Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قصاص کی وضاحت یعنی اے مسلمانوں قصاص کے وقت عدل سے کام لیا کرو آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام عورت کے بدلے عورت اس بارے میں حد سے نہ بڑھو جیسے کہ اگلے لوگ حد سے بڑھ گئے اور اللہ کا حکم بدل دیا ، اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں بنوقریظہ اور بنونضیر کی جنگ ہوئی تھی جس میں بنونضیر غالب آئے تھے اب یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب نضری کسی قرظی کو قتل کرے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک سو وسق کھجور دیت میں لی جاتی تھی اور جب کوئی قرظی نضری کو مار ڈالے تو قصاص میں اسے قتل کر دیا تھا اور اگر دیت لی جائے تو دوگنی دیت یعنی دو سو وسق کھجور لی جاتی تھی پس اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم کو مٹایا اور عدل ومساوات کا حکم دیا ، ابو حاتم کی روایت میں شان نزول یوں بیان ہوا ہے کہ عرب کے دو قبیلوں میں جدال وقتال ہوا تھا اسلام کے بعد اس کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور کہا کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد قتل ہو اور عورت کے بدلے مرد قتل ہو تو ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہے قرآن فرماتا ہے آیت ( النفس بالنفس ) پس ہر قاتل مقتول کے بدلے مار ڈالا جائے گاخواہ آزاد نے کسی غلام کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو خواہ مرد نے عورت کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہیں کرتے تھے جس پر ( اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ) 5 ۔ المائدہ:45 ) نازل ہوئی پس آزاد لوگ سب برابر ہیں جسن کے بدلے جان لی جائے گی خواہ قاتل مرد ہو خواہ عورت ہو اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو جب کہ ایک آزاد انسان نے ایک آزاد انسان کو مار ڈالا ہے تو اسے بھی مار ڈالا جائے گا اسی طرح یہی حکم غلاموں اور لونڈیوں میں بھی جاری ہو گا اور جو کوئی جان لینے کے قصد سے دوسرے کو قتل کرے گا وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا اور یہی حکم قتل کے علاوہ اور زخمیوں کا اور دوسرے اعضاء کی بربادی کا بھی ہے ، حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ بھی اس آیت کو آیت ( النفس بالنفس ) سے منسوخ بتلاتے ہیں ۔ ٭مسئلہ٭ امام ابو حنیفہ امام ثوری امام ابن ابی لیلی اور داؤد کا مذہب ہے کہ آزاد نے اگر غلام کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہ بھی قتل کیا جائے گا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت سعید بن جبیر حضرت ابراہیم نخعی حضرت قتادہ اور حضرت حکم کا بھی یہی مذہب ہے ، حضرت امام بخاری ، علی بن مدینی ، ابراہیم نخعی اور ایک اور روایت کی رو سے حضرت ثوری کا بھی مذہب یہی ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار ڈالے تو اس کے بدلے اس کی جان لی جائے گی دلیل میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے اور جو شخص اپنے غلام کو نکٹا کرے ہم بھی اس کی ناک کاٹ دیں گے اور جو اسے خصی کرے اس سے بھی یہی بدلہ لیا جائے ، لیکن جمہور کا مذہب ان بزرگوں کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ غلام مال ہے اگر وہ خطا سے قتل ہو جائے تو دیت یعنی جرمانہ نہیں دینا پڑتا صرف اس کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے نقصان پر بھی بدلے کا حکم نہیں ۔ آیا مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء امت کا مذہب تو یہ ہے کہ قتل نہ کیا جائے گا اور دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ حدیث ( لا یقتل مسلم بکافر ) مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے ، اس حدیث کے خلاف نہ تو کوئی صحیح حدیث ہے کہ کوئی ایسی تاویل ہو سکتی ہے جو اس کے خلاف ہو ، لیکن تاہم صرف امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل کر دیا جائے ۔ مسئلہ٭٭ حضرت حسن بصری اور حضرت عطا کا قول ہے کہ مرد عورت کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور دلیل میں مندرجہ بالا آیت کو پیش کرتے ہیں لیکن جمہور علماء اسلام اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورۃ مائدہ کی آیت عام ہے جس میں آیت ( النفس بالنفس ) موجود ہے علاوہ ازیں حدیث شریف میں بھی ہے حدیث ( المسلون تتکافا دماء ھم ) یعنی مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں ، حضرت لیث کا مذہب ہے کہ خاوند اگر اپنی بیوی کو مار ڈالے تو خاصتہ اس کے بدلے اس کی جان نہیں لی جائے ۔ مسئلہ٭٭ چاروں اماموں اور جمہور امت کا مذہب ہے کہ کئی ایک نے مل کر ایک مسلمان کو قتل کیا ہے تو وہ سارے اس ایک کے بدلے قتل کر دئے جائیں گے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص کو سات شخص مل کر مار ڈالتے ہیں تو آپ ان ساتوں کو قتل کراتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر صفا کے تمام لوگ بھی اس قتل میں شریک ہوتے تو میں قصاص میں سب کو قتل کرا دیتا ۔ آپ کے اس فرمان کے خلاف آپ کے زمانہ میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اعتراض نہیں کیا پس اس بات پر گویا اجماع ہو گیا ۔ لیکن امام احمد سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ایک کے بدلے ایک ہی قتل کیا جائے زیادہ قتل نہ کیے جائیں ۔ حضرت معاذ حضرت ابن زبیر عبدالملک بن مروان زہری ابن سیرین حبیب بن ابی ثابت سے بھی یہ قول مروی ہے ، ابن المندر فرماتے ہیں یہی زیادہ صحیح ہے اور ایک جماعت کو ایک مقتول کے بدلے قتل کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس مسئلہ کو نہیں مانتے تھے پس جب صحابہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوا تو اب مسئلہ غور طلب ہو گیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ کسی قاتل کو مقتول کا کوئی وارث کچھ حصہ معاف کر دے یعنی قتل کے بدلے وہ دیت قبول کر لے یا دیت بھی اپنے حصہ کی چھوڑ دے اور صاف معاف کر دے ، اگر وہ دیت پر راضی ہو گیا ہے تو قاتل کو مشکل نہ ڈالے بلکہ اچھائی سے دیت وصول کرے اور قاتل کو بھی چاہئے کہ بھلائی کے ساتھ اسے دیت ادا کر دے ، حیل وحجت نہ کرے ۔ مسئلہ٭٭ امام مالک کا مشہور مذہب اور امام ابو حنیفہ اور آپ کے شاگردوں کا اور امام شافعی اور امام احمد کا ایک روایت کی رو سے یہ مذہب ہے کہ مقتول کے اولیاء کا قصاص چھوڑ کر دیت پر راضی ہونا اس وقت جائز ہے جب خود قاتل بھی اس پر آمادہ ہوا لیکن اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں ۔ مسئلہ٭٭ سلف کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت قصاص سے درگزر کر کے دیت پر اگر رضامند ہوں تو ان کا اعتبار نہیں ۔ حسن ، قتادہ ، زہرہ ، ابن شبرمہ ، لیث اور اوزاعی کا یہی مذہب ہے لیکن باقی علماء دین ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے بھی دیت پر رضامندی ظاہر کی تو قصاص جاتا رہے گا پھر فرماتے ہیں کہ قتل عمد میں دیت لینا یہ اللہ کی طرف سے تخفیف اور مہربانی ہے اگلی امتوں کو یہ اختیار نہ تھا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل پر قصاص فرض تھا انہیں قصاص سے درگزر کرنے اور دیت لینے کی اجازت نہ تھی لیکن اس مات پر یہ مہربانی ہوئی کہ دیت لینی بھی جائز کی گئی تو یہاں تین چیزیں ہوئیں قصاص دیت اور معانی اگلی امتوں میں صرف قصاص اور معافی ہی تھی دیت نہ تھی ، بعض لوگ کہتے ہیں اہل تورات کے ہوں صرف قصاصا اور معافی تھی اور اہل انجیل کے ہاں صرف معافی ہی تھی ۔ پھر فرمایا جو شخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یا دیت قبول کر لینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے اس کے لئے سخت دردناک عذاب ہے ۔ مثلاً دیت لینے کے بعد پر قتل کے درپے ہو وغیرہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس شخص کا کوئی مقتول یا مجروح ہو تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا قصاص یعنی بدلہ لے لے یا درگزر کرے ۔ معاف کر دے یا دیت یعنی جرمانہ لے لے اور اگر کچھ اور کرنا چاہے تو اسے روک دو ان میں سے ایک کرچکنے کے بعد بھی جو زیادتی کرے وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہو جائے گا ( احمد ) دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے دیت وصول کر لی پھر قاتل کو قتل کیا تو اب میں اس سے دیت بھی نہ لوں گا بلکہ اسے قتل کروں گا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے عقلمندو قصاص میں نسل انسان کی بقاء ہے اس میں حکمت عظیمہ ہے گو بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے بدلے ایک قتل ہوا تو دو مرے لیکن دراصل اگر سوچو تو پتہ چلے گا کہ یہ سبب زندگی ہے ، قاتل کو خود خیال ہوگا کہ میں اسے قتل نہ کروں ورنہ خود بھی قتل کر دیا جاؤں گا تو وہ اس فعل بد سے رک جائے گا تو دو آدمی قتل وخون سے بچ گئے ۔ اگلی کتابوں میں بھی یہ بات تو بیان فرمائی تھی کہ آیت ( القتل انفی للقتل ) قتل قتل کو روک دیتا ہے لیکن قرآن پاک میں بہت ہی فصاحت وبلاغت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا ۔ پھر فرمایا یہ تمہارے بچاؤ کا سبب ہے کہ ایک تو اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہو گے دوسرے نہ کوئی کسی کو قتل کرے گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے گا زمین پر امن وامان سکون وسلام رہے گا ، تقوی نیکیوں کے کرنے اور کل برائیوں کے چھوڑنے کا نام ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

178۔ 1 زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں اس لیے زورآور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم کا ارتکاب کرلیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقتور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہوجاتا وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کو بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے کہ جو قاتل ہوگا قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے۔ (فتح القدیر) مزید دیکھیے سورة مائدہ آیت۔ 45۔ 178۔ 2 معافی کی دو سورتیں ہیں ایک بغیر معاوضہ یعنی دیت لئے بغیر محض رضائی الٰہی کے لئے معاف کردینا دوسری صورت میں قصاص کے بجائے دیت قبول کرلینا اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کی پیروی کرے بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کر کے اس پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔ 178۔ 3 یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص) معافی یا دیت تین صورتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہیں ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی قصاص تھا نہ دیت (ابن کثیر) 178۔ 4 قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کر دے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا اور آخرت میں بھگتنی ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٢٢] قصاص کا مطلب ہے جان کے بدلے جان لینا۔ پھر دور نبوی کی سوسائٹی کی اصناف کے مطابق حکم دیا گیا۔ آزاد کے بدلے قاتل قوم کا کوئی آزاد مرد ہی قتل ہوگا۔ عورت یا غلام قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح غلام کے بدلے آزاد مرد یا عورت قتل نہیں ہوں گے۔ یہ تفصیل اللہ تعالیٰ نے اس لیے بیان فرمائی کہ اس دور کا دستور یہ تھا کہ اگر کسی قبیلہ کا کوئی معزز آدمی دوسرے قبیلے کے کسی عام آدمی کے ہاتھوں مارا جاتا تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ یا تو قاتل قبیلے کا ویسا ہی کوئی معزز آدمی قتل کیا جائے یا اس قبیلہ کے کئی آدمی اس کے عوض قتل کئے جائیں۔ اس کے برعکس مقتول اگر کوئی ادنیٰ آدمی اور قاتل معزز آدمی ہوتا تو وہ اس بات کو گوارا نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے قاتل کی جان لی جائے اور یہ بات صرف اس زمانے سے مختص نہیں بلکہ آج کی مہذب حاکم اقوام بھی یہی کچھ کرتی ہیں۔ قاتل اگر حاکم قوم سے تعلق رکھتا ہو تو عدالت کو اختیار نہیں کہ اس کے خلاف قصاص کا فیصلہ صادر کرسکے اور اگر بدقسمتی سے حاکم قوم کا کوئی شخص محکوم کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو سمجھ لو کہ اس پوری قوم کی خیر نہیں اور اس پر طرح طرح کی مصیبتیں کھڑی کی جاتی ہیں انہی خرابیوں کے سدباب کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مقتول کے بدلے قاتل اور صرف قاتل ہی کی جان لی جائے گی یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون ؟- [٢٢٣] مقتول کے وارث کو قاتل کا بھائی کہہ کر نہایت لطیف طریقے سے اس سے نرمی اختیار کرنے کی سفارش بھی کردی گئی ہے۔ یعنی وہ قصاص معاف کر دے اور دیت لے لے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام میں قتل تک کا مقدمہ بھی قابل راضی نامہ ہے۔ جبکہ انگریزی قانون کے مطابق یہ جرم قابل راضی نامہ نہیں۔- اگلی امتوں میں سے یہود پر اللہ تعالیٰ نے قصاص فرض کیا تھا، ان میں عفو کا قانون نہیں تھا اور نصاریٰ میں صرف عفو کا حکم تھا قصاص کا نہیں تھا۔ اس امت پر اللہ تعالیٰ نے آسانی اور مہربانی فرمائی اور دونوں باتوں کی اجازت دی۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مقتول کے وارثوں کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے خوا وہ فدیہ لے لیں یا قصاص۔ (بخاری کتاب باب کیف تعرف لقطہ اھل مکہ نیز مسلم، کتاب الحج، باب تحریم مکہ) - تاہم آپ قصاص کے بجائے عفو کو زیادہ پسند فرماتے تھے، آپ خود بھی معاف کرتے اور دیت لے لینے کی سفارش کرتے اور صحابہ (رض) کو بھی اسی بات کی تلقین فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایک آدمی قتل ہوگیا۔ آپ نے قاتل کو مقتول کے حوالہ کردیا۔ قاتل کہنے لگا یا رسول اللہ اللہ کی قسم میرا قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ آپ نے مقتول کے ولی سے کہا۔ اگر یہ سچا ہوا اور تم نے اسے قتل کردیا تو تم دوزخ جاؤ گے۔ یہ سن کر مقتول کے ولی نے قاتل کو چھوڑ دیا (ترمذی۔ ابو اب الدیات باب ماجاء فی حکم ولی القتیل) - یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت کی ابتدا میں (کتب علیٰ ) کے الفاظ قصاص کی فرضیت اور وجوب کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر بھی دیت کی رعایت یا رخصت بھی بیان فرما دی۔ بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف ہی کردیں تو اسے بہت بہتر عمل قرار دیا گیا تو پھر قصاص کی فرضیت یا وجوب کیا رہ گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا روئے سخن اسلامی معاشرہ یا اسلامی حکومت کی طرف ہے کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خون ناحق کا ضرور قصاص لے۔ خواہ مقتول کا کوئی وارث موجود ہو یا نہ ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ مقتول کے وارث تو ہوں مگر انہیں قصاص لینے میں کوئی دلچسپی نہ ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض دنیوی مفادات کی خاطر یہ قتل ہی ورثا کے ایماء سے ہوا ہو۔ جو بھی صورت ہو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مجرم کو گرفتار کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچائے۔- اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو دیت کی رعایت بیان فرمائی تو یہ اختیار صرف مقتول کے ورثا کو ہے اور اس میں کئی حکمتیں اور لوگوں کی مصلحتیں ہیں۔ جب مقتول کے ورثاء کو حکومت کی طرف سے قصاص یا دیت کا اختیار مل جائے تو اپنے قاتل کے خلاف ان کے منتقمانہ جذبات سرد پڑجاتے ہیں اور بہت بڑے زخم کے اندمال کی ایک شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اگر وہ جان کا قصاص لینے کے بجائے نرم رویہ اختیار کریں تو اس سے ایک تو قاتل کی جان بخشی اور قاتل اور اس کے خاندان پر احسان ہوتا ہے۔ جس سے آئندہ کے لیے نہایت مفید نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے دوسرے اس صورت میں مقتول کے ورثاء کی مالی امداد بھی ہوجاتی ہے۔ اور اگر وہ غریب ہوں تو انہیں بڑا سہارا مل سکتا ہے اور یہ سب معاملات حکومت کی وساطت سے ہی طے ہوں گے مگر مقتول کے ورثاء کی مرضی کے مطابق کئے جائیں گے اور اگر یہ سارا اختیار حکومت کو ہی سونپ دیا جائے تو مقتول کے ورثاء ان تمام فوائد سے یکسر محروم رہ جاتے ہیں۔- [ ٢٢٤] اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں قصاص تھا دیت کا دستور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر قصاص فرض کرنے کے بعد فرمایا آیت (فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ١٧٨۔ ) 2 ۔ البقرة :178) جس سے مراد دیت کا مطالبہ ہے اور آیت (وَاَدَاۗءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ ١٧٨۔ ) 2 ۔ البقرة :178) سے مراد یہ ہے کہ قاتل کو بلاچون و چرا ادائیگی کردینا چاہیے۔ یہ اگلے لوگوں کے مقابلہ میں تخفیف ہے۔ آیت (فَمَنِ اعْتَدَیٰ بَعْدَ ذٰلِکَ ) کا مطلب یہ ہے کہ دیت قبول کرنے کے بعد بھی اسے قتل کر دے (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) - اگر انسان کی نیت میں بگاڑ ہو تو زیادتی کی کئی شکلیں بن سکتی ہیں۔ ایک شکل تو وہی ہے جس کا مندرجہ بالا آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ مقتول کا وارث وقتی طور پر دیت لے کر مالی فوائد حاصل کرلے۔ پھر جب کبھی موقع ملے تو قاتل کو مار بھی ڈالے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل اور اس کے ورثاء حکومت کے دباؤ کے تحت دیت ادا کردیں۔ مگر بعد میں ان پر کسی نئے ظلم چوری یا ڈاکہ وغیرہ کی سکیم تیار کرنا شروع کردیں۔ ایسی تمام صورتوں میں وہ اللہ کے غضب کے مستحق ٹھہریں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الْقَتْلٰي ) یہ ” قَتِیْلٌ“ کی جمع ہے، جو بمعنی مقتول ہے۔ اس آیت سے بظاہر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرد، مرد ہی کو قتل کرنے کی صورت میں قتل کیا جائے گا، عورت کو قتل کر دے تو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح عورت، عورت ہی کو قتل کرنے کی صورت میں قتل کی جائے گی، مرد کو قتل کرنے کی صورت میں نہیں، مگر یہ معنی مراد نہیں، بلکہ یہاں اہل جاہلیت کے ایک ظلم کا خاتمہ مقصود ہے کہ اگر ان کے کمزور قبیلے کی کوئی عورت کسی طاقت ور قبیلے کے کسی مرد کو قتل کردیتی تو وہ قتل کرنے والی عورت کے بجائے اس قبیلے کے کسی بےگناہ مرد یا متعدد مردوں کو قتل کردیتے۔ اسی طرح کسی کمزور قبیلے کا کوئی غلام کسی زور آور قبیلے کے کسی آزاد آدمی کو قتل کردیتا تو وہ اس قاتل غلام کی جگہ اس قبیلے کے کسی بےگناہ آزاد ہی کو قتل کرنے پر اصرار کرتے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قتل کرنے والے کے بدلے میں اسی قاتل ہی کو قتل کیا جائے، کسی دوسرے کو نہیں، قاتل خواہ آزاد ہے یا غلام، مرد ہے یا عورت۔ (خلاصہ از طبری)- اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو قتل کر دے تو قصاص میں مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا، بعض لوگوں نے کہا کہ کافر کو قتل کرنے کی صورت میں مسلمان کو قتل کردیا جائے گا، مگر یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریح فرمان کے خلاف ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَ اَنْ لاَّ یُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ ) ” اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ “ [ بخاری، الدیات، باب لا یقتل المسلم بکافر : ٦٩١٥ ] مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو چوپاؤں کی مانند بلکہ ان سے بھی گمراہ تر قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) ۔- مِنْ اَخِيْهِ یہاں مقتول کے وارث کو قاتل کا بھائی قرار دینے میں ایک طرح کی سفارش ہے کہ بیشک قاتل نے تمہارے آدمی کو قتل کیا ہے مگر مسلمان ہونے کے ناتے تم اس کے بھائی ہو، تمہیں اسے کچھ نہ کچھ معافی دینی چاہیے۔ معافی کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ صدقہ کرتے ہوئے دیت لیے بغیر معاف کردیں۔ دوسری یہ کہ دیت لے لیں، پھر خواہ پوری لے لیں یا اس میں سے کچھ معاف کردیں۔ اگر وہ معاف کرتے ہوئے قصاص کی جگہ دیت قبول کرلیں تو ان پر لازم ہے کہ دیت کا تقاضا اچھے طریقے سے کریں اور قاتل کے قبیلے والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اچھے طریقے سے دیت ادا کردیں۔ استطاعت ہوتے ہوئے دیت ادا نہ کرنا ظلم ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ ) ” غنی کا دیر کرنا ظلم ہے۔ “ [ بخاری،- الحوالات، باب الحوالۃ وہل یرجع فی الحوالۃ : ٢٢٨٧ ]- (تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ) ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص تھا دیت نہیں تھی، اب اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما کر دیت لینے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب ( یأیہا الذین آمنوا ۔۔ ) : ٤٤٩٨ ]- فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ دیت لے کر بھی کوئی آدمی اگر قاتل کو قتل کرے تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات اور خلاصہ تفسیر :- اس سے پہلی آیات کی تفسیر میں آپ معلوم کرچکے ہیں کہ ان آیات میں اجمالی طور پر نیکی اور خوبی کے اصول بتلا دئیے گئے ہیں آگے ان کی جزئی تفصیلات آئیں گی جن کو ابواب البر کہا جاسکتا ہے آگے انہی ابواب البر کے کچھ احکام جزئیہ کا بیان ہوتا ہے جو ضرورت اور حالات و واقعات کے تابع بیان ہوئے ہیں۔- حکم اول قصاص :- اے ایمان والو تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے مقتولین (بقتل عمد) کے بارے میں (یعنی ہر) آزاد آدمی (قتل کیا جاوے ہر دوسرے) آزاد آدمی کے عوض میں اور (اسی طرح ہر) غلام (دوسرے ہر) غلام کے عوض میں اور (اسی طرح ہر) عورت (دوسری ہر) عورت کے عوض میں (گو یہ قاتلین بڑے درجہ کے اور مقتولین چھوٹے درجہ کے ہوں جب بھی سب سے برابر قصاص لیا جاوے گا یعنی قاتل کو سزا میں قتل کیا جاوے گا) ہاں جس (قاتل) کو اس کے فریق (مقدمہ) کی طرف سے کچھ معافی ہوجاوے (مگر پوری معاف نہ ہو) تو (اس سے سزائے قتل سے تو بری ہوگیا لیکن دیت یعنی خون بہا کے طور پر ایک معین مقدار سے مال بذمہ قاتل واجب ہوجاوے گا تو اس وقت فریقین کے ذمہ ان دو امر کی رعایت ضروری ہے مدعی یعنی وارث مقتول کے ذمہ تو) معقول طور پر ( اس مال کا) مطالبہ کرنا (کہ اس کو زیادہ تنگ نہ کرے) اور (مدعا علیہ یعنی قاتل کے ذمہ) خوبی کے ساتھ (اس مال کا) اس مدعی کے پاس پہنچا دینا (کہ مقدار میں کمی نہ کرے اور خواہ مخواہ ٹالے نہیں) یہ (قانون دیت وعفو) تمہارے پروردگار کی طرف سے (سزا میں ) تخفیف ہے اور (شاہانہ) ترحم ہے (ورنہ بجز سزائے قتل کے کوئی گنجائش ہی نہ ہوتی) پھر جو شخص اس (قانون) کے (مقرر ہوئے) بعد تعدی کا مرتکب ہو (مثلا کسی پر جھوٹا یا اشتباہ میں دعویٰ قتل کا کردے یا معاف کرکے پھر قتل کی پیروی کرے) تو اس شخص کو (آخرت میں) بڑا دردناک عذاب ہوگا اور فہیم لوگو (اس قانون) قصاص میں تمہاری جانوں کا بڑا بچاؤ ہے (کیونکہ اس قانون کے خوف سے ارتکاب قتل سے ڈریں گے تو کئی جانیں بچیں گی) ہم امید کرتے ہیں کہ تم لوگ (ایسے قانون امن کی خلاف ورزی سے) پرہیز رکھو گے،- معارف و مسائل :- قصاص کے لفظی معنی مماثلت کے ہیں مراد یہ ہے کہ جتنا ظلم کسی نے کسی پر کیا اتنا ہی بدلہ لینا دوسرے کے لئے جائز ہے اس سے زیادتی کرنا جائز نہیں قرآن مجید کی آیت میں عنقریب اسی سورت میں اس کی زیادہ وضاحت اس طرح آئی ہے بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ (١٩٤: ٢) اور سورة نحل کی آخری آیات میں وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ (١٢٦: ١٦) اسی مضمون کے لئے آیا ہے،- اسی لئے اصطلاح شرع میں قصاص کہا جاتا ہے قتل کرنے اور زخم لگانے کی اس سزا کو جس میں مساوات اور مماثلت کی رعایت کی گئی ہو،- مسئلہ : قتل عمد وہ کہ ارادہ کرکے کسی کو آہنی ہتھیار سے یا ایسی چیز سے جس سے گوشت پوست کٹ کر خون بہہ سکے قتل کیا جاوے، قصاص یعنی جان کے بدلے جان لینا ایسے ہی قتل کے جرم کے ساتھ مخصوص ہے،- مسئلہ : ایسے قتل میں جیسے آزاد آدمی آزاد کے عوض میں قتل کیا جاتا ہے ایسے ہی غلام کے عوض میں بھی غلام اور جس طرح عورت کے عوض میں عورت ماری جاتی ہے اسی طرح مرد بھی عورت کے مقابلہ میں قتل کیا جاتا ہے،- آیت میں آزاد کے مقابل آزاد اور عورت کے مقابل عورت کا جو ذکر آیا ہے یہ اس خاص واقعہ کی بناء پر ہے جس میں یہ آیت نازل ہوئی ہے،- ابن کثیر نے باسناد ابن ابی حاتم نقل کیا ہے کہ زمانہ اسلام سے کچھ پہلے دو عرب قبیلوں میں جنگ ہوگئی طرفین کے بہت سے آدمی آزاد اور غلام مرد اور عورتیں قتل ہوگئے ابھی ان کے معاملہ کا تصفیہ ہونے نہیں پایا تھا کہ زمانہ اسلام شروع ہوگیا اور یہ دونوں قبیلے اسلام میں داخل ہوگئے اسلام لانے کے بعد اپنے اپنے مقتولوں کا قصاص لینے کی گفتگو شروع ہوئی تو ایک قبیلہ جو قوت و شوکت والا تھا اس نے کہا کہ ہم اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک ہمارے غلام کے بدلے میں تمہارا آزاد آدمی اور عورت کے بدلے میں مرد قتل نہ کیا جائے،- قصاص کے متعلق اسلام کا عادلانہ قانون اور قصاص کے مسائل :- ان کے جاہلانہ اور ظالمانہ مطالبہ کی تردید کرنے کیلئے یہ آیت نازل ہوئی اَلْحُــرُّ بالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بالْاُنْـثٰى جس کا حاصل ان کے مطالبہ کو رد کرنا تھا کہ غلام کے بدلے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو قتل کیا جائے اگرچہ وہ قاتل نہ ہو اسلام نے اپنا عادلانہ قانون یہ نافذ کردیا کہ جس نے قتل کیا ہے وہی قصاص میں قتل کیا جائے اگر عورت قاتل ہے تو کسی بےگناہ مرد کو اس کے بدلے میں قتل کرنا اسی طرح قاتل اگر غلام ہے تو اس کے بدلے میں کسی بےگناہ آزاد کو قتل کرنا ظلم عظیم ہے جو اسلام میں قطعا برداشت نہیں کیا جاسکتا۔- اس سے معلوم ہوا کہ آیت کا حاصل اس کے سوا نہیں کہ جس نے قتل کیا ہے وہی قصاص میں قتل کیا جائے گا عورت ہو یا غلام قاتل عورت اور غلام کے بجائے بےگناہ مرد یا آزاد کو قتل کرنا جائز نہیں۔- آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت کو کوئی مرد قتل کردے یا غلام کو کوئی آزاد قتل کردے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا قرآن مجید کی اسی آیت کے شروع میں اَلْحُــرُّ بالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بالْاُنْـثٰى اس عموم کی واضح دلیل ہے اور دوسری آیات میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ہے مثلاً النَّفْسَ بالنَّفْسِ وغیرہ۔- مسئلہ : اگر قتل عمد میں قاتل کو پوری معافی دے دیجاوے مثلاً مقتول کے وارث صرف اس کے دو بیٹے تھے اور ان دونوں نے اپنا حق معاف کردیا تو قاتل پر کوئی مطالبہ نہیں رہا اور اگر پوری معافی نہ ہو مثلاً صورت مذکورہ میں دو بیٹوں میں سے ایک نے معاف کیا دوسرے نے معاف نہیں کیا سزائے قصاص سے تو قاتل بری ہوگیا لیکن معاف نہ کرنے والے کو نصف دیت (خون بہا) دلایا جاوے گا اور دیت یعنی خوں بہا شریعت میں سو اونٹ یا ہزار دینار یا دس ہزار درہم ہوتے ہیں اور درہم آجکل کے مروجہ وزن کے اعتبار سے تقریباً ساڑھے تین ماشہ چاندی کا ہوتا ہے تو پوری دیت دو ہزار نو سو سولہ تولے ٨ ماشے چاندی ہوگی، یعنی ٣٦ سیر ٣٦ تولے ٨ ماشے،- مسئلہ : جس طرح ناتمام معافی سے مال واجب ہوجاتا ہے اسی طرح اگر باہم کسی قدر مال پر مصالحت ہوجاوے تب بھی قصاص ساقط ہو کر مال واجب ہوجاتا ہے لیکن اس میں کچھ شرائط ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔- مسئلہ : مقتول کے جتنے شرعی وارث ہیں وہی قصاص اور دیت کے مالک بقدر اپنے حصہ میراث کے ہوں گے اگر دیت یعنی خوں بہا لیا گیا تو مال ان وارثوں میں بحساب وراثت تقسیم ہوگا اور قصاص کا فیصلہ ہوا تو قصاص کا حق بھی سب میں مشترک ہوگا مگر چونکہ قصاص ناقابل تقسیم ہے اس لئے کوئی ادنیٰ درجہ کا حق رکھنے والا بھی اپنا حق قصاص معاف کر دے گا تو دوسرے وارثوں کا حق قصاص بھی معاف ہوجائے گا ہاں ان کو دیت (خون بہا) کی رقم حسب حصہ ملے گی،- مسئلہ : قصاص لینے کا حق اگرچہ اولیاء مقتول کا ہے مگر باجماع امت ان کو اپنا یہ حق خود وصول کرنے کا اختیار نہیں کہ خود ہی قاتل کو مار ڈالیں بلکہ اس حق کے حاصل کرنے کے لئے حکم سلطان مسلم یا اس کے کسی نائب کا ضروری ہے کیونکہ قصاص کس صورت میں واجب ہوتا ہے کس میں نہیں اس کی جزئیات بھی دقیق ہیں جن کو ہر شخص معلوم نہیں کرسکتا اس کے علاوہ اولیاء مقتول اپنے غصہ میں مغلوب ہو کر کوئی زیادتی بھی کرسکتے ہیں اس لئے باتفاق علماء امت حق قصاص حاصل کرنے کے لئے اسلامی حکومت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي۝ ٠ ۭ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى۝ ٠ ۭ فَمَنْ عُفِيَ لَہٗ مِنْ اَخِيْہِ شَيْءٌ فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْہِ بِـاِحْسَانٍ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـۃٌ۝ ٠ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ١٧٨- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - كتب ( فرض)- ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي - [ المجادلة 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] ، وقال : وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ [ الأنفال 75] أي : في حكمه، وقوله : وَكَتَبْنا عَلَيْهِمْ فِيها أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ- [ المائدة 45] أي : أوجبنا وفرضنا، وکذلک قوله : كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، وقوله : كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيامُ [ البقرة 183] ، لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتالَ [ النساء 77] ، ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ [ الحدید 27] ، لَوْلا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلاءَ [ الحشر 3] أي : لولا أن أوجب اللہ عليهم الإخلاء لدیارهم،- نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔ اور آیت : وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ [ الأنفال 75] اور رشتے دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں کتاب اللہ سے مراد قانون خداوندی ہی - قِصاصُ- : تتبّع الدّم بالقود . قال تعالی: وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة 179] وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ- [ المائدة 45] ويقال : قَصَّ فلان فلانا، وضربه ضربا فَأَقَصَّهُ ، أي : أدناه من الموت، والْقَصُّ : الجصّ ، و «نهى رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم عن تَقْصِيصِ القبور»- القصاص کے معنی خون کا بدلہ دینے کے ہیں چناچہ فرمایا : وَلَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ [ البقرة 179] حکم قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔ وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة 45] سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے ۔ محاورہ ہے قص فلان فلانا وضربہ ضربا فاقصہ فلاں کو ( مار مار کر ) مرنے کے قریب کردیا ۔ القص کے معنی چونہ کے ہیں ۔ حدیث میں ہے (181) نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن تقصیص القبور کہ رسول اللہ نے قبروں کو گچ کرنے سے منع فرمایا ۔- حريّة- والحريّة ضربان :- الأول : من لم يجر عليه حکم الشیء، نحو : الْحُرُّ بِالْحُرِّ [ البقرة 178] .- والثاني : من لم تتملّكه الصفات الذمیمة من الحرص والشّره علی المقتنیات الدنیوية، وإلى العبودية التي تضادّ ذلك أشار النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم بقوله :- «تعس عبد الدّرهم، تعس عبد الدّينار» وقول الشاعر : ورقّ ذوي الأطماع رقّ مخلّد وقیل : عبد الشهوة أذلّ من عبد الرّق، والتحریرُ : جعل الإنسان حرّا، فمن الأول : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، ومن الثاني : نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران 35] ، قيل : هو أنه جعل ولده بحیث لا ينتفع به الانتفاع الدنیوي المذکور في قوله عزّ وجل : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، بل جعله مخلصا للعبادة، ولهذا قال الشعبي : معناه مخلصا، وقال مجاهد : خادما للبیعة وقال جعفر : معتقا من أمر الدنیا، وكلّ ذلك إشارة إلى معنی واحد، وحَرَّرْتُ القوم : أطلقتهم وأعتقتهم عن أسر الحبس، وحُرُّ الوجه : ما لم تسترقّه الحاجة، وحُرُّ الدّار : وسطها، وأحرار البقل معروف، وقول الشاعر : جادت عليه كلّ بکر حرّةوباتت المرأة بلیلة حرّة كلّ ذلک استعارة، والحَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] .- الحر عبد کی ضد کہا جاتا ہے حر بین الحروریتہ اوالحرورۃ وہ آدمی جس کی اشرافت نمایاں ہو حریۃ ( آزادی ) یعنی آزادی دو قسم پر ہے ۔ ( 1) جو کسی کا غلام نہ ہو جیسے فرمایا : الْحُرُّ بِالْحُرِّ [ البقرة 178] کہ آزاد کے بدلے آزاد ( 2) جسے صفات ذمیمہ یعنی حرص لالچ دنیوں مال ومتاع کا غلام نہ بنادیں ۔ ضد عبودیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا تعس عبدالررھم تعس عبدالدینار درہم وس دینار کا بندہ ہلاک ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ع حریص اور لالچی لوگ ہمیشہ غلام رہتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) عبدالشھوۃ اذال من عبد الرق ۔ کہ شہوت کا بندہ ٖغلام سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے ۔ التحریرُ کے معنی کسی انسان کو آزاد کرنا کے ہیں چناچہ کریت کے معنی کے پیش نظر فرمایا : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] تو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران 35] جو بچہ ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نزر کرتی ہوں ۔ چناچہ بعض نے اس کے معنی کئے میں کہ وہ اپنے اس لڑکے سے کسی قسم کا دنیوی فائدہ حاصل نہیں کریں گی جس کی طرف آیت : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اس میں اشارہ پایاجاتا ہے بلکہ یہ خالص عبادت الٰی کے لئے وقف رہے گا ۔ اسی بناء پر شعبی نے محررا کے معنی خادم معبار کئے ہیں امام جعفر نے کہا ہے کہ امور دنیوی سے آزاد ہوگا لیکن مآں کے لحا ظ سے سب کا ماحصل ایک ہی ہے ۔ حررت القوم میں نے انہیں قید خانہ سے رہا کردیا ۔ جرالوجہ وہ شخص جو احتیاج کے پنجہ میں گرفتار نہ ہوا ہو ۔ حرالدار البقل وہ ترکاریاں جو کچی کھائی جاتی ہیں ۔ اور شاعر کا قول ع ( کامل ) (103) جارت علیہ کل بکر حرۃ موسم بہار کی پہلی موسلا دھار بارش نے اس پر سخاوت کی ہے ۔ باتت المرءۃ بنیلۃ حرۃ ( سب زفاف کہ شوہر درآں بکارت نتواں لوائل کرو ) یہ سب استعارات ہیں ۔ الحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- أنث - الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء 124] - ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) - - عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ - أدى- الأداء : دفع الحق دفعةً وتوفیته، كأداء الخراج والجزية وأداء الأمانة، قال اللہ تعالی: فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمانَتَهُ [ البقرة 283] ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها [ النساء 58] ، وقال : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، وأصل ذلک من الأداة، تقول : أدوت بفعل کذا، أي : احتلت، وأصله : تناولت الأداة التي بها يتوصل إليه، واستأديت علی فلان نحو : استعدیت - ( ا د ی ) الاداء کے معنی ہیں یکبارگی اور پورا پورا حق دے دینا ۔ چناچہ خراج اور جزیہ کے دے دینے اور امانت کے واپس کردینے کو اداء کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ (1 فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ ( سورة البقرة 283) تو امانت دار کو چاہیے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے ۔ (1 إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ( سورة النساء 58) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالہ کردیا کرو ۔ (1 وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ( سورة البقرة 178) اور پسندیدہ طریق سے خون بہا اسے پورا پورا ادا کرنا ۔ اصل میں یہ اداۃ سے ہے محاورہ ہے ادوت تفعل کذا ۔ کسی کام کے لئے حیلہ اور تدبیر کرنا اصل میں اس کے معنی اداۃ ( کسی چیز ) کو پکڑنے کے ہیں جس کے ذریعہ دوسری چیز تک پہنچا جاسکے ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- خفیف - الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل .- والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان،- نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد .- الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس،- وثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] وأرى أنّ من هذا قوله : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف 189] . - الرّابع : يقال خفیف فيمن يطيش،- و ثقیل فيما فيه وقار، فيكون الخفیف ذمّا، والثقیل مدحا . الخامس : يقال خفیف في الأجسام التي من شأنها أن ترجحن إلى أسفل کالأرض والماء، يقال : خَفَّ يَخِفُّ خَفّاً وخِفَّةً ، وخَفَّفَه تَخْفِيفاً وتَخَفَّفَ تَخَفُّفاً ، واستخففته، وخَفَّ المتاع : الخفیف منه، و کلام خفیف علی اللسان، قال تعالی: فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف 54] ، أي : حملهم أن يخفّوا معه، أو وجدهم خفافا في أبدانهم وعزائمهم، وقیل :- معناه وجدهم طائشين، وقوله تعالی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون 102- 103] ، فإشارة إلى كثرة الأعمال الصّالحة وقلّتها، وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم 60] ، أي : لا يزعجنّك ويزيلنّك عن اعتقادک بما يوقعون من الشّبه، وخفّوا عن منازلهم : ارتحلوا منها في خفّة، والخُفُّ : الملبوس، وخُفُّ النّعامة والبعیر تشبيها بخفّ الإنسان .- ( خ ف ف ) الخفیف - ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں اسی معنی پر محمول ہیں بلکہ ہمارے نزدیک آیت : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف 189] اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ( 4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پر وقار ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کے اعتبار سے خفیف صفت ذم ہوگئی اور ثقیل سفت مدح ۔ ( 5 ) جو اجسام نیچے کی طرف جھکنے والے ہوں انہیں ثقلا اور جو اپر کی جاں ب چڑھنے والے ہوں انہیں خفیفہ کہا جاتا ہے اسی معنی کے لحاظ سے زمین پانی وگیرہ ہا کو اجسام ثقیلہ اور ہوا آگ وغیرہ ہا اجسام خفیفہ میں داخل ہوں گے ۔- خف ( ض ) خفا وخفتہ ویخفف ۔ ہلکا ہونا خففہ تخفیفا ۔ ہکا کرنا ۔ استخفہ ۔ ہلکا سمجھنا خف المتاع سامان کا ہلکا ہونا اسی سے کلام خفیف علی اللسان کا محاورہ مستعار ہے یعنی وہ کلام جو زبان پر ہلکا ہو ۔ اور آیت کریمہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف 54] غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اس نے اپنی قوم کو اکسایا کہ اس کے ساتھ تیزی سے چلیں اور یا یہ کہ انہیں اجسام وعزائم کے اعتبار سے ڈھیلا پایا اور بعض نے یہ معنی بھی کئے کہ انہیں جاہل اور کم عقل سمجھا ۔ اور آیت کریمہ : : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون 102- 103] اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے ۔ میں اعمال صالحہ کی کمی کی طرف اشارہ ہی اور آیت کریمہ : وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم 60] اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شبہات پیدا کر کے تمہیں تمہارے عقائد سے منزل اور برگشتہ نہ کردیں ۔ خفوا عن منازھم ۔ وہ تیزی سے کوچ کر گئے الخف ۔ موزہ ۔ انسان کے موزہ سے تشبیہ دے کر خف النعامتہ والبعیر ۔ ( سپل شتر وسم شتر مرغ ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قصاص کا بیان - ارشاد باری ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی ( تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے) یہ خود کفیل اور مکتفی بالذات کلام ہے اور اسے اپنے مفہوم کی ادائیگی کے لیے ما بعد کے کلام کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر صرف اسی فقرے پر اقتصار کرلیا جاتا تو الفاظ سے اس کے مفہوم کی پوری ادائیگی ہوجاتی۔ اس کلام کا ظاہر تمام مقتولین کے اندر اہل ایمان قر قصاص کا مقتضی ہے۔ قصاص کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے دوسرے شخص کے ساتھ کیا ہے۔ یہ لفظ اس قول سے ماحوذ ہے : اقتص اثر فلان ( فلاں شخص نے فلاں شخص جیسا فعل کیا) قول باری ہے : فارتدا علی اثارھما قصصا ( چناچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر واپس ہوئے) نیز ارشاد ہے : وقالت الاختہ قصیہ ( اور اس نے حضرت موسیٰ کی ماں نے ) اس کی ( حضرت موسیٰ کی) بہن سے کہا : اس کے نقش قدم پر جائو) قول باری : کتب علیکم کے معنی ہیں ” تم پر فرض کردیا گیا “ جس طرح یہ قول باری ہے : کتب علیکم الصیام ( تم پر روزے فرض کر دئیے گئے) نیز : کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیر الوصیۃ للوالدین ( تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آ جائے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو والدین کے لیے وصیت کرے) ایک وقت میں وصیت واجب تھی اسی طرح ” صلوات مکتوبات “ سے فرض نمازیں مراد ہیں۔ زیر بحث آیت اہل ایمان پر قصاص کے ایجاب کے حکم پر مشتمل ہے۔ یعنی جب کوئی قتل کا ارتکاب کرے تو اس پر مقتول کا قصاص واجب ہوجاتا ہے۔ اس حکم میں تمام قسم کے مقتولین شامل ہیں۔- حصوص تو صرف قاتلین میں ہے کیونکہ ان پر قصاص صرف اس وقت فرض ہوگا جب وہ قاتل بنیں گے اس لیے آیت ہر اس شخص پر وجوب قصاص کے مقتضی ہے جس نے کسی آلے کے ذریعے عمداً قتل کا ارتکاب کیا ہو، سوائے ان صورتوں کے جن کی تخصیص کسی شرعی دلیل کی بنا پر ہوئی ہو۔ خواہ مقتول غلام ہو یا ذمی، مذکر ہو یا مونث، کیونکہ آیت میں مذکور ( القتلیٰ ) کا لفظ سب کو شامل ہے ۔ مقتولین کے سلسلے میں اہل ایمان قر قصاص کے ایجاب پر مشتمل خطاب کا رخ ان کی طرف ہونا اس امر کا موجب نہیں ہے کہ مقتولین بھی اہل ایمان ہوں کیونکہ ہم پر تو لفظ کے عموم کا اتباع لازم ہے جب تک خصوص کی دلالت قائم نہ ہوجائے۔ زیر بحث آیت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو بعض مقتولین کے ساتھ حکم کے خصوص کی موجب ہو اور بعض کے ساتھ نہ ہو۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مقتولین کے اعتبار سے حکم میں دو وجوہ سے تخصیص موجود ہے۔ ایک وجہ تو آیت کے تسلسل میں یہ قول باری ہے : فمن عفی لہ من اخیہ شی ف اتباع بالمعروف ( ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی ( مقتول کا ولی) کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خونبہا کا تصفیہ ہونا چاہیے ) اور کافر چونکہ مسلمان کا بھائی نہیں ہوتا اس لیے آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہ اہل ایمان کے مقتولین کے ساتھ خاص ہے۔ دوسری وجہ یہ قول باری ہے : المحر بالحر و العبد بالعبد والانثی بالانثی ( آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام اور مونث کے بدلے مونث) اس کے جواب میں جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی بات دو وجوہ سے غلط ہے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ خطاب کا اول حصہ جب سب کو شامل ہے، تو خصوص کے لفظ کے ساتھ اس پر عطف ہونے والا عموم کی تخصیص کا موجب نہیں ہوتا۔ - اس کی مثال یہ قول باری ہے : والمطلقات یستربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء ( اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں) آیت کے الفاظ میں تین طلاقوں والی مطلقہ اور تین سے کم والی مطلقہ کے لیے عموم ہے پھر اس پر یہ قول باری عطف ہوا : واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ( اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے والی ہو تو یا بھلے طریقے سے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو ) نیز : وبھولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادو اصلاحا ( ان کے شوہر تعلقات درست کرلینے پر آمادہ ہوں تو اس عدن کے دوران میں انہیں اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں) یہ حکم اس مطلقہ کے ساتھ خاص ہے جسے تین سے کم طلاقیں دی گئی ہوں۔ لیکن اس عطف نے تمام مذکورہ مطلقات پر تین قروء کی عدت کے ایجاب کے سلسلے میں لفظ کے عموم کی تخصیص واجب نہیں کی۔ قرآن میں اس کے نظائر بہت زیادہ ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں بھائی کے ذکر سے ارراہ نسب اخوت مراد ہے دین کی جہت سے اخوت مراد نہیں ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ولی عاد اخاھم ھودا ( اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا) جہاں تک قول باری : الحر باحر والعبد یا لعبد والانثی بالانثی ( کا تعلق ہے تو یہ مقتولین کے بارے میں لفظ کے عموم کی تخصیص کا موجب نہیں ہے۔ اس لیے کہ خطاب کا اول حصہ جب مکتفی بالذات ہے تو اس صورت میں ہمارے لیے اسے بعد کے کلام یعنی : الحر الحر میں منحصر کردینا جائز نہیں ہوگا۔ - قول باری : الحر بالحر تاکید کے طور پر صرف اس چیز کا بیان ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اور اس حال کا ذکر ہے جس کے تحت کلام ظاہر ہوا ہے یہی بات شعبی اور قتادہ نے بھی بیان کی ہے کہ عرب کے دو قبیلوں کے درمیان جنگ و جدل کا بازار گرم رہا۔ ان میں سے ایک قبیلے کا پلہ بھاری تھا انہوں نے کہا کہ : ہم صلح پر صرف اس صورت میں رضامند ہوں گے کہ ہمارے غلام کے بدلے تمہارا آزاد قتل کیا جائے اور ہماری عورت کے بدلے تمہارے مرد کی گردن اڑائی جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : کتب علیکم القصاص فی القتلی، الحر بالحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی اور اس کے ذریعے اس بات کی تاکید کردی گئی کہ قصاص صرف قاتل پر فرض ہے کسی اور پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا کرنے سے روک دیا، یہی مفہوم اس حدیثر کا ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک تین قسم کے لوگ سب سے بڑھ کر سرکش قرار پائیں گے۔ ایک وہ شخص جس نے قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کیا ہو، دوسرا وہ شخص جس نے حرم کے اندر قتل کا ارتکاب کیا ہو اور تیسرا و شخص جس نے زمانہ جاہلیت میں پیش آنے والے کسی دشمن اور قتل کا بدلہ لیا ہو “۔- قول باری : الحر بالحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی ان بعض صورتوں کی تفسیر ہے جن پر زیر بحث آیت کے لفظ کا عموم مشتمل ہے۔ یہ بات مذکورہ لفظ کی تخصیص کی موجب نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : گندم کے بدلے گندم برار برابر ۔ نیز اصناف ستہ کا ذکر اس امر کا موجب نہیں ہے کہ ربوٰ کا حکم صرف ان ہی اصناف کے اندر محدود رہے اور ان کے سوادیگر چیزوں سے ربوٰ کی نفی ہوجائے۔ اسی طرح قول باری : الحر باحر لفظ کے اس عموم کی نفی نہیں کرتا جو آیت : کتب علیکم القصاص فی القتلی کے اندر موجود ہے۔ قول باری : الحر بالحر قصاص کے عموم کی تخصیص کا موجب نہیں ہے اور غیر مذکور صورتوں سے قصاص کی نفی نہیں کرتا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے ( سب کا اس مسئلے میں اتفاق ہے) کہ آزاد کے بدلے میں غلام کو اور مرد کے بدلے میں عورت کو قتل کردیا جائے گا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آزاد کے بدلے آزاد کی تخصیص نے تمام مقتولین کے سلسلے میں لفظ کے حکم کے موجب ( حرف جیم کے زیر کے ساتھ ) کی نفی نہیں کی۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قصاص کس طرح مفروض ہوگا جبکہ مقتول کے ولی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو قاتل کو معاف کر دے اور چاہے تو قصاص لے لے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ولی پر اسے مفروض نہیں کیا، بلکہ ولی کے لیے اسے قاتل پر فرض کردیا ہے، چناچہ ارشاد ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی ( قتل کے مقدمات میں تم پر قصاص کے وجوب کی نفی نہیں کرتی اگرچہ قصاص لینا جس کا حق ہے اسے اس بارے میں اختیار ہوتا ہے۔ - مذکورہ بالا آیت غلام کے قصاص میں آزاد کو، ذمی کے قصاص میں مسلمان کو اور عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کردینے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ہم نے پہلے ہی بیان کردیا ہے کہ خطاب کا اول حصہ تمام مقتولین کے سلسلے قصاص کے عموم کے ایجاب کا مقتضی ہے، نیز یہ کہ آزاد کے بدلے آزاد کی اور اس ک ساتھ مذکورہ دیگر افراد کی تخصیص اس امر کی موجب نہیں ہے کہ قصاص کے ایجاب میں ابتدائے خطاب کے عموم کا اعتبار نہ کرتے ہوئے قصاص کے حکم کو صرف ان مذکورہ افراد تک محدود رکھا جائے۔ قصاص کے ایجاب کے عموم کے سلسلے میں زیر بحث آیت کی نظیر یہ آیت ہے۔ ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا ( اور جو شخص مظلومانہ قتل ہوگیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے) یہ آیت ان تمام مقتولین کو شامل ہے جنہیں ظلماً قتل کیا گیا ہو ان کے اولیاء کو ایک سلطان، یعنی اختیار دیا گیا ہے، اس سلطان سے مراد قصاص ہے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد اس صورت میں قصاص ہے جب ایک آزاد مسلمان دوسرے آزاد مسلمان کو قتل کر دے، اس طرح مذکورہ قول باری گویا یوں ہے : ہم نے اس کے ولی کو قصاص کا حق دیا ہے۔ آیت کے جس معنی پر سب کا اتفاق ہوجائے وہ آیت کی مراد قرار پاتا ہے۔ اس طرح گویا قصاص کی بات آیت میں منصوص ہوگئی ۔ سلطان کا لفظ اگرچہ مجمل ہے لیکن سب کے اتفاق کی بناء پر اس کی مراد کا مفہوم معلوم ہوگیا : قول باری : ومن قتل مظلوما ایک عموم ہے اور آیت کے ظاہر اور اس کے لفظ کے مقتضا کے مطابق اس عموم کا اعتبار درست ہے۔ زیر بحث آیت کی نظیر یہ آیت بھی ہے : وکتبنا فیھا ان النفس بالنفس ( اور ہم نے تورات میں فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان ہے) اس میں اللہ سبحانہ نے یہ بنا ۔ یا کہ مذکورہ حکم بنی اسرائیل پر فرض کردیا گیا تھا اور یہ حکم تمام مقتولین کے سلسلے میں قصاص کے ایجاب کا عموم ہے۔ امام ابویوسف نے اس آیت سے غلام کو قصاص میں آزاد کو قتل کردینے کے مسئلہ میں استدلال کیا ہے۔ امام ابویوسف نے اس آیت سے غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل کردینے کے مسئلہ میں استدلال کیا ہے۔ امام ابو یوسف کا مسلک یہ ہے کہ ہم سے پہلے انبیا کی شریعت ہم پر بھی لازم ہے جب تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی اس کے نسخ کا ثبوت نہ ہوجائے اور ہمیں قرآن و سنت کے اندر کہیں بھی مذکورہ حکم کا نسخ نہیں ملتا۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ یہ حکم ہم پر بھی اسی شکل میں لازم ہے جو اس کے ظاہر لفظ کا مقتضا ہے۔ - اس کی ایک اور نظریہ آیت ہے : فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم ( جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی کرو) اس لیے کہ جو شخص قتل کردیا جائے گا، قاتل کو یہ فعل اس کے ولی کے ساتھ زیادتی شمار ہوگا۔ یہ چیز تمام مقتولین کے سلسلے میں عام ہے۔ اسی طرح قول باری : وان عاقبتم فعاقبو بمثل ما عوقبتم بہ ( اور اگر تم بدلہ لینا چاہو تو اتنا ہی دکھ پہنچائو جتنا کہ انہوں نے تمہیں پہنچایا ہے) کا عموم آزاد ، غلام ، مذکر، مونث ، مسلمان اور ذمی سب کے سلسلے میں قصاص کے وجوب کا مقتضی ہے۔ - غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل کرنا - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آزادوں اور غلاموں کے درمیان قصاص کے مسئلے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ صرف جان کے سلسلے میں آزادوں اور غلاموں کے درمیان قصاص ہے، غلام کے قصاص میں آزاد کو اور آزاد کے قصاص میں غلام کو قتل کردیا جائے گا۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ آزادوں اور غلاموں کے درمیان ان تمام زخموں کے اندر بھی قصاص واجب ہے جن کا قصاص ممکن ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ کسی زخم کے اندر آزاد اور غلام کے درمیان کوئی قصاص نہیں ہے۔ نیز آزاد کے قصاص میں غلام کو قتل کردیا جائے گا لیکن غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر غلام قتل کا مجرم ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا، لیکن غلام کے لیے آزاد سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ غلام کسی آزاد کو قتل کر دے تو اس صورت میں مقتول کے ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے بدلے میں قاتل غلام کی ذات پر قبضہ کرلے۔ اس صورت میں وہ غلام اس کا ہوجائے گا۔ اگر غلام کسی آزاد کے خلاف قتل سے کم تر درجے کا بزم کرے۔ یعنی اسے زخمی کردے تو مجروح اگر چاہے اس سے قصاص لے سکتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جان کے سلسلے میں جس پر قصاص جاری ہوگا زخموں کے سلسلے میں بھی اس پر قصاص جاری ہوگا، نیز غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی جان لینے سے کم ترجرم کے اندر غلام کے لیے آزاد سے قصاص لیا جائے گا، جان کے سلسلے میں آزادوں اور غلاموں کے درمیان قصاص کے وجوب پر زیر بحث آیت کی دلالت کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں حکم کو مقتولین تک محدود رکھا گیا ہے اور اس میں جان لینے سے کم تر جرم، یعنی زخموں کا ذکر نہیں ہے۔ مقتولین ، نیز سزا اور اعتداء کے بیان کے سلسلے میں ہم نے قرآن کی آیتوں کے عموم کا تمام تر جو ذکر کیا ہے وہ غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل کردینے کا مقتضی ہے۔ نیز جب سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آزاد کے قصاص میں غلام کو قتل کردیا جائے گا۔ تو اس سے ضروری ہوگیا کہ غلام کے قصاص میں آزاد کو بھی قتل کردیا جائے، کیونکہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ زیر بحث آیت میں غلام بھی مراد ہے۔ آیت کے مقتضیٰ نے مقتول اور قاتل غلام کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس لیے آیت سب کے لیے عام ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : ولاکھ فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب ( عقل و خرد رکھنے والو، تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے) یہاں اللہ سبحانہ ، نے یہ بتایا ہے کہ اس نے قصاص اس لیے واجب کردیا کہ اس میں ہمارے لیے زندگی ہے۔ یہ خطاب آزاد اور غلام سب کو شامل ہے، کیونکہ عقل و خرد کے مالک ہونے کی صفت سب کو شامل ہے اور جب یہ علت سب کے اندر موجود ہوتی ہے تو پھر آیت کے حکم کو ان میں سے بعض تک محدود رکھنا اور بعض کو اس سے خارج کردینا جائز نہیں ہے۔ سنت کی جہت سے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے خون باہم برابر ہیں۔ یہ ارشاد غلاموں اور آزادوں سب کے لیے عام ہے، اس لیے دلالت کے بغیر اس میں سے کسی کی تخصیص نہیں ہوسکتی۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلام اگر قاتل ہو تو وہ مذکورہ حدیث کے مطابق سلوک کا حق دار ہوگا۔ یہی بات اس صورت میں بھی ہونی چاہیے۔ جب غلام مقتول ہو کیونکہ حدیث میں غلام کے قاتل یا مقتول ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیاق و حدیث میں فرمایا ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری پوری کرنے کے سلسلے میں ان کا ادنیٰ شخص بھی کوشش کرے گا۔ یہ ادنی ٰ شخص غلام ہے اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اول خطاب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلام کا ارادہ نہیں فرمایا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ معترض کی یہ بات اس وجہ سے غلط ہے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر غلام قاتل ہو تو وہ مراد ہوگا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کا دوسرا حصہ جس کا ذکر معترض نے کیا ہے کقاتل ہونے کی صورت میں غلام کے مراد ہونے سے مانع نہیں بنا تو پھر مقتول ہونے کی صورت میں غلام کے مراد ہونے سے بھی مانع نہیں بن سکتا۔ علاوہ ازیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مذکورہ ارشاد میں غیر غلام سے غلام کی تخصیص نہیں ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ :” گنتی کے اعتبار سے مسلمانوں کا ادنیٰ شخص ، یعنی ان میں سے ایک شخص۔ اس لیے اول خطاب کے حکم کو آزاد تک محدود رکھنے اور غلام کو اس میں شامل نہ کرنے کے ایجاب کے ساتھ خطاب کے زیر بحث حصے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماتے ہیں کہ : مسلمانوں کا غلام بھی ان کی ذمہ داری پوری کرنے میں کوشش کرے گا۔ پھر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد آزاد کے خون کے ساتھ غلام کیخون کی یکسانیت کا موجب نہ بنتا ، کیونکہ یہ ایک اور حکم ہے جس کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نئے سرے سے ذکر کیا۔ اور اس کے ساتھ غلام کو اس لیے مخصوص کردیا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری نبھاہنے کے سلسلے میں غیر غلام بھی بطریق اولیٰ کوشش کرے گا۔ اور جب اس حکم میں غلام کی تخصیص اس بات کی موجب نہیں ہے کہ اس حکم کے ساتھ غلام ہی مخصوص ہے اور اس میں غیر غلام شامل ہے، تو پھر قصاص کے حکم کی تخصیص کے لیے اس کا موجب نہ ہونا بطریق اولیٰ ہوگا۔ اگر یہاں کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : مسلمانوں کے خون باہم برابر ہیں۔ خون میں باہم مماثلت کا مقتضی ہے، جبکہ غلام آزاد کی مثل نہیں ہوتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خون کے اندر غلام کو آزاد کی مثل قرار دیا ہے کیونکہ آپ نے ان کی مماثلت کے حکم کو الام کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ اس لیے جو شخص یہ کہے گا کہ غلام آزاد کا مکافی اور مماثل نہیں ہے وہ کسی دلالت کے بغیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے بغاوت کرنے والا شمار ہوگا۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی ہم سے عبدالباقی بن القانع نے روایت کی ہے۔ ان سے معاذ بن المتنیٰ نے، ان سے محمد بن کیثر نے ، ان سے سفیان نے اعمش سے، انہوں نے عبداللہ بن مرہ سے، اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مسلمان اس بات کی گواہی دے رہا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس کا خون تین میں سے کسی ایک صورت کے سوا حلال نہیں ہوگا۔ ایک تو یہ کہ وہ تارک اسلام ہوکر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوجائے، دوم یہ کہ وہ شادی شدہ زانی ہو اور سوم یہ کہ جان کے بدلے جان کا معاملہ ہو۔ اس ارشاد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد اور غلام کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اور جان کے بدلے جان کا قصاص واجب کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس حکم سے مطابقت رکھتا ہے جسے اللہ سبحانہ نے بنی اسرائیل پر اس کی فرضیت کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث دو باتوں پر مشتمل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جبو بات بنی اسرائیل پر فرض کردی گئی تھی اس کا حکم ہم پر بھی باقی ہے اور دوسری بات یہ کہ ایجاب قصاص کے سلسلے یہ حدیث مکتفی بالذات ہے اور جانوں کے لیے عام ہے۔ اس پر سنت کی جہت ہے وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی عبدالباقی بن قانع نے روایت کی ہے۔ ان سے موسیٰ بن زکریا التستری نے ان سے سہل بن عثمان العسکری ابو معاویہ نے اسماعیل بن مسلم سے، انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قتل عمد میں قصاص ہے، الا یہ کہ اس کا ولی معاف کر دے۔ - یہ ارشاد دو باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ اول یہ کہ ہر قتل عمد میں قصاص کا ایجاب ہے اور غلام کے قاتل پر بھی اس کا ایجاب ہے۔ دوم یہ کہ اس ارشاد کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال کے وجوب کی نفی کردی۔ اس لیے کہ اگر قصاص کے ساتھ تخییر کے طور پر مال بھی واجب ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف قصاص کے ذکر پر اقتصار نہ کرتے، بلکہ مال کا بھی ذکر کردیتے۔ اس پر نظر اور عقلی استدلال کی جہت سے بھی دلالت ہو رہی ہے۔ وہ یوں کہ غلام کا خون بھی محفوظ ہوتا ہے اور اسے وقت کا گزر جانا رفع نہیں کرتا جبکہ مقتول غلام قاتل کا بیٹا نہ ہو اور نہ ہی اس کی ملکیت ہو۔ اس بنا پر غلام اجنبی آزاد شخص کے مشابہ ہوگیا اور ان دونوں کے درمیان قصاص واجب ہوگیا جس طرح اسی علت کی بنا پر اس صورت میں غلام پر قصاص واجب ہوجاتا ہے جب وہ کسی آزاد کو قتل کر دے۔ اگر غلام کو کوئی شخص قتل کر دے تو مذکورہ علت کی بنا پر بھی قاتل پر قصاص واجب ہوجانا چاہیے۔ - اسے ایک اور جہت سے دیکھیے جو حضرات غلام کے قصاص میں آزاد شخص کو قتل کردینے کی بات تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اس کی وجہ وہ نقص اور کمی ہے جو غلامی کے سبب غلام کے اندر ہوتی ہے۔ حالانکہ جان کے اندر مساوات کا اعتبار نہیں ہوتا۔ مساوات کا اعتبار تو جان کے نقصان سے کم تر نقصانات کے اندر ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر دس آدمی مل کر ایک آدمی کو قتل کردیں تو اس کے قصاص میں ان سب کو قتل کردیا جائے گا اور مساوات کا اعتبار نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک صحیح الاعضاء شخص ککسی مفلوج اور مریض شخص کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے میں قتل کردیا جائے گا۔ اسی طرح عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کردیا جاتا ہے، حالانکہ عورت ناقص العقل اور ناقص الدین ہوتی ہے اور اس کی دیت مرد کی دیت سے کم ہوتی ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصاص کے ایجاب میں جان کے اندر مساوات کا اعتبار نہیں ہوتا۔ بلکہ ناقص کے قصاص میں کامل کو قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ حکم جان سے کم تر جرائم، یعنی زخموں کے اندر جاری نہیں ہوتا کیونکہ فقہا کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مفلوج ہاتھ کے قصاص میں تندرست ہاتھ قطع نہیں کیا جائے گا، البتہ بیمار جان کے قصاص میں تندرست جان لے لی جائے گی۔ لیث نے حکم سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی غلام کو عمداً قتل کرے گا تو قصاص لازم ہوجائے گا۔ - آقا کا غلام کو قتل کردینا - اگر آقا اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ان کی ایک مختصر تعداد نے کہا ہے کہ مقتول کے قصاص میں آقا کو قتل کردیا جائے گا، لیکن عامۃ الفقہاء کی رائے ہے کہ آقا کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ جو حضرت آقا کو قتل کردینے کے قائل ہیں انہوں نے اس سلسلے میں درج ذیل آیات سے اسی طریقے پر استدلال کیا ہے جس طریقے سے ہم نے آزاد کے بدلے آزاد کو قتل کردینے کے سلسلے میں کیا ہے۔ مثلاً یہ قول باری : کتب علیکم القصاصا فی القتلیٰ ، الحر ابحر تا آخری آیت۔ نیز : الفنس بالنفس۔ نیز فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : مسلمانوں کے خون باہم برابر ہیں۔ حضرت سمرہ (رض) بن جندب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اپنے غلام کو قتل کر دے گا ہم اسے قتل کردیں گے اور جو شخص اپنے غلام کی ناک کاٹ لے گا ہم اس کی ناک کاٹ دیں گے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ محولہ بالا آیات کے ظاہر میں ان حضرات کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ نے تو ان آیات میں مولیٰ کو قصاص لینے کا حق اپنے اس ارشاد کی رُو سے دیا ہے : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا ( اور جو شخص مظلومانہ طریقے سے قتل کردیا جائے اس کے ولی کو ہم نے اس کے قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے) غلام کا ولی اس کا آقا ہوتا ہے، غلام کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی کیونکہ غلام کسی چیز کا مالک ہوتا اور چیز اس کی ملکیت میں آتی ہے تو وہ اسے آقا کی ہوجاتی ہے۔ میراث کی جہت سے نہیں بلکہ ملکیت کی جہت سے ، جب آقا ہی اس کا ولی ہوتا ہے تو پھر اس کے لیے اپنی ذات سے قصاص لینے کا ثبوت نہیں ہوسکتا۔ اس کی حیثیت اس شخص جیسی نہیں ہوتی جو اپنے مورت کو قتل کر دے۔ ایسی صورت میں قاتل پر قصاص واجب ہوجاتا ہے اور وہ مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وارث کو جو مال حاصل ہوتا ہے وہ تو مورث کی ملکیت سے اس کی طرف منتقل ہوتا ہے اور قاتل وارث نہیں ہوتا اس لیے اس پر قصاص کا وجوب اس کی اپنی ذات کے اعتبار سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کے غیر کے اعتبار سے ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا کہ وہ چیز اس کے آقا کی طرف میراث میں منتقل ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر غلام کا بیٹا قتل کر دیاجائے تو اس کے قاتل پر غلام کے لیے قصاص کا حق ثابت نہیں ہوگا کیونکہ غلام کو کسی چیز کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح غلام کے غیر پر غلام کے لیے قصاص ثابت نہیں ہوگا اور جب غلام کے لیے اس کے بیٹے کا قصاص اس کے قاتل پر واجب ہوگا تو اس قصاص کا حق اس کے آقا کو حاصل ہوجائے گا۔ اسے حاصل نہیں ہوگا۔ اسی وجہ سے یہ بات جائز نہیں کہ اگر آقا اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کا قصاص اس کے آقا پر واجب کردیا جائے گا۔ - قرآن مجید کی اس آیت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ غلام کے لیے درج بالا امر کا ثبوت نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے : ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لا یقدر علی شی ( اللہ ایک مثال دیتا ہے ۔ ایک تو ہے غلام جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا) اس آیت کے ذریعے اللہ سبحانہ نے ہر چیز سے غلام کی ملکیت کی عمومی نفی کردی۔ اس لیے اب یہ بات جائز نہیں رہی کہ اس کا کسی پر کوئی حق ثابت ہوجائے اور جب یہ بات جائز نہیں رہی کہ غلام کے حق میں کوئی چیز ثابت ہوجائے اور عدم ثبوت کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود غیر کی ملکیت ہوتا ہے اور اس کے لیے جو چیز واجب ہوتی ہے اس کا حقدار بھی اس کا آقا ہوتا ہے، تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ آقا پر غلام کے لیے قصاص واجب نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے میں غلام آزاد کی طرح نہیں ہوسکتا کیونکہ آزاد کے حق میں کسی اور پر قصاص واجب ہوسکتا ہی اور پھر اس کی جہت سے قصاص لینے کا یہ حق اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اسی بنا پر اس کے ورثاء اپنے اپنے حصوں کی نسبت سے قصاص کے اس حق کے وارث قرار پاتے ہیں۔ جو وارث اپنے اس مورث کو قتل کرنے کی وجہ سے وراثت سے محروم رہتا ہے وہ اس قصاص کا بھی وارث نہیں ہوتا۔ قصاص لینے کا حق صرف ان لوگوں کو ملتا ہے جو مقتول کے وارث قرار پاتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ اس جہت سے غلام کا خون اس کے مال کی طرح نہیں ہے، اس لیے کہ آقا اسے قتل کرنے کا مالک نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے خلاف قتل کے اقرار کا مالک ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے آقا غلام کے خون کے سلسلے میں اجبی یعنی تیسرے آدمی کی طرح ہوگا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ آقا اس کے قتل کا مالک نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے خلاف قتل کے اقرار کا مالک ہوتا ہے تاہم وہ اس کا ولی ہوتا ہے اور اس کے قاتل سے قصاص لینے کا حق دار ہوتا ہے۔ بشرطیکہ قاتل کوئی تیسرا آدمی ہو۔ آقا کو مذکورہ حق اس بنا پر حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس کی گردن کا مالک ہوتا ہے۔ یہ حق اسے میراث کی جہت سے حاصل نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ آقا ہی غلام کے قاتل سے قصاص لینے کا حق رکھتا ہے غلام کے رشتہ دار اس حق کے مالک نہیں ہوتے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ غلام کے قصاص کا اسی طرح مالک ہوتا ہیجس طرح وہ اس کی گردن کا مالک ہوتا ہے۔ اس بنا پر اگر آقا ہی اپنے غلام کا قاتل ہو تو آقا کے سوا کسی اور کو آقا سے اس کا قصاص لینا جائز نہیں ہوگا۔ قول باری : فمن اعتدی علیکم فاعتدو علیہ کے سلسلے میں یہ بات کہنا جائز نہیں ہے کہ آیت کے خطاب کا رخ اس صورت میں آقا کی طرف ہوگا جب وہ اپنے غلام کو قتل کردینے کی بنا پر معتدی، یعنی زیادتی کرنے والا ہو۔ اس لیے کہ اگرچہ آقا اپنے غلام کو قتل کر کے اور اپنا مال ضائع کرن کی بناء پر اپنی ذات کے ساتھ زیادتی کرنے والا ہوگا، تاہم یہ بات درست نہیں ہوگی کہ آیت میں اس سے یہ خطاب ہو کہ وہ اپنی ذات سے قصاص وصول کرلے اور نہ ہی یہ بات درست ہوگی کہ مذکورہ خطاب آقا کے سوا کسی اور کو ہو کہ وہ آقا سے اس کے غلام کے قتل کا قصاص لے لے، کیونکہ ایسی صورت میں آقا اس دوسرے شخص کے ساتھ زیادتی کرنے والا نہیں ہوگا، جبکہ اللہ سبحانہ نے اس شخص کے لیے حق واجب کیا ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو، کسی اور کے لیے یہ حق واجب نہیں کیا۔ - اگر یہ کہا جائے کہ قتل کی اس صورت میں امام المسلمین آقا سے قصاص لے گا، جس طرح و اس شخص سے قصاص لیتا ہے جس نے کسی لاوارث شخص کو قتل کردیا ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام المسلمین تو صرف ایسا قصاص لے سکتا ہے جسے لینے کا حق تمام مسلمانوں کے لیے ثابت ہو، جب تمام مسلمان مقتول کی میراث کے مستحق قرر پائیں، جب کہ غلام کی کوئی میراث نہیں ہوتی کہ تمام مسلمانوں کے لیے اس کے قاتل سے قصاص لینے کا حق ثابت ہوجائے، چناچہ یہ بات جائز نہیں کہ مذکورہ حق امام المسلمین کے لیے ثابت ہوجائے۔ آپ نہیں یدکھتے کہ اگر غلام خطاً قتل ہوجائے تو اس صورت میں اس کا آقا ہی قاتل سے اس کی قیمت وصول کرنے کا مستحق ہوتا ہے۔ دیگر مسلمان یا امام السملمین اس کا مسحق نہیں ہوتا۔ نیز اگر لاوارث آزاد شخص خطاً قتل ہوجائے تو اس کی دیت بیت المال میں چلی جاتی ہے۔ یہی حکم قصاص کا بھی ہوگا کہ اگر قصاص آقا پر ثابت ہوجائے تو امام اس قصاص کا حقدار نہیں ہوگا بلکہ آقا ہی اس کا حقدار ہوگا اور چونکہ آقا کی ذات پر اس حق کا ثبوت محال ہوگا اس لیے یہ حق باطل ہوجائے گا۔ حضرت سمرہ (رض) بن جندب کی جس حدیث کا بحث کی ابتدا میں حوالہ دیا گیا ہے اس کی معارض حدیث بھی موجود ہے۔ اس کی روایت ابن قانع نے کی ہے، ان سے المقبری نے ، ان سے خالد بن یزید بن صفوان النوفلی نے، ان سے ضمرہ بن ربیعہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے ، نیز اوزاعی نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا، یعنی اپنے والد سے کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو عمداً قتل کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کوڑے لگائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا، نیز وظائف سے اس کا حصہ ساقط کردیا، لیکن اس سے غلام کے قتل کا قصاص نہیں لیا۔ - اس روایت نے حضرت سمرہ (رض) بن جندب کی روایت کردہ حدیث کے ظاہر سے ثابت ہونے والے حکم کی نفی کردی ہے جس سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو غلام کے قصاص میں اس کے قاتل آقا کو قتل کردینے کے قائل ہیں۔ یہ روایت مذکورہ حکم کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ ان آیات کے ظاہر، نیز ان کے معانی کے ساتھ مطابقت بھی رکھتی ہے جن کا ہم پہلے ذکرکر آئے ہیں۔ وہ معانی یہ ہیں کہ اللہ سبحانہ نے آقا کے لیے اپنے غلام کے قصاص کا ایجاب کردیا ہے نیز غلام کی ملکیت میں کسی چیز اور حق کے آنے کی نفی کردی ہے۔ چناچہ ارشاد ہے : ( اور خود کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا) اگر حضرت سمرہ (رض) کی روایت کردہ حدیث تنہا ہوتی اور اس کی معارض وہ روایت نہ ہوتی جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو بھی اس کی قطعیت کا جواز نہ ہوتا کیونکہ اس میں اس کے ظاہر کے سوا دوسرے معانی کا بھی احتمال ہے۔ وہ یہ کہ عین ممکن ہے مذکورہ آقا نے مقتول غلام کو پہلے آزاد کردیا ہو اور اس کے بعد اسے قتل کردیا ہو، یا اس کی ناک کان کاٹ لیے ہوں، یا یہ کہ اس نے عملی طور پر بہ قدم نہ اٹھایا ہو بس اسے اس کی دھمکی دی ہو اور یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گئی ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہو کہ : جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کردیں گے یعنی اپنے آزاد کردہ غلام کو جو کبھی اس کا غلام تھا۔ لغت اور عرف میں اس قسم کا اطلاق عام ہے۔ - ایک دفعہ حضرت بلال (رض) نے طلوع فجر سے پہلے ہی فجر کی اذان دے دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگو آگاہ رہو یہ عبد سو گیا تھا۔ حالانکہ حضرت بلال (رض) اس وقت عبد یعنی غلام نہیں تھے بلکہ آزاد تھے۔ ) اسی طرح حضرت علی (رض) کی خلافت کے زمانے میں ان کی مرر کردہ شریح نے وراثت کے ایک مسئلے میں غلط فیصلہ سنایا تھا : مسئلہ یہ تھا کہ ایک شخص وفات پا گیا تھا اور اس کے دو چچا زاد بھائی رہ گئے تھے۔ ان میں سے ایک بھائی اس کا اخیافی بھی تھا یعنی دونوں کی ماں ایک تھی۔ شریح نے میراث اخیافی بھائی کو دے دی۔ اس پر حضرت علی (رض) نے فرمایا : اس پھولے ہونٹ والے غلام کو میرے پاس لائو حضرت علی (رض) نے ان کے بارے میں غلام کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ان پر غلامی کا دور گزرا تھا۔ قول باری ہے : واتو الیتا می اموالھم ( اور یتیموں کو ان کے اموال دے دو ) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کبھی یتیم تھے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : یتیم بچی سے اس کی ذات کے بارے میں رائے لی جائے گی۔ یعنی وہ بالغ لڑکی جو کبھی یتیم رہی تھی۔ یہاں اس امر میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کردیں گے۔ کا جو مفہوم ہم نے بیان کیا ہے اس میں وہ شخص مراد ہو جو پہلے غلام تھا اور بعد میں آزاد ہوگیا ہو۔ ہماری اس وضاحت سے اس شخص کے وہم کا بھی ازالہ ہوگیا جو یہ سوچتا ہے کہ آقائے نعمت ( آزاد کرنے والے آقا) سے اس کے مولائے اسفل ( آزاد کردہ غلام) کے قتل کا قصاص نہیں لیا جائے گا جس طرح بات سے اس کے بیٹے کے قتل کا قصاص نہیں لیا جاتا، جبکہ عین ممکن تھا کہ کسی کو اس بات کا گمان ہوجائے کہ قصاص نہ لینے کا حکم دے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آقائے نعمت کا حق بات کے حق کی طرح قرار دیا ہے۔ اس کے خلاف دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : کوئی ولد اپنے والد کے احسانات کا بدلہ چکا نہیں سکتا الا یہ کہ وہ اپنے والد کو کسی کا غلام پائے اور پھر اسے خرید کر آزاد کر دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹے کی طرف سے اپنے بات کو آزاد کردینے کے عمل کو باپ کا حق ادا کرنے نیز اس کے احسانات کا بدلہ چکا دینے کے مساوی قرار دیا۔ - مردوں اور عورتوں کے درمیان قصاص - قول باری ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی نیز ومن قتل مطلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا۔ ان آیات کے ظواہر جس طرح جان کے سلسلے میں غلاموں اور آزادوں کے درمیان قصاص کے موجب ہیں اسی طرح جان کے سلسلے میں یہ مردوں اور عورتوں کے درمیان بھی قصاص کی موجب ہیں۔ اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد امام زفرادر قاضی ابن شبرمہ کا قول ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان صرف جان کا قصاص ہے۔ ابن شبرمہ سے ایک اور روایت کے مطابق ان کے درمیان جان سے کم تر جرم، یعنی زخموں کا بھی قصاص ہے۔ ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک ، سفیان ثوری، لیث بن سعد، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان جان اور جان لینے سے کم ترحرم، یعنی زخموں کا قصاص ہے۔ البتہ لیث کا قول ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے خلاف مذکورہ جرم کرے تو وہ اس کی دیت ادا کرے گا۔ اس سے بیوی کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد کو قتل کر دے تو قصاص میں اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کے مال سے نصف دیت وصول کرلی جائے گی۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب کوئی عورت کسی مرد کو زخمی کر دے۔ اگر مرد کی عورت کو قتل یا زخمی کر دے، تو اس پر قصاص لازم ہوجائے گا اور اس پر کوئی چیز لوٹائی نہیں جائے گی۔ سلف سے بھی اس بارے میں اختلاف رائے منقول ہے۔ قتادہ نے سعید بن المسیب سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک عورت کے قتل پر اس کے قاتلین سے جن کا تعلق صنعا ( یمن) سے تھا قصاص لیا تھا۔ عطاء، شعبی اور محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کردیا جائے گا۔ اس بارے میں حضرت علی (رض) سے مختلف روایتیں منقول ہیں ۔ لیث نے حکم سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو عمداً قتل کر دے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ عطاء ، شعبی اور حسن بصری سے مروی ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : مقتولہ کے ورثاء چاہیں تو قاتل مرد کو قتل کردیں اور مرد کی نصف دیت ادا کردیں اور اگر چاہیں تو مرد کی نصف دیت وصول کرلیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے مروی دونوں قول مرسل ہیں کیونکہ ان کے راویوں میں سے کسی نے بھی حضرت علی (رض) سے کسی چیز کا سماع نہیں کیا۔ اگر یہ دونوں روایتیں ثابت ہوجائیں تو باہم متعارض ہونے کی وجہ سے ساقط ہوجائیں گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس سلسلے میں حضرت علی (رض) سے کوئی روایت موجود نہیں ہے، البتہ حکم کی روایت جس میں قصاص کے ایجاب کی بات کہی گئی ہے، مال کی بات نہیں کی گئی، اولیٰ ہے۔ اس لیے کہ ظاہر کتاب سے اس کی موافقت ہے، قول باری ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی ، قصاص کی موجب تمام آیات میں دیت کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہ بات تو جائزہی نہیں کہ نص پر اس جیسی نص کے بغیر اضافہ کردیا جائے کیونکہ نص پر اضافہ اس نص کے نسخ کا موجب ہوتا ہے۔ - ابن قاتع نے روایت بیان کی، ان سے ابراہیم بن عبداللہ نے، ان سے محمد بن عبداللہ الانصاری نے، ان سے حمید نے انس بن مالک سے کہ الربیع بنت النضر نے ایک لونڈی کو طمانچہ مار کر اس کے سامنے کا دانت توڑ دیا۔ اس کے لواحقین کو جرمانہ کی ادائیگی کی پیشکش کی گئی۔ لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے۔ آپ نے انہییں قصاص لینے کا حکم دیا۔ یہ سن کر الربیع کے بھائی حضرت انس (رض) بن النضر حاضر ہوئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، کیا الربیع کا دانت توڑا جائے گا ؟ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر مبعوث کیا ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، اے انس، اللہ کی کتاب یعنی اس کا مقرر کردہ فرض قصاص ہے۔ پھر مذکورہ لونڈی کے لواحقین نے یہ معاملہ رفع دفع کر کے الربیع بنت النضر کو معاف کردیا۔ جب یہ خبر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے بندوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو اگر اللہ کے نام قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر دے۔ اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح کردیا کہ اللہ کی کتاب میں جو حکم ہے وہ قصاص کا حکم ہے مال کا حکم نہیں ہے، اس لیے قصاص کے ساتھ مال کا اثبات جائز نہیں ہوگا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔ وہ یہ کہ اگر مقتولی کی جان کا قصاص واجب نہ ہو تو پھر مال دینے کے ساتھ اس کا ایجاب جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں مال جان کا بد ہوجائے گا اور یہ بات درست نہیں ہے کہ مال کے بدلے کسی کی جان لے لی جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص اس پر رضا مند ہوجائے کہ اسے قتل کردیا جائے اور اس کے بدلے اس کے وارث کو مال دے دیا تو ایسا کرنا درست نہیں ہوگا۔ وضاحت سے یہ بات باطل ہوگئی کہ قصاص مال دینے پر موقوف ہوجاتا ہے۔ حسن بصری اور عثمان النبی کا مسلک ہے کہ عورت اگر قتل کا ارتکاب کرے تو قصاص میں اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کے مال سے نصف دیت وصول کرلی جائے گی۔ اس قول کی تردید ان آیات کے ظواہر سے ہوتی ہے جو قصاص کو واجب کرتی ہیں اور اس سے ایک ایسے حکم کا اضافہ ہوجاتا ہے جس کا ذکر ان آیات میں نہیں ہے۔ قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی کو قتل کردیا جس نے پازیب پہن رکھی تھی۔ یہودی کو پکڑ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص میں اسے قتل کرنے کا حکم دیا، زہری نے ابوبکر بن عمرو بن حزم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کردیا جائے گا۔ نیز حضرت عمر (رض) سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک عورت کے قصاص میں قاتلین کو پوری جماعت کو قتل کر ا دیا تھا اور اس سلسلے میں آپ کے ہم مرتبہ صحابہ کرام میں سیے کسی کی طرف سے بھی اختلاف رائے کا اظہار نہیں ہوا تھا اس جیسی بات اجماع کی صورت ہوتی ہے۔ عورت کے قصاص میں مرد کو مال کے بدل کے بغیر قتل کردیا جائے گا۔ اس پر وہ باتیں دلالت کرتی ہیں جن کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں، یعنی تندرست اور مریض عورتوں کے درمیان مساوات کا اعتبار ساقط ہوتا ہے۔ عاقل کو دیوانے کے قصاص میں اور مرد کو بچے ک قصاص میں قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ بات جانوں کے اندر مساوات کے اعتبار کے سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک ان جرائم کا تعلق ہے جو جان لینے کے جرم سے کم تر ہوں، یعنی مختلف قسم کے زخم تو ان میں مساوات کا اعتبار واجب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سب کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ مفلوج ہاتھ کے قصاص میں تندرست ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اصحاب نے جان لینے سے کم تر جرائم کے اندر مردوں اور چعورتوں کے درمیان نیز آزادوں اور غلاموں کے درمیان قصاص کو واجب نہیں کیا، اس لیے کہ جان سے کم تر اشیاء یعنی انسانی اعضاء آپس میں غیر مساوی ہوتے ہیں۔ - اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ نے مرد کے ہاتھ کے بدلے غلام کا ہاتھ، نیز عورت کا ہاتھ کیوں نہیں قطع کیا جس طرح تندرست ہاتھ کے بدلے مفولج ہاتھ قطع کردیتے ہیں ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا مذکورہ موقع پر قصاص کا سقوط نقص کی جہت سے نہیں ہوا، بلکہ ان اعضاء کے احکام میں اختلاف کی بناپر ہوا ہے۔ اور یہ صورت اس جیسی بن گئی ہے کہ مثلاً دائیں ہاتھ کے قصاص میں بایاں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ہمارے اصحاب نے جان لینے سے کم تر جرم میں عورتوں کے درمیان قصاص کو واجب کردیا کیونکہ طرفین کے اعضاء یکساں ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جان سے کم تر جرم میں غلاموں کے درمیان قصاص واجب نہیں کیا کیونکہ غلاموں میں طرفین ( مجرم اور جرم کی زد میں آنے والے) کے درمیان مساوات کا علم صرف قیمتیں لگا کر نیز ظن غالب سے کام لے کر ہی ہوسکتا ہے اس لیے قصاص واجب نہیں ہوا جس طرح کسی کا نصف بازو کاٹ ڈالنے والے مجرم کا ہاتھ نصف بازو سے نہیں کاٹا جاسکتا کیونکہ اس بارے میں علم تک رسائی کا ذریعہ اجتہاد ہے اس لیے قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک غلام کے اعضاء کا حکم ہر اعتبار سے اموال کے حکم میں ہوتا ہے اس لیے مجرم کے عاقلہ پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی، بلکہ مجرم کے مال میں جرمانہ کالزوم ہوگا لیکن جان کے اندر یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ قتل خطا میں دیت کالزوم عاقلہ پر ہوتا ہے اور اس میں کفارہ واجب ہوتا ہے اس طرح یہ صورت اموال کے خلاف کئے جانے والے جرائم سے مختلف ہوگئی۔ - کافر کے بدلے میں مومن کا قتل - امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد، امام زفر، ابن ابی لیلیٰ اور عثمان البتی کا قول ہے ۔ کہ ذمی کے قصاص میں مسلمان کا قتل کردیا جائے گا ۔ قاضی ابن مشبرمہ ، سفیان ثوری، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مسلمان نے ذمی کو دھوکے سے مار ڈالا ہو تو قصاص میں اسے قتل کردیا جائے گا ورنہ نہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم گزشتہ صفحات میں جن آیات کا ذکر کرتے آئے ہیں ان سب کا ظاہر ذمی کے قصاص میں مسلمان کے قتل کو واجب کرتا ہے کیونکہ کسی بھی آیت میں مسلمان اور ذمی کے درمیان اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ قول باری : کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ سب کے لیے عام ہے ۔ اسی طرح قول باری : الحر بالحر و العبد یا لعبد ولانثی بھی سب کے لیے عام ہے۔ آیت کے سیاق و ارشاد باری : فمن عفی الہ من اخیہ شی میں کوئی دلالت نہیں ہے جسے سے پتہ چلتا ہو کس آیت کا اول حصہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے اور اس میں کفار داخل نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں نسب کی جہت سے اخوت کا احتمال بھی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جن امور پر عموم کا لفظ مشتمل ہو ان میں سے بعض کا ایک مخصوص حکم کے ساتھ عطف جملے کے حکم کی تخصیص پر دلالت نہیں کرتا۔ جیسا کہ ہم آیت کے حکم پر بحث کی دوران ذکر کر آئے ہیں۔ اسی طرح قول باری : وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس تا آخر آیت ، کا عموم کافر کے قصاص میں مومت کو قتل کردینے کا مقتضی ہے۔ اس لیے کہ ہم سے پہلے انبیاء کی شریعت ہمارے حق میں ثابت ہوتی ہے جب تک اللہ سبحان، اس شریعت کو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی منسوخ نہ کر دے اگر مذکورہ شریعت منسوخ نہ ہو تو یہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت ہوجاتی ہے۔ ارشاد باری ہے : اولئک الذین ھدی اللہ فبھدا ھم اقتدہ ( یہ وہ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تم بھی ان کی ہدایت کی پیروی کرو) مذکورہ آیت یعنی : النفس بالنفس تا آخر آیت میں جو حکم مذکور ہے وہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت ہے، اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ حکم دلالت کرتا ہی جو آپ نے دانت کے قصاص کے سلسلے میں دیا تھا اور جس کا ذاکر حضرت انس (رض) کی روایت کردہ حدیث میں موجود ہے۔ یہ حدیث ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ جب حضرت انس بن النضر (رض) کی بہن الربیع نے ایک لونڈی کو طمانچہ مار کر اس کے سامنے کا دانت توڑ دیا اور بھائی نے کہا کہ میری بہن کا دانت نہ توڑا جائے گا۔ تو آپ نے ان سے فرمایا : ” اللہ کی کتاب یعنی اس کا مقرر کردہ فرض قصاص ہے۔ “ حالانکہ قرآن مجید میں ” دانت کا بدلہ دانت “ کا حکم مذکورہ آیت کے سوا کہیں اور نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم پر مذکورہ آیت کے موجب ( حرف جیم کے زبر کے ساتھ ) کی وضاحت فرما دی۔ اگر ہم سے پہلے انبیاء کی شریعت اپنے نفس ورود کے ساتھ ہم پر لازم نہ ہوتی تو بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مذکورہ آیت کے حکم کے موجب کا بیان ہی کافی ہوتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دو باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ مذکورہ آیت کا حکم ہم پر لازم ہے اور دوسری بات یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بتادیا کہ آپ کی طرف سے اس بارے میں خبر دینے سے پہلے ہی ظاہر کتاب نے ہم پر یہ حکم لازم کردیا تھا۔ - یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ سبحانہ نے اپنی کتاب میں دوسرے انبیاء کی شریعت کے جو احکام بیان فرمائے ہیں وہ ہم پر بھی ثابت ہیں، بشرطیکہ انہیں منسوخ نہ کردیا گیا ہو، اور جب ہماری مذکورہ بالا بات ثابت ہوگئی اور دوسری طرف آیت میں مسلمان اور کافر کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا، تو اب مسلمان اور کافر دونوں پر آیت کے حکم کا اجرا واجب ہوگیا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا ولیہ سلطا نارا ( اور جو شخص مظلومانہ طریقے سے قتل ہوجائے ہم نے اس کے ولی کو قصاص کے مطالبے کا حق دے دیا) اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آیت میں مذکورہ لفظ سلطان سے مراد قصاص ہے اور چونکہ اس میں مسلمان کی کافر سے تخصیص نہیں ہے اس لیے اس کا اطلاق دونوں پر ہوگا۔ سنت کی جہت سے اس پر اس حدیث سے دلالت ہوتی ہے جسے اوزاعی نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقعہ پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ،: لوگو، آگاہ رہو، جو شخص کسی کو قتل کر دے تو مقتول کا ولی دو باتوں میں سے ایک اختیار کرلے گا۔ یا تو وہ قصاص لے گا یا دیت وصول کرے گا۔- ابوسعید المقبری نے ابو شیح الکعبی سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ حضرت عثمان (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت عائشہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین میں سے کسی ایک صورت کے سوا کسی اور صورت میں ایک مسلمان کا خون حلال نہیں ہوگا۔ پہلی صورت یہ ہے کہ احصان کے بعد زنا ہو، دوسری یہ کہ ایمان کے بعد کفر ہو اور تیسری یہ کہ کسی کا ناحق قتل ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قتل عمد قصاص ہے۔ مذکورہ بالا روایتوں کا عموم ذمی کے قصاص میں مسلمانوں کو قتل کردینے کا مقتضی ہے۔ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے عبدالرحمن بن السلمانی نے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذمی کا قصاص مسلمان سے لیا تھا اور فرمایا تھا کہ : اپنی ذمہ داری پوری کرنے والوں میں اس کام کا مجھے سب سے زیادہ حق پہنچتا ہے۔ الطحاوی نے سلمان بن شعیب سے روایت بیان کی ہے۔ ان سے یحییٰ بن سلام نے محمد بن ابی حمید المدنی سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) سے ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کردینے کی روایت منقول ہے۔ اسی طرح ابن قاتع نے روایت بیان کی، ان سے علی بن الہیثم نے عثمان الفرازی سے، ان سے مسعود بن جویریہ نے ، ان سے عبداللہ بن خراش نے واسط سے، انہوں نے الحسن بن میومن سے، انہوں نے ابوالجنوب الاسدی سے کہ حیرہ کا ایک شخص حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور عرض کیا : امیر المومنین، ایک مسلمان نے میرے بیٹے کو قتل کردیا۔ میری چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں پھر گواہ پیش ہوئے۔- حضرت علی (رض) نے گواہوں کی چھان بین کر کے تسلی کرلی۔ پھر آپ نے قاتل مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اسے بٹھایا گیا اور مقتول کے باپ کو تلوار دی گئی۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اسے جبانہ کے مقام پر لے جائو اور وہاں مقتول کا باپ اسے قتل کر دے۔ لیکن اس نے تلوار کی ضرب لگانے میں کچھ تاخیر کی۔ اس پر قاتل کے رشتہ داروں نے اس سے کہا کہ تم دیت قبول کرلو، اس طرح تمہاری زندگی آسان سے گزر جائے گی اور ہم پر تمہارا یہ احسان رہے گا، چناچہ وہ رضا مند ہوگیا اور تلوار نیام میں کرلی اور پھر حضرت علی (رض) کے پاس آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان لوگوں نے تمہیں گالیاں دی ہوں اور دھمکیاں دے کر تمہیں ڈرایا ہو ؟ اس نے قسم کھا کر اس کا جواب نفی میں دیا اور کہا کہ : میں نے خود ہی دیت قبول کی ہے ۔ یہ سب کر حضرت علی (رض) نے فرمایا : تم ہی اس بارے میں بہتر جانتے ہو۔ پھر آپ نے لوگوں سے متوجہ ہو کر فرمایا : ہم نے انہیں جو دیا وہ اس لیے دیا تا کہ ہمارے خون ان کے خون کی طرح اور ہماری دیتیں ان کی دیتوں کی طرح ہوجائیں۔ - ابن قانع نے روایت بیان کی ہے، ان سے معاذ بن المثنیٰ نے، ان سے عمرو بن مرزوق نے، ان سے شعبہ نے عبدالملک بن میسرہ سے، انہوں نے النزال بن سیرہ سے کہ ایک مسلمان نے حیرہ کے ایک عیسائی کو قتل کردیا۔ اس کا بھائی حضرت عمر (رض) کے پاس آیا۔ حضرت عمر (رض) نے واقعات سن کر قاتل کو قتل کردینے کا مراسلہ جاری کردیا۔ مقتول کا بھائی قاتل کو قتل کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرنے لگا تو لوگوں نے اس سے کہا : جبیر، اپنے بھائی کے قاتل کو قتل کردو۔ اس کے جواب میں اس نے کہا : جب تک مجھے غصہ نہیں آئے گا اس وقت تک میں اس پر تلوار نہیں اٹھائوں گا۔ اس دوران میں حضرت عمر (رض) نے لکھ بھیجا کہ قاتل کو قتل نہ کیا جائے۔ بلکہ دیت وصول کرلی جائے۔ یہی روایت ایک اور سند سے بھی مروی ہے۔ جس میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عمر (رض) کا مراسلہ پہنچنے سے پہلے ہی قاتل قتل ہوچکا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے دیت کی بات یہ سن کر کہی تھی کہ قتال ایک اچھا شہسوار ہے ۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے ابن ادریس سے، انہوں نے لیث سے، انہوں نے المحکم سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) اور حضر عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ دونوں حضرات نے فرمایا اگر کوئی مسلمان کسی یہودی یا نصرانی کو قتل کر دے تو قصاص میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ حمید الطویل نے میمون سے اور انہوں نے مہران سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حکم جاری کیا کہ یہودی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کردیا جائے۔- چناچہ مسلمان کو قتل کردیا گیا۔ مذکورہ بالا تینوں حضرت سربرآوردہ صحابہ کرام میں شمار ہوتے ہیں اور ان سے جو بات منقول ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کردیا جائے گا۔ حضرت عمر (رض) بن عبدالعزیز نے اپنے زمانہ خلافت میں اسی پر عمل کیا تھا اور ہمیں نہیں معلوم کہ مذکورہ بالا حضرات کے پائے کے کسی فرد کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی ہو۔ ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل نہ کرنے کے قائلیں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس مییں ارشاد ہے کہ کوئی مسلمان کسی کافر کے قصاص میں اور نہ کوئی عہد والا اپنے عہد کے اندر قتل کیا جائے گا۔ یہ حدیث قیس بن عبادہ، حارثہ بن قدامہ اور ابو جحیفہ نے روایت کی ہے۔ حضرت علی (رض) سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس قرآن کے سوا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی عہدنامہ موجود ہے ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا : میرے پاس اس خط کے سوا اور کوئی عہدنامہ نہیں ہے جو میری تلوار کی نیام میں رکھا ہوا ہے، اس میں تحریر ہے کہ تمام مسلمانوں کے خون باہم مساوی ہیں، تمام مسلمان اپنے غیروں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں اور کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل نہ کیا جائے۔ - عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا، یعنی اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا : کوئی مومن کسی کافر کے بدلے میں اور نہ کوئی عہد والا اپنے عہد کے اندر قتل کیا جائے۔ نیز عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، ان سے ادریس بن عبدالکریم الحدار نے، ان سے محمد بن الصباح نے، ان سے سلیمان بن الحکم نے، ان سے القاسم بن الولید نے سنان بن المحارث سے، انہوں نے طلحہ بن مطرف سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی مومن کسی کافر کے بدلے میں اور نہ کوئی عہد والا اپنے عہد کے اندر قتل کیا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا احادیث کی کئی تو جیہات ہیں اور یہ تمام توجیہات ان آیات اور روایات کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں جن کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ ایک توجیہ تو یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ بات فتح مکہ کے دن اپن خطبے میں فرمائی تھی۔ اس وقت ایک واقعہ پیش آیا تھا وہ یہ کہ بنو خزاعہ کے ایک شخص نے زمانہ جاہلیت میں دشمنی کی بنا پر بنو ہذیل کے ایک شخص کو قتل کردیا تھا۔ اس موقعے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگو، آگاہ رہو، زمانہ جاہلیت کا ہر خون اب میرے ان دونوں قدموں تلے رکھ دیا گیا ہے، کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں اور نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل کیا جائے۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ تھی کہ اس کافرکیبدلے میں جسے مسلمان نے زمانہ جاہلیت میں قتل کردیا تھا مسلمان کو قتل نہ کیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول : زمانہ جاہلیت کا ہر خون اب میرے ان دونوں قدموں تلے رکھ دیا گیا ہے، کی تفسیر تھا، کیونکہ ایک حدیث کے مطابق اس کا ذکر ایک ہی خطاب میں ہوا تھا۔ - اہل مغازی نے بیان کیا ہے کہ عہد ذمہ، ذمیوں کے ساتھ عہد کا وقوع فتح مکہ کے بعد ہوا تھا اور اس سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان مختلف مدتوں والے کئی عہود وجود میں آ چکے تھے۔ یہ عہود اس مضمون کے نہیں تھے کہ مشرکین اسلام کی ذمہ داری اور اس کے حکم میں داخل ہیں، اس بنا پر فتح مکہ کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : کوئی مومن کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ کا رُخ ان کافروں کی طرف تھا جن کے ساتھ معاہدے ہوئے تھے ، کیونکہ اس وقت وہاں کوئی ذمی نہیں تھا جس کی طرف اس ارشاد کا رخ قرار دیا جاسکے، اس پر آپ کا ارشاد : اور کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل نہ کیا جائے ، دلالت کرتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے : فاتموا الیھم عھدھ الی مدتھم ( ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو) نیز فرمایا : فسمیحوا فی الارض اربعۃ اشھر ( پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو) اس وقت مشرکین کی دو قسمیں تھیں۔ ایک قسم تو وہ تھی جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ برسرپیکار تھی نیز وہ لوگ جن کے ساتھ آپ کا کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کیساتھ مخصوص مدت کے لیے معاہدہ تھا۔ اہل ذمہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس لیے آپ کا درج بالا کلام ان دونوں قسموں کے مشرکین کے بارے میں تھا۔ اس کلام میں ایسے لوگ داخل نہیں تھے جن کا تعلق مذکورہ بالا دونوں قسموں میں سے کسی ایک کے ساتھ نہیں تھا۔ زیر بحث حدیث ک مضمون میں وہ بات موجود ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نفئی قصاص کے سلسلے میں مذکورہ حکم معاہد حربی تک محدود ہے اور اس میں ذمی شامل نہیں ہیں۔ اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ حکم پر اپنے قول : اور کوئی عہد والا اپنے عہد کے اندر قتل نہ کیا جائے، کو عطف کیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول اگر ما قبل سے علیحدہ کردیا جائے تو ایجاب فائدہ کے اندر وہ بنفسہ مستقل نہیں ہوگا۔- بلکہ اسے ایک مخدوف لفظ کی ضرورت ہوگی اور یہ مخدوف لفظ وہی ہے جس کا پہلے ذکر گزر چکا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جس کافر کے بدلے میں عہد والے مستامن کو قتل نہیں کیا جائے گا وہ حربی کافر ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ کی مراد حربی کافر ہے۔ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : ولا ذوعھد فی عھدہ ( ار نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر) میں دو وجوہ کی بنا پر ” یقتل “ کا لفظ مخدوف ماننا درست نہیں ہے، یعنی یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مذکورہ عبارت اس طرح ہے : ولا یقتل ذو عھد فی عھدہ ( اور نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل کیا جائے گا) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ خطاب کی ابتدا میں جس قتل کا ذکر ہوا ہے وہ قصاص کے تحت وقوع پذیر ہونے والا قتل ہے۔ دوسرے فقرے میں بھی بعینہ اسی قتل کو مخدوف ہونا چاہیے اس کے نتیجے میں ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم دوسرے فقرے میں مطلق قتل کو مخدوف مانیں کیونکہ خطاب میں کسی مطلق قتل کا پہلے ذکر نہیں ہوا بلکہ قصاص کے تحت وقوع پذیر ہونے والے قتل کا ذکر ہے، اس لیے ضروری ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے دوسرے فقرے میں اسی قتل کی نفی تسلیم کی جائے۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے الفاظ کچھ اس طرح ہوں گے : ولا یقتل مومن بکافر ولا یقتل زو عھد فی عھد بالکافر المذکو ربدیا ( کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر مذکورہ کافر کے بدلے میں قتل کیا جائے) اگر مطلق قتل کو مخدوف مان لیں تو ہم ایسے مخدوف کا اثبات کرنے والے قرار پائیں گے جس کا ذکر خطاب کے اندر نہیں ہے اور ایسی بات جائز نہیں ہوسکتی۔ جب ہماری مذکورہ بات ثابت ہوگئی اور دوسری جس کافر کے بدلے میں عہد والے کو قتل نہ کیا جائے وہ حربی کافر ہے تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : کسی مومن کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔ اس مفہوم کا حامل ہوگا کہ : کسی مومن کو کی حربی کا فر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔ اور اس کے نتجیے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مومن کو ذمی کے بدلے میں قتل کرنے کی نفی ثابت نہیں ہوگی۔ - دوسری وجہ یہ ہے کہ عہد کا ذکر عہد والے کے قتل کی ممانعت کرتا ہے جس تک وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ اگر ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : ” اور نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر “ کو اس امر پر محمول کریں کہ :” کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل نہیں کیا جائے گا “۔ تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کو فائدے سے خالی قرار دیں گے، حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کا حکم یہ ہے کہ اسے فائدے کے اعتبار سے اس کے مقتضا پر محمول کیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کو نہ تو بےمفہوم قرار دینا جائز ہے اور نہ ہی اس کے حکم کا اسقاط جائز ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ابو حجیفہ نے حضرت علی (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس حدیث کی روایت کی ہے اس میں مذکور ہے، کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس میں عہد کا ذکر نہیں ہے۔ یہ ارشاد تمام کافروں کے بدلے میں مومن کو قتل کرنے کی نفی کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واحد حدیث ہے جس کی نسبت او حجیفہ نے حضرت علی (رض) کے پاس موجو حجیفہ ، یعنی مکتوب کی طرف کی ہے۔ اسی طرح قیس بن عباد کی روایت ہے۔ دراصل بعض راویوں نے اس میں عہد کا ذکر حذف کردیا ہے۔- جہاں تک اصل حدیث کا تعلق ہے وہ ایک ہی ہے۔ اس کے باوجود اگر روایت کے اندر یہ دلیل نہ بھی ہوتی کہ یہ ایک حدیث ہے، تو بھی مذکورہ دونوں حدیثوں کو اس پر محمول کرنا واجب ہوتا کہ ان کا ورود ایک ساتھ ہوا ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ثابت نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات دو وقتوں میں بیان کی ہے۔ یعنی ایک دفعہ مطلق صورت میں عہد والے کے ذکر کے بغیر اور دوسری دفعہ عہد والے کے ذکر کے ساتھ۔ امام شافعی نے اس امر میں موافقت کی ہے کہ اگر ایک ذمی دوسرے ذمی کو قتل کر دے اور پھر مسلمان ہوجائے تو اس سے قصاص ساقت نہیں ہوگا۔ اگر اسلام ابتداء میں قصاص سے مانع ہوتا تو وہ اس صورت میں بھی مانع ہوتا جب قصاص کے وجوب کے بعد اور قصاص لینے سے پہلے طاری ہوجاتا، یعنی قاتل مسلمان ہوجاتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو باپ پر اس کا قصاص واجب نہیں ہوتا ہے۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب وہ غیر سے قصاص کا وارث ہوجائے، یعنی وہ اپے باپ کو قصاص میں قتل نہیں کرسکتا۔ اس بات نے قصاص لینے سے اسی طرح روک دیا جس طرح اس نے ابتدا میں قصاص کے وجوب کو روک دیا تھا۔ اسی طرح اگر وہ مرتد ہو کر قتل ہوجاتا تو بھی قصاص ساقط ہوجاتا۔ اس طرح قصاص کے سلسلے میں ابتدا اور بقا کا حکم یکساں ہوگیا۔ اگر ابتدا ہی میں قتل کا حکم واجب نہ ہوتا تو قتل کرنے کے بعد مسلمان ہوجانے پر بھی یہ حکم واجب نہ ہوتا۔ - قصاص کے ایجاب میں انسانوں کی زندگی کی بقاء کا مفہوم مضمر ہے جس کا ارادہ اللہ سبحانہ نے اس قول سے کیا ہے : ولکم فی القصاص حیوۃ اور یہ بات ذمی کے اندر بھی موجود ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عہد ذمہ کے ذریعے جب ذمی کا خون محفوظ کر کے اس کی بقا کا ارادہ کرلیا تو پھر ضروری ہوگیا کہ یہ بات اس کے اور مسلمان کے درمیان قصاص کی موجب بن جائے جس طرح یہی بات اس وقت قصاص کی موجب بن جاتی ہے جس ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر دے۔ اگر کوئی کہے کہ مذکورہ بالا دلیل سے لازم آتا ہے کہ ایک حربی امام طلب کر کے دارالاسلام میں آیا ہو اور اسے کوئی مسلمان قتل کر دے تو قاتل کو قصاص میں قتل کردیا جائے، کیونکہ مذکورہ مستامن حربی کا خون بھی محفوظ ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ بلکہ مذکور شخص کا خون مباح ہوتا ہے۔ البتہ یہ اباحت فوری نہیں ہوتی۔ بلکہ موجل ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے شخص کو ہم دارالاسلام میں رہنے نہیں دیتے ، بلکہ اسے اس کے ملک میں پہنچا دیتے ہیں۔ تاجیل اس کے خون کی اباحت کا حکم اس سے زائل نہیں کرتی جس طر ثمن مئوجل میں تاجیل اسے واجب ہونے سے نہیں نکالتی۔ جو لوگ ذمی کے قصاص میں مسلمان کے قتل کے قائل نہیں ہیں انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ : مسلمانوں کے خون باہم مساوی ہوتے ہیں ۔ یہ بات کافر کے خون کو مسلمان کے خون کے مساوی قرر دینے میں مانع ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ محولہ بالا حدیث میں مذکورہ حضرات کے دعوے پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد کہ : مسلمانوں کے خون باہم یکساں ہوتے ہیں۔ غیر مسلموں کے خون کے ساتھ یکسانیت کی نفی نہیں کرتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کا فائدہ بالکل واضح ہے ، وہ یہ کہ آزاد او غلام، شریف اور کمینے، تندرست اور بیمار کے درمیان خون کے اعتبار سے مساوات اور یکسانیت کا ایجاب کردیا گیا ہے۔ مذکورہ صورتیں زیر بحث حدیث کے فوائد اور اس کے احکام ہیں۔ اس حدیث کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مرد اور عورت کے مابین قصاص کے ایجاب، نیز ان کے خون کی باہمی مساوات کا حکم بھی اس سے مستفاد ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث کے ذریعے عورت کے اولیاء سے کسی چیز کی وصولی کی نفی ہوتی ہے، جب یہ اولیاء مقتولہ کے قصاص میں قاتل کو قتل کردیں۔ اسی طرح جب عورت قاتلہ ہو تو قصاص میں اسے قتل کرنے کے ساتھ اس کے مال میں سے نصف دیت کی وصولی کی بھی اس حدیث سے نفی ہوتی ہے۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : مسلمانوں کے خون باہم برابر ہیں۔ - مذکورہ بالا معانی کا فائدہ دیتا ہے تو پھر یہ کہنا درست ہوگا کہ اس میں مذکورہ حکم ان لوگوں تک محدود ہے جن کا ذکر اس ارشاد میں ہوا ہے اور یہ بات مسلمانوں اور غیر مسلموں، یعنی ذمیوں کے درمیان خون کی باہمی یکسانیت کی نفی نہیں کرے گی۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ حدیث کافروں کے خون کی باہمی یکسانیت کی نفی نہیں کرے گی۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ حدیث کافروں کے خون کی باہمی یکسانیت میں مانع نہیں ہوتی جب یہ کافر ہمارے ذمی ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کا کوئی آدمی اگر ان کے کسی آدمی کو قتل کر دے تو اس سے قصاص لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مذکورہ حدیث مسلمانوں اور اہل ذمہ کے خون کی باہمی یکسانیت میں مانع نہیں ہے۔ ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کردیا جائے گا، اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر مسلمان کسی ذمی کی چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ مسلمان سے اس کے خون کا قصاص بھی لیا جائے کیونکہ ذمی کے خون کی حرمت اس کے مال کی حرمت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر غلام اپنے آقا کا مال چرالے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا، لیکن اگر وہ اپنے آقا کو قتل کر دے تو اسے قتل کردیا جاتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک اس پر سب کا اتفاق ہے کہ متامن حربی کے قتل کے بدلے میں مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ذمی کے قتل کے بدلے میں بھی اسے قتل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تحریم قتل کے حکم میں مستامن حربی اور ذمی دونوں یکساں ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے دونوں کے مابین فرق کے وجوہ گزشتہ سطور میں بیان کردی ہیں۔ نیز امام شافعی نے جس اجماع کا حوالہ دیا ہے وہ اس طرح نہیں ہے جس طرح انہوں نے سوچا ہے۔ بشر بن ولید نے امام ابو یوسف سے روایت بیان کی ہے کہ مستامن حربی کے قتل کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا جائے گا۔ - امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مسلمان کسی ذمی کو دھو کے سے مار ڈالے تو قاتل کو قتل کردیا جائے گا۔ دراصل یہ دونوں حضرات اسے حد سمجھتے ہیں، قصاص نہیں سمجھتے۔ حالانکہ جن آیات میں قتل کا ذکر ہوا ہے ان میں دھوکے سے قتل کی صورت اور دیگر صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اسی طرح وہ حدیثیں بھی ہیں جن کا حوالہ ہم نے گزشتہ اوراق میں دیا ہے۔ ان سب کا عموم قصاص کے تحت قتل کو واجب کرتا ہے، حد کے تحت یہ سزا واجب نہیں کرتا۔ اس بنا پر جو شخص مذکورہ بالا آیات و سنن کے دلائل کے دائرے سے کسی دلالت کے بغیر نکل جائے گا اس کا مسلک مرجوح ہوگا اور استدلال کے میدان میں اس کی بات مات کھاجائے گی۔ - باپ کے ہاتھوں بیٹے کا قتل - اس مسئلے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ عامۃ الفقہاء کا قول ہے کہ باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس پر دیت لازم ہوگی جس کی ادائیگی اس کے مال سے کی جائے گی ہمارے اصحاب، اوزاعی اور امام شافعی کا یہی قول ہے ۔ ان حضرات نے اس مسئلے میں باپ اور دادا کے درمیان یکسانیت رکھی ہے حسن بن صالح بن حی کا قول ہے کہ دادا کو اپنے پوتے کے قتل کے قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ وہ پوتے کے حق میں دادا کی گواہی کو جائز قرار دیتے تھے، لیکن بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی کو درست تسلیم نہیں کرتے تھے۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو عمداً قتل کر دے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ بیٹے کے قصاص میں باپ کو قتل کردیا جائے گا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ اگر باپ اپن بیٹے کو ذبح کر ڈالے تو اسے قصاص میں قتل کردیا جائے گا اور اگر تلوار مار کر مار ڈالے تو قتل نہیں کیا جائے گا۔ جو حضرت اس مسئلے میں باپ کے قتل کی نفی کرتے ہیں ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس کی روایت عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے ، انہوں نے عمرو کے دادا سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کی ہے انہوں نے فرمایا : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کسی باپ کو اس کے بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ حدیث مشہور و مستفیض ہے۔ نیز حضرت عمر (رض) نے صحابہ کرام کی موجودگی میں اس کے مطابق فیصلہ سنایا تھا اور کسی نے بھی آپ کے اس فیصلے سے اختلاف نہیں کیا تھا۔ اس طرح یہ حدیث حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ کے ہم پلہ ہے۔ نیز حکم کے لزوم میں اسی جیسی دیگر حدیثوں کی طرح ہے۔ اس حدیث کا مقام مستفیض اور متواتر حدیث جیسا ہے۔ عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن ہاشم بن الحسین نے، انہیں عبداللہ بن ستان الزروری نے ، انہیں ابراہیم بن رستم نے حماد بن سلمہ سے ، انہوں نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کہ : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ باپ سے اس کے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ عبدالباقی ہی نے روایت بیان کی اور سے بشر بن موسیٰ نے ، ان سے خلاد بن یحییٰ نے ، اس قیس نے اسماعیل بن مسلم سے، انہوں عمرو بن دینار سے ، انہوں ن طائوس سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اور تمہارا مال سب تمہارے باپ کا ہے۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی جان کی نسبت اس کے باپ کی طرف اسی طرح کردی جس طرح اس کے مال کی نسبت اس کی طرف کی تھی۔ اس نسبت کا علی الاطلاق ہونا قصاص کی نفی کرتا ہے ۔ جس طرح آقا سے غلام کے قصاص کی نفی اس بنا پر ہوتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی الاطلاق غلام کی ذات کی نسبت آقا کی طرف ایسے الفاظ میں کی تھی جو ظاہراًٰ ملکیت کے علی الاطلاق ہونے کے ذریعے ہمارے استدلال کو ساقط نیہں کرتی۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک شخص کی پاکیزہ ترین خوراک اس کی اپنی کمائی ہے اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری اولاد تمہاری کمائی ہے اس لیے تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھائو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹے کو باپ کی کمائی قرار دیا جس طرح اس کا غلام اس کی کمائی ہے۔ اس لیے قصاص کے سقوط کے سلسلے میں بیٹے اور غلام کے درمیان مشابہت پیدا ہوگئی۔ نیز اگر باپ اپنے بیٹے کے غلام کو قتل کردے تو اسے اس کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس کی کمائی قرار دیا ہے۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب کوئی شخص خود اپنے بیٹے کو قتل کر دے۔ ارشاد باری ہے : ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن و فصالہ فی عا مین ان اشکرلی ولوالدیک، الی المصیر، وان جاھداک علی ان تشرک ( اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کردی۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوڑنا ہے کہ تو میری اور اپنے والدین کی شکر گزاری کیا کر، میری ہی طرف واپسی ہے۔ اور اگر دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے) تا آخر آیت۔ اللہ سبحانہ نے کافر والدین کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر کرنے اور ان کا شکر گزار بننے کا حکم دیا، چناچہ ارشاد ہے : ان اشکرلی ولوالدیک اور ان کی شکر گزاری کو اپنی شکر گزاری کے ساتھ مقرون کردیا۔ یہ بات اس صورت میں باپ کے قتل کی نفی کرتی ہے جب وہ اپنے بیٹے کے کسی ولی اور سرپرست کو قتل کر دے۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب وہ اپنے بیٹے کو قتل کر دے، اس لیے کہ جو شخص بیٹے کو قتل کی وج سے قصاص لینے کا حق دار ہوگا اس کے لیے یہ حق مقتول بیٹے کی جہت سے ثابت ہوگا، لیکن اگر مذکورہ مقتول اس حق کا حقدار نہیں ہوگا تو مذکورہ شخص بیٹے کی جہت سے اس قصاص کا حقدار نہیں ہوگا۔ - اسی طرح یہ قول باری ہے : اما یبلغن عندک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لھما ان ولا تنھرھما وقل تھما قولا کریما۔ واخفض لھما جناح الدل من الرحمۃ وقل رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا ( اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کرو کہ پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں ن رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا) اس آیت میں اللہ سبحانہ ، نے کسی ایک حالت کی تخصیص نہیں کی، بلکہ انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا ایک مطلق اور عام حکم دیا۔ اس لیے باپ پر بیٹے کے قصاص کا حق ثابت کرنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ بیٹے کے قصاص میں باپ کو قتل کردینے کا عمل ان تمام امور کی ضد ثابت ہوگا جن اللہ سبحانہ، نے باپ کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں دیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنظلہ بن ابی عامر راہب کو اپنے باپ کے قتل سے روک دیا تھا، حالانکہ وہ مشرک تھا۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ برسرپیکار تھا اور جنگ احد میں مشرکین قریش کے ساتھ مل کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف صف آرا ہوا تھا۔ اگر بیٹے کے لیے اپنے باپ کو کسی حالت میں قتل کردینا جائز ہوتا تو پھر اس کام کے لیے وہ حالت اولیٰ ہوتی جس میں ایک باپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف صف آرا تھا : نیز وہ مشرک بھی تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف قتال کرنے کی حالت سے بڑھ کر قابل مذمت، سزا اور قتل کی مستحق کسی اور شخص کی حالت نہیں ہوسکتی۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حالت میں بھی بیٹے کو باپ کے قتل سے روک دیا تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ بیٹے کو کسی بھی حالت میں اپنے باپ کو قتل کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو قذف کرے، یعنی اس پر زنا کی تہمت لگائے تو اسے حد قذف نہیں لگائی جائے گی اور اگر باپ اپنے بیٹے کا ہاتھ کاٹ ڈالے تو قصاص میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح اگر بیٹے کا باپ پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی کی خاطر باپ کو قید میں نہیں ڈالا جائے گا۔ اس لیے کہ یہ تمام باتیں ان آیات کے مقتضا اور موجب کی ضد ہیں جن کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ - بعض فقہا بیٹے کے مال کو حقیقت میں باپ کا مال قرار دیتے ہیں جس طرح غلام کا مال آقا کا مال ہوتا ہے اور اگر باپ اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ لے لے تو اسے مذکورہ مال واپس کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ اگر باپ سے قصاص سے سقوط کے سلسلے میں کوئی اور دلیل نہ ہو صرف فقہا کا وہ اختلاف ہوتا جو بیٹے کے مال کے سلسلے میں ہے جس کا ذکرہم نے اوپر کیا ہے تو یہی بات باپ سے بیٹے کا قصاص لینے کے بارے میں شبہ پیدا کردینے کے لیے کافی ہوتی۔ ہم نے جن دلائل کا اوپر ذکر کیا ہے وہ قصاص کی آیات کی تخصیص کرتے ہیں اور اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ قصاص کی آیات میں باپ مراد نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ - قتل میں دو آدمیوں کی شرکت - ارشاد باری ہے : ومن یقتل مومنا متعمدا فجزائُہ جھنم خالدا فیھا ( اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کرے گا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا) نیز ارشاد ہے ومن قتل مومنا خطا ف تحریر رقبۃ مومنۃ ( اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کر دے) اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مذکورہ بالا وعید اس شخص کو بھی لاحق ہوگی جو قتل کے فعل میں دوسرے کے ساتھ شریک ہو، اگر دس افراد ایک شخص کو عمداً قتل کردیں تو ان میں سے ہر فرد اس وعید میں داخل ہوگا۔ اسی طرح اگر دس افراد ایک شخص کو غلطی سے قتل کردیں تو ان میں سے ہر فرد قتل کے حکم میں داخل ہوگا اور ہر ایک پر وہی کفارہ لازم ہوگا جو قتل کا ارتکاب کرنے والے تنہا فرد پر لازم ہوتا ہے، نیز اس امر میں بھی کوی اختلاف نہیں ہے کہ جان لینے سے کم تر جرم میں کفارہ لازم نہیں ہوتا۔ قول باری ہے : من اجل ذلک لتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔ ( اسی وج سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا) اس لیے اگر ایک گروہ مل کر کسی شخص کو قتل کر دے تو ان میں سے ہر ایک شخص قاتل کے حکم میں ہوگا اور اس کے نتیجے میں اس ایک مقتول کے قصاص میں گروہ کے تمام افراد کو قتل کردیا جائے گا۔ جب بات اس طرح ہے کہ اگر دوافراد مل کر ایک شخص کو قتل کردیں اور ان میں سے ایک فرد اسے عمداً قتل کرے اور دوسرا غلطی سے یا ان میں سے ایک دیوانہ ہو اور دوسرا عاقل ، تو اس صورت میں چونکہ یہ بات معلوم ہے کہ غلطی سے قتل کرنے والا بھی پوری جان لینے والے کے حکم میں ہوگا، اس یے سب کے حق میں خطا کا حکم ثابت ہوجائے گا اور عمد کا حکم منتفی ہوجائے گا کیونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ دونوں کے لیے عمد کا حکم ثابت کردیا جائے یا دونوں کے لیے خطا کے حکم کا ثبوت ہوجائے۔ یہی صورت حال دیوانے اور عاقل نیز بچے اور بالغ کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر سب کے لیے قتل خطا کا حکم ثابت ہوجائے تو پوری دیت واجب ہوگی اور اگر سب کے لیے قتل عمد کا حکم ثابت ہوجائے تو قصاص واجب ہوجائے گا۔ فقہا کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جان کے سلسلے میں پوری دیت کے وجوب اور اس کے ساتھ قصاص کے وجوب میں دونوں کی وصولی کے اعتبار سے امتناع ہے۔ اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ جب ایک سے زائد افراد کی شراکت کے ساتھ لی جانے والی جان کے بدلے میں دیت کا وجوب ہوجائے، تو اس کے ساتھ ان میں سے کسی پر قصاص کا ثبوت نہ ہو۔ اس لیے کہ قصاص کا وجوب تمام قاتلین پر قتل عمد کے حکم کے ثبوت کا موجب ہوگا اور سب پر قتل عمد کے حکم کا ثبوت مذکورہ جان کے بدلے دیت کے وجوب کی نفی کر دے گا۔ - (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ کریں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٨) دانستہ کسی کو قتل کردینے میں تم پر قصاص لازم ٹھہرایا گیا ہے یہ آیت کریمہ عرب کے دو قبیلوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت النفس بالنفس “ والی آیت سے منسوخ ہے اور جو اپنے مقتول بھائی کے حق قتل کو چھوڑ دے یعنی خون معاف کردے اور دیت لینے پر رضامند ہوجائے تو دیت کا مطالبہ کرنے والے کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر دیت پوری ہے تو نیکی اور بھلائی کے ساتھ تین سال میں اس سے دیت کا مطالبہ کرے اور اگر دیت آدھی ہے تو دو سال میں اور اگر دیت ایک تہائی ہے تو ایک سال میں مطالبہ کرے اور قاتل کو اس چیز کا حکم ہے کہ وہ ورثاء مقتول کو ان کا حق ادا کر دے کہ جس میں انہیں کسی قسم کا مطالبہ نہ کرنا پڑے اور نہ ہی پریشانی اٹھانی پڑے۔- اور یہ قاتل کے قتل کردینے کی معافی اور اس کے حکم میں کمی ہے اور جو دیت لینے کے بعد زیادتی کرے یعنی دیت بھی لے لے اور اسے بدلہ اور قصاص میں مار یعنی قتل بھی کردے تو پھر ایسے آدمی کو قتل کردیا جائے گا اور اسے معاف نہیں کیا جائے گا اور نہ اس سے دیت لی جائے گی۔- شان نزول : (آیت) ” یا ایھا الذین امنوا کتب (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رض) سے روایت ہے کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں دو قبیلوں میں معمولی سی بات پر آپس میں لڑائی ہوئی جس میں لوگ قتل اور زخمی بھی ہوئے حتی کہ غلام اور عورتیں تک قتل ہوگئیں تو بعض نے کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، یہاں تک کہ سب مشرف بااسلام ہوگئے تو ہر ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے اپنے مقتول رشتہ داروں اور مال کا تقاضہ کرتا تھا۔- چناچہ دونوں قبیلوں نے قسمیں کھائیں پھر اس چیز پر رضا مند ہوئے کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد اور ہماری عورت کے بدلے ان کا مرد قتل کیا جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ آزاد، آزاد کے بدلے اور غلام، غلام کے عوض اور عورت، عورت کے بدلے قتل کی جائے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٨ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْْقَتْلٰی ط) ۔ - قَتْلٰیقَتِیْلٌکی جمع ہے جس کے معنی مقتول کے ہیں۔ کُتِبَکے بعد عَلٰی فرضیتّ کے لیے آتا ہے ‘ یعنی تم پر یہ فرض کردیا گیا ہے ‘ اس معاملے میں سہل انگاری صحیح نہیں ہے۔ جب کسی معاشرے میں انسان کا خون بہانا عام ہوجائے تو تمدن کی جڑ کٹ جائے گی ‘ لہٰذا قصاص تم پر واجب ہے۔- (اَلْحُرُّ بالْحُرِّ ) آزاد آزاد کے بدلے - اگر کسی آزاد آدمی نے قتل کیا ہے تو قصاص میں وہ آزاد ہی قتل ہوگا۔ یہ نہیں کہ وہ کہہ دے کہ میرا غلام لے جاؤ ‘ یا میری جگہ میرے دو غلام لے جا کر قتل کر دو ۔ - (وَالْعَبْدُ بالْعَبْدِ ) - اگر غلام قاتل ہے تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے گا۔- (وَالْاُنْثٰی بالْاُنْثٰی ط) ۔ - اگر قتل کرنے والی عورت ہے تو وہ عورت ہی قتل ہوگی۔ قصاص و دیت کے معاملے میں اسلام سے پہلے عرب میں مختلف معیارات قائم تھے۔ مثلاً اگر اوسی خزرجی کو قتل کر دے تو تین گنا خون بہا وصول کیا جائے گا اور خزرجی اوسی کو قتل کرے تو ایک تہائی خون بہا ادا کیا جائے گا۔ یہ ان کا قانون تھا۔ اسی طرح آزاد اور غلام میں بھی فرق روا رکھا جاتا تھا۔ لیکن شریعت اسلامی نے اس ضمن میں کامل مساوات قائم کی اور زمانۂ جاہلیت کی ہر طرح کی عدم مساوات کا خاتمہ کردیا۔ اس بارے میں امام ابوحنیفہ (رض) کا قول یہی ہے کہ تمام مسلمان آپس میں کفو (برابر) ہیں ‘ لہٰذا قتل کے مقدمات میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔- (فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ) - یعنی مقتول کے ورثاء اگر قاتل کو کچھ رعایت دے دیں کہ ہم اس کی جان بخشی کرنے کو تیار ہیں ‘ چاہے وہ خون بہا لے لیں ‘ چاہے ویسے ہی معاف کردیں ‘ تو جو بھی خون بہا طے ہوا ہو اس کے بارے میں ارشاد ہوا :- (فَاتِّبَاعٌم بالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ) (ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ط) ۔ - اس کا رحمت ہونا بہت واضح ہے۔ اگر یہ شکل نہ ہو تو پھر قتل در قتل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن اگر قاتل کو لا کر مقتول کے ورثاء کے سامنے کھڑا کردیا جائے کہ اب تمہارے ہاتھ میں اس کی جان ہے ‘ تم چاہو تو اس کو قتل کردیا جائے گا ‘ اور اگر تم احسان کرنا چاہو ‘ اس کی جان بخشی کرنا چاہو تو تمہیں اختیار حاصل ہے۔ چاہو تو ویسے ہی بخش دو ‘ چاہو تو خون بہا لے لو۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ دشمنیوں کا دائرہ سمٹ جاتا ہے ‘ بڑھتا نہیں ہے۔ اس میں اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہے۔ اسلامی معاشرے میں قاتل کی گرفتاری اور قصاص کی تنفیذ حکومت کیّ ذمہ داری ہوتی ہے ‘ لیکن اس میں مدعی ریاست نہیں ہوتی۔ آج کل ہمارے نظام میں غلطی یہ ہے کہ ریاست ہی مدعی بن جاتی ہے ‘ حالانکہ مدعی تو مقتول کے ورثاء ہیں۔ اسلامی نظام میں کسی صدر یا وزیراعظم کو اختیار نہیں ہے کہ کسی قاتل کو معاف کر دے۔ قاتل کو معاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے ورثاء کو ہے۔ لیکن ہمارے ملکی دستور کی رو سے صدر مملکت کو سزائے موت معاف کرنے کا حق دیا گیا ہے۔- (فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ) ۔ - یعنی جو لوگ اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے بعد ظلم و زیادتی کا وطیرہ اپنائیں گے ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :176 قصاص ، یعنی خون کا بدلہ ، یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے ، جو اس نے دوسرے آدمی کے ساتھ کیا ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو ، اسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے ، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اس کے ساتھ کیا جائے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :177 جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے ، اتنی ہی قیمت کا خون اس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اسے مارا ہو ۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا ۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے ۔ ان کا کوئی معزز آدمی اگر دوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو ، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزز آدمی مارا جائے یا اس کے کئی آدمی ان کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں ۔ برعکس اس کے اگر مقتول ان کی نگاہ میں کوئی ادنیٰ درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزت رکھنے والا شخص ہوتا ، تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے ۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیت ہی میں نہ تھی ۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذب سمجھا جاتا ہے ، ان کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دنیا کو سنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے ۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اڑائے گئے ۔ ایک”مہذب“ قوم نے اسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ”سرلی اسٹیک“ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا ۔ دوسری طرف ان نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرز عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو ، تو ان کے جج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ یہی خرابیاں ہیں ، جن کے سد باب کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے ۔ وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :178 ”بھائی“ کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کر دی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دوسرے شخص کے درمیان باپ مارے کا بیر ہی سہی ، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی ۔ لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصے کو پی جاؤ ، تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایان شان ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانون تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابل راضی نامہ ہے ۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیں اور اس صورت میں عدالت کے لیے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے ۔ البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا ، معافی کی صورت میں قاتل کو خوں بہا ادا کرنا ہوگا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :179 ”مَعْرُوْف“ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے ۔ اس سے مراد وہ صحیح طریق کار ہے ، جس سے بالعموم انسان واقف ہوتے ہیں ، جس کے متعلق ہر وہ شخص ، جس کا کوئی ذاتی مفاد کسی خاص پہلو سے وابستہ نہ ہو ، یہ بول اٹھے کہ بے شک حق اور انصاف یہی ہے اور یہی مناسب طریق عمل ہے ۔ رواج عام ( ) کو بھی اسلامی اصطلاح میں ”عرف“ اور ”معروف“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے تمام معاملات میں معتبر ہے ، جن کے بارے میں شریعت نے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہ کیا ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :180 ( مثلاً ) یہ کہ مقتول کا وارث خوں بہا وصول کر لینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے ، یا قاتل خوں بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے ، اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

109: قصاص کا مطلب ہے برابر کا بدلہ لینا۔ اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر ناحق قتل کردیا جائے اور قاتل کا جرم ثابت ہوجائے تو مقتول کے وارث کو حق حاصل ہے کہ وہ قاتل سے قصاص کا مطالبہ کرے، جاہلیت کے زمانے میں اگرچہ قصاص تولیاجاتا تھا، لیکن اس میں ناانصافی یہ تھی کہ انہوں نے مختلف انسانوں کے جو درجے اپنے خیال میں مقرر کر رکھے تھے، ان کے لحاظ سے اگر نچلے درجے کے کسی شخص نے اونچے درجے کے کسی آدمی کو قتل کردیا تو ورثا کا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ قاتل کے بجائے اس کے قبیلے کے کسی دوسرے آدمی کو قتل کیا جائے جورتبے میں مقتول کے برابر ہو۔ چنانچہ اگر ایک غلام نے کسی آزاد آدمی کو قتل کردیا ہو تو مطالبہ میں یہ ہوتا تھا کہ ہم قاتل غلام کے بجائے کسی آزاد آدمی کو قتل کریں گے، اسی طرح اگر قاتل عورت ہو اور مقتول مرد توکہا جاتا تھا کہ قاتل عورت کے بجائے قبیلے کا کوئی مرد قتل کیا جائے۔ اس کے برعکس اگر قاتل مقتول سے اوپر کے درجے کا ہو مثلا قاتل مرد ہو اور مقتول عورت تو قاتل کا قبیلہ کہتا تھا کہ ہماری کسی عورت کو قتل کردو، قاتل مرد سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ اس آیت نے جاہلیت کی اس ظالمانہ رسم کو ختم فرمادیا اور اعلان کیا کہ جان ہر ایک کی برابر ہے، اور قصاص ہر صورت میں قاتل ہی سے لیا جائے گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، غلام ہو یا آزاد۔ 110: بنی اسرائیل کے قانون میں قصاص تو تھا، لیکن قتل عمد کی صورت میں دِیت یا خوں بہا کا کوئی تصور نہیں تھا، اس آیت نے مقتول کے ورثاء کو یہ حق دیا کہ اگر وہ چاہیں تو مقتول کا قصاص معاف کرکے خوں بہا کے طور پر کچھ رقم کا مطالبہ کریں۔ ایسی صورت میں ان کو چاہئے کہ رقم کی مقدار معقولیت کی حد میں رکھیں، اور قاتل کو چاہئے کہ خوش اسلوبی سے اس کی ادائیگی کرے۔ 111: مطلب یہ ہے کہ اگر خوں بہا لے کر وارثوں نے قصاص معاف کردیا ہو تو اب ان کے لئے قاتل کی جان لینا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ زیادتی ہوگی جس کی بنا پر وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سزا کے مستحق ہوں گے۔