अलबत्ता जिसको वसीयत करने वाले के मुतअल्लिक़ यह अंदेशा हो कि उसने जानिबदारी या गुनाह किया है और वह आपस में सुलह करा दे तो उस पर कोई गुनाह नहीं; अल्लाह माफ़ करने वाला, रहम करने वाला है।
پھرجوکوئی وصیّت کرنے والے سے کسی قسم کی طرف داری یاگناہ سے ڈرے، پس وہ اُن کے درمیان اصلاح کردے تو اس پرکوئی گناہ نہیں،یقینااﷲ تعالیٰ بے حدبخشنے والا،نہایت رحم والاہے۔
جس کو کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی بے جا جانب داری یا حق تلفی لا اندیشہ ہو اور وہ آپر میں صلح کرادے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ۔ بیشک اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
اب جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی ( وارث ) کی حق تلفی یا گناہ کا خوف محسوس کرے اور ان ( ورثہ ) کے درمیان اصلاح ( سمجھوتہ ) کرا دے ، تو اس پر ( اس ردوبدل کرنے کا ) کوئی گناہ نہیں ہے ۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصداً حق تلفی کی ہے ، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے ، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے ، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ ؏۲۲
پس جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کی ناجائز طرف داری یا گناہ کا خوف ہو تو وہ ان لوگوں ( وصیت کرنے والا اور اس کے رشے دار جن کے لیے وصیت کی جارہی ہے ) کے درمیان صلح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ، بے شک اﷲ ( تعالیٰ ) بہت بخشنے والے بڑے رحم والے ہیں ۔
ہاں اگر کسی شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ کوئی وصیت کرنے والا بے جا طرف داری یا گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے ، اور وہ متعلقہ آدمیوں کے درمیان صلح کرا دوے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ( ١١٤ ) بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔
اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے نا دانستہ یادانستہ طرفداری کاخطرہ ہو اور وہ وارثوں میں صلح کرادے تواس پر گناہ نہیں بیشک اللہ بڑابخشنے والانہایت رحم والا ہے
پھر جسے اندیشہ ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ بے انصافی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلح کرادی اس پر کچھ گناہ نہیں ( ف۳۲۳ ) بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
پس اگر کسی شخص کو وصیّت کرنے والے سے ( کسی کی ) طرف داری یا ( کسی کے حق میں ) زیادتی کا اندیشہ ہو پھر وہ ان کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے