وصیت کی وضاحت اس آیت میں ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے وصیت کرنے کا حکم ہو رہا ہے ، میراث کے حکم سے پہلے یہ واجب تھا ٹھیک قول یہی ہے ، لیکن میراث کے احکام نے اس وصیت کے حکم کو منسوخ کر دیا ، ہر وارث اپنا مقررہ حصہ بےوصیت لے لے گا ، سنن وغیرہ میں حضرت عمرو بن خارجہ سے حدیث ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب کسی وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سورۃ بقرہ کی تلاوت کرتے ہیں جب آپ اس آیت پر پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے ( مسند احمد ) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ماں باپ کے ساتھ اور کوئی رشتہ دار وارث نہ تھا اوروں کے لئے صرف وصیت ہوتی تھی پھر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں اور ایک تہائی مال میں وصیت کا اختیار باقی رہا ۔ اس آیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی آیت ( لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا ) 4 ۔ النسآء:7 ) ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سعید بن مسیب ، حسن ، مجاہد ، عطاء ، سعید بن جبیر ، محمد بن سیرین ، عکرمہ ، زید بن اسلم ، ربیع بن انس ، قتادہ ، سدی ، مقاتل بن حیان ، طاؤس ، ابراہیم نخعی ، شریح ، ضحاک اور زہری رحمہم اللہ یہ سب حضرات بھی اس آیت کو منسوخ بتاتے ہیں ، لیکن باوجود اس کے تعجب ہے کہ امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں ابو مسلم اصفہانی سے یہ کیسے نقل کر دیا کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس کی تفسیر ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ تم پر وہ وصیت فرض کی گئی جس کا بیان آیت ( يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 4 ۔ النسآء:11 ) میں ہے اور یہی قول اکثر مفسرین اور معتبر فقہا کا ہے بعض کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے اور جن کا ورثہ مقرر نہیں ان کے حق میں ثابت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حسن ، مسروق ، طاؤس ، ضحاک ، مسلم بن یسار اور علاء بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے ، میں کہتا ہوں سعید بن جبیر ، ربیع بن انس ، قتادہ اور مقاتل بن حیان بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حضرات کے اس قول کی بنا پر پہلے فقہاء کی اصطلاح میں یہ آیت منسوخ نہیں ٹھہرتی اس لئے کہ میراث کی آیت سے وہ لوگ تو اس حکم سے مخصوص ہو گئے جن کا حصہ شریعت نے خود مقرر کر دیا اور جو اس سے پہلے اس آیت کے حکم کی رو سے وصیت میں داخل تھے کیونکہ قرابت دار عام ہیں خواہ ان کا ورثہ مقرر ہو یا نہ ہو تو اب وصیت ان کے لئے ہوئی جو وارث نہیں اور ان کے حق میں نہ رہی جو وارث ہیں ، یہ قول اور بعض دیگر حضرات کا یہ قول کہ وصیت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا اور وہ بھی غیر ضروری ، دونوں کا مطلب قریبا ایک ہو گیا ، لیکن جو لوگ وصیت کے اس حکم کو واجب کہتے ہیں اور روانی عبارت اور سیاق وسباق سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک تو یہ آیت منسوخ ہی ٹھہرے گی جیسے کہ اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کرام کا قول ہے ، پس والدین اور وراثت پانے والے قرابت داروں کے لئے وصیت کرنا بالاجماع منسوخ ہے بلکہ ممنوع ہے حدیث شریف میں آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ، آیت میراث کا حکم مستقل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ واجب و فرض ہے ذوی الفروض اور عصبات کا حصہ مقرر ہے اور اس سے اس آیت کا حکم کلیتہ اٹھ گیا ، باقی رہے وہ قرابت دار جن کا کوئی ورثہ مقرر نہیں ان کے لئے تہائی مال میں وصیت کرانا مستحب ہے کچھ تو اس کا حکم اس آیت سے بھی نکلتا ہے دوسرے یہ کہ حدیث شریف میں صاف آچکا ہے بخاری و مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی مرد مسلمان کو لائق نہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ وصیت کرنی چاہتا ہو تو دو راتیں بھی بغیر وصیت لکھے ہوئے گذارے راوی حدیث حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے سننے کے بعد میں نے تو ایک رات بھی بلا وصیت نہیں گذاری ، قرابت داروں اور رشتہ داروں سے سلوک واحسان کرنے کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں ، ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جو مال میری راہ میں خرچ کرے گا میں اس کی وجہ سے تجھے پاک صاف کروں گا اور تیرے انتقال کے بعد بھی میرے نیک بندوں کی دعاؤں کا سبب بناؤں گا ۔ خیرا سے مراد یہاں مال ہے اکثر جلیل القدر مفسرین کی یہی تفسیر ہے بعض مفسرین کا تو قول ہے کہ مال خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت وصیت مشروع ہے جیسے میراث تھوڑے مال میں بھی ہے اور زیادہ میں بھی ، بعض کہتے ہیں وصیت کا حکم اس وقت ہے جب زیادہ مال ہو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک قریشی مر گیا ہے اور تین چار سو دینار اس کے ورثہ میں تھے اور اس نے وصیت کچھ نہیں کی آپ نے فرمایا یہ رقم وصیت کے قابل نہیں اللہ تعالیٰ نے آیت ( ان ترک خیرا ) فرمایا ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک بیمار کی بیمار پرسی کو گئے اس سے کسی نے کہا وصیت کرو تو آپ نے فرمایا وصیت خیر میں ہوتی ہے اور تو تو کم مال چھوڑ رہا ہے اسے اولاد کے لئے ہی چھوڑ جا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ساٹھ دینار جس نے نہیں چھوڑے اس نے خیر نہیں چھوڑی یعنی اس کے ذمہ وصیت کرنا نہیں ، طاؤس ، اسی دینار بتاتے ہیں قتادہ ایک ہزار بتاتے ہیں ۔ معروف سے مراد نرمی اور احسان ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں وصیت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس میں بھلائی کرے برائی نہ کرے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے اسراف اور فضول خرچی نہ کرے ۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف مری ایک لڑکی ہی ہے تو آپ اجازت دیجئے کہ میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کروں آپ نے فرمایا نہیں کہا آدھے کی اجازت دیجئے فرمایا نہیں کہا ایک تہائی کی اجازت دیجئے فرمایا خیر تہائی مال کی وصیت کرو گو یہ بھی بہت ہے تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر اور تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ، صحیح بخاری شریف میں ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کاش کہ لوگ تہائی سے ہٹ کر چوتھائی پر آ جائیں اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ تہائی بہت ہے مسند احمد میں ہے حنظلہ بن جذیم بن حنفیہ کے دادا حنفیہ نے ایک یتیم بچے کے لئے جو ان کے ہاں پلتے تھے سو اونٹوں کی وصیت کی ان کی اولاد پر یہ بہت گراں گزرا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا حضور نے فرمایا نہیں نہیں نہیں صدقہ میں پانچ دو ورنہ دس دو ورنہ پندرہ ورنہ بیس ورنہ پچیس دو ورنہ تیس دو ورنہ پینتیس دو اگر اس پر بھی نہ مانوں تو خیر زیادہ سے زیادہ چالیس دو ۔ پھر فرمایا جو شخص وصیت کو بدل دے اس میں کمی بیشی کر دے یا وصیت کو چھپالے اس کا گناہ بدلنے والے کے ذمہ ہے میت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا ، اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کی وصیت کی اصلیت کو بھی جانتا ہے اور بدلنے والے کی تبدیلی کو بھی نہ اس سے کوئی آواز پوشیدہ نہ کوئی راز ۔ حیف کے معنی خطا اور غلطی کے ہیں مثلا کسی وارث کو کسی طرح زیادہ دلوا دینا مثلا کہدیا کہ فلاں چیز فلاں کے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچ دی جائے وغیرہ اب یہ خواہ بطور غلطی اور خطا کے ہو یا زیادتی محبت و شفقت کی وجہ سے بغیر قصد ایسی حرکت سرزد ہوگئی ہو یا گناہ کے طور پر ہو تو وصی کو اس کے رد و بدل میں کوئی گناہ نہیں ۔ وصیت کو شرعی احکام کے مطابق پوری ہو ایسی حالت میں بدلنے والے پر کوئی گناہ یا حرج نہیں واللہ اعلم ۔ ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں زندگی میں ظلم کر کے صدقہ دینے والے کا صدقہ اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح موت کے وقت گناہگار کرنے والے کا صدقہ لوٹا دیا جاتا ہے یہ حدیث ابن مردویہ میں بھی مروی ہے ابن ابی حاتم فرماتے ہیں ولید بن یزید جو اس حدیث کا راوی ہے اس نے اس میں غلطی کی ہے دراصل یہ کلام حضرت عروہ کا ہے ، ولید بن مسلم نے اسے اوزاعی سے روایت کیا ہے اور عروہ سے آگے سند نہیں لے گئے امام ابن مردویہ بھی ایک مرفوع حدیث بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ وصیت کی کمی بیشی کبیرہ گناہ ہے لیکن اس حدیث کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے اس بارے میں سب سے اچھی وہ حدیث ہے جو مسند عبدالرزاق میں بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں ، پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ آیت ( تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَاتَعْتَدُوْھَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) 65 ۔ الطلاق:1 ) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو ۔
180۔ 1 وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا اب یہ منسوخ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثہ کے حصے مقر کر دئیے ہیں) پس اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جاسکتی ہے جو وارث نہ ہوں یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے کی جاسکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ایک تہائی مال ہے اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جاسکتی۔
[ ٢٢٦] جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ ترکہ کے وارث صرف بیوی اور اولاد اور بالخصوص اولاد نرینہ ہوا کرتی تھی (جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں بھی عمومی رواج یہی چل نکلا ہے) ماں باپ اور سب اقارب محروم رہتے ہیں۔ اس آیت کی رو سے مرنے والے پر انصاف کے ساتھ والدین اوراقارب کے لیے وصیت کرنا فرض قرار دیا گیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آیت میراث میں والدین اوراقارب کے حصے خود ہی مقرر فرما دیئے تو یہ آیت منسوخ ہوگئی اور وصیت صرف ایک تہائی ترکہ یا اس سے بھی کم حصہ کے لیے رہ گئی۔ جو یا تو ان وارثوں کے حق میں کی جاسکتی ہے جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں کیا یا پھر دوسرے رفاہ عامہ کے - کاموں کے لیے ایک تہائی مال تک وصیت کرنا ایک حق تھا جو مرنے والے کو دیا گیا تھا۔ مگر آج مسلمان اس سے بھی غافل ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اس حق کو استعمال کریں تو کئی معاشرتی مسائل از خود حل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایسے پوتے پوتیاں یا دوہتے دوہتیوں کی تربیت کا مسئلہ جن کے والدین فوت ہوچکے ہوں یا ایسے محتاج (ذوی الارحام کا جو نہ ذوی الفروض سے ہوں اور نہ عصبات سے)
” لکھ دیا گیا ہے “ یعنی فرض کردیا گیا ہے۔ (راغب) ” کسی کو موت آپہنچے “ یعنی اس کے اسباب و قرائن آپہنچیں، کیونکہ موت آنے کے بعد وصیت تو کیا، کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔- چونکہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے، اس لیے اگر وصیت نہ کرنے کی صورت میں کسی کی حق تلفی کا خطرہ ہو، مثلاً کسی کا قرض ادا کرنا ہو تو وصیت میں بالکل دیر نہیں کرنی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کسی مسلمان آدمی کا حق نہیں جس کے پاس کوئی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنا ہو کہ وہ دو راتیں اس کے بغیر گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔ “ [ بخاری، الوصایا، باب الوصایا : ٢٧٣٨، عن ابن عمر (رض) ] ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان سننے کے بعد ایک رات بھی نہ گزری تھی کہ میں نے اپنی وصیت لکھ کر اپنے پاس رکھ لی۔ [ مسلم، الوصیۃ، باب وصیۃ الرجل مکتوبۃ عندہ : ٤؍١٦٢٧ ]- اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود وصیت کرتے ہوئے ان کا حصہ مقرر فرما دیا ہے، فرمایا : (يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۔۔ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ ) [ النساء : ١١ تا ١٤ ] اب اللہ تعالیٰ کی وصیت کے بعد کسی اور کی وصیت کی کیا گنجائش ہے اور عمرو بن خارجہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطٰی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ فَلاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ) ” اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے چناچہ وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ “ [ نسائی، الوصایا، باب إبطال الوصیۃ للوارث : ٣٦٧١۔ ترمذی : ٢١٢١۔ ابن ماجہ : ٢٧١٣۔ وقال الترمذی حسن صحیح ]- جب وارثوں کے حق میں وصیت جائز ہی نہیں تو اس آیت میں والدین اور اقربین یعنی قریبی رشتہ داروں کے حق میں وصیت کس طرح فرض کی گئی ؟ اس سوال کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے کہ یہ آیت : (يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ) [ النساء : ١١ ] کے ساتھ منسوخ ہے، چناچہ اب والدین اور اقربین کے حق میں وصیت فرض تو دور، جائز بھی نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشک والدین اور اقربین کے حصے کی خود اللہ تعالیٰ نے وصیت فرما دی ہے، لہٰذا ان کے حق میں وصیت نہیں ہے، مگر کچھ والدین اور قریبی رشتہ دار ایسے بھی ہیں جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں فرمایا، ان کے بارے میں وصیت کرنا فرض کردیا تاکہ وہ محروم نہ رہ جائیں، مثلاً وہ والدین جو کافر ہیں یا غلام ہیں، وہ مسلمان کے وارث نہیں ہوسکتے، ان کے حق میں وصیت فرض ہے۔ یا کسی شخص کے دادا، دادی یا نانا، نانی کا اگر کوئی پرسان حال نہیں تو والدین ہونے کے ناتے ان کے حق میں بھی وصیت لازم ہے، جب کہ قریبی والد کی موجودگی میں وہ وارث نہیں ہیں۔ اسی طرح کسی شخص کے بیٹوں کی موجودگی میں پوتے پوتیاں وارث نہیں ہوسکتے (اگرچہ پاکستان کے قانون میں اللہ کے حکم سے بغاوت کرتے ہوئے انھیں وارث بنایا گیا ہے) ، ایسے پوتوں کے حق میں وصیت فرض ہے، تاکہ وہ یتیمی کے داغ کے ساتھ ساتھ دادے کے ورثے سے بھی بالکل محروم نہ رہ جائیں۔ - کل مال میں سے ایک تہائی سے زیادہ وصیت جائز نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ابی وقاص (رض) کو زیادہ سے زیادہ تہائی مال وصیت کی اجازت دی اور اسے بھی بہت قرار دیا۔ [ بخاری، الفرائض، باب میراث البنات : ٦٧٣٣ ]
ربط آیات و خلاصہ تفسیر :- حکم دوم از ابواب البر وصیت :- وصیت ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا حکم دیا جائے خواہ زندگی میں یا بعد الموت لیکن عرف میں اس کام کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے کا حکم بعدالموت ہو۔ - خیر۔ لفظ خیر کے بہت سے معانی میں سے ایک معنی مال کے بھی آتے ہیں جیسے قرآن میں ہے وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ (٨: ١٠٠) اس جگہ باتفاق مفسرین خیر سے مراد مال ہے شروع اسلام میں جب تک میراث کے حصے شرع سے مقرر نہ ہوئے تھے یہ حکم تھا کہ ترکہ کے ایک ثلث میں مرنے والا اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے لئے جتنا جتنا مناسب سمجھے وصیت کردے اتنا تو ان لوگوں کو حق تھا باقی جو کچھ رہتا وہ سب اولاد کا حق ہوتا تھا اس آیت میں یہ حکم مذکور ہے یعنی،- تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب کسی کو (آثار سے) موت نزدیک معلوم ہونے لگے بشرطیکہ کچھ مال بھی ترکہ میں چھوڑا ہو تو (اپنے) والدین اور (دیگر) اقارب کے لئے معقول طور پر (کہ مجموعہ ایک ثلث سے زیادہ نہ ہو) کچھ کچھ بتلا جاوے (اس کا نام وصیت ہے جن کو خدا کا خوف ہے ان کے ذمہ یہ ضروری (کیا جاتا) ہے پھر (جن لوگوں نے اس وصیت کو سنا ہے ان میں سے) جو شخص بھی سن لینے کے بعد اس (کے مضمون) کو تبدیل کرے گا (اور باہمی تقسیم و فیصلہ کے وقت غلط اظہار دے گا اور اس کے موافق فیصلہ ہونے سے کسی کا حق تلف ہوجاوے گا) تو اس (حق تلفی) کا گناہ انہی لوگوں کو ہوگا جو اس (مضمون) کو تبدیل کریں گے (حاکم عدالت یا ثلث کو یا مرنے والے کو گناہ نہ ہوگا کیونکہ) اللہ تعالیٰ تو یقیناً سنتے جانتے ہیں (تو تبدیل کرنے والے کے اظہار بھی سنتے ہیں اور حاکم کا بیخبر اور معذور ہونا بھی جانتے ہیں) ہاں (ایک طرح کی تبدیل کی اجازت بھی ہے وہ یہ کہ) جس شخص کو وصیت کرنے والے کی جانب سے (وصیت کے بارے میں) کسی غلطی کی یا (قصدا قانون وصیت کے کسی دفعہ کی خلاف ورزی کے) کسی جرم کے ارتکاب کی تحقیق ہوئی ہو ( اور اس بےضابطہ وصیت کی وجی سے اس میت کے پسماندہ مستحقان ترکہ ومستحقان مال وصیت میں نزاع کا خطرہ یا وقوع معلوم ہو) پھر یہ شخص ان میں باہم مصالحت کرادے (گو وہ مصالحت اس مضمون وصیت کے خلاف ہو جو ظاہرا تبدیل وصیت ہے) تو اس شخص پر کوئی بار گناہ نہیں ہے (اور) واقعی اللہ تعالیٰ تو (خود گناہوں کے) معاف فرمانے والے ہیں اور (گنہگاروں پر) رحم کرنے والے ہیں ( اور اس شخص نے تو کوئی گناہ نہیں کیا کیونکہ وصیت میں تبدیلی اصلاح کے لئے ہے تو اس پر کیوں نہ رحمت ہوگی) - معارف و مسائل :- اس آیت میں جو وصیت کرنا اس مرنے والے پر فرض کیا ہے جو کچھ مال چھوڑ کر مر رہا ہو اس حکم کے تین جزء ہیں ایک یہ کہ مرنے والے کے ترکہ میں اولاد کے سوا کسی دوسرے وارث کے حصے مقرر نہیں ہیں ان کے حصوں کا تعین مرنے والے کی وصیت کی بنیاد پر ہوگا،- دوسرے یہ کہ ایسے اقارب کے لئے وصیت کرنا مرنے والے پر فرض ہے،- تیسرے یہ کہ ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں، - ان تین احکام میں سے پہلاحکم تو اکثر صحابہ کرام وتابعین کے نزدیک آیت میراث سے منسوخ ہوگیا ابن کثیر نے بتصحیح حاکم وغیرہ حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس حکم کو آیت میراث نے منسوخ کردیا یعنی للرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا (٧: ٤) - اور حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک دوسری روایت میں اس کی یہ تفصیل ہے کہ آیت میراث نے ان لوگوں کی وصیت کو منسوخ کردیا جن کا میراث میں حصہ مقرر ہے دوسرے رشتہ دار جن کا میراث میں حصہ نہیں ان کے لئے حکم وصیت اب بھی باقی ہے (جصاص، قرطبی) - لیکن باجماع امت یہ ظاہر ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں ان کے لئے میت پر وصیت کرنا کوئی فرض و لازم نہیں اس لئے فرضیت وصیت ان کے حق میں بھی منسوخ ہی ہوگی (جصاص، قربطی) یعنی بشرط ضرورت صرف مستحب رہ جائے گی، - دوسرا حکم وصیت کا فرض ہونا :- یہ بھی باجماع امت منسوخ ہے اور ناسخ اس کا وہ حدیث متواتر ہے جس کا اعلان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ صحابہ کے سامنے فرمایا۔- ان اللہ اعطیٰ لکل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث اخرجہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن صحیح۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک حق والے کو اس کا حق خود دے دیا ہے اس لئے اب کسی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں۔- اسی حدیث میں بروایت ابن عباس یہ الفاظ بھی منقول ہیں ؛- لا وصیۃ لوارث الا ان تجیزہ الورثہ (جصاص) - کسی وارث کے لئے وصیت اس وقت تک جائز نہیں جب تک باقی سب وارث اجازت نہ دیدیں،- اس لئے حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وارثوں کے حصے خود مقرر فرمادئیے ہیں اس لئے اسے وصیت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وارث کے حق میں وصیت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہاں اگر دوسرے ورثہ اس کی اجازت دیدیں تو جائز ہے، امام جصاص نے فرمایا کہ یہ حدیث ایک جماعت صحابہ سے منقول ہے اور فقہاء امت نے باتفاق اس کو قبول کیا ہے اس لئے بحکم متواتر ہے جس سے آیت قرآن کا نسخ جائز ہے،- اور امام قرطبی نے فرمایا کہ یہ بات علماء امت میں متفق علیہ ہے کہ جب کوئی حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی یقینی طور پر معلوم ہوجائے جیسے خبر متواتر، مشہور وغیرہ میں ہوتا ہے تو وہ بالکل بحکم قرآن ہے اور وہ بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کا فرمان ہے اس لئے ایسی حدیث سے کسی آیت قرآن کا منسوخ ہوجانا کوئی محل شبہ نہیں پھر فرمایا کہ اگرچہ یہ حدیث ہم تک خبر واحد ہی کے طریق پر پہنچی ہو مگر اس کے ساتھ حجۃ الوداع کے سب سے بڑے اجتماع میں ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام کے سامنے اس کا اعلان فرمانا اور اس پر اجماع صحابہ اور اجماع امت نے یہ واضح کردیا کہ یہ حدیث ان حضرات کے نزدیک قطعی الثبوت ہے ورنہ شک وشبہ کی گنجائش ہوتے ہوئے اس کی وجہ سے آیت قرآن کے حکم کو چھوڑ کر اس پر اجماع نہ کرتے۔- تیسرا حکم وصیت ایک تہائی مال سے زیادہ کی جائز نہیں :- یہ باتفاق امت اب بھی باقی ہے ہاں وارثوں کی اجازت سے ایک تہائی سے زائد کی بلکہ پورے مال کی بھی وصیت جائز اور قابل قبول ہے،- مسئلہ : تفصیل مذکور سے یہ واضح ہوچکا کہ اب جن رشتہ داروں کے حصے قرآن کریم نے خود مقرر کردیئے ہیں ان کے لئے اب وصیت واجب نہیں بلکہ بدون اجازت دوسرے وارثوں کے جائز بھی نہیں البتہ جو رشتہ دار شرعی وارث نہیں ان کے لئے وصیت کرنے کی اجازت ایک تہائی مال تک ہے،- مسئلہ : اس آیت میں ذکر ایک خاص وصیت کا تھا جو مرنے والا اپنے متروکہ مال کے متعلق کرتا تھا جو منسوخ ہوگیا لیکن جس شخص کے ذمے دوسرے لوگوں کے حقوق واجب ہوں یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو اس پر ان تمام چیزوں کی ادائیگی کے لئے وصیت واجب ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ کچھ لوگوں کے حقوق ہوں اس پر تین راتیں ایسی نہ گذرنی چاہئیں کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس موجود نہ ہو،- مسئلہ : آدمی کو جو ایک تہائی مال میں وصیت کرنے کا حق دیا گیا ہے اپنی زندگی میں اس کو یہ بھی حق رہتا ہے کہ اس وصیت میں کچھ تبدیلی کردے یا بالکل ختم کردے (جصاص)
كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا ٠ ۚ ۖ الْوَصِيَّۃُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ٠ ۚ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ١٨٠ ۭ- كتب ( فرض)- ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي - [ المجادلة 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] ، وقال : وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ [ الأنفال 75] أي : في حكمه، وقوله : وَكَتَبْنا عَلَيْهِمْ فِيها أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ- [ المائدة 45] أي : أوجبنا وفرضنا، وکذلک قوله : كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، وقوله : كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيامُ [ البقرة 183] ، لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتالَ [ النساء 77] ، ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ [ الحدید 27] ، لَوْلا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلاءَ [ الحشر 3] أي : لولا أن أوجب اللہ عليهم الإخلاء لدیارهم،- نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔ اور آیت : وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ [ الأنفال 75] اور رشتے دار خدا کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں کتاب اللہ سے مراد قانون خداوندی ہی - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8]- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ - - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینب مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- خير ( مال)- وقال بعض العلماء : لا يقال للمال خير حتی يكون کثيرا، ومن مکان طيّب، كما روي أنّ عليّا رضي اللہ عنه دخل علی مولی له فقال : ألا أوصي يا أمير المؤمنین ؟ قال : لا، لأنّ اللہ تعالیٰ قال : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ، ولیس لک مال کثير وعلی هذا قوله : وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] ، أي : المال الکثير وقال بعض العلماء : إنما سمّي المال هاهنا خيرا تنبيها علی معنی لطیف، وهو أنّ الذي يحسن الوصية به ما کان مجموعا من المال من وجه محمود، وعلی هذا قوله : قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ [ البقرة 215] ، - ( خ ی ر ) الخیر ۔ مال پر خیر کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب وہ مال کثیر ہو اور حلال طریق سے جمع کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت علی اپنے ایک غلام کے پاس گئے تو اس نے دریافت کیا اے امیرالمومنین : میں کچھ وصیت نہ ک - ر جاؤں تو حضرت علی نے فرمایا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وصیت کیلئے فرمایا ہے ۔ اور خیر مال کثیر کو کہا جاتا ہے ، ، چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] وہ تو مال کی سخت محبت کرنے والا ہے ۔ میں بھی خیر کے معنی مال کثیر کے ہیں ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ آیت کریمہ میں مال کو خیر کہنے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وصیت صرف اس مال میں بہتر ہے جو محمود طریق سے جمع کیا گیا ہو اس معنی میں فرمایا : ۔ قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ [ البقرة 215] کہدو ( جو چاہو ہو خرچ کرو لیکن ) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ دو درجہ بدرجہ اہل استحقاق میں ) - وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ ، ووَصَّى: أنشأ فضله، وتَوَاصَى القومُ : إذا أَوْصَى بعضُهم إلى بعض . قال تعالی: وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] .- ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر)- قصاص کی کیفیت - ارشاد باری ہے : یایھا الذین امنو کتب علیکم القصاص فی القتلی دوسری آیت میں ارشاد ہے : والجروح قصاص ( اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہض نیز ارشاد ہے : وان عاقبتم فعاقبو بمثل ماعوقبتم بہ ان آیات کے ذریعے اللہ سبحانہ نے مثل کی وصولی کو واجب کردیا۔ اور کسی کو خواہ وہ جنایت کی زد میں آنے والا شخص ہو یا اس کا ولی ہو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ جنایت کے مرتکب سے اس کے جرم سے بڑھ کر بدلہ لے۔ قصاص کی کیفیت کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ قاتل نے مقتول کو خواہ جس طرح بھی قتل کیا ہو اسے تلوار کے ذریعے قتل کیا جائے گا۔ ابن القاسم نے امام مالک کا قول نقل کیا ہے کہ اگر قاتل نے مقتول کو لاٹھی یا پتھر مار کر یا آگ میں ڈال کر یا پانی میں ڈبو کر قتل کیا ہو تو اسے بھی اسی طرح قتل کیا جائے گا۔ اگر قاتل نہ مرے تو اس پر اسی عمل کی تکرار ہوگی جس کے تحت اس نے قتل کا ارتکاب کیا تھا حتیٰ کہ وہ مرجائے خواہ یہ عمل قاتل کے اپنے فعل سے بڑھ کیوں نہ جائے۔ قاضی ابن شبرمہ نے کہا ہے کہ ہم قاتل کو اس ضرب کی طرح ضرب لگائیں گے جو اس نے مقتول کو لگائی تھی اور اس سے زائد ضرب نہیں لگائیں گے۔ - سلف مثلہ ( ناک ، کان اور دیگر اعضاء کاٹ ڈالنے) کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ تلوار ان تمام باتوں کی کفایت کردیتی ہے۔ اگر قاتل نے مقتول کی ڈبکیاں دے دے کر مارا ہو تو میں بھی اسے ڈبکیاں دوں گا حتیٰ کہ اس کی جان نکل جائے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر قاتل نے مقتول کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیا ہو تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ اگر اس نے مقتول کو مقید کر کے بلا آب و دانہ ہلاک کردیا ہو تو اسے بھی محبوس کردیا جائے گا۔ اگر وہ حبس کے اندر مقتول والی مدت میں نہ مرے تو پھر تلوار سے اسے قتل کردیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب قول باری : کتب علیکم القصاص فی القتلی نیز : والجروح قصاص کا مفہوم کسی اضافے کے بغیر مثل کا استیفاء ( وصولی) ہے تو پھر ولی پر مجرم کے فعل سے زائد کا استیفاء ممنوع ہوگا۔ اگر ولی قصاص کا استیفاء ان حضرات کے مسلک کے مطابق کرے گا جن کا ذکر ہم نے آگ میں جلا کر ، پانی میں ڈبو کر، پھتر مار مار کر اور قید میں ڈال کر قتل کرنے کے سلسلے میں کیا ہے۔ تو اس کا یہ استیفاء قاتل کے لیے ہوئے جرم سے بڑھ کر فعل پر منتج ہوگا کیونکہ اگر قاتل درج بالا صورتوں کے تحت نہیں مرے گا تو اسے یا تو تلوار سے قتل کردیا جائے گا یا اس کے کیے ہوئے فعل کی اس پر تکرار کی جائے گی۔ جبکہ یہی وہ اعتداء ( زیادت) ہے جس سے اللہ سبحانہ نے ہمیں اپنے ارشاد : فمن اعتدی بعد ذلک فلہ عذب الیم اور اس کے بعد جو زیادتی کرے گا اس کے لیے درد ناک عذاب ہے) کے ذریعے روکا ہے، اعتداء قصاص سے آگے چلے جانے کا نام ہے اور قصاص قاتل کے ساتھ اس کے کیے ہوئے فعل کی طرح فعل کرنے کا نام ہے، بشرطیکہ ایسا کرنا ممکن ہوا اور اگر ایسا کرنا معتذر ہو تو ولی اسے قتل کی آسان ترین صورت کے تحت قتل کر دے گا۔ امام مالک کا قول ” قاتل پر اس کے کیے ہوئے فعل جیسے فعل کی تکرار کی جائے گی حتیٰ کہ وہ مرجائے “ درحقیقت قاتل کے فعل سے زائد فعل ہے اور قصاص کے معنی سے خارج ہے۔ - اسی طرح امام شافعی کا قول : قاتل کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا اور اگر وہ پھر بھی نہ مرے تو اسے تلوار سے قتل کردیا جائے گا۔ در حقیقت مذکورہ بالا آیات کے حکم کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ قصاص کی جہت اگر یہ ہے کہ قاتل کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا تو وہ یہ کا مکر کے اپنا حق وصول کرے گا۔ اس کے بعد قاتل کو قتل کر نا در حقیقت قصاص کی حد سے تجاوز اور اس سے آگے نکل جانا ہوگا جبکہ ارشاد باری ہے : ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلمو نفسہ ( اور جو شخص اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرے گا) اگر قصاص کے معنی جان کے بدلے جان کا اتلاف ہے جس میں کیے ہوئے فعل کی مقدار سے تجاوز نہ ہو، تو اسی بات کے ہم قائل ہیں۔ اس بنا پر ہمارے مخالفین قصاص کے موجَب کے سلسلے میں جس طریق کار کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس کے اندر ہمہ وقت مذکورہ آیات کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ یہ طریق کار قصاص کی حد سے تجاوز کی صورت ہے۔ اسی طرح قول باری : فمن اعتدی علیکم فاعتد و و علیہ بمثل ما اعتدی علیکم نیز : وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ اس امر سے مانع ہے کہ جارح کو اس سے زیادہ زخم لگائے جائیں جس قدر اس نے مجروح کو لگائے تھے۔ - سب کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا آدھا بازو قطع کر دے تو اس سے اس کا قصاص نہیں لیا جایء گا اس لیے کہ قصاص لینے میں مقطوع الید کے حق کی مقدار پر اقتصار کے بارے میں عدم تیقن ہوگا اگرچہ تھوڑا بہت غور کر کے اسے اس بارے میں غالب گمان حاصل ہوجاتا کہ مجرم نے اس کے بازو کے جس مقام پر چھری رکھی تھی وہ بھی مجرم کے بازو کے اس مقام پر چھری رکھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود مذکور جرم کے قصاص کے سلسلے میں اجتہاد کو عھ قطعیت کی بنا پر نظر انداز کر کے کہہ دیا گیا کہ اس جرم کا قصاص ممکن نہیں ہے۔ اور جب اس صورت میں اجتہاد کے لیی کوئی گنجائش نہیں رکیھ گئی تو پھر ایسے طریقے سے قصاص لینا کس طرح جائز ہوگا جس کے متعلق ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ قصاص لینے والے ن اپنے حق سے بڑھ کر بدلہ لیا ہے۔ اس بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ولی کے لیے مجرم کو قتل کردینا جائز ہے لیکن وہ اسے جلا نہیں سکتا اور نہ ہی پانی میں ڈبو کر مار سکتا ہے۔ یہ باس اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں قتل ہی مراد ہے اور جب تلوار سے قتل مراد ہو تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قصاص قتل کے آسان ترین ذریعے سے اتلاف نفس کا نام ہے اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہی صورت مراد ہے تو اس سے جلا کر مارنا، ڈبو کر مارا نیز پتھر مار مار کر سر کچل دینا اور اس طرح کی دیگر صورتوں کا مراد ہونا منتفی ہوگیا۔ کیونکہ مجرم کو تلوار کے ذریعے قتل پر اقتصار کا وجوب دیگر تمام صورتوں کے وقوع کی نفی کردیتا ہے۔ - اگر کہا جائے کہ قصاص میں مثل کا اس اس صورت پر واقع ہوتا ہے جب مجرم کو تلوار کے ذریعے قتل کردیا جائے اور اس صورت میں بھی جب اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا ۔ اگر وہ نہ مرے تو ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ تلوار سے اسے قتل کر کے اس کی جان لے لے اور اسے یہ بھی اختیار ہوگا کہ ابتدا ہی میں اسے تلوار سے قتل کر دے۔ اگر وہ اییسا نہیں کرتا تو وہ اپنا کچھ حق چھوڑ دیتا ہے اور اسے اپنا کچھ حق چھوڑنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تلوار کے ذریعے مجرم کو قتل کرنے کے ساتھ ولی کو یہ حق حاصل ہونا جائز نہیں ہے کہ وہ پتھروں سے اس کا سر کچل دے یا آگ میں ڈال کر اسے جلا دے کیونکہ یہ بات قصاص اور فعل مثل کی منافی ہے۔ اللہ سبحانہ نے قصاص واجب کیا ہے کچھ اور نہیں ، اس لیے قصاص کو ایسے معنی پر محمول کرنا جائز نہیں جو لفظ کے مضمون اور اس کے حکم کے منافی ہو۔ علاوہ ازییں پتھروں سے سر کچل دینے ، آگ میں ڈال کر جلا دینے، پانی میں دبو کر مار دینے اور تیروں کا نشانہ بنانے کے ذریعے قصاص کا استیفاء ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قصاص مثل کے استیفاء کا نام ہے تو پتھروں سے سر کچلنے کی کوئی حد تو معلوم نہیں ہوتی کہ یہ کہا جاسکے کہ فلاں مقدار کے ذریعے قاتل نے مقتول کا سر کچلا تھا۔ اسی طرح تیروں کے ذریعے نشانہ بنانے اور آگ میں جلانے کی کیفیت ہے۔ اس لیے یہ بات درست ہی نہیں ہے کہ مذکورہ صورتیں آیت مییں قصاص کے ذکر کے تحت مراد ہیں۔ نتیجے کے طور پر یہ ضروری ہوگیا کہ آیت میں قصاص سے مراد یہ لی جائے کہ آسان ترین طریقے سے قاتل کی جان تلف کردی جائے۔ ہماری مذکورہ بال آیات پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منقلہ ( ایسا زخم جس میں ہڈی اپنی جگہ سے سرک جائے) اور جائفہ ( پیٹ کے اندرونی حصے تک پہنچ جانے والا زخم) میں قصاص لینے کی نفی فرما دی ہے کیونکہ جنایت اور جرم کے اجزاء کی مقداروں کے برابر ان صورتوں میں قصاص لینا متعذر ہے۔ اسی طرح تیروں کا نشانہ بنا کر اور پتھروں سے سر کچل کر قصاص کا اتیفاء بایں معنی ناممکن ہے کہ قاتل کی طرف سے مقتول کو پہنچنے والے الم، نیز مقتول کے ضائع شدہ اجزائے جسم کا اندازہ لگا کر قاتل کو اسی قدر الم پہنچانا اور اس کے اتنے ہی اجزاء تلف کرنا متعذر ہے ۔ - اگر کہا جائے کہ مثل کا اسم دو معونوں کی متضمن ہے۔ اسی طرح قصاص بھی۔ ایک معنی یہ ہے کہ قاتل کی جان تلف کردی جائے جس طرح اس نے مقتول کی جان تلف کی تھی۔ ایسی صورت مں مثل اور قصاص جان کے بدلے جان تلف کر کے ہوگا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ قاتل کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔ اس لیے ہم اس لفظ کو دونوں باتوں میں استعمال کریں گے کیونکہ لفظ کا عموم ان دونوں کا مقتضی ہے۔ ہم کہیں گے کہ قاتل کے ساتھ پہلے ہم وہی کچھ کریں گے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔ اگر وہ اسی دوران مرجائے تو فبہا ورنہ اس کی جان تلف کر کے مثل کا استیفاء ہوجائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں باتوں کا قصاص اور مثل کے لفظ میں مراد ہونا جائز نہیں ہے، یعنی یہ درست نہیں ہے کہ قاتل کے ساتھ پہلے وہی کچھ کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا اور پھر اسے قتل کردیا جائے۔ اگرچہ یہ بات ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک بات انفرادی طور پر آیت میں مراد ہو، اجتماعی طور پر نہیں۔ اس لیے کہ قصاص کا اسم ان دونوں میں سے ہر ا کی کو شامل ہے او یہ بات آیت کے حکم کیی منافی نہییں ہے۔ لیکن اگر ان دونوں کو یکجا کردیا جائے تو پھر یکجا طور پر ان کا مراد ہونا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں بات قصاص اور مثل کی حد سے آگے نکل جائے گی۔ بلکہ اس سے زائد ہوگی۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ آیت کی ایسے معنی پر تاویل جائز ہی نہیں ہوتی جو آیت کی ضد ہو اور اس کے حکم کی نفی کرتی ہو۔ اسی بنا پر سر کچلنے یا پانی میں ڈبونے یا قید میں بھوکا رکھنے کے بعد تلوار کے ذریعے قتل کرنے کا مفہوم مراد لینا ممتنع ہوگیا۔ - سفیان ثوری نے جابر بن ابی عازب سے اور انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قصاص صرف تلوار کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ یہ حدیث دو معنوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے آیت میں مذکور قصاص اور مثل کی مراد کا بیان ہوگیا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ ابتدا ایسا عموم ہے جس کے ذریعے تلوار کے بغیر قصاص لینے کی نفی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے یحییٰ بن ابی انیسہ نے الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روای کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زخمویں کا اس وقت قصاص نہیں لیاجائے گا جب تک وہ بھر نہ جائیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہمارے مخالف کے قول کی نفی کرتا ہے، وہ اس طرح کہ اگر یہ بات واجب ہوتی کہ مجرم کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے جرم کا شکار ہونے والے کے ساتھ کیا تھا، تو پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں استثناء کی ضرورت نہ رہتی۔ جب استثناء کا ثبوت ہوگیا۔ تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ زخم کے حکم کا اعتبار اس کے انجام کے لحاظ سے کیا جائے۔ اگر کہا جائے کہ یحییٰ بن ابی انیسہ کی روایت اس قابل نہیں کہ اس سے استدلال کیا جاسکے تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ جاہلوں کا قول ہے۔ ایسے جاہلوں کی جرح و تعدیل قابل التفات نہیں ۔ احادیث قبول کرنے میں فقہاء کا بھی یہ طریق کار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں علی المدینی نے ذکر کیا ہے کہ یحییٰ بن سعید نے فرمایا ” زہری سے حدیث روایت کرنے کے سلسلے میں مجھے یحییٰ بن ابی انیسہ کی روایت محمد بن اسحاق کی روایت سے زیادہ پسند ہے۔ ایک اور حدیث زیر بحث مسئلے میں ہماری بات پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی روایت خالد الحداء نے ابو قلابہ سے، انہوں نے ابو الاشعث سے اور انہوں نے حضرت شداد بن اوس (رض) سے کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سبحانہ نے ہر چیز کے کرنے میں احسان یعنی عمدہ طریق کار کو اپنانا فرض کردیا ہے، اس لیے اگر تم (قصاص میں کسی کو ) قتل کرو تو طریقہء قتل کو عمدہ رکھو اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔ اس حدیث کے الفاظ کا عموم اس امر کا موجب ہے کہ جو شخص کسی کو قصاص میں قتل کرے تو اسے تمام طریقوں میں سے بہتر ، آسان اور سہل طریقے سے قتل کرے۔ یہ بات کسی کو اذیتیں دے کر قتل کرنے، نیز اس کا مثلہ کرنے کی نفی کرتی ہے۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی جانور کو تیروں کا ہدف بنا کر کھڑا کرنے کی ممانعت کی ہے۔ یہ بات قصاص میں قاتل کو تیروں کے ذریعے ہلاک کرنے کی ممانعت کرتی ہے۔ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ القسم بن معن، شریک بن عبداللہ کے ساتھ کسی بادشاہ کے پاس گئے۔ بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ : آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو کسی کو تیار مار کر دے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ : قاتل کو تیر مار کردیا جائے گا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اگر وہ پہلے تیر سے نہ مرے تو کیا کیا جائے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس پر دوسرا تیر چلایا جائے ، اس پر بادشاہ نے کہا کہ اس طرح آپ اسے تیروں کا ہدف بنا کر کھڑا کردیں گے، حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو کسی جانور کو بھی تیروں کا ہدف بنا کر کھڑا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ سن کر شریک نے کہا : بادشاہ کو بیوقوف نہ بنایا جاسکا۔ اس پر ابوالقسم نے ان سے کہا : ابو عبداللہ، یہ ایسا میدان ہے جس میں ہم اگر تم سے آگے نکلنے کی کوشش کریں تو تم آگے نکل جائو۔ ان کی مراد شریک کا مزاحیہ انداز کلام تھا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ - زیر بحث مسئلے میں ہماری بات پر اس حدیث سے بھی دلالت ہوتی ہے جس کی روایت حضرت عمران بن حصین (رض) اور دیگر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت سمرہ بن جندب (رض) نے کہا کہ : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب کبھی خطبہ دیا تو اس میں ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا۔ یہ ایک ثابت شدہ حدیث ہے اسے فقہا نے بھی قبول کر کے اس پر عمل بھی کیا ہے۔ یہ حدیث قاتل کا مثلہ کرنے سے روکتی ہے جبکہ ہمارے مخالفین کے قول میں قاتل کا مثلہ موجود ہے اور یہ قول قصاص کے ایجاب اور مثل کے استیفاء کے سلسلے میں آیت کی مراد کو کسی اور رخ پر موڑ دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قصاص ایسی صورت کے اندر منحصر ہے جو مثلہ کی موجب بنے اور آیت پر ایسے طریقے سے عمل کیا جائے جو حدیث کے مفہوم کے خلاف نہ ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرنیین کا مثلہ کیا تھا۔ ان کے ہاتھ پائوں قطع کر کے نیز ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر انہیں مقام حرہ میں چھوڑ دیا تھا جہاں وہ سب کے سب مرگئے۔ پھر آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے کا حکم منسوخ ہوگیا کیونکہ آپ نے مثلہ کرنے سے روک دیا تھا اس بنا پر ضروری ہوگیا کہ قصاص کی آیت کو ایسے معنی پر محمول کیا جائے جس میں مثلہ کی صورت نہ ہو ( عرنیین کا واقعہ بہت مشہور ہے اور اہل علم اس سے آگاہ ہیں) ۔ ہمارے مخالفین نے زیر بحث مسئلے میں اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے ہم نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی نے ایک بچے کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے۔ یہ حدیث اگر ثابت بھی ہوجائے تو مثلہ کے حکم کی منسوخی کی بنا پر منسوخ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ مثلہ کی منسوخی پر سب کا عمل ہے اور اس طرح سے قصاص لینے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے اور قاعدہ ہے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو حدیثیں منقول ہوں اور سب لوگ ان میں سے ایک حدیث پر عمل پیرا ہوجائیں اور دسوری حدیث پر عمل کے بارے میں ان میں اختلاف رائے ہو تو اس صورت میں متفق علیہ حدیث مختلف فیہ حدیث پر فیصلہ کن حیثیت رکھے گی خواہ وہ عام ہو یا خاص۔ اس کے ساتھ مذکورہ حدیث کے بارے میں یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ مذکورہ یہودی کا قتل حد کے طور پر بھا جس طرح شعبہ نے ہشام بن زید سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی کے ساتھ زیادتی کی اس نے اس کے پازیب اتار لیے اور اس کا سر کچل دیا۔ لونڈی کے لواحقین اس لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ اس وقت لونڈی آخری سانس لے رہی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا : تمہیں کس نے قتل کیا ؟ فلاں نے ؟ اس نے اپنے سر کے اشارہ سے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فلاں نے ؟ لونڈی نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں حکم جاری کیا اور اس کا سر دو پتھروں کی درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ یہودی کو حداً قتل کیا گیا تھا کیونکہ اس نے مال بھی لیا تھا اور قتل بھی کیا تھا۔ مثلہ کے طور پر ایسا کرنا جائز تھا جس طرح عرنیین کی آنکھوں میں سلائی پھیری گئی تھی پھر مثلہ سے نہی کی بنا پر ایسا کرنا منسوخ ہوگیا۔ - ابن جریح نے معمر سے، انہوں نے ایوب سے انہوں نے ابوقلابہ سے اور انہوں نے حضرت انس سے روایت بیان کی ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی سے اس کے زیورات چھیننے کے لیے اس کا سر کچل دیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ اسے سنگسار کردیا جائے یہاں تک کہ ہلاک ہوجائے۔ اس حدیث میں رجم کا ذکر ہے اور رجم سب کے نزدیک قصاص نہیں ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ مذکورہ یہودی نے نقض عہد کر کے دارالحرب میں پناہ لے لی ہو کیونکہ اس وقت یہودیوں کے ٹجکانے مدینہ منورہ سے قریب تھے، اس کے بعد پھر وہ پکڑا گیا ہو اور اسے اس بنا پر قتل کردیا گیا ہو کہ وہ عہد توڑنے والا حربی تھا جس پر ایک بچے کے قتل کا الزام تھا کیونکہ یہ بات تو درست نہیں ہے کہ مذکورہ قتل اس عورت کی طرف سے اس اشارے اور ایماء کی بنا پر ہوا تھا کہ اس نے اسے قتل کیا ہے اس لیے کہ یہ امر سب کے نزدیک اس شخص کے قتل کو واجب نہیں کرتا جس کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ یقینا کوئی اور سبب ہوگا جس کی وجہ سے مذکورہ یہودی گردن زدنی قرار پایا۔ ہم نے بیان کردیا ہے کہ قصاص سے مراد یہ ہے کہ قاتل کی جان آسان ترین طریقے سے تلف کردی جائے۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص کسی کے حلق میں اس قدر شراب انڈیل دے کہ وہ مرجائے تو قاتل کے حلق میں اسی طرح شراب انڈیلنا جائز نہیں ہوگا بلکہ اسے تلوار ک ذریعے قتل کردیا جائے گا۔ اگر کہا جائے کہ مذکورہ صورت میں شراب اس لیے اس کے حلق میں نہیں انڈیلی جائے گی کہ شراب نوشی معصیت ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اسی طرح مثلہ بھی تو معصیت ہے۔ - وصیت کے وجوب کا بیان - ارشاد باری ہے : کتب علیکم اذا حضراحد کم الموت ان ترک خیرا ن الوصیۃ للوالدین والا قربین بالمعروف حقا علی المتقین ( تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر) - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف سے مروی روایات میں اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری : خیراً سے مال مراد ہے، البتہ جس مال میں اللہ تعالیٰ نے وصیت واجب کی ہے اس کی مقدار کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ یاد رہے کہ ایسا وقت بھی گزرا ہے جس وصیت فرض تھی ۔ کیونکہ قول باری : کتب علیکم کے معنی ہیں ، تم پر فرض کردیا گیا جس طرح یہ قول ہے : کتب علیکم الصیام ( تم پر روزے فرض کر دئیے گئے) نیز : ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابا موتوتا ( نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کردیا گیا) حضرت علی سے مروی ہے کہ وہ اپنے ایک بیمار آزاد شدہ غلام کے پاس عیادت کے لیے گئے۔ اس کے پاس چھ یا سات سو درہم تھے، اس نے پوچھا کہ میں اس کی وصیت نہ کر جائوں ؟ حضرت علی (رض) نے نفی میں جواب دیا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے : ان نرک خیراً اور تمہارے پاس کثیر مال نہیں ہے۔ حضرت علی (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ چار ہزار درہم اور اس سے کم رقم نفقہ ہے یعنی انہیں روز مرہ کے اخراجات پر خرچ کیا جائے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ آٹھ سو درہموں میں کوئی وصیت نہیں۔ ایک عورت ک اپن مال میں وصیت کا ارادہ کیا۔ اس کے خاندان والوں نے اسے اس بات سے روکا اور کہا کہ اس کی اولا ہے اور اس کا تھوڑا سا مال ہے۔ جب یہ معاملہ حضرت عائشہ (رض) کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ عورت کے کتنے بچے ہیں ؟ جواب ملا کہ چار بچے ہیں۔ پھر پوچھا کہ اس کے پاس کتنا مال ہے ؟ تو عرض کیا گیا کہ تین ہزاردرہم ۔ یہ سب کر حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : اس ملا میں کوئی کثرت نہیں ہے۔ - ابراہیم نحفی کا قول ہے کہ پانچ سو سے لے کر ہزار درہم تک ہمام نے قتادہ سے قول باری : ان ترک خیراً کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ : کہا جاتا تھا کہ بہترین مال ایک ہزار اور اس سے زائد درہم ہے، زہری نے کہا ہے کہ : اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس پر مال کے اسم کا اطلاق کیا جاسکے خواہ وہ تھوڑا ہو زیادہ۔ مذکورہ بالا تمام حضرات نے مال کی مقدار کی تفسیر اسحباب کے طور پر کی ہے، مذکورہ مقداروں کے ایجاب کے طور پر نہیں کی۔ ان حضرات نے اپنے اپنے اجتہاد سے کام لے کر ان مقادیر کا ذکر کیا ہے ۔ انہوں نے مال کو خیر کی صفت لاحق ہونے کے سلسلے میں اجتہاد سے کام لیا ہے۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ اگر کوئی شخص ایک درہم چھوڑ جائے تو عرف میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے خیر چھوڑا ہے۔ جب مال کو خیر کا نام دینا عرف اور عادت پر موقوف ہے۔ اس بارے میں اندازہ لگانے کا طریقہ اجتہاد اور غالب ظن ہے، جبکہ یہ بات بھی معلوم ہے کہ تھوڑی مقدار کو خیر کا نام نہیں دیا جاتا بلکہ کثیر مقدارکو یہ نام دیا جاتا ہے تو اس تسمیہ کا طریقہ اجتہاد اور غالب ظن ہوگا۔ اس کے ساتھ ان حضرات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کی معرفت بھی حاصل تھی کہ تہائی مال، اور تہائی کثیر ہے۔ اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جانا اس بات سے بہتر ہے کہ تم انہیں تنگدست چھوڑ کر جائو کہ اپنے گزارے کے لیے یہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ زیر بحث آیت میں مذکور وصیت کے بارے میں اختلاف رائے ہے کہ آیا یہ واجب تھی یا نہیں، کچھ حضرات کا قول ہے کہ یہ واجب نہیں تھی، بلکہ یہ مستحب تھی۔ اس کی بس ترغیب دی گئی تھی۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ یہ فرض تھی اور پھر منسوخ ہوگئی۔ ان کے درمیان یہ اختلاف بھی ہے کہ اس کا کتنا حصہ منسوخ ہوا ہے۔ جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ وصیت واجب نہیں تھی ، ان کا استدلال ہے کہ آیت کے سیاق اور اس کے مضمون کے اندر اس کے وجوب کی نفی کی دلالت موجود ہے۔ یہ وہ ارشاد باری ہے : الوصیۃ للوالدین و الاقربین بالمعروف جب آیت میں بالمعروف کا لفظ ذکر ہوا تیز یہ بیان ہوا کہ یہ متقی لوگوں پر ہے تو اس کے عدم وجوب پر تین وجوہ سے دلالت ہوگئی۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ قول باری : بالمعروف ایجاب کا مقتضی ہے۔ دوسری وجہ قول باری : علی المتقین ہے۔ ہر شخص پر یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ متقی لوگوں میں ہے۔ تیسری وجہ متقین کے ساتھ اس کی تخصیص ہے۔ کیونکہ واجبات کے سلسلے میں متقی اور غیر متقی کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں وصیت کے وجوب کی نفی پر کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ وصیت کا معروف طریقے کے تحت ایجاب اس کے وجوب کی نفی نہیں کرتا۔ اس لیے کہ معروف کا مفہوم وہ اعتدال ہیجس میں نہ تو کسی تقصیر کا وجود ہو اور نہ ہی کسی زیادتی کا جس طرح یہ قول باری ہے : وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف ( اس صورت میں بچے کے باپ کو معرفو طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہوگا) اس کھانے اور کپڑے کے وجوب کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح قول باری ہے و عاشروھن با معروف ( اور معروف طریقے سے ان کے ساتھ زندگی گزارو) معروف واجب ہی ہے۔ ارشاد باری ہے : والمر بالمعروف وانہ عن المنکر ( اور بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو) نیز ارشاد ہے : یامرون بالمعروف ( معروف کا حکم دیتے ہیں) اس لیے وصیت کے ایجاب کے سلسلے میں معروف کا ذکر وصیت کے وجوب کی نفی نہیں کرتا، بلکہ اس کے وجوب کو اور موکد بناتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ سبحان کے تمام اوامر معروف ہیں منکر نہیں ہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ معروف کی ض منکر ہے اور جو چیز معروف نہیں ہے وہ منکر ہے اور منکرمذموم ہے اور اس سے روکا گیا ہے اس لیے معرفو واجب قرار پائے گا۔ قول باری : حقاً علی المتقین کے اندر وصیت کے ایجاب کی تاکید ہے کیونکہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ متقی بنیں۔ چناچہ ارشاد باری ہے : یایھا الذین امنو اتقو ( اے ایمان والو متقی بنو) اہل اسلام کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تقویٰ فرض ہے۔ جب اللہ سبحان نے مذکورہ فرضیت کی تنقید کو تقویٰ کی شرط قرار دی تو گویا اس کے ایجاب کی وضاحت کردی۔ متقین کے ساتھ اس کی تخصیص کے اندر اس کے وجوب کی نفی پر کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ اس کے اندر بس اتنی ہی بات ہے کہ آیت متقین پر وصیت کے وجود کی مقتضی ہے۔ اس میں غیر متقین سے وصیت کی نفی کی بات نہیں ہے جس طرح قول باری : ھدیً للمتقین کے اندر اس بات کی نفی نہیں ہے کہ یہ کتاب ، یعنی قرآن مجید غیر متقین کے لیے ہدایت بن جائے جب آیت کے مقتضا کے تحت متقین پر وصیت واجب ہوگئی۔- تو دوسروں پر بھی اس کا وجوب ہوگیا، متقین کے ساتھ اس وجوب کی تخصیص کا فائدہ یہ ہے کہ وصیت کرنا تقویٰ کی نشانی ہے اور لوگوں پر چونکہ لازم ہے کہ و سب کے سب متق بنیں۔ اس لیے ان پر وصیت کا فعل لازم ہے۔ وصیت کے ایجاب اور اس کی فرضیت کی تاکید پر زیر بحث آیت کی دلالت واضح ہے اس لیے قول باری : کتب علیکم کے معنی ہیں تم پر فرض کردی گئی یعنی وصیت جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں پھر قول : بالمعروف حقا علی المتقین کے ذریعے اسے اور مئوکد کردیا۔ وجوب کے الفاظ میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو قائل کے اس قول سے بڑھ کر موکد ہو کہ یہ تم پر حق ہے۔ الفاظ کے اندر اس وجوب کی متقین کے ساتھ تخصیص تاکید کے طور پر ہے جیسا کہ ہم ابھی اوپر بیان کر آئے ہیں۔ اس کے ساتھ اہل تفسیر سلف کا اس امر پر اتفاق ہے کہ زیر بحث آیت کے ذریعے و صیت کا وجوب ہوا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی حدیثیں بھی اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ وصیت واجب تھی۔ عبدالباقی بن قاتع نے روایت بیان کی ۔ ان سے سلیمان بن افضل بن جبریل نے ، ان سے عبداللہ بن ایوب نے ان سے عبدالوہاب نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی مومن کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ تین راتیں گزارے مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس ہو۔ ہمیں عبدالباقی ہی نے روایت بیان کی، ان سے بشر بن موسیٰ نے ، ان سے الحمیدی نے، ان سے سفیان نے، ان سے ایوب نے کہ میں نے نافع کو حضرت ابن عمر (رض) سے نقل کرتے ہوئے سنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : کسی مسلمان کا جس کے پاس مال ہو اور اس نے اس مال میں وصیت کی ہو، یہ حق نہیں ک اس دو راتیں گزر جائیں مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو۔ اسی حدیث کی روایت ہشام بن الغازی نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں گزراے مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو۔ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں ک وصیت واجب تھی لیکن جو حضرات ابتداء میں اس کے وجوب کے قائل ہیں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ ان میں سے ایک گروہ کا قول ہے کہ زیر بحث آیت میں وصیت کے ایجاب کی تمام باتیں منسوخ ہوگئیں۔ ان حضرات میں حضرت ابن عمر (رض) بھی شامل ہیں۔ ابو محمد جعفر بن محمد بن احمد الواسطی نے روایت بیان کی ہے، ان سے ابو الفضل جعفر بن محمد بن الیمان المئودب نے، ان سے ابوعبید القاسم بن سلام نے ، ان سے حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء الخراسانی سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ قول باری : ان ترک خیر ن لوصیۃ للوالدین والا اقربین کو اس آیت سے منسوخ کردیا ہے : للرجال نصیب مما ترک الوا لوالدان و الاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان و الاقربون مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا ( مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے) ابن جریج ن عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری : ان ترک خیراً کی تفیسر میں نقل کیا ہے کہ اس سے وہ لوگ منسوخ ہوگئے جو وارث قرار پائے ہیں اور وارث قرار نہ پانے والے منسوخ نہیں ہوئے۔ اس بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی دونوں روایتوں میں اختلاف ہے۔ ایک روایت میں ذکر رہے کہ تمام لوگ منسوخ ہوگئے اور دوسری میں ہے کہ وارث قرار پانے والے رشتہ دار منسوخ ہوگئے اور وارث قرار نہ پانے والے رشتہ دار منسوخ نہیں ہوئے۔ - ابو محمد جعفر بن محمد نے روایت بیان کی ہے ان سے ابوالفضل المئودب نے ، ان سے ابو عبید نے، ان سے ابو مہدی نے عبداللہ بن المبارک سے، انہوں نے عمارہ ابو عبدالرحمن سے کہ میں نے عکرمہ کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ قول باری : ان ترک خیر ن الوصیۃ للوالدین والاقربین کو فرائض کی آیت نے منسوخ کردیا ہے۔ ابن جریج نے مجاہد سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ولد کے لیے میراث تھی اور والدین نیز رشتہ داروں کے لیے وصیت تھی، یہ اب منسوخ ہے۔ دوسرے گروہ کا قول ہے کہ وصیت والدین اور رشتہ داروں کے لیے واجب تھی ، پھر ان لوگوں کے حق میں منسوخ ہوگئی جو وارث قرار پائے اور اسے والدین کے لیے نیز وارث نہ بننے والے رشتہ داروں کے لیے خاص کردیا گیا۔ یہ روایت یونس اور اشعث نے حس بصری سے کی ہے۔ حسن بصری ، جابر بن زید اور عبدالملک بن یعلیٰ سے اس شخص کے متعلق مروی ہے جو غیر رشتہ دار کے لیے وصیت کرے جبکہ اس کا ایسا رشتہ دار بھی موجود ہو جو وارث نہ بن رہا ہو ۔ ایسی صورت میں موصی کے تہائی مال کے دو حصے رشتہ داروں کو مل جائیں گے اور ایک حصہ غیر رشتہ دار کو، جبکہ اس صورت کے متعلق طائوس کا قول ہے کہ ساری وصیت رشتہ داروں کی طرف لوٹا دی جائے گی۔ ضحاک کا قول ہے کہ وصیت صرف رشتہ دار کے حق میں ہوگی الا یہ کہ اس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو۔ تیسرے گروہ کا قول ہے کہ وصیت فی الجملہ رشتہ داروں کے لیے واجب تھی۔ لیکن موصی پر لازم نہیں تھا کہ وہ تمام رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے۔ بلکہ اسے صرف قریبی رشتہ داروں پر اقتصار کرنے کی اجازت تھی۔ دور کے رشتہ داروں کے رشتہ دار اپنی اصلی حالت پر باقی رہ گئے یعنی ان کے لیے وصیت کرنا بھی جائز تھا اور ترک وصیت کا بھی جواز تھا۔ جو حضرات وصیت کے نسخ کے قائل ہیں ان کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ کس آیت کے ذریعے وصیت کا یہ حکم منسوخ ہوا۔ ہم نے حضرت ابن عباس (رض) اور عکرمہ سے نقل کردیا کہ آیت مواریث نے وصیت کو منسوخ کردیا۔ حضرت ابن عباس (رض) عنہنے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ قول باری : للرجان نصیب مما ترک الوالدان تا آخر آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ بعض حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ نے وصیت کے حکم کو منسوخ کیا ہے۔ یہ حدیث شہر بن جو شب نے عبدالرحمن بن عثمان سے ، انہوں نے حضرت عمر بن خارجہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وارث کے لیے کوء وصیت نہیں۔ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ اسماعیل بن عیاش نے شرجیل بن مسلم سے روایت بیان کی ہے کہ میں نے حضرت ابو امامہ (رض) کو کہتے سنا تھا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجۃ الوداع کے خطبے میں فرماتے سنا تھا کہ : لوگو، اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ اس لیے اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ حجاج بن جریج نے عطاء الحراسانی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں الا یہ کہ باقی ماندہ ورثا اسے برقرار رکھیں۔ یہ حدیث صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے۔ اسے حجاج نے ابو اسحاق سے انہوں نے الحارث سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا کہ : کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ عبداللہ بن بدر نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ : کسی وارث کے لیے کوئی وصیت جائز نہیں۔ اس مسئلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول یہ حدیث جس کا ورود ان جہادت سے وا ہے ہمارے نزدیک درجہ تواتر میں ہے۔ - اللہ سبحانہ کی طرف سے ورثا کے لیے میراث کا ایجاب وصیت کے نسخ کا موجب نہیں بن سکتا۔ کیونکہ وصیت اور میراث دونوں کا اجتماع جائز ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وارث کے لیے وصیت کو اس صورت میں جائز قرار دیا ہے جب باقیماندہ ورثاء اس کی اجازت دے دیں، اس لیے ایک ہی شخص کے حق میں وصیت اور میراث کا اجتماع محال نہ ہوتا۔ اگر آیت میراث کے سوا اور کچھ نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں اللہ سبحانہ نے وصیت کی تنقید کے بعد میراث کی تقسیم کا حکم دیا ہے، تو پھر اس بات میں مانع کون سی چیز ہے کہ ایک شخص کو وصیت سے اس کا حصہ دے دیا جائے اور پھر میراث میں اس کا حصہ اسے مل جائے۔ امام شافعی نے ” کتاب الرسالۃ “ میں کہا ہے کہ احتمال تھا کہ آیت مواریث وصیت کی ناسخ ہو اور یہ بھی احتمال تھا کہ آیت مواریث کے ساتھ وصیت بھی ثابت رہے۔ پھر جب مجاہد کے واسطے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ رایت منقول ہوئی کہ : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ تو ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی اس روایت کے ذریعے جو منقطع ہے یہ استدلال کیا کہ آیت مواریث والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کے حکم کی ناسخ ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی نے وصیت اور میراث کے اجتماع کے احتمال کی بات تسلیم کی ہے۔ اس لیے جب آیت مواریث کے نزول کے اندر ایسی بات نہیں ہے جو وارث کے لیے وصیت کے نسخ کی موجب بن سکے تو یہی کہا جائے گا کہ وصیت میراث کی بنا پر منسو، نہیں ہوئی کیونکہ ان دونوں کے اجتماع کا جواز موجود ہے۔ نیز مذکورہ بالا حدیث امام شافعی کے نزدیک ثابت شدہ بھی نہیں ہے کیونکہ وہ ایک منقطع سند کے واسطے سے منقول وئی ہے، حالانکہ وہ حدیث مرسل کو بھی قبول نہیں کرتے خواہ اس کا ورود اتصال اور تواتر کی جہت سے کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس منقطع حدیث کے ذریعے آیت کے حکم کو ختم کردیا حالانکہ ان کے نزدیک سنت کے ذریعے قرآن کا نسخ جائز نہیں ہے تو پھر ضروری ہے کہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کا حکم ثابت رہے اور اسے منسوخ قرار نہ دیا جائے کیونکہ اس حکم کو منسوخ کرنے والی کوئی چیز وارد نہیں ہوئی۔ - امام شافعی نے کہا ہے کہ : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان چھ غلاموں کے بارے میں جنھیں ایک ایسے شخص نے آزاد کردیا تھا جس کے پاس ان غلاموں کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا، یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا کہ ان کے تین حصے کر کے ان میں سے دو کو آزاد قرار دیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا ۔ جس شخص نے انہیں آزاد کیا تھا وہ ایک عرب تھا اور اہل عرب صرف ان عجمیوں کے مالک ہوتے ہیں جن کی ان سے کوئی رشتہ داری نہ ہو، اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے وصیت جائز قرار دے دی۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر غیر رشتہ داروں کے لیے وصیت باطل وتی تو آزادہ شدہ غلاموں کے لیے بھی یہ باطل ہوجاتی کیونکہ وہ میت کے رشتہ دار نہیں تھے۔ اور والدین کی وصیت باطل ہوجاتی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی کے درج بالا کلام میں ظاہری طور پر ابڑا اختلال ہے ان کے اصولوں پر اس کا انتقاض ہوجاتا ہے۔ اختلال کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ : عرب کے لوگ صرف ان عجمیوں کے مالک ہوتے ہیں جن سے ان کی کوئی رشتے داری نہ ہو۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ ایک عرب کی ماں عجمی ہوسکتی ہے۔ ان صورت میں ماں کی طرف سے اس کے تمام رشتہ دار عجمی ہوں گے۔ ایسی صورت میں اگر مریض غلام آزاد کرے تو اس کی دی ہوئی آزادی اس کے اقرباء کے لیے وصیت قرار پائے گی۔ - اسے ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ آیت مواریث نے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کے حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ تو یہ نسخ صرف ان رشتہ داروں کے بارے میں ہوگا جو ارث بن رہے ہوں لیکن غیر وارث رشتہ داروں کا جہاں تک تعلق ہے تو میراث کے اثبات میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ان کے حق میں وصیت کا حکم منسوخ کرنے کی موجب بن جائے۔ امام شافعی کے درج بالا قول کی اصل پر انتقاص کی صورت یہ ہے کہ انہوں نے رشتہ داروں کے لیے وصیت کو منسوخ کرنے کا ایجاب حضرت عمران بن حصین (رض) کی روایت کردہ حدیث سے کیا ہے جس میں ایک مریض کا اپنے غلاموں کو آزاد کرنے کا ذکر ہے، حالانکہ امام شافعی کی بیان کردہ ایک اصل یہ ہے کہ قرآن کو سنت کے ذریعے منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ صدر اول کے بزرگوں اور تابعین کی ایک جماعت سے غیروں کے لیے وصیت کے جواز کی روایت منقول ہے، نیز یہ کہ ایسی وصیت اسی طور پر نافذ العمل ہوجاتی ہے جس طور پر موصی نے وصیت کی ہو۔ مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اپنی ام ولد لونڈیوں کے لیے وصیت کی تھی اور یہ وصیت فی ام ولد چار ہزار درہم کے حساب سے تھی۔ حضرت عائشہ (رض)، ابرہیم نخعی ، سعید بن المسیب ، سالم بن عبداللہ ، عمرو بن دینار اور زہری سے منقول ہے کہ موصی کی وصیت اسی طرح نافذ ہوگی جس طرح اس نے کی ہے۔ تابعین کے عصر کے بعد آنے والے فقہاء کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوگیا تھا کہ رشتہ داروں اور غیر رشتہ داروں دونوں کے لیے وصیت جائز ہے۔ - ہمارے نزدیک والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کو جس قول نے منسوخ کردیا وہ آیت موریث کے سیاق میں اللہ سبحانہ کا یہ ارشاد ہے : من بعد وصیۃ یعصی بھا او دین (اس وصیت کے بعد جو کی گئی ہو یا دین کے بعد) اللہ سبحانہ نے مطلق صورت میں وصیت کی اجازت دے دی اور اسے صرف رشتہ داروں تک محدود نہیں رکھا کہ غیر رشتہ دار اس میں شامل نہ ہو سکیں۔ اس حکم میں والدین اور رشتہ داروں کے یے وصیت کے نسخ کا ایجاب موجوجد ہے، اس لیے کہ ان کے حق میں وصیت فرض تھی اور اس آیت میں ان کے حق میں وصیت ترک کرنے اور غیروں کے لیے وصیت کرنے کی اجازت ہے، نیز باقیماندہ ترکہ کو ورثاء کے مقرر شدہ حصوں کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم ہے۔ یہ بات صری اسی وقت درست ہوسکتی ہے جب والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کو منسوخ قرار دیا جائے۔ اگر کہا جائے کہ یہ احتمال ہ کہ اللہ سبحانہ نے آیت مواریث میں مذکورہ وصیت اور اس کے بعد مواریث کے ایجاب سے وہ وصیت مراد لی ہو جو والدین اور رشتہ داروں کے لیے واجب ہے۔ اس صورت میں وصیت کا حکم ان رشتہ داروں کے لیے ثابت رہے گا جو وارث نہ بن رہے ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اس بنا پر غلط ہے کہ اللہ سبحانہ نے اس مقام پر وصیت کو اسم نکرہ کی صورت میں مطلق رکھا ہے جو جنس کے اندر اس کے شیوع کا مقتضی ہے۔ کیونکہ اسماء نکرہ کا یہی حکم ہے۔ جبکہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے مذکورہ وصیت اسم معرفہ کی صورت میں ہے۔ اس لیے اسے اس کی طرف موڑ دینا جائز نہیں ہوگا۔ اللہ سبحانہ اس کا ارادہ فرماتا تو ارشاد ہوتا : من بعد الوصیۃ تا کہ کلام اس معرف و معہود وصیت کی طرف راجع ہوجاتا جس کا علم پہلے سے تھا۔ جس طرح یہ قول باری ہے : والذین یرمون المحصینات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ( جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ پیش نہیں کرتے انہیں ( اسی ) کوڑے لگائو) پھر دوسری آیت میں جب ان ہی گواہوں کا ارادہ فرمایا تو ارشاد ہوا : فان لم یاتوا بالشھر رآء ( اگر وہ یہ گواہ پیش نہ کرسکے) یہاں گواہوں کا ذکر معرف باللام کی شکل میں ہوا کیونکہ ان سے مراد وہی گواہ تھیجن کا پہلے ذکرہو چکا تھا۔ اس لیے جب آیت مواریث میں وصیت کا ذکر اسم نکرہ کی شکل میں ہوا تو اس سے ثابت ہوگیا کہ یہاں وہ وصیت مراد نہیں ہے جس کا ذکر والدین اور رشتہ داروں کے سلسلے میں ہوا ہے، بلکہ یہ مطلق ہے اور تمام لوگوں کے لیے جائز ہے، سوائے ان لوگوں کے جنہیں سنت یا اجماع نے خاص کردیا ہے، یعنی وارث کے لیے وصیت یا قاتل وغیرہما ک لیے وصیت اس بات کے اندر والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کی منسوخی موجود ہے۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن نے قول باری : الوصیۃ للوالدین والاقربین سے استدلال کیا ہے کہ ماں باپ، رشتہ داروں میں شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ کسی اور کے ذریعے اپنی اولاد کی طرف منسوب نہیں ہوتے، بلکہ اولاد کے ساتھ ان کی رشتہ داری بذات خود ہوتی ہے۔ جبکہ ان کے سوا باقی تمام رشتہ دار دوسروں کے ذریعے منسوب ہوتے ہیں۔ اس لیے قریبی رشتہ دار وہ ہیں جو کسی اور کے ذریعے قریب ہوئے ہوں۔ امام صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے صلبی بیٹا بھی اقرباء میں شامل نہیں ہے، کیونکہ وہ بذات خود اپنے والد کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اسی بنا پر امام محمد کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص خاندان کے اقربا کے لیے وصیت کرے تو اس وصیت میں اس کا بیٹا داخل نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا باپ۔ بلکہ اس میں پوتا اور دادا داخل ہوں گے۔ نیز اس کا بھائی اور اسی طرح کے دوسرے رشتہ دار۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک اس کی طرف یک واسطے کے ذریعے منسوب ہوتا ہے۔ ویسے اقرباء کے مفہوم میں اختلاف رائے ہے۔ واللہ اعلم۔ - وصیت میں عزیزوں کی رائے کا احترام - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماقبل بیان کے ذریعے ورثا کے حق میں وصیت کا نسخ واضح کردیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں الا یہ کہ دیگر ورثاء اسے برقرار رکھیں، یعنی اس کی اجازت دے دیں۔ اس حدیث میں یہ بات بیان کردی گئی ہے کہ مورث کی وفات کے بعد ان کی اجازت معتبر ہوگی کیونکہ اس کی زندگی میں مذکور ورثا درحقیقت وارث قرار نیہں پائے ہوں گے۔ انہیں ورثاء ہونے کی صفت موری کی وفات کے بعد ہی حاصل ہوگی۔ اس لیے اگر کوئی وارث وصیت کو بھی دے تو اس کی یہ اجازت باطل ہوگی کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں میں عموم ہے۔ اس حدیث میں یہ دلالت موجود ہے کہ جب دیگر ورثاء اس وصیت کی اجازت دے دیں تو یہ بات ان کی طرف سے کسی ایسے بہ کی بات نہیں ہوگی جسے نئے سرے سے عمل میں لایا گیا ہو اور اس ک نتیجے میں اس وصیت پر ہمہ کے احکام جاری ہوں، یعنی قبضہ اور حوالگی کی اس میں شرط لگائی جائے نیز قابل تقسیم ہونے کی صورت میں شیوع اور اشتراک کی نفی کردی جائی اور اس میں رجوع کی گنجائش بھی رکھی جائے وغیرہ وغیرہ، بلکہ مذکورہ وصیت کو جائز وصایا کے احکام پر محمود کیا جائے گا، اس امر پر محمول نیہں کیا جائے گا کہ اجازت دینے والے ورثاء کی طرف سے یہ ہبہ ہے۔ اس حدیثر میں ایسے عقود کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے جو موقوف صورت میں ہوں اور ان کی اجازت دینے والا بھی کوئی موجود ہو۔ کیونکہ میت نے ایسے مال پر عقد وصیت کیا تھا جو وصیت کے وقوع کے وقت وارث کا مال تھا۔ ایسی وصیت کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وارث کی اجازت پر موقوف رکھا ہے۔ اس لیے یہ بات اس امر کی بنیاد بن گئی کہ اگر کوئی شخص کسی غیر کے مال کے سلسلے میں بیع کا عقد کرلے یا عتق یا رہن یا ہبہ یا اجارہ وغیرہ کا عقد کرلے، تو ی عقد مال کے مالک کی اجازت پر موقوف ہوگا کیونکہ یہ ایسا عقد ہوگا جس کا ایک مال ہے۔ جو اس عقد کی ابتداء اور اس کے ایقاع کا مالک ہے۔ اس حدیث میں اس امر پر بھی دلالت موجود ہے کہ اگر موصی تہائی سے زائد کی وصیت کرے گا تو یہ وصیت ورثاء پر موقوف ہوگی جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وصیت کو دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف رکھا ہے جو کسی وارث کے حق میں کی گئی ہو۔ یہ تمام معانی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیر بحث حدیث : کسی وارت کے لیے کوئی وصیت نہیں ، اِلا یہ ک دیگر ورثاء اس کی اجازت دے دیں کے ضمن میں موجود ہیں۔ اگر ایک شخص اپنے تہائی مال سے زائد کی وصیت کر دے اور موصی کے ورثاء اس کی موت سے اس وصیت کی اجازت دے دیں تو اس کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر، حسن بن صالح اور عبید اللہ بن الحسن نے فرمایا ہے ک اگر ورثا موصی کی زندگی میں اس کی اجازت دے دیں تو یہ وصیت جائز نہیں ہوگی۔ حتیٰ کہ اس کی موت ک بعد وہ اس کی اجازت دے دیں۔ - اسی طرح کا قول حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی سے بھی منقول ہے ابن ابی لیلیٰ اور عثمان البتی کا قول ہے کہ موصی کی وفات کے بعد ورثا کو اس وصیت سے رجوع کرنے کا حق نہیں ہوگا اور یہ وصیت ان پر نافذ ہوجائے گی۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ اگر وصیت کنندہ اپن ورثاء سے وصیت کی اجازت لے چکا ہو تو ایسے وارثوں کو اس وصیت سے رجوع کرنے کا حق نہیں ہوگا جو اس سے بائن اور جدا ہوچکے ہوں، مثلاً بیٹا جو اپنے باپ سے جدا ہوچکا ہو، نیز بھائی اور چچا زاد بھائی جو اس کے عیال میں شامل نہ ہو۔ لیکن اس کی بیوی اور بیٹیاں جو اس سے علیحدہ نہ ہوئی ہوں، نیز ہر وہ فرد جو اس کے عیاں میں ہو خواہ ابھی بالغ نہ ہوا ہو۔ ان سب کو مذکورہ وصیت سے رجوع کرلینے کا حق ہوگا۔ اسی طرح چچا اور چچا کا بشٹا نیز وہ رشتہ دار جسے یہ خوف ہو کہ اگر وہ مذکورہ وصیت کی اجازت نہ دے تو اجازت کا طلبگار موصی جو ابھی بیمارے تندرست ہونے کے بعد اس کا نفقہ بند کر دے گا، ایسے افراد بھی مذکورہ وصیت سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ اگر مریض مورث اپنے ورثا سے کسی وارت کے حق میں وصیت کرنے کی اجازت طلب کرے اور وہ اسے اس کی اجازت دے دیں تو پھر انہیں اس وصیت کے کسی حصے سے بھی رجوع کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اگر اس نے حالت صحت میں ان سے اجازل لی ہو تو اس صورت میں اگر وہ چاہیں تو مذکورہ وصیت سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ان کی اجازت صرف موصی کی بیماری کی حالت میں جائزہو گی۔ کیونکہ ووہ اس وصیت کے ذریعے اپنے مال سے ان ک حق کو محروم کر دے گا اس لیے یہ وصیت ان پر نافذ ہوجائے گی۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں الا یہ کہ دیگر ورثا اس کی اجازت دے دیں کا عموم ہر حالت میں وصیت کے جواز کی نفی کرتا ہے ۔ جب اس عموم کی تخصیص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد الا یہ کہ دیگر ورثا اس کی اجازت دے دیں، کے ذریعے کردی اور دوسری طرف مذکورہ ورثاء موصی کی وفات کے بعد ہی حقیقت میں ورثا بنیں گے اس سے پہلے نہیں۔ تو پھر عموم سے مخصوص شدہ صورت موت کے بعد ورثا کی اجازت کی صورت میں ہوگی۔ اس کے علاوہ دیگر صورتیں وصیت کی باقیماندہ صورتوں کے عموم پر محمول ہوگی۔ نظر یعنی عقلی استدلال بھی اس پر دلال ہے۔ کیونکہ مورث کی زندگی میں ورثا مال کے مالک نہیں ہوتے اس لیے اس مال کے سلسلے میں ان کی اجازت کوئی عمل نہیں کرے گی جس طرح ان کی طرف سے اس مال کا ہبہ اور اس کی بیع جائز نہیں۔ اگر اس ک بعد موت واقع ہوجائے تو اجازت اور بھی زیادہ دور چلی جائے گی۔ چونکہ موصیٰ لہ ( وہ شخص جس کے حق میں وصیت کی گئی ہو) ک لیے وصیت کا وقوع موصی کی موت کے بعد ہوگا۔ اسی طرح اجازت کا حکم بھی ہوگا کہ وہ وصیت کے وقوع کی حالت میں دی گئی ہو، نیز یہ کہ وصیت کے وقوع سے پہلے اجازت کوئی عمل نہیں کرتی، نیز جب میت کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اندر وصیت کو باطل کر دے حالانکہ وہ مالک ہوتا ہے، تو ورثا کو اس اجازت سے رجوع کرلینے کا زیادہ حق ہوگا جو انہوں نے دی تھی۔ جب ان کے لیے اجازت سے رجوع کرلینا جائز ہوگا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اجازت درست نہیں ہے۔ - اگر کہا جائے کہ موصی ، یعنی مورث کے مال کے اندر اس کی بیماری کی وجہ سے ورثاء کا حق ثابت ہوجاتا ہے اور اسی لیے اسے اپنے مال میں تہائی سے زائد میں تصرف کرنے سے روک دیا جاتا ہے جس طرح کے بعد یہ تصرف ممنوع ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگر ورثا وصیت کی اجازت دے چکے ہوں تو ان پر اس اجازت کے لزوم کے باب میں موصی کی بیماری کی حالت کو موت کی حالت شمار کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک مریض کا اپنے پورے مال کے اندر، ہیمہ، صدقہ عتق اور تصرفات کی دیگر تمام وجوہ کے ذریعے تصرف کرنا جائز ہوتا ہے۔ اس کی موت کے بعد ان تصرفات میں سے صرف وہی صورتیں منسوخ قرار پاتی ہیں جو تہائی سے زائد ہوں، کیونکہ موت کے بعد ورثاء کے حق کا ثبوت ہوجاتا ہے لیکن موت سے پہلے مذکورہ مال کے سلسلے میں کسی وارث کے قول کے اعتبار نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مورث کی موت سے پہلے اس کے عقود کو وارث فسخ نہیں کرسکتا۔ یہ حق اس کے لیے مورث کی موت کے بعد اس وقت ثابت ہوتاے جب اس کے مال میں اس کا حق ثابت ہوجائے ۔ اسی طرح مورث کی موت سے پہلے وارث کی وہی ہوئی اجارت کالعدم ہوتی ہے جس طرح مورث کی موت سے پہلے وارث کی طرف سے اس کے عقود کا فسخ کالعدم ہوتا ہے۔ مورث کی طرف سے اپنا ورثا سے وصیت کی اجازت مانگنے پر اجازت نہ دینے کی صورت میں مورث کی طرف سے کسی ضرر کے لاحق ہونے کا اندیشہ کونے والے ورثا اور اندیشہ نہ کرنے والے ورثا کے درمیان امام مالک نے جو فرق رکھا ہے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ اس کی طرف سے ضرر کا خطرہ وارث کے عقود کی صحت کے لیے مانع نہیں ہے کیونکہ یہ خطرہ وارث کے اندر مکرہ راء کے زبر کے ساتھ) کی صفت پیدا نہیں کرے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وارث مورث کے مطالبہ پر کوئی چیز اس کے ہاتھ فروخت کر دے اور پھر کہے کہ : اگر میں اس کی بات قبول نہ کرتا تو مجھے خطرہ تھا کہ کہیں وہ میرا خرچ بند نہ کر دے “۔ تو اس کی یہ بات مذکورہ بیع کے ابطال کے لیے عذر نہیں بن سکتی۔ اسی طرح اگر مریض مورث اپنے وارث سے کوئی چیز ہبہ کے طور پر طلب کرے اور وہ اسے ہبہ کر دے، تو اس کی بات نہ ماننے کی صورت میں وارث کو لاحق ہونے والے ضرر کا اندیشہ اس کے اس ہبہ پر کسی طرح اثر انداز نہیں وہ گا اور اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جسے مورث کی طرف سے کسی ضرر کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ اس لیے عتق کے ایجاب کے سلسلے میں خرچ اور وظیفہ بند ہوجانے کے ضرر کے اندیشے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اور اس لحاظ سے ان لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا جو مورث کے عیال میں شامل ہوں یا اس کے عیاں میں شامل نہ ہوں۔ واللہ الموفق۔
(١٨١۔ ١٨٠) مرتین وقت اگر تم مال چھوڑو تو رشتہ داروں اور والدین کے لیے زیادہ اللہ تعالیٰ نے تم پر وصیت کو فرض کیا ہے، یہ آیت بھی آیت میراث کے ساتھ منسوخ ہے اور جو شخص میت کی وصیت میں تبدیلی کرے تو اس کا گناہ تبدیلی کرنے والوں پر ہے اور وصیت کرنے والا اس گناہ سے بری ہے اللہ تعالیٰ مرنے والے کی وصیت اور اس کی گفتگو کو سننے والا اور اگر کوئی ظلم کرے یا انصاف سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے ،- اور ایک یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کے فعل سے باخبر ہے چناچہ ورثا عذاب کے ڈر سے جس طرح وصیت ہوتی تھی اسی طریقہ سے اسے نافذ کرتے تھے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرما دی۔
آیت ١٨٠ (کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ ا ج الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بالْمَعْرُوْفِ ج) ۔ - ابھی قانون وراثت نازل نہیں ہوا تھا ‘ اس ضمن میں یہ ابتدائی قدم اٹھایا گیا۔ دورِجاہلیت میں وراثت کی تقسیم اس طرح ہوتی تھی ‘ جیسے آج بھی ہندوؤں میں ہوتی ہے ‘ کہ مرنے والے کی ساری جائیداد کا مالک بڑا بیٹا بن جاتا تھا۔ اس کی بیوی ‘ بیٹیاں ‘ حتیٰ کہ دوسرے بیٹے بھی وراثت سے محروم رہتے۔ چناچہ یہاں وراثت کے بارے میں پہلا حکم دیا گیا کہ مرنے والا والدین اوراقرباء کے بارے میں وصیت کر جائے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ پھر جب سورة النساء میں پورا قانون وراثت آگیا تو اب یہ آیت منسوخ شمار ہوتی ہے۔ البتہ اس کے ایک جزو کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باقی رکھا ہے کہ مرنے والا اپنے ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت کرسکتا ہے ‘ اس سے زیادہ نہیں ‘ اور یہ کہ جس شخص کا وراثت میں حق مقرر ہوچکا ہے ‘ اس کے لیے وصیت نہیں ہوگی۔ وصیت غیر وارث کے لیے ہوگی۔ مرنے والا کسی یتیم کو ‘ بیوہ کو ‘ کسی یتیم خانہ کو یا کسی دینی ادارے کو اپنی وراثت میں سے کچھ دینا چاہے تو اسے حق حاصل ہے کہ ایک تہائی کی وصیت کر دے۔ باقی دو تہائی میں لازمی طور پر قانونی وراثت کی تنفیذ ہوگی۔ - (حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ) ۔ - ان پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ وصیت کر جائیں کہ ہمارے والدین کو یہ مل جائے ‘ فلاں رشتہ دار کو یہ مل جائے ‘ باقی جو بھی ورثاء ہیں ان کے حصے میں یہ آجائے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :182 یہ حکم اس زمانے میں دیا گیا تھا ، جبکہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہوا تھا ۔ اس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے ۔ بعد میں جب تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود ایک ضابطہ بنا دیا ( جو آگے سُورہ نساء میں آنے والا ہے ) ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام میراث کی توضیح میں حسب ذیل دو قاعدے بیان فرمائے: ایک یہ کہ اب کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا ، یعنی جن رشتے داروں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں ، ان کے حصوں میں نہ تو وصیت کے ذریعے سے کوئی کمی یا بیشی کی جاسکتی ہے ، نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جا سکتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ وصیت کل جائداد کے صرف ایک تہائی حصے کی حد تک کی جا سکتی ہے ۔ ان دو تشریحی ہدایات کے بعد اب اس آیت کا منشا یہ قرار پاتا ہے کہ آدمی اپنا کم از کم دو تہائی مال تو اس لیے چھوڑ دے کہ اس کے مرنے کے بعد وہ حسب قاعدہ اس کے وارثوں میں تقسیم ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال کی حد تک اسے اپنے ان غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنی چاہیے ، جو اس کے اپنے گھر میں یا اس کے خاندان میں مدد کے مستحق ہوں ، یا جنہیں وہ خاندان کے باہر محتاج اعانت پاتا ہو ، یا رفاہ عام کے کاموں میں سے جس کی بھی وہ مدد کرنا چاہے ۔ بعد کے لوگوں نے وصیت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعموم وصیت کا طریقہ منسوخ ہی ہو کر رہ گیا ۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے ، جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے ۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے ، تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں ، جو میراث کے بارے میں لوگوں کو الجھن میں ڈالتے ہیں ۔ مثلاً ان پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں ۔
112: یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مرنے والے کے ترکے میں وارثوں کے حصے متعین نہیں ہوئے تھے، چنانچہ سارا ترکہ مرنے والے کے لڑکوں کو مل جاتا تھا، اس آیت نے یہ فرض قرار دیا کہ ہر انسان مرنے سے پہلے اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرکے جائے اور یہ واضح کرے کہ ان میں سے کس کا کتنا حصہ دیا جائے گا، بعد میں سورۂ نساء کی آیات نمبر ١١ تا ٤١ میں تمام وارثوں کی تفصیل اور ان کے حصے خود اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمادئیے، اس کے بعد جس کا اس آیت میں ذکر ہے وہ فرض تو نہیں رہی، البتہ اگر کسی شخص کے ذمے کوئی حق ہو تو اس کی وصیت کرنا اب بھی فرض ہے، نیز جو لوگ شرعی اعتبار سے وارث نہیں ہیں ان کے لئے اپنے ترکے کے ایک تہائی کی حد تک وصیت کرنا اب بھی جائز ہے۔