Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اکیلا حکمران یعنی حکمرانی میں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس جیسا کوئی ہے وہ احد اور احد ہے وہ فرد اور صمد ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، وہ رحمن اور رحیم ہے ، سورۃ فاتحہ کے شروع میں ان دونوں ناموں کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے ، ایک یہ آیت دوسری آیت ( الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ) اس کے بعد اس توحید کی دلیل بیان ہو رہی ہے اسے بھی توجہ سے سنئے فرماتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

163۔ 1 اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لئے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا (کیا اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنادیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے) اس لئے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠١] یہ خطاب دراصل مشرکین مکہ سے ہے۔ جنہوں نے کئی الٰہ بنا رکھے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اتنے بڑے کارگاہ کائنات کا سارے کا سارا انتظام ایک اکیلا اللہ کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ ان کی عقل میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی۔ لہذا انہوں نے مختلف امور کے لیے مختلف الٰہ تجویز کر رکھے تھے اور جتنی پرانی تھذیبیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہندی، رومی، مصری، یونانی تھذیبیں، ان سب لوگوں نے دیوی دیوتاؤں کا ایسا ہی نظام تجویز کر رکھا تھا اور مسلمانوں میں بھی اکثر لوگوں میں گو زبانی نہیں مگر عملاً ایسے ہی اعتقادات و افعال رائج ہوچکے ہیں۔ یہ سب لوگ ہی اس آیت کے مخاطب ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت نصیب نہیں ہوتی اور قرآن میں یہ مضمون لاتعداد مقامات پر آیا ہے۔ کہیں اجمالاً کہیں تفصیل سے اور دلائل کے ساتھ۔ لہذا اس مضمون کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آجائے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیت میں حق چھپانے پر وعید فرمائی، اب اس آیت میں بیان فرمایا کہ سب سے پہلے جس چیز کا اظہار ضروری ہے وہ مسئلۂ توحید ہے۔ (قرطبی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط :- مشرکین عرب نے جو آیت وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ اپنے عقیدہ کے خلاف سنی تو تعجب سے کہنے لگے کہ کہیں سارے جہان کا ایک معبود بھی ہوسکتا ہے اور اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو کوئی دلیل پیش کرنا چاہئے حق تعالیٰ آگے دلیل بیان فرماتے ہیں، - خلاصہ تفسیر :- اور (ایسا معبود) جو تم سب کے معبود بننے کا مستحق وہ تو ایک ہی معبود (حقیقی) ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی رحمٰن ہے، رحیم ہے ( اور کوئی ان صفات میں کامل نہیں اور بدون کمال صفات معبودیت کا استحقاق باطل ہے پس بجز معبود حقیقی کے کوئی اور مستحق عبادت نہ ہوا) بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے میں اور جہازوں (کے چلنے) میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں آدمیوں کے نفع کی چیزیں (اور اسباب) لے کر اور (بارش کے) پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برسایا پھر اس (پانی) سے زمین کو تروتازہ کیا اس کے خشک ہوئے پیچھے (یعنی اس میں نباتات پیدا کئے) اور (ان نباتات سے) ہر قسم کے حیوانات اس (زمین) میں پھیلا دی (کیونکہ حیوانات کی زندگی اور توالد وتناسل اسی غذائے نباتی کی بدولت ہے) اور ہواؤں کی (سمتیں اور کیفتیں) بدلنے میں (کہ کبھی پروا ہے کبھی پچھوا کبھی گرم ہے کبھی سرد) اور ابر (کے وجود) میں جو زمین و آسمان کے درمیان مقید (اور معلق) رہتا ہے (ان تمام چیزوں میں) دلائل (توحید کے موجود ہیں) ان لوگوں کے (استدلال کے) لئے جو عقل (سلیم) رکھتے ہیں۔- معارف و مسائل :- وَاِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ اللہ تعالیٰ کی توحید متعدد اور مختلف حیثیتوں سے ثابت ہے مثلا وہ ایک ہے یعنی کائنات میں کوئی اس کی نظیر و شبیہ نہیں نہ کوئی اس کا ہمسر (برابر ہے اس لئے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو واحد کہا جائے،- دوسرے یہ کہ وہ ایک ہی استحقاق عبادت میں یعنی اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، - تیسرے یہ کہ وہ ایک ہے یعنی ذی اجزاء نہیں وہ اجزاء واعضاء سے پاک ہے نہ اس کا تجزیہ اور تقسیم ہو سکتی ہے،- چوتھے یہ کہ وہ ایک ہے یعنی اپنے وجود ازلی ابدی میں ایک وہ اس وقت بھی موجود تھا جب کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس وقت بھی موجود رہے گا جب کوئی چیز موجود نہ رہے گی اس لئے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو واحد کہا جائے لفظ واحد میں یہ تمام حیثتیں توحید کی ملحوظ ہیں (جصاص)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝ ٠ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ۝ ١٦٣ ۧ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے والھکم الہ واحد ( اور تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے) یہاں اللہ سبحانہ کا اپنی ذات کو اس صفت سے موصوف کرنا کہ وہ ایک ہے انے اندر کئی معانی رکھتا ہے اور یہ تمام معانی اس لفظ کے اندر مراد ہیں۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ اللہ واحد ہے کسی بھی چیز کے اندر اس کی نہ کوئی نظیر ہے نہ شبیہ اور نہ کوئی مثل ہے نہ مساوی۔ اسی بنا پر وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے واحد کی صفت کے ساتھ موصوف قرار دیاجائے۔- دوم یہ کہ وہ عبادت کے استحقاق نیز الہٰیت کے وصف میں واحد ہے۔ اس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے۔ سوم یہ کہ وہ ان معنوں میں واحد ہے کہ اس پر تجری اور تقسیم کا حکم عائد کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ذات کے حصے کیے جاسکتے ہیں۔ اس لئے کہ جس ذات کے حصے کیے جائیں اور اس پر تجزی اور تقسیم کا حکم عائد کرنا جائز ہو وہ ذات حقیقت میں ایک اور واحد نہیں ہوسکتی۔ چہارم یہ کہ وہ وجود کے اعتبار سے واحد ہے۔ وہ قدیم ہے اور قدیم کی صفت میں منفرد ہے۔ وجود کے اندر اس کے ساتھ اس کی ذات کے سوا کوئی اور چیز نہیں تھی۔ اپنی ذات کو واحد کی صفت کے ساتھ موصوف کرنا مذکورہ بالا تمام معانی پر مشتمل ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٣) لوگون نے اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ خود اپنے کلام پاک میں اپنی توحید بیان فرما رہے ہیں کہ نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ ہی شریک ہے، وہ بڑی رحمت فرمانے والا اور بہت ہی شفیق ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٣ (وَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ج) (لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ) - رحمن اور رحیم کی وضاحت سورة الفاتحہ میں گزر چکی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani