Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بدترین لوگ یعنی جو یہودی نبی کی صفات کی آیتوں کو جو توراۃ میں ہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بعلے اپنی آؤ بھگت عرب سے کراتے ہیں اور عوام سے تحفے اور نقدی سمیٹتے رہتے ہیں وہ اس گھٹیا دنیا کے بدلے اپنی آخرت خراب کررہے ہیں ، انہیں ڈرلگا ہوا ہے کہ اگر حضور کی نبوت کی سچائی اور آپ کے دعوے کی تصدیق کی آیتیں ( جو توراۃ میں ہیں ) لوگوں پر ظاہر ہو گئیں تو لوگ آپ کے ماتحت ہو جائیں گے اور انہیں چھوڑ دیں گے اس خوف سے وہ ہدایت و مغفرت کو چھوڑ بیٹھے اور ضلالت وعذاب پر خوش ہوں گئے اس باعث دنیا اور آخرت کی بربادی ان پر نازل ہوئی ، آخرت کی رسوائی تو ظاہر ہے لیکن دنیا میں بھی لوگوں پر ان کا مکر کھل گیا ، وقتًا فوقتاً وہ آیتیں جنہیں یہ بدترین علماء چھپاتے رہتے تھے ظاہر ہوتی رہیں ، علاوہ ازیں خود حضرت کے معجزات اور آپ کی پاکیزہ عادت نے لوگوں کو آپ کی تصدیق پر آمادہ کر دیا اور ان کی وہ جماعت جس کے ہاتھ سے نکل جانے کے ڈرنے انہیں کلام اللہ چھپانے پر آمادہ کیا تھا بلآخر ہاتھ سے جاتی رہیں ان لوگوں نے حضور سے بیعت کر لی ایمان لے آئے اور آپ کے ساتھ مل کر ان حق کے چھپانے والوں کی جانیں لیں اور ان سے باقاعدہ جہاد کیا ، قرآن کریم میں ان کی حقائق چھپانے والی حرکتوں کو جگہ جگہ بیان کیا گیا ، اور فرمایا ہے کہ جو مال تم کماتے ہو اللہ کی باتوں کو چھپا کر ، قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں بھی جو یتیموں کا مال ظلم سے ہڑپ کرلیں ۔ ان کے لئے بھی یہی فرمایا ہے کہ وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں اور قیامت کے دن بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جو شخص سونے چاندی کے برتن میں کھاتا پیتا ہے وہ بھی اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے ۔ پھر فرمایا ان سے تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت بھی نہیں کرے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ المناک عذابوں میں مبتلا کرئے گا ۔ اس لئے کہ ان کے اس کرتوت کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور اب ان پر سے نظر رحمت ہٹ گئی ہے اور یہ ستائش اور تعریف کے قابل نہیں رہے بلکہ سزایاب ہوں گے اور وہاں تلملاتے رہیں گے ۔ حدیث شریف میں ہے تین قسم کے لوگوں سے اللہ بات چیت نہ کرئے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب میں زانی بڈھا ، جھوٹا بادشاہ ، متکبر فقیر فرمایا کہ ان لوگوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی انہیں چاہئے تھا کہ توراۃ میں جو خبریں حضور کی نسبت تھیں انہیں ان پڑھوں تک پہنچاتے لیکن اس کے بدلے انہوں نے انہیں چھپا لیا اور خود بھی آپ کے ساتھ کفر کیا اور آپ کی تکذیب کی ، ان کے اظہار پر جو نعتیں اور رحمتیں انہیں ملنے والی تھیں ان کے بدلے زحمتیں اور عذاب اپنے سر لے لئے ۔ پھر فرماتا ہے انہیں وہ دردناک اور حیرت انگیز عذاب ہوں گے کہ دیکھنے والا ششدر رہ جائے اور یہ بھی معنی ہیں کہ انہیں آگ کے عذاب کی برداشت پر کس چیز نے آمادہ کیا جو یہ اللہ کی نافرمانیوں میں مشغول ہو گئے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس عذاب کے مستحق اس لئے ہوئے کہ انہوں نے اللہ کی باتوں کی ہنسی کھیل سمجھا اور جو کتاب اللہ حق کو ظاہر کرنے اور باطل کا نابود کرنے کے لئے اتری تھی انہیں نے اس کی مخالفت کی ظاہر کرنے کی باتیں چھپائیں اور اللہ کے نبی سے دشمنی کی آپ کی صفتوں کو ظاہر نہ کیا فی الواقع اس کتاب کے بارے میں اختلاف کرنے والے دور کی گمراہی میں جاپڑے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١٧] آیت نمبر ١٥٩ کے مضمون کو دہرایا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ کتمان حق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ پیشوا قسم کے لوگ اس کے عوض کچھ نہ کچھ دنیوی مفاد اور مال و دولت حاصل کرلیتے ہیں آیات کی تاویل یا فقہاء کے مختلف اقوال کو بنیاد بنا کر غلط فتویٰ دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف تو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ دوسرے ان سے پیسے وصول کرتے ہیں اور لطف کی بات یہ کہ فتویٰ جتنا زیادہ غلط قسم کا ہو اتنے ہی ان کے دام زیادہ وصول کئے جاتے ہیں، یہ مال بلاشبہ حرام ہے جو دوزخ کی ظاہری آگ کے علاوہ ان کے اندر بھی آگ لگا دے گا۔- [ ٢١٨] یہاں کلام نہ کرنے سے مراد اللہ تعالیٰ کی انتہائی خفگی اور ناراضگی ہے۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جن کاموں سے متعلق یہ مذکور ہو کہ اللہ ان سے کلام نہ کرے گا یا ان کی طرف دیکھے گا بھی نہیں یا انہیں پاک نہیں کرے گا۔ تو ایسے سب کام کبیرہ گناہ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی تو ایک کثیر تعداد ایسی ہوگی جنہیں اللہ دوزخ میں داخل کرے گا تاآنکہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہوجائیں۔ لیکن کچھ گناہ ایسے بھی ہیں کہ دوزخ کی آگ سے پاک و صاف نہ ہوں گے۔ جیسے شرک یا جن کے متعلق خلود فی النار کے الفاظ آئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے حساب کتاب لیتے وقت تو کلام کرے گا ہی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کا حساب لینا بھی بصورت تہدید اور سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ ہوگا یا فرشتوں کے ذریعہ ان سے حساب لیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہ آیات گو علمائے یہود کے حق میں نازل ہوئی ہیں، جو دنیا کے جاہ و مال کے حصول کی خاطر تورات میں مذکور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف کو چھپا رہے تھے۔ (دیکھیے بقرہ : ١٥٩) مگر اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو دنیا کے مفاد کی خاطر دین کو فروخت کرے۔ - ثَـمَنًا قَلِيْلًا اس کا معنی یہ نہیں کہ زیادہ قیمت لے سکتے ہیں، بلکہ ساری دنیا بھی مل جائے تو وہ آخرت کے مقابلے میں قلیل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ مَتَاع الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ۚ ) [ النساء : ٧٧] ” کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے۔ “ - فَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ ” مَا “ بمعنی ” اَیُّ شَیْءٍ “ اسم تعجب مبتدا، ” اَصْبَرَھُمْ “ فعل ماضی مع فاعل، ” ھُمْ “ مفعول بہ، جملہ ” مَا “ مبتدا کی خبر۔ - وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یعنی اللہ محبت و رحمت کے ساتھ ان سے بات نہیں کرے گا، ورنہ ناراضی اور ڈانٹ کے طور پر تو اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرمائے گا۔ دیکھیے سورة مومنون (١٠٨) ۔- ذٰلِكَ اس میں یہود و نصاریٰ کا حق چھپانا، اس کے بدلے ثمن قلیل یعنی تھوڑی قیمت لینا، اس پر آگ کا عذاب، اللہ تعالیٰ کا ان سے کلام نہ کرنا، انھیں پاک نہ کرنا اور آگ پر یہود کی جرأت و صبر تمام چیزیں شامل ہیں۔ (بِاَنَّ اللّٰهَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ) اس میں اور (الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ ) دونوں جگہ الْكِتٰبِ سے تورات اور قرآن دونوں مراد ہوسکتے ہیں، اگر تورات مراد ہو تو مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تورات حق کے ساتھ نازل کی تھی، مگر جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا، یعنی اس میں تحریف کی یا اس کے بعض کو مانا اور بعض کو نہ مانا، وہ حق سے بہت دور کی مخالفت میں جا پڑے۔ اگر قرآن مراد ہو تو مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب (یعنی قرآن) حق کے ساتھ نازل کی، مگر جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، کسی نے کہا یہ وہ نہیں جس کی تورات میں پیشین گوئی ہے، کسی نے کہا یہ صرف اُمّی (یعنی ان پڑھ عرب) لوگوں کے لیے ہے، جیسا کہ ابن صیاد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا۔ [ بخاری، الجنائز، باب إذا أسلم الصبی ۔۔ : ١٣٥٤ ] تو یہ سب لوگ بہت دور کی مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں، ان کا قرآن کو نہ ماننا صرف اس مخالفت کی وجہ سے ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر وربط آیات :- اس سے پہلی آیات میں ان حرام چیزوں کا ذکر تھا جو محسوسات میں سے ہیں اگلی آیات میں ایسے حرام کاموں کا ذکر ہے جو محسوس نہیں بلکہ وہ باطنی اور ظاہری اعمال شر ہیں مثلاً علمائے یہود میں یہ مرض تھا کہ عوام سے رشوت لے کر ان کے مطلب کے موافق فتوے دیدیتے تھے، اور توریت کی آیات میں تحریف کر کے ان مطلب کے موافق بناتے تھے، اس میں امت محمدیہ کے علماء کو بھی تنبیہ ہے کہ وہ ایسے افعال سے اجتناب کریں کسی نفسانی غرض سے احکام حق کے اظہار میں کوتاہی نہ کریں، - دین فروشی کی سزا :- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب (کے مضامین) کا اخفاء کرتے ہیں اور اس (خیانت) کے معاوضہ میں (دنیا کی) متاع قلیل وصول کرتے ہیں ایسے لوگ اور کچھ نہیں اپنے پیٹ میں آگ (کے انگارے) بھر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے نہ تو قیامت میں (لطف کے ساتھ) کلام کریں گے اور نہ (گناہ معاف کرکے) ان کی صفائی کریں گے اور ان کو سزائے درد ناک ہوگی یہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے (دنیا میں تو) ہدایت چھوڑ کر ضلالت اختیار کی اور (آخرت میں) مغفرت چھوڑ کر عذاب (سر پر لیا) سو (شاباش ہے ان کی ہمت کو) دوزخ (میں جانے) کے لئے کیسے باہمت ہیں (اور) یہ (ساری مذکورہ) سزائیں (ان کو) اس وجہ سے ہیں کہ حق تعالیٰ نے (اس) کتاب کو ٹھیک ٹھیک بھیجا تھا اور جو لوگ (ایسی ٹھیک ٹھیک بھیجی ہوئی کتاب میں بےراہی (اختیار) کریں وہ ظاہر ہے کہ بڑی دور (ودراز) کی خلاف (ورزی) میں (مبتلا) ہوں گے (اور ایسی خلاف ورزی پر ضرور ایسی ہی سخت سزاؤں کا استحقاق ہوگا) - معارف و مسائل : - مسئلہ : آیات مذکورہ سے معلوم ہوا کہ جو شخص مال کے لالچ سے حکم شرعی کو بدل دے وہ جو یہ مال حرام کھاتا ہے گویا اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھر رہا ہے کیونکہ اس عمل کا انجام یہی ہے اور بعض محقق علماء نے فرمایا کہ مال حرام درحقیقت جہنم کی آگ ہی ہے اگرچہ اس کا آگ ہونا دنیا میں محسوس نہیں ہوتا مگر مرنے کے بعد اس کا یہ عمل آگ کی شکل میں سامنے آجائے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝ ٠ ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِہِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُہُمُ اللہُ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّيْہِمْ۝ ٠ ۚ ۖ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ١٧٤- كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، وقال : وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] ، وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] ، وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ [ آل عمران 71] ، وقوله : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] فَكِتْمَانُ الفضل : هو کفران النّعمة، ولذلک قال بعده : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] ، وقوله : وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] قال ابن عباس : إنّ المشرکين إذا رأوا أهل القیامة لا يدخل الجنّة إلّا من لم يكن مشرکا قالوا : وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] فتشهد عليهم جوارحهم، فحینئذ يودّون أن لم يکتموا اللہ حدیثا «2» . وقال الحسن : في الآخرة مواقف في بعضها يکتمون، وفي بعضها لا يکتمون، وعن بعضهم : لا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] هو أن تنطق جو ارحهم .- ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے ۔ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] مگر ایک فریق ان میں سچی بات جان بوجھ کر چھپا رہا ہے ۔ وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] اور ( دیکھنا ) شہادت کو مت چھپانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو ( مال ) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں ۔ میں کتمان فضل سے کفران نعمت مراد ہے اسی بنا پر اس کے بعد فرمایا : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے کی تفسیر میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے روز مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہو رہے ہیں جو مشرک نہیں تھے ۔ تو چھٹ سے پکارا اٹھیں گے وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے ۔ مگر اس کے بعد ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت وہ تمنا کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپائے ہوتی حسن بصری فرماتے ہیں کہ آخرت میں متدد واقف ہوں گے بعض موقعوں پر وہ اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کریں گے ۔ اور بعض میں نہیں چھپائیں گے بعض نے کہا ہے کہ کوئی چھپا نہ سکنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دینگے ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- ثمن - قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی:- إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] ،- ( ث م ن ) الثمن - اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

(بقیہ تفسیر سابقہ آیت)- گھی میں گر کر مرجانے والی چوہیا کا مسئلہ - قول باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ نیز ارشاد ہے : حرمت علیکم المیتۃ یہ آیات ان مائع چیزوں کی تحریم کی متقضی نہیں ہیں جن میں گر کر کوئی جانور مرجائے، بلکہ یہ صرف عین مردار اور مردار کے اردگرد والے حصوں کی تحریم کی متقضی بھی ہیں مذکورہ مائع چیز مردار نہیں کہلائے گی۔ اس لئے تحریم کا لفظ اسے شامل نہیں ہوگا۔ تاہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے اس مائع چیز کے استعمال کی حرمت ثابت ہے چناچہ زہری نے سعید المسیب سے، اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گھی کے اندر گر جانے والی چوہیا کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : اگر گھی منجمد ہو تو چوہیا نیز اس کے ارد گرد کا گھی نکال کر پھینک دو اور اگر گھی مائع شکل میں ہو تو اس کے قریب نہ جائو۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت بیان کی ہے۔ زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے حضرت میمونہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ گھی کے اندر ایک چوہیا گر کر مرگئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چوہیا اور اس کے ارد گرد کا گھی نکال کر پھینک دو اور باقی ماندہ گھی کھالو۔ عبدالجبار بن عمر نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے انہیں بتایا تھا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ ایک شخص نے آپ ؐ سے ودک ( گوشت اور چربی کی چکنائی) میں گر جانے والی چوہیا کے متعلق مسئلہ پوچھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا کہ چربی منجمد تھی ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چوہیا اور اس کے اردگرد موجود چربی نکال کر پھینک دو اور باقی ماندہ چربی کھالو۔ سائل نے عرض کیا کہ وہ مائع ہو تو کیا حکم ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا تو پھر اس سے فائدہ اٹھالو۔ لیکن اسے کھائو نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کھانے کے سوا دوسرے طریقوں سے اس سے فائدہ اٹھانے کی بات مطلق رکھی۔ یہ بات اس کی بیع کی جواز کی متقضی ہے کیونکہ بیع بھی اس سے انتفاع کی ایک صورت ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتفاع کی کسی صورت کی تخصیص نہیں فرمائی۔- حضرت ابن عمر (رض) حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) اور حضرت حسن بصری نیز سلف کے دیگر حضرات سے منقول ہے کہ کھانے کے سوا دوسرے طریقوں سے اس سے فائدہ اٹھا لینا جائز ہے۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) نے فرمایا : اسے فروخت کردو لیکن اسے کھائو نہیں ہمیں کسی بھی فقیہ کے متعلق علم نہیں کہ اس نے مذکورہ گھی یا چیز کے انتفاع مثلاً اسے چراغ میں جلانے اور کھالیں رنگنے میں استعمال سے روکا ہو ۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک اس کی بیع بھی جائز ہے۔ البتہ مائع مبیع یعنی چربی یا گھی وغیرہ کا یہ عیب مشتری سے بیان کردے۔- امام شافعی سے منقول ہے کہ اس کی بیع جائز نہیں ہے، البتہ اسے چراغ میں ڈال کر جلانا جائز ہے حالانکہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت کردہ حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انتفاع کا اطلاق منقول ہے اور اس میں کسی خاص صورت کے ساتھ اس انتفاع کی تخصیص نہیں ہے جس سے اس بات پر دلالت ہوگئی کہ اسے کھانا تو حرام ہے کسی اور بات کی حرمت نہیں ہے نیز یہ کہ اس کی بیع جائز ہے جس طرح ان دیگر اشیاء کی جن سے انتفاع جائز ہے۔ مثلاً گدھا، خچر وغیرہ کیونکہ ان اشیاء کے اندر کوئی ایسا حق نہیں ہوتا جو ان کی بیع کے لیے رکاوٹ بن جائے جبکہ ان سے انتفاع جائز ہے اور وہ محرم العین بھی نہیں ہیں۔- اگر کہاجائے کہ ام ولد لونڈی اور مدبر غلام ( ایسا غلام جسے اس کے آقا نے کہہ دیا ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو) سے فائدہ اٹھانا جائز ہے لیکن اس کی بیع جائز نہیں ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ معترض کا یہ اعتراض ہماری مذکورہ بات پر لازم نہیں آتا کیونکہ ہم نے پانی بات کو اس قید کے ساتھ مقید کردیا ہے کہ جب اس سے انتفاع جائز ہو اور اس کے اندر کوئی ایسا حق نہ ہو جو اس کی بیع کے رکاوٹ بن جائے تو اسے کھا لینے کی تحریم اس کی بیع کے جواز کے لیے اس بنا پر مانع نہیں بنے گی کہ کھا لینے کے سوا دوسرے طریقوں سے اس سے انتفاع جائز ہے اور اس کے اندر بیع سے روکنے والا کوئی حق بھی موجود نہیں ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں ام ولد اور مدیر کی مثال دے کر معترض کا اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کے لیے آزاد ہوجانے کا حق ثابت ہوجاتا ہے۔ اگر ان کی بیع جائز کردی جائے تو اس سے ان کے حق کا ابطال لازم آئے گا اسی بنا پر ان کی بیع کی ممانعت کردی گئی ہے اور انتفاع کی دیگر صورتوں کو جائز رکھا گیا ہے ۔- جس مائع چیز کے اندر چوہا گر کر مرجائے وہ محرم العین نہیں بن جاتی، البتہ مردار کی محاورت کی بنا پر اسے کھا لینا حرام ہوجاتا ہے جبکہ انتفاع کی دیگر صورتتیں اس میں جائز ہوی ہیں اس لیے اس کی بیع گدھے، خچر اور کتے وغیرہ کی بیع کی طرح ہوتی ہے جن سے انتفاع تو جائز ہے لیکن انہیں کھانا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں سے انتفاع کے جواز کی طرح ان کی بیع بھی جائز ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منجمد گھی اور چربی میں گر جانے والی چوہیا اور اس کے اردگر د موجود گھی اور چربی کو نکال کر پھینک دینے اور باقی ماندہ کو کھا لینے کا حکم دیا ہے جو دو معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ جو چیز فی نفسہ نجس ہو وہ محاورت کی بنا پر اپنے اردگرد کی چیز کو بھی نجس کردیتی ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردہ چوہیا کے اردگرد موجود گھی اور چربی کی نجاست کا حکم عائد کردیا تھا۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز محاورت کی بنا پر نجس ہوجائے وہ اپنی اردگرد کی چیز کو نجس نہیں کرتی، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردہ چوہیا کے اردگرد موجود نجس گھی کی بنا پر مذکورہ گھی کے اردگرد والے گھی کی نجاست کا حکم عائد نہیں کیا۔ اس لیے کہ اس حکم کا وجوب ہوجاتا تو اس سے برتن میں موجود سارے گھی کے نجس ہوجانے کا حکم اس بنا پر واجب ہوجاتا کہ مذکورہ گھی کے ہر چیز کی دوسرے جز کے ساتھ محاورت ہوتی ہے، یعنی ہر چز دوسرے جز کے ساتھ ملا ہوتا ہے یہ ایسا اصول ہے جس کا ثبوت سنت سے ملا ہے ۔ اور یہ تغلیط و تخفیف کے اعتبار سے نجاسبت کے اختلاف مراتب پر دلالت کرتا ہے نیز یہ واضح کرتا ہے کہ مراتب کے اعتبار سے نجاسبت یکساں نہیں ہوتی۔ اسی اصول کی بنا پر یہ بات جائز ہوگی کہ تغلیط و تخفیف پر دلالت کے قیام کے مطابق بعض صورتوں میں نجاست کا اعتبار درہم کی مقدار سے زائد کے اندر کیا جائے اور بعض کے اندر کثیر اور فاحش کا۔- ہنڈیا میں پرندہ گر کر مرجانے کا مسئلہ - ابو جعفر الطحاوی نے کہا ہے کہ میں نے ابو حازم القاضی سے سنا کہ انہوں نے سوید بن سعید سے اور انہوں نے علی مسہر سے ان کی یہ بات نقل کی کہ میں امام ابوحنیفہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں عبداللہ ابن المبارک خراسانی لباس میں امام صاحب کے پاس آئے اور ان سے مسئلہ پوچھا کہ ایک شخص نے گوشت کی ہنڈیا چولہے پر چڑھا رکھی تھی کہ ایک پرندہ اڑ کر آیا اور ہنڈیا میں گر کر مرگیا۔ یہ سن کر امام ابوحنیفہ نے اپنے رفقاء سے متوجہ ہوکر فرمایا : اس مسئلے کے بارے میں آپ لوگوں کو کیا خیال ہے ؟ انہوں نے جواب میں امام صاحب کے سامنے حضرت ابن عباس (رض) کا قول پیش کردیا کہ گوشت دھوکہ کھا لیاجائے گا اور شوربا بہا دیاجائے گا۔ یہ سن کر امام صاحب نے فرمایا ہمارا بھی یہی قول ہے لیکن ہمارے نزدیک اس کے لیے یہ شرط ہے کہ پرندہ ہنڈیا کے اندر ا س وقت گرا ہو جب وہ پاک نہ رہی ہو، ایسی صورت میں حکم وہی ہوگا جو حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں منقول ہے لیکن اگر ہنڈیا پک رہی ہو اور پھر پرندہ گر کر مرجائے تو ایسی صورت میں نہ تو گوشت کھایاجائے گا اور نہ ہی شوربہ۔ یہ سن کر ابن المبارک نے پوچھا کیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب میں امام صاحب نے فرمایا : ہنڈیا پکنے کے دوران میں جب پرندہ گر کر مرجائے گا تو وہ ہنڈیا میں موجود گوشت کے ساتھ مل جائے گا۔ اور اس کے اثرات گوشت میں داخل ہوجائیں گے، لیکن اگر ہڈیا پک نہ رہی ہو تو وہ گوشت کو صرف گندہ کردے گا۔ یہ سن کر ابن المبارک نے اپنے ہاتھ سے تیس کا ہندسہ بناتے ہوئے فارسی زبان میں کہا :” این زرین است “ یہ ایک قول زریں ہے)- ابن المبارک نے عباد بن راشد سے اور انہوں نے حسن بصری سے امام ابوحنیفہ جیسا جواب نقل کیا ہے۔ امام صاحب نے اپنے جواب میں ہنڈیا پکنے اور نہ پکنے کی حالتوں میں فرق کی علت بیان کردی ہے اور یہ فرق بالکل واضح ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر گوشت کی ہنڈیا پک رہی ہو اور اس میں کوئی مرغی گر کر مرجائے تو اس کے متعلق انہوں نے فرمایا : میں نہیں سمجھتا کہ یہ ہنڈیا کھالوں، کیونکہ مردار مرغی ہنڈیا میں موجود گوشت کے ساتھ محتاط ہوچکی ہے۔- اوزاعی کا قول ہے کہ گوشت دھوکہ کھا لیاجائے گا۔ لیث بن سعد نے کہا ہے کہ مذکورہ گوشت اس وقت تک نہیں کھایاجائے گا جب تک اسے کئی دفعہ دھو کر آگ پر اس قدر پکا نہ لیاجائے کہ اس سے سارا اثر ختم ہوجائے۔- ابن المبارک نے عثمان بن عبداللہ الباہلی سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے گوشت کی ہنڈیا میں گر کر مرجانے والے پرندے کے متعلق ان کا قول نقل کیا ہے کہ شوربہ بہا دیاجائے گا اور گوشت کھالیا جائے گا۔ اس روایت میں ہنڈیا پکنے کی حالت کا ذکر نہیں ہے۔ محمد بن ثوبان نے السائب بن خباب سے بیان کیا ہے کہ ان کی ہنڈیا آگ پر رکھی ہوئی تھی کہ اس میں ایک مرغی گر کر مرگئی اور ہنڈیا میں موجود گوشت کے ساتھ پک گئی، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے مسئلہ پوچھا جس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ : مردار مرغی نکال کر پھینک دو ، سارا شوربہ بہادو اور گوشت کھالو، اگر تمہیں اس گوشت کے کھانے میں کوئی ہچکچاہٹ ہو اس کا ایک آدھ ٹکڑا مجھے بھیج دو ۔ اس روایت میں بھی ہنڈیا پکنے کی حالت پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لیے ممکن ہے کہ مذکورہ مرغی ہنڈیا میں اس وقت گری ہو جب وہ پک نہ رہی ہو اور شوربہ گرم ہو جس کی گرمی بےمرغی پک گئی ہو۔ واللہ اعلم۔- مردار کے انفحہ اور اس کے دودھ کا مسئلہ - (بکری کا بچہ جو ابھی صرف دودھ ہی پیتا ہو اس کے پیٹ سے ایک سیال مادہ نکال کر کپڑے کو اس سے لت پت کرلیا جاتا ہے اور وہ پنیر کی مانند گاڑھا ہوجاتا ہے اسے انفحہ کہا جاتا ہے۔ عوام الناس اسے مجبتہ کہتے ہیں۔ مترجم)- امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ مردار کا دودھ اور اس کا انفحہ دونوں پاک ہیں۔ اور انہیں نجاست کا حکم لاحق نہیں ہوتا۔ امام ابو یوسف، امام محمد اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مذکورہ دودھ مکروہ ہے کیونکہ یہ ایک نجس مقام (مردار کے تھن) میں ہوتا ہے۔ اسی طرح افنحہ بھی مکروہ ہے اگر وہ مائع صورت میں ہو۔ اگر جمی ہوئی حالت میں ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا تمام حضرات کا مردارمرغی سے برآمد ہونے والے انڈوں کے بارے میں قول ہے کہ انہیں استعمال کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام مالک، عبداللہ بن الحسن اور امام شافعی کا قول ہے کہ مردار کے تھن کا دودھ حلال نہیں ہوتا۔ لیث بن سعد نے کہا ہے کہ مردہ مرغی سے برآمد ہونے والا انڈہ نہیں کھایاجائے گا ۔ عبداللہ بن الحسن نے کہا ہے کہ میں اس کی رخصت دینا پسند نہیں کرتا۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ دودھ کو موت کا حکم لاحق ہونا درست نہیں ہے کیونکہ اس میں زندگی نہیں ہوتی۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جانور کی زندگی میں دودھ اس سے حاصل کرکے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر دودھ کو موت کا حکم لاحق ہوتا تو اصل، یعنی جانور کو ذبح کیے بغیر اس کا استعمال حلال نہ ہوتا جس طرح جانور کے دوسرے تمام اعضاء کا حکم ہے، قول باری : نسقیکم مما فی بطونہ من بین فرث ودم لبناً خالصاً سائغاً للشاربین (ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں یعنی خالص دودھ جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے) دودھ کی تمام قسموں کے لیے عام ہے۔ یہ دو باتوں کا متقضی ہے۔ اول یہ کہ دودھ کو موت نہیں آتی اور جانور مثلاً بکری کی موت اسے حرام نہیں کرتی، دوم یہ کہ جانور کی موت سے اس کا دودھ نجس نہیں ہوتا اور اسکی حیثیت اس دودھ جیسی نہیں ہوتی جسے نجس برتن میں رکھ دیا گیا ہو۔- اگر یہ پوچھا جائے کہ زندہ بکری کا دودھ نکال کر اسے نجس برتن میں رکھ دینے اور مردار جانور کے تھن میں اس کے ہونے کے درمیان کیا فرق ہے ؟ تو کہا جائے گا کہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پیدائش کے مقام ( موضع خلقت) کے اردگرد کی جگہ اس چیز کی وجہ سے نجس نہیں ہوتی جو اس مقام میں پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام اہل اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حلال جانور کا گوشت اس میں موجود سمیت کھانا جائز ہے اور اس جواز کے لیے ان لوگوں کو دھونا اور انہیں پاک کرنا ضروری نہیں ہے، حالانکہ ان رگوں کے اندرونی حصے خون سے متصل ہوتے ہیں۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مقام خلقت اس چیز کے ساتھ مجاورت کی بنا پر نجس نہیں ہوتا جو اس میں پیدا کی گئی ہو۔- ایک دلیل اور بھی ہے وہ یہ قوری باری ہے : من بین فرث ودم لبناً خالصاً سائغاً للشاربین یہ آیت ہماری مذکورہ بات پر دو طرح سے دلالت کرتی ہے۔ اول یہ کہ آیت زندہ اور مردہ دونوں جانوروں کے دودھ کی متقضی ہے۔ اس کا ذکر ہم زیر بحث مسئلے کے آغاز میں کر آئے ہیں۔ دوم یہ کہ آیت کے ذریعے یہ خبر دی گئی ہے کہ دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں نجس ہیں لیکن ان کے درمیان سے نکلنے والے دودھ پر طہارت کا حکم عائد کیا گیا ہے اور مذکورہ دونوں چیزوں کے ساتھ اس کی مجاورت اس کے نجس قرار پانے کی موجب نہیں بنی، کیونکہ مذکورہ مقام اس کی خلقت اور پیدائش کی جگہ ہے۔ اسی طرح مردہ جانور کے تھن میں دودھ کا ہونا اس کے نجس ہوجانے کا موجب نہیں بنتا۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی روایت شریک نے جابر سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس غزوہ طائف میں پنیر کا ایک ٹکڑا لایا گیا۔ وہ اس قدر سخت تھا کہ صحابہ کرام اسے لاٹھی سے ٹھک ٹھک کرنے لگے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ اسے کہاں تیار کیا گیا ہے ؟ جواب ملا زمین فارس میں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : بسمہ اللہ پڑھ کر اسے کھالو۔ حالانکہ یہ بات معلم تھی کہ مجوسیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جانور مردار ہوتے ہیں لیکن اس علم کے باوجود کہ مذکورہ پنیر کا ٹکڑا اہل فارس کے ہاتھوں کا تیار کردہ ہے جو اس وقت مجوسی تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کھا لینے کی اباحت کردی جبکہ اس قسم کے پنیر کی تیاری صرف انفحہ سے ہوتی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مردار کا انفحہ پاک ہوتا ہے۔- القاسم بن الحکم نے غالب بن عبداللہ سے، انہوں نے عطار بن ابی رباح سے اور انہوں نے ام المومنین حضرت میمونہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پنیر کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس پر بسمہ اللہ پڑھ کر چھری رکھو اور پھر اسے کھالو۔ اس حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر طرح کے پنیر کے کھانے کی اباحت کردی اور مردار اور غیر مردار کے انفحہ سے تیار شدہ پنیروں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت سلمان (رض) ، حضرت عائشہ (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) اور حضرت حسن بن علی (رض) سے ایسے پنیر کے کھانے کی اباحت مروی ہے جس میں مردار کا انفحہ ملا ہوا ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ افنحہ پاک ہوتا ہے خواہ وہ مردار ہی کیوں نہ ہو۔- ہماری اس وضاحت سے جب انفحہ کی طہارت ثابت ہوگئی تو اس سے مردار کے دودھ اور اس کے انفحہ کی طہارت بھی ثابت ہوگئی اور یہ بات ضروری ہوگئی کہ اس انڈے کا حکم بھی یہی ہو جو مردہ مرغی کے پیٹ سے برآمد ہوا۔ کیونکہ انڈا مرغی کی زندگی کے دورا س سے جدا ہوجاتا ہے اور پاک ہوتا ہے۔ اس لئے مرغی کی موت کے بعد بھی اس کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ اگر انڈے کو بح کی ضرورت بھی ہوتی تو صرف اصل یعنی مرغی کی ذبح کے ذریعے ہی اس کی اباحت ہوتی جس طرح مرغی کے دیگر تمام اعضاء اس کی ذبح کے بعد مباح ہوتے ہیں اس لئے کہ ان اعضاء کی اباحت کی شرط ہی یہ ہے کہ اصل یعنی مرغی کا ذبح عمل میں آئے۔- مردار کے بالوں کی پوستین اور درندوں کی کھالوں کا مسئلہ - امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسفخ امام محمد، امام زفر، محمد بن صالح اور عبیداللہ بن الحسن کا قول ہے کہ مردار کی ہڈیوں سے انتفاع جائز ہے۔ نیز مردار کے بال اور اون کے استعمالمیں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ بال اور اون مردار نہیں ہوتے کیونکہ جانور کی زندگی کے دوران انہیں اس کے جسم سے اتار لیا جاتا ہے۔- لیث بن سعد کا قول ہے کہ مردار کے پٹھوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، تاہم اس کے سینگوں اور کھروں سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز مردار کی ہڈیوں سے انتفاع میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اس کے بالوں اور اون سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔- عبدالباقی بن قائع نے روایت بیان کی ہے ان سے اسماعیل بن الفضل نے، ان سے سلیمان بن عبدالرحمن الدمشقی نے، ان سے یوسف بن الشقر نے، ان سے اوزاعی نے یحییٰ بن کثیر سے اور انہوں نے ابو سلمہ سے کہ انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سنا : مردار کی کھال میں کوئی حرج نہیں جب اسے دباغت دے دی جائے اور اس کے بالوں اون اور سینگوں میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ جب انہیں پانی دھو ڈالا جائے۔- عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، ان سے اسماعیل بن الفضل نے، ان سے الحسن بن عمر نے، ان سے عبداللہ بن سلمہ نے ابن ابی لیلیٰ سے، انہوں نے ثابت النبانی سے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں ن ے اپنے والد سے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوستین نیز مساتق ( لمبی آستین کی پوسینوں) کے ساتھ نماز پڑھنے کے متعلق مسئلہ دریافت کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : ان کی دباغت کے اندر تمہارے لیے کفایت ہے۔- یحییٰ الحمانی نے کہا ، ہمیں سیف بن ہارون البرحمی نے سلیمان القیمی سے، انہوں نے ابو عثمان الہندی سے اور انہوں ن ے حضرت سلمان فارسی (رض) سے روایت بیان کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوستینوں پنیر اور گھی کے متعلق مسئلہ پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حلال وہ ہے جسے اللہ سبحانہ نے قرآن میں حلال کردیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ سبحانہ نے قرآن میں حرام کردیا ہے اور جس سے خاموشی اختیار کی ہے وہ اس کی طرف سے عفو ہے۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا احادیث کے اندر دو وجوہ سے بال ، اون ، پوستین اور پنیر کی اباحت کا ذکر ہے۔ اول تو مردار کے بال اور اون کی اباحت پر وہ نص جس کا ذکر ہم نے حضرت ام سلمہ (رض) کی روایت کردہ حدیث میں ، نیز پوستین اور مساتق کی اباحت پر وہ نص جس کا ذکر ہم نے ابن ابی لیلیٰ کی روایت کردہ حدیث میں کیا ہے۔ دوم حضرت سلمان فارسی (رض) کی روایت کردہ حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ، اس ارشاد میں دو وجوہ سے اباحت پر دلالت موجود ہے۔ اول یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جن چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا اگر وہ حرام ہوتیں تو آپ جواب میں سائل کو ان کی تحریم سے آگاہ کردیتے۔ دوم یہ کہ جن چیزوں کی تحلیل کا ذکر نہیں ہوا وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد :” اور جس سے خاموشی اختیار کی ہے وہ اس کی ( اللہ کی) طرف سے عفو ہے “ کی بنا پر مباح ہے۔