روزی دینے والا کون؟ اوپر چونکہ توحید کا بیان ہوا تھا اس لئے یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ تمام مخلوق کا روزی رساں بھی وہی ہے ، فرماتا ہے کہ میرا یہ احسان بھی نہ بھولو کہ میں نے تم پر پاکیزہ چیزیں حلال کیں جو تمہیں لذیذ اور مرغوب ہیں جو نہ جسم کو ضرر پہنچائیں نہ صحت کو نہ عقل و ہوش کو ضرر دیں ، میں تمہیں روکتا ہوں کہ شیطان کی راہ پر نہ چلو جس طرح اور لوگوں نے اس کی چال چل کر بعض حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں ، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے میں نے جو مال اپنے بندوں کو دیا ہے اسے ان کے لئے حلال کر دیا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیطان نے اس دین حنیف سے انہیں ہٹا دیا اور میری حلال کردہ چیزوں کو ان پر حرام کر دیا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جس وقت اس آیت کی تلاوت ہوئی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا حضور میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے ، آپ نے فرمایا اے سعد پاک چیزیں اور حلال لقمہ کھاتے رہو ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے حرام کا لقمہ جو انسان اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے اس کی نحوست کی وجہ سے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی جو گوشت پوست حرام سے پلا وہ جہنمی ہے ۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو اسکی اور اس کے دوستوں کی تو یہ عین چاہت ہے کہ لوگوں کو عذاب میں جھونکیں اور جگہ فرمایا آیت ( اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا ) 18 ۔ الکہف:50 ) کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو؟حالانکہ حقیقتا وہ تمہارا دشمن ہے ظالموں کے لئے برا بدلہ ہے آیت ( خطوات الشیطان ) سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت ہے جس میں شیطان کا بہکاوا شامل ہوتا ہے شعبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کرے گا حضرت مسروق کے پاس جب یہ واقعہ پہنچا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ وہ شخص ایک مینڈھا ذبح کر دے ورنہ نذر شیطان کے نقش قدم سے ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک دن بکرے کا پایا نمک لگا کر کھا رہے تھے ایک شخص جو آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ ہٹ کر دور جا بیٹھا ، آپ نے فرمایا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھاؤنگا آپ نے پوچھا کیا روزے سے ہو؟ کہا نہیں میں تو اسے اپنے اوپر حرام کر چکا ہوں آپ نے فرمایا یہ شیطان کی راہ چلنا ہے اپنے قسم کا کفارہ دو اور کھا لو ، ابو رافع کہتے ہیں ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ کہنے لگی کہ میں ایک دن یہودیہ ہوں ایک دن نصرانیہ ہوں اور میرے تمام غلام آزاد ہیں اگر تو اپنی بیوی کو طلاق نہ دے ، اب میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ پوچھنے آیا اس صورت میں کیا کیا جائے؟ تو آپ نے فرمایا شیطان کے قدموں کی پیروی ہے ، پھر میں حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور اس وقت مدینہ بھر میں ان سے زیادہ فقیہ عورت کوئی نہ تھی میں نے ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا یہاں بھی یہی جواب ملا ، عاصم اور ابن عمر نے بھی یہی فتویٰ ، حضرت ابن عباس کا فتویٰ ہے کہ جو قسم غصہ کی حالت کھائی جائے اور جو نذر ایسی حالت میں مانی جائے وہ شیطانی قدم کی تابعداری ہے اس کا کفارہ قسم کے کفارے برابر دے دے ۔ پھر فرمایا کہ شیطان تمہیں برے کاموں اور اس سے بھی بڑھ کر زناکاری اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ سے ان باتوں کو جوڑ لینے کو کہتا ہے جن کا تمہیں علم نہ ہو ان باتوں کو اللہ سے متعلق کرتا ہے جن کا اسے علم بھی نہیں ہوتا ، لہذا ہر کافر اور بدعتی ان میں داخل ہے جو برائی کا حکم کرے اور بدی کی طرف رغبت دلائے ۔
168۔ 1 یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔ جس طرح مشرکین نے کیا اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو وہ حرام کرلیتے تھے، جس کی تفصیل سورة الا نعام میں آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف پیدا کیا پس شیطان نے ان کو دین سے گمراہ کردیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں وہ اس نے ان پر حرام کردیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا باب الصفات التی یعرف بھافی الدنیا اھل الجنۃ واھل النار
[٢٠٨] حلال سے مراد ایک تو وہ سب چیزیں ہیں جنہیں شریعت نے حرام قرار نہیں دیا۔ دوسرے وہ جنہیں انسان اپنے عمل سے حرام نہ بنا لے۔ جیسے چوری کی مرغی یا سود اور ناجائز طریقوں سے کمایا ہوا مال اور پاکیزہ سے مراد وہ صاف ستھری چیزیں ہیں جو گندی سٹری، باسی اور متعفن نہ ہوگئی ہوں۔ حرام چیزوں سے بچنے کی احادیث میں بہت تاکید آئی ہے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔- ١۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے لوگو اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک مال قبول کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا : چناچہ فرمایا آیت یٰایُّھَا الرُّسُلُ ۔۔ (اے پیغمبرو پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو اور فرمایا اے ایمان والو پاکیزہ چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کر کے آیا ہو، اس کے بال پریشان اور خاک آلود ہوں وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے پروردگار اے میرے پروردگار جبکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور جس غذا سے اس کا جسم بنا ہے وہ بھی حرام ہے تو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی ؟ (ترمذی، ابو اب التفسیر) (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب قبول الصدقۃ من کسب الطیب) - ٢۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ گوشت جو مال حرام سے پروان چڑھا ہے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو بھی گوشت حرام سے پروان چڑھا اس کے لیے جہنم ہی لائق تر ہے۔ (احمد، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال فصل ثانی) - ٣۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص حرام مال کمائے اور پھر اس سے صدقہ کرے تو وہ صدقہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی۔ (احمد، بحوالہ مشکوٰاۃ، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، فصل ثانی) - ٤۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ کمائی سے ہی صدقہ قبول کرتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب بیان ان اسم الصدقہ یقع علی کل نوع من المعروف) - ٥۔ حضرت نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں کہتے سنا ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اب جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو مشتبہ چیزوں میں پڑگیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو کسی کی رکھ کے گرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ رکھ میں جا گھسیں۔ سن لو ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے۔ سن لو اللہ کی رکھ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبراء لدینہ (مسلم، کتاب المساقاۃ باب اخذ الحلال و ترک الشبہات) - ٦۔ عطیہ سعدی (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک اندیشہ والی چیزوں سے بچنے کی خاطر ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں کوئی اندیشہ نہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال) - ٧۔ حضرت حسن بن علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات یاد رکھی ہے کہ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ اور وہ اختیار کر جو شک میں نہیں ڈالتی۔ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال) - ٨۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو مال اس کے ہاتھ آیا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب مالم یبال من حیث کسب المال) - [ ٢٠٩] یہاں شیطان کے پیچھے چلنے سے مراد یہ ہے جو چیزیں اللہ نے حرام نہیں کیں انہیں حرام نہ سمجھ لو، جیسے مشرکین عرب بتوں کے نام سانڈ چھوڑ دیتے تھے۔ پھر ان جانوروں کا گوشت کھانا یا ان سے کسی طرح کا بھی نفع اٹھانا حرام سمجھتے تھے یا کسی مخصوص کھانے پر اپنی طرف سے پابندیاں عائد کر کے اسے حرام قرار دے لیتے تھے۔ یہی صورت کسی حرام چیز کو حلال قرار دینے کی ہے۔ جیسے یہود نے سود کو حلال قرار دے لیا تھا۔ امیوں کا مال کھانا جائز سمجھتے تھے اور یہ شرک ہے۔ کیونکہ حلال و حرام قرار دینے کے جملہ اختیارات اللہ کو ہیں۔ نیز آپ ہیں۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے قریب میری امت میں سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو شراب کا کوئی دوسرا نام رکھ کر اس کو حلال بنالیں گے۔ (بخاری، کتاب الاشربہ، باب فیمن یستحل الخمر ویسمیہ بغیراسمہ) اور ابو مالک کہتے ہیں کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ریشم، شراب اور باجے گاجے وغیرہ کے دوسرے نام رکھ کر انہیں حلال بنالیں گے۔ (حوالہ ایضاً ) اور ایسی سب باتیں اللہ کی صفات میں شرک کے مترادف ہیں۔ کیونکہ حلت و حرمت کے جملہ اختیارات اللہ ہی کو ہیں۔
سورة بقرہ میں ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ کے ساتھ خطاب دوسری مرتبہ کیا گیا ہے۔ اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو ” انداد “ (شریک) بنانے کا برا انجام ذکر کیا گیا ہے۔ مشرکین ان ” انداد “ کی تعظیم و تکریم میں اتنی زیادتی کرتے کہ عبادت اور دعا میں بھی ان کو پکارتے اور ان کے نام پر بہت سے مویشی مثلاً بحیرہ، سائبہ، وصیلہ وغیرہ حرام قرار دے دیتے، ان پر نہ سواری کرتے اور نہ ان کا گوشت کھاتے اور ان کو اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ سمجھتے (دیکھیے انعام : ١٣٨، ١٣٩) اور دوسری طرف انھوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرایا تھا، مثلاً مردار، خون، خنزیر اور غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز۔ چناچہ اس آیت میں اس طرح کے حرام ٹھہرا لینے سے منع فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا، یعنی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے بچو اور اس کی حلال کردہ طیب چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ، کیونکہ اسلام تب معتبر ہوگا جب کوئی شخص مسلمانوں کی حلال اشیاء کو حرام نہیں ٹھہرائے گا، جیسا کہ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے وہ نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اس قبلے کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے۔ “ [ بخاری، الصلٰوۃ، باب فضل استقبال القبلۃ : ٣٩١ ] چناچہ یہاں بھی فرمایا کہ شیطان کے پیچھے لگ کر ان کو حرام نہ ٹھہراؤ، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی ہر نافرمانی اور دین میں شامل کی ہوئی ہر وہ بات جو اللہ اور اس کے رسول نے نہیں بتائی، یعنی ہر بدعت شیطان کے قدموں کی پیروی ہے۔
خلاصہ تفسیر :- (بعض مشرکین بتوں کے نام جانور چھوڑتے تھے اور ان سے منتفع ہونے کو باعتقاد ان کی تعظیم کے حرام سمجھتے تھے اور اپنے اس فعل کو حکم الہی اور موجب رضائے حق و وسیلہ تقرب الی اللہ بواسطہ شفاعت ان بتوں کے سمجھتے تھے، حق تعالیٰ اس باب میں خطاب فرماتے ہیں کہ) اے لوگو جو چیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے (شرعی) حلال پاک چیزوں (کی نسبت اجازت ہے کہ ان کو کھاؤ (برتو) اور (ان میں سے کسی حلال چیز سے یہ سمجھ کر پرہیز کرنا کہ اس سے اللہ راضی ہوگا یہ سب شیطانی خیالات ہیں تم) شیطان کے قدم بقدم مت چلو فی الواقع وہ (شیطان) تمہارا صریح دشمن ہے (کہ ایسے ایسے خیالات وجہالات سے تم کو خسران ابدی میں گرفتار کر رکھا ہے اور دشمن ہونے کی وجہ سے) وہ تم کو انہی باتوں کی تعلیم کرے گا جو کہ (شرعا) بری اور گندی ہیں اور یہ (بھی تعلیم کرے گا) کہ اللہ کے ذمہ وہ باتیں لگاؤ جن کی تم سند بھی نہیں رکھتے (مثلا یہی کہ ہم کو خدا تعالیٰ کا اس طرح حکم ہے) - معارف و مسائل :- حَلٰلًا طَيِّبًا لفظ حل کے اصلی معنی گرہ کھولنے کے ہیں جو چیز انسان کے لئے حلال کردی گئی گویا ایک گرہ کھول دی گئی اور پابندی ہٹا دی گئی۔ حضرت سہل بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ نجات تین چیزوں میں منحصر ہے، حلال کھانا، فرائض ادا کرنا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی اتباع کرنا اور لفظ طیب کے معنی ہیں پاکیزہ جس میں شرعی حلال ہونا بھی داخل ہے اور طبعی مرغوب ہونا بھی خُطُوٰتِ خطوہ کی جمع ہے اتنی مقدار کو خطوہ کہتے ہیں جو دونوں قدموں کے درمیان کا فاصلہ ہے خطوات شیطان سے مراد شیطانی اعمال و افعال ہیں۔- مسئلہ : سانڈ وغیرہ جو بتوں کے نام پر چھوڑ دئیے جاتے ہیں یا اور کوئی جانور مرغا بکرا وغیرہ کسی بزرگ یا اور کسی غیر اللہ کے نامزد کردیا جاتا ہے اس کا حرام ہونا ابھی چار آیتوں کے بعد وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کے تحت آنے والا ہے اس آیت يٰٓاَيُّهَا النَّاس میں ایسے جانور کے حرام ہونے کی نفی کرنا منظور نہیں جیسا کہ بعضوں کو شبہ ہوگیا بلکہ مقصد اس فعل کی حرمت و ممانعت ہے کہ غیر اللہ کے تقرب کے لئے جانوروں کو چھوڑ دینا اور اس عمل کو موجب برکت و تقرب سمجھنا اور ان جانوروں کو اپنے اوپر حرام کرلینے کا معاہدہ کرلینا اس کو دائمی سمجھنا یہ سب افعال ناجائز اور ان کا کرنا گناہ ہے۔