان کی ضرورت تھی۔ اس بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس سلسلے میں جو فعل وارد ہو وہ فی الجملہ اس مجمل لفظ کے مترادف ہوگا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو فعل مورد بیان میں وارد ہوا سے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ اس بنا پر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ کے درمیا سعی کی تو اسے اس وقت تک وجوب پر دلالت تصور کیا جائے گا۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے مجھ سے اپنے مناسک لے لو یعنی سیکھ لو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد امر کے صیغے میں ہونے کی وجہ سے تمام مناسک کے اندر آپ کی اقتدار کے ایجاء کا متقضی ہے، اس بنا پر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے معاملے میں بھی آپ کی اقتدا واجب ہوگئی۔ طارق بن شہاب نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام بطحا میں تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے ؟ میں نے عرض کیا جو احرام اللہ کے رسول نے باندھا ہے۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے اچھا کیا۔ اب بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرو اور پھر احرام کھول دو ۔ اس ارشاد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو موسیٰ (رض) کو سعی کرنے کا حکم دیا اور امرایجاب کا متقضی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی مروی ہے لیکن اس کے تین اور سند دونوں میں اضطراب ہے اور اس کا ایک روای بھی مجہول ہے اسے معمر نے ابن عینیہ کے غلام واصل سے، انہوں نے موسیٰ بن ابی عبید سے، انہوں نے صیغہ بنت ابی شیبہ سے اور انہوں نے ایک عورت سے بیان کیا ہے جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صفا اور مروہ کے درمیان یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ تم پر سعی فرض کی گئی ہے اس لئے سعی کرو لیکن اس خاتون کا نام بیان نہیں ہوا۔- محمد بن عبدالرحمن بن محصین نے عطا بن ابی رباح سے روایت بیان کی ہے کہ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے حبیبہ بنت ابی تحررۃ نامی ایک خاتون سے روایت بیان کی کہ میں ابو حسین کے گھر گئی میرے ساتھ قریش کی کچھ خواتین بھی تھیں۔ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اور آپ کی چادر بھی آپ ؐ کے ساتھ گھوم رہی تھی۔ آپ فرما رہے تھے لوگو سعی کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کردی ہے ۔ اس روایت میں ذکر ہوا ہے کہ آپ نے یہ بات طواف کے دوران فرمائی۔ اس حدیث کا ظاہر اس بات کا متقضی ہے کہ آپ کی مراد طواف کے اندر سعی سے تھی، یعنی رمل، نیز نفس طواف کیونکہ قدموں پر چلنا، یعنی مشی کو بھی سعی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے فاسعو ا الی ذکر اللہ ( اللہ کی یاد طرف چل پڑو) یہاں چلنے میں اسرا ع مراد نہیں ہے، بلکہ اللہ کی یاد کے لئے پہنچنا مراد ہے۔- پہلی حدیث جس میں بیان ہوا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے مذکورہ بات ارشاد فرمائی تھی، اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی مراد لی ہے کیونکہ یہ کہنا درست ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد سے بیت اللہ کا طواف اور طواف کے اندر رمل مراد لیے ہوں۔ طواف کے اندر رمل بھی سعی ہے، اس لئے کہ رمل میں تیز تیز قدموں سے چلنا ہوتا ہے۔ نیز حدیث کا ظاہر کسی بھی سعی کے جواز کا متقضی ہے یعنی طواف کرنے والا جب رمل کرلے تو گویا اس نے سعی کرلی۔ اس میں وجوب تکرار پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ ہماری مذکورہ پہلی روایتیں سعی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ سعی سنت ہے اور اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ ان روایتوں کے اندر اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ جو شخص یہ سنت چھوڑ دے اس کی طرف سے دم دینا اس سنت کے قائم مقام نہیں ہوگا۔- اگر ایک شخص سعی کیے بغیر اپنے گھر واپس آ جائے تو اس کی طرف سے ایک جانور کی قربانی متروکہ سعی کی قائم مقام بن جائے گی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ پورا احرام کھول دینے کے بعدسعی کرنے کے جواز پر سلف کا اتفاق ہے جس طرح رمی اور طواف صدر جائز ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ دم دینا جس طرح رمی اور طواف صدر کے قائم مقام بن جاتا ہے اسی طرح سعی کے قائم مقام بھی بن جاتا ہے۔- اگر یہاں یہ کہا جائے کہ احرام کھولنے کے بعد طواف زیارت کیا جاتا ہے لیکن دم دینا اس کے قائم مقام نہیں ہوتا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا اس طرح نہیں ہے، کیونکہ طواف زیارت کا باقی رہ جانا اس امر کا موجب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص کے لئے اپنی بیوی سے ہمبستری حرام ہوتی ہے اور جب طواف زیارت کرلیتا ہے تو اس کے لئے ہر بات حلال ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ دوسری طرف اگر سعی باقی رہ جائے تو احرام کھولنے کا کچھ عرصہ باقی رہ جانے کے دوران میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا جس طرح رمی اور طواف صدر کی کیفیت ہے۔- اگر کوئی شخص کہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ محرم اگر طواف زیارت کرلے تو جب تک وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرے گا اسوقت تک اپنی بیوی سے ہم بستری اس کے لئے حلال نہیں ہوگی تو اس کا جواب یہ ہے کہ تابعین کے صدر اول اور ان کے بعد آنے والے سلف کا اس امر پر اتفاق ہے کہ طواف زیارت کرنے کے بعد محرم کے لیے اس کی بیویاں حلال ہوجاتی ہیں کیونکہ حلق کے بعد محرم کے بارے میں ان حضرات کے تین اقوال ہیں کچھ حضرات کا قول ہے کہ جب تک وہ طواف زیارت نہ کرلے اس وقت تک اس کے لئے سلے ہوئے کپڑے، شکار اور خوشبو حرام ہوتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ اس کے لئے عورتیں اور خوشبو حرام ہوتی ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) وغیرہ دیگر حضرات کا قول ہے کہ وہ جب تک طواف زیارت نہ کرلے اس وقت تک عورتیں حرام ہوتی۔ اس طرح گویا سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ طواف زیارت کرنے کے بعد اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کیے بغیر اس کے لئے عورتیں حلال ہوجاتی ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جس شخص پر طواف نہیں اس پر سعی بھی نہیں۔ نیز یہ کہ وہ تطوع کے طورپر سعی نہیں کرے گا جس طرح تطوع کے طورپر رمی نہیں کرے گا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ سعی حج اور عمرہ کے توابع میں سے ہے۔- اگر کہاجائے کہ وقوف عرفہ احرام کے بعد اور طواف زیارت وقوف کے بعد کیا جاتا ہے اور یہ دونوں باتیں حج کے فرائض میں شامل ہیں ؟ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ ایک فعل جو ایک اور فعل کے بعد کیا جائے وہ اس کا تابع ہوتا ہے۔ ہم نے تو صرف یہ کہا ہے کہ جو فعل حج یا عمرہ کے افعال کے بالتبع کیا جائے وہ تابع ہوتا ہے، فرض نہیں ہوتا۔ اس بناپر جہاں تک وقوف عرفہ کا تعلق ہے، تو وہ کسی اور فعل کے بالتبع نہیں کیا جاتا بلکہ علی الانفراد کیا جاتا ہے، البتہ اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ ایک شرط احرام اور دوسری شرط وقت ہے اور جس فعل کے لئے احرام یا وقت شرط ہو اس میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہوتی جس سے معلوم ہوا کہ اس کی ادائیگی بالتبع کی جاتی ہے۔ اسی طرح جس فعل کا جو از کسی وقت کے ساتھ متعلق ہو اس میں بھی یہ دلالت نہیں ہوتی کہ وہ کسی اور فرض کے تابع ہے۔ طواف زیارت کے جواز کا تعلق وقت اور وقوف عرفہ کے ساتھ ہے اور اس کی صحت احرام کے سوا کسی اور فعل پر موقوف نہیں ہے۔ اس لئے یہ اس کے سوا کسی اور فعل کے تابع نہیں ہے۔ دوسری طرف صفا اور مروہ کے درمیان سعی وقت کے ساتھ ایک اور فعل، یعنی طواف پر موقوف ہے اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہ حج اور عمرہ کے توابع میں سے ہے۔ فرض نہیں ہے اس لئے یہ طواف صدر کے مشابہ ہوگئی۔ جب اس کی صحت طواف زیارت پر موقوف ہے تو یہ حج کے اندر ایک تابع ہوگی اور اس کے ترک پر دم دینا اس کے قائم مقام ہوجائے گا۔- قول باری ہے۔ ان الصفاء والمروۃ من شعائر اللہ یہ اس امرپر دلالت کرتا ہے کہ یہ قربت ہے کیونکہ شعائر طاعات اور تقرب الٰہی کے نشانات ہوتے ہیں۔ یہ لفظ اشعار سے ماخوذ ہے جس کے معنی اعلام کے ہیں۔ اسی سے یہ قول ہے : شعرت یکذاکذا یعنی مجھے فلاں فلاں باتوں کا علم ہوا۔ اسی سے ” اشعار بدتہ “ یعنی قربانی کے جانور پر ایسے نشانات بنادینا جن سے معلوم ہو کہ یہ جانور قربانی کے لئے ہے ” شعار الحرب “ ان علامات کو کہاجاتا ہے جن کے ذریعے جنگ میں حصہ لینے والے فوجی ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ اس لئے شعائر تقرب الٰہی کی یادگاریں ہیں۔ ارشاد باری ہے : ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب ( یہ بات ہوچکی اور جو کوئی خدا کی یادگاروں کا ادب کرے گا سو یہ ادب دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے) حج کے شعائر اس عبادت کے معالم اور نشانات ہیں۔ اور مشعر حرام، یعنی مزدلفہ بھی ان میں سے ہے۔ اس طرح زیر بحث آیت اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تقرب الٰہی ہے۔- قول باری : فلا جناح علیہ ان یطوف بھما کی تفسیر میں حضرت عائشہ (رض) اور دیگر صحابہ کرام (رض) نے بتایا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے سوال کے جواب میں ہے جنہوں نے صفا اور مروہ کے بارے میں پوچھا تھا ، نیز یہ کہ آیت کے ظاہری الفاظ و جواب مراد لینے کی نفی نہیں کرتے۔ اگرچہ یہ الفاظ و جوب پر دلالت بھی نہیں کرتے، تاہم آیت کے سوا اس کے وجوب پر دلالت کرنے والی اور بات بھی موجود ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں۔- بطن وادی کے اندر سعی کرنے یعنی تیز رفتاری سے چلنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف روایتیں منقول ہیں ۔ ہمارے اصحاب کا مسلک ہے کہ بطن وادی میں سعی، یعنی تیز قدموں سے چلنا مسنون ہے جس طرح طواف کے اندر مل مسنون ہے اسے ترک نہیں کرنا چاہیے جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدم مبارک اتر گئے تو آپ نے سعی کی یعنی آپ کی رفتار تیز ہوگئی حتیٰ کہ آپ وادی پار کرگئے۔- سفیان بن عینیہ نے صدقہ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے سوال کیا آپ کے خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ کے درمیان رمل کیا تھا ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے درمیان تھے، لوگوں نے رمل کیا تھا اور میرے خیال میں انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رمل کرتے دیکھ کر ایسا کیا تھا۔- نافع کا قول ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) بطن وادی میں سعی کرتے تھے۔ مسروق نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے بطن وادی میں سعی کی تھی۔ عطا نے حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول نقل ہے کہ جوش خص چاہے مکہ کے سیل ( پانی کی گزرگاہ) میں سعی کرلے اور جو چاہے سعی نہ کرے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی اس سے مراد بطن وادی میں رمل تھا۔ سعید بن جبیر نے روایت بیان کی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو صفا اور مروہ کے درمیان چلتے ہوئے دیکھا تھا، آپ کہتے کہ اگر میں قدموں پر چلوں تو میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قدموں پر چلتے دیکھا تھا اور اگر میں سعی کروں تو میں نے آپ کو سعی کرتے دیکھا تھا۔ عمرو نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف اس لئے سعی کی تھی کہ مشرکین کے سامنے یہ مظاہرہ ہوسکے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمزور نہیں ہوئے ہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جسمانی قوت بحال ہے۔ عمرو کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آیا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطن وادی میں سعی کی تھی۔- یہاں سعی کی اس سبب کا ذکر جس کی خاطر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فعل کیا تھا یعنی مشرکین کے لئے جسمانی قوت کا اظہار، نیز اس سبب کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فعل کا تعلق سبب زائل ہونے پر سنت کے طورپر اس کے باقی رہنے میں مانع نہیں ہے جیسا کہ طواف کے اندر رمل کے بارے میں ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ہم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ رمی جمار کا سبب یہ تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ابلیس کو اس وقت کنکریاں ماری تھیں جب وہ منیٰ کے اندر آپ کے سامنے ظاہر ہوا تھا، تاکہ آپ کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی قربانی سے روکے اور آپ کے دل میں وسوسے پیدا کرے۔ اس کے بعد رمی جمار سنت بن گئی۔ اسی طرح وادی کے اندر رمل کا سبب یہ تھا کہ حضرت ہاجرہ نے جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے لئے پانی تلاش کیا تو صفا اور مروہ کے درمیان آتی جاتی رہیں جب آپ وادی میں اتر آتیں تو بچہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا اور پھر آپ تیز تیز قدموں سے چل کر جاتیں۔- ابو الطفیل نے حضر ت ابن عباس (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب مناسک کی تعلیم دی گئی تو مسعی کے پاس شیطان آپ کے سامنے آیا، آپ شیطان سے آگے نکل گئے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اس مقام پر تیز رفتاری سے کام لیا تھا۔ یہ عمل اپنے نظائر کی طرف جن کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں سنت ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے دوران بطن وادی میں رمل کرنے کے عمل کو امت نے قولاًوفعلاً اختیار کیا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ عمل کیا ہے۔ صرف اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ مسنون ہے یا نہیں۔ فعلی طورپر اس درجے تک اس عمل کی نقل دراصل اس کے حکم کے باقی رہنے پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں اس دلالت کا ذکر کر آئے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔- راکب کے طواف کا بیان - ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سوار ہوکر طواف کرنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے بلا عذر ایسا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ابو الطفیل نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے عرض کیا : آپ کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سواری پر سوار ہوکر صفا اور مروہ کے درمیان طواف سنت ہے اور یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایسا ہی کیا تھا ؟ یہ سن کر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : انہوں نے سچ کہا ہے اور جھوٹ بھی، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لئے ایسا کیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے کسی کو ہٹانے کی ضرورت پیش نہ آئے ورنہ سواری پر طواف کرنا سنت نہیں ہے۔- عروہ بن الزبیز بن ابی سلمہ اور انہوں نے حضرت ام سلمی (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی طبیعت کی خرابی کی شکایت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرلو۔ عروہ جب لوگوں کو جانوروں پر سوار ہوکر طواف کرتے دیکھتے تو انہیں روکتے ، لوگ ان سے بیماری کا ذکر کرتے تو وہ سن کر کہتے یہ لوگ نامراد و ناکام ہوگئے۔- ابن ابی ملیکہ نے حضرت عائشہ (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے ۔ مجھے حج اور عمرہ سے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نے روک دیا ہے اور میں سواری کرنا ناپسند کرتی ہوں۔ یزید بن ابی زیاد سے روایت ہے انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سنا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت خراب تھی، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ٹیڑھے سر والا ایک ڈنڈا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر اسود کے پاس سے گزرتے تو اس کا استلام کرتے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طواف سے فارغ ہوگئے تو اونٹ کو بٹھایا اور اتر کر دو رکعتیں پڑھیں۔- جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے اندر بطن وادی میں سعی کرنا سنت ہے۔ اگر کوئی شخص سوار ہوکر یہ طواف کرے گا تو وہ سعی کا تارک قرار پائے گا اور اس کی یہ بات خلاف سنت ہوگی۔ الا یہ کہ معذور ہو، جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سے منقول ہے۔ معذوری کی صورت میں سوار ہوکر طواف جائز ہوجائے گا۔- فصل - جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت بیان کی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کی کیفیت اور بیت اللہ کے گرد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طواف کا ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ دو رکعتیں پڑھنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود کا استلام کیا اور پھر صفا کی طرف نکل گئے اور جب بیت اللہ نظر آنے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم بھی وہیں سے ابتدا کریں گے جہاں سے اللہ نے ابتد ( کا حکم دیا) ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ زیر بحث آیت کے الفاظ ترتیت کے متقضی نہیں ہیں، کیونکہ اتر ترتیب کی بات آیت کے الفاظ سے سمجھ میں آتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرمانے کی ضرورت نہ ہوتی کہ ” ہم بھی وہیں سے ابتدا کریں گے جہاں سے اللہ نے ابتدا ( کا حکم دیا) ہے۔ “ گویا صفا سے ابتدا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کی بنا پر کی گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا تم اپنے مناسک مجھ سے لے لو۔ یعنی سیکھ لو۔ چناچہ اہل علم کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ترتیب کے اعتبار سے مسنون طریقہ یہ ہے کہ صفا سے ابتداء کی جائے۔ اگر کوئی شخص مروہ سے ابتدا کرلے تو اس کے اس پھیرے، یعنی شوط کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے اصحاب سے یہی روایت مشہور ہے۔ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ مروہ سے سعی کی ابتدا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس پھیرے کا اعادہ کرلے، لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر کفارہ عائد نہیں ہوگا۔ اس بات کو امام صاحب نے وضو میں اعضا دھونے میں ترتیب ترک کردینے کے مترادف قرار دیا ہے۔- قول باری ہے : ومن تطوع خیرا ( اور جو برضا اور رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے) صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے ذکرکے بعد اللہ سبحانہ نے یہ بات فرمائی۔ اس سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو مذکورہ طواف کو تطوع اور نقل قرار دیتے ہیں لیکن مذکورہ طواف ان حضرات کے نزدیک بطور تطوع نہیں ہوتا جو حج اور عمرہ کے اندر اس کے وجوب کے قائل ہیں اور ان حضرات کے نزدیک بھی نہیں جو حج اور عمرہ کے علاوہ کسی اور صورت کے اندر اسے واجب نہیں سمجھتے، اس بنا پر ضروری ہوگیا کہ زیر بحث فقرے کو اس بات کی خبر دینے پر محمول کیا جائے کہ جو شخص حج اور عمرہ کے اندر مذکورہ طواف کرے گا وہ اسے تطوع کے طور پر کرے گا۔ کیونکہ حج اور عمرہ کے سوا اس عمل کے کرنے کا کوئی اور موقعہ نہیں ہے۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث فقرے میں ان حضرات کے قول پر دلالت موجود نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ کہنا درست ہے کہ اس فقرے میں مراد یہ ہو کہ جو شخص نفلی حج اور عمرہ کرے کیونکہ ان دونوں باتوں کا ذکر قول باری فمن حج البیت اواعتمو ( جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرے کرے) میں پہلے گزر چکا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٨) مشرکین مکہ نے صفا ومروہ پر دو بت رکھے ہوئے تھے اس کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے درمیان دوڑنے میں تنگی اور کراہت محسوس ہوتی تھی اللہ تعالیٰ اب اس کا ذکر فرماتے ہیں۔- کوہ صفا ومروہ کے درمیان سعی ان احکام میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے مناسک حج میں حکم دیا ہے لہٰذا ان کے درمیان سعی کرنے میں کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں اور جو واجب طواف سے زیادہ طواف کرے، اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو قبول کرتے ہیں اور وہ تمہاری نیتوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نیک اعمال کی قدر دانی کرنے والے ہیں تھوڑے عمل کو بھی قبول کرلیتے ہیں اور اس پر بہت زیادہ ثواب بھی دے دیتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ان الصفاوالمروۃ “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ومسلم (رح) اور ان کے علاوہ دوسرے محدثین نے عروہ (رض) حضرت عائشہ (رض) کے ذریعہ سے روایت کی ہے۔- حضرت عروہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے قول (آیت) ” ان الصفا والمروۃ “۔ کے بارے میں کیا کہتی ہیں میں تو یہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی آدمی ان دونوں کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، حضرت عائشہ (رض) نے کہا بھانجے یہ تم نے درست بات نہیں کہی اگر آیت کے یہ معنی ہوتے جو تم کہتے ہو تو (آیت) ” فلاجناح علیہ ان یطوف “ کے بجائے آیت کریمہ میں ان لا یطوف آتا۔- اور یہ آیت اس طرح نازل کی گئی ہے کہ انصار مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے منات بت کے نام کا احرام باندھتے تھے لہٰذا جب وہ احرام باندھتے تو صفا ومروہ پہاڑی پر دوڑنا برا سمجھتے تو اس کے متعلق انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم زمانہ جاہلیت میں صفا ومروہ پر سعی کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا کہ بیشک صفا ومروہ منجملہ یادگار خداوندی ہیں لہٰذا جو شخص حج کرے یا عمرہ کرے، اس پر کچھ بھی گناہ نہیں، ان دونوں کے درمیان سعی کرنے میں۔- اور حضرت امام بخاری (رح) نے عاصم بن سلیمان (رح) سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا اور کہا کہ ہم ان کے درمیان سعی کرنا جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے جب ہم نے اسلام قبول کیا تو ہم اس سے رک گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) ” ان الصفا “۔ (الخ) نازل فرمائی اور امام حاکم نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ شیاطین زمانہ جاہلیت میں صفا ومروہ کے درمیان رات کے وقت دوڑتے تھے اور ان دونوں پہاڑوں کے درمیان بت رکھے ہوئے تھے جب اسلام کی نعمت آئی تو مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم صفا ومروہ کے درمیان سعی نہیں کریں گے کیوں کہ ہم یہ کام زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٨ ( اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ج) ۔ - یہ آیت اصل سلسلۂ بحث یعنی قبلہ کی بحث سے متعلق ہے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ حج کے مناسک میں یہ جو صفا اور مروہ کی سعی ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے ؟ فرمایا کہ یہ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ شعائر ‘ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو شعور بخشے ‘ جو کسی حقیقت کا احساس دلانے والی اور اس کا مظہر اور نشان ہو۔ چناچہ وہ مظاہر جن کے ساتھ اولوالعزم پیغمبروں یا اولوالعزم اولیاء اللہ کے حالات و واقعات کا کوئی ذہنی سلسلہ قائم ہوتا ہو اور جو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بطور ایک نشان اور علامت مقرر کیے گئے ہوں شعائر کہلاتے ہیں۔ وہ گویا بعض معنوی حقائق کا شعور دلانے والے اور ذہن کو اللہ کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بیت اللہ ‘ حجر اسود ‘ جمرات اور صفا ومروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں۔ - (فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ط) ۔ - صفا ومروہ کے طواف سے مراد وہ سعی ہے جو ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکروں کی صورت میں کی جاتی ہے۔- یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ شاکر آیا ہے۔ لفظ شکر کی نسبت جب بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی شکر گزاری اور احسان مندی کے ہوتے ہیں ‘ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے معنی قدر دانی اور قبول کرنے کے ہوجاتے ہیں۔ شاکر کے ساتھ دوسری صفت علیم آئی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ چاہے کسی اور کو پتا نہ لگے اسے تو خوب معلوم ہے۔ اگر تم نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے کسی کو کوئی مالی مدد دی ہے ‘ اس حال میں کہ داہنے ہاتھ نے جو کچھ دیا ہے اس کی بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہونے دی ‘ کجا یہ کہ کسی اور انسان کے سامنے اس کا تذکرہ ہو ‘ تو یہ اللہ کے تو علم میں ہے ‘ چناچہ اگر اللہ سے اجر وثواب چاہتے ہو تو اپنی نیکیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘ لیکن اگر تم نے یہ سب کچھ لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا تھا تو گویا وہ شرک ہوگیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :157 ذُوالحجّہ کی مقرر تاریخوں میں کعبے کی جو زیارت کی جاتی ہے ، اس کا نام حج ہے اور ان تاریخوں کے ماسوا دُوسرے کسی زمانے میں جو زیارت کی جائے ، وہ عُمْرَہ ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :158 “صَفَا اور مَرْوَہ مسجد حرام کے قریب دو پہاڑیاں ہیں ، جن کے درمیان دَوڑنا منجملہ ان مَناسِک کے تھا ، جو اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو سکھائے تھے ۔ بعد میں جب مکّے اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مُشرکانہ جاہلیّت پھیل گئے ، تو صَفَا پر ”اِساف“ اور مَرْوَہ پر ”نائلہ“ کے استھان بنا لیے گئے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا ۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اسلام کی روشنی اہل عرب تک پہنچی ، تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صَفَا اور مَرْوَہ کی سَعْی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا محض زمانہء شرک کی ایجاد ہے ، اور یہ کہ سَعْی سے کہیں ہم ایک مشرکانہ فعل کے مرتکب تو نہیں ہوجائیں گے ۔ نیز حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مدینہ کے دِلوں میں پہلے ہی سے سعی بین الصّفا و المَرْوَہ کے بارے میں کراہت موجود تھی ، کیونکہ وہ مَناۃ کے معتقد تھے اور اساف و نائلہ کو نہیں مانتے تھے ۔ اِنہی وجوہ سے ضروری ہوا کہ مسجدِحرام کو قبلہ مقرر کرنے کے موقع پر ان غلط فہمیوں کو دُور کر دیا جائے جو صَفَا اور مَرْوَہ کے بارے میں پائی جاتی تھیں ، اور لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان دونوں مقامات کے درمیان سعی کرنا حج کے اصلی مَنَاسِک میں سے ہے اور یہ کہ ان مقامات کا تقدس خدا کی جانب سے ہے ، نہ کہ اہل جاہلیّت کی من گھڑت ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :159 یعنی بہتر تو یہ ہے کہ یہ کام دلی رغبت کے ساتھ کرو ، ورنہ حکم بجا لانے کے لیے تو کرنا ہی ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

103: صفا اور مروہ مکہ مکرمہ میں دوپہاڑیاں ہیں، جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ (رض) کو اپنے دودھ پیتے صاحبزادے اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ چھوڑ کرگئے توحضرت ہاجرہ (رض) پانی کی تلاش میں ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں، حج اور عمرے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان سعی کرنا واجب قراردیا ہے، اگرچہ سعی واجب ہے مگر یہاں‘‘ کوئی گناہ نہیں ’’ کے الفاظ اس لئے استعمال فرمائے گئے ہیں کہ زمانہ ٔ جاہلیت میں یہاں دو بت رکھ دئے گئے تھے جواگرچہ بعد میں ہٹالئے گئے مگر بعض صحابہ کو یہ شک ہوا کہ شاید ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا جاہلیت کی نشانی ہونے کی وجہ سے گناہ ہو، آیت نے یہ شک دور کردیا۔