- قرآن مجید میں بال اور اون وغیرہ کی تحریم کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ اس میں اباحت کو واجب کردینے والی بات کا ذکر ہے : ارشاد باری ہے :( والا نعام خلقھا لکم فیھا رف و منافع ( اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک اور طرح طرح کے دوسرے فائدے ہیں) دف جانور کے بالوں اور اون کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے جسم گرم رکھا جاتا ہے یہ مردار اور زندہ دونوں قسموں کے جانوروں کے بال اور اون کی اباحت کا متقضی ہے۔ ارشاد باری ہے۔ ومن اصوفھا واوبارھا واشعارھا اثاثاً ومتاعًا الی حین ( اس نے جانور کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کردیں جو زندگی کی موت مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں) یہ آیت اباحت کے حکم میں سب کے لیے عام ہے اور اس میں ذبح شدہ اور مردار جانور کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔- جن حضرات نے مردار کے مذکورہ بالا اجزاء کے استعمال کی ممانعت کی ہے انہوں نے قول باری : حرمت علیکم المیتۃ سے استدلال کیا ہے کیونکہ آیت مردا ر کی تحریم بشمول اس کے تمام اجزاء کی متقضی ہے اگر اون، بال اور ہڈیاں وغیرہ مردار کے اجزاء تسلیم کیے جاتے ہیں تو پھر آیت ان تمام کی تحریم کی متقضی ہوگی۔- اس استدلال کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا آیت سے وہ اجزاء مراد ہیں جنہیں کھایا جاسکتا ہو اس کی دلیل یہ دوسری آیت ہے : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ ( ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو) تاآخر آیت۔ اس میں خبر دی گئی ہے کہ تحریم ان اجزاء تک محدود ہے جنہیں خوراک کے طورپر استعمال کیا جاتا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے مردار میں سے صرف اس کا گوشت حرام کردیا گیا ہے۔ دوسری حدیث میں ارشاد ہے صرف اسے کھانا حرام کیا گیا ہے۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردار کی تحریم سے اللہ کی مراد واضح فرما دی۔ چونکہ بال، اون، ہڈی اور اس طرح کے دیگر اجزاء جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کھانے کے کام نہیں اتے اس لیے تحریم کا حکم انہیں شامل نہیں ہوگا ؟ نیز جب ہم نے مردار کی دباغت شدہ کھال کی اباحت کی ان احادیث کی بنا پر تخصیص کردی جو اس سلسلے میں وارد ہوئی تو حرام اجزا کے مجموعے سے بال، اون نیز ان اجزاء کی تخصیص بھی واجب ہوگئی جو کھانے کے کام نہیں آتے۔ اس تخصیص کی بنیاد ان آثار پر ہے جو اس سلسلے میں مروی ہیں اور جن کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں۔- ایک اور جہت سے بھی اس پر دلالت ہورہی ہے وہ یہ کہ جب مردار کی کھال کا دباغت کی بنا پر کھانے کے کام نہ آنا اس کی اباحت کا سبب ہے تو پھر ان تمام اجزاء کا بھی یہی حکم ہونا واجب ہے جو کھانے کے کام نہیں آتے، یعنی بال، اون اور اسی طرح کے دیگر اجزاء، اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ مردار کی کھالوں سے انتفاع کی اباحت کرنے والی احادیث میں ان کھالوں سے بال اور اون وغیرہ اتار لینے کا ذکر نہیں ہے بلکہ اباحت کا حکم علی الاطلاق ہے۔ یہ اطلاق کھالوں کی بمعہ ان پر موجود بال اور اون وغیرہ، اباحت کا متقضی ہے۔ اگر بال اور اون میں تحریم ثابت ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے ضرور بیا ن کردیتے کیونکہ آپ کو اس بات کا علم تھا کہ کھالیں جانوروں کے بےجان اجزاء ہیں اور جن اجزاء میں جان نہیں ہوتی انہیں موت لاحق نہیں ہوتی ۔ بال وغیرہ میں جان نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ انہیں قطع کرنے سے جانور کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی جبکہ اس کا اگر کوئی عضو کاٹ دیا جائے تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ بال، اون، ہڈی، کھر اور پر میں جان نہیں ہوتی اس لیے انہیں موت لاحق نہیں ہوگی۔ جیسے درخت اور پودوں کی نشو و نما ہوتی ہو لیکن ان میں جان نہیں ہوتی اور انہیں موت کا حکم لاحق نہیں ہوتا ( مصنف کی یہ دلیل بڑی کمزور ہے اس لئے پودوں کو اگر ہوا اور روشنی سے محروم رکھا جائے تو وہ سوکھ جائیں گے۔ یہ بات ان میں زندگی کے وجود کی نشاندہی کرتی ہے۔ مترجم)- ہماری مذکورہ بات پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا زندہ جانور کا جو عضو اس سے جدا کردیاجائے وہ مردار ہوگا۔ جانور کے بال اور اون اس سے اتار لیے جاتے ہیں اور انہیں موت کا حکم لاحق نہیں ہوتا۔ اگر انہیں موت کا حکم لاحق ہوتا تو اس سے ضروری ہوجاتا کہ اصل یعنی متعلقہ جانور کو ذبح کیے بغیر یہ حلال نہ ہوتے جس طرح جانور کے تمام دیگر اعضا اسے ذبح کیے بغیر حلال نہیں ہوتے یہ صورت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہیں موت کا حکم لاحق نہیں ہوتا اور نہ ہی انہیں ذبح کرنے کی ضرورت ہے۔- حسن بصری محمد بن سیر ین، سعید بن المسیب اور ابراہیم نخعی سے مردار کے بالوں اور اون کی اباحت مروی ہے۔ عطا سے مردار اور ہاتھی کی ہڈیوں کی کراہت منقول ہے - طائوس سے بھی ہاتھی کی ہڈیوں کی کراہت مروی ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے جسم پر پوستین دیکھی تو فرمایا : کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہ (کھال) ذکی یعنی پاک اور ذبح شدہ ہے تو میرے لیے اس سے بنا ہوا لباس حاصل کرنا بڑا خوش کن ہوتا۔- حضرت انس (رض) نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک شخص کے سر پر لومڑی کی کھال سے بنی ہوئی ٹوپی دیکھی، آپ نے اس کے سر سے یہ ٹوپی اتار کر فرمایا : تمہیں کیا پتہ کہ اسے شائد ذبح نہ کیا گیا ہو۔ درندوں کی کھال کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں نے انہیں مکروہ قرار دیا ہے لیکن ہمارے اصحاب نیز ان اصحابہ کرام اور تاعبین نے ان کی اباحت کردی ہے جن کا ذکرہم پہلے کر آئے ہیں۔- عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور ابو الزبیر نے حضرت جابر (رض) سے نیز مطرف نے حضرت عمار (رض) سے درندوں کی کھالوں سے انتفاع کی اباحت روایت کی ہے۔ علی بن حسین ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، ضحاک اور ابن سیرین سے منقول ہے کہ درندوں کی کھالیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عطاء نے حضرت عائشہ (رض) سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ان کی دباغت ان کی ذکوۃ یعنی ذبح ہے۔- اگر کوئی شخص کہے کہ قتادہ نے ابو الملیح سے ، انہوں نے اپنے والد اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درندوں کی کھالوں سے منع فرمایا ہے۔ قتادہ نے ابو الشیح الہنائی سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت معاویہ (رض) سے چند صحابہ کرام (رض) سے دریافت کیا کہ : آپ حضرات کو معلوم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چیتوں کی کھالوں سے بنی ہوئی زین پر سواری سے منع فرمایا ہے ؟ ان حضرات نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔- مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کے مفہوم کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے، بعض حضرات کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مذکورہ نہی تحریم والی نہی ہے جو تمام احوال میں درندوں کی کھال پہننے کی تحریم کی متقضی ہے، جبکہ دوسرے حضرات کا خیال ہے کہ مذکورہ تحریم کراہت پر نیز عجمیوں کے لباس کے ساتھ تشبہ پر محمول ہے۔ جس طرح ابو اسحق نے ہیرہ بن مریم سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے ان کای ہ قول نقل کیا ہے کہ : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کی انگوٹھی ریشمی کپڑا اور سرخ لباس پہننے سے منع فرمایا ہے۔- درندوں کی کھال پہننے کی اباحت ، نیز اس سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں صحابہ کرام سے مروی آثار اس امرپر دلالت کرتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ نہی کراہیت پر نیز عجمیوں کے ساتھ تشبہ پر محمول ہے۔ حضرت سلمان (رض) و دیگر صحابہ کرام سے پوستین پہننے کی اباحت اور اس سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منقول حدیث کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ نیز یہ حدیث بھی گزر چکی ہے کہ جس کھال کو دباغت دی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : کھال کی دباغت اس کی ذکاۃ یعنی ذبح ہے۔ یہ دونوں حدیثیں درندوں اور غیر درندوں سب کی کھالوں کے لیے عام ہیں اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ درندوں کی کھالوں سے مذکورہ نہی ان کھالوں کی نجاست کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ کراہت اور عجمیوں کے ساتھ تشبہ کی بنا پر ہے۔- خون کی تحریم کا بیان - ارشاد باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم نیز ارشاد ہے : حرمت علیکم المیتتہ اگر خون کی تحریم کے سلسلے میں ان دونوں آیتوں کے سوا اور کوئی آیت نے ہوتی تو یہ بات قلیل اور کثیر ہر قسم کے خون کی تحریم متقضی ہوتی، لیکن جب ایک اور آیت میں ارشاد ہوا : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ اودماً مسفوحاً ( ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی ن ہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو) تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ صر ” دم مفسوح “ ( بہایا ہوا خون) ہی حرام ہے۔- اگر کوئی کہے کہ قول باری : اودماً مسفوحاً اس خون کے بارے میں خاص ہے جو اس صفت کا حامل ہو جبکہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں قول باری خون کی تمام صورتوں میں عام ہے، اس لیے مذکورہ قول باری کو اس کے عموم پر رکھنا واجب ہے کیونکہ آیت میں اس کی تخصیص کرنے والی کوئی بات موجود نہیں۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری : اودماً مسفوحاً میں تمام اقسام کے خون کی تحریم کی نفی آئی ہے سوائے اس خون کے جو مذکورہ صفت کا حامل ہو اس لیے کہ ا رشاد باری ہے : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ تا قول باری : اودماً مسفوحاً ۔ اگر بات اسی طرح ہے جو ہم نے بیان کی ہے تو اس صورت میں یا تو یہ ہے کہ قول باری : وانما حرماً علیکم المیتۃ والدم کا نزول قول باری : اودماً مسفوحاً کے نزول سے متاخر ہے یا یہ کہ دونوں کا نزول ایک ساتھ ہوا ہے لیکن جب ہمیں ان دونوں آیتوں کے نزول کی تاریخ معلوم نہیں ہے تو پھر یہ حکم لگانا ضروری ہوگا کہ دونوں کا نزول ایک ساتھ ہوا ہے۔ اس صورت میں خون کی تحریم صرف اس خون میں ثابت ہوگی جو مذکورہ صفت کے ساتھ موصوف ہو، یعنی وہ بہایا ہوا خون ہو۔- ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن اسحاق المروزی نے روایت بیان کی، ان سے الحسین بن ابی الربیع الحرجانی نے ان سے عبدالرزاق نے، ان سے ابن عینیہ نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے عکرمہ سے کہ انہوں نے کہا تھا : اگر اودماً مسفوحاً کی آیت نہ ہوتی تو اہل اسلام رگوں کے سلسلے اس بات کی پیروی کرتے جس کی پیروی یہو دنے کی تھی۔- عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، ان سے الحسن نے، ان سے عبدالرزاق نے، ان سے معمر نے قتادہ سے قول باری : اودماً مسفوحاً کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا کہ : جو خون بہایا ہوا ہو وہ حرام ہے، لیکن اس گوشت کے کھانے میں کوئی حرج نہیں جس کے ساتھ خون محتاط ہو۔- القاسم بن محمدنے حضرت عائشہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ ان سے گوشت نیز ذبح کی جگہ پر لگے ہوئے خون کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ : اللہ سبحانہ نے تو صرف بہائے ہوئے خون سے منع فرمایا ہے۔