182۔ 1 جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتہ دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور اثمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے تو مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل و انصاف کا اہتمام ضروری ہے ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب اس کے اخروی نجات کے نقط نظر سے سخت خطرناک ہے۔
[ ٢٢٨] ہاں اگر معلوم ہوجائے کہ مرنے والے نے وصیت کرنے میں غلطی کی، خواہ وہ دیدہ دانستہ تھی۔ یا نادانستہ یا کسی کی طرفداری کر گیا تو اس میں وارثوں کے صلاح مشورہ سے تبدیلی کی جاسکتی ہے بلکہ ولی یا بااختیار وارث کو ایسی ترمیم ضرور کردینا چاہیے۔ اس طرح ممکن ہے کہ وصیت کرنے والے کا گناہ بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًـا فَاَصْلَحَ بَيْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ١٨٢ ۧ- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - جنف - أصل الجَنَف ميل في الحکم، فقوله تعالی: فَمَنْ خافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفاً [ البقرة 182] ، أي : ميلا ظاهرا، وعلی هذا : غَيْرَ مُتَجانِفٍ لِإِثْمٍ [ المائدة 3] ، أي : مائل إليه .- ( ج ن ف ) الجنف اس کے اصل معنی فیصلہ ہیں ایک طرف مائل ہونے ( یعنی جانبداری یا ظلم کرنے ) کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ فَمَنْ خافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفاً [ البقرة 182] اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے ( کیس وارث کی ) طرفداری کا اندیشہ ہو ۔ میں صریح طور پر جانبداری مراد ہے اسی طرح فرمایا : ۔ غَيْرَ مُتَجانِفٍ لِإِثْمٍ [ المائدة 3] دبشر طی کہ ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
وصیت میں ظلم کا علم ہوجائے تو وہ کیا کریں - ارشاد باری ہے : فمن خاف من موص جنفا او اثما فاصلح بینھم فلا اثم علیہ ( البتہ جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصداً حق تلفی کی ہے اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن محمد اسحاق نے الحسن بن ابی ربیع سے، ان سے عبدالرزاق نے اور ان سے معمر نے قتادہ سے قول باری : فن خاف من موص جنفاً او اثما کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو وصیت کرے، لیکن اپنی وصیت میں حق تلفی سے کام لے اور پھر ولی اس وصیت کو حق اور انصاف کی طرف لوٹا دے۔ ابو جعفر الرازی نے رلربیع بن انس سے نقل کیا ہے جنف خطا اور اثم عمد کے معنوں میں ہے ۔ ابن ابی البخیح نے مجاہد سے اور ابن طائوس نے اپنے والد سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ اس سے مراد وہ موصی ہے جو اپنے نواز سے کے لیے وصیت کرے اور ارادہ یہ ہو کہ اس طرح یہ وصیت اس کی بیٹی کو مل جائے ۔ المعتمر بن سلیمان نے اپنے والے سے، انہوں نے حسن بصری سے اس شخص کے بارے میں روایت بیان کی ہے جو اقارب کو نظر انداز کر ک اباعد کے لیے وصیت کرے۔ انہوں نے کہا کہ اسے چاہیے کہ اپنی وصیت کے دو تہائی حصے اقارب کے لیے رکھے اور ایک تہائی اباعد کے لیے۔ طائوس سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو اباعد کے لیے وصیت کرے ، اسے چاہیے کہ ان سے یہ وصیت لے کر اقارب کے حوالے کر دے الا یہ کہ اباعد میں کوئی شخص فقیر ہو۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جنف غلطی اور نادانستہ طور پر حق سے ہٹ جانے کو کہتے ہیں۔ ہم نے اوپر الربیع بن انس سے جنف کے معنی خطا اور غلطی نقل کئے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ان کی مراد غلطی کی بنا پر حق سے ہٹ جانا ہو۔ اثم عمداً اور قصداًٰ حق سے ہٹ جانے کا نام ہے۔ یہی تاویل درست ہے حسن بصری نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ وصیت ان رشتہ داروں کے لیے ہونی چاہیے جو وارث نہ بن رہے ہوں۔ طائوس نے اس کی تاویل دو معنوں پر کی ہے۔ ایک تو یہ ک اباعد کے لیے وصیت کی جائے ایسی صورت میں یہ وصیت اقارت کی طرف لوٹا دی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے نواسے کے لیے وصیت کرے اور اس کا ارادہ ہو کہ یہ وصیت اس کی بیٹی کو مل جائے ، حالانکہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کا وجوب منسوخ ہوچکا ہے۔ قول باری : ثمن خاف من موص جنفا او اثما۔ اس امر کا موجب نہیں ہے کہ یہ حکم اس وصیت تک محدود رہے جس کا ذکر اس سے پہلے ہوچکا ہے کیونکہ آیت ایک مستقل بنفسہ کلام ہے اور اس کے ساتھ خطاب کی ابتدا درست ہے نیز یہ اپنے ما قبل کے ضمن میں نہیں ہے۔ یہ وصیت کی تمام صورتوں کے لیے عام ہے، جبکہ ان ک ذریعے انصاف سے ہٹ کر ظلم اور جور کی طرف میلان کا اظہار کیا گیا ہو، یہ اس وصیت کو بھی شامل ہے جو والدین اور رشتہ داروں کے لیے اسی وقت واجب تھی جب اس کا وجوب باقی تھا اور اس کے سوا دیگر وصیتوں کو بھی شامل ہے۔ اس لیے عوام الناس میں سے جو شخص بھی کسی وصیت کنندہ کے اندر حق و انصاف سے ہٹ جانے اور ظلم و جور کی طرف میلان محسوس کرے ۔ اس پر واجب ہوگا کہ وہ اسے عدل و انصاف کی راہ دکھائے اور اپنی اصلاح کرنے کی طرف اس کی توجہ مبذول کرائے۔ اس کام کے ساتھ شاہد یا وصی یا حاکم مختص نہیں ہیں، بلکہ تمام لوگ اس میں داخل ہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب سے ہے۔ اگر کہا جائے کہ قول باری : فمن خاف من موص جنافا او اثما کا کیا مفہوم ہے جبکہ خوف صرف اس امر کے ساتھ مختص ہوتا ہے جس کا مستقبل میں وقوع ممکن ہو۔ ماضی سے تعلق رکھنے والے کسی امر کے ساتھ خوف وابستہ نہیں ہوتا۔ - اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ متعلقہ شخص کے سامنے موصی کی کچھ ایسی حرکات ظاہر ہوگئی ہوں جنہیں دیکھ کر اس کا غلب گمان یہ ہو کہ وہ جو رکا ارادہ رکھتا ہے اور میراث کو ورثا کے حوالے کرنا نہیں چاہتا۔ اس بنا پر جس شخص کو یہ اندیشہ ہو اس پر لازم ہوگا کہ وہ موصی کو انصاف برتنے پر مائل کرے اور اسے ظلم وجور ک بُرے انجام سے ڈرائے یا اصلاح کی نیت سے موصی لہ، اور ورثا کے درمیان آ کر معاملہ درست کر دے۔ ایک قول باری : فمن خاف کے معنی یہ ہیں کہ اسے علم ہوجائے کہ وصیت کے اندر جور کا پہلو موجود ہے اور پھر وہ اسے انصاف کی طرف لوٹا دے۔ اللہ سبحانہ نے فلا اثمہ علیہ فرمایا اور یہ نہیں فرمایا کہ وصیت کو عدل اور صلاح کی طرف لوٹا دے۔ نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کے لیے ثواب کے استحقاق کا ذکر کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جھگڑے کے دونوں فریقوں کے درمیان اصلاح کی نیت سے مداخلت کرنے والے کے اکثر احوال یہ ہوتے ہیں کہ انہیں ہر فریق کو سمجھانا پڑتا ہے، وہ اپے دعوے اور حق کا کچھ حصہ دوسرے فریق کی خاطر چھوڑ دے۔ ایسی صورت میں اصلاح کرنے والے کے ذہن میں بعض دفعہ یہ بات آ جاتی ہے کہ اسے ایسا کرنا نہیں تھا نیز یہ وجہ بھی ہے کہ وہ اکثر حالات میں اپن غالب ظن کی بنیاد پر اصلاح کا مذکورہ کام سرانجام دیتا ہے اور اس کا یہ عمل حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ سبحانہ نے فریقین کے درمیان اصلاح احوال کی خاطر مداخلت کرنے کی رخصت دے دی اور مصلح کے ذہن میں بیٹھے ہوئے اس ظن کو دور کردیا کہ اس کے لیے اس اقدام کا جواز ممتنع ہے۔ اسی بنا پر فرمایا : فلا اثم علیہ دوسرے مقام پر اس جیسے اقدام پر ثواب کا وعدہ کیا گیا، چناچہ ارشاد ہے : لا خیر فی کثیر من نجواھم الا من امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس ، ومن یفعل ذلک ابتغاء مرضات اللہ فسوف نوتیہ اجراً عظیما ( لوگوں کی خفیہ سرگوشیوں میں اکثر و بیشتر کوئی بھلائی نہیں ہوتی ، ہاں اگر کوئی پوشیدہ طور پر صدقہ و خیرات کی تلقین کرے یا کسی نیک کام کے لیے یا لوگوں کے معاملات میں اصلاح کرنے کے لیے کسی سے کچھ کہے تو ی البتہ بھلی بات ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرے گا اسے ہم بڑا اجر عطا کریں گے۔ وصیت کے اندر جنف یعنی حق اور انصاف سے ہٹ کر اقدام کرنے کی سنگینی کے سلسلے میں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، ان سے احمد بن الحسن نے، ان سے عبدالصمد بن حسان نے ان سے سفیان ثوری نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ انہوں نے فرمایا : وصیت کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانا کبیرہ گناہوں میں شالم ہے، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ( یہ اللہ کی مکر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا) عبدالباقی ن ہی روایت بیان کی، ان سے القاسم بن زکریا اور محمد اب اللیث نے ، ان سے عبداللہ بن یوسف نے، ان سے عمر بن المغیرہ نے دائود بن ابی ہند سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وصیت کے ذریعے نقصان پہنچانا کبائر میں سے ہے۔ عبدالباقی نے رواییت بیان کی کہ ان سے طاہر بن عبدالرحمن بن اسحق القاضی نے، ان سے یحییٰ بن معین نے، ان سے عبدالرزاق نے، ان سے معمر نے اشعث سے، انہوں نے شہر بن حوشب سے اور انہوں نے حضرت ابوہرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک شخص ستر برسوں تک خبتیوں والے عمل کرتا ہے۔ پھر جب وصیت کرتا ہے تو اپنی وصیت میں ظلم کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اپنے بدترین عمل پر اس کا خاتمہ لکھ دیا جاتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص ستر برسوں تک جہنمیوں والے کام کرتا ہے پھر وہ اپنی وصیت کے اندر انصاف سے کام لیتا ہے اور پھر اپنے بہترین عمل پر اس کا خاتمہ لکھ دیاجاتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ محمد بن بکر نے روایت بیان کی، ان سے ابودائود نے ، ان سے عبدہ، بن عبداللہ نے، ان سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے، ان سے نصر بن علی الحدانی نے، ان سے الاشعث بن جابر نے، ان سے شہر بن حوشب نے، ان سے حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مرد اور عورت دونوں ساٹھ برسوں تک اللہ کی اطاعت میں عمل کرتے رہتے ہیں، پھر دونوں کی موت کا وقت آ جاتا ہے اور وہ وصیت کے اندر ضرر رسانی کرتے ہیں اور ان کے لیے آگ ( جہنم) واجب ہوجاتی ہے۔ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ آیت پڑھی : من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین غیر مضار ( جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوریکر دی جائے اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے ، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو) اور : ذلک الفوز العظیم ( اور یہی بڑی کامیابی ہے) - یہ حدیثیں اور ان کے ساتھ دیگر اقوال و آثار جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اس شخص پر جسے کسی وصیت کنندہ کی وصیت میں حق اور انصاف سے ہٹ جانے کا علم ہوجائے یہ امر واجب کردیتے ہیں کہ وہ اسے انصاف کی طرف لوٹائے، اگر اس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری : بینھم میں ضمیر کا مرجع کون بنے گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اللہ سبحان، نے موصی کا ذکر فرمایا تو اس خطاب کے ضمن میں یہ بات آگئی کہ ایک موصی لہ ہوگا اور ورثا ہوں گے اور ان کے مابین تنازعہ ہوگا تو ان کے درمیان اصلاح کرانے کی بنا پر ضمیر کا مرجع مذکورہ افراد بنیں گے۔ فراء نے یہ شعر پڑھے تھے۔ - وما ادری اذا یممت ارضا ارید الخیر ایھما یلینی - الخیر الذی انا ابتغیہ ام الشوالذی ھو یبتغینی - ( جب میں خیر کے ارادے سے کسی سرزمین کا قصد کرتا ہوں تو میں نہیں جانتا کہ کو نسی چیز مجھے ملے گی۔ آیا وہ خیر جس کی تلاش میں میں یا وہ شر جو میری تلاش میں ہے۔ شاعر نے پہلے شعر میں صرف خیر کآذکر کیا لیکن اس کے ساتھ خیر اور شر دونوں کے لیے ضمیر لے آیا کیونکہ خیر کے ذکر کی بنا پر اس لفظ کے ضمن میں شر پر بھی دلالت موجود تھی۔ ایک قول کے مطابق ضمیر ان لوگوں کی طرف عائد ہے جن کا ذکر ابتدائے خطاب میں ہوا ہے، یہ افراد والدین اور رشتہ دار ہیں۔ اس آیت نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہی، حاکم ، وارث اور ہر اس شخص پر جسے وصیت کے اندر ظلم اور جور کا علم ہوجائے خواہ یہ ظلم نا دانتہ طور پر ہوا، ہو یا دانستہ طور پر، لازم ہے کہ وہ مذکورہ وصیت کو انصاف کی طرف لوٹا دے۔ نیز یہ دلالت بھی موجود ہے کہ قول باری : فمن بدلہ بعد ما سمعہ عدل و انصاف پر مبنی وصیت کے ساتھ خاص ہے اور ناانصافی پر مبنی وصیت اس میں داخل نہیں ہے۔ اس میں اجتہاد رائے اور ظن غالب پر عمل کے جواز پر بھی دلالت ہے کیونکہ حق و انصاف سے ہٹ جانے کا اندیشہ خائف کے ظن غالب پر مبنی ہوگا۔ آیت میں فریقین کے درمیان اصلاح کی نیت سے مداخلت کرنے کی بھی رخصت ہے اور اس سلسلے میں فریقین کی باہمی رضا مندی سے اصل حق میں جو کمی بیشی کی جائے اس کی بھی اجازت ہے۔ واللہ الموفق۔
(١٨٢) اور جس شخص نے مرنے والے کی طرف سے وصیت میں کسی طرف مائل ہونے اور غلطی کا علم اور یا وہ جان بوجھ کر کسی جانب مائل ہو پھر وہ شخص وارثوں اور اس شخص کے درمیان جس کے حق میں وصیت کی گئی ہو (جس کے لیے وصیت) صلح کرا دے، تو اس تبدیلی میں اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں اور اگر میت زیادتی اور غلطی کرے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے اور جس وقت وہ تہائی مال میں وصیت نافذ کرے یا عدل و انصاف کے ساتھ تقسیم کرے تو اللہ تعالیٰ مہربانی کرنے والا ہے۔
آیت ١٨٢ ( فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا) - اگر کسی کو یہ اندیشہ ہو اور دیانت داری کے ساتھ اس کی یہ رائے ہو کہ وصیت کرنے والے نے ٹھیک وصیت نہیں کی ‘ بلکہ بےجا جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے یا کسی کی حق تلفی کر کے گناہ کمایا ہے ۔- (فَاَصْلَحَ بَیْنَہُمْ ) - اس طرح کے اندیشے کے بعد کسی نے ورثاء کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ دیکھو ‘ ان کی وصیت تو یہ تھی ‘ لیکن اس میں یہ زیادتی والی بات ہے ‘ اگر تم لوگ متفق ہوجاؤ تو اس میں اتنی تبدیلی کردی جائے ؟- (فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ط) ۔ - یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ اس وصیت کو ایسا تقدس حاصل ہوگیا کہ اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ‘ بلکہ باہمی مشورے سے اور اصلاح کے جذبے سے وصیت میں تغیر و تبدل ہوسکتا ہے
114: مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی وصیت کرنے والا ناانصافی سے کام لے اور کوئی اسے سمجھابجھا کر اپنی وصیت میں مرنے سے پہلے پہلے تبدیلی کرنے پر آمادہ کردے تو یہ جائز ہے۔