161۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے ان پر لعنت جائز ہے لیکن اس کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ کرلی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہوسکتا البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے ان کے مرتکبین کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پاسکتے ہیں۔
[٢٠٠] کفر کے معنی انکار کردینا (ایمان نہ لانا) بھی ہے۔ چھپانا بھی اور ناشکری کرنا بھی۔ یہاں موقع کے لحاظ سے یہ سب معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
کسی معیین شخص پر لعنت اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کے کفر پر مرنے کا یقین نہ ہو :- وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ کے لفظ سے جصاص اور قرطبی وغیرہ نے یہ استنباط کیا ہے کہ جس کافر کے کفر کی حالت میں مرنے کا یقین نہ ہو اس پر لعنت کرنا جائز نہیں اور چونکہ ہمیں کسی شخص کے خاتمہ کا یقینی علم ہونے کا اب کوئی ذریعہ نہیں اس لئے کسی کافر کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا جائز نہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن کافروں پر نام لے کر لعنت کی ہے آپ کو ان کی موت علی الکفر کا منجانب اللہ علم ہوگیا تھا البتہ عام کافروں، ظالموں پر بغیر تعیین کے لعنت کرنا درست نہیں ہے،- اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جب لعنت کا معاملہ اتنا شدید ہے کہ کسی کافر پر بھی اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کا یقین نہ ہوجائے کہ اس کی موت کفر ہی پر ہوگی تو کسی مسلمان پر یا کسی جانور پر لعنت کیسے جائز ہوسکتی ہے اور عوام اس سے بالکل غفلت میں ہیں خصوصاً عورتیں کہ بات بات پر لعنت کے الفاظ اپنے متعلقین کے متعلق استعمال کرتی رہتی ہیں اور لعنت صرف لفظ لعنت ہی کے کہنے سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے ہم معنی جو الفاظ ہیں وہ بھی لعنت ہی کے حکم میں ہیں لعنت کے اصلی معنی خدا تعالیٰ کی رحمت سے دور کرنے کے ہیں اس لئے کسی کو مردود، راندہ درگاہ، اللہ مارا وغیرہ کے الفاظ کہنا بھی لعنت ہی کے حکم میں ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ اُولٰۗىِٕكَ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ١٦١ ۙ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔
کافروں پر لعنت بھیجنے کا بیان - قول باری ہے : ان الذین کفروا وما تو ا وھم کف اولئک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین ( جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے) آیت میں اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ کفر کی حالت میں مرجانے والوں پر مسلمان لعنت کریں، نیز یہ کہ موت کی بنا پر کافر سے احکام الٰہی کے مکلف ہونے کی بات ختم ہوجانے کے باوجود اس پر لعنت کرنے اور اس سے برات کے اظہار کی بات ختم نہیں ہوتی اس لئے کہ قول باری : والناس اجمعین کافر کی موت کے بعد بھی اس پر لعنت کرنے کے حکم کی ہم سے متقضی ہے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کافر پاگل ہوجائے تو اس صورت میں اس کے مکلف ہونے کی بات ختم ہوجانے کے باوجود اس پر لعنت، نیز اس سے برأت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہی کیفیت اس دوستی کی ہے جو کسی کے ساتھ اس کے ایمان اور سلامت روی کی بنا پر وجود میں آتی ہے۔ اس کی موت یا دیوانگی کے بعد بھی موالات کا یہ سلسلہ قائم رہتا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔- اگر یہاں یہ کہا جائے کہ ابو العالیہ سے مروی ہے کہ زیر بحث آیت سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگ مذکورہ کافر پر لعنت کریں گے جس طرح یہ قول باری ہے : ثم یوم القیامۃ یکفر بعضکم بعضاً ویلعن بعضکم بعضاً ( پھرق یا مت کے دن تم میں سے بعض بعض کا انکار کریں گے اور تم میں سے بعض بعض پر لعنت بھیجیں گے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بلا دلالت تخصیص ہے۔ اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت کی رو سے مذکورہ کافر دنیا میں اللہ اور فرشتوں کی لعنت کا مستحق ہے۔ اسی طرح وہ آخرت میں لوگوں کی لعنت کا بھی مستحق ہوگا۔ اس بارے میں اشتباہ صرف ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں اللہ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ لوگ مذکورہ کافر پر لعنت بھیجتے ہیں، حالانکہ بات یہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے یہ خبر دی گئی ہے کہ مذکورہ کافر لوگوں کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے پھر خواہ لوگ اس پر لعنت کریں یا نہ کریں۔
(١٦١۔ ١٦٢) مگر جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ماننے سے انکار کیا ان پر اللہ کا عذاب اور تمام فرشتوں کی لعنت اور تمام مومنوں کی لعنت جو یہ کافر کرتے تھے، ان ہی کافروں پر نازل ہوگی اور اس لعنت میں یہ ہمیشہ رہیں گے نہ لعنت ان پر اٹھائی جائے گی اور نہ اس لعنت کو یہ الگ کرسکیں گے اور نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ اسی کے عذاب کے متعلق ان کو کسی قسم کی چھوٹ دی جائے گی۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :161 ”کفر“ کے اصل معنی چھُپانے کے ہیں ۔ اسی سے انکار کا مفہُوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا ۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا ، قبول کرنا ، تسلیم کرلینا ۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا ، انکار کرنا ۔ قرآن کی رُو سے کفر کے رویّہ کی مختلف صُورتیں ہیں: ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے ، یا اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبُود ماننے سے انکار کر دے ، یا اسے واحد مالک اور معبُود نہ مانے ۔ دُوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اس کے احکام اور اس کی ہدایات کو واحد منبعِ علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔ تیسرے یہ کہ اُصُولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے ، مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے ، انہیں تسلیم نہ کرے ۔ چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصّبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے ۔ پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد ، اخلاق اور قوانینِ حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں ان کو ، یا ان میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے ۔ چھٹے یہ کہ نظریّے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکامِ الہٰی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے ، اور دُنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نافرمانی ہی پر رکھے ۔ یہ سب مختلف طرزِ فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفرانِ نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے ۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو ، اس کے احسان کی قدر کرے ، اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے ، اور اس کا دل اپنے مُحسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو ۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفرانِ نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے مُحسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے ، یا اس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے ، یا اس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے ، یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے ۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعمُوم احسان فراموشی ، نمک حرامی ، غدّاری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