مکمل اطاعت ہی مقصود ہے اللہ تعالیٰ اپنے اوپر ایمان لانے والوں اور اپنے نبی کی تصدیق کرنے والوں سے ارشاد فرماتا ہے کہ وہ کل احکام کو بجا لائیں کل ممنوعات سے بچ جائیں کامل شریعت پر عمل کریں سلم سے مراد سلام ہے اطاعت اور صلح جوئی بھی مراد ہے کافۃ کے معنی سب کے سب پورے پورے پورے ، عکرمہ کا قول ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام اسد بن عبید ثقلیہ وغیرہ جو یہود سے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی ہمیں ہفتہ کے دن کی عزت اور راتوں کے وقت توراۃ پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے جس پر یہ آیت اتری کہ اسلامی احکام پر عمل کرتے رہو ، لیکن اس میں حضرت عبداللہ کا نام کچھ ٹھیک نہیں معلوم وہ اعلیٰ عالم تھے اور پورے مسلمان تھے انہیں مکمل طور پر معلوم تھا کہ ہفتہ کے دن کی عزت منسوخ ہو چکی ہے اس کے بجائے اسلامی عید جمعہ کے دن کی مقرر ہو چکی ہے پھر ناممکن ہے کہ وہ ایسی خواہش میں اوروں کا ساتھ دیں ، بعض مفسرین نے کافۃ کو حال کہا ہے یعنی تم سب کے سب اسلام میں داخل ہو جاؤ ، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے یعنی اپنی طاقت بھر اسلام کے کل احکام کو مانو ، حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ بعض اہل کتاب باوجود ایمان لانے کے توراۃ کے بعض احکام پر جمے ہوئے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ محمدی دین میں پوری طرح آجاؤ اس کا کوئی عمل نہ چھوڑو توراۃ پر صرف ایمان رکھنا کافی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرتے رہو شیطان کی نہ مانو وہ تو برائیوں اور بدکاریوں کو اور اللہ پر بہتان باندھنے کو اکساتا ہے اس کی اور اس کے گروہ کی تو خواہش یہ ہے کہ تم جہنمی بن جاؤ وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے ۔ اگر تم دلائل معلوم کرنے کے بعد بھی حق سے ہت جاؤ تو جان رکھو کہ اللہ بھی بدلہ لینے میں غالب ہے نہ اس سے کوئی بھاگ کر بچ سکے نہ اس پر کوئی غالب ہے اپنی پکڑ میں وہ حکیم ہے اپنے امر میں وہ کفار پر غلبہ رکھتا ہے اور عذروحجت کو کاٹ دینے میں حکمت رکھتا ہے ۔
208 ا۔ 1 اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اس طرح نہ کرو جو باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں ان پر تو عمل کرلو دوسرے حکموں کو نظر انداز کردو اس طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کردی گئی اور آجکل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لئے تیار نہیں بلکہ دین کو عبادت یعنی مساجد تک محدود کرنا اور سیاست اور ایوان حکومت سے دین کو نکال دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے جو رسوم و رواج اور علاقائی ثقافت و روایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج وغیرہ اور یہ کہا جارہا ہے کہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو جو تمہیں مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لیے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا ہے برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین میں پھنسے رہو۔
[٢٧٦] یعنی تمہارے عقائد، تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے تمہارے رسم و رواج اور تمہاری کاروباری زندگی سب کچھ ہی اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہونا چاہیے کہ دعویٰ تو اسلام کا کرو اور اپنا معاشی نظام روس سے مستعار لے لو اور سیاسی نظام انگریز سے۔ یا مسجد میں تو تم اللہ کو یاد کرو اور کاروبار کرتے وقت اللہ یاد ہی نہ رہے۔ اور ناجائز طریقوں سے کمائی کرنا شروع کردو یا ڈھنڈورا تو اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیٹتے جاؤ اور سب بدعات میں حصے دار بنتے رہو۔ یا لا الہ الا اللہ کا ورد بھی کرتے رہو اور پیروں اور بزرگوں سے استمداد بھی طلب کرتے رہو۔ غرض یہ ہے کہ تمہاری زندگی کا ہر ہر پہلو اسلام کے تابع اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں گزرنا چاہیے اور اگر اپنے آپ کو پورے کا پورا اسلام کے تابع نہیں بناؤ گے تو اسی کا نام شیطان کے قدموں کی پیروی ہے جو ہر وقت تمہارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے، تمہیں غلط اور گمراہ کن عقائد میں مبتلا اور برے کاموں کو خوشنما بنا کر ان پر آمادہ کرنے کے لیے مستعد رہتا ہے۔
مخلص مومن کی مدح و ستائش کے بعد تمام مومنوں کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی پورے اسلام اور ساری شریعت پر چلو، یہ نہیں کہ اسلام کے کچھ احکام پر عمل کرلیا، باقی چھوڑ دیے۔ نماز روزہ کی پابندی کرلی اور عقیدے میں شرک، تجارت میں سود، عدالتوں میں غیر اللہ کا قانون، معاشرت میں ہندو، نصرانی، یہودی تہذیب اختیار کیے رکھی اور اسے زمانے کا تقاضا اور ترقی پسندی قرار دے لیا۔ یہود کی رسوائی کا باعث بھی یہی طرز عمل تھا، جیسا کہ فرمایا : (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۚ ) [ البقرۃ : ٨٥ ]” پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ “ اس میں وہ مسلمان بھی شامل ہیں جو کسی دوسرے دین سے نکل کر اسلام میں آئے، مگر انھوں نے اپنے سابقہ دین کی رسوم کو باقی رکھا، جیسے غیر مسلموں کی شادی و مرگ کی رسمیں اور بدعات و رسوم جو سراسر اسلام کے منافی ہیں، یا مسلمان ہو کر بھی انھوں نے اپنے روزمرہ کے پہلے طور طریقوں کو نہ چھوڑا۔
ربط آیات :- اوپر مخلص کی مدح تھی بعض اوقات اس اخلاص میں غلطی سے غلو اور افراط ہوجاتا ہے یعنی قصد تو ہوتا ہے زیادہ اطاعت کا مگر وہ اطاعت بنظر غائر حد شریعت وسنت سے متجاوز ہوتی ہے اس کو بدعت کہتے ہیں، چناچہ حضرت عبداللہ بن سلام وغیرہ جو پہلے علماء یہود سے تھے اور اس مذہب میں ہفتہ کا روز معظم تھا اور اونٹ کا گوشت حرام تھا ان صاحبوں کو بعد اسلام کے یہ خیال ہوا کہ شریعت موسوی میں ہفتہ کی تعظیم واجب تھی اور شریعت محمدی میں اس کی بےتعظیمی واجب نہیں اسی طرح شریعت موسویہ میں اونٹ کا گوشت کھانا حرام تھا اور شریعت محمدی میں اس کا کھانا فرض نہیں سو اگر ہم بدستور ہفتہ کی تعظیم کرتے رہیں اور اونٹ کا گوشت باوجود حلال اعتقاد رکھنے کے صرف عملاً ترک کردیں تو شریعت موسویہ کی بھی رعایت ہوجاوے اور شریعت محمدیہ کے بھی خلاف نہ ہوگا اور اس میں خدا تعالیٰ کی زیادہ اطاعت اور دین کی زیادہ رعایت معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس خیال کی اصلاح آیت آئندہ میں کسی قدر اہتمام سے فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اسلام کامل فرض ہے اور اس کا کامل ہونا جب ہے کہ جو امر اسلام میں قابل رعایت نہ ہو اس کی رعایت دین ہونے کی حیثیت سے نہ کی جاوے اور ایسے امر کو دین سمجھنا ایک شیطانی لغزش ہے اور بہ نسبت ظاہری معاصی کے اس کا عذاب زیادہ سخت ہونے کا خطرہ ہے۔- خلاصہ تفسیر :- اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو (یہ نہیں کہ کچھ یہودیت کی بھی رعایت کرو) اور ایسے خیالات میں پڑکر) شیطان کے قدم بقدم مت چلو واقعی وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (کہ ایسے پٹی پڑھا دیتا ہے کہ ظاہر میں تو سراسر دین معلوم ہو اور فی الحقیقت بالکل دین کے خلاف) پھر اگر تم بعد اس کے کہ تم کو واضح دلیلیں (احکام وشرائع اسلام کی) پہنچ چکی ہیں (پھر بھی صراط مستقیم سے) لغزش کرنے لگو تو یقین رکھو کہ حق تعالیٰ (بڑے) زبردست ہیں (سخت سزا دیں گے اور کچھ دنوں تک سزا نہ دیں تو اس سے دھوکہ مت کھانا کیونکہ وہ) یہ لوگ (جو کہ بعد وضوح دلائل حق کے کج راہی اختیار کرتے ہیں) صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ حق تعالیٰ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں ان کے پاس (سزا دینے کے لئے) آویں اور سارا قصہ ہی ختم ہوجاوے (یعنی کیا اس وقت امر حق قبول کریں گے جس وقت کا قبول کرنا مقبول بھی نہ ہوگا) اور یہ سارے (جزاء وسزا کے) مقدمات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کئے جاویں گے (کوئی دوسرا صاحب اختیار نہ ہوگا سو ایسے زبردست کے ساتھ مخالفت کرنے کا انجام بجز خرابی کے کیا ہوسکتا ہے) - معارف و مسائل : - اُدْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً سلم بالکسر والفتح دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک صلح دوسرے اسلام اس جگہ جمہور صحابہ وتابعین کے نزدیک اسلام مراد ہے (ابن کثیر) لفظ کافۃ جمیعا اور عامۃ کے معنی میں آتا ہے یہ لفظ اس جگہ ترکیب میں حال واقع ہوا ہے جس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ ضمیر ادخلوا کا حال قرار دیا جائے دوسرے یہ کہ سلم بمعنی اسلام کا حال ہو پہلی صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ تم پورے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ یعنی تمہارے ہاتھ پاؤں، آنکھ کان، دل اور دماغ سب کا سب دائرہ اسلام و اطاعت الہہ کے اندر داخل ہونا چاہئے ایسا نہ کہ ہاتھ پاؤں سے تو احکام اسلامیہ بجا لارہے ہو مگر دل و دماغ اس پر مطمئن نہیں یا دل دماغ سے تو اس پر مطمئن ہو مگر ہاتھ پاؤں اور اعضاء وجوارح کا عمل اس سے باہر ہے۔- اور دوسری صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ تم داخل ہوجاؤ مکمل اور پورے اسلام میں یعنی ایسا نہ ہو کہ اسلام کے بعض احکام کو تو قبول کرو بعض میں پس وپیش رہے اور چونکہ اسلام نام ہے اس مکمل نظام حیات کا جو قرآن وسنت میں بیان ہوا ہے خواہ اس کا تعلق عقائد و عبادات سے ہو یا معاملات ومعاشرت سے حکومت وسیاست سے اس کا تعلق ہو یا تجارت وصنعت وغیرہ سے اسلام کا جو مکمل نظام حیات ہی تم سب اس پورے نظام میں داخل ہوجاؤ۔- خلاصہ دونوں صورتوں کا قریب قریب یہی ہے کہ احکام اسلام خواہ وہ کسی شعبہ زندگی سے متعلق ہوں اور اعضاء ظاہری سے متعلق ہوں یا قلب اور باطن سے ان کا تعلق ہو جب تک ان تمام احکام کو سچے دل سے قبول نہ کرو گے مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں ہوگے،- اس آیت کا شان نزول جو اوپر ہوا ہے اس کا بھی حاصل یہی ہے کہ صرف اسلام ہی کی تعلیمات تمہارا مطمح نظر ہونا چاہئے اس کو پورا پورا اختیار کرلو تو وہ تمہیں سارے مذاہب وملل سے بےنیاز کردے گا،- تنبیہ : اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جہنوں نے اسلام کو صرف مسجد اور عبادات کے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے معاملات اور معاشرت کے احکام کو گویا دین کا جزء ہی نہیں سمجھتے اصطلاحی دینداروں میں یہ غفلت عام ہے حقوق و معاملات اور خصوصا حقوق معاشرت سے بالکل بیگانہ ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان احکام کو وہ اسلام کے احکام ہی یقین نہیں کرتے نہ ان کے معلوم کرنے یا سیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں نہ ان پر عمل کرنے کا نعوذ باللہ کم ازکم مختصر رسالہ آداب معاشرت حضرت سیدی حکیم الامت کا ہر مسلمان مرد و عورت کو ضرور پڑھ لینا چاہئے،- اور یہ واقعہ کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں ان کے پاس آجائیں قیامت میں پیش آئے گا اور اللہ تعالیٰ کا اس طرح آنا متشابہات میں سے ہے جس کے متعلق جمہور صحابہ وتابعین اور اسلاف امت کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے مضمون کے حق و صحیح ہونے کا اعتقاد و یقین رکھے اور کیفیت کہ کس طرح یہ کام ہوگا اس کی دریافت کی فکر میں نہ پڑے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اور تمام صفات کی حقیقت اور کیفیت کا معلوم کرنا انسان کی عقل سے بالاتر ہے یہ بھی اسی میں داخل ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ٠ ۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ٠ ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ٢٠٨- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- سِّلْمُ صلح - والسَّلَامُ والسِّلْمُ والسَّلَمُ : الصّلح قال : وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً [ النساء 94] ، وقیل : نزلت فيمن قتل بعد إقراره بالإسلام ومطالبته بالصّلح وقوله تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ [ الأنفال 61] ، وقرئ لِلسَّلْمِ بالفتح، وقرئ : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ وقال : يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم 43] ، أي : مُسْتَسْلِمُونَ ، وقوله : ورجلا سالما لرجل وقرئ سلما و ( سَلَماً ) وهما مصدران، ولیسا بوصفین کحسن ونکد . يقول : سَلِمَ سَلَماً وسِلْماً ، وربح ربحا وربحا . وقیل : السِّلْمُ اسم بإزاء حرب،- السلام والسلم والسلم کے معنی صلح کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِناً«1» [ النساء 94] جو شخص تم سے سلام علیک کہے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے حق میں نازل ہوئی ہے جسے باوجود اظہار اسلام اور طلب صلح کے قتل کردیا گیا تھا اور فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مؤمنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ ۔ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسِّلْمِ [ الأنفال 61] اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں ۔ اس میں ایک قرآت سلم ( بفتحہ سین ) بھی ہے ۔ وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ «4»اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سالِمُونَ [ القلم 43] ( اس وقت ) سجدے کے لئے بلائے جاتے تھے ۔ جب صحیح وسالم تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ورجلا سالما لرجل «5»اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا ( غلام ) ہے ۔ میں ایک قراءت سلما وسلم ا بھی ہے اور یہ دونوں مصدر ہیں اور حسن و نکد کی طرح صفت کے صیغے نہیں ہیں کہا جاتا ہے ۔ سلم سلما و سلما جیسے ربح ربحا و ربحا اور بعض نے کہا ہے کہ سلم اسم ہے اور اس کی ضد حرب ہے ۔- كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله :- وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی.- ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - خطو - خَطَوْتُ أَخْطُو خَطْوَةً ، أي : مرّة، والخُطْوَة ما بين القدمین قال تعالی: وَلا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ [ البقرة 168] ، أي : لا تتّبعوه، وذلک نحو قوله : وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى [ ص 26] .- ( ح ط و ) خطوت آخطوۃ کے معنی چلنے کے لئے قدم اٹھانے کے ہیں خطوۃ ایک بار قدم اٹھانا الخطوۃ کی جمع خطوت اتی ہے ۔ قرآن میں ہے ولا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ [ البقرة 168] اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ۔ یعنی شیطان کی اتباع نہ کرو ۔ اور یہ آیت کریمہ : وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى [ ص 26] اور خواہش کی کی طرح ہے ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔
(٢٠٨) مومنو پورے طور پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین میں داخل ہوجاؤ ہفتہ اور اونٹ کے گوشت کی حرمت وغیرہ میں شیطان کی جعل سازی میں مت آؤ وہ تمہارا کھلا ہوا دشنمن ہے۔ س - شان نزول : (آیت) ” یا ایھا الذین امنوا “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور ثعلبہ (رض) ابن یامین (رض) اسد بن کعب (رض) اسید بن کعب (رض) سعید بن عمرو (رض) اور قیس بن زید (رض) اہل کتاب میں سے ان سب حضرات نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہفتہ کے دن کی ہم تعظیم کرتے ہیں ہمیں اس کی تعظیم کی اجازت دیجئے اور توریت بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے ہمیں رات کو اس پر عمل کرنے کی اجازت دیجیے، اس پر یہ آیت مبارکہ اتری کہ ” اے ایمان والواسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ “ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢٠٨ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص) - اہل ایمان سے اب وہ بات کہی جا رہی ہے جس کا معکوس ( ) ہم بنی اسرائیل سے خطاب کے ذیل میں (آیت ٨٥ میں) پڑھ چکے ہیں : - (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ الاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ الآی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط) - کیا تم ہماری کتاب (اور دین و شریعت) کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو ردّ کردیتے ہو ؟ سو جو کوئی بھی تم میں سے یہ روش اختیار کریں ان کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ دنیا میں ذلت ‘ و خواری ان پر مسلط کردی جائے اور قیامت کے دن ان کو شدید ترین عذاب میں جھونک دیاجائے۔ ّ - اب مثبت پیرائے میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی اطاعت میں پورے کے پورے داخل ہو - جاؤ تحفظات ( ) اور استثناء ات ( ) کے ساتھ نہیں۔ یہ طرز عمل نہ ہو کہ اللہ کی بندگی تو کرنی ہے ‘ مگر فلاں معاملے میں نہیں۔ اللہ کا حکم تو ماننا ہے لیکن یہ حکم میں نہیں مان سکتا۔ اللہ کے احکام میں سے کسی ایک کی نفی سے کل کی نفی ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ جزوی اطاعت قبول نہیں کرتا۔ - (وََلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط) (اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :226 یعنی کسی استثنا کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ ۔ تمہارے خیالات ، تمہارے نظریات ، تمہارے علوم ، تمہارے طور طریقے ، تمہارے معاملات ، اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ کرلو ۔