- تو حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ جن جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے حلال بنایا ہے ان کو بتوں کے نام کرکے حرام نہ بناؤ بلکہ اپنی حالت پر چھوڑ کر کھاؤ پیو اور اگر ایسی حرکت جہالت سے ہوجائے تو اصلاح نیت کے ساتھ تجدید ایمان اور توبہ کرکے اس حرمت کو ختم کرو اس طرح ان جانوروں کو تعظیماً حرام قرار دینا تو گناہ ہوا مگر غیر اللہ کے نام پر کردینے سے یہ مردار اور نجس کے حکم میں ہوگیا، نجاست کی وجہ سے حرمت ثابت ہوگئی، - مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے جہالت یا غفلت سے کسی جانور کو کسی غیر اللہ کے ساتھ نامزد کرکے چھوڑ دیا تو اس کی توبہ یہی ہے کہ اپنے اس خیال حرمت سے رجوع کرے اور اس فعل سے توبہ کرے تو پھر اس کا گوشت حلال ہوجائے گا، واللہ اعلم۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ٠ؗۖ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ٠ ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ١٦٨- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- خطو - خَطَوْتُ أَخْطُو خَطْوَةً ، أي : مرّة، والخُطْوَة ما بين القدمین قال تعالی: وَلا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ [ البقرة 168] ، أي : لا تتّبعوه، وذلک نحو قوله : وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى [ ص 26] .- ( ح ط و ) خطوت آخطوۃ کے معنی چلنے کے لئے قدم اٹھانے کے ہیں خطوۃ ایک بار قدم اٹھانا الخطوۃ کی جمع خطوت اتی ہے ۔ قرآن میں ہے ولا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ [ البقرة 168] اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ۔ یعنی شیطان کی اتباع نہ کرو ۔ اور یہ آیت کریمہ : وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى [ ص 26] اور خواہش کی کی طرح ہے ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - مبین بَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔
(١٦٨۔ ١٦٩) اب اللہ تعالیٰ کھیتی اور جانوروں کے حلال ہونے کو بیان فرماتے ہیں، اے مکہ والو کھیتی اور ان جانوروں کو کھاؤ، جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی قسم کی کوئی حرمت نہیں بیان کی گئی ہے، اور کھیتی اور حلال جانوروں کے اپنے اوپر حرام کرنے میں شیطان کی ملمع کاری اور اس کے وسوسوں اور خیالات کا کی پیروی نہ کرو، اس کی دشمنی واضح اور ظاہر ہے، شیطان برے کام اور گناہوں اور ایسے امور میں جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتا ہے۔
آیت ١٦٨ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًاز) (وَّلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط) (اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ) - یہ بحث دراصل سورة الانعام میں زیادہ وضاحت سے آئے گی۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ بتوں کے نام پر کوئی جانور چھوڑ دیتے تھے ‘ جس کو ذبح کرنا وہ حرام سمجھتے تھے۔ ایسی روایات ہندوؤں میں بھی تھیں جنہیں ہم نے بچپن میں دیکھا ہے۔ مثلاً کوئی سانڈ چھوڑ دیا ‘ کسی کے کان چیر دیے کہ یہ فلاں بت کے لیے یا فلاں دیوی کے لیے ہے۔ ایسے جانور جہاں چاہیں منہ ماریں ‘ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ظاہر ہے ان کا گوشت کیسے کھایا جاسکتا تھا تو عرب میں بھی یہ رواج تھے اور ظہور اسلام کے بعد بھی ان کے کچھ نہ کچھ اثرات ابھی باقی تھے۔ آباء و اَجداد کی رسمیں جو قرنوں سے چلی آرہی ہوں وہ آسانی سے چھوٹتی نہیں ہیں ‘ کچھ نہ کچھ اثرات رہتے ہیں۔ جیسے آج بھی ہمارے ہاں ہندوانہ اثرات موجود ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ مشرکانہ توہماتّ کی بنیاد پر تمہارے مشرک باپ دادا نے اگر کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تھا اور کچھ کو حلال قرار دے لیا تھا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم شیطان کی پیروی میں مشرکانہ توہمات کے تحت اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام مت ٹھہراؤ۔ جو چیز بھی اصلاً حلال اور پاکیزہ و طیب ہے اسے کھاؤ۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :166 یعنی کھانے پینے کے معاملے میں ان تمام پابندیوں کو توڑ ڈالو جو توہمّات اور جاہلانہ رسموں کی بنا پر لگی ہوئی ہیں ۔
106: مشرکینِ عرب کی ایک گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے کسی آسمانی تعلیم کے بغیر مختلف چیزوں کے بارے میں حلال وحرام کے فیصلے خود گھڑ رکھے تھے مثلا مردار جانور کو کھانا ان کے نزدیک جائز تھا، مگر بہت سے حلال جانوروں کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا، جس کی تفصیل اِن شاء اﷲ سورۂ انعام میں آئے گی، یہ آیات ان کی اسی گمراہی کی تردید میں نازل ہوئی ہیں۔