مسئلہ مردار کا دودھ اور اس کے انڈے جو اس میں ہوں نجس ہیں امام شافعی کا یہی مذہب ہے اس لئے کہ وہ بھی میت کا ایک جزو ہے ، امام مالک رحمتہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ تو وہ پاک لیکن میت میں شامل کی وجہ سے جنس ہو جاتا ہے ، اسی طرح مردار کی کھیس ( کھیری ) بھی مشہور مذہب میں ان بزرگوں کے نزدیک ناپاک ہے گو اس میں اختلاف بھی ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہ کا مجوسیوں کا پنیر کھانا گو بطور اعتراض ان پر ہو سکتا ہے مگر اس کا جواب قرطبی نے یہ دیا ہے کہ دودھ بہت ہی کم ہوتا ہے اور کوئی بہنے والی ایسی تھوڑی سی چیز اگر کسی مقدار میں زیادہ بہنے والی میں بڑ جائے تو کوئی حرج نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی اور پنیر اور گور خر کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال بتایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا اور جس کا بیان نہیں وہ سب معاف ہیں ۔ پھر فرمایا تم پر سور کا گوشت بھی حرام ہے خواہ اسے ذبح کیا ہو خواہ وہ خود مر گیا ہو ، سور کی چربی کا حکم بھی یہی ہے اس لئے کہ چونکہ اکثر گوشت ہی ہوتا ہے اور چربی گوشت کے ساتھ ہی ہوتی ہے پس جب گوشت حرام ہوا تو چربی بھی حرام ہوئی ، دوسرے اس لئے بھی کہ گوشت میں ہی چربی ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ پھر فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے نام پر مشہور کی جائے وہ بھی حرام ہے جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ اپنے معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ، ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہئے اس لئے کہ وہ ایک تصویر کے لئے ذبح کیا گیا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہئے یا نہیں؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لئے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بےبس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے باغ اور عاد کی تفسیر میں حضرت مجاہد فرماتے ہیں ، ڈاکو راہزن مسلمان بادشاہ پر چڑھائی کرنے والا سلطنت اسلام کا مخالف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سفر کرنے والا سبھی کے لئے اس اضطرار کے وقت بھی حرام چیزیں حرام ہی رہتی ہیں ، غیر باغ کی تفسیر حضرت مقاتل بن حبان یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسے حلال سمجھنے والا نہ ہو اور اس میں لذت اور مزہ کا خواہشمند نہ ہو ، اسے بھون بھان کر لذیذ بنا کر اچھا پکا کر نہ کھائے بلکہ جیسا تیسا صرف جان بچانے کے لئے کھالے اور اگر ساتھ لے تو اتنا کہ زندگی کے ساتھ حلال چیز کے ملنے تک باقی رہ جائے جب حلال چیز مل گئی اسے پھینک دے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اسے خوب پیٹ بھر کر نہ کھائے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں جو شخص اس کے کھانے کے لئے مجبور کردیا جائے اور بے اختیار ہو جائے اس کا بھی یہی حکم ہے ، مسئلہ ایک شخص بھوک کے مارے بےبس ہو گیا ہے اسے ایک مردار جانور نظر پڑا اور کسی دوسرے کی حلال چیز بھی دکھائی دی جس میں نہ رشتہ کا ٹوٹنا ہے نہ ایذاء دہی ہے تو اسے اس دوسرے کی چیز کو کھا لینا چاہئے مردار نہ کھائے ، پھر آیا اس چیز کی قیمت یا وہی چیز اس کے ذمہ رہے گی یا نہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ رہے گی دوسرے یہ کہ نہ رہے گی ۔ نہ رہنے والے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے جو ابن ماجہ میں ہے ، حضرت عباد بن شرحبیل غزی کہتے ہیں ہمارے ہاں ایک سال قحط سالی پڑی میں مدینہ گیا اور ایک کھیت میں سے کچھ بالیں توڑ کر چھیل کر دانے چبانے لگا اور تھوڑی سی بالیں اپنی چادر میں باندھ کر چلا کھیت والے نے دیکھ لیا اور مجھے پکڑ کر مارا پیٹا اور میری چادر چھین لی ، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے واقعہ عرض کیا تو آپنے اس شخص کو کہا اس بھوکے کو نہ تو تو نے کھانا کھلایا نہ اس کے لئے کوئی اور کوشش کی نہ اسے کچھ سمجھایا سکھایا یہ بیچارہ بھوکا تھا نادان تھا جاؤ اس کا کپڑا واپس کرو اور ایک وسق یا آدھا وسق غلہ اسے دے دو ، ( ایک وسق چار من کے قریب ہوتا ہے ) ایک اور حدیث میں ہے کہ درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان سے میں کچھ کھا لے لیکر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بےبسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بےبسی اور اضطرار ہٹ جائے ، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لئے حلال ہے حضرت مسروق فرماتے ہیں اضطرار کے وقت بھی جو شخص حرام چیز نہ کھائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ ایسے وقت ایسی چیز کے کھانی ضروری ہے نہ کہ صرف رخصت ہی ہو ، یہی بات زیادہ صحیح ہے جیسے کہ بیمار کا روزہ چھوڑ دینا وغیرہ ۔
173۔ 1 اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے لیکن اسے کلمہ حصر (انما) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جو حرام ہیں۔ اس لئے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی حرام قرار دے لیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں حرام تو صرف یہ ہیں۔ اس لئے یہ حصر اضافی ہے یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرا حدیث میں دو اصول جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے بیان کر دئیے گئے ہیں وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں۔ درندوں میں ذوناب (وہ درندہ جو دانتوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذومخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں تیسرے جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے مثلا گدھا کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے نہ کہ حدیث کو نظر انداز کر کے صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد وہ حلال جانور ہے جو بغیر ذبح کیے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل المائدہ میں ہے) مرگیا ہو یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو مثلا گلا گھونٹ دیا جائے یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے یا جس طرح آجکل مشینی ذبح کا طریقہ ہے اس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں ایک مچھلی دوسری ٹڈی وہ اس حکم میتہ سے مستثنی ہیں خون سے مراد دم مسفوح ہے یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت۔ سور بےغیرتی میں بدترین جانور ہے اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے (وما اھل) وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جائیں جیسے مشرکین عرب لات وعزی وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے یا آگ کے نام پر جیسے مجوسی کرتے تھے۔ اور اسی میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت و محبت ان کی خوشنودی وتقرب حاصل کرنے کے لئے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پردے آتے ہیں (جیسے بہت سے بزرگوں کی قبروں پر بورڈ لگے ہوئے ہیں مثلا داتا صاحب کی نیاز کے لئے بکرے یہاں جمع کرائے جائیں ان جانوروں کو چاہے ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کیا جائے یہ حرام ہی ہونگے کیونکہ اس سے مقصود رضائے الہی نہیں رضائے اہل قبور اور تعظیم لغیر اللہ یا خوف یا رجاء میں غیر اللہ (غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے ڈر یا امید) ہے جو شرک ہے اسی طریقے سے جانوروں کے علاوہ جو اشیاء بھی غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کے اور چڑھاوے کی ہوں گی حرام ہوں گی جیسے قبروں پر لے جا کر یا وہاں سے خرید کر قبور کے اردگرد فقراء و مساکین پر دیگوں اور لنگروں کی یا مٹھائی اور پیسوں پر کی تقسیم یا وہاں صندوقچی میں نذر نیاز کے پیسے ڈالنا ہے یا عرس کے موقع پر وہاں دودھ پہنچانا یہ سب کام حرام اور ناجائز ہیں کیونکہ یہ سب غیر اللہ کی نذر و نیاز کی صورتیں ہیں اور نذر بھی نماز روزہ وغیرہ عبادات کی طرح ایک عبادت ہے اور عبادات کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی لئے حدیث میں ہے (ملعون من ذبح لغیر اللہ) صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ البانی ج 2 ص 1024) جس نے غیر اللہ کے نام جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے۔ تفسیر عزیزی میں بحوالہ تفسیر نیشابوری ہے اجمع العلماء لوان مسلما ذبح ذبیحۃ یرید بذبحھا التقرب الی غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد (تفسیر عزیزی ص 611 بحوالہ اشرف الحواشی علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔
[ ٢١٥] اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے :- ١۔ مردار خواہ وہ کسی طریقہ سے مرا ہو۔ طبعی موت سے یا کہیں گر کر یا لاٹھی لگنے سے یا سینگ کی ضرب سے یا کسی درندے نے مار ڈالا ہو۔ سب صورتوں میں حرام ہے۔- ٢۔ وہ خون جو ذبح کرتے وقت رگوں سے باہر نکل جاتا ہے اور جو گوشت کے ساتھ لگا رہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ دو مردار حلال ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی اور دو خون حلال ہیں۔ کلیجی اور تلی جو منجمد خون ہی ہوتا ہے۔ (احمد، بحوالہ مشکوٰۃ کتاب الصید والذبائح باب مایحل اکلہ ما یحرم فصل ثانی) - ٣۔ خنزیر یا سور جو نجس عین ہے۔ اس کا صرف گوشت کھانا ہی حرام نہیں بلکہ یہ زندہ یا مردہ اس کی کسی بھی چیز سے استفادہ جائز نہیں۔- ٤۔ ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر مشہور کردی جائے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے۔ نہ ذبح کا بلکہ ما کے لفظ میں عمومیت ہے۔ لہذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی بزرگ یا دیوی دیوتا کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی کی صحنک، مرشد کا بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں اور اگر وہ ذبح کرنے کا جانور ہے تو خواہ اس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ لیا جائے وہ حرام ہی رہے گا۔ بلکہ کسی دوسرے کی نیت رکھنے سے بھی وہ حرام ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ کی عطا کردہ چیزوں کی قربانی یا نذر و نیاز صرف اسی کے نام کی ہونی چاہیے۔ اس میں کسی دوسرے کو شریک نہ بنایا جائے۔- ہاں اگر کوئی شخص کچھ صدقہ و خیرات کرتا ہے یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا مرشد کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ ایک نیک عمل ہے۔ جو سنت سے ثابت ہے۔- [ ٢١٦] اس آیت میں حرام چیزوں کو استعمال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین شرائط بیان فرمائیں :- ١۔ اسے بھوک یا بیماری کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ لاحق ہو اور اس حرام چیز کا کوئی بدل موجود نہ ہو۔ - ٢۔ وہ اللہ کا باغی یا قانون شکن نہ ہو۔ یعنی جو چیز کھا رہا ہے۔ اسے حرام ہی سمجھ کر کھائے، حلال نہ سمجھے۔- ٣۔ اتنا ہی کھائے جس سے اس کی جان بچ سکے اور اس کے بعد اس کا بدل میسر آسکے۔- پھر اگر وہ غلط اندازے سے کچھ زیادہ بھی کھالے گا تو اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا۔ اور یہ غلطی جان کے تلف ہونے سے متعلق بھی ہوسکتی ہے اور خوراک کی مقدار کے متعلق بھی۔
(اِنَّمَا) کا لفظ حصر کے لیے آتا ہے، اس لیے آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ چار چیزیں حرام کی ہیں، ان کے سوا کچھ حرام نہیں اور دوسری آیت میں اس سے بھی صریح الفاظ میں یہ بات ذکر ہوئی ہے، فرمایا :- (قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۚ [ الأنعام : ١٤٥ ] ” کہہ دے میں اس وحی میں، جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا جسے وہ کھائے، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کہ بیشک وہ گندگی ہے، یا نافرمانی (کا باعث) ہو، جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو۔ “ یعنی آپ اعلان کردیں کہ میری وحی میں ان چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہیں، مگر اس پر اشکال یہ ہے کہ دوسری آیات و احادیث سے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کی حرمت ثابت ہے، مثلاً خمر یعنی ہر نشہ آور چیز اور درندے وغیرہ، تو یہاں صرف انھی چیزوں کو کیسے حرام کہا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تمام حلال و حرام کا ذکر نہیں، بلکہ ان مخصوص جانوروں کی بات ہو رہی ہے جنھیں مشرکین مکہ نے حرام کر رکھا تھا، جب کہ آیت میں مذکور چاروں حرام چیزوں سے وہ اجتناب نہیں برتتے تھے، اس لیے ان کے اس فعل کے بالمقابل انھیں بتایا گیا کہ اللہ کے نزدیک فلاں فلاں چیزیں حرام ہیں جن سے تم اجتناب نہیں کرتے اور جو اللہ کے نزدیک حلال ہیں ان سے تم پرہیز کرتے ہو، گویا یہاں صرف ان مشرکین کی نسبت سے اور ان کے بالمقابل بات کی گئی ہے۔ اسے عربی میں حصر اضافی کہتے ہیں۔ یہ حصر مطلق یعنی عام قاعدہ نہیں۔ - حرام و حلال سے متعلق قرآن و حدیث میں ان چار چیزوں کے علاوہ جو بنیادی احکام بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں : 1 سمندر کا ہر جانور خواہ زندہ پکڑا جائے یا مردہ، نام اس کا کچھ بھی ہو، حلال ہے۔ دیکھیے حاشیہ سورة مائدہ (٩٦) مراد اس سے پانی میں رہنے والے وہ جانور ہیں جو پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، خواہ سمندر میں ہوں، یا دوسری جگہ پانی میں، یعنی دریا وغیرہ میں۔ 2 خشکی کے جانوروں میں سے ہر کچلی والا درندہ اور پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ حرام ہے، ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں : ( اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَ عَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرٍ ) [ مسلم، الصید والذبائح، باب تحریم أکل کل ذی ۔۔ : ١٩٣٤ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر کچلی والے جانور اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں ( کے گوشت) کو حرام قرار دیا ہے۔ “ اس کے علاوہ حدیث میں جن جانوروں کو نام لے کر حرام کہا گیا ہے، مثلاً گھریلو گدھا، یا وہ جانور جنھیں جہاں ملیں مار دینے کا حکم ہے، یعنی سانپ، بچھو، چھپکلی، کوا، چیل وغیرہ۔ قرآن و حدیث میں حرام کردہ چیزوں کے علاوہ باقی سب چیزیں حلال ہیں۔ - آیت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٣) اور انعام (١٤٥) ۔
اِنَّمَا حَرَّمَ کلمہ انما حصر کے لئے آتا ہے اس لئے آیت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف وہ چیزیں حرام کی ہیں جن کا آگے ذکر کیا جاتا ہے اس کے سوا کچھ حرام نہیں اس آیت میں تو لفظ انما سے اس کی طرف اشارہ ہوا اور دوسری آیت میں اس سے زیادہ صراحت کے ساتھ یہ بھی آیا ہے، قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ الآیۃ (١٤٥: ٦) اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ میری وحی میں بجز ان چند چیزوں کے جن کا ذکر آگے کیا گیا ہے اور کوئی چیز حرام نہیں، - مگر اس پر اشکال یہ ہے کہ دوسری آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ان چند چیزوں کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کی حرمت ثابت ہے تو یہ حصر اور حرمت ماسوٰی کی نفی کیسے درست ہوگی ؟- جواب یہ ہے کہ یہاں مطلق حلال و حرام کا بیان نہیں بلکہ ان مخصوص جانوروں کی حلت و حرمت کا بیان ہے جن کے بارے میں مشرکین مکہ اپنے مشرکانہ عقائد کی غلطیاں کیا کرتے تھے پچھلی آیت میں اس کی وضاحت آچکی ہے کہ بہت سے حلال جانوروں کو مشرکین حرام سمجھ لیتے تھے یا اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے اس کی مخالفت کی گئی تھی اس کے بالمقابل یہاں یہ بتلایا گیا کہ اللہ کے نزدیک فلاں فلاں جانور حرام ہیں جن سے تم اجتناب نہیں کرتے اور جو اللہ کے نزدیک حلال ہیں ان سے پرہیز کرتے ہو اس لئے اس جگہ حصر مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے مشرکانہ عقائد کے بالمقابل۔- آگے اس آیت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ چار چیزیں یہ ہیں، - (١) میتہ (مردار) ، (٢) خون۔ (٣) لحم خنزیر، (٤) وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، پھر چاروں چیزوں کی مزید تشریحات خود قرآن کریم کی دوسری آیات اور احادیث صحیحہ میں آئی ہیں جن کو ملانے کے بعد ان چاروں چیزوں کے احکام حسب ذیل ہیں ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے، - میتہ : جس کو اردو میں مردار کہتے ہیں اس سے مراد وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے لئے ازروئے شرع ذبح کرنا ضروری ہے مگر وہ بغیر ذبح کے خود بخود مرجائے یا گلا گھونٹ کر یا کسی دوسری طرح چوٹ مار کر مار دیا جائے جو وہ مردار اور حرام ہے لیکن خود قرآن کریم کی دوسری آیت اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ (٩٦: ٥) سے معلوم ہوا کہ دریائی جانور کے لئے ذبح کرنا شرط نہیں وہ بلا ذبح بھی جائز ہے اس بناء پر احادیث صحیحہ میں مچھلی اور ٹڈی کو میتہ سے مستثنیٰ قرار دے کر حلال کیا گیا ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمارے لئے دو مردار حلال کردئیے گئے ایک مچھلی دوسرے ٹڈی اور دو خون حلال کردئیے گئے جگر اور طحال (ابن کثیر از احمد، ابن ماجہ، دارقطنی) - معلوم ہوا کہ جانوروں میں سے مچھلی اور ٹڈی بغیر ذبح کے حلال ہیں، خواہ وہ خود مرجائیں یا کسی کے مارنے سے مرجائیں البتہ جو مچھلی سڑ جانے کی وجہ سے خود پانی کے اوپر آجائے وہ حرام ہے (جصاص) - اسی طرح وہ شکاری جانور جو قابو میں نہیں کہ ذبح کرلیا جائے اور اس کو بھی بسم اللہ پڑھ کر تیر وغیرہ دھاردار چیز سے زخم لگا دیں تو بغیر ذبح کے حلال ہوجاتا ہے مطلقا زخمی ہوجانا کافی نہیں کسی آلہ جارحہ تیز دھار سے زخمی ہونا شرط ہے،- بندوق کی گولی سے شکار :- مسئلہ : بندوق کی گولی سے کوئی جانور زخمی ہو کر قبل ذبح مرجائے تو وہ ایسا ہے جیسے پتھر یا لاٹھی مارنے سے مرجائے جس کو قرآن کریم کی دوسری آیت میں موقوذۃ کہا گیا ہے اور حرام قرار دیا ہے ہاں مرنے سے پہلے اس کو ذبح کرلیا جائے تو حلال ہوجائے گا۔- مسئلہ : آج کل بندوق کی ایک گولی نوکدار بنائی گئی ہے اس کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ تیر کے حکم میں ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ بھی تیر کی طرح آلہ جارحہ نہیں بلکہ خارقہ ہے جس سے بارود کی طاقت کے ذریعہ گوشت پھٹ جاتا ہے ورنہ خود اس میں کوئی دھار نہیں جس سے جانور زخمی ہوجائے اس لئے ایسی گولی کا شکار بھی بغیر ذبح کے جائز نہیں۔- مسئلہ : آیت مذکورہ میں مطلقًا میتہ کو حرام قرار دیا ہے اس لئے جس طرح اس کا گوشت کھانا حرام ہے اس کی خریدو فروخت بھی حرام ہے یہی حکم تمام نجاسات کا ہے کہ جیسے ان کا استعمال حرام ہے ان کی خریدو فروخت اور ان سے نفع اٹھانا بھی حرام ہے یہاں تک کہ مردار جانور یا ناپاک کوئی چیز باختیار خود جانور کو کھلانا بھی جائز نہیں ہاں ایسی جگہ رکھ دے کہ جہاں سے کوئی کتا بلی خود کھالے یہ جائز ہے مگر خود اٹھا کر ان کو کھلانا جائز نہیں (جصاص، قرطبی وغیرہ) - مسئلہ : اس آیت میں میتہ کے حرام ہونے کا حکم عام معلوم ہوتا ہے جس میں میتہ کے تمام اجزاء شامل ہیں لیکن دوسری آیت میں اس کی تشریح طاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ کے الفاظ سے کردی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردار جانور کے وہ اجزاء حرام ہیں جو کھانے کے قابل ہیں، اس لئے مردار جانور کی ہڈی، بال جو کھانے کی چیز نہیں وہ پاک ہیں اور ان کا استعمال جائز ہے آیت قرآن کریم وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ (٨٠: ١٦) میں ان جانوروں کے بالوں کو مطلقاً جائز الانتفاع قرار دیا ہے ذبیحہ کی شرط نہیں (جصاص) - کھال پر چونکہ خون وغیرہ کی نجاست لگی ہوتی ہے اس لئے وہ دباغت سے پہلے حرام ہے مگر دباغت دینے کے بعد حلال اور جائز ہے احادیث صحیحہ میں اس کی مزید تصریح موجود ہے (جصاص) - مسئلہ : مردار جانور کی چربی اور اس سے بنائی ہوئی چیزیں بھی حرام ہیں ان کا استعمال کسی طرح سے جائز نہیں اور خریدو فروخت بھی حرام ہے،- مسئلہ : یورپ وغیرہ سے آئی ہوئی چیزیں صابون وغیرہ جن میں چربی استعمال ہوتی ہے ان سے پرہیز کرنا احتیاط ہے مگر مردار کی چربی ہونے کا علم یقینی نہ ہونے کی وجہ سے گنجائش ہے نیز اس وجہ سے بھی کہ بعض صحابہ کرام ابن عمر، ابوسعید خدری، ابو موسیٰ اشعری نے مردار کی چربی کا صرف کھانے میں استعمال حرام قرار دیا ہے خارجی استعمال کی اجازت دی ہے اس لئے اس کی خریدو فروخت کو بھی جائز رکھا ہے (جصاص) - مسئلہ : دودھ کا پنیر بنانے میں ایک چیز استعمال کی جاتی ہے جس کو عربی زبان میں انفَحہ کہا جاتا ہے یہ جانور کے پیٹ سے نکالی جاتی ہے اس کو دودھ میں شامل کرنے سے دودھ جم جاتا ہے اب اگر یہ جانور اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا ہو تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں مذبوح جانور کا گوشت چربی وغیرہ سب حلال ہیں لیکن غیر مذبوح جانور کے پیٹ سے لیا جائے تو اس میں فقہا کا اختلاف ہے امام اعظم ابوحنفیہ اور امام مالک اس کو پاک قرار دیتے ہیں لیکن صاحبین امام ابو یوسف ومحمد اور ثوری وغیرہ اس کو ناپاک کہتے ہیں (جصاص، قرطبی) - یورپ اور دوسرے غیر اسلامی ملکوں سے جو پنیر بنا ہوا آتا ہے اس میں غیر مذبوح جانوروں کا انفحہ استعمال ہونے کا احتمال غالب ہے اس لئے جمہور فقہاء کے قول پر اس سے پرہیز کرنا چاہئے امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک کے قول پر گنجائش ہے ہاں یورپ سے آئے ہوئے بعض پنیر ایسے بھی جن میں خنزیر کی چربی استعمال ہوتی ہے اور ڈبہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے وہ قطعا حرام اور نجس ہیں، - خون کے مسائل :- دوسری چیز جو آیت مذکورہ میں حرام قرار دی گئی ہے وہ خون ہے لفظ دم بمعنی خون اس آیت میں اگرچہ مطلق ہے مگر سورة انعام کی آیت میں اس کے ساتھ مسفوح یعنی بہنے والا ہونے کی شرط ہے، (آیت) او دما مسفوحا (١٤٥: ٦) اس لئے باتفاق فقہاء خون منجمد جیسے گردہ تلی وغیرہ وہ حلال اور پاک ہیں، - مسئلہ : جب کہ حرام صرف بہنے والا خون ہے تو جو خون ذبح کے بعد گوشت میں لگا رہ جاتا ہے وہ پاک ہے فقہاء و صحابہ وتابعین اور امت کا اس پر اتفاق ہے اسی طرح مچھر، مکھی، کھٹمل وغیرہ کا خون بھی ناپاک نہیں لیکن زیادہ ہوجائے تو اس کو بھی دھونا چاہیں (جصاص) - مسئلہ : جس طرح خون کا کھانا پینا حرام ہے اسی طرح اس کا خارجی استعمال بھی حرام ہے اور جس طرح تمام نجاسات کی خریدو فروخت بھی اور اس سے نفع اٹھانا حرام ہے اسی طرح خون کی خریدو فروخت بھی حرام ہے اس سے حاصل کی ہوئی آمدنی بھی حرام ہے کیونکہ الفاظ قرآنی میں مطلقا دم کو حرام فرمایا ہے جس میں اس کے استعمال کی تمام صورتیں شامل ہیں، - مریض کو دوسرے کا خون دینے کا مسئلہ :- تحقیق اس مسئلہ کی یہ ہے کہ انسانی خون انسان کا جزء ہے اور جب بدن سے نکال لیا جائے تو وہ نجس بھی ہے اس کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ ایک انسان کا خون دوسرے کے بدن میں داخل کرنا دو وجہ سے حرام ہو، اول اس لئے کہ اعضاء انسانی کا احترام واجب ہے اور یہ اس احترام کے منافی ہے دوسرے اس لئے کہ خون نجاست غلیظہ ہے اور نجس چیزوں کا استعمال ناجائز ہے،- لیکن اضطراری حالات اور عام معالجات میں شریعت اسلام کی دی ہوئی سہولتوں میں غور کرنے سے امور ذیل ثابت ہوئے،- اول یہ کہ خون اگرچہ جزء انسانی ہے مگر اس کو کسی دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لئے اعضاء انسانی میں کانٹ چھانٹ اور آپریشن کی ضرورت پیش نہیں آتی، انجکشن کے ذریعہ خون نکالا اور دوسرے کے بدن میں ڈالا جاتا ہے اس لئے اس کی مثال دودھ کی سی ہوگئی جو بدن انسانی سے بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے نکلتا اور دوسرے انسان کا جزء بنتا ہے اور شریعت اسلام نے بچہ کی ضرورت کے پیش نظر انسانی دودھ ہی کو اس کی غذا قرار دیا ہے اور ماں پر اپنے بچوں کو دودھ پلانا واجب کیا، جب تک وہ بچوں کے باپ کے نکاح میں رہے طلاق کے بعد ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا بچوں کا رزق مہیا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے وہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوائے یا ان کی ماں ہی کو معاوضہ دے کر اس سے دودھ پلوائے قرآن کریم میں اس کی واضح تصریح موجود ہے،- (آیت) فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ (٦: ٦٥) اگر تمہاری مطلقہ بیوی تمہارے بچوں کو دودھ پلائے تو اس کو اجرت و معاوضہ دیدو،- خلاصہ یہ ہے کہ دودھ جزء انسانی ہونے کے باوجود بوجہ ضرورت اس کے استعمال کی اجازت بچوں کے لئے دی گئی ہے اور علاج کے طور پر بڑوں کے لئے بھی جیسا کہ عالمگیری میں ہے، ولابأ سَ بان یسعط الرجل بلبن المرأۃ ویشربہ للدواء (عالمگیری ص ٤) اس میں مضائقہ نہیں کہ دوا کے لئے کسی شخص کی ناک میں عورت کا دودھ ڈالا جائے یا پینے میں استعمال کیا جائے،- اور مغنی ابن قدامہ میں اس مسئلہ کی مزید تفصیل مذکور ہے (مغنی کتاب الصید ص ٦٠٢ ج ٨) - اگر خون کو دودھ پر قیاس کیا جائے تو کچھ بعید از قیاس نہیں کیونکہ دودھ بھی خون کی بدلی ہوئی صورت ہے اور جزء انسان ہونے میں مشترک ہے فرق صرف یہ ہے کہ دودھ پاک ہے اور خون ناپاک، تو حرمت کی پہلی وجہ یعنی جزء انسانی ہونا تو یہاں وجہ ممانعت نہ رہی صرف نجاست کا معاملہ رہ گیا علاج ودواء کے معاملہ میں بعض فقہاء نے خون کے استعمال کی بھی اجازت دی ہے،- اس لئے انسان کا خون دوسرے کے بدن میں منتقل کرنے کا شرعی حکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو جائز نہیں مگر علاج ودواء کے طور پر اس کا استعمال اضطراری حالت میں بلاشبہ جائز ہے اضطراری حالت سے مراد یہ ہے کہ مریض کی جان کا خطرہ ہو اور کوئی دوسری دوا اس کی جان بچانے کے لئے مؤ ثر یا موجود نہ ہو اور خون دینے سے اس کی جان بچنے کا ظن غالب ہو، ان شرطوں کے ساتھ خون دینا تو اس نص قرآنی کی رو سے جائز ہے جس میں مضطر کے لئے مردار جانور کھا کر جان بچانے کی اجازت صراحۃ مذکور ہے اور اگر اضطراری حالت نہ ہو یا دوسری دوائیں بھی کام کرسکتی ہوں تو ایسی حالت میں مسئلہ مختلف فیہا ہے بعض فقہا کے نزدیک جائز ہے بعض ناجائز کہتے ہیں جس کی تفصیل کتب فقہ بحث تداوی بالمحرم میں مذکور ہے واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم احقر کا ایک مستقل رسالہ بھی اس موضوع پر شائع ہوگیا ہے جس کا نام ہے اعضائے انسانی کی پیوند کاری اس کو ملاحظہ فرمایا جائے۔- تحریم خنزیر : تیسری چیز جو اس آیت میں حرام کی گئی ہے وہ لحم خنزیر ہے آیت میں حرمت خنزیر کے ساتھ لحم کی قید مذکور ہے، امام قرطبی نے فرمایا کہ اس سے مقصود لحم یعنی گوشت کی تخصیص نہیں بلکہ اس کے تمام اجزاء ہڈی، کھال، بال، پٹھے سب ہی باجماع امت حرام ہیں لیکن لفظ لحم بڑھا کر اشارہ اس طرف ہے کہ خنزیر دوسرے حرام جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ وہ ذبح کرنے سے پاک ہوسکتے ہیں اگرچہ کھانا حرام ہی رہے کیونکہ خنزیر کا گوشت ذبح کرنے سے بھی پاک نہیں ہوتا کہ وہ نجس العین بھی ہے حرام بھی صرف چمڑا سینے کے لئے اس کے بال کا استعمال حدیث میں جائز قرار دیا ہے (جصاص قرطبی) - مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کی تین صورتیں :- چوتھی چیز جس کو آیت میں حرام قرار دیا گیا ہے وہ جانور ہے جو غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو جس کی تین صورتیں متعارف ہیں اول یہ کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے تقرب کے لئے ذبح کیا جائے اور بوقت ذبح اسی غیر اللہ کا نام لیا جائے یہ صورت باتفاق و بااجماع امت حرام ہے اور یہ جانور میتہ ہے اس کے کسی جزء سے انتفاع جائز نہیں کیونکہ یہ صورت آیت مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کا مدلول صریح ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں۔- دوسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کو تقرب الی غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جائے یعنی اس کا خون بہانے سے تقرب الیٰ غیر اللہ مقصود ہو لیکن بوقت ذبح اس پر نام اللہ ہی کا لیا جائے جیسے بہت سے ناواقف مسلمان بزرگوں پیروں کے نام پر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بکرے، مرغے وغیرہ ذبح کرتے ہیں لیکن ذبح کے وقت اس پر نام اللہ ہی کا پکارتے ہیں یہ صورت بھی باتفاق فقہا حرام اور مذبوحہ مردار ہے،- مگر تخریج دلیل میں کچھ اختلاف ہے بعض حضرات مفسرین وفقہاء نے اس کو بھی مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کا مدلول صریح قرار دیا ہے جیسا کہ حواشی بیضاوی میں ہے۔- فکل ما نودی علیہ بغیر اسم اللہ فھو حرام وان ذبح باسم اللہ تعالیٰ حیث اجمع العلماء لو ان مسلماً ذبح ذبیحۃ وقصد بذبحہ التقرب الیٰ غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد۔ " ہر وہ جانور جس کو غیر اللہ کے نام کردیا گیا وہ حرام ہے اگرچہ بوقت ذبح اللہ ہی کا نام لیا ہو اس لئے کہ علماء فقہاء کا اتفاق ہے کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے تقرب کے لئے اگر کوئی مسلمان ذبح کرے تو وہ مرتد ہوجاوے گا اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ کہلائے گا "۔- نیز درمختار کتاب الذبائح میں ہے :- ذبح لقدوم الامیر ونحوہ کو احد من العظماء یحرم لانہ اھل بہ لغیر اللہ ولو ذکر اسم اللہ واقرہ الشامی (ص ٢١٤ ج ٥) - " کسی امیر یا بڑے کے آنے پر جانور ذبح کیا تو وہ حرام ہوگا کیونکہ وہ ما اہل بہ ل غیر اللہ میں داخل ہے اگرچہ بوقت ذبح اللہ ہی کا نام لیا ہو اور شامی نے اس کی تائید کی "۔- اور بعض حضرات نے اس صورت کو مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کا مدلول صریح تو نہیں بنایا کیونکہ وہ بحیثیت عربیت تکلف سے خالی نہیں مگر بوجہ اشتراک علت یعنی تقرب الیٰ غیر اللہ کی نیت کے اس کو بھی مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کے ساتھ ملحق کرکے حرام قرار دیا ہے احقر کے نزدیک یہی وجہ احوط اور اسلم ہے۔- نیز اس صورت کی حرمت کے لئے ایک مستقل آیت بھی دلیل ہے یعنی وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ نصب ان تمام چیزوں کو کہا جاتا ہے جن کی باطل طور پر پرستش کی جاتی ہے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جس کو معبودات باطلہ کے لئے ذبح کیا گیا ہے اس سے پہلے وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مَآ اُهِلَّ کا مدلول صریح تو وہی جانور ہے جس پر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا اور ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ (٣: ٥) اس کے بالمقابل آیا ہے جس میں غیر اللہ کے نام لینے کا ذکر نہیں صرف بتوں و غیر اللہ کی خوشنودی کی نیت سے ذبح کرنا مراد ہے اس میں وہ جانور بھی داخل ہیں جن کو ذبح تو کیا گیا ہے غیر اللہ کے تقرب کے لئے مگر بوقت ذبح اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے (افادہ شیخ حکیم الامت) - امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا ہے ان کی عبارت یہ ہے،- وجرت عادۃ العرب بالصیاح باسم المقصود بالذبیحۃ وغلب ذلک فی استعمالھم حتی عبر بہ عن النیۃ اللتی ھی علۃ التحریم (تفسیر قرطبی ص ٢٠٧ ج ٢) - " عرب کی عادت تھی کہ جس کے لئے ذبح کرنا مقصود ہوتا ذبح کرنے کے وقت اس کا نام بلند آواز سے پکارتے اور یہ رواج ان میں عام تھا یہاں تک کہ اس آیت میں تقرب الیٰ غیر اللہ کو جو کہ اصل علت تحریم ہی اہلال کے لفظ سے تعبیر کردیا،- امام قرطبی نے اپنی اس تحقیق کی بنیاد صحابہ کرام میں سے دو حضرات حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت صدیقہ عائشہ عنہا کے فتاویٰ پر رکھی ہے،- حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں فرزدق شاعر کے باپ غالب نے ایک اونٹ ذبح کیا تھا جس پر کسی غیر اللہ کا نام لینے کا کوئی ذکر نہیں مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کو بھی مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ میں داخل قرار دے کر حرام فرمایا اور سب صحابہ کرام نے اس کو قبول کیا اسی طرح امام مسلم کے شیخ یحییٰ بن یحییٰ کی سند سے حضرت صدیقہ عائشہ کی ایک طویل حدیث نقل کہ جس کے آخر میں ہے کہ ایک عورت نے حضرت صدیقہ سے سوال کیا کہ ام المؤ منین ہمارے کچھ رضاعی رشتہ دار عجمی لوگوں میں سے ہیں اور ان کے یہاں تو روز روز کوئی نہ کوئی تہوار ہوتا رہتا ہے یہ اپنے تہواروں کے دن کچھ ہدیہ تحفہ ہمارے پاس بھی بھیج دیتے ہیں ہم اس کو کھائیں یا نہیں ؟ اس پر صدیقہ عائشہ نے فرمایا :- اما ما ذبح لذلک الیوم فلا تاکلوا ولکن کلوا من اشجارہم (تفسیر قرطبی ص ٢٠٧ ج ٢) " جو جانور اس عید کے دن کے لئے ذبح کیا گیا ہو وہ نہ کھاؤ لیکن ان کے درختوں کے پھل وغیرہ کھا سکتے ہو "۔- الغرض یہ صورت ثانیہ جس میں نیت تو تقرب الیٰ غیر اللہ کی ہو مگر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے اول تو اشتراک علت یعنی نیت تقرب الی غیر اللہ کی وجہ سے مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کے حکم میں ہے دوسرے آیت وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ کا بھی مدلول ہے اس لئے یہ بھی حرام ہے،- تیسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کو کان کاٹ کر یا کوئی دوسری علامت لگا کر تقرب الی غیر اللہ اور تعظیم غیر اللہ کے لئے چھوڑ دیا جائے نہ اس سے کام لیں اور نہ اس کے ذبح کرنے کا قصد ہو بلکہ اس کے ذبح کرنے کو حرام جانیں یہ جانور مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ اور وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ دونوں میں داخل نہیں بلکہ اس قسم کے جانور کو بحیرہ یا سائبہ وغیرہ کہا جاتا ہے اور حکم ان کا یہ ہے کہ یہ فعل تو بنص قرآن حرام ہے جیسا کہ آیت مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ (١٠٣: ٥) میں انشاء اللہ تعالیٰ آئے گا،- مگر ان کے اس حرام عمل سے اور اس جانور کو حرام سمجھنے کے عقیدہ سے یہ جانور حرام نہیں ہوجاتے بلکہ اس کو حرام سمجھنے میں تو ان کے عقیدہ باطلہ کی تائید وتقویت ہوتی ہے اس لئے یہ جانور عام جانوروں کی طرح حلال ہے،- مگر شرعی اصول کے مطابق یہ جانور اپنے مالک کی ملک سے خارج نہیں ہوا اسی کا مملوک ہے اگرچہ وہ اپنے غلط عقیدہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میری ملک سے نکل کر غیر اللہ کے لئے وقف ہوگیا مگر شرعاً اس کا یہ عقیدہ باطل ہے وہ جانور بدستور اس کی ملک میں ہے،- اب اگر وہ شخص خود اس جانور کو کسی کے ہاتھ فروخت کردے یا ہبہ کردے تو اس کے لئے یہ جانور حلال ہے جیسا بکثرت ہندو اپنے دیوتاؤں کے نام بکری یا گائے وغیرہ کو اپنے نزدیک وقف کرکے چھوڑ دیتے ہیں اور مندروں کے پجارویوں جوگیوں کو اختیار دیتے ہیں وہ جو چاہیں کریں یہ مندروں کے پجاری ان کو مسلمانوں کے ہاتھ بھی فروخت کردیتے ہیں، - یا اسی طرح بعض جاہل مسلمان بھی بعض مزارات پر ایسا ہی عمل کرتے ہیں کہ بکرا یا مرغا چھوڑ دیتے ہیں اور مزارات کے مجاورین کو اختیار دیتے ہیں وہ ان کو فروخت کردیتے ہیں تو جو لوگ ان جانوروں کو ان لوگوں سے خرید لیں جن کو اصل مالک نے اختیار دیا ہے ان کے لئے خریدنا اور ذبح کرکے کھانا اور فروخت کرنا سب حلال ہے،- نذر غیر اللہ کا مسئلہ :- یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے مثلاً مٹھائی کھانا وغیرہ جن کو غیر اللہ کے نام پر نذر (منت) کے طور سے ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراک علت یعنی تقرب الیٰ غیر اللہ کی وجہ سے مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے اور اس کے کھانے پینے دوسروں کو کھلانے اور بیچنے خریدنے سب کو حرام کہا ہے کتب فقہ بحر الرائق وغیرہ میں اس کی تفصیلات مذکور ہیں یہ مسئلہ قیاسی ہے جس کو نص قرآنی متعلقہ حیوانات پر قیاس کیا گیا ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم،- اضطرار ومجبوری کے احکام :- آیت مذکورہ میں چار چیزیں حرام قرار دینے کے بعد ایک حکم استثنائی مذکور ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ اس حکم میں اتنی آسانی کردی گئی ہے کہ جو شخص بھوک سے بہت ہی بیتاب ہوجائے بشرطیکہ نہ تو کھانے میں طالب لذت ہو اور نہ قدر ضرورت سے تجاوز کرنے والا ہو تو اس حالت میں ان حرام چیزوں کو کھا لینے سے بھی اس شخص کو کوئی گناہ نہیں ہوتا بیشک اللہ تعالیٰ ہیں بڑے غفور ورحیم۔- اس میں مضطر کے لئے جان بچانے کے واسطے دو شرطوں کے ساتھ ان حرام چیزوں کے کھا لینے سے بھی گناہ اٹھا دیا گیا ہے،- مضطر : شرعی اصطلاح میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی جان خطرہ میں ہو معمولی تکلیف یا ضرورت سے مضطر نہیں کہا جاسکتا تو جو شخص بھوک سے ایسی حالت پر پہنچ گیا کہ اگر کچھ نہ کھائے تو جان جاتی رہے گی اس کے لئے دو شرطوں کے ساتھ یہ حرام چیزیں کھا لینے کی گنجائش دی گئ ہے ایک شرط یہ ہے کہ مقصود جان بچانا ہو کھانے کی لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو دوسری شرط یہ ہے کہ صرف اتنی مقدار کھائے جو جان بچانے کے لئے کافی ہو پیٹ بھر کر کھانا یا قدر ضرورت سے زائد کھانا اس وقت بھی حرام ہے،- اہم فائدہ : یہاں قرآن عزیز نے اضطرار کی حالت میں بھی حرام چیزوں کے کھانے کو حلال نہیں فرمایا بلکہ لآ اِثْمَ عَلَيْهِ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں تو اب بھی اپنی جگہ حرام ہی ہیں مگر اس کھانے والے سے بوجہ اضطرار کے استعمال حرام کا گناہ معاف کردیا گیا حلال ہوجانے اور گناہ معاف کردینے میں بڑا فرق ہے اگر اضطراری حالت میں ان چیزوں کو حلال کردینا مقصود ہوتا تو حرمت سے صرف استثناء کردینا کافی ہوتا مگر یہاں صرف استثناء پر اکتفاء کردینے کے بجائے لآ اِثْمَ عَلَيْهِ کا اضافہ فرما کر اس نکتہ کی طرف اشارہ کردیا کہ حرام تو اپنی جگہ حرام ہی ہے اور اس کا استعمال گناہ ہی ہے مگر مضطر سے یہ گناہ معاف کردیا گیا،- حالت اضطرار میں دواء کے طور پر حرام چیزوں کا استعمال :- آیت مذکورہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس شخص کی جان خطرہ میں ہو وہ جان بچانے کے لئے بطور دواء کے حرام چیز کو استعمال کرسکتا ہے مگر آیت مذکورہ ہی کے اشارہ سے اس میں چند شرطیں معلوم ہوتی ہیں، - اول یہ کہ حالت اضطرار کی ہو خطرہ جان جانے کا ہو، معمولی تکلیف و بیماری کا یہ حکم نہیں ہے دوسرے یہ کہ بجز حرام چیز کے اور کوئی چیز علاج ودواء کے لئے مؤ ثر نہ ہو یا موجود نہ ہو جیسے شدید بھوک کی حالت میں استثناء اسی وقت ہے جب کہ کوئی دوسری حلال غذا موجود ومقدور نہ ہو تیسرے یہ کہ اس حرام کے استعمال کرنے سے جان بچ جانا یقینی ہو جیسے بھوک سے مضطر کے لئے ایک دو لقمہ حرام گوشت کا کھا لینا عادۃ اس کی جان بچانے کا یقینی سامان ہے اگر کوئی دواء ایسی ہے کہ اس کا استعمال مفید تو معلوم ہوتا ہے مگر اس سے شفاء یقینی نہیں تو اس دواء کا استعمال آیت مذکورہ کے استثنائی حکم میں داخل ہو کر جائز نہیں ہوگا اس کے ساتھ مزید دو شرطیں آیت قرآنی میں منصوص ہیں کہ اس کے استعمال سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو اور قدر ضرورت سے زائد استعمال نہ کرے،- آیت مذکورہ کی تصریح اور اشارات سے جو قیود و شرائط حاصل ہوئے ان شرائط کے ساتھ ہر حرام و ناپاک دواء کا استعمال خواہ کھانے پینے میں ہو یا خارجی استعمال میں باتفاق فقہاء امت جائز ہے ان شرائط کا خلاصہ پانچ چیزیں ہیں، - (ا) حالت اضطرار کی ہو یعنی جان کا خطرہ ہو (٢) دوسری کوئی حلال دواء کارگر نہ ہو یا موجود نہ ہو (٣) اس دواء سے مرض کا ازالہ عادۃ یقینی ہو (٤) اس کے استعمال سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو (٥) قدر ضرورت سے زائد اس کو استعمال نہ کیا جائے،- غیر اضطراری حالت میں عام علاج ودواء کے لئے حرام چیز کا استعمال :- اضطراری حالت کا مسئلہ تو شرائط مذکورہ کے ساتھ نص قرآن سے ثابت اور اجماعی حکم ہے لیکن عام بیماریوں میں بھی کسی ناپاک یا حرام دواء کا استعمال جائز ہے یا نہیں اس مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے اکثر فقہاء نے فرمایا کہ بغیر اضطرار اور ان تمام شرائط کے جو اوپر مذکور ہوئیں حرام دواء کا استعمال جائز نہیں کیونکہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے حرام میں شفاء نہیں رکھی (بخاری شریف) - بعض دوسرے فقہاء نے ایک خاص واقعہ حدیث سے استدلال کرکے جائز قرار دیاوہ واقعہ عرنیین کا ہے جو تمام کتب حدیث میں مذکور ہے کہ کچھ گاؤں والے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اونٹ کا دودھ اور پیشاب استعمال کرنے کی اجازت دی جس سے ان کو شفاء ہوگئی،- مگر اس واقعہ میں متعدد احتمالات ہیں جن سے حرام چیز کا استعمال مشکوک ہوجاتا ہے اس لئے اصل حکم تو یہی ہے کہ عام بیماریوں میں جب تک شرائط اضطرار مذکورہ موجود نہ ہوں حرام دواء کا استعمال جائز نہیں۔- لیکن فقہاء متاخرین نے موجودہ زمانے میں حرام و ناپاک دواؤں کی کثرت اور ابتلاء عام اور عوام کے ضعف پر نظر کرکے اس شرط کے ساتھ اجازت دی ہے کہ کوئی دوسری حلال اور پاک دواء اس مرض کے لئے کارگر نہ ہو یا موجود نہ ہو،- کما فی الدر المختار قبیل فصل البیر اختلف فی التداوی بالمحرم وظاہر المذہب المنع کما فی رضاع البحر ولکن نقل المصنف ثم وھھنا عن الحاوی قیل یرخص اذا علم فیہ الشفاء ولم یعلم دواء اخر کما رخص فی الخمر للعطشان وعلیہ الفتوٰی و مثلہ فی العالمگیریۃ (ص ٣٥٥ ج ٥) - درمختار میں فصل بیر سے پہلے مذکور ہے حرام چیزوں کو بطور دواء استعمال کرنے میں اختلاف ہے اور ظاہر مذہب میں اس کی ممانعت آئی ہے جیسا کہ بحر الرائق کتاب الرضاع میں مذکور ہے لیکن مصنف تنویر نے اس جگہ رضاع میں بھی اور یہاں بھی حاوی قدسی سے نقل کیا ہے کہ بعض علماء نے فرمایا دواء وعلاج کے لئے حرام چیزوں کا استعمال اس شرط سے جائز ہے کہ اس دواء کے استعمال سے شفاء ہوجانا عادۃ یقینی ہو اور کوئی حلال دواء اس کا بدل نہ ہوسکے جیسا کہ پیاسے کے لئے شراب کا گھونٹ پینے کی اجازت دی گئی ہے،- مسئلہ : تفصیل مذکور سے ان تمام انگریزی دواؤں کا حکم معلوم ہوگیا جو یورپ وغیرہ سے آتی ہیں جن میں شراب وغیرہ نجس اشیاء کا ہونا معلوم و یقینی ہو اور جن دواؤں میں حرام ونجس اجزاء کا وجود مشکوک ہے ان کے استعمال میں اور زیادہ گنجائش ہے اور احتیاط بہرحال احتیاط ہے خصوصاً جبکہ کوئی شدید ضرورت بھی نہ ہو، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ ٠ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٧٣- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- ميتة- وَالمَيْتةُ من الحَيوان : ما زال روحه بغیر تذكية، قال : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [ المائدة 3] ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام 145]- المیتہ - اس حیوان کو کہتے ہیں جس کی روح بغیر تذکیہ کے زائل ہوگئی ہو قرآن میں ہے : ۔ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [ المائدة 3] تم پر مرا ہوا جانور حرام ہے ۔ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام 145] بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو ۔ - دم - أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية .- ( د م ی ) الدم - ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔- لحم - اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو :- لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ:- اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم :- قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ.- ( ل ح م ) اللحم - ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ - خنزیر - قوله تعالی: وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] ، قيل : عنی الحیوان المخصوص، وقیل : عنی من أخلاقه وأفعاله مشابهة لأخلاقها، لا من خلقته خلقتها، والأمران مرادان بالآية، فقد روي «أنّ قوما مسخوا خلقة» «1» ، وکذا أيضا في الناس قوم إذا اعتبرت أخلاقهم وجدوا کالقردة والخنازیر، وإن کانت صورهم صور الناس .- ( خ ن ز ر ) الخنزیر - ۔ کے معنی سور کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] اور ( جن کو ) ان میں سے بندر اور سور بنادیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خاص کر سور ہی مراد ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ خاص کر سور ہی مراد ہیں اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں َ جن کے افعال و عادات بندر اور سور جیسے ہوگئے تھے ۔ نہ کہ وہ بلحاظ صورت کے بندر اور سور بن گئے تھے ۔ مگر زیر بحث آیت میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں کیونکہ مروی ہے کہ ایک قوم کی صورتیں مسخ ہوگئی تھیں اور وہ بندر سور بن گئے تھے ۔ اسی طرح انسانوں میں ایسے لوگوں بھی موجود ہیں جو شکل و صورت کے لحاظ سے گو انسان نظر آتے ہیں ۔ لیکن اخلاق و عادات کے اعتبار سے بندر اور سور بنے ہوئے ہیں ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- الاضْطِرَارُ :- حمل الإنسان علی ما يَضُرُّهُ ، وهو في التّعارف حمله علی أمر يكرهه، وذلک علی ضربین :- أحدهما :- اضطرار بسبب خارج کمن يضرب، أو يهدّد، حتی يفعل منقادا، ويؤخذ قهرا، فيحمل علی ذلك كما قال : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة 126]- والثاني :- بسبب داخل وذلک إمّا بقهر قوّة له لا يناله بدفعها هلاك، كمن غلب عليه شهوة خمر أو قمار، وإمّا بقهر قوّة يناله بدفعها الهلاك، كمن اشتدّ به الجوع فَاضْطُرَّ إلى أكل ميتة، وعلی هذا قوله : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173]- الاضطرار - کے اصل معنی کسی کو نقصان وہ کام پر مجبور کرنے کے ہیں اور عرف میں اس کا استعمال ایسے کام پر مجبور کرنے کے لئ ہوتا ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مجبوری کسی خارجی سبب کی بنا پر ہو مثلا مار پٹائی کی جائے یا دھمکی دی جائے حتی ٰ کہ وہ کسی کام کے کرنے پر رضا مند ہوجائے یا زبردستی پکڑکر اس سے کوئی کام کروایا جائے جیسے فرمایا : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة 126] پھر اس عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لئے ناچار کردوں گا ۔- ۔ دوم یہ کہ وہ مجبوری کسی داخلی سبب کی بنا پر ہو اس کی دوقسمیں ہیں - (1) کسی ایسے جذبہ کے تحت وہ کام کرے جسے نہ کرنے سے اسے ہلاک ہونیکا خوف نہ ہو مثلا شراب یا قمار بازی کی خواہش سے مغلوب ہوکر انکا ارتکاب کرے - (2) کسی ایسی مجبوری کے تحت اس کا ارتکاب کرے جس کے نہ کرنے سے اسے جان کا خطرہ ہو مثلا بھوک سے مجبور ہوکر مردار کا گوشت کھانا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشرطیکہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ( ضرورت ) سے باہر نہ نکل جائے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - باغ - في أكثر المواضع مذموم، وقوله : غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ، أي : غير طالب ما ليس له طلبه ولا متجاوز لما رسم له .- قال الحسن : غير متناول للذّة ولا متجاوز سدّ الجوعة «1» .- وقال مجاهد رحمه اللہ : غير باغ علی إمام ولا عاد في المعصية طریق الحق «2» .- گو لغت میں بغی کا لفظ محمود اور مذموم دونوں قسم کے تجاوز پر بولا جاتا ہے مکر قرآن میں اکثر جگہ معنی مذموم کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة يونس 23) تو ملک میں ناھق شرارت کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ ( سورة يونس 23) تمباری شرارت کا وبال تمہاری ہی جانوں پر ہوگا ۔ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللهُ ( سورة الحج 60) پھر اس شخص پر زیادتی کی جائے تو خدا اسکی مدد کریگا ۔ إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ ( سورة القصص 76) قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی کرتا تھا ۔ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا ( سورة الحجرات 9) اور لوگ ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو ۔ آیت کریمہ ؛ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ ( سورة البقرة 173) بشرطیکہ ) خدا کی نافرمانی نہ کرے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اتنا ہی لے جتنی اسے ضرورت ہے اور حد متعین سے آگے نہ بڑھے ۔ امام حسین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ نہ تو محض لذت کے لئے کھائے ۔ اور نہ ہی سدر حق ( یعنی ضرورت سے ) تجاوز کرے ۔ مجاہد (رح) نے کہا ہے کہ کے یہ معنی میں بشرطیکہ وہ نہ تو امام وقت سے باعنی ہو اور نہ ہی معصیت کا ارتکاب کرکے راہ حق سے تجاوز کرنے والا ہو ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر :- تعلّى الندی في متنه وتحدّراوقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة 283] .- وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما .- وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) " تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
مردار کی تحریم - ارشاد باری ہے : انما حرم علیکم المیتہ والدم والحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ ( اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے مردارنہ کھائو، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھائو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو) ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہش رع میں میتہ اس مردہ جانور کو کہتے تھے جسے ذبح نہ کیا گیا ہو۔ جانور کبھی مردار اس طرح ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی طبعت موت مرجائے، اس کی موت میں کسی آدمی کا داخل نہ ہو اور کبھی وہ کسی آدمی کے فعل کے سبب مردار ہوجاتا ہے بشرطیکہ آدمی کا یہ فعل اسے ذبح کرنے کی صورت میں نہ ہو۔ ہم انشاء اللہ ذبح کی شرائط کا اس کے موقعہ پر ذکر کریں گے۔- مردار ہوجانا اگرچہ اللہ کی مثیت سے ہوتا ہے لیکن تحریم کو اس کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے، حالانکہ ہمیں ی ہ معلوم ہے کہ تحریم و تحلیل اور ممانعت و اباحت ہمارے افعال سے متعلق ہوتے ہیں کسی اور کے افعال سے ان کا تعلق نہیں ہوتا لیکن چونکہ یہ مفہوم مخاطبین کی سمجھ میں آسکتا تھا اس لئے اس میں لفظ تحریم و تحلیل کا اطلاق درست ہوگیا۔ اگرچہ حقیقت یہ نہیں تھی، تاہم یہ انداز بیان تحریم کے حکم کی تاکید بن گیا۔ کیونکہ تحریم منافع (جمع منفعت) کی تمام صورتوں کوش امل ہے، اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ مردار سے کسی صورت میں بھی فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے حتیٰ کہ کتوں اور دیگرجانوروں کو بھی اسے کھلانا درست نہیں ہے۔ یہ بھی انتفاع کی ایک صورت ہے اور اللہ سبحانہ نے مردار کی مطلقاً تحریم کردی ہے اور تحریم کو عین مردار کے ساتھ معلق کرکے ممانعت کے حکم کو اور بھی موکد کردیا ہے، البتہ اگر کوئی مردار کسی دلیل کی بنا پر تحریم کے حکم سے خاص کردیا گیا ہو تو اسے تسلیم کرلینا واجب ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مردہ مچھلی اور مردہ ٹڈی کی مذکورہ حکم سے تخصیص مروی ہے ۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضر ت ابن عمر (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارے لیے د و مردار اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں۔ دو مردار ٹڈی ار مچھلی ہیں اور دو خون تلی اور جگر ہیں۔- عمر و بن دینار نے حضرت جابر (رض) سے جیش الخبط کے واقعہ کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے کہ سمندر کی موجوں نے مجاہدین کی طرف ایک بڑی مچھلی اچھا ل دی جس کا گوشت وہ نصف ماہ تک کھاتے رہے۔ پھر جب یہ مجاہدین واپس آئے تو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تمہارے پاس اس مچھلی کا کوئی حصہ مجھے کھلانے کے لئے ہے ؟- اہل اسلام کے مابین غیر طانی مچھلی اور ٹڈی کی اباحت کے بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے ( طافی اس مچھلی کو کہتے ہیں جو پانی میں مرکر سطح آب پر آجائے) بعض حضرات نے مردار کی تحریم والی آیت کے عموم کی تخصیص پر قول باری : احل لکم صید البحر و طعامہ متاعًا لکم وللسیارۃ (تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے جہاں تم ٹھہرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادراہ بھی سناسکتے ہو) سے استدلال کیا ہے۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے بھی یہ استدلال کیا ہے جس کا ذکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمندر کے بارے میں کیا تھا کہ : اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے۔ اس حدیث کی روایت صفوان بن سلیم الرزقی نے سعید بن سلمہ سے کی ہے۔ انہوں نے المغیرہ بن ابی بردہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا۔ اس روایت کی سند کا ایک راوی سعید بن سلمہ مجہول اور حفظ میں غیر معروف ہے۔ یحییٰ بن سعید انصاری نے سند میں اس سے اختلاف کیا ہے اور المغیرہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے۔ سند میں اس جیسا اختلاف حدیث کے اضطراب کا موجب ہوتا ہے اور ایسی حدیث کے ساتھ ایک محکم آیت کی تخصیص جائز نہیں ہوتی۔- ابن زیاد عبداللہ البکائی نے روایت بیان کی ہے، ان سے سلیمان الاعش نے، ان سے ان کے اصحاب نے اور ان سے حضرت ابن عباس (رض) نے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کا شکار پاک یعنی ذبح شدہ ہے اور اس کا پانی پاک ہے ۔ محدثین کے نزدیک یہ روایت پہلی روایت سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی ہے جس کی روایت یحییٰ بن ایوب نے جعفر بن ربیعہ اور عمرو بن الحارث سے بیان کی ہے۔ انہوں نے بکر بن سوادہ سے، انہوں نے ابو معاویہ العلوی سے، انہوں نے مسلم بن مخشی المدلحبی سے اور انہوں نے الفراسی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمندر کے بارے میں فرمایا : اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے لیکن یہ حدیث بھی روایت کی مجہولیت کی بنا پر قابل استدلال نہیں ہے اور اس کے ساتھ ظاہر قرآن کی تخصیص نہیں ہوسکتی۔- عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ، ان سے احمد بن حنبل نے، ان سے ابو القاسم بن ابی الزماد نے، ان سے اسحاق بن خادم نے عبداللہ بن مقسم سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے حضرت جابر عبداللہ سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمندر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : اس کا پانی پاک اور اس کامردار حلال ہے۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ” سمک طافی “ (ایسی مچھلی جو پانی کے اندر طبعی موت مرجائے اور سطح آب پر آجائے) کے بارے میں اختلاف رائے ہے، ہمارے اصحاب اور حسن بن حی نے اسے مکروہ کہا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی نے کہا ہے کہ اسے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اس بارے میں سلف کا بھی اختلاف ہے۔ عطاء بن الصائب نے میسرہ سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ سمندر کا جو مردار سطح پر آجائے اسے نہ کھائو۔ عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے اور عبداللہ بن ابی الہذیل نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ ان دونوں حضرات نے مر کر سطح آب پر آ جانے والی مچھلی کو مکرہ قرار دیا ہے۔- جابر بن زید، عطاء سعید بن المسیب، حسن بصری، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی سے بھی اس کی کراہت منقول ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے مذکورہ مچھلی کھانے کی اباحت منقول ہے۔” سمک طافی “ کھانے کی ممانعت پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( حرمت علیکم المیتہ۔ اہل اسلام اس حکم سے غیر طافی مچھلی کی تخصیص پر متفق ہیں اس لیے ہم نے اس کی تخصیص کر دلی۔ لیکن ” سمک طافی “ کے بارے میں اختلاف رائے ہوگیا اس لیے اس میں مذکورہ بالا آیت کا عموم جاری کرنا ضروری ہوگیا۔- محمد بن بکہ نے روایت بیان کی، ان سے ابو دائود نے، ان سے احمد بن عبدہ نے، ان سے یحییٰ بن سلیم الطائفی نے، ان سے اسماعیل بن امیہ نے ابو النہ بیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد (رض) اللہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سمندر تمہاری طرف جو مچھلی اچھال دے یا جس مچھلی کو چھوڑ کر اس کا پانی پیچھے چلا جائے ( جس طرح مدوجزر میں جزر کے اندر ہوتا ہے) تو اسے کھالو، لیکن جو مچھلی سمندر میں مر کر اس کی سطح پر ا جائے اسے نہ کھائو۔- اسماعیل بن عیاش نے روایت بیان کی ہے، ان سے عبدالعزیز عبداللہ نے وہب بن کسی ان اور نعیم بن عبداللہ المجمہ سے، ان دونوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سمندر جس مچھلی کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ جائے اسے نہ کھائو اور جسے اچھال دے اسے کھالو۔ اور جسے تم سطح آب پر مردہ صورت میں پائو اسے نہ کھائو۔- ابن ابی ذیب نے ابو الزبیر سے ، انہوں نے حضرت جابر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ نیز عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، ان سے موسیٰ بن زکریا نے، ان سے سہل بن عثمان نے، ان سے حفظ نے یحییٰ بن ابی انیسہ سے، انہوں نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم اسے ( مچھلی کو) زندہ پائو تو کھالو، اور جسے سمندر زندہ باہر پھینک دی اور پھر وہ مرجائے تو اسے کھالو اور جسے تم مردہ صورت میں سطح آب پر پائوا سے نہ کھائو۔ ہمیں ابن قانع نے روایت بیان کی، ان سے عبداللہ بن موسیٰ ابی عثمان الدہقان نے۔ ان سے الحسین بن یزید الطحان نے، ان سے حفص بن غیاث نے ابن ابی ذیب سے، انہوں نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کا تم شکار کرلو جبکہ وہ زندہ ہو اور پھر مرجائے تو اسے کھالو اور جسے سمندر مردہ صورت میں سطح آب سے باہر پھینک دے اسے نہ کھائو۔- اگر کہا جائے کہ اس حدیث کی سفیان ثوری، ایوب اور حماد نے ابو الزبیر سے حضرت جابر (رض) پر موقوف صورت میں روایت کی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات ہمارے نزدیک حدیث میں کوئی خرابی پیدا نہیں کرتی کیونکہ حضرت جابر (رض) کبھی تو اس حدیث کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں اور کبھی آپ کی طرف سے اس کی روایت کرتے ہیں اور ایسی صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کردہ حدیث کی بنا پر حضرت جابر (رض) کا فتویٰ دینا مذکورہ روایت میں کسی خرابی کا باعث نہیں ہے بلکہ اسے موکد کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں اسماعیل بن امیہ کی ابو الزبیر سے روایت ان حضرات کی روایت سے کم تر نہیں ہے۔ یہی کیفیت ابن ابی ذیب کی روایت کی ہے۔ اس لئے ان حضرات کی روایت پر مذکورہ دونوں راویوں کی طرف سے رفع کا اضافہ قابل قبول ہوگا۔- اگر کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں ، یعنی مچھلی اور ٹڈی نیز تلی اور جگر اور آپ ؐ کا یہ ارشاد ان تمام چیزوں کے اندر عموم کی صورت میں ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس میں تخصیص ہماری روایت کردہ وہ حدیث کرتی ہے جو مرکر سطح آب پر آجانے والی مچھلی کی نہی کے سلسلے میں ہے۔- روایات کی ترتیب کے سلسلے میں معترض کے اختیار کردہ اصول کے مطابق اس پر لازم ہے کہ وہ خاص پر عام کی بنا کرکے دونوں پر عمل کرے، نیز وہ عام کی وجہ سے خاص کو ساقط نہ کرے علاوہ ازیں معترض کی بیان کردہ روایت کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ اسے مرحوم العطار نے عبدالرحمن بن زید بن اسلم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے ان پر موقوف صورت میں روایت کیا ہے۔ اور اسے یحییٰ الحمانی نے عبدالرحمن بن زید سے مرفوع صورت میں بیان کیا ہے۔ اس بنا پر ” سمک طافی “ کے بارے میں مروی حدیث کے سلسلے میں معترض نے جو اعتراض کیا ہے وہی اعتراض اس پر بھی مذکورہ بالا روایت کے اندر لازم آتا ہے۔- اگر اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول اس حدیث سے استدلال کیا جائے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کا (سمندر کا) پانی پاک اور اسکا مردار حلال ہے اور کہا جائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد میں طافی کی غیر طافی سے تخصیص نہیں کی، تو جواب میں کہا جائے گا کہ ہم دونوں حدیثوں پر عمل کرتے ہیں اور انہیں یوں قرار دیتے ہیں کہ گویا دونوں کا درود ایک ساتھ ہوا ہے، ہم طافی سے متعلقہ روایت کو نہی کے لئے استعمال کرتے اور اباحت والی روایت کو طافی کے سوا دیگر مچھلیوں میں استعمال کرتے ہیں۔- اگر کہا جائے کہ خاص اور عام کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا اصولی ہے کہ جب فقہاء ان میں سے ایک پر عمل پیرا ہونے پر متفق ہوں اور دوسرے پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے ان میں اختلاف رائے ہو تو ایسی صورت میں عمل کے اعتبار سے متفق علیہ امر مختلف فیہ امر کا خاتمہ کردے گا۔ یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد :” اس کا مردار حلال ہے “ نیز ” ہمارے لئے دو مردار حلال کردئیے گئے ہیں “ پر عمل متفق ہے اور طافی کے سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد پر عمل مختلف فیہ ہے۔ اس لئے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا دونوں روایتوں کی بنا پر اس روایت کا خاتمہ کردیاجائے ۔- اس کا جواب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کا مذکورہ بالا مسلک اس روایت کے سلسلے میں معروف ہے جس کی تائید کتاب اللہ کی نص سے نہ ہوتی ہو، لیکن اگر کتاب اللہ کا عموم اس روایت کی تائید کرتا ہو جس پر عمل مختلف فیہ ہے تو اس بارے میں ہمیں امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کا علم نہیں ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کتاب اللہ کا عموم ایک روایت کی تائید کرے اور پھر اس پر عمل کے بارے میں اختلاف پیدا ہوجائے تو امام ابوحنیفہ اس اختلاف کا اعتبار نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں وہ مذکورہ روایت پر اس عام کے ساتھ عمل کرتے ہیں جس پر عمل متفق علیہ ہے۔ اور مذکورہ روایت کی اس عام سے تخصیص ہوجاتی ہے۔ اگر اختلاف رکھنے والے حضرات ” جیش الخبط “ کے واقعہ کے حضرت جابر (رض) کی روایت کردہ حدیث سے ا ستدلال کریں جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مچھلی کے گوشت کی اباحت کردی تھی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ مذکورہ مچھلی ہمارے نزدیک طافی نہیں تھی، طافی تو وہ مچھلی ہے جو کسی خارجی سبب کے بغیر پانی کے اندر طبعی موت مرجائے۔- بعض حضرات کا خیال ہے کہ طافی کی کراہت کا سبب پانی کے اندر اس کا اتنی دیر تک پڑے رہنا ہے کہ وہ سطح آب پر ابھر آئے۔ اور پھر یہ حضرات مذکورہ سبب کا سہارا لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر کسی جانورکو ذبح کر کے پانی میں ڈال دیاجائے اور وہ پانی میں پڑے پڑے سطح آب پر ابھر آئے تو اس کا حکم بھی ہمارے نزدیک یہی ہونا چاہیے۔ ان حضرات کی یہ بات دراصل اس قول اور نقطہ اختلاف سے عدم واقفیت پر ہے۔ ان کے خیال میں اگر مچھلی مرکر سطح آب پر ابھر آئے تو اسے کھا لیاجائے گا اور اگر وہ اپنی طبعی موت مرجائے اور سطح آب پر نہ ابھرے تو اسے کھایا نہیں جائے گا، حالانکہ ہمارے نزدیک اصل سبب پانی کے اندر مچھلی کی طبعی موت مرجانا ہے اور بس۔- عبدالباقی نے ایک حدیث روایت کی ہے اور اس کے متعلق ہمیں بتایا ہے کہ یہ منکر حدیث ہے۔ ان کے قول کے مطابق عبیدین شریک البزاز نے یہ حدیث ان سے بیان کی ہے۔ عبید کو ابو الجماہر نے، ان سے سعید بن بشیر نے ابان بن ابی عیاش نے، انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ سطح سمندر پر جو چیز (مچھلی) ابھر آئے اسے کھالو۔ ابان بن عیاش ایسا راوی ہے جس کی روایت کی بنا پر درج بالا حکم ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ شعبہ کا قول ہے کہ : ابن بن عیاش سے روایت کرنے کی بہ نسبت ستر دفعہ بدکاری کرلینا مجھے زیادہ پسند ہے۔- اگر کوئی شخص قول باری : احد لکم صید البحر وطعامہ سے استدلال کرتے ہوئے کہے کہ اس میں طافی اور غیر طافی سب کے لئے عموم ہے تو اس کا جواب دو طرح سے دیاجائے گا۔ اول یہ کہ مذکورہ عموم کے اندر مردار کی تحریم کے بارے میں ذکر کردہ آیت، نیز ان روایات کی بنا پر تخصیص کردی گئی ہے جن میں ” سمک طافی “ کا گوشت کھانے سے روک دیا گیا ہے دوم یہ کہ قول باری : وطعامہ کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مچھلی ہے جسے سمندر باہر پھینک دے اور پھر وہ مرجائے اور قول باری : صید البحر کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ مچھلی ہے جسے زندہ شکار کرلیاجائے۔ طافی مچھلی ان دونوں سے خارج ہے کیونکہ اسے نہ تو سمندر باہر پھینک دیتا ہے اور نہ ہی اس کا شکار کیا جاتا ہے اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ فلاں شخص نے مردہ مچھلی کا شکار کیا ۔ جس طرح یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں شخص نے مردار کا شکار کیا اس بنا پر مذکورہ آیت طافی مچھلی کو شامل نہیں ہے۔ واللہ اعلم - ٹڈیاں کھانے کا بیان - ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ ٹڈیاں کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، خواہ وہ زندہ تمہارے ہاتھ آ جائیں، یا تم انہیں مردہ صورت میں حاصل کرلو۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص زندہ ٹڈی پکڑ کر اس کا سر قطع کردے اور اسے بھون لے تو وہ اسے کھا سکتا ہے لیکن اگر زندہ پکڑ لینے کیب عد وہ اس سے غافل ہوجائے اور ٹڈی مرجائے تو اسے نہیں کھایاجائے گا۔ اس کی حیثیت وہی ہوگی جو اس ٹڈی کی ہے جسے شکار کرنے سے پہلے مردہ صورت میں پایاجائے، یہ ٹڈی نہیں کھائی جائے گی۔ زہری اور ربیعہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا یہ قول بھی ہے کہ جس ٹڈی کو کوئی مجوسی مارڈالے اسے بھی نہیں کھایا جائے گا۔ لیث بن سعد نے کہا ہے کہ مجھے مردہ ٹڈی کھانا پسند نہیں ہے۔ البتہ اگر اسے زندہ پکڑ لیاجائے تو اسے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کی روایت کردہ حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ہمارے لیے دو مردار حلال کردئیے گئے ہیں، یعنی مچھلی اور ٹڈی، دونوں قسم کی ٹڈیوں کی اباحت کا موجب ہے۔ یعنی ایسی ٹڈی جسے مردہ حالت میں پایاجائے اور ایسی ٹڈی جسے کوئی شخص پکڑ کر مار ڈالے۔ جمہور نے ٹڈیاں کھانے کی اباحت کے سلسلے میں مذکورہ بالا حدیث پر عمل کیا ہے، اس لئے اس حدیث پر اس کے عموم کے تحت یہ شرط لگائے بغیر عمل کرنا واجب ہے کہ پکڑنے والا اسے مار ڈالے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ شرط عائد نہیں کی۔- عبدالباقی نے روایت بیان کی کہ ان سے الحسن بن المثنیٰ نے، ان سے مسلم بن ابراہیم نے ان سے زکریا بن یحییٰ بن عمارہ الانصاری نے، ان سے ابو العوام فائد نے ابو عثمان الہندی سے اور انہوں نے حضرت سلمان (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ٹڈیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، یہ اللہ کی بڑی فوجیں ہیں، میں انہیں نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز کو حرام قرار نہ دیں وہ مباح ہوتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ٹڈی نہ کھانا اس کی ممانعت کا موجب نہیں ہے کیونکہ مباح چیز کو نہ کھانا درست ہوتا ہے لیکن حرام چیز سے تحریم کی نفی جائز نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردہ ٹڈی اور پکڑنے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی ٹڈی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔- عطاء نے حضرت جابر (رض) سے روایت بیان کی ہے ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ پر گئے۔ ہمیں ٹڈیاں مل گئیں، ہم نے انہیں کھالیا، حضرت عبداللہ بن ابی اونی (رض) نے فرمایا میں سات غزوات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ رہا، ہم ٹڈیاں کھاتے اور ہم میں سے کچھ نہ کھاتے۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اس روایت کے اندر مردہ اور مقتول ٹڈی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے موسیٰ بن زکریا التستری نے، ان سے ابو الخطاب نے، ان سے ابو عتاب نے، ان سے النعان نے عبیدہ سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے الاسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ وہ ٹڈیاں کھایا کرتی تھیں اور فرماتیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کھایا کرتے تھے۔ ابو بکرحصاص کہتے ہیں کہ ٹڈیوں کے بارے میں مذکورہ بالا آثار نے مردہ اور ہلاک شدہ ٹڈیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔- اگر کہاجائے کہ قول باری، حرمت علیکم المیتہ کا ظاہر تمام قسم کی ٹڈیوں کی ممانعت کا متقضی ہے اس لیے اس حکم سے صرف اس صورت کی تخصیص ہوسکتی ہے جس پر اجماع ہو اور یہ وہ ٹڈیاں ہیں جنہیں پکڑنے والا ہلاک کردے۔ ان کے سوا دیگر ٹڈیاں ظاہر آیت پر محمول ہونگی۔- اس کا جواب یہ ہے کہ ٹڈیوں کی اباحت کے بارے میں داردشدہ روایات اس حکم سے ان کی تخصیص کرتی ہیں اور آیت کی تخصیص میں ان روایات پر سب کا عمل ہے جبکہ ان روایات میں ٹڈیوں کے مابین کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ ان روایات کے ذریعے آیت پر اعتراض کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایات آیت کے حکم کے بارے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے اور آیت کی تخصیص کرتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ٹڈیاں اس معاملے میں مچھلیوں کی طرح نہیں ہیں جسے تحت ہم نے طافی مچھلی کی ممانعت کردی ہے اور باقیوں کو مباح رکھا ہے اس لیے کہ وہ روایتیں جو مرداروں میں سے مچھلی کی اباحت کی تخصیص کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ان کے بالمقابل طافی مچھلی کی ممانعت میں وارد رروایتیں بھی موجود ہیں۔ اس لیے ہم نے ان تمام روایات پر عمل کیا ہے اور ان میں سے خاص کے ذریعے عام کا فیصلہ کردیا ہے اور اس میں ممانعت کی روایتوں کو آیت کی تائید بھی حاصل ہے، نیز جب ہم نے امام مالک اور ان کے ہم خیال حضرات کی مقتول ٹڈیوں کے سلسلے میں م وافقت کی تو اس سے اس پر بھی دلالت حاصل ہوگئی کہ مقتول اور قتل کے بغیر مردہ ٹڈیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ ٹڈیوں کے حق میں قتل کا عمل ذبح کا عمل نہیں ہے، اس لیے کہ ذبح کا عمل دوصورتوں میں ہوتا ہے اور یہ عمل ان جانوروں پر ہوتا ہے جن کے اندر بہنے والا خون ہو۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ ذبح متعذر ہونے کی صورت میں جانور کا خون بہا دیا جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ شکار جب پکڑا جائے تو اس پر ذبح کا عمل اس طرح ہوتا ہے کہ شکاری زخمی کر کے اسی کا خون بہا دے۔ ٹڈیوں کے اندر چونکہ بہنے والا خون نہیں ہوتا اس لئے انہیں ہلاک کردینا اور ان کا از خود طبعی موت مرجانا دونوں یکساں ہوتے ہیں جس طرح بہنے والا خون رکھنے والے جانور کا خون بہائے بغیر اسے قتل کردینا اور اس کا طبعی موت مرجانا اس کے غیرمذبوح ہونے میں یکساں ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ٹڈیوں کو قتل کرنے اور ان کے طبعی موت مرجانے کا حکم یکساں ہو کیونکہ ان کے جسم میں بہنے والا خون نہیں ہوتا۔- اگر کہا جائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طافی مچھلی اور پکڑنے والے کے ہاتھوں قتل ہوجانے والی یا کسی حادث سبب کی بنا پر مرجانے والی مچھلی کے درمیان فرق رکھا ہے۔ اور اگر ہم مقتول اور مردہ ٹڈیوں کے درمیان فرق کرتے ہیں تو آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ؟ اس کا جواب دو طرح سے دیا جاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ مچھلی کے اندر بھی یہی قیاس ہے کیونکہ اسے مذ کی (ذبح کے ذریعے پاک) قرار دینے کی صحت کے لیے خون بہانے کی ضرورت پیش نہیں آتی ، لیکن ہم نے ان روایتوں کی بنا پر یہ قیاس ترک کردیا جن کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ اور ہمارا اصول یہ ہے کہ آثار کے ذریعے قیاس کی تخصیص ہوسکتی ہے جبکہ معترض کے نزدیک کوئی اثر اور روایت نہیں ہے جس کے ذریعے کچھ ٹڈیوں کی اباحت کے حکم میں تخصیص کردی جائے اور بعض کی نہ کی جائے۔ اس بنا پر اباحت کی حامل روایتوں کو تمام ٹڈیوں میں استعمال کرنا ضروری ہوگیا۔ دوم یہ کہ مچھلی کے اندر بہنے والا خون ہوتا ہے اس لئے قتل کردینے کی صورت میں اس کی ذکاۃ یعنی ذبح عمل میں آ جاتی ہے اور ذکاۃ کی شرط کے لئے خون بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس کا خون پاک ہوتا ہے اور اسے بمعہ خون کھایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مچھلی کے اندر یہ شرط ہے کہ اس کی موت کسی حادث سبب کی بنا پر ہوئی ہو جو اس کے لئے اس ذکاۃ کے قائم مقام بن جائے جو بہنے والا خون رکھنے والے تمام جانوروں کے سلسلے میں ضروری ہوتی ہے۔ یہ بات ٹڈیوں میں نہیں پائی جاتی اس بنا پر مچھلی اور ٹڈی میں فرق ہوگیا۔ حضرت ابن عمر (رض) سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ تمام ٹڈیاں مذ کی ذبح شدہ ہوتی ہیں۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت صہیب (رض) اور حضرت مقداد (رض) سے ٹڈیاں کھا لینے کی اباحت منقول ہے۔ ان حضرات نے اس حکم کے اندر ٹڈیوں کے درمیان فرق نہیں رکھا ہے۔- جنین کی ذکاۃ - ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اونٹنی اور گائے وغیرہ کے جنین کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہیں یعنی اگر ماں کو ذبح کر دیاجائے اور اس کے پیٹ سے مردہ بچہ برآمدہو تو اس بچے کا کیا حکم ہوگا ؟ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ایسے بچے کا گوشت نہیں کھایاجائے گا، الایہ کہ وہ زندہ برآمد ہوا اسے ذبح کرلیاجائے۔ حماد کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی، امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ ایسے بچے کا گوشت کھا لیاجائے گا، خواہ اس کے جسم پر بال نمودار ہوچکے ہوں یا نمودار نہ ہوئے ہوں۔- سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ ” جنین کی ذبح اس کی ماں کی ذبح سے عمل میں آجاتی ہے “ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ اگر جنین کی خلقت یعنی جسمانی ساخت مکمل ہوچکی ہو اور بال نمودار ہوچکے ہوں خ تو اس کا گوشت کھایاجائے گا ورنہ نہیں، سعید بن المسیب کا بھی یہی قول ہے اوزاعی کا قول ہے کہ اگر اس کی خلقت کی تکمیل ہوچکی ہو تو اس صورت میں اس کی ماں کی ذبح سے اس کا ذبح عمل میں آجائے گا۔- قول باری ہے : حرمت علیکم المیتۃ واللہ (تم پر مردار اور خون حرام کردئیے گئے ہیں) اس آیت کے آخر میں ارشاد ہے : الا ماذکیتم ( سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا) نیز فرمایا انما حرم علیکم المیتۃ ( اللہ نے تم پر مردار حرام کردیا) اللہ نے مردار کو م مطلقاً حرام قرار دیا اور اس حکم سے صرف ان جانوروں کو مستثنیٰ کردیا جنہیں ذبح کرلیا گیا ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرما دیا کہ جس جانور کے ذبح کی قدرت ہو اس کے ذبح کا عمل نحر ( سینے کے بالائی حصے) اور حلقوم میں ہوتا ہے اور جس جانور کے ذبح کی قدرت نہ ہو اس کے ذبح کا عمل اس کا خون بہا کر ہوتا ہے، چناچہ ارشاد ہے : جس چیز کے ذریعے چاہو خون بہا دو ۔ نیزمعراض ( بغیر پر کاتیر جس کا درمیانی حصہ موٹا ہو) کے بارے میں فرمایا : اگر وہ جانور کا جسم پھاڑ دے تو اس کا گوشت کھالو اور اگر نہ پھاڑے تو نہ کھائو۔ جب ذکاۃ یعنی ذبح کا عمل ان دوصورتوں میں منقسم ہوگیا اور دوسری طرف اللہ سبحانہ نے مردار کی تحریم کا عام حکم دے دیا اور اس حکم سے صرف وہی جانور مستثنیٰ ہے جسے اس طریقے سے ذبح کیا گیا ہو جس کا ذکر ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ میں کردیا ہے اور یہ طریقہ جنین کے اندر موجود نہیں ہوتا اس لیے ظاہر آیت کی رو سے جنین حرام ہوگا۔- جن حضرات نے اس کی ایاحت کی ہے انہوں نے اپنے استدلال کی بنیاد ان روایات پر رکھی ہے جو حضرت ابوسعید خدری (رض) ، حضرت ابو الدرداء (رض) ، حضرت ابو امامہ (رض) ، حضرت کعب بن مالک (رض) حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت ابو ایوب (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کے واسطوں سے مروی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنین کی ذکاۃ یعنی ذبح اس کی ماں کے ذبح سے عمل میں آجاتی ہے۔ یہ تمام روایات محدیثن کے نزدیک سند کے اعتبار سے انتہائی ضعیف ہیں، میں ن ے ان اسانید کا نیز ان کے ضعف اور اضطراب کا ذکر طوالت کے خوف سے ترک کردیا ہے۔ ان میں سے کسی روایت کے اندر اختلافی نکتے پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : جنین کی ذکاۃ اس کی ماں کی ذکاۃ ہے۔ اس بات کا احتمال رکھتا ہے کہ شاید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ ہے کہ اس کی ماں کا ذبح اس کا ذبح ہے اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ شاید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مراد لی ہے کہا سے بھی اسی طرح ذبح کرنا ضروری ہے جس طرح اس کی ماں کو ذبح کیا گیا ہے۔- جیسے یہ قول باری ہے : وجنتہ عرضھا السموت والارض (اور جنت جس کا عرض آسمان اور زمین ہیں) یا مثلاً جس طرح کوئی کسی سے کہے : میری بات تمہاری بات اور میرا مسلک تمہارا مسلک ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میری بات اور میرا مسلک تمہاری بات اور تمہارے مسلک کی طرح ہے شاعر کا شعر ہے ؎- فعیناک عینا ھا وجیدک جیدھا سوی ان عظم الساق منک دقیق - (اے محبوبہ ، تمہاری آنکھیں ہرنی کی آنکھیں اور تمہاری گردن ہرنی کی گردن ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تمہاری پنڈلی کی ہڈی باریک ہے ، یعنی ہرنی کی آنکھوں اور گردن کی طرح۔- جب لفظ کے اندر اس بات کا احتمال موجود ہے جس کا ذکر ہم نے کیا ہے اور حدیث کے اندر مذکورہ دونوں معنی مراد ہونا اس بنا پر درست نہیں ہے کہ ان کے درمیان منافات ہے کیونکہ ایک معنی کے حبین کے ذبح کا ایجاب ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنین اگر فی ذاتہ غیر مذ کی ہو تو اسے کھایا نہیں جاسکتا۔ دوسرے معنی کے تحت اگر ماں کا ذبح عمل میں آچکا ہو تو جنین کے کھانے کی اباحت ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنین کا بذاتہ ذبح غیر معتبر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے مذکورہ حدیث کے ذریعے آیت کی تخصیص جائز نہیں ہوگی، بلکہ حدیث کو آیت کی موافقت والے مفہوم پر محمول کیا جائے گا کیونکہ کمزور سند والی خبر واحد کے ذریعے جس میں آیت کی موافقت کا احتمال بھی موجود ہو، آیت کی تخصیص جائز نہیں ہے۔- جنین کا ذبح بھی اسی طر ح واجب ہے جس طرح اس کی ماں کا ذبح، اس پر اس جہت سے دلالت ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر جنین زندہ برآمد ہو تو اس کا ذبح واجب ہوتا ہے اور ایسی صورت میں اس کے ماں کے ذبح پر اقتصار جائز نہیں ہوتا۔ گویا مذکورہ بالا حدیث سے مراد یہی ہے اس بنا پر اب اس مراد کے ساتھ ساتھ یہ بات مراد نہیں ہوسکتی کہ اس کی ماں کا ذبح اس کا ذبح ہے کیونکہ ان دونوں معانی میں تضاد اور منافات ہے، اس لئے کہ ایک معنی میں اس کے ذبح کے ایجاب کا مفہوم ہے اور دوسرے کے اندر اس ایجاب کی نفی ہے۔- اگر کوئی شخص کہے کہ مذکورہ بالا دونوں معنی دو حالتوں میں مراد لیے جائں تو اس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے یعنی جب جنین زندہ حالت میں برآمد ہو تو اسے ذبح کرنا واجب کردیاجائے تو جب مردہ حالت میں برآمد ہو تو اس کی ماں کے ذبح کی بنا پر اسے مذبوح قرار دیاجائے۔- اسکا جواب یہ ہے کہ ذیر بحث حدیث میں ان دو حالتوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس حدیث میں ایک ہی لفظ مذکور ہے اور اس ایک لفظ سے دونوں باتیں مراد لیناجائز نہیں ہے کیونکہ دونوں میں ایک معنی مراد لینے کی صورت میں ایک حرف کے اضافے کا اثبات ہوگا اور دوسرے معنی میں ایک حرف کے اثبات نہیں ہوگا اور یہ بات درست نہیں ہے کہ ایک لفظ کے اندر ایک حرف اور ایک غیر حرف کا وجود ہوجائے۔ اس بناپر جو لوگ دونوں معنوں کی بات کرتے ہیں ان کی بات باطل ہے۔- اگر کہاجائے کہ اگر دونوں میں سے ایک معنی کا ارادہ کیا جائے تو یہ بات ایک حرف، یعنی حرف کاف کے اضافے کی موجب ہوگی اور دوسرے میں کوئی اضافہ نہ ہوگا، اس لئے اسے اس معنی پر محمول کرنا اولیٰ ہوگا جس میں کسی اضافے کی ضرورت نہ ہو کیونکہ حرف کا حذف اس بات کا موجب ہوتا ہے کہ لفظ مجاز قرار پائے اور اگر اس میں کوئی حذف نہ ہو تو اس صورت میں لفظ حقیقت پر محمول ہوگا اور لفظ کو حقیقت پر محمول کرنا اسے مجاز پر محمول کرنے سے اولیٰ ہوتا ہے۔- اس کے جوا ب میں کہاجائے گا کہ حرف کا مخذوف ہونا یا مخذوف نہ ہونا اس سے احتمال کو زائل نہیں کرے گا، کیونکہ وہ اگرچہ مجاز ہوگا لیکن وہ لفظ کا مفہوم اور اس کا متحمل ہوگا اور جو بات لفظ کا متقضا ہو اس میں حقیقت اور مجاز کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس بنا پر آیت کی تخصیص جائز نہیں ہوگی۔- اگر کوئی یہ کہے کہ لفظ کے اندر یہ احتمال نہیں ہے کہ ماں کے ذبح سے جنین غیر مذبوح ہوتا ہے کیونکہ جنین کو جنین کا اسم صرف اس وقت دیاجاتا ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہو اور جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر آ جائے تو اسے جنین کا نام نہیں دیاجاتا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنین کے لئے ذبح کا اثبات اس حالت میں فرمایا ہے جب اس کا اتصال ماں کے ساتھ ہو اور یہ صورت اس امر کو واجب کردیتی ہے کہ جب مذکورہ حالت کے اندر ماں کا ذبح عمل میں آجائے تہ جنین بھی مذبوح تسلیم کرلیاجائے۔- اس کا جواب دو طرح سے دیاجائے گا۔ ایک تو یہ کہ انفصال کے بعد بھی اسے جنین کے نام سے موسوم کرنا درست ہے کیونکہ ماں کے پیٹ میں اس کے پوشیدہ رہنے کا زمانہ اس سے قریب ہی ہوتا ہے اور کوئی شخص یہ قول اختیار کرنے سے انکار ی نہیں ہے کہ اگر جنین زندہ برآمد ہو تو اس کی ماں کی طرح اسے بھی ذبح کیا جائے اس طرح ماں سے علیحدہ ہونے اور ذبح ہوجانے کے بعد بھی اس پر جنین کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ حمل بن مالک نے کہا ہے کہ میں اپنی دو لونڈیوں کے درمیان موجود تھا کہ ایک نے دوسری کو خیمے کے ڈنڈے سے ضرب لگائی۔ ضرب اتنی شدید تھی کہ مضروبہ نے اپنا حمل گرا دیا جو مردہ تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جھگڑے کا فیصلہ یہ فرمایا کہ جرمانے کے طورپر ایک راس غلام یا لونڈی واجب کردیا۔ یہاں حمل گر جانے کے بعد بھی اسے جنین کا نام دیا گیا۔ اگر بات اسی طرح ہے تو پھر یہ کہناجائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد جنین کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے۔ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد یہ ہے کہ اسے بھی اسی طرح ذبح کیا جائے گا جس طرح اس کی ماں کو ذبح کیا گیا ہے۔ اگر ماں اسے زندہ صورت میں گرا دے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ ہوتی کہ جنین حالت جنین کے اندر بھی مذبوح ہوتا ہے تو اس سے یہ واجب ہوتا کہ زندہ برآمد ہونے کی صورت میں بھی اپنی ماں کے ذبح کی بنا پر مذبوح قرار دیاجاتا اور برآمد ہونے کے بعد مرجانے کی صورت میں اس پر مردار کا حکم عائد نہ ہوتا جس طرح ماں کے پیٹ میں مرجانے کی صورت میں اس پر یہ حکم نہیں کیا جاتا لیکن جب سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جنین کا زندہ برآمد ہونا اس بات سے مانع ہے کہ اس کی ماں کے ذبح کو اس کا ذبح تسلیم کرلیاجائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ نہیں ہے کہ ماں کے ساتھ اس کے اتصال کی حالت میں ماں کا ذبح اس کا ذبح قرار دیاجائے۔- اگر کوئی شخص کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کے اثبات کا اس صورت میں ارادہ کیا ہے جبکہ وہ مردہ حالت میں برآمد ہو، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کے اس دعوے کا ذکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمایا۔ اگر معترض کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ پیٹ کے اندر جنین ہونے کی حالت میں مرجانے کی شرط عائد کردے، اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ذکر نہیں فرمایا تو پھر ہمارے لئے بھی جائز ہوگا کہ ہم اس کے ذبح کی شرط عائد کردیں خواہ وہ زندہ برآمد ہو یا مردہ اور جب اس میں ذبح کے عمل کا وجود نہ پایاجائے تو اس کا کھانا جائز نہ ہو۔ علاوہ ازیں جب ہم جنین کی ذات کے اعتبار سے ذبح کے ایجاب کی شرط عائد کریں گے اور اس بارے میں اس کی ماں کا اعتبار نہیں کریں گے تو گویا ہم زیر بحث حدیث پر اس کے عموم کے اعتبار سے عمل پیرا ہوں گے۔ اس طرح ہم جنین کے گوشت کی اباحت کو جنین ہونے کی حالت کے اندر اور برآمد ہونے کے بعد اس کی ذات میں ذبح کے عمل کے وجود کے ساتھ معلق کردیں گے۔ زیر بحث حدیث کو ہماری بیان کردہ اس توجیہ پر محمول کرنا معترض کی بیان کردہ صورت کے اندر اسے محدود کردینے اور اس میں ایک ایسا حرف محذوف ماننے سے اولیٰ ہے جس کا ذکر نہ تو اس میں ہے اور نہ اس پر اس حدیث کی دلالت ہی ہے۔- اگر کوئی کہے کہ زیر بحث حدیث کو اس معنی پر محمول کرنا جس کا آپ نے ذکر کیا ہے یعنی جنین کے زندہ برآمد ہونے کی صورت میں اس کے ذبح کا ایجاب، حدیث سے حاصل ہونے والے فائدے کو ساقط کردیتا ہے کیونکہ یہ بات تو اس حدیث کے ورود سے پہلے ہی معلوم تھی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیر بحث حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اگر جنین زندہ برآمد ہوجائے تو اس کا ذبح واجب ہوجائے گا خواہ وہ ایسی حالت میں مرجائے کہ اسے ذبح کرنے کی مہلت نہ ملے، یا خواہ وہ زندہ باقی رہے۔ اس توجیہ سے ان حضرات کا قول باطل ہوگیا جو کہتے ہیں کہ اگر جنین ایسی حالت میں مرجائے کہ اسے ذبح کرنے کی مہلت نہ ملے تو اس کی ماں کے ذبح کی بنا پر اسے بھی مذبوح تسلیم کرلیاجائے گا نیز دوسری جہت سے مذکورہ حدیث جنین کے ذبح کے ایجاب کا حکم بھی ہے نیز یہ کہ اگر جنین مردہ حالت میں برآمد ہو تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا کیونکہ ایسی صورت میں وہ غیر مذبوح ہوگا۔ اور اگر وہ زندہ برآمد ہو تو اسے ذبح کیا جائے گا۔ اس طرح حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مردہ ہونے کی صورت میں وہ مردار ہوگا اور اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ اس توجیہ سے ان لوگوں کا قول باطل ہوگیا جو کہتے ہیں کہ مردہ حالت میں برآمد ہونے کی صورت میں اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔- اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جس کا ذکر زکریا بن یحییٰ الساجی نے بندار اور ابراہیم بن محمد التیمی سے کیا ہے، ان دونوں نے یحییٰ بن سعید سے، ان سے مجالد نے ابو الوداک سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مردہ حالت میں برآمد ہونے والے جنین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا : اگر تم چاہو تو اسے کھالو کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کے ذبح کے ذریعے عمل میں آگیا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ثقہ راویوں کی ایک جماعت نے یحییٰ بن سعید سے اس حدیث کی روایت کی ہے لیکن انہوں نے اس میں مردہ حالت میں برآمد ہونے کا ذکر نہیں کیا۔ ایک اور جماعت نے جس میں ہشیم، ابو اسامہ اور عیسیٰ بن یونس شامل ہیں۔ اس حدیث کی روایت مجالد سے کی ہے لیکن انہوں نے اس میں یہ ذکر نہیں کیا کہ جنین مردہ حالت میں برآمد ہوا تھا۔ ان راویوں نے تو صرف یہ بیان کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس جنین کے بارے میں سوال کیا گیا تھا جو اونٹنی یا گائے یا بکری کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا تھا کہ : اسے کھالو، کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے۔ اس کی روایت ابن ابی لیلیٰ نے عطیہ سے، انہوں نے حضرت ابو سعید سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کی ہے۔ ان تمام حضرات نے جن کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس حدیث کی روایت ان ہی الفاظ میں بیان کی ہے اور کسی نے بھی یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ جنین مردہ حالت میں برآمد ہوا تھا۔ صرف الساجی کی روایت میں ان ا لفاظ کا ذکر ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اضافہ الساجی کی جانب سے ہے کیونکہ یہ راوی ایسی کوتاہیوں سے غیر محفوظ تصور ہوتا ہے۔- اگر کوئی شخص یہ استدلال کرے کہ قول باری : احلت لکم بھیمۃ الانعام (تمہارے لئے مویشی حلال کردئیے گئے ہیں) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اس سے مراد جنین ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد تمام چوپائے ہیں اور قول باری : الا ما یتلی علیکم ( بجز اس کے جس کا ذکر آگے تم سے کیا جاتا ہے) سے مراد سور ہے۔ حسن بصری سے مروی ہے کہ : بھیمۃ الانعام بھیڑ بکری، اونٹ اور گائے ہے بہتر یہ ہے کہ مذکورہ قرآنی لفظ کو تمام چوپایوں پر محمول کیا جائے بلا دلالت تخصیص لازم آئے گی۔ اگر مذکورہ لفظ سے جنین مراد بھی ہوں تو دوسرے تمام چوپایوں کی طرح ان کی اباحت کو بھی ذبح کی شرط کے ساتھ مشروط کردیاجائے گا کیونکہ دوسرے تمام چوپائے ذبح کی شرط کے ساتھ مباح اور حلال قرارپاتے ہیں۔ مذکورہ لفظ سے جنین مراد ہونے کی صورت میں یہ تمام جنین اس جنین کی طرح ہوں گے جو زندہ برآمد ہو جس کی اباحت ذبح کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے نیز قول باری : احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم سے اگر مراد یہ ہے کہ :” بجز اس کے جو فی الحال حرام ہے اور جس کے متعلق تمہیں مستقبل میں بتایاجائے گا “ تو اس صورت میں یہ قول باری مجمل ہوگا اور اس سے استدلال درست نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں یہ قول باری یوں ہوگا کہ گویا اللہ سبحانہ نے فرمایا : بعض چوپائے مباح ہیں اور بعض ممنوع اور اجمال کی تفصیل نہ ہونے کی وجہ سے اس سے کسی عموم کا اعتبار درست نہیں ہوگا۔- اگر کوئی شخص کسی حاملہ عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس کے نتیجے میں عورت مرجائے اور مردہ جنین گرا دے تو ایسی صورت میں جنین کا حکم وہی ہوگا جو اس کی ماں کا حکم ہے۔ اسی طرح ذبح کے اندر بھی جنین کا یہی حکم ہونا چاہیے جب وہ اپنی ماں کی موت کی وجہ سے پیٹ کے اندر مرجائے۔ اگر مذکورہ حاملہ عورت جنین کو زندہ صورت میں گرادے اور پھر جنین مرجائے تو اس صورت میں ایک راس غلام یا لونڈی کے ایجاب کے اندر وہ اپنی ذات کے حکم میں منفرد ہوگا اور اس حکم میں اس کی ماں شامل نہیں ہوگی۔ اگر کوئی کہے کہ اسی طرح جانور کے جنین کا حکم بھی ہونا چاہیے، یعنی اگر وہ اپنی ماں کی موت کی وجہ سے پیٹ میں مرجائے اور مردہ صورت میں برآمد ہو تو اس کا گوشت کھا لینا چاہیے اور اگر زندہ صورت میں برآمد ہو تو ذبح کیے بغیر اس کا گوشت نہ کھایاجائے۔- اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک فاسد قیاس ہے کیونکہ یہ ایک حکم کو اس کے غیر کے حکم پر قیاس کرنے کی صورت ہے۔ درست بات یہ ہے کہ اگر دو مسئلوں کو ایک حکم کے تحت کسی ایسی علت کی بنا پر یکجا کردیاجائے جو ایک مسئلے کو دوسرے مسئلے کی طرف لوٹا دینے کی موجب بن رہی ہو لیکن اگر مسئلے کو دوسرے مسئلے پر دو مختلف حکموں کے اندر قیاس کیا جائے تو ایسا کرنا قیاس نہیں کہلائے گا چناچہ یہاں معترض نے جس مسئلے کو استشہاد کے طورپر پیش کیا ہے اس کا حکم تو یہ ہے کہ جب جنین اپنی ماں سے اس کی موت کے بعد زندہ صورت میں علیحدہ ہو تو پھر اس کا تاوان عائد ہوجائے گا جبکہ زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ ایک حالت کے اندر ماں کے ذبح کو جنین کے ذبح کا اثبات قراردیاجائے اور دوسری حالت کے اندر اس اثبات کی ممانعت کی جائے۔ ایسی صور ت میں اس مسئلے کو مذکورہ بالا مسئلے کی طرف کس طرح لوٹا یا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حاملہ بکری وغیرہ کے پیٹ پر ضرب لگائے اور وہ مردہ جنین گرا دے تو ضارب پر اس جنین کا نہ کوئی جرمانہ عائد ہوگا اور نہ ہی اس کی قیمت۔ اس میں صرف ماں کو پہنچنے والے نقصان کا پورا کرنا واجب ہوگا بشرطیکہ اسے کوئی نقصان پہنچ جائے۔ جب چوپایوں کے جنین کے لئے اپنی ماں سے علیحدہ ہوجانے کے بعد ماں کے زندہ رہنے کی صورت میں جرمانے وغیرہ کا کوئی حکم نہیں ہوتا جبکہ یہ حکم عورت کے جنین کے لیے ثابت ہوتا ہے تو پھر چوپائے کو انسان پر قیاس کو ناکس طرح جائز ہوگا۔ ان دونوں کے حکم میں خود اس صورت کے اندر اختلاف ہے جس کا ذکر معترض نے کیا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ ماں کے ساتھ اتصال کی حالت میں جنین ماں کے ایک عضو کے حکم میں ہوتا ہے اس لئے ماں کے ذبح کے ساتھ اس کا ایک عضو ہونے کی حیثیت سے وہ بھی حلال ہوجائے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنین کو اس کی ماں کا ایک عضو قرار دینا درست نہیں ہے کیونکہ کبھی ماں کی زندگی میں اس کا زندہ برآمد ہونا اور کبھی ماں کی موت کے بعد اس کا زندہ باہر ا ٓ جانا ممکن ہوتا ہے جبکہ عضو کو اگر پورے جسم سے علیحدہ کردیاجائے تو اس کے بعد اس کے لیے زندگی کا حکم ثابت کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جنین اپنی ماں کے تابع نہیں ہوتا نہ تو ماں کی زندگی کے دوران اور نہ ہی اس کی موت کے بعد۔- اگر کہا جائے کہ ذبح کے اندر جنین کا اپنی ماں کے تابع ہونا اسی طرح ضروری ہے جس طرح عتاق، کتابت اور استیلاء کے اندر بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس اعتبار سے غلط ہے کہ ایک حکم کو دوسرے حکم پر قیاس کرنا ممتنع ہوتا ہے جس کی وضاحت ہم گزشتہ سطور میں کر آئے ہیں۔ اسے ایک جہت سے دیکھیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ جب لونڈی آزاد ہوجائے تو اس کا ولد آزاد ہوئے بغیر اس سے علیحدہ ہوجائے حالانکہ وہ ان احکام کے اندر ماں کے تابع ہوتا ہے جن کا معترض نے اوپر ذکر کیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بات ممکن ہے کہ ماں کو ذبح کریں اور اس کے پیٹ سے جنین زندہ برآمد ہو۔ ایسی صورت میں جمہور کے نزدیک ماں کا ذبح اس کا ذبح قرار نہیں پائے گا۔- اس وضاحت سے مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں فرق واضح ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں معترض کے قیاس کا فساد کھل کر سامنے آ جاتا ہے اس وضاحت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ جنین ذبح کے اندر اپنی ماں کے تابع نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ ماں کے تابع ہوتا تو پھر یہ بات جائز نہ ہوتی کہ ماں کے ذبح کے بعد بھی وہ اس معاملے میں اپنی ذات کے اعتبار سے الگ ہو یعنی زندہ برآمد ہونے کی صورت میں اسے ذبح کرنا لازم ہوجائے۔- جنین کے ذبح کے مسئلے میں امام مالک کا مسلک اس حدیث پر مبنی ہے جسے سلیمان ابو عمران نے ابو البراء سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت براء (رض) بن العازب سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوپایوں کے جنین کے بارے میں فیصلہ دیا تھا کہ اس کی ماں کا ذبح اس کا ذبح ہے جب اس پر بال آ چکے ہوں۔ زہری نے ابن کعب بن مالک (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام فرماتے تھے کہ جب جنین کے بال اگ آئیں تو اس کا ذبح اس کی ماں کے ذبح کے تحت عمل میں آ جاتا ہے۔ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ درج بالا روایت میں بال اگ آنے کا ذکر ہے اور دوسری روایات میں جو مذکورہ روایت سے زیادہ صحیح ہیں اور حضرت جابر (رض) ، حضرت ابو سعید (رض) ، حضرت ابو الدردا (رض) اور حضرت ابو امامہ (رض) سے منقول ہے بال اگ آنے کی بات کہ مبہم رکھا گیا ہے تو پھر ان دو قسموں کی روایتوں کو یکساں کیوں نہیں رکھا جاتا جبکہ دوسری قسم کی روایتیں اس حکم کی نفی نہیں کرتیں جس کا ایجاب بال اگ آنے والی روایت نے کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں قسم کی روایتیں ایک ہی حکم کو واجب کرتی ہیں۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک قسم کی روایت میں اس حکم کی تخصیص ہے اس کے غیر کی نفی نہیں ہے اور دوسری میں اس حکم کا ابہام اور اس کا عموم ہے پھر جب ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر جنین کے جسم پر بال نہ آئے ہوں تو اس صورت میں ماں کے ذبح کا جنین کے اندر اعتبار نہیں ہوگا بلکہ خود اس کے ذبح کا اعتبار ہوگا اور جنین اس حالت کے اندر اس بات سے زیادہ قریب ہوگا کہ ماں سے جدا ہونے کے بعد وہ اس کا ایک عضو شمار ہو تو پھر یہ ضروری ہوگا کہ اس کا حکم اس صورت میں بھی یہی ہو جب اس کے جسم پر بال اگ آئے ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد :” اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے “ کے یہ معنی لیے جائیں کہ اسے بھی اسی طرح ذبح کیا جائے جس طرح اس کی ماں کو ذبح کیا گیا ہے۔- امام شافعی اور ان کے ہمنوائوں سے کہاجائے گا کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” اس کے بال اگ آئے ہوں تو اس کی ماں کا ذبح اس کا ذبح ہے “ بال نہ ہونے کی صورت میں اس کی ماں کے ذبح کو اس کا ذبح قرار دینے کی نفی کرتا ہے تو پھر اس روایت کے ذریعہ مذکورہ مبہم روایات کی تخصیص کیوں نہیں کی گئی ؟ کیا آپ لوگوں کے نزدیک اس قسم کی دلیل کے ذریعہ عموم کی تخصیص کی جاسکتی ہے ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی کمزور دلیل کی بہ نسبت عموم اولیٰ ہوتا ہے اس بارے میں امام شافعی کے مسلک کے خلاف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں کے ذریعے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس ارشاد کی دلالت امام شافعی کے نزدیک مذکورہ دونوں مرداروں کے ساتھ تمام مرداروں کی تحریم کی متقضی ہے۔ اس سے امام شافعی پر لازم آتا ہے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد :” جنین کا ذبح اس کی ماں کے ذبح سے عمل میں آجاتا ہے “۔ کے معنی کو مذکورہ بالا روایت کی دلالت کی موافقت پر محمول کریں۔- مردار کی کھال کی وباغت - قول باری ہے : حرمت علیکم المیتہ والدم ( تم پر مردار اور خون حرام کردیا گیا) نیز ارشاد ہے : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتہ اودماً مسفوحا ( اے محمد ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو) یہ آیات مردار کے تمام اجزاء کی تحریم کی متقضی ہیں، مردار کی کھال اس کا جز ہوتی ہے کیونکہ مردار کی کھال کو بھی موت لا حق ہوجاتی ہے، البتہ قول باری : والانعام خلفا لکم فیھا رف و منافع اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تحریم کو مردار کے ان اجزاء تک محدود رکھا گیا ہے جو کھانے کے کام تو آسکتے ہوں۔ اسی مفہوم کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دباغت کے بعد مردار کی کھال کے سلسلے میں واضح فرمایا ہے، ارشاد ہے : صرف مردار کھانا حرام ہے، صرف اس کا گوشت حرام کیا گیا ہے۔- دباغت کے بعد مردار کی کھال کے مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ دباغت سے مراد یہ ہے کہ کھال کو نمک وغیرہ لگا کر خشک کرلیاجائے اور اس کی رطوبت ختم ہوجائے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نیز حسن صالح، سفیان ثوری، عبداللہ بن الحسن العنبری، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ دباغت کے بعد مردار کی کھال کی فروخت جائز اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ امام شافعی کے نزدیک کتے اور سور کی کھالیں اس جواز سے مستثنیٰ ہیں۔ ہمارے اصحاب نے صرف سور کی کھال کے سوا کتے اور دیگرجانوروں کی کھالوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ انہوں نے دباغت کی بنا پر کتے کی کھال کو پاک قرار دیا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ مردار کی کھال سے (دباغت کے بعد) بیٹھنے وغیرہ کے سلسلے میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، لیکن اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ لیث بن سعید کا قول ہے کہ مردار کی کھال دباغت سے پہلے فروخت کردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔- جو حضرات مردار کی کھال کو پاک قرار دیتے اور اسے ذبح شدہ سمجھتے ہیں ان کی دلیل وہ آثار و روایات ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف طرق اور الفاظ میں تواتر کے ساتھ منقول ہیں۔ یہ تمام روایات مردار کی مدبوغ کھال کی طہارت اور اس کے ذبح شدہ ہونے کا حکم عائد کرنے کی موجب ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث ہے جس کھال کی دباغت ہوجائے وہ پاک ہے۔ نیز حسن بصری کی حدیث جس کی روایت انہوں نے المجون بن قتادہ سے کی ہے اور انہوں نے حضرت سلمہ بن المحبق (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک میں ایک مکان کے اندر تشریف لے گئے جس کے صحن میں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی طلب کیا جواب میں عرض کیا گیا کہ یہ مشکیزہ مردار کی کھال کا بنا ہوا ہے یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کھال کی ذکاۃ یعنی ذبح کی دباغت ہے۔- سعید بن المسیب نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی گئی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مردار کی کھالوں کی دباغت ان کی پاکی ہے۔ سماک نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت سودہ (رض) بن زمعہ سے روایت بیان کی ہے کہ ہماری ایک بکری تھی جو مرگئی ہم نے اسے پھینک دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور پوچھا۔ تمہاری بکری کو کیا ہوا ؟ ہم نے عرض کیا کہ اسے ہم نے پھینک دیا ہے۔ یہ سن کر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : قل لا اجد فیما احی الی محرما علی طاعم یطعمہ تاکہ آخر آیت اور فرمایا : تم لوگوں نے اس کی کھال سے کیوں نہیں فائدہ اٹھایا ؟ چناچہ ہم نے اس کی کھال اتار کر اس کی دباغت کی اور اس سے ایک مشک بنا کر پانی لانے کے لیے استعمال کرتے رہے یہاں تک کہ وہ مشک پرانی ہوگئی۔- حضرت ام سلمہ (رض) نے فرمایا : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت میمونہ (رض) کی مردہ بکری کے پاس سے گرے اور اسے یونہی پھینکی ہوئی دیکھ کر فرمایا : اگر اس بکری کے مالکان اس کی کھال سے فائدہ اٹھا لیتے تو کیا ہوتا ؟- زہری نے عبید اللہ بن عبداللہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے حضرت میمونہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا : ان لوگوں نے اس کی کھال کو دباغت کیوں نہیں دی کہ اس کے ذریعے وہ اس سے فائدہ اٹھا لیتے ؟ عرض کیا گیا یہ تو مردار ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا : صرف مردار کا کھانا حرام ہے۔ اسی طرح کی دیگر روایات ہیں جو سب کی سب دباغت کے بعد مردار کی کھال کے پاک ہوجانے کی موجب ہیں میں نے طوالت کے خوف سے ان روایات کا ذکر مناسب نہیں سمجھا۔ یہ تمام روایات تو اتر کی صورت میں وارد ہوئی ہیں اور دو وجوہ کی بنا پر علم اور عمل دونوں کی موجب ہیں نیز زیر بحث آیت کے مفہوم کے لیے فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ روایات اس قدر مختلف جہات سے وارد ہوئی ہیں کہ یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ روایوں کی طرف سے وہم اور غلط بیانی پر اتفاق ہوگیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء نے ان روایات کو قبول کرکے ان پر عمل کیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مردار کی تحریم والی آیت پر عمل کے ساتھ ساتھ ان روایات پر بھی عمل ضروری ہے نیز یہ کہ آیت میں مردار کی قبل دباغت کھال کی تحریم مراد ہے۔- قول باری : علی طاعم یطعمہ کی دلالت کے سلسلے میں ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ آیت سے مراد مردار کے وہ اجزاء ہیں جنہیں کھایا جاسکتا ہو اور دباغت کے بعد کھال خوراک بننے کے دائرے سے خارج ہوجاتی ہے اس لیے تحریم کا حکم اسے شامل نہیں ہے تاہم یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ درج بالا احادیث کا ورودلامحالہ کی تحریم کا حکم آنے کے بعد ہوا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ مردہ بکری کو پھینک نہ دیتے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نہ فرماتے کہ اس کا کھانا حرام ہے۔ یہ صورت حال اس امرپر دلالت کرتی ہے کہ مردار کی تحریم کا حکم ان روایات پر مقدم ہے۔ نیز ان روایات سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ دباغت کے بعد جو کھال ہوتی ہے وہ آیت میں مردار نہیں ہے۔- امام مالک نے جب دباغت کے بعد کھال سے فائدہ اٹھانے کے جواز پر موافقت کی تو گویا انہوں نے مذکورہ کھال کی طہارت کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات پر عمل کیا۔ ان روایات میں کھال کو بطور فرش استعمال کرنے اور اس پر نماز پڑھنے اور اسے فروخت کرنے کے مابین کوئی فرق نہیں رکھا گیا بلکہ تمام روایات میں یہی ذکر ہے کہ اسے دباغت دینا اس کی ذکاۃ اور اس کی طہارت ہے جب مذکورہ کھال کو ذبح شدہ یعنی مذکاۃ تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس پر نماز پڑھنے اور اسے فروخت کرنے کے حکم اور اسے بطور فرش استعمال کرنے اور اس پر بیٹھنے کے حکم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ دباغت سے پہلے مذکورہ کھال کے بارے میں تحریم کا یہ حکم باقی رہتا ہے کہ کسی بھی صورت میں اس سے فائدہ اٹھانا ممتنع ہے جس طرح مردار کے گوشت سے فائدہ اٹھانا ممتنع ہے۔ پھر جب ہم سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دباغت کے بعد کھال مردار کے حکم سے نکل جاتی ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ پاک اور اسی طرح ذبح شد ہ ہوتی ہے جس طرح ایک حلال جانور ذبح شدہ ہوتا ہے۔ نیز اس امر پر دلالت ہوتی ہے کہ تحریم کا حکم اس کے ماکول ہونے کے ساتھ متعلق ہے اور جب یہ خوراک بننے کی حد سے نکل جاتی ہے تو لکڑی اور کپڑے وغیرہ کی طرح ہوجاتی ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ امام مالک ہم سے اس مسئلے میں متفق ہیں کہ مردار کے بالوں اور اون سے انتفاع جائز ہے اس لیے کہ ان چیزوں کو کھانا ممتنع ہوتا ہے۔ یہ بات دباغت کے بعد کھال کے اندر بھی موجود ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ کھال کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو مذکورہ چیزوں کا ہے۔- اگر یہاں کہا جائے کہ بالوں اور اون سے انتفاع اس لیے جائز ہوا کہ جانور کی زندگی کے اندر یہ چیزیں اس کے جسم سے اتاری جاسکتی ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس بات کا ہم نے ذکر کیا ہے ابا حت کے لیے اسے علت قرار دینے میں کوئی امتناع نہیں ہے اور جس بات کا معترض نے ذکر کیا ہے اباحت کی وہ بھی علت بن سکتی ہے، اس طرح گویا اباحت کی دو علتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ اسے کھانے کے طورپر استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔ دوسری یہ کہ جانور کی زندگی میں وہ چیز اس کے جسم سے اتاری جاسکتی ہو اور اس طرح اس سے انتفاع جائز ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ دو علتوں کا موجب ایک ہی حکم ہے۔ اگر ہم تعلیل کے طورپر وہ علت بیان کریں جس کا ہم نے ذکر کیا ہی تو پھر اس پر کھال کو قیاس کرنا واجب ہوجاتا ہے اور اگر معترض تعلیل کے طورپر وہ علت بیان کرے جس کا اس نے ذکر کیا ہے تو اس صورت میں حکم صرف معلول تک محدود رہے گا۔ - الحکم نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے عبداللہ بن عکیم سے ان کی بہ بات نقل کی ہے کہ : ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک مکتوب پڑھ کر سنایا گیا جس میں مذکور تھا کہ : مردار سے نہ تو اس کی کھال کے ذریعے فائدہ اٹھائو اور نہ ہی اس کے کسی عصب یعنی پٹھے کے ذریعے۔ اس روایت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے کہ دباغت کے بعد بھی مردار کی کھال سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت ہے تاہم اس روایت کے ذریعے اباحت کے بارے میں وارد روایات کا معاوضہ جائز نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ جن روایات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے وہ تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں جو علم کا موجب ہوتا ہے جبکہ عبداللہ بن عکیم سے مروی حدیث احاد کے طریقے سے وارد ہوئی ہے۔ عاصم بن علی نے قیس بن الربیع سے، انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے عبداللہ بن عکیم سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ : ہمیں حضرت عمر (رض) نے لکھا کہ مردار سے نہ تو اس کی کھال کے ذریعے فائدہ اٹھائو اور نہ ہی اس کے کسی پٹھے کے ذریعے۔ اس روایت میں عبداللہ بن عکیم نے بیان کیا کہ یہ بات حضرت عمر (رض) نے انہیں لکھی تھی، اس بنا پر اس جیسی روایت کے ذریعے ہماری بیان کردہ روایات کا معارضہ جائز نہیں ہوگا۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھے، اگر ان دونوں قسموں کی روایات کو نقل کے اعتبار سے یکساں درجہ دیاجائے تو تو بھی اباحت کی رویت اولیٰ ہوگی، اس لیے کہ لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر عبداللہ بن عکیم کی روایت کردہ حدیث کو ہماری بیان کردہ روایات کے معارضہ سے الگ بھی رکھا جائے تو بھی اس میں ایسی بات کا وجوہ نہیں ہوگا جو دباغت کے بعد کھال کی تحریم پر دلالت کرتی ہو، اس لیے کہ مذکورہ حدیث میں اھاب کا لفظ آیا ہے اور اہاب اس کھال کو کہتے ہیں جسے ابھی دباغت نہ دی گئی ہو۔ دباغت شدہ کھال کو ادیم کا نام دیا جاتا ہے اس بنا پر مذکورہ حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دباغت کے بعد کھال کی تحریم کی موجب ہے۔- لیث بن سعد کا قول ہے کہ دباغت سے پہلے مردار کی کھال کی فروخت جائز ہے لیکن ان کا یہ قول فقہاء کے متفقہ قول کے دائرے سے باہر ہے۔ کسی نے بھی اس قول کے اندر لیث کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ اس کے علاوہ لیث کا یہ قول حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کے خلاف ہے کہ مردار سے نہ تو اس کی کھال کے ذریعے فائدہ اٹھائو اور نہ اس کے کسی پٹھے کے ذریعے۔ اور فروخت چونکہ فائدہ اٹھانے کی ایک صورت ہے اس لیے مذکورہ حدیث کے تحت اس کی ممانعت واجب ہوگی۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد :(مردار کو کھانا حرام ہے) اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تحریم کا حکم کھانے تک محدود ہے بیع اس کے ضمن میں نہیں آتی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مذکورہ بالا ارشاد کی بنا پر مردار کے گوشت کی بیع بھی جائز ہوجانی چاہیے، اور اگر مذکورہ ارشاد سے مردار کے گوشت کی بیع جائز نہیں ہوئی تو دباغت سے پہلے کھال کا بھی یہی حکم ہوگا، یعنی اس کی بیع جائز نہیں ہوگی۔- اگر کوئی شخص کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درج بالا ارشاد کے تحت مردار کے گوشت کی فروخت کی ممانعت کی گئی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ میں قول باری : حرمت علیکم المیتۃ کے تحت کھال کی فروخت کی ممانعت کرتا ہوں کیونکہ اس آیت میں کھال اور گوشت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے، البتہ اس کے مجموعے سے صرف دباغت شدہ کھال کی تخصیص کردی گئی ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے : یہود پر اللہ کی لعنت ہو، ان پر چربی حرام کردی گئی تو انہوں نے اسے فروخت کرکے اس کے ثمن کو کھالیا۔ یعنی بجائے چربی کے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھا لیا۔ جب دباغت سے قبل کھال کا کھانا مردار کے گوشت کی طرح حرام ہے تو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ دباغت سے پہلے اس کی بیع بھی جائز نہ ہو جس طرح خود گوشت کی بیع، نیز دیگر حرام معینہ اشیاء مثلاً شراب اور خون وغیرہ کی بیع جائز نہیں۔- مردار کی چکنائی سے انتفاع - ارشاد باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ( اللہ نے تو تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت حرام کردیا ہے) نیز ارشاد ہے : قل لا احد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ ( ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو الا یہ کہ وہ مردار ہوض یہ دونوں آیتیں اس بارے میں واضح ہیں کہ مردار کی چربی اور چکنائی کی بھی اسی طرح ممانعت ہے جس طرح اس کے گوشت اور دیگر تمام اجزاء کی۔ محمد بن اسحاق نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ معظمہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وہ لوگ آئے جو جانور کی ہڈیوں سے چربی اور چکنائی حاصل کرنے کا کام کرتے تھے، انہوں نے عرض کیا ہم یہ چربی اور چکنائی جمع کرتے ہیں۔ اسے ہم مردہ جانوروں سے حاصل کرتے ہیں اور اسے صرف کشتیوں اور کھالوں میں استعمال کرتے ہیں۔ یعنی چمڑا رنگنے اور کشتیوں کے تختوں پر لگانے میں اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ یہود کو غارت کرے ان پر چربی کی تمام صورتیں حرام کردی گئی تھیں، انہوں نے اسے فروخت کرے اس کا ثمن کھالیا۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسئلہ پوچھنے والوں کو مردار کی چربی اور چکنائی کے استعمال سے روک دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ اللہ سبحانہ کی طرف سے علی الاطلاق اس کی تحریم اس کی بیع کی تحریم کی بھی اسی طرح موجب سے جس طرح اسے کھانے کی تحریم کی۔- ابن جریح نے عطاء سے نقل کیا ہے کہ مردار کی چربی کشتیوں کے تحتوں پر لگائی جاسکتی ہے لیکن یہ شاذ قول ہے اس کی تحریم کی روایت موجود ہے اور آیت سے اس کی ممانعت ہوتی ہے۔- (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ کریں)
(١٧٣) اب اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو بیان فرماتے ہیں جن کا حرام ہونا اس نے بیان فرمادیا ہے یعنی مردار اور خون اور وہ جانور جو ارادے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نام کے علاوہ بتوں کے نام پر ذبح کیے جائیں ،- سو جو شخص مردار کا گوشت کھانے پر مجبور ہوجائے اور وہ نہ تو حدود الہیہ سے تجاوز کرنے والا ہو اور نہ اس کے گوشت کو حلال سمجھنے والا ہو اور نہ ہی ڈاکو ہو اور نہ بغیر کسی سخت ضرورت کے مردار کھانے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کو جمع نہ کرے یعنی اس کی ضرورت کے وقت (جب کہ جان جانیکا خطرہ ہو) مردار کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں، باقی اس کی ذخیرہ اندوزی نہ کرے، مرنے کے ڈر کے بناء پر جب کہ اسے مردار کھانے کی مجبورا اجازت دی گئی ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
آیت ١٧٣ (اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ ) - جو جانور اپنی موت آپ مرگیا ‘ ذبح نہیں کیا گیا وہ حرام ہے اور خون حرام ہے ‘ نجس ہے۔ اسی لیے ِ اہل اسلام کا ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صرف گردن کو کاٹا جائے ‘ تاکہ اس میں شریانیں وغیرہ کٹ جائیں اور جسم کا اکثر خون نکل جائے۔ لیکن اگر جھٹکا کیا جائے ‘ یعنی تیز دھار آلے کے ایک ہی وار سے جانور کی گردن الگ کردی جائے ‘ جیسے سکھ کرتے ہیں یا جیسے یورپ وغیرہ میں ہوتا ہے ‘ تو پھر خون جسم کے اندر رہ جاتا ہے۔ اس طریقے سے مارا گیا جانور حرام ہے۔ - (وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ ) (وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ ج) - یعنی کسی جانور کو ذبح کرتے ہوئے کسی بت کا ‘ کسی دیوی کا ‘ کسی دیوتا کا ‘ الغرض اللہ کے سوا کسی کا بھی نام لیا گیا تو وہ حرام ہوگیا ‘ اس کا گوشت کھانا حرام مطلق ہے ‘ لیکن اسی کے تابع یہ صورت بھی ہے کہ کسی بزرگ کا قرب حاصل کرنے کے لیے جانور کو اس کے مزار پر لے جا کر وہاں ذبح کیا جائے ‘ اگرچہ دعویٰ یہ ہو کہ یہ صاحب مزار کے ایصال ثواب کی خاطر اللہ تعالیٰ کے لیے ذبح کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ایصال ثواب کی خاطر تو یہ عمل گھر پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ َ - وہ کھانے جو اہل عرب میں اس وقت رائج تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر ان میں سے چار چیزوں کی حرمت کا قرآن حکیم میں بار بار اعلان کیا ہے۔ مکی سورتوں میں بھی ان چیزوں کی حرمت کا متعددبار بیان ہوا ہے اور یہاں سورة البقرۃ میں بھی جو مدنی سورت ہے۔ اس کے بعد سورة المائدۃ میں یہ مضمون پھر آئے گا۔ ان چار چیزوں کی حرمت کے بیان سے حلال و حرام کی تفصیل پیش کرنا ہرگز مقصود نہیں ہے ‘ بلکہ مشرکین کی تردید ہے۔ - (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلاآ اِثْمَ عَلَیْہِ ط) - اگر کوئی شخص بھوک سے مجبور ہوگیا ہے ‘ جان نکل رہی ہے اور کوئی شے کھانے کو نہیں ہے تو وہ جان بچانے کے لیے حرام کردہ چیز بھی کھا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں ‘ ایک تو وہ اس حرام کی طرف رغبت اور میلان نہ رکھتا ہو اور دوسرے یہ کہ جان بچانے کے لیے جو ناگزیر مقدار ہے اس سے آگے نہ بڑھے۔ ان دو شرطوں کے ساتھ جان بچانے کے لیے حرام چیز بھی کھائی جاسکتی ہے ۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :171 اس کا اطلاق اس جانور کے گوشت پر بھی ہوتا ہے جسے خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور اس کھانے پر بھی ہوتا ہے جو اللہ کے سواکسی اور کے نام پر بطور نذر کے پکایا جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جانور ہو یا غلہ یا اور کوئی کھانے کی چیز ، دراصل اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اللہ ہی نے وہ چیز ہم کو عطا کی ہے ۔ لہٰذا اعتراف نعمت صدقہ و نذر و نیاز کے طور پر اگر کسی کا نام ان چیزوں پر لیا جا سکتا ہے تو وہ صرف اللہ ہی کا نام ہے ۔ اس کے سوا کسی دُوسرے کا نام لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ ہم خدا کے بجائے یا خدا کے ساتھ اس کی بالاتری بھی تسلیم کر رہے ہیں اور اس کو بھی مُنعم سمجھتے ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :172 اس آیت میں حرام چیز کے استعمال کرنے کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے ۔ ایک یہ کہ واقعی مجبُوری کی حالت ہو ۔ مثلاً بھوک یا پیاس سے جان پر بن گئی ہو ، یا بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو اور اس حالت میں حرام چیز کے سوا اور کوئی چیز میسر نہ ہو ۔ دوسرے یہ کہ خدا کے قانون کو توڑنے کی خواہش دل میں موجود نہ ہو ۔ تیسرے یہ کہ ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کیا جائے ، مثلاً حرام چیز کے چند لقمے یا چند قطرے یا چند گھونٹ اگر جان پچا سکتے ہوں تو ان سے زیادہ اس چیز کا استعمال نہ ہونے پائے ۔
107: اس آیت میں تمام حرام چیزوں کا احاطہ کرنا مقصود نہیں بلکہ مقصد یہ جتلانا ہے کہ جن جانوروں کو تم نے حرام سمجھ رکھا ہے وہ تو اللہ نے حرام نہیں کئے، تم خوامخواہ ان کی حرمت اللہ کے ذمے لگارہے ہو، البتہ کئی چیزیں ایسی ہیں جن کو تم حرام نہیں سمجھتے مگر اللہ نے انہیں حرام قرار دیا ہے، حرام چیزیں وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو حرام تو وہ ہیں جنہیں تم نے حلال سمجھا ہوا ہے۔