ٹھوس دلائل مطلب یہ ہے کہ اس اللہ کی فرماں روائی اور اس کی توحید کی دلیل ایک تو یہ آسمان ہے جس کی بلندی لطافت کشادگی جس کے ٹھہرے ہوئے اور چلتے پھرتے والے روشن ستارے تم دیکھ رہے ہو ، پھر زمین کی پیدائش جو کثیف چیز ہے جو تمہارے قدموں تلے بچھی ہوئی ہے ، جس میں بلند بلند چوٹیوں کے سر بہ فلک پہاڑ ہیں جس میں موجیں مارنے والے بےپایاں سمندر ہیں جس میں انواع واقسام کے خوش رنگ بیل بوٹے ہیں جس میں طرح طرح کی پیداوار ہوتی ہے جس میں تم رہتے سہتے ہو اور اپنی مرضی کے مطابق آرام دہ مکانات بنا کر بستے ہو اور جس سے سینکڑوں طرح کا نفع اٹھاتے ہو ، پھر رات دن کا آنا جانا رات گئی دن گیا رات آ گئی ۔ نہ وہ اس پر سبقت کرے نہ یہ اس پر ۔ ہر ایک اپنے صحیح انداز سے آئے اور جائے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ، کبھی دن کا کچھ حصہ رات میں جائے کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں آجائے ، پھر کشتیوں کو دیکھوں جو خود تمہیں اور تمہارے مال واسباب اور تجارتی چیزوں کو لے کر سمندر میں ادھر سے ادھرجاتی آتی رہتی ہیں ، جن کے ذریعہ اس ملک والے اس ملک والوں سے اور اس ملک والے اس ملک والوں سے رابطہ اور لین دین کرسکتے ہیں ، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی یہاں پہنچ سکتی ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کاملہ سے بارش برسانا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دینا ، اس سے اناج اور کھیتیاں پیدا کرنا ، چاروں طرف ریل پیل کر دینا ، زمین میں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے کار آمد جانوروں کو پیدا کرنا ان سب کی حفاظت کرنا ، انہیں روزیاں پہنچانا ان کے لئے سونے بیٹھنے چرنے چگنے کی جگہ تیار کرنا ، ہواؤں کو پورب پچھم چلانا ، کبھی ٹھنڈی کبھی گرم کبھی کم کبھی زیادہ ، بادلوں کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کرنا ، انہیں ایک طرف سے دوسری کی طرف لے جانا ، ضرورت کی جگہ برسانا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے عقل مند اپنے اللہ کے وجود کو اور اس کی وحدانیت کو پالیتے ہیں ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ آسمان وزمین کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں ، جو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غور فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے انہیں بیکار نہیں بنایا تیری ذات پاک ہے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے ہم اس سے گھوڑے اور ہتھیار وغیرہ خریدیں اور تیرا ساتھ دیں اور ایمان بھی لائیں آپ نے فرمایا پختہ وعدے کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں پختہ وعدہ ہے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا تمہاری دعا تو قبول ہے لیکن اگر یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر اللہ کا وہ عذاب آئے گا جو آج سے پہلے کسی پر نہ آیا ہو ، آپ کانپ اٹھے اور عرض کرنے لگے نہیں اللہ تو انہیں یونہی رہنے دے میں انہیں تیری طرف بلاتا رہوں گا کیا عجب آج نہیں کل اور کل نہیں تو پرسوں ان میں سے کوئی نہ تیری جھک جائے اس پر یہ آیت اتری کہ اگر انہیں قدرت کی نشانیاں دیکھنی ہیں تو کیا یہ نشانیاں کچھ کم ہیں؟ ایک اور شان نزول بھی مروی ہے کہ جب آیت ( والھکم ) الخ اتری تو مشرکین کہنے لگے ایک اللہ تمام جہاں کا بندوبست کیسے کریگا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اللہ اتنی بڑی قدرت والا ہے ، بعض روایتوں میں ہے اللہ کا ایک ہونا سن کر انہوں نے دلیل طلب کی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قدرت کے نشان ہائے ان پر ظاہر کئے گئے ۔
164۔ 1 یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی آیت میں نہیں 1۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں۔ 2۔ رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کردینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ 3۔ سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ 4۔ بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ 5۔ ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ 6۔ ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی گرم بھی، بارآور بھی اور غیر بارآور بھی، مشرقی مغربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ 7۔ بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے، یقینا کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے ؟ نہیں۔ یقینا نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
[٢٠٢] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر کرنے والوں کے لیے آٹھ ایسے امور کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود پر اور اس کی لامحدود قدرت و تصرف پر واضح دلائل ہیں۔ مثلاً اتنے عظیم الشان آسمان کو بغیر ستونوں کے پیدا کرنا اور زمین کو اس طرح بنانا کہ اس پر بسنے والی تمام مخلوق کی ضروریات کی کفیل ہے۔ دن رات کا یکے بعد دیگرے آنا جانا اور ان کے اوقات کا گھٹنا بڑھنا، جہازوں کا بڑے بڑے مہیب اور متلاطم سمندروں میں رواں ہونا آسمان سے بارش برسانا جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ ہر جاندار میں توالدو تناسل کا سلسلہ قائم کرنا انہیں تمام روئے زمین پر پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ میں تبدیلی پیدا کرنا اور بلندیوں پر بادلوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا۔ یہ سب کام ایسے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی بھی ہستی سرانجام نہیں دے سکتی۔ پھر اور کون سے کام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو دوسرے دیوی دیوتاؤں کی ضرورت پیش آسکتی ہے ؟ پھر مندرجہ بالا امور بیان کرنے کے بعد ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس کائنات میں ان کے علاوہ اور بھی ایسی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔
اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد (ایک معبود) ہونے کا بیان تھا، اس آیت میں اس کے ایک ہونے کے دلائل کا بیان ہے۔ قرآن نے ان آٹھ چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے ایک ہونے کے ثبوت میں کئی جگہ الگ الگ ذکر فرمایا ہے، مگر یہاں ان سب کو جمع کردیا ہے۔ کائنات کی ان چیزوں کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے متعلق خود مشرکین بھی مانتے تھے کہ ان کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ (کبیر)- مفسر قرآن امین شنقیطی (رض) نے فرمایا ہے کہ یہاں آسمان و زمین کی پیدائش میں توحید کی نشانی ہونے کی تفصیل بیان نہیں ہوئی، دوسرے مقامات پر تفصیل موجود ہے، مثلاً دیکھیے سورة ق (٦ تا ٨) سورة ملک (٣ تا ٥، ١٥) اور سورة لقمان (١١، ١٢) اسی طرح دن رات کے بدلنے میں توحید کی نشانی ہونے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧١ تا ٧٣) اور اعراف (٥٤) آسمان و زمین کے درمیان بادل کے مسخر ہونے کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٥٧) اور سورة نور (٤٣) ۔
اس کے بعد حق تعالیٰ کے واحد حقیقی ہونے پر تکوینی علامات و دلائل بتلائے گئے ہیں جن کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق اور رات دن کے دائمی انقلاب اس کی قدرت کاملہ اور توحید کے واضح دلائل ہیں کہ ان چیزوں کی پیدائش اور بقاء میں کسی دوسری ہستی کا کوئی دخل نہیں۔- اسی طرح پانی پر کشتیوں کا چلنا ایک بڑی آیت قدرت ہے کہ پانی کو حق تعالیٰ نے ایسا جوہر سیال بنادیا کہ رقیق اور سیال ہونے کے باوجود اس کی پیٹھ پر لاکھوں من وزن کے جہاز بڑے بڑے وزن کو لے کر مشرق سے مغرب تک منتقل کردیتے ہیں اور ان کو حرکت میں لانے کے لئے ہواؤں کا چلانا اور پھر اپنی حکمت کے ساتھ ان کے رخ بدلتے رہنا یہ سب اس کا پتہ دیتے ہیں کہ ان چیزوں کا پیدا کرنیوالا اور چلانے والا کوئی بڑا علیم وخبیر اور حکیم ہے اگر پانی کا مادہ سیال نہ ہو تو یہ کام نہیں ہوسکتا اور مادہ سیال بھی ہو تو جب تک ہوائیں نہ چلیں جو ان جہازوں کو حرکت میں لاتی ہیں جہازوں کا لمبی لمبی مسافتیں طے کرنا ممکن نہیں قرآن کریم نے اسی مضمون کو فرمایا،- اِنْ يَّشَاْ يُسْكِنِ الرِّيْحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلٰي ظَهْرِهٖ (٣٣: ٤٢) اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو ہواؤں کو ساکن کردیں اور یہ جہاز سمندر کی پشت پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں۔- بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ کے لفظ میں اشارہ کردیا گیا کہ بحری جہازوں کے ذریعہ ایک ملک کا سامان دوسرے ملک میں درآمد وبرآمد کرنے کے ذریعہ عام انسانوں کے بیشمار فائدے ہیں جن کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا اور یہ فائدے ہر زمانے ہر ملک میں نئی نئی صورتیں پیدا کردیتے ہیں، - اسی طرح آسمان سے پانی کو قطرہ قطرہ کرکے اس طرح نازل کرنا کہ اس سے کسی چیز کو نقصان نہ پہنچنے اگر سیلاب کی طرح آتا تو کوئی آدمی جانور، سامان کچھ نہ رہتا پھر پانی برسنے کے بعد اس کا زمین پر محفوظ رکھنا، انسان کے بس کا نہیں اگر کہہ دیا جاتا کہ چھ مہینہ کے پانی کا کوٹہ اپنا اپنا ہر شخص رکھ لے تو ہر شخص اس کے رکھنے کا کیا انتظام کرتا اور کسی طرح رکھ بھی لیتا تو اس کو سڑنے اور خراب ہوجانے سے کیسے بچاتا قدرت نے یہ سب انتظامات خود فرمادئیے ارشاد فرمایا :- فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ (١٨: ٢٣) یعنی ہم نے ہی پانی کو زمین کے اندر ٹھہرا دیا اگرچہ ہمیں اس کی بھی قدرت تھی کہ بارش کا پانی برسنے کے بعد بہہ کر ختم ہوجاتا،- مگر قدرت نے پانی کو اہل زمین انسان اور جانوروں کے لئے کہیں کھلے طور پر تالابوں اور حوضوں میں جمع کردیا کہیں پہاڑوں کی زمین میں پھیلی ہوئی رگوں کے ذریعہ زمین کے اندر اتار دیا اور پھر ایک غیر محسوس پائپ لائن ساری زمین میں بچھا دی ہر شخص جہاں چاہئے کھود کر پانی نکال لیتا ہے اور اسی پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بحر منجمد بنا کر برف کی صورت میں پہاڑوں کے اوپر لاد دیا جو سڑنے اور خراب ہونے سے بھی محفوظ ہے اور آہستہ آہستہ پگھل کر زمین کے اندر قدرتی پائپ لائن کے ذریعہ پورے عالم میں پہونچتا ہے غرض آیت مذکورہ میں قدرت کاملہ کے چند مظاہر کا بیان کرکے توحید کو ثابت کیا گیا علماء مفسرین نے ان تمام چیزوں پر تفصیلی بحث کی ہے دیکھئے۔ جصاص، قرطبی وغیرہ۔
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ ٠ ۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ١٦٤- إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- فلك - الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر .- قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع .- ( ف ل ک ) الفلک - کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔- جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] .- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ - میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینٍ مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - بث - أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ، وقوله عزّ وجل : وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة 164] إشارة إلى إيجاده تعالیٰ ما لم يكن موجودا وإظهاره إياه . وقوله عزّ وجلّ : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] أي : المهيّج بعد رکونه وخفائه .- وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل .- ( ب ث ث) البث - البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة 164] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے جانوروں کو پیدا کیا اور ان کو ظہور بخشا اور آیت : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] میں المبثوث سے مراد وہ پر وانے ہیں جو مخفی اور پر سکون جگہوں میں بیٹھے ہوں اور ان کو پریشان کردیا گیا ہو ۔ اور آیت نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے جیسا کہ توذعنی الفکر کا محاورہ ہے یعنی مجھے فکر نے پریشان کردیا ۔ - دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] ،- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔- الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- سحب - أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] .- ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
قول باری ہے : ان فی خلق السموت والارض واختلاف اللیل والنھار ( آسمانوں اور زمین کی ساخت میں اور رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں) تا آخر آیت۔ یہ آیت توحید باری پر نیز اس بات پر کہ اس کی کوئی نظیر ہے نہ شبیہ، کئی قسم کی دلالتوں کو متضمن ہے۔ اس آیت میں ہمارے لیے یہ حکم بھی ہے کہ ہم ان دلالتوں سے استدلال کریں ، چناچہ ارشاد ہے : لا یات لقوم یعقلون ( جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے بیشمار نشانیاں ہیں) اس نے یہ نشانیاں اس لئے قائم کی ہیں کہ ان سے استدلال کرکے اس کی معرفت، اس کی توحید کی پہچان نیز اس کی ذات سے اشباہ و امثال کی نفی تک رسائی حال کی جائے۔ اس میں ان لوگوں کے قول کا ابطال ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ کی ذات کی معرفت صرف خبر کے ذریعے ہوسکتی ہے اور اس کی ذات کی معرفت تک رسائی میں انسانی عقول کا کوئی دخل نہیں۔- اللہ کی ذات پر آسمانوں اور زمین کی دلالت کی صورت یہ ہے کہ آسمان اپنی وسعت اور حجم کے پھیلائو کے باوجود کسی ستون اور سہارے کے بغیر ہمارے اوپر قائم ہے اور اپنی جگہ نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح زمین بھی اپنی عظیم ساخت کے باوجود ہمارے نیچے قائم اور موجود ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان میں سے ہر ایک کی کوئی نہ کوئی انتہا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک وقت واحد کے اندر موجود ہے اور کمی بیشی کا احتمال رکھتا ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اگر ساری مخلوق اکٹھی ہوکر ایک پتھر کو سہارے کے بغیر ہوا میں معلق رکھنا چاہیے تو وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ اس سے ہمیں اس بات عا علم ہوتا ہے کہ آسمانوں کو ستونوں کے بغیر اور زمین کو سہارے کے بغیر قائم رکھنے والی کوئی نہ کوئی ذات ضرور ہے، گویا یہ بات ذات باری کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور یہ واضح کردیتی ہے کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے اس میں اس امر کی دلیل بھی موجود ہے کہ اللہ کی ذات اجسام کی مشابہ نہیں ہے، نیز وہ قادر مطلق ہے اور کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وہ اجسام کے اختراع پر قادر ہے کیونکہ عقول کے نزدیک اجسام و اجرام کا اختراع اور ان کی ایجاد ان کے حجم کے پھیلائو اور کثافت ( بھاری پن) کے باوجود انہیں ستونوں اور سہاروں کے بغیر قائم رکھنے کی بہ نسبت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہ باتیں ایک اور جہت سے ان اجسام کے حدوث پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ وہ یوں کہ متضاد اعراض ( پیدا ہونے والی متنوع قسم کی کیفیات ) سے ان اجسام کے خالی رہنے کا جواز ممتنع ہے۔ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ مذکورہ اعراض حادث ہیں۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک پہلے معدوم تھا اور پھر موجود ہوا۔ اور جو چیز احداث سے پہلے موجود نہ ہو وہ حادث ہوتی ہے۔ اس استدلال سے مذکورہ اجسام و اجرام کے حدوث کا دعویٰ درست ہوگیا۔ حادث اشیاء کسی محدث (وجود میں لانے والے) کی متقضی ہوتی ہیں۔ جس طرح عمارت تعمیر کنندہ کی اور کتابت کاتب کی نیز تاثیر موثر کی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آسمان و زمین اور ان کے مابین موجود ساری کائنات اللہ کی آیات ہیں اور اس کی ذات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ حضرت سعدی نے کیا خوب کہا ہے ؎- برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر درقے دفتریست معرفت کردگار - رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے کا سلسلہ اللہ کی ذات پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کے بعد حدوث ہوتا ہے اور حادث کسی محدث ( وجود میں لانے والے) کا متقضی ہوتا ہے۔ اس طرح رات اور دن اپنے محدث پر دلالت کرتے ہیں، نیز اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ ان کا محدث ان کے مشابہ نہیں ہے، کیونکہ غافل اپنے فعل کے مشابہ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ معمار اپنی عمارت کے اور کاتب اپنی کتابت کے مشابہ نہیں ہوتا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر محدث حادث کے مشابہ ہوتا تو اس پر بھی حدوث کی وہی دلالت جاری ہوتی جو حادث پر جاری ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں حدوث کے اندر حادث اپنے محدث کی بہ نسبت اولیٰ نہ ہوتا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اجسام و احرام نیز لیل و نہار کا محدث قدیم ہے تو یہ بات بھی درست ہوگئی کہ وہ ان کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتا، نیز اس بات کی نشاندہی ہوگئی کہ مذکورہ اشیاء کا محدث قادر بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر فعل کا وجود صرف اس ذات سے ممکن ہوتا ہے جو قادر اور زندہ ہو، نیز اس کے علام ہونے پر دلالت ہورہی ہے۔ اس لیے کہ ایک محکم، متقن اور متسق فعل کو صرف وہی ذات وجود میں لاسکتی ہے جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے اس کا پورا علم رکھتی ہو۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ رات اور دن کی ایک دوسرے کے بعد پیہم آمد ایک ہی ڈھنگ اور طریقے پر جاری ہے اور دنیا کے کسی بھی خطے میں سال کی مقدار کے اندر دن اور رات کے چھوٹے بڑے ہونے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رات اور دن کا مخترع قادر اور علیم ہے۔ اگر وہ قادر نہ ہوتا تو اس سے فعل وجود میں نہ آتا اور اگر علیم نہ ہوتا تو اس کے فعل میں یہ اتقان اور یہ نظم نہ ہوتا۔- سمندر میں چلنے والی کشتی کی اللہ کی توحید پر دلالت کی جہلت یہ ہے کہ سب کے علم میں ہے کہ اگر کائنات کے تمام اجسام پانی جیسا رقیق اور سیال جسم جس نے کشتی کو اپنی پیٹھ پر لا د رکھا ہے ، پیدا کرنے نیز کشتی کو چلانے والی ہوائوں کو وجود میں لانے کے لیے یکجا ہوجائیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر ہوائیں رک جائیں تو کشتی سمندر میں ٹھہر جائے اور اس صورت میں کوئی مخلوق بھی اسے چلا نہ سکے جس طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے : ان یشا یسکن الریح فیضللن روالدعلی ظھرہ ( اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ساکن کردے اور پھر یہ کشتیاں سمندر کی پشت پر رکی رہیں) اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے پانی کو مسخر کردیا اور ان کشتیوں کو چلانے کے لیے ہوائوں کو تابع فرمان بنادیا۔ یہ باتیں وہ عظیم ترین دلیلیں ہیں جن سے اللہ سبحانہ کی وحدانیت کا اثبات ہوتا ہے۔ اور یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ قدیم وقادر اور علیم، نیز حی و قیوم ہے، اس کی کوئی نظیر ہے نہ شبیہ کیونکہ اجسام کو ان افعال کے سرانجام دینے کی قدرت ہی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کو اپنا تابع فرمان کردیا، تاکہ وہ اپنی پشت پر کشتیوں کا بوجھ اٹھائے رکھے۔ ہوائوں کو انہیں چلانے کے لیے مسخر کردیا۔ تاکہ کشتیوں اور جہازوں کی آمدورفت سے مخلوقات کو فائدہ دینے والی اشیاء ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل ہوتی رہیں اور کارہائے نمایاں کے ذریعے انسانوں کو اپنی وحدانیت اور اپنی نعمتوں کی ہمہ گیری سے آگاہ کردیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان باتوں پر غور و فکر کریں تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ ان کے خالق نے ان نعمتوں سے انہیں نوازا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اس کے شکر گزار بندے بن کر آخرت میں دائمی ثواب کے مستحق قرار پائیں۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ آسمان سے پانی کا برسنا اللہ کی توحید پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ ہر عاقل کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اوپر سے نیچے کی طرف بہنا پانی کی خصوصیت ہے۔ اور نیچے سے اوپر کی طرف پانی کا بلند ہونا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کوئی فاعل یہ کام کرے۔ بادلوں میں موجود پانی سے ایک تو جیہ ضروری ہے۔ یا تو کسی محدث نے بادلوں کے اندر ہی اس پانی کا احداث کیا ہے یا اس نے پانی کو اس کی ذخیرہ گاہوں یعنی سمندروں سے اٹھا کر ان تک پہنچایا ہے ( دوسری بات موجودہ سائنس کے عین مطابق ہے جس کا کہنا ہے کہ سورج کی تیز شعاعوں سے سمندر کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے اور فضا کے اندر منطقۂ باردہ میں پہنچ کر دوبارہ قطرات کی شکل اختیار کرلیتا اور بادلوں سے برس پڑتا ہے۔ مترجم) ان دونوں میں سے جو توجیہ بھی قبول کرلی جائے وہ اللہ کے واحد اور قدیم ہونے کے اثبات پر دلالت کرے گی۔ پھر دیکھئے اللہ اپنی قدرت کاملہ سے اس پانی کو بادلوں کے اندر روکے رکھتا، بلکہ دنیا کے جس خطے میں چاہتا ہے تابع فرمان ہوائوں کے ذریعے پہنچا دیتا اور بارش برسا دیتا ہے۔- یہ ساری کیفیت اللہ کی وحدانیت اور اس کی کامل قدرت کی قول ترین دلیل ہے کیونکہ اس نے بادلوں کو پانی کا مرکب اور ہوائوں کو بادلوں کا مرکب بنادیا ہے کہ یہ ہوائیں ان بادلوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچا دیتی ہیں تاکہ تمام مخلوقات کو اس کا فائدہ پہنچ سکے۔ چناچہ ارشاد ہے : اولم یروا انا نسوق الماء الی الارض الجرز فنخرج بہ زرعاً تاکل منہ انعامھم وانفسھم ( کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں ڈالی کہ ہم خشک افتادہ زمین کی طرف پانی پہنچاتے رہتے ہیں ، پھر اس کے ذریعے سے کھیتی پیدا کردیتے ہیں جس سے ان کے مویشی کھاتے ہیں اور وہ خود بھی) پھر اللہ تعالیٰ اس پانی کو قطرہ قطرہ کرکے نازل کرتا ہے کہ فضا میں ایک قطرہ دوسرے قطرے کے ساتھ نہیں ملتا حالانکہ ہوائیں ان تمام قطرات کو ایک ساتھ حرکت میں لے آتی ہیں، حتیٰ کہ یہ تمام قطرے علیحدہ علیحدہ زمین پر اپنی اپنی جگہ برس جاتے ہیں۔ اگر ایک حکیم، علیم اور قادر ذات بارش برسانے کا یہ انتظام ن ہ کرتی تو بادلوں سے بارش کے برسنے کی یہ ترتیب اور یہ نظام کس طرح وجود میں آتا ؟ جبکہ پانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ سیلاب کی شکل میں ایک ساتھ بہہ پڑتا ہے۔ اگر یہ قطرات فضا میں یکجا ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ مل جائے تو پھر بارش کی بجائے آسمان سے سیلاب کا نزول ہوتا اور زمین پر پہنچ کر یہ سیلاب تمام حیوانات و نباتات کی تباہی کا باعث بن جاتا اور صورت حال وہ ہوتی جس کا ذکر طوفان نوح کے سلسلے میں ہوا۔ ارشاد باری ہے : ففتحنا ابواب السماء بماء منھر ( اور ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیے بکثرت برسنے والے پانی سے) اس آیت کی تفسیر میں کہا جاتا ہے کہ آسمان سے پانی اس طرح برسا جیسے زمین پر سیلابوں کا پانی بہتا ہے۔- اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضا میں بادلوں کا پیدا کرنا، ان بالدوں کو پانی سے بھر دینا اور اور انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف چلانا اس کی وحدانیت اور قوت کے قوی ترین دلائل ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اللہ کی ذات جسم اور جسمانیت سے پاک ہے اور اجسام کے ساتھ اس کی کوئی مشابہت نہیں ہے کیونکہ اجسام کے لئے ایسے کارہائے عظیم سرانجام دینا ممکن ہی نہیں ہے، بلکہ اجسام ان کے بارے میں سوچ نہیں سکتے اور نہ ہی ان کی توقع کرسکتے ہیں۔- مردہ زمین کو زندگی بخشنے کا عمل اللہ کی توحید پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ اگر ساری مخلوق مردہ زمین کے کسی حصے کو زندہ کرنے کے لیے یکجا ہوجائے تو بھی وہ ایسا نہیں کرسکتی اور نہ زمین پر ایک پودا بھی اگا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پانی کے ذریعے زمین کو زندہ کردینا اور اس میں طرح طرح کی فصلیں اور نبانات اگانا ( ہمیں یہ بات یقین اور مشاہدہ سے معلوم ہے کہ زمین میں پہلے یہ فصلیں موجود نہ ہوتیں اور پھر خدا کے حکم سے یہ فصلیں اگ آتی ہیں) دراصل ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ اگر ہم صرف اس عمل پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ سب کچھ ایک صانع و حکیم اور قادر و علیم کی قدرت کا کرشمہ ہے جس نے اپنی قدرت سے کام لے کر مٹی کے اجزاء کو ترتیب دے کر انہیں ایک مربوط و مستحکم نظام کے تحت منظم کردیا۔ یہ بات اس امر کی ایک قوی ترین دلیل ہے کہ تمام چیزوں کا ایک خالق ہے اور وہ قادر و علیم ہے، نی یہ کہ یہ سارا نظام فطرت کے عمل کا نتیجہ نہیں ہے جیسا کہ اللہ کی ان آیات کے بارے میں ملحدین کا دعویٰ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آسمان سے برسنے والا پانی یکساں خصوصیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح زمین کے اجزاء میں بھی یکسانیت ہوتی ہے اور اسی طرح ہوا بھی یکساں خاصیت رکھتی ہے لیکن اس تمام یکسانیت کے باوجود زمین پانی اور ہوا کے ملاپ کے نتیجے میں طرح طرح کے نباتات اور رنگ برنگے پھول پیدا ہوتے ہیں، درختوں پر لگنے والے پھلوں کے اشکال والو ان مختلف ہوتے اور ان کا مزہ ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ فطرت کے عمل کا نتیجہ ہوتا تو ان تما م چیزوں میں یکسانیت پائی جاتی کیونکہ یکسانیت کا حامل عمل عدم یکسانیت اور رنگ برنگے مظاہرہ و نتائج کا موجب نہیں ہوتا۔ یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ یہ سب کچھ ایک صانع و حکیم اور قادر وعلیم ذات کی کرشمہ سازی جس نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کی تخلیق اور انہیں مختلف انواع و اقسام اور الوان و اشکال میں پیدا کرکے بندوں کی روزی کا سامان کردیا اور انہیں اس بات سے آگاہ کردیا کہ یہ سب کچھ اس کی کاریگری اور اس کے انعام کا مظہر ہے۔- زمین پر ہر قسم کی جاندار مخلوق پھیلا دینے کا عمل اللہ سبحانہ کی وحدانیت پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ یہ مختلف الانواع جاندار اس کی قدرت کا ملہ کے عظیم مظاہر ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ ان جانداروں نے اپنی تخلیق آپ کی ہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں یا تو نہوں نے اپنی تخلیق اپنی موجودگی کی حالت میں کی ہوگی یا اپنی معدومیت کی حالت میں۔ اگر یہ پہلے سے ہی موجود ہوں تو پھر ان کے احداث کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اگر معدوم ہوں تو معدوم کی ذات سے کسی فعل کو وجود میں لانا محال ہوتا ہے۔- اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ وجود میں آ جانے کے باوجود اجسام کے اختراع اور اجرام کی تخلیق کی قدرت نہیں رکھتے، تو جب موجود ہونے کی صورت میں وہ تخلیق کے عمل کی قدرت نہیں رکھتے تو معدوم ہونے کی حالت میں بطریق اولیٰ اس کی قدرت نہیں رکھیں گے، نیز ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی جاندار اپنے جسم کے کسی حصے کے اضافے کی قدرت نہیں رکھتا، تو پھر پورے جسم کی تخلیق کی کس طرح قدرت رکھ سکتا ہے ؟ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان جانداروں کا محدث و موجد اللہ ہی ہے جو قادر و حکیم ہے اور جس کی کسی چیز کے ساتھ مشابہت نہیں ہے۔ اگر ان جانداروں کا محدث ان کے ساتھ کسی جہت سے بھی مشابہت رکھتا تو اجسام کے احداث کو عمل میں لانے کے جواز کے امتناع میں اس کا حکم بھی وہی ہوتا جو ان جانداروں کا ہے۔- ہوائوں کی گردش اللہ کی وحدانیت اور قدرت پر اس جہت سے دلالت کرتی ہے کہ اگر ساری مخلوق ان ہوائوں کو چلانے کی کوشش میں یکجا ہوجائے تو بھی وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ جب ہم ہائوں کو کبھی شمال اور کبھی جنوب کی طرف کبھی باد صبا کی صورت میں اور کبھی دبور ( بچھوائی ہوا) کی شکل میں چلتے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا احداث ہوا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ علم بھی ہوجاتا ہے کہ ان کی گردش کا محدث و موجد و قادر و حکیم ہے جس کی کوئی نظیر و شبیہ نہیں ہے۔- یہ ہیں وہ دلائل جن سے اللہ تعالیٰ نے عقلاء کو آگاہ کرکے انہیں ان کے ذریعے استدلال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگرچہ یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ وہ پانی اور زراعت کے بغیر نبانات پیدا کردیتا اور نر و مادہ کی جفتی کے بغیر جانور وجود میں لے آتا۔ لیکن اس نے موجودہ نظام کے تحت تخلیق کے عمل کو اس لیے جاری کیا کہ ہر نئی چیز کی آمد پر دیکھنے والوں کا دھیان خالق کی قدرت کی طرف جائے اور وہ اس کی عظمت پر غور وفکر کرنے پر مجبور ہوجائیں، نیز ان کے ذہنوں سے غفلت کا پردہ ہٹ جائے اور ذات باری کے متعلق ان کی سوچ کی راہیں ہموار ہوجائیں۔- اللہ سبحانہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی اس طرح تخلیق فرمائی کہ وہ اپنے اپنے مقام پر قائم و دائم ہیں اور تخلیق کے وقت ان کی جو کیفیت تھی وہی آج تک باقی ہے۔ اس میں ذرہ برار بھی تغیر واقع نہیں ہوا۔- یہی کیفیت ان کی فنا کے وقت تک باقی رہے گی، پھر اس نے زمین سے انسانوں اور دیگرجانوروں کی تخلیق کی اور پھر زمین ہی سیان سب کے لئے رزق پیدا کیا اور تھوڑا تھوڑا کرکے انہیں دیا تاکہ وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اب انہیں مزید کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ نے سالانہ پیداوار کی شکل میں ان کی خوراک کا اتنی مقدار میں بندوبست کردیا جو ان کی کفایت کرسکے تاکہ وہ خود سر نہ ہوجائیں بلکہ انہیں اللہ کی طرف اپنی حاجت مندی کا ہر وقت احساس رہے۔ اس کے ساتھ اللہ سبحانہ نے انسانوں کو زراعت اور کھیتی باڑی کی شکل میں زمین سے پیداوار حاصل کرنے کے کچھ گر سکھا دئیے تاکہ انہیں اس حقیقت سے آگاہ کردے اور اس کا شعور دلالے کہ اعمال کے ثمرات اور اچھے برے نتائج ہوتے ہیں اور اس طرح وہ اچھے اعمال کرکے ان کے ثمرات سے مستفید ہونے اور برے اعمال سے اجتناب کرکے ان کے عواقب سے بچ جانے کے قابل ہوجائیں۔- جہاں تک آسمان سے پانی برسانے کا تعلق تھا تو اس کا م کی ذمہ داری خود ذات باری نے سنبھال لی کیونکہ اپنے لئے بارش برسانا انسانوں کی قدرت میں نہیں تھا۔ اس مقصد کے لئے اللہ سبحانہ نے فضائے آسمانی میں بادل پیدا کیے، پھر انہیں پانی سے بھر دیا اور پھر ضرورت کے مطابق بارش کی شکل میں زمین پر برسایا اور اس پانی کے ذریعے زمین سے وہ تمام چیزیں پیدا کیں جو مخلوق کی خوراک و پوشاک کے لئے ضروری تھیں نیز اللہ سبحانہ نے بارش کے ذریعے برسنے والے پانی کو اس طرح نہیں کہ بس برسنے کے وقت ہی اس سے فائدہ اٹھا لیا جائے بلکہ اس نے اس پانی کے لئے زمین میں بڑی بڑی ذخیرہ گاہیں اور چشمے بنادئیے کہ یہی پانی ان میں جمع ہوکر حسب ضرورت بہتا رہتا ہے۔ ارشاد باری ہے : الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء مسل کہ ینابیع فی الارض ( کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین میں اس کے چشمے جاری کردئیے) اگر آسمان سے برسنے والے پانی کو ضرورت کے وقت تک محفوظ کرنے کے لیے زمین میں انتظامات نہ ہوتے تو پھر سارا پانی بہہ جاتا اور اس میں ایک طرف جاندار ڈوب کر ہلاک ہوجاتے اور دوسری طرف پانی کی عدم موجودگی میں پیاس سے ہلاک ہوجاتے۔ بڑی با برکت ہے وہ ذات جس نے زمین کو گھر اور ٹھکانے کی حیثیت عطا کردی کہ انسان کو اس میں پناہ ملتی ہے اور آسمان کو چھت کی شکل دے دی اور بارش نیز نباتات و حیوانات کو ان چیزوں کی مثل بنادیا جنہیں انسان اپنی ضروریات کے پیش نظر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ پھر اللہ سبحانہ نے ہمارے لیے زمین کو اس طرح مسخر کردیا کہ ہم بہ آسانی اس پر چل پھر سکتے ہیں اور اس کی راہوں سے گزر سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں اس بات کی قدرت بھی عطا کردی کہ ہم اس پر مکانات تعمیر کرلیں اور ان میں رہائش رکھ کر بارش اور سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رہیں نیز دشمنوں سے بھی اپنا بچائو کرسکیں۔ ہمیں اپنے مکانات کی تعمیر کے لیے زمین کے سوا کسی اور سیارے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم زمین کے اندر جہاں بھی مکان بناناچا ہیں وہاں ہمیں تعمیراتی سامان یعنی مٹی، گارا، پتھر، چونا اور لکڑی وغیرہ سب مل جائے گا۔ علاوہ ازیں اللہ سبحانہ نے ہمارے لئے زمین کے معدنیات کی صورت میں سونا، چاندی، لوہا، تانبا اور سیسہ وغیرہ پیدا کردیا۔ ان کے علاوہ ہیرے اور جواہرات کے ذخائر بھی مہیا کردیے تاکہ ہم جس طرح زمین کے بیرونی حصے سے پیداوار کی شکل میں فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح زمین کے اندرونی حصے سے بھی معدنیات کی صورت میں فائدہ اٹھائیں۔ ارشاد باری ہے۔ وقد رفیھا اقواتھا ( اور اس نے اسی (زمین ) میں (اس پر رہنے والوں کی) غذائیں رکھ دیں۔- یہ تمام اشیاء زمین کی برکات اور منافع ہیں جن کی تعداد شمار وقطار سے باہر ہے پھر چونکہ ہماری اور دیگر جانداروں کی عمروں کی مدت محدود ہے اس لئے زمین ہی کو بعد الموت بھی ہمیں سمیٹ لینے والی بنادیا۔ ارشاد ہے : الم نجعل الارض کفا تا احیاء و امواً ( کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کو سمیٹ لینے والی نہیں بنایا) مزید فرمایا : ان جعلنا ما علی الارض زینۃً لھا لنبلوھم ایھم احسن عملاً وانا لجاعلون ما علیھا صعیداً اجززا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سرو سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنادینے والے ہیں) پھر حق سبحانہ نے نبانات و حیوانات کی تخلیق میں لذت نجش نیز غذا بننے والی چیزوں پر اقتصار نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ تلخ اور زہریلی چیزیں بھی پیدا کیں تاکہ نفع بخش اور نقصان دہ چیزوں کے امتزاج سے ہمیں یہ احساس دلائے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم ان تلذات کی طرف ہی مائل رہیں اور ان میں منہمک ہوکر آخرت کو فراموش کربیٹھیں۔ دوسرے الفاظ میں نقصان دہ چیزوں کے اندر اللہ سبحانہ نے ہمارے لئے نفع اور خیر کا پہلو اسی طرح رکھ دیا ہے جس طر ح خوش کن لذت انگیز چیزوں کے اندر ہے۔ دنیاوی زندگی میں جب ہم آلام و شدائد کا مزہ چکھیں گے تو اس سے ہمیں آخرت کے آلام کا احساس ہوگا۔ یہ احساس ہمیں قبائح اور آثام سے روک دے گا اور اسکے نتیجے میں ہم آخرت کی اس لازوال راحت و نعمت کے مستحق قرار پائیں گے جس میں تکلیف و الم کا شائبہ تک نہیں ہے اور جو ہر قسم کی متعصات سے پاک ہے۔- اس ایک آیت کے اندر اللہ کی وحدانیت کے جو دلائل بیان ہوئے ہیں۔ اگر غافل انسان صرف ان پر ہی غور کرلے تو ان تمام اقوال کا بطلان ہوجائے گا جن کا تعلق گمراہ فرقوں سے ہے۔ یہ فرقے وہ ہیں جو نظام کائنات میں فطرت یعنی نیچر کی کارروائی کے قائل ہیں یا ثنویت پرست ہیں یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ کائنات کا نظام دو خدا چلا رہے ہیں۔ ایک یزدان، دوسرا ہرمن۔ یزدان خالق خیرا اور راہرسن خالق شر ہے۔ یا وہ فرقہ جو تشبیہ کا عقیدہ رکھتا ہے اور ذات باری کو اجسام و اجرام کے مشابہ قرار دیتا ہے۔- اگر ہم زیر بحث آیت کے معانی و مطالب نیز اس کے ضمن میں موجود دلائل توحید کو صفحہ قرطاس پر پھیلا دیں تو بحث طویل ہوجائے گی۔ ہم نے درج بالا سطور میں آیت کے معانی و مطالب میں جتنا کچھ لکھ دیا ہے ہمارے خیال میں وہ کافی ہے۔ ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے بیان کردہ دلائل سے استدلال کرنے اور اسکے ذریعے راہ ہدایت حاصل کرنے کی عمدہ توفیق عطا فرمائے وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہی ہمارا بہترین کارساز ہے۔- بحری سفر کی اباحت - قول باری : والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس ( اور ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریائوں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں) میں بحری سفر کی اباحت کا ذکر ہے خواہ یہ سفر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی غرض سے کیا یا تجارت کی غرض سے یا دیگر منافع کی تلاش میں ۔ کیونکہ آیت میں منفعت کی کسی ایک صورت کی تخصیص نہیں کی گئی۔ کہ دیگر صورتیں اس میں شامل نہ ہوسکیں۔ ایک جگہ ارشاد ہے : ھو الذی یسیرکم فی البر والبحر ( وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے) نیز ارشاد ہے : ربکم الذی یرجی لکم الفلک فی البحر لتبتغو ا من فضلہ ( تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر اور دریا میں کشتیاں چلتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرسکو) قول باری : لتبتغوا من فضلہ تجارت وغیرہ سب کو شامل ہے، جس طرح یہ ارشاد باری ہے : فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشرو ا فی الارض وابتغو ا من فضل اللہ جب ( جمعہ کی) نماز ادا کرلی جائے تو تم زمین میں بکھر جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو) نیز ارشاد ہے : لیس علیکم جناح ان تبتغو ا فضلاً من ربکم ( اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو)- صحابہ کرام کی ایک جماعت سے بحری سفر کے ذریعے تجارت کرنے کی اباحت مروی ہے۔- حضرت عمر (رض) نے مسلمانوں کی جانوں کو لاحق ہونے والے خطرا ت کے پیش نظر جہاد کی غرض سے بحری سفر کی ممانعت کردی تھی، نیز حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا قول مروی ہے کہ کوئی شخص بحری سفر اختیار نہ کرے، البتہ اگر وہ جہاز پر جاناچاہتا ہے یا حج یا عمرے کی نیت سے یہ سفر کرے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ یہاں یہ کہنا ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بات مشورے کے طورپر کہی ہو یا ان کے پیش نظر بحری سفر کے خطرات ہوں۔- یہی بات ایک حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے محمد بن بکر البصری نے یہ حدیث بیان کی ہے ان سے ابو دائود نے ان سے سعید بن المنصور نے، ان سے اسماعیل بن زکریا نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کوئی شخص بحری سفر نہ کرے الا یہ کہ وہ حج یا عمرہ کرنے والا ہو یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے۔ “ یہاں یہ کہنا جائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد استحباب کے طورپر ہوتا کہ کوئی مسلمان دنیا کی طلب میں اپنی جان خطرے میں نہ ڈالے چونکہ یہ بات حج، عمرہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے اندر نہیں ہے، اگر کوئی شخص مذکورہ مقاصد میں سے کسی مقصد کے تحت بحری سفر کرے اور ڈوب جائے تو وہ شہید قرار پائے گا۔- محمد بن بکر نے روایت بیان کی، ان سے ابو دائود نے، ان سے سلیمان بن دائود العتکی نے، ان سے حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ام سلیم (رض) کی بہن حضرت ام حرام (رض) بنت ملحان نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے گھر میں آرام فرما تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، حضرت ام حرام نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا :” میں نے اپنی امت کے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس سمندر کی پشت پر اس طرح سوار ہیں جس طرح بادشاہ لوگ اپنے اپنے تخت پر سوار ہوتے ہیں۔ “ یہ سن کر حضرت ام حرام (رض) نے عرض کیا :” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرمائیے کہ مجھے بھی اللہ ان لوگوں میں سے کردے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بھی ان میں سے ہو۔ “ اس کے بعد آپ پھر سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، جب حضرت ام حرام (رض) نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حسب سابق جواب دیا۔ انہوں نے اپنی درخواست دہرائی جسے سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اولین میں سے ہو “۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ (رض) بن الصامت (رض) نے ان سے نکاح کرلیا اور جب جہاد پر جانے کے لیے بحری سفر اختیار کیا تو ان کو بھی ساتھ لے گئے۔ جہاد سے واپس آئے تو حضرت ام حرام (رض) کو سواری کے لیے ایک مادہ خچر پیش کی گئی جس نے انہیں گرا دیا اور ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ وفات پا گئیں۔- محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، ان سے ابو دائود نے، ان سے عبدالوہاب بن الرحیم الجوہری الدمشقی نے، ان سے مروان نے، ان سے ہلال بن میمون الرملی نے یحییٰ بن شداد سے، انہوں نے حضرت ام حرام (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بحری سفر کرنے والا شخص جس کا سر چکرائے اور اسے الٹیاں شروع ہوجائیں اور وہ فوت ہوجائے تو اسے ایک شہید کا اجر ملے گا اور ڈوب کر فوت ہوجانے والے شخص کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ “
(١٦٤) ان دونوں چیزوں کی پیدائش میں یہ تفسیر کی گئی ہے کہ ان دونوں یعنی زمین و آسمان میں جو چیزیں پیدا کی گئی ہیں ان کے لیے بھی شفیق اور مہربان ہے۔- اور رات دن کو تبدیل اور ان کی کمی وبیشی میں اور کشتیوں میں جو لوگوں کی معاشی وزندگی کے لیے چلتی ہیں اور اس چیز میں جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش برسائی ہے اور پھر قحط سالی اور زمین کے خشک ہونے کے بعد پھر اس بارش سے سبزہ پیدا کرنے میں۔- اور پھر اس زمین میں ہر طرح کے جانور نر و مادہ پیدا کیے اور ہواؤں کی دائیں بائیں، آگے پیچھے تبدیلی میں اور کبھی رحمت کا باعث اور کبھی عذاب کا باعث کرنے میں اور لٹکے ہوئے بادلوں میں، ان تمام چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایسی قوم کے لیے نشانیاں ہیں جو اس بات کا یقین رکھے کہ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہی طرف سے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ان فی خلق السموت (الخ)- سعید بن منصور (رح) نے اپنی سنن اور فریابی (رح) نے اپنی تفسیر اور امام بیہقی (رح) نے اپنی کتاب شعب الایمان میں ابو الضحی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب آیت) ” والھکم الہ واحد (الخ) نازل ہوئی تو مشرکین نے اظہار تعجب کیا اور کہنے لگے کہ وہ وحدہ لاشریک ہے اگر وہ اپنے قول میں سچا ہے تو کوئی دلیل لائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ان فی خلق السموت “ سے (آیت) ” یعقلون “ تک آیت نازل فرمائی۔- ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے متصلا حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قریش مکہ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ صفا پہاڑی کو سونے کا بنا دے تاکہ ہم اس کے ذریعے اپنے دشمنوں پر قابوپاسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ آپ ان سے وعدہ فرما لیں، میں ایسا ہی کردوں گا لیکن اگر انہوں نے اس کے بعد کفر کیا تو ان لوگوں کو ایسی سزا دوں گا کہ پوری دنیا میں سے ویسی سزا کسی کو بھی نہ دی ہوگی ،- حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرض کیا پروردگار عالم مجھے اور میری قوم کو رہنے دیجیے، میں اپنی قوم کے لیے روز بروز دعا کرتا رہوں گا اس پر (آیت) ” ان فی خلق السموت “۔ الخ نازل ہوئی۔- یہ لوگ کیسے صفا پہاڑ کو کے سونے ہونے کے متعلق سوال کرتے ہیں، جب کہ اس سے عمدہ اور واضح دلائل الوہیت خداوندی پر موجود ہیں (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
اب جو آیت آرہی ہے اس کے مطالعہ سے پہلے ایک بات سمجھ لیجیے کہ سورة البقرۃ کا نصف ثانی جو بائیس رکوعوں پر مشتمل ہے اور جس کا آغاز انیسویں رکوع سے ہوا ہے ‘ اس میں ترتیب کیا ہے۔ سورة البقرۃ کے پہلے اٹھارہ رکوعوں کی تقسیم عمودی ( ) ہے۔ یعنی چار رکوع ادھر ‘ دس درمیان میں ‘ پھر چار ادھر۔ لیکن انیسویں رکوع سے اب افقی ( ) تقسیم کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس حصے ّ میں چار مضامین تانے بانے کی طرح بنے ہوئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ چار لڑیاں ہیں جن کو بٹ کر رسّی بنا دیا گیا ہے۔ ان چار میں سے دو لڑیاں تو شریعت کی ہیں ‘ جن میں سے ایک عبادات کی اور دوسری احکام و شرائع کی ہے کہ یہ واجب ہے ‘ یہ کرنا ہے ‘ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ نماز فرض ہے ‘ روزہ فرض ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ احکام و شرائع میں خاص طور پر شوہر اور بیوی کے تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ معاشرت انسانی کی بنیاد یہی ہے۔ لہٰذا اس سورت میں آپ دیکھیں گے کہ عائلی قوانین کے ضمن میں تفصیلی احکام آئیں گے۔ جبکہ دوسری دو لڑیاں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی ہیں۔ جہاد بالنفس کی آخری انتہا قتال ہے جہاں انسان نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان کارزار میں حاضر ہوجاتا ہے۔ - اب ان چاروں مضامین یا چاروں لڑیوں کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔ فرض کیجیے ایک سرخ لڑی ہے ‘ ایک پیلی ہے ‘ ایک نیلی ہے اور ایک سبز ہے ‘ اور ان چاروں لڑیوں کو ایک رسّی کی صورت میں بٹ دیا گیا ہے۔ آپ اس رسّی کو دیکھیں گے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آئیں گے۔ پہلے سرخ ‘ پھر پیلا ‘ پھر نیلا اور پھر سبز نظر آئے گا۔ لیکن اگر رسّی کے بل کھول دیں تو ہر لڑی مسلسل نظر آئے گی۔ چناچہ سورة البقرۃ کے نصف آخر میں عبادات ‘ احکام شریعت ‘ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کے چار مضامین چار لڑیوں کی مانند گتھے ہوئے ہیں۔ یہ چاروں لڑیاں تانے بانے کی طرح بنی ہوئی ہیں۔ لیکن اسی بنتی میں بہت بڑے بڑے پھول موجود ہیں۔ یہ پھول قرآن مجید کی عظیم ترین اور طویل آیات ہیں ‘ جن کی نمایاں ترین مثال آیت الکرسی کی ہے۔ ان عظیم آیات میں سے ایک آیت یہاں بیسویں رکوع کے آغاز میں آرہی ہے ‘ جسے میں نے آیت الآیات کا عنوان دیا ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی کسی اور آیت میں اس قدر مظاہر فطرت ( ) یکجا نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مظاہر فطرت کو اپنی آیات قرار دیتا ہے۔ آسمان اور زمین کی تخلیق ‘ رات اور دن کا الٹ پھیر ‘ آسمان کے ستارے اور زمین کی نباتات ‘ یہ سب آیات ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ‘ لیکن یہاں بہت سے مظاہر فطرت کو جس طرح ایک آیت میں سمو یا گیا ہے یہ حکمت قرآنی کا ایک بہت بڑا پھول ہے جو ان چار لڑیوں کی بنتی کے اندر آگیا ہے۔ - آیت ١٦٤ (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ ) (وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ ) - (وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ ) (فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا) - بے آب وگیاہ زمین پڑی تھی ‘ بارش ہوئی تو اسی میں سے روئیدگی آگئی۔ - (وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص ) (وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ) - ہواؤں کی گردش کے مختلف انداز اور مختلف پہلو ہیں۔ کبھی شمالاً جنوباً چل رہی ہے ‘ کبھی مشرق سے آرہی ہے ‘ کبھی مغرب سے آرہی ہے۔ اس گردش میں بڑی حکمتیں کارفرما ہیں۔- (وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ) (لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) ۔ - ان مظاہر فطرت کو دیکھو اور ان کے خالق اورّ مدبر کو پہچانو ان آیات آفاقی پر غور و فکر اور ان کے خالق کو پہچاننے کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے اور جس تک عام طور پر لوگ نہیں پہنچ پاتے اب اگلی آیت میں اس کا تذکرہ ہے۔ نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ پھر محبوب اللہ ہی ہو ‘ شکر اسی کا ہو ‘ اطاعت اسی کی ہو ‘ عبادت اسی کی ہو۔ جب سورج میں اپنا کچھ نہیں ‘ اسے اللہ نے بنایا ہے اور اسے حرارت عطا کی ہے ‘ چاند میں کچھ نہیں ‘ ہوائیں چلانے والا بھی وہی ہے تو اور کسی شے کے لیے کوئی شکر نہیں ‘ کوئی عبادت نہیں ‘ کوئی ڈنڈوت نہیں ‘ کوئی سجدہ نہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہی مطلوب و مقصود بن جائے ‘ وہی محبوب ہو۔ لَا مَحْبُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ‘ لَا مَقْصُوْدَ الاَّ اللّٰہُ ‘ لَا مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ جن لوگوں کی یہاں تک رسائی نہیں ہو پاتی وہ کسی اور شے کو اپنا محبوب و مطلوب بنا کر اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ خدا تک نہیں پہنچے تو ع اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں کے مصداق اپنے نفس ہی کو معبود بنا لیا اور خواہشات نفس کی پیروی میں لگ گئے۔ کچھ لوگوں نے اپنی قوم کو معبود بنا لیا اور قوم کی برتری اور سربلندی کے لیے جانیں بھی دے رہے ہیں۔ بعض نے وطن کو معبود بنا لیا۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے سمجھا ہے کہ اس دور کا سب سے بڑا بت وطن ہے۔ ان کی نظم وطنیّت ملاحظہ کیجیے : - اِس دور میں مَے اور ہے ‘ جام اور ہے ‘ جم اور ساقی - نے بنا کی روش لطف و ستم اور - تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور - مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور - اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے - جوپیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے - اگلی آیت میں تمام معبودان باطل کی نفی کر کے ایک اللہ کو اپنا محبوب اور مطلوب و مقصود بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :162 یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو ، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے ، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے ، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادر مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے ، تمام اختیار و اقتدار بالکل اسی ایک کے ہاتھ میں ہے ، کسی دُوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظام میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں ، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کا خدا ہے ، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اُلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو ۔
105: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ کائنات کے ان حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے پھیلے پڑے ہیں اور اگر ان پر معقولیت کے ساتھ غور کیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں ؛ چونکہ روزہ مرہ ان کو دیکھتے دیکھتے ہماری نگاہیں ان کی عادی ہوگئی ہیں، اس لئے ان میں کوئی حیرت کی بات ہمیں محسوس نہیں ہوتی ورنہ ان میں سے ایک ایک چیز ایسے محیرالعقول نظام کا حصہ ہے جس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سوا کائنات کی کسی طاقت کے بس میں نہیں ہے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات جس طرح کام کررہی ہیں، چاند اور سورج جس طرح ایک لگے بندھے نظام الاوقات کے تحت دن رات سفر میں ہیں، سمندر جس طرح نہ صرف پانی کا ذخیرہ کئے ہوئے ہے ؛ بلکہ کشتیوں کے ذریعے خشکی کے مختلف حصوں کو جوڑے ہوئے ہے اور ان کی ضرورت کاسامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کررہا ہے، بادل اور ہوائیں جس انداز میں انسانوں کی زندگی کا سامان مہیا کررہے ہیں ان سب چیزوں کے بارے میں بدترین حماقت کے بغیر یہ سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود کسی خالق کے بغیر ہورہا ہے، مشرکین عرب بھی یہ مانتے تھے کے یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے ؛ لیکن ساتھ ہی وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان تمام کاموں میں کئی دیوتا اس کے مددگار ہیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جس ذات کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ یہ سارا نظام کائنات اس نے بلا شرکت غیرے پیدا کردیا ہے آخر اسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے کسی شریک یا مددگار کی کیا ضرورت ہے، لہذا جو شخص بھی اپنی عقل کو کام میں لائے گا اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی توحید نظر آئے گی۔