- فقہاء کے مابین اس امر پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ رگوں میں خون کے اجزا کی موجودگی کے باوجود گوشت کھا لینا جائز ہے کیونکہ مذکورہ خون مسفوح نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب اس پر پانی ڈالا جاتا ہے تو پانی میں خون کے اجزاء ظاہر ہوجاتے ہیں لیکن یہ اس بنا پر حرام نہیں ہوتا کہ یہ بہایا ہوا خون نہیں ہوتا۔ ہماری مذکورہ بالا وضاحت کی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ پسو، مکھی اور مچھر کا خون نجس نہیں ہوتا۔ ان حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ مچھلی کا خون بھی نجس نہیں ہوتا۔ اسے بمعہ اس کے خون کے کھالیا جاتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر پسو کا خون بہت زیادہ ہو تو اسے دھویا جائے گا، نیز مکھی اور مچھلی سے نکلنے والا خون بھی دھویا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ وضو کا پانی صرف اس صورت میں خراب ہوتا ہے جب اس میں خون یا پیشاب یا اس قسم کی کوئی نجاست گرجائے۔ اس طرح امام شافعی نے نجاست کا حکم خون کی تمام اقسام کے لیے عام رکھا ہے۔- اگر کوئی شخص کہے کہ قول باری : حرمت علیکم المیتۃ والدم نیز اودماً مسفوحاً مچھلی کے خون کی تحریم کا موجب ہے، کیونکہ یہ خون مفسوح ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تحریم کے حکم سے مذکورہ خون کی تخصیص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی بنا پر کی گئی ہے کہ : ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردیے گئے ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی۔ اس حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خون کے ساتھ اسے بہائے بغیر مچھلی کی اباحت کردی ہے اور اہل اسلام نے بھی مذکورہ صورت کے تحت مچھلی کی اباحت کے سلسلے میں اس حدیث کو قبول کرلیا ہے، تو مچھلی کے خون کی اباحت کے اندر آیت کی تخصیص واجب ہوگئی کیونکہ اگر مچھلی کا خون ممنوع ہوتا تو خون بہائے بغیر مچھلی حلال نہ ہوتی جس طرح بکری اور دیگر حلال جانوروں کی حلت ان کا خون بہائے بغیر نہیں ہوتی۔- خنزیر کی تحریم کا بیان - ارشاد باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الحنزیر نیز ارشاد ہوا : حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر یہ بھی ارشاد ہے : قل لا اجد فیما اوحی الی محرماً علی طاعم تطعمہ الا انی کون میتۃ اودماً مسفوحاً او لحم خنزیر یہ آیات سور کے گوشت کی تحریم پر نص ہیں اور امت نے اس کی تاویل اور اس کے معنی کے سلسلے میں وہی بات سمجھی ہے جو اس کی تنزیل سے سمجھ میں آتی ہے۔ اگرچہ سور کے گوشت کا خصوصیت سے ذکر ہے لیکن اس کے تمام اجزاء کی تحریم مراد ہے، گوشت کا خصوصیت سے اس لیے ذکر ہوا کہ سور سے فائدہ اٹھانے کی سب سے بڑی صورت اس کا گوشت ہے۔ جس طرح احرام والے شخص کے لیے شکار کے قتل کی تحریم پر نص کیا گیا ہے لیکن اس سے شکار کے سلسلے میں اس کے افعال و حرکات مراد ہیں اور شکار کے قتل کا خصوصیت سے ذکر اس لیے ہوا کہ شکار کا سب سے بڑا مقصد ہی یہی ہوتا ہے، نیز جس طرح یہ قول باری ہے : اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعو الی ذکر اللہ وذروالبیع (جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان ہوجائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو ) یہاں خصوصیت کے ساتھ خریدو فروخت کی ممانعت کا ذکر ہوا ہے اس لیے کہ خریدو فروخت ہی وہ سب سے بڑ ا ذریعہ تھا جس کے تحت لوگ اپنے فوائد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے جبکہ مراد یہ ہے کہ وہ تمام سرگرمیاں ترک کردو جو تمہیں ج معہ کی نماز سے روکے رکھیں۔ بیع کی نہی پر اس لیے نص کردیا کہ اس کے ذریعے نماز جمعہ سے غفلت اور دوسرے امور ہیں مشغولیت کی ممانعت کی تاکید ہوجائے۔ اسی طرح سور کے گوشت کو ممانعت کے حکم کے ساتھ خاص کردیا کہ اس کی تحریم کے حکم کی تاکید ہوجائے اور اس کے جسم کے تمام اجزا کی بھی ممانعت ہوجائے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ تحریم کے حکم میں اس کے تمام اجزاء مراد ہیں، اگرچہ نص اس کے گوشت کے بارے میں خاص ہے۔- سور کے بالوں سے اتنفاع کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ ان سے جوتوں کی سلائی کرنا جائز ہے۔ امام بویوسف نے اس مقصد کے لیے ان کے استعمال کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ان سے اس سلسلے میں اباحت کی روایت بھی منقول ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ سور کے بالوں سے جوتوں کی سلائی کا کام لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور موچی کے لیے ان کی خریدو فروخت جائز ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ سور کے بالوں سے انتفاع جائز نہیں ہے۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ کتاب اللہ میں سور کے گوشت کی تحریم منصوص ہے اور یہ اس کی تحریم کے حکم کی تاکید کے لیے ہے۔ اس لیے یہ کہناجائز ہے کہ تحریم کا حکم بالوں وغیرہ کو بھی شامل ہے اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ تحریم کا حکم سور کے جسم کے ان اجزاء کے بارے میں ہے جن میں جانی ہوتی ہے اور جنہیں قطع کرنے سے سور کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔ بال چونکہ بےجان ہوتے ہیں اس لیے وہ ایک زندہ چیز کے اجزا نہیں بن سکتے۔ نتیجہً انہیں تحریم کا حکم لاحق نہیں ہوتا جیسا کہ ہم مردار کے بالوں کے بارے میں پہلے بیان کر آئے ہیں، نیز یہ کہ بالوں کے سلسلے میں ذبح شدہ جانور اور مردار دونوں یکساں ہوتے ہیں۔ البتہ ہمارے جن اصحاب نے سور کے بالوں سے مذکورہ انتفاع کی اباحت بیان کی ہے انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ استحسان کے طورپر اس انتفاع کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات اس امرپر دلالت کرتی ہے کہ تحریم کا حکم ان حضرات کے نزدیک سور کے تمام اجزا بشمول بال کو لاحق ہے۔- ہمارے اصحاب کی طرف سے جوتوں کی سلائی کے لیے سور کے بالوں سے انتفاع کو استحسان کے طورپر جائز قرار دیا گیا ہے۔ ان کی خریدو فروخت جائز قرار نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں اور اہل علم کو دیکھا کہ وہ موچیوں کے ہاں ان کے استعمال پر کوئی نکیر نہیں کرتے، بلکہ انہیں یہ بال استعمال کرنے دیتے ہیں۔ یہ بات ہمارے اصحاب کے نزدیک ان بالوں سے انتفاع کے جواز پر سلف کے ایک گونہ اجماع کے مترادف ہوگئی۔ اگر عوام الناس کا کسی چیز پر عمل ظاہر ہوجائے اور سلف کی طرف سے انہیں اس پر عمل پیرا رہنے دیاجائے اور نکیر نہ کی جائے تو یہ بات ہمارے اصحاب کے نزدیک اس چیز کی اباحت کا موجب بن جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر ایک شخص حمام میں غسل کرنے کے لیے داخل ہوائے لیکن اجرت مقرر نہ کرے اور نہ پانی کی اس مقدار کا تعین ہی کرے جسے وہ غسل کرنے کے دوران میں صرف کرنے والا ہے اور نہ حمام میں رہنے کی مدت کا ذکر کرے تو اس کے لیے حمام کا استعمال مباح ہوگا اس لیے کہ حمام کا استعمال کرنے کا یہ طریقہ سلف کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور کسی نے بھی اس پر انگشت نمائی نہیں کی۔ یہی کیفیت استصناع کی ہے یعنی کسی کا ریگر سے کوئی چیز بنوانے کے سلسلے میں معاملہ طے کرنا۔ ہمارے حضرات نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ عوام الناس کا تعامل یہی ہے اس بارے میں ہمارے حضرات کا نقطہ نظریہ ہے کہ جب سلف نے تمام لوگوں کو اس تعامل کو برقرار رکھا اور اس پر نکیر نہیں کی تو یہی بات اس تعامل کے جواز کی اصل اور بنیاد بن گئی اس قسم کے نظائر بیشمار ہیں۔- خنزیر الماء ( آبی سور) کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ امام مالک امام شافعی اور ابن ابی الیلیٰ کا قول ہے کہ سمندر میں پائی جانے والی ہر چیز کھائی جاسکتی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ خنزیر الماء کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے بعض لوگ اسے حمار الماء ( آبی گدھے) کا نام دیتے ہیں۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ نہ تو آبی انسان کا گوشت کھایاجائے گا اور نہ ہی آبی سور کا۔ ابو بکرحصاص کہتے ہیں کہ قول باری : ولحم الخنزیر کا ظاہر ہر قسم کے سور کی ممانعت کا موجب ہے، خواہ وہ بری ہو یا آبی، کیونکہ آیت میں مذکورہ اسم سب کو شامل ہے۔- اگر کوئی کہے کہ آیت میں مذکورہ اسم صرف بری سور کو شامل ہوگا کیونکہ بری سور ہی کو علی اطلاق اس اسم کا مسمی قرار دیاجاتا ہے جبکہ آبی سور کے لیے اس اسم کا علی الاطلاق استعمال نہیں ہوتا بلکہ مقید صورت میں ہوتا ہے اور عرف میں اس پر آبی گدھے کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔- اس کا جواب یہ ہے کہ آبی سور اپنی خلقت اور صفت میں یا تو بری سور کی طرح ہے یا اس کی طرح نہیں ہے۔ اگر پہلی بات ہے تو پھر بری اور آبی سوروں پر خنزیر کے اسم کے اطلاق میں کوئی فرق اس بنا پر نہیں ہوگا کہ اس کا آبی ہونا اس کے حکم میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرے گا جبکہ وہ خلقت اور صفت کے اندر بری سور کی مانند ہو، الا یہ کہ اس کی تخصیص پر کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ اگر دوسری بات ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے آبی گدھے کا نام دیا ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ لوگوں نے ایسے جانورکو خنزیر کا نام دے دیا جو حقیقت میں خنزیر نہیں ہے، حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کوئی شخص نام رکھنے کے سلسلے میں عوام الناس کو خطا کار قرار نہیں دیتا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ آبی سور حقیقت میں سور ہی ہوتا ہے اور آیت میں مذکورہ اسم علی الاطلاق اسے بھی شامل ہے۔ اگر لوگوں نے اسے آبی گدھے کا نام دیا بھی ہے تو اس کی وجہ سے خنزیر کا اسم اس سے سلب نہیں ہوگا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بری اور آبی سوروں کے درمیان فرق کے لییلوگوں نے اسے یہ نام دیا ہو۔- اسی طرح آبی کتے اور بری کتے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں یکساں ہیں کیونکہ کتے کا اسم ان سب کو شامل ہوتا ہے۔ اگرچہ آبی کتا اپنے بعض اوصاف میں بری کتے سے مختلف ہوتا ہے۔۔- اس جانور کی تحریم جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔- قول باری ہے : انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر دما اھل بہ بغیر اللہ ( اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مردار نہ کھائی۔ خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھائو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو) اہل اسلام کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس سے مراد وہ ذبیحہ ہے جس پر ذبح کے وقت اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں بت پرست اپنے بتوں پر چڑھا وے کے طورپر قربان کرتے تھے جس طرح یہ قول باری ہے : وما ذبح علی النصب ( اور وہ کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو) اور انہوں نے نصرانی کا ذبیحہ جائز قرار دیا ہے جسے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نام لے کر ذبح کرے۔ عطار، مکحول، حسن بصری شعبی اور سعید بن المسیب کا یہی مسلک ہے ان کا کہنا ہے کہ اللہ سبحانہ نے نصرانیوں کا ذبیحہ کھا لینے کی اباحت کردی ہے جبکہ اس کے علم میں یہ بات تھی کہ وہ مسیح (علیہ السلام) کا نام لے کر جانور ذبح کرتے ہیں۔ اوزاعی اور لیث بن سعد کا بھی مسلک ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ ان کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا۔ اگر وہ اسے ذبح کرتے وقت مسیح (علیہ السلام) کا نام لیں۔ قول باری : وما اھل بہ لغیر اللہ کا ظاہر ذبیحہ پر غیر اللہ کا نام لینے کی صورت میں اس کی تحریم کا موجب ہے کیونکہ آیت میں مذکورہ لفظ غیر اللہ کے اہلال کا مطلب یہی ہے کہ ذبح کے موقع پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیاجائے۔ آیت نے مسیح (علیہ السلام) یا ان کے سوا کسی اور کے نام کے درمیان غیر اللہ کے اہلال میں فرق نہیں کیا۔- دوسری آیت میں قول باری ہے : وما ذبح علی النصب، بتوں پرچڑھاوے کے طورپر جانور ذبح کرنے کی عربوں کی عادت اس بات سے مانع ہے کہ آیت کے متقضا یعنی ان جانوروں کی تحریم میں جن پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو آیت کے عموم کا اعتبار نہ کیا جائے۔ عطاء بن الصائب نے زاذان اور میسرہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : جب تم یہود اور نصاریٰ کو کسی جانور پر غیر اللہ کا نام لیتے ہوئے سنو تو اس کا گوشت نہ کھائو اور نہ سنو تو کھالو، کیونکہ اللہ سبحانہ نے ان کے ذبائح حلال کردئیے ہیں ، حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اللہ کو اس کا علم ہے۔- اہل کتاب کے ذبیحے کی اباحت کے قائلین کا یہ استدلال کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا طعام مباح کردیا ہے حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اللہ کو اس کا علم ہے درست استدلال نہیں ہے اس لیے کہ اس میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے، یعنی ان کے ذبیحے کی اباحت۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب کے طعام کی اباحت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ انہوں نے اس پر غیر اللہ کا نام نہ لیا ہو کیونکہ ہم پر دونوں آیتوں کے مجموعے پر عمل کرنا واجب ہے اس بناپر زیر بحث آیت گویا اس طرح ہے کہ تمہارے لیے ان لوگوں کا طعام حلال ہے جنہیں کتاب دی گئی ہے بشرطیکہ اس پر انہوں نے غیر اللہ کا نام نہ لیا ہو۔- اگر کوئی شخص کہے کہ نصرانی شخص جب اللہ کا نام لیتا ہے تو اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہوتے ہیں۔ اگر اس کی مراد یہی ہے اور یہ بات اس کے ذبیحے کی صحت کے لئے مانع نہیں حالانکہ وہ مذکورہ مراد کے تحت جانور پر غیر اللہ کا نام لیتا ہے، تو پھر اس کے ذبیحے کا حکم اس صورت میں بھی یہی ہونا چاہیے جب وہ اپنی پوشیدہ مراد کا الفاظ میں اظہار کردے، یعنی جانورپر حضرت مسیح (علیہ السلام) کا نام لے۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ ضروری نہیں ہے ، کیونکہ اللہ سبحانہ نے ہمیں صرف ظاہر کے حکم کا مکلف بنایا ہے اور کیونکہ اہلال کے معنی اظہار قول کے ہیں، اس لیے جب وہ غیر اللہ کا نام ظاہر کرے گا تو قول باری : وما اھل بہ بغیر اللہ کی بنا پر اس کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب وہ اللہ کا نام ظاہر کرے گا تو اسے حضرت مسیح پر محمول کرنا ہمارے لیے درست نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے نزدیک اسماء کا حکم یہ ہے کہ انہیں ان کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے اور ان معنوں پر محمول نہ کیا جائے جن پر یہ اسماء واقع نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر یہ کہاجائے کہ ہم اس اسم کے اعتبار کے پابند ہیں جس کا اظہار کیا گیا ہو تو ایسا کہنے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص اگر توحید باری اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اپنے الفاظ میں اقرار کرلے تو اس کا حکم وہی ہوگا جو اہل اسلام کا ہے۔ حالانکہ اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ اس کا عقیدہ شرک کا ہو جو توحید کی ضد ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : مجھے لوگوں کے خلاف اس وقت لڑتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں جب وہ یہ کلمہ کہہ دیں گے تو میرے ہاتھوں سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیں گے سوائے اس صورت کے جس کے تحت ان کی جان اور ان کا مال کسی حق کی بنا پر ان سے لیاجائے اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہوگا۔ اللہ سبحانہ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتادیا تھا کہ مسلمانوں کے اندر منافقین بھی موجود ہیں جن کا عقیدہ کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے وہ سلوک نہیں کیا جس کے مشرکین حقدار گردانے لئے تھے، بلکہ ان کے ظاہر کا اعتبار کرکے دنیاوی احکام میں انہیں مسلمانوں جیسا قرار دیا۔ اسی طرح یہ بات بھی جائز ہے کہ نصرانی شخص کے ذبیحے کی حلت کا تعلق اس کی طرف سے اللہ سبحانہ کے نام کے اظہار کے ساتھ ہو۔ اور جب وہ جانور مسیح (علیہ السلام) کا نام لے تو اس کا ذبیحہ حلال نہ ہو جس طرح تمام مشرکین کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا جب وہ جانور پر اپنے بتوں کا نام لیں۔ واللہ اعلم - مردار کھا لینے کی اباحت - ارشاد باری ہے : فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ( ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں) ایک اور آیت میں ارشاد ہے : وقد فصل لکم ما حرم علیکم الا ما اضطر رتم الیہ ( حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتاچکا ہے) نیز ارشاد ہے : فمن اضطر فی مخمصۃ غیر متجانف الاثم فان اللہ غفور رحیم ( البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر ان میں سے کوئی چیز کھالے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے) ان آیات کے اندر اللہ سبحانہ نے ضرورت کا ذکر فرمایا ہے اور ان میں سے ایک آیت : وقد فصل لکم ما حرم علیکم الا ما اضطررتم الیہ کے اندر کسی شرط اور صفت کے بغیر ضرورت کے وجود کی بنا پر اباحت کو مطلق رکھا ہے۔ یہ بات اس امر کی متقضی ہے کہ جس حالت میں بھی ضرورت کا وجود ہوگا اس میں مذکورہ اباحت کا بھی وجود ہوگا۔- قول باری : فمن اضطر غیر باغ ولا عاد کی تفسیر میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری اور مسروق کا قول ہے کہ مردار کے اندر قانون شکنی کرنے والا نہ ہو اور کھانے کے اندر ضرورت کی حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو۔ ہمارے اصحاب اور امام مالک یہی قول ہے، ان حضرات نے مسلم باغیوں کے لیے بوقت ضرورت مردار کھانے کی اباحت کردی ہے جس طرح انہوں نے اہل عدل ( اہل طاعت) کے لیے اباحت کی ہے۔ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ اگر ایک شخص امام المسلمین کا باغی نہ ہو نیز اس کا سفر کسی معصیت کی خاطر نہ ہو، تو اسے بوقت ضرورت مردار کھانے کی اجازت ہیل یکن اگر اس کا سفر کسی معصیت کے سلسلے میں ہو یا وہ امام المسلمین کا باغی بن چکا ہو، تو اسے مردار کھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ قول باری : الا ما اضطررتم الیہ سب کے لیے اباحت کا موجب ہے۔ خواہ وہ اہل اطاعت ہوں یا باغی۔ دوسری دو آیتوں : غیر باغ ولا عاد نیز غیر متجانف میں یہ احتمال ہے کہ ان سے کھانے میں ضرورت کی حد سے تجاوز اور سرکشی مراد ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ امام المسلمین کے خلاف بغاوت مراد ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے یہ درست نہیں ہوگا کہ ہم احتمال کی بنا پر مذکورہ بالا پہلی آیت کے عموم کی تخصیص کردیں بلکہ یہ ضروری ہوگا کہ تخصیص کے بغیر مذکورہ عموم کو ان صورتوں پر محمول کریں جو عموم کی ہم معنی ہوں، نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص کسی معصیت کے سلسلے میں س فر نہ کر رہا ہو بلکہ اس کا سفر حج یا جہاد یا تجارت کے سلسلے می ہو اور اس کے باوجود وہ کسی شخص کا مال ناجائز طریقے سے لے کر قانون شکن بن گیا ہو، یا نماز یا زکو ۃ کی ادائیگی ترک کرکے اپنی حد سے تجاوز کرگیا ہو تو اس کی یہ قانون شکنی اور حد سے تجاوز کرنے کی صورت اس کے لیے بوقت ضرورت مردار کی اباحت کے لیے مانع نہیں بنے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری : غیر باغ ولا عاد میں تمام صورتوں کے اندر قانون شکنی اور حد سے تجاوز کا انتفاء مراد نہیں ہے۔ آیت میں کسی مخصوص صورت کا بھی ذکر نہیں ہے۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ آیت کے لفظ کو مجمل قرار دیا جائے اور کہاجائے کہ اس اجمال کو تفصیل کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں اس کے ذریعے پہلی آیت کی تخصیص درست نہیں ہوگی، کیونکہ اجمال کیوجہ سے اسے اپنی حقیقت اور ظاہر پر رکھنا معتذر ہے ، لیکن جب ہم اسے کھانے کے اندر ضرورت کی حد سے تجاوز اور سرکشی پر محمول کریں گے تو مورد اور مردار کے اعتبار سے ہم اسے اس کے عموم اور حقیقت پر رکھیں گے۔ اس لیے دو وجوہ کی بنا پر اسے مذکورہ بالا معنی پر محمول کرنا اولیٰ ہوگا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ دریں صورت یہ اپنے عموم پر استعمال ہوگا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے قول باری الا ما اضطرر تم الیہ کی تخصیص لازم نہیں کریں گے۔ اسی طرح قول باری : غیر متجانف لا ثم سے یا تو تمام گناہوں سے کنار کشی مراد ہوگی جس کے نتیجے میں مضطر کے لیے اباحت کی شرح یہ ہوگی کہ وہ کھانے کے معاملے میں نیز دیگر معاملات میں کسی گناہ کی طرف سر سے میلان نہ رکھتا ہو، حتیٰ کہ اگر وہ کسی سے لیا ہوا ایک درہم واپس نہ کرنے پر اڑا رہے یا ایک نماز یا روزہ چھوڑنے کے فعل پر ڈٹا رہے اور اس سے توبہ نہ کرے تو اس کے لیے مردار کھانا حلال قرار نہ دیا جائے۔ یا آیت سے مراد یہ ہوگی کہ معاصی کی کسی ایک صورت پر ڈٹے رہنے کے باوجود حالت اضطرار میں اسے مردار کھا لینے کی اجازت ہے، جبکہ اس کا سفر کسی معصیت کے سلسلے میں نہ ہوا اور نہ وہ امام المسلمین کا باغی ہی ہو۔ یہ بات تو سب کے نزدیک ثابت ہے کہ معاصی کی بعض صورتوں پر اس کا قائم رہنا ضرورت کے وقت مردار کھا لینے کے نزدیک ثابت ہے کہ معاصی کی بعض صورت پر اس کا قائم رہنا ضرورت کے وقت مردار کھا لینے کی اباحت کے لیے مانع نہیں ہوتا۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ مراد یہ نہیں ہے۔ اس کے بعد اب اس گناہ کے اثبات کے لیے جو مردار کھانے کی اباحت مانع ہے زیر بحث آیت کے سوا کسی اور دلالت کی ضرورت ہوگی ۔ یہ بات آیت کے لفظ کے اجمال اور اس اجمال کے بیان کی ضرورت کی موجب بن جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آیت کا حکم کسی اور جانب سے آنے والے بیان پر موقوف ہوجائے گا جبکہ دوسری طرف اصول یہ ہے کہ اگر آیت کے حکم پر عمل ممکن ہو تو اس پر عمل کرنا واجب ہوجائے گا۔- زیر بحث آیت کے حکم پر عمل کے امکان کی جہت وہ ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، یعنی کھانے کے معاملے میں ضرورت کی حد سے تجاوز کی مراد کا اثبات۔ وہ یہ کہ مضطر شخص مردار میں سے صرف اس قدر کھانے کہ بس جسم و جان کا رشتہ باقی رہے۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے : ( تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) جو شخص حالت اضطرار میں مردار کھانے کی اباحت سے فائدہ نہ اٹھائے اور بھوکا رہ کر مرجائے تو تمام اہل علم کے نزدیک وہ اپنی جان کا قاتل قرار پائے گا۔ اس بارے میں اہل علم کے نزدیک عاصی اور مطیع کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ مردار کھانے سے باز رہنا اس کے عصیان میں اضافے کا باعث بن جائے گا۔ اس لیے بوقت ضرورت مردار کھانے کی اباحت میں عاضی کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو مطیع کا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص اپنے پاس موجود حلال طعام کھانے سے باز رہے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو وہ عاصی قرار پائے گا۔ خواہ وہ امام المسلمین کا باغی کیوں نہ ہو اور کسی معصیت کے سلسلے میں سفر پر کیوں نہ جا رہا ہو۔ ضرورت کے وقت مردار کی حیثیت اس جانور جیسی ہوتی ہے جسے امکان اور گنجائش کی حالت میں ذبح کردیا گیا ہو۔ - اگر یہ کہا جائے کہ بعض دفعہ عاصی کے لیے اپنے عصیان سے توبہ کے ذریعے مردار کھانے کی اباحت تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کرے اور اس کے نتیجے میں بھوکا رہ کر مرجائے تو وہ اپنی جان کے خلاف جرم کرنے والا قرار پائے گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بات اسی طرح ہے جیسا کہ آپ نے کہا ہے البتہ مردار نہ کھا کر اس کے لیے اپنی جان کے خلاف جرم کرنا مباح نہیں ہوگا خواہ وہ توبہ نہ بھی کرے، کیونکہ ترک توبہ اس کے لیے اپنی جان لینے کا فعل مباح نہیں کرے گا۔ مذکورہ عاصی اگر بوقت ضرورت مردار نہ کھائے اور اس کے نتیجے میں بھوک سے مرجائے تو وہ دو قسم کی معصیت کا مرتکب قرار پائے گا۔ معصیت کی خاطر اس کا نکلنا ایک معصیت ہوگی اور اپنی جان کے خلاف جرم کرنا یعنی مردار نہ کھانے کے نتیجے میں اپنی جان گنوانا دوسری معصیت ہوگی۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے ، حرام اور حلال ماکولات کے اعتبار سے عاصی اور مطیع کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسی تمام ماکولات و مشروبات جو مطیع کے لیے حلال ہوتی ہیں عاصی کے لیے بھی مباح اور حلال ہیں۔ اسی طرح جو ماکولات و مشروبات حرام ہیں مطیع اور عاصی کے لیے ان کی تحریم کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لیے بوقت ضرورت اگر مردار ایک مطیع کے لیے حلال ہوجائے تو ضروری ہے کہ عاصی کے لیے بھی اسی کا حکم یہی ہو۔ - اگر کہا جائے کہ مردار کی اباحت مضطر شخص کے لیے رخصت ہوتی ہے، جبکہ عاصی کے لیے کسی بات کی رخصت نہیں ہوتی، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ معترض ن کہا ہے کہ : مردار کی اباحت مضطر کے لیے رخصت ہوتی ہے۔ تو رخصت کی بات اس بنا پر غلط ہے کہ مردار کھا لینا مضطر پر فرض ہوتا ہے اور اس کا اضطرار اس سے پرہیز کو زائل کردیتا ہے۔ اگر وہ مردار کھانے سے باز رہے اور اس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوجائے تو وہ اپنی جان کا قاتل قرار پائے گا اور اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جو امکان کے باوجود روٹی کھانا اور پانی پینا چھوڑ دے اور مرجائے۔ - اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ حکم مردار کھانے پر مجبور اور مضطر شخص کا ہے جو باغی نہ ہو۔ اس لیے معترض کا یہ کہنا کہ مردار کی اباحت مضطر کے لیے رخصت ہوتی ہے۔ اس کے اس قول کے مترادف ہے کہ روٹی کھانا اور پانی پینا غیر مضطر کے لیے رخصت ہے۔ کوئی معقول شخص ایسی بات نہیں کہہ سکتا کیونکہ تمام لوگ یہی کہتے ہیں کہ مردار کھانے پر مجبور شخص پر اس کا کھا لینا فرض ہوتا ہے۔ اس لیے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ جب روٹی کھانے اور پانی پینے کے اعتبار سے عاصی اور مطیع کے درمیان کوئی فرق نہیں تو ضرورت کے وقت مردار کھانے کے اعتبار سے بھی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ درج بالا اعتراض کے غلط ہون کی دوسری وجہ یہ ہے کہ معترض نے کہا ہے کہ عاصی کے لیے کوئی رخصت نہیں ہوتی۔ یہ بات اہل اسلام کے اجماع کی رو سے غلط ہے۔ سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر عاصی کی حالت اقامت میں ہو تو بیمار ہونے کی صورت میں اسے رمضان کے روزے نہ رکھنے کی رخصت ہوگی۔ اسی طرح سفر کی حالت میں پانی نہ ملنے کی صورت میں اسے تیمم کرنے کی رخصت ہوگی۔ اہل اسلام عاصی کو ایک دن ایک رات موزوں پر مسح کی رخصت دیتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے مقیم کو ایک دن اور ایک رات اور مسافر کو تین دن تین رات موزوں پر مسح کرنے کی رخصت دی اور اس حکم میں مطیع اور عاصی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس وضاحت سے درج بالا اعتراض کا فساد واضح ہوجاتا ہے۔ - قول باری : فن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ نیز فمن اضطر فی مخمصۃ غیر منجانف لاثم فان اللہ غفور رحیم میں سے ہر ایک کے اندر ایک لفظ پوشیدہ اور مخذوف ہے جس کے بغیر کلام اپنا پورا مفہوم ادا نہیں کرتا ۔ وہ اس طرح کہ ضرورت کا وقوع مضطر کا فعل نہیں ہے۔ کہ قول باری : فلا اثم علیہ نیز قول باری فان اللہ غفور رحیم اس کی خبر بن جائے۔ اب قول باری فمن اضطر کی کوئی نہ کوئی خبر ہونی چاہیے جس کے ذریعے کلام تام ہو سکے کیونکہ حکم کا تعلق نفس ضرورت کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ اس کی خبر جس کے ذریعے کلام تام ہوتا ہے مخذوف ہے یعنی اکل اس بنا پر آیت کی عبارت کچھ اس طرح ہوگی : فمن اضطر فاکل فلا اثم علیہ ( جو شخص مجبور ہوجائے اور پھر مردار کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں) جو حضرات قول باری : غیر باغ ولا عاد کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ : مردار کے سلسلے میں قانون شکنی نہ کرے اور نہ ہی کھانے میں ضرورت کی حد سے تجاوز کرے۔ ان کی تفسیر کی بنا پر یہ دونوں الفاظ مخذوف لفظ کے لیے حامل ہوں گے۔ جو حضرات درج بالا فقرے کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ : مسلمانوں کے خلاف بغاوت اور سرکشی کرنے والا نہ ہو۔ ان کی تفسیر کی بنا پر آیت کی عبارت کچھ یوں ہوگی۔ ( جو شخص مجبور ہو در آنحا لیکر وہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت اور سرکشی کرنے والا نہ ہو اور پھر مردار کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں) زیر بحث آیات میں حذف کی صورت بالکل اسی طرح ہے جس طرح قول باری : فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعذۃ من ایام اخر ( اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرے) میں ہے۔ یہاں عبارت کچھ اس طرحے فافطر فعدۃ من ایام اخر ( پھر روزہ نہ رکھے تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پور کرلے) یہاں لفظ فاطر مخدوف ہے۔ - اسی طرح ی قول باری ہے فمن کان منکم مریضا او بہ ادی من راسہ ففدیۃ من صیام ( اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اسے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں کے ذریعے فدیہ دے) یہاں مفہوم ہے کہ اس کے سر میں تکلیف ہو اور وہ حلق کرا لے۔ یعنی سر مونڈ لے تو روزے رکھ کر فدیہ دے) یہاں لفظ ” حلق “ مخدوف ہے۔ ان صورتوں کے اندر حذف کا جواز اس بنا پر ہے کہ مخاطبین کو مخدوف کا علم ہے، نیز خطاب بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ ہماری یہ وضاحت زیر بحث آیت کو کھانے میں ضرورت کی حد سے تجاوز اور سرکشی کے معنوں پر محمول کرنے کو مسلمانوں کے خلاف بغاوت اور سرکشی کے معنوں پر محمول کرنے کی بہ نسبت اولیٰ قرار دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں مسلمانوں کا کوئی ذکر پہلے نہیں گزرا نہ تو مخذوف صورت میں اور نہی مذکور شکل میں ، جبکہ ” اکل “ کا لفظ مخدوف صورت میں موجود ہے۔ اس لیے ( غیر باغ ولا عاد) کو اکل پر محمول کرنا جو آیت کا مقتضیٰ ہے اسے ایسے معنوں پر محمول کرنے سے اولیٰ ہوگا جسے آیت کا لفظ متضمن نہیں ہے نہ تو مخدوف صورت میں اور نہ ہی مذکور شکل میں۔ قول باری الا ما اضطرر تم الیہ میں کوئی لفظ مخدوف نہیں ہے۔ یہ ایک مفہوم الممعنی جملہ سے استشہار ہے۔ مذکورہ جملہ میں یہ قول باری ہے : وقد فصل لکھ ما حرام علیکم الا ما اضطرر تم الیہ یعنی الا یہ کہ جن چیزوں کے استعمال پر تم مجبور ہو جائو وہ تمہارے لیے مباح ہیں۔ یہ فقرہ کسی مخدوف لفظ سے متغنی ہے ۔ یہاں ضرورت کے معنی اپنی جان پر یا اپنے بعض اعضاء پر اس ضرر کا اندیشہ ہے جو حرام چیز نہ کھانے کی بنا پر پیدا ہوسکتا ہے۔ ضرورت کا یہ مفہوم اپنے اندر دو معنی رکھتا ہے ۔ اول یہ کہ مضطر شخص ایسے مقام پر ہو جہاں وہ کھانے کے لیے مردار کے سوا کچھ اور نہ پائے۔ دوم یہ کہ اس کے پاس مردار کے سوا کھانے کی دوسری چیزیں موجود ہوں، لیکن اسے مردار کھانے پر مجبور کردیا جائے اور جان جائے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو، ہمارے نزدیک یہ دونوں معنی آیت میں مراد ہیں۔ آیت ان دونوں معنوں کا احتمال رکھتی ہے۔ - مجاہد نے آیت کو اکراہ کی ضرورت پر محمول کیا ہے۔ نیز مردار کھانے کی ضرورت کے معنی اگر یہ ہیں کہ اسے نہ کھانے کی صورت میں جان جانے کا اندیشہ ہو ، تو یہ معنی ضرورت اکراہ کے اندہ بھی موجود ہیں۔ اسی لیے دونوں صورتوں کا حکم یکساں ہونا چاہیے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص کو مردار کھانے پر مجبور کردیا جائے، لیکن وہ اسے نہ کھائے اور قتل ہوجائے تو وہ اسی طرح اللہ کا عاصی قرار پائے گا جس طرح وہ شخص جس کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو لیکن وہ مردار کھانے سے باز رہے اور اپنی جان دے دے۔ ایسا شخص اللہ کا عاصی قرار پائے گا جس طرح وہ شخص اللہ کا عاصی ہوگا جس کے پاس کھانے پینے کی اشیاء موجود ہوں لیکن وہ بھوک ہڑتال کر کے مرجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضرورت کی حالت میں مردار کھانے کی اس طرح اباحت ہوتی ہے جس طرح غیر ضرورت کی حالت میں دیگرحلال اشیاء کھانے کی۔ - شراب نوشی پر مجبور شخص کا بیان - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ شراب پینے پر مجبور و مضطر شخص کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا ہے کہ مطیع شخص اگر شراب پینے پر مجبور ہوجائے تو وہ اسے پی لے۔ ہمارے تمام اصحاب کا بھی یہی قول ہے، البتہ اضطرار کی صورت میں وہ صرف اتنی مقدار میں شراب استعمال کرے جس سے جسم و جان کا رشتہ قائمرہ سکے۔ حارث العکلی اور مکحول کا قول ہے کہ مذکورہ صورت میں وہ شراب نہیں پیے گا کیونکہ شراب پینے کی وجہ سے اس کی پیاس اور بڑھ جائے گی۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ مذکورہ صورت کے اندر وہ شراب استعمال نہیں کرے گا کیونکہ اس کا یہ فعل اس کی بھوک اور پیاس کو اور بڑھا دے گا۔ امام شافعی نے ایسی صورت میں شراب استعمال نہ کرنے کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ شراب نوشی اس کی عقل اور سمجھ کو ختم کر دے گی۔ امام مالک نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ضرورت کا ذکر صرف مردار کے سلسلے میں ہوا ، شراب کے سلسلے میں نہیں ہوا۔ ابوبر جصاص کہتے ہیں کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ شراب پیاس اور بھوک کی ضرورت کو رفع نہیں کرتی، دو وجوہ سے ان کا یہ قول بےمعنی ہے۔ ایک تو یہ کہ شراب کے متعلق مشاہدہ ہے کہ وہ بوقت ضروتر جسم وجان کے درمیان قائم رشتے کو بچا لیتی اور پیاس دور کردیتی ہے ہماری معلومات کے مطابق بعض اہل ذمہ ( یہودی اور عیسائی) ساری زندگی پانی نہیں پیتے، بلکہ شراب نوشی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر صورت حال اسی طرح ہے جس کا ذکر ان حضرات نے کیا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ ہم سائل کے پوچھے ہوئے مسئلے کو شراب سے ہٹا کر اس سے کہہ دیں کہ شراب پینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ شراب پینے سے عقل ختم ہوجانے کی جو بات امام شافعی نے کی ہے اس کا ہمارے زیر بحث مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ سوال تو یہ ہے کہ اگر شخص اتنی تھوڑی مقدار میں شراب پینے پر مجبور و مضطر ہوجائے جس کے نتیجے میں اس کی عقل ختم نہ و، تو اس کا کیا حکم ہوگا۔ امام مالک نے کہا کہ ضرورت کا ذکر مردار کے سلسلے میں ہوا ہے، شراب کے سلسلے میں نہیں ہوا۔ ہم یہ کہیں گے کہ ضرورت کی بعض صورتیں مردار اور اس کے ساتھ ذکر شدہ محرمات کے اندر مذکورہ ہیں اور بعض صورتیں دیگر تمام محرمات کے اندر مذکور ہیں۔ قول باری ہے : وقد فصل لکھ م حسوم علیکم الا ما اضطرر تم الیہ ( حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بنا چکا ہے۔ ) - اللہ تعالیٰ نے شراب کی تحریم کی تفصیل اپنی کتاب کے مختلف مقامات میں کردی ہے۔ چناچہ ارشاد ہے : یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیھما اثر کبیر ( پوچھتے ہیں کہ شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے ؟ کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے) نیز فرمایا : قل انما حرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن والاثم ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں۔ بےشرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ) نیز ارشاد ہے : انما الخمرو والمیسرو الانصاب والازلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ (یہ شراب اور جواء اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گند کے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پرہیز کرو) یہ تمام آیتیں شراب کی تحریم کی مقتضی ہیں۔ اضطرار کی آیت میں مذکورہ ضرورت تمام محرمات کو اپنے دبائر میں لیے ہوئے ہے۔ مردار اور اس کے ساتھ مذکہرہ دیگر محرمات میں ضرورت کا ذکر تمام محرمات کے اندر دوسری آیت کے عموم کے اعتبار کے لیے مانع نہیں ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر مردار کی اباحت کے اندر یہ مفہوم ہے کہ مردار کھا کر مضطر اپنی جان بچالے تو یہی مفہوم دیگر تمام محرمات کے اندر بھی موجود ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ضرورت کے وجود کی بناء پر جو حکم مردار کا ہے وہی حکم تمام محرمات کا بھی ہو جن میں شراب داخل ہے۔ واللہ اعلم۔ - وہ مقدار جسے مضطر استعمال کرسکتا ہے۔ - امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر اور امام شافعی ( المزنی کی روایت کے مطابق) فرماتے ہیں کہ مضطر شخص مردار میں سے صرف اتنی مقدار کھائے جس کے ذریعے اس کی جسم اور جان درمیان رشتہ زندگی قائم رہ سکے۔ ان وہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ وہ مردار میں سے پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے اور بطور توشہ بھی لے سکتا ہے، اگر ضرورت باقی نہ رہے توپھینک دے۔ عبداللہ بن الحسن العنبری نے کہا ہے کہ وہ اتنی مقدار میں کھالے جس سے اس کی بھوک رفع ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں ارشاد باری ہے : الا ما اضطرر تم الیہ نیز ارشاد ہے فمن اضطرر غیر باغ ولا عاد۔ ان آیات میں الل سبحانہ نے اباحت کو ضرورت کے وجود کے ساتھ معلق کردیا ہے اور ضرورت کا مفہوم ی ہے کہ مردار کھانے سے اسے ضرر لاحق ونے کا خوف ہو۔ یہ ضرر خواہ جان جانے کی صورت میں ہو یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کی شکل میں۔ اس بناء پر جب مضطر شخص مردار میں سے اتنی مقدار کھالے جس کے نتیجے میں وقتی طور پر ضرر کا خوف دور ہوجائے تو پھر ضرورت ختم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں بھوک رفع و جانے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر بھوک کی ابتدا میں مردار کھانا ترک کرنے کی وجہ سے ضرر لاحق ہونے کا خطرہ نہ ہوت ایسی بھوک مردار کھانے کی اباحت نہیں کرے گی۔ قول باری : فمن اضطرر غیر باغ ولا عاد۔ کی تفسیر میں ہم نے بیان کردیا ہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مضطر شخص مردار کھانے کے سلسلے میں نہ تو قانون شکنی کرنے والا ہو اور نہ ہی ضرورت کی حد سے تجاوز کرنے والا۔ اور یہ بات واضح ہے، اس سے وہ مردار خوری مراد نہیں ہے جو سیر ہوجانے کی حد سے زائد ہو۔ کیونکہ اس حد سے زائد، یعنی پر خوری کی مردار کے اندر بھی ممانعت ہے اور اس کے سوا دیگر مباحات کے اندر بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آیت سے یہ مراد لی جائے کہ وہ یعنی مضصطر مردار کھانے میں سیر ہونے کی حد تک قانون شکنی کرنے والا نہ ہو ۔ اس صورت میں قانون شکنی اور حد سے تجاوز دونوں کا وقوع سیر ہو کر مردار کھانے کی مقدار پر ہوگا تا کہ مضطر شخص مردار کی اتنی مقدار کھائے جس سے ضرر کا خوف اس سے زائل ہوجائے۔ اگر اس کے پاس اتنی مقدار میں حلال طعام موجود ہو جسے کھا کر وہ رشتہ زندگی کو باقی رکھ سکتا ہو تو اس صورت میں اس کے لیے مردار کھانا جائز نہیں ہوگا۔- اسی طرح اگر وہ مردار کی اتنی مقدار کھالے جس سے ضرر کا خوف ختم ہوجائے تو اس پر مزید مردار خوری حرام ہوجائے گی کیونکہ ضرورت ختم ہوجانے کے بعد مردار کھانے کی اباحت تو اپنی جگہ رہی مباح طعام کھانے کی بھی اباحت نہیں ہوتی اور جب بلا ضرورت مباح طعام کھانے کی اباحت نہیں ہے تو پھر بلا ضرورت مردار خوری کی کس طرح اباحت ہوسکتی ہے۔ ( مترجم) اوزاعی نے حسان بن عطیہ اللیثی سے روایت بیان کی ہے ک ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : ہم ایسی سرزمین میں رہتے ہیں جہاں ہمیں بھوکے رہنے کی مصیبت لاحق ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے لیے مردار کب حلال ہوسکتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : جب تمہیں صبح کے وقت پینے کے لیے کچھ نہ ملے یا شام کے وقت پینے کے لیے کچھ نہ ملے یا تمہیں کوئی سبزی ترکاری نہ ملے تو پھر مردار کھالو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے مردار خوری کی صرف اس صورت میں اباحت کی جب انہیں صبوح ( صبح کے وقت پی جانے والی چیز) یاغبوق ( شام کے وقت پی جانے والی چیز) یا کھانے کے لیے سبزی وغیرہ نہ ملے۔ اس لیے کہ جس شخص کو صبح یا شام کا کھانا یا سبزی وغیرہ مل جائے وہ مضطر نہیں ہوتا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دو باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ضرورت مردار کی اباحت کردیتی ہے۔ مضطر کی حالت، یعنی اس کے مطیع یا عاصی ہونے کے اعتبار نہیں ہوتا۔ کیونکہ حضور ت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اباحت کے سلسلے میں مسائل کے سامنے مطیع اور عاصی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ، بلکہ دونوں کو یکساں رکھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مردار کی اباحت ضرر کے خوف والی حالت تک محدود ہے۔ واللہ اعلم

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٤۔ ١٧٥) یہ اہل کتاب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توصیف وتعریف لوگوں سے چھپاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کی کتاب میں بیان کی ہے اور اس چھپانے پر معمولی سا معاوضہ لیتے ہیں یہ آیت کعب بن اشرف، حی بن اخطب اور جدی بن اخطب کے بارے میں اتری ہے۔ حرام کے علاوہ ان لوگوں کے شکموں میں اور کوئی چیز نہیں جاتی، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ آگ کے علاوہ ان کے پیٹوں میں قیامت کے دن اور کوئی چیز نہیں جائے گی اور نہ یہ گناہوں سے پاک ہوں گے اور نہ ہی ان کی کسی قسم کی تعریف کی جائے گی اور ان کو ایسا دردناک عذاب ملے گا کہ اس کی سختی ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی ان لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر اور اسلام کے بدلے یہودیت کو خرید لیا ہے۔- اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ جن چیزوں سے جنت ملتی ہے ان کی بجائے انہوں نے ایسی چیزوں پر عمل کیا ہے جو دوزخ میں جانے کا باعث ہیں، یہ لوگ دوزخ کیلیے کس قدر دلیر ہیں، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ دوزخ کمانے پر ان لوگوں کو اس قدر کس چیز نے دلیر وبہادر بنا دیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کس بنا پر یہ لوگ اہل جہنم کا کام کرتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ان الذین یکتمون “ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ (آیت) ان الذین یکتمون (الخ) اور وہ آیت جو کہ سورة آل عمران میں ہے (آیت) ” ان الذین یشترون “۔ یہ دونوں آیات یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔- اور ثعلبی (رح) نے بواسطہ کلبی (رح) ، ابو صالح (رح) ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ ہے کہ یہ آیت کریمہ یہودیوں کے علماء اور ان کے رؤسا کے متعلق نازل ہوئی ہے کیوں کہ وہ اپنے غریبوں سے ہدیہ اور تحفے لیا کرتے تھے اور اس بات کی امید رکھتے تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ہی میں سے نازل ہوں گے، جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے علاوہ دوسروں میں تشریف لے آئے تو انھیں اپنی ریاست کے زوال اور اپنے تحائف کے ختم ہوجانے کا ڈر ہوا، تو انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف میں (جو کہ توریت میں بیان کیے گئے تھے) تبدیلی کردی اور پھر وہ تبدیل شدہ اوصاف اپنی قوم کے سامنے بیان کرنے لگے اور بولے کہ وہ نبی جو اخیر زمانہ میں مبعوث ہوں گے، ان کی یہ صفت ہے یہ اوصاف ان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نہیں پائے جاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ (آیت) ” ان الذین یکتمون “ الخ نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٤ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیلْاً لا) - یعنی اس کے عوض دنیوی فائدوں کی صورت میں حقیر قیمت قبول کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :173 مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں یہ جتنے غلط توہمات پھیلے ہیں اور باطل رسموں اور بے جا پابندیوں کی جو نئی نئی شریعتیں بن گئی ہیں ان سب کی ذمہ داری ان علما پر ہے جن کے پاس کتاب الہٰی کا علم تھا مگر انہوں نے عامہ خلائق تک اس علم کو نہ پہنچایا ۔ پھر جب لوگوں میں جہالت کی وجہ سے غلط طریقے رواج پانے لگے تو اس وقت بھی وہ ظالم منہ میں گھُنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے ۔ بلکہ ان میں سے بہتوں نے اپنا فائدہ اسی میں دیکھا کہ کتاب اللہ کے احکام پر پردہ ہی پڑا رہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :174 یہ دراصل ان پیشواؤں کے جھوٹے دعووں کی تردید اور ان غلط فہمیوں کا رد ہے جو انہوں نے عام لوگوں میں اپنے متعلق پھیلا رکھی ہیں ۔ وہ ہر ممکن طریقے سے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ، اور لوگ بھی ان کے متعلق ایسا ہی گمان رکھتے ہیں کہ ان کی ہستیاں بڑی پاکیزہ اور مقدس ہیں اور جو ان کا دامن گرفتہ ہو جائے گا اس کی سفارش کر کے وہ اللہ کے ہاں اسے بخشوا لیں گے ۔ جواب میں اللہ فرماتا ہے کہ ہم انہیں ہرگز منہ نہ لگائیں گے اور نہ انہیں پاکیزہ قرار دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani