Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حلال اور حرام کیا ہے؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو اور میری شکر گزاری کرو ، لقمہ حلال دعا عبادت کی قبولیت کا سبب ہے اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا ، مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ پاک چیز کو قبول فرماتا ہے اس نے رسولوں کو اور ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ پاک چیزیں کھائیں اور نیک اعمال کریں فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ) 23 ۔ المؤمنون:51 ) اور فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:172 ) پھر آپ نے فرمایا کہ ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے وہ پراگندہ بالوں والا غبار آلود ہوتا ہے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاکر دعا کرتا ہے اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے لیکن اس کا کھانا پینا لباس اور غذا سب حرام کے ہیں اس لئے اس کی اس وقت کی ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی حلال چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد حرام چیزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ تم پر مردار جانور جو اپنی موت آپ مر گیا ہو جسے شرعی طور پر ذبح نہ کیا گیا ہو حرام ہے خواہ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو یا لکڑی اور لٹھ لگنے سے مر گیا ہو کہیں سے گر پڑا ہو اور مر گیا ہو یا دوسرے جانوروں نے اپنے سینگ سے اسے ہلاک کر دیا ہو یا درندوں نے اسے مار ڈالا ہو یہ سب میتہ میں داخل ہیں اور حرام ہیں لیکن اس میں سے پانی کے جانور مخصوص ہیں وہ اگرچہ خود بخود مر جائیں تو بھی حلال ہیں ۔ آیت ( اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ) 5 ۔ المائدہ:96 ) اس کا پورا بیان اس آیت کی تفسیر میں آئے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ عنبر نامی جانور کا مرا ہوا ملنا اور صحابہ کا اسے کھانا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہونا اور آپ کا اسے جائز قرار دینا یہ سب باتیں حدیث میں ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے ، ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو مردے اور دو خون ہم پر حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی کلیجی اور تلی ، سورۃ مائدہ میں اس کا بیان تفصیل وار آئے گا ۔ انشاء اللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

172۔ 1 اس میں اہل ایمان کو ان تمام چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک ہیں حرام کردہ اشیاء پاک نہیں ہیں چاہے وہ اپنے نفس کو کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگیں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا پسند ہے) دوسرا یہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کرلیتے تھے (جس کی تفصیل سورة الا نعام میں ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو (حرام صرف وہی ہیں جس کی تفصیل اس کے بعد والی آیت میں ہے) تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو ادائے شکر کا اہتمام کرو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢١٤] آیت نمبر ١٦٩ میں خطاب عوام الناس سے تھا۔ اس آیت میں مومنوں سے ہے۔ اسی لیے انہیں تاکید کی جا رہی ہے کہ کھانے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کیا کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس سے پہلے سب لوگوں کو حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اہل ایمان کو حلال اور پاکیزہ روزی کھانے اور کمانے کا حکم دیا ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی دعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے لوگو بیشک اللہ طیب (پاک) ہے، طیب کے سوا کچھ قبول نہیں فرماتا، اس نے ایمان والوں کو اسی چیز کا حکم دیا جس کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا، چناچہ فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ) [ المؤمنون : ٥١ ] ” اے رسولو پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو، یقیناً میں اسے جو تم کرتے ہو، خوب جاننے والا ہوں۔ “ اور فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ) [ البقرۃ : ١٧٢ ] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، بکھرے بالوں والا ہے، گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے، آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے : ” اے میرے رب اے میرے رب “ (اور صورت حال یہ ہے کہ) اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور اسے جو غذا دی گئی ہے وہ بھی حرام تو بھلا اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی ؟ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب و تربیتہا : - ١٠١٥، عن أبی ہریرۃ (رض) ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اوپر اکل طیبات کے معاملہ میں مشرکین کی غلطی بتلا کر ان کی اصلاح مقصود تھی آگے اہل ایمان کو اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس غلطی میں مشرکین کی موافقت نہ کرنے لگیں اسی کے ضمن میں اہل ایمان کو اپنے انعامات کا ذکر اور اس پر ادائے شکر کی تعلیم بھی ہے۔- اے ایمان والو (ہماری طرف سے تم کو اجازت ہے کہ) جو (شرع کی رو سے) پاک چیزیں ہم نے تم کو مرحمت فرمائی ہیں ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ (برتو) اور (اس اجازت کے ساتھ یہ حکم ہے کہ) حق تعالیٰ کی شکر گذاری کرو (زبان سے بھی ہاتھ پاؤں سے خدمت وطاعت بجا لاکر بھی اور دل سے ان نعمتوں کو منجانب اللہ سمجھ کر بھی) اگر تم خاص ان کے ساتھ غلامی کا تعلق رکھتے ہو (اور یہ تعلق ہونا مسلم اور ظاہر ہے پس وجوب شکر بھی ثابت ہے) - ربط :- اوپر تو اس کا بیان تھا کہ حلال کو حرام مت کرو آگے یہ مذکور ہوتا ہے کہ حرام کو حلال مت سمجھو جیسا کہ مشرکین اس میں مبتلا تھے مثلاً مردار جانور اور ایسے جانور جن کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو مشرکین ان کو کھایا کرتے تھے اس سے منع کیا گیا اسی کے ضمن میں یہ بھی بتلا دیا کہ اللہ کے نزدیک فلاں فلاں جانور حرام ہیں ان کے سوا دوسرے جانوروں کو اپنی طرف سے حرام قرار دینا غلطی ہے اس سے پچھلے مضمون کی تائید ہوگئ۔- اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف (ان چیزوں کو) حرام کیا ہے (اور ان چیزوں کو حرام نہیں کیا جن کو تم اپنی طرف سے حرام کر رہے ہو جیسا کہ گذرا یعنی) مردار (جانور) کو (جو باوجود واجب الذبح ہونے کے بلا ذبح شرعی مرجاوے) اور خون کو (جو بہتا ہو) اور خنزیر کے گوشت کو (اسی طرح اس کے سب اجزاء کو بھی) اور ایسے جانور کو جو (بقصد تقرب) غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو (ان سب کو بیشک حرام کیا ہے) پھر بھی (اس میں اتنی آسانی رکھی ہے کہ جو شخص (بھوک سے بہت ہی) بیتاب ہوجاوے بشرطیکہ نہ تو (کھانے میں) طالب لذت ہو اور نہ (قدر ضرورت و حاجت سے) تجاوز کرنے والا ہو تو (اس حالت میں ان چیزوں سے کھانے میں بھی) اس شخص پر کچھ گناہ نہیں ہوتا واقعی اللہ تعالیٰ ہیں بڑے غفور ورحیم (کہ ایسے وقت میں یہ رحمت فرمائی کہ گناہ کی چیز میں بھی گناہ اٹھا دیا) - معارف و مسائل :- حلال کھانے کی برکت اور حرام کھانے کی نحوست :- آیات مذکورہ میں جیسے حرام کھانے کی ممانعت کی گئی ہے اسی طرح حلال طیب چیزوں کے کھانے اور اس پر شکر گذار ہونے کی ترغیب بھی ہے کیونکہ جس طرح حرام کھانے سے اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں عبادت کا ذوق جاتا رہتا ہے دعاء قبول نہیں ہوتی اسی طرح حلال کھانے سے ایک نور پیدا ہوتا ہے، اخلاق رذیلہ سے نفرت، اخلاق فاضلہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے، عبادت میں دل لگتا ہے گناہ سے دل گھبراتا ہے دعاء قبول ہوتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے سب رسولوں کو یہ ہدایت فرمائی ہے،- (آیت) يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا (٢٣: ٥١) اے ہمارے رسولو تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو،- اس میں اشارہ ہے کہ نیک عمل کرنے میں رزق حلال کو بڑا دخل ہے اسی طرح قبول دعا میں حلال کھانا معین اور حرام مانع قبول ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بہت سے لوگ طویل السفر پریشان حال اللہ کے سامنے دعاء کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر کھانا ان کا حرام، پینا ان کا حرام، لباس ان کا حرام، غذا ان کی حرام، ان حالات میں ان کی دعاء کہاں قبول ہوسکتی ہے (صحیح مسلم، ترمذی، از ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلہِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاہُ تَعْبُدُوْنَ۝ ١٧٢- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٢) اب اللہ تعالیٰ پھر مزید کھیتی اور جانوروں کے حلال ہونے کو بیان فرماتے ہیں یعنی کھیتی اور حلال جانوروں میں سے جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے کھاؤ اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اگر تم لوگ اسی ہی کی عبادت کرتے ہو ،- اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اگر تم ان چیزوں کی حمت اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرح سمجھتے ہو تو پھر ان چیزوں کو مت حرام جانو کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ان کو حلال سمجھنے میں ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٢ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ) (وَاشْکُرُوْا لِلّٰہِ ) (اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ) ۔ - جیسا کہ میں نے عرض کیا سورة الانعام میں یہ ساری چیزیں تفصیل سے آئیں گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :170 یعنی اگر تم ایمان لا کر صرف خدائی قانون کے پَیرو بن چکے ہو ، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر وہ ساری چھُوت چھات ، اور زمانہء جاہلیّت کی وہ ساری بندشیں اور پابندیاں توڑ ڈالو جو پنڈتوں اور پروہتوں نے ، ربّیوں اور پادریوں نے ، جوگیوں اور راہبوں نے اور تمہارے باپ دادا نے قائم کی تھیں ۔ جو کچھ خدا نے حرام کیا ہے اس سے تو ضرور بچو ، مگر جن چیزوں کو خدا نے حلال کیا ہے انہیں بغیر کسی کراہت اور رکاوٹ کے کھاؤ پیو ۔ اسی مضمون کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا کہ مَنْ صَلّٰی صَلوٰ تَنَا و َ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الخ یعنی جس نے وہی نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اسی قبلے کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کر تے ہیں اور ہمارے ذبیحے کو کھایا وہ مسلمان ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھنے اور قبلے کی طرف رخ کرنے کے باوجود ایک شخص اس وقت تک اسلام میں پوری طرح جذب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں پچھلی جاہلیّت کی پابندیوں کو توڑ نہ دے اور ان توہّمات کی بندشوں سے آزاد نہ ہو جائے جو اہل جاہلیّت نے قائم کر رکھی تھیں ۔ کیونکہ اس کا ان پابندیوں پر قائم رہنا اس بات کی علامت ہے کہ ابھی تک اس کی رگ و پے میں جاہلیّت کا زہر موجود ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani