[٢٧٧] یعنی اسلام کے انسانی زندگی کے ہر پہلو میں واضح احکام آجانے کے بعد تم اسلام میں پوری طرح داخل نہ ہوئے اور دوغلی پالیسی اختیار کی اور جن احکام پر چاہا عمل کرلیا اور جہاں کوئی بات طبیعت کو ناگوار محسوس ہوئی یا کسی نقصان کا خطرہ محسوس ہوا وہاں اپنی مرضی کرلی اور اسلام کے احکام کو پس پشت ڈال دیا تو خوب سمجھ لو کہ اللہ بڑا زبردست ہے حکمت والا ہے، وہ تمہیں سزا بھی دے سکتا ہے، ذلیل و خوار بھی کرسکتا ہے اور دنیا کی حکمرانی تمہارے سوا کسی دوسرے کو بھی دے سکتا ہے۔
اسلام کا بنیادی عقیدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا سچا رسول مانتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے غیب یعنی بن دیکھی حقیقتوں پر ایمان ہے۔ حدیث جبریل (علیہ السلام) میں اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھنے کو ایمان کہا گیا ہے۔ [ مسلم، الإیمان : ٨ ] دنیا میں آزمائش اسی بات کی ہے کہ بغیر دیکھے کون ان پر ایمان لاتا ہے اور کسی جبر کے بغیر اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتا ہے۔ چناچہ فرمایا : ( لِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّخَافُهٗ بالْغَيْبِ ) [ المائدۃ : ٩٤ ] ” تاکہ اللہ جان لے کون اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٤٩) ، فاطر (١٨) ، سورة یس (١١) ، سورة ق (٣٣) اور حدید (٢٥) ۔- کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ یہ حقیقتیں ان کی آنکھوں کے سامنے آئیں گی تو وہ ایمان لائیں گے، ورنہ نہیں۔ کبھی وہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے دیکھنے کا مطالبہ کرتے کہ ” ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے، یا ہم اپنے رب کو دیکھتے۔ “ [ الفرقان : ٢١ ] کبھی ایمان لانے کی شرط یہ رکھتے کہ ” تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ “ [ بنی اسرائیل : ٩٢ ] کبھی قیامت برپا کرنے کی فرمائش کرتے۔ بنی اسرائیل نے بھی یہی کام کیا، فرمایا : (وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ) [ البقرۃ : ٥٥ ] ” اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ ہم ہرگز تیرا یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ لیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعے سے اسلام کے حق ہونے کی دلیلیں پیش کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اب اگر کوئی شخص حق واضح ہونے کے بعد اس پر ایمان نہیں لاتا، بس معجزات کا مطالبہ ہی کرتا چلا جاتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ غیبی حقیقتیں ظاہر ہونے کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ پھر کسی کو ایمان لائے بغیر چارہ ہی نہیں ہوگا۔ چناچہ فرمایا : (هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ۭ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ ) [ الأنعام : ١٥٨ ] ” وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تیرا رب آئے یا تیرے رب کی کوئی نشانی آئے، جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی، کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا۔ “ زیر تفسیر آیات میں یہی بات فرمائی کہ اتنے واضح دلائل کے بعد اب یہی باقی رہ جاتا ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ خود بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی، مگر پھر تو کام تمام ہوچکا ہوگا اور دنیا میں تو بظاہر کچھ اور لوگوں کے پاس بھی معاملات لے جائے جاتے ہیں، اس وقت سارے معاملات اکیلے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔ - قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے زمین پر اترنے کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے، چناچہ فرمایا : (وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا) [ الفجر : ٢٢ ]” اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔ “ اور فرمایا : (هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ ) [ الأنعام : ١٥٨ ] ” وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تیرا رب آئے۔ “ تمام صحابہ اور تابعین اللہ تعالیٰ کے نزول پر ایمان رکھتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ جس طرح اللہ کی شان کے لائق ہے کہ وہ ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، قیامت کے دن بھی زمین پر اترے گا۔ دوسری تمام صفات پر بھی وہ ان کے ظاہر الفاظ کے مطابق ایمان رکھتے تھے، وہ نہ ان کا کچھ اور مطلب نکالتے (جسے تاویل کہتے ہیں) ، نہ یہ کہتے کہ کس طرح اترے گا ؟ یا وہ عرش پر کس طرح ہے ؟ ( جسے تکییف کہتے ہیں) ، نہ وہ اس کے عرش پر ہونے کو یا اس کے اترنے کو اپنی طرح یا کسی مخلوق کی طرح قرار دیتے (جسے تشبیہ کہتے ہیں) ، نہ یہ کہتے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ان الفاظ کا معنی کیا ہے، بس یہ اللہ ہی جانتا ہے (جسے تفویض کہتے ہیں) ، بعد میں آنے والے لوگوں نے غیر مسلموں سے متاثر ہو کر کسی نے سرے سے ان صفات کا انکار ہی کردیا، کسی نے تاویل کی، کسی نے اپنے پاس سے کیفیت متعین کی اور کسی نے مخلوق کے ساتھ مشابہ کردیا۔ یہ تمام صورتیں درحقیقت انکار ہی کی صورتیں ہیں۔ مزید دیکھیے سورة حاقہ (١٦ تا ١٨) اور سورة فجر (٢٢) کے فوائد۔
فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْكُمُ الْبَيِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٢٠٩- زل - الزَّلَّةُ في الأصل : استرسال الرّجل من غير قصد، يقال : زَلَّتْ رِجْل تَزِلُّ ، والْمَزِلَّةُ : المکان الزّلق، وقیل للذّنب من غير قصد : زَلَّةٌ ، تشبيها بزلّة الرّجل . قال تعالی: فَإِنْ زَلَلْتُمْ [ البقرة 209] ،- ( ز ل ل ) الزلۃ - کے اصل معیل بلا قصد کے قدم پھسل جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ زلت ( ض ) رجل تزل اور پھسلنے کی جگہ کو زکۃ کہا جاتا ہے نیز جو گناہ بلا قصد سرزد ہوجائے اسے بھی بطور تشبیہ زلۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَإِنْ زَلَلْتُمْ [ البقرة 209] اگر تم لغزش کھا جاؤ ۔ - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
قول باری ہے (فاعلموا ان اللہ عزیز حکیم۔ جان لو کہ اللہ عزیز و حکیم ہے) عزیزوہ ذات ہے جو غالب و قوی ہو اور اسے اس بات کی پوری قدرت ہو کہ جو چاہے روک دے اور جو چاہے نہ روکے۔ اس لئے کہ عزت کے اصل معنی امتناع کے ہیں۔ اسی محاورہ ہے : ایسی سر زمین جو شدت اور صعوبت کی بنا پر ممتنع الوصول ہو۔- لفظ الحکیم کا اطلاق اللہ کی صفت میں دو معنوں پر ہوتا ہے۔ ایک العالم (جاننے والا) جب یہ معنی مراد ہو تو یہ کہنا جائز ہے کہ اس کا علم ہمیشہ سے ہے۔ دوسرا معنی متفن و محکم فعل یعنی پختہ اور محکم کام کرنے والا جب یہ معنی مراد ہو تو یہ کہنا جائز نہیں ہوگا وہ ہمیشہ سے حکیم ہے جس طرح کہ یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ ہمیشہ سے کا م کرنے والا ہے۔- جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی یہ صفت بیان کی کہ وہ حکیم ہے تو یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ نہ تو ظلم کا کام ہے، نہ ہی بےوقوفی کا اور نہ ہی قبائح کا ، نیز وہ ان کا ارادہ بھی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ جس ذات میں یہ باتیں پائی جائیں گی وہ اہل عقل کے نزدیک حکیم نہیں ہوگا۔ اس میں بھی جبر یہ فرقہ کے مذہب کا بطلان ہے۔
(٢٠٩) پھر اگر اپنی کتاب میں اس چیز کا بیان اور وضاحت آجانے کے بعد بھی تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت سے دور ہٹو تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے جو اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی نہ کرے زبردست بدلہ لینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ پہلی شریعتوں کے منسوخ کرنے کے بارے میں زیادہ جانتا ہے، یہ آیت مبارکہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے کیوں کہ وہ ہفتہ کے دن اور اونٹ کے گوشت کے معاملے میں حساس تھے۔
آیت ٢٠٩ (فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ تْکُمُ الْبَیِّنٰتُ ) (فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ) - اس میں تہدید اور دھمکی کا پہلو ہے کہ پھر اللہ کی پکڑ بھی بہت سخت ہوگی۔ اور پھر یہ کہ وہ حکیم بھی ہے ‘ اس کی پکڑ میں بھی حکمت ہے ‘ اگر اس کی طرف سے پکڑ کا معاملہ نہ ہو تو پھر دین کا پورا نظام بےمعنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے کسی گناہ پر پکڑ ہی نہیں ہے تو پھر یہ آزمائش کیا ہوئی ؟ پھر جزا و سزا اور جنت و دوزخ کا معاملہ کیا ہوا ؟
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :227 یعنی وہ زبردست طاقت بھی رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے مجرموں کو سزا کس طرح دے ۔
138: ان دو صفتوں کو ساتھ ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اس کا اقتدار کامل ہے اس لیے وہ کسی وقت بھی تمہاری بد عملی کی سزا دے سکتا ہے، لیکن چونکہ اس کی حکمت بھی کامل ہے، اس لیے وہی اپنی حکمت سے یہ طے کرتا ہے کہ کس کو کب اور کتنی سزا دینی ہے۔ لہذا اگر ایسے کافر فوری طور سے عذاب میں پکڑے نہیں جارہے تو اس سے یہ سمجھ بیٹھنا حماقت ہے کہ وہ سزا سے ہمیشہ کے لیے بچ گئے۔