تذکرہ شفاعت اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کو دھمکا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت ہی کا انتظار ہے جس دن حق کے ساتھ فیصلے ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے کئے کو بھگت لے گا ، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا ) 89 ۔ الفجر:21 ) یعنی جب زمین کے ریزے ریزے اور تیرا رب خود آجائے گا اور فرشتوں کی صفیں کی صفیں بندھ جائیں گی اور جہنم بھی لا کر کھڑی کر دی جائے گی اس دن یہ لوگ عبرت ونصیحت حاصل کریں گے لیکن اس سے کیا فائدہ ؟ اور جگہ فرمایا آیت ( هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ) 6 ۔ الانعام:158 ) یعنی کیا انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود اللہ تعالیٰ آئے یا اس کی بعض نشانیان آ جائیں اگر یہ ہو گیا تو پھر انہیں نہ ایمان نفع دے نہ نیک اعمال کا وقت رہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک لمبی حدیث لکھی ہے جس میں صور وغیرہ کا مفصل بیان ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ مسند وغیرہ میں یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ جب لوگ گھبرا جائیں گے تو انبیاء علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچیں گے آپ جواب دیں گے میں تیار ہوں میں ہی اس کا اہل ہوں ، پھر آپ جائیں گے اور عرش تلے سجدے میں گر پڑیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے کہ وہ بندوں کا فیصلہ کرنے کے لئے تشریف لائے اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اور بادلوں کے سائبان میں آئے گا دنیا کا آسمان ٹوٹ جائے گا اور اس کے تمام فرشتے آجائیں گے پھر دوسرا بھی پھٹ جائے گا اور اس کے فرشتے بھی آجائیں گے اسی طرح ساتوں آسمان شق ہو جائیں گے اور ان کے فرشتے بھی آجائیں گے ، پھر اللہ کا عرش اترے گا اور بزرگ تر فرشتے نازل ہوں گے اور خود وہ جبار اللہ جل شانہ تشریف لائے گا فرشتے سب کے سب تسبیح خوانی میں مشغول ہوں گے ان کی تسبیح اس وقت یہ ہو گی ۔ دعا ( سبحان ذی الملک والملکوت ، سبحان ذی العزۃ والجبروت سبحان الحی الذی لا یموت ، سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت ، سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح ، سبوح قدوس ، سبحان ربنا الاعلیٰ سبحان ذی السلطان والعطمۃ ، سبحانہ سبحانہ ابدا ابدا ) ، ۔ حافظ ابو بکر بن مردویہ بھی اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث لائے ہیں جن میں غراب ہے واللہ اعلم ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو اس دن جمع کرے گا جس کا وقت مقرر ہے وہ سب کے سب کھڑے ہوں گے آنکھیں پتھرائی ہوئی اور اوپر کو لگی ہوئی ہوں گی ہر ایک کو فیصلہ کا انتظار ہوگا اللہ تعالیٰ ابر کے سائبان میں عرش سے کرسی پر نزول فرمائے گا ، ابن ابی حاتم میں ہے عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جس وقت وہ اترے گا تو مخلوق اور اس کے درمیان ستر ہزار پردے ہوں گے نور کی چکا چوند کے اور پانی کے اور پانی سے وہ آوازیں آرہی ہوں گی جس سے دل ہل جائیں ، زبیر بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ بادل کا سائبان یاقوت کا جڑا ہوا اور جوہر وزبرجد والا ہوگا ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ بادل معمولی بادل نہیں بلکہ یہ وہ بادل ہے جو بنی اسرائیل کے سروں پر وادی تیہ میں تھا ، ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بھی بادل کے سائے میں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ جس میں چاہے آئے گا ، چنانچہ بعض قرأتوں میں یوں بھی ہے آیت ( ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ) 2 ۔ البقرۃ:210 ) جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تَنْزِيْلًا ) 25 ۔ الفرقان:25 ) ۔ یعنی اس دن آسمان بادل سمیت پھٹے گا اور فرشتے اتر آئیں گے ۔
210۔ 1 یہ تو قیامت کا منظر ہے (جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جلوے اور بادلوں کے سایہ میں ان کے سامنے آئیں اور فیصلہ چکائیں تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول نہیں اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کر کے اپنی آخرت سنوار لو۔
[٢٧٨] یعنی ایسی نشانی کے انتظار میں جس سے انہیں قطعی اور حتمی طور پر ہر بات کا یقین آجائے۔ ایسا یقین جیسے ہر انسان کو یہ یقین ہے کہ اسے موت آ کے رہے گی تو اسے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جب ایسی نشانی آجائے گی تو پھر ایمان لانے کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ ایمان لانے کی قدر و قیمت تو صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ امور غیب حواس ظاہری سے پوشیدہ ہیں۔ اگرچہ ان کے لیے بیشمار دلائل موجود ہیں اور اسی بات میں انسان کی آزمائش کی جا رہی ہے، اور یہ دنیا آزمائش گاہ بنی ہوئی ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے اور جب کوئی حتمی علامت جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا وقت موت یا قیامت آگئی تو پھر یہ معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں اللہ کی آمد تو درکنار اس کا دیدار تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے اولوالعزم پیغمبر بھی نہ سہار سکے تھے۔ پھر یہ بےچارے کس کھیت کی مولی ہیں اور فرشتے انسانوں کے پاس آتے تو ہیں مگر وہ یا عذاب الٰہی لے کر آتے ہیں یا پھر موت کا پیغام لے کر، تو پھر ان باتوں کا انہیں کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔
ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَہُمُ اللہُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ٠ ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ٢١٠ ۧ- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - غم - الغَمُّ : ستر الشیء، ومنه : الغَمَامُ لکونه ساترا لضوء الشمس . قال تعالی: يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] . والغَمَّى مثله، ومنه : غُمَّ الهلالُ ، ويوم غَمٌّ ، ولیلة غَمَّةٌ وغُمَّى، قال : ليلة غمّى طامس هلالها وغُمَّةُ الأمر . قال : ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] ، أي : كربة . يقال : غَمٌ وغُمَّةٌ. أي : كرب وکربة، والغَمَامَةُ : خرقة تشدّ علی أنف النّاقة وعینها، وناصية غَمَّاءُ : تستر الوجه .- ( غ م م ) الغم - ( ن ) کے بنیادی معنی کسی چیز کو چھپا لینے کی ہیں اسی سے الغمیٰ ہے جس کے معنی غبار اور تاریکی کے ہیں ۔ نیز الغمیٰ جنگ کی شدت الغمام کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] کہ خدا کا عذاب بادلوں کے سائبانوں میں آنازل ہوا ۔ اسی سے غم الھلال ( چاند ابر کے نیچے آگیا اور دیکھا نہ جاسکا ۔ ویوم غم ( سخت گرم دن ولیلۃ غمۃ وغمی ٰ ( تاریک اور سخت گرم رات ) وغیرہ ہا محاورات ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( جز ) ( 329) لیلۃ غمی ٰ طامس ھلالھا تاریک رات جس کا چاند بےنور ہو ۔ اور غمۃ الامر کے معنی کسی معاملہ کا پیچدہ اور مشتبہ ہونا ہیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے ۔ یعنی پھر وہ معاملہ تمہارے لئے قلق و اضطراب کا موجب نہ ہو اور غم وغمۃ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی حزن وکرب جیسے کرب وکربۃ اور غمامۃ اس چیتھڑے کو کہتے ہیں جو اونٹنی کی ناک اور آنکھوں پر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ کسی چیز کو دیکھ یاسونگھ نہ سکے ) اور ناصیۃ غماء پیشانی کے لمبے بال جو چہرے کو چھالیں ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے۔
قول باری ہے ھل ینظرون الا ان یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام والملئکۃ ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں تو) کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آ موجود ہو) یہ آیت متشابہات میں سے ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو محکمات کی طرف لوٹایا جائے۔- قول باری ہے (ھو الذی انزل علیک الکتب منہ ایات محکمات ھن ام الکتاب واخرمتشابھات، فاما الذین فی قلوبھم ذیغ فیتبعون ماتشابہ منہ وہی خدا ہے جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں۔ ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ہمیشہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں)- ایسی آیت کو متشابہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ لفظ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہو اور اللہ سچ مچ آ جائے اور یہ احتمال کہ اس سے مراد اللہ کا امر اور اس کی نشانیاں ہیں جو اس کی ذات اور قدرت پر دلالت کرتی ہیں جس طرح کہ ایک اور جگہ ارشاد ہوا (ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملائکۃ اویاتی امر ربک اویاتی بعض آیات ربک کیا وہ اب اس کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس آ اجئیں یا تیرے رب کا امر آ جائے یا تیرے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں) ۔- یہ تمام آیات متشابہات اس معنی پر محمول ہیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول (ائو یاتی ربک ) میں کیا ہے۔ سا لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے آنا جانا، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا اور زوال ان تمام باتوں کا ثبوت جائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ تمام باتیں اجسام کی صفات اور حدوث کی نشانیاں ہیں۔- اللہ تعالیٰ نے اپنے محکم قول میں یہ فرما دیا ہے (لیس کمثلہ شیء اس جیسی کوئی چیز نہیں ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کی حرکات، ان کی منتقلی اور ان کے زوال کو ان کے حدوث کی دلیل قرار دیا اور اپنی قوم کے خلاف اس سے استدلال کیا چناچہ قول باری ہے (وتلک ججتنا اتینا ھا ابراھیم علی قومہ یہ ہماری وہ حجت ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں عطا کیا) یعنی کواکب اور اجسام کے حدوث کے متعلق، اللہ تعالیٰ تجیم و تشبیہ کے قائلین کے قول سے بہت بلند ہے۔- اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آیا یہ جائز ہے کہ جاء ربک (تیرا پروردگار آیا) جاء کتابہ یا جاء رسولہ ( اس کی کتاب آئی یا اس کا رسول آیا) یا اسی قسم کے کسی اور فقرے کے معنی میں ہو ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ مجاز ہے اور مجاز کا استعمال صرف اس جگہ ہوتا ہے جہاں مجازی معنی مراد لینے کی دلیل موجود ہو۔- اللہ تعالیٰ نے فرمایا (واسئلک القریۃ گائوں سے پوچھو) اور اس سے مرا دلیا گائوں والوں سے پوچھو۔ اسی طرح فرمایا (والذین یوذون اللہ و رسولہ اور وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں) یہاں مراد ہے کہ اللہ کے دوستوں کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ مجاز تو صرف اسی جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں اس کے استعمال کے لئے دلیل موجود ہو یا سننے والے کے لئے اس کے معنی میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔- قول باری ہے (والی اللہ ترجع الامور، اور آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں ۔ اس کی دو طرح سے تفسیر کی گئی ہے اول یہ کہ پیشتر اس سے کہ بندے کسی امر کے مالک ہوتے تمام معاملات اللہ ہی کے ہاتھ میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے معاملات کا مالک بنادیا اب آخرت میں پھر سے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوں گے۔ مخلوق کے ہاتھ میں کچھ نہ ہوگا ۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگیا کہ تمام معاملات اسی کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے۔- دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس فقرے کے وہی معنی ہیں جو قول باری (الا الی اللہ تصیر الامور آگاہ رہو تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں) یعنی اللہ تعالیٰ ان تمام معاملات کا مالک ہے اس کے سوا اور کوئی مالک نہیں ہے ان معاملات پر اس کی ملکیت اس طرح نہیں ہے کہ پہلے یہ معاملات اس کے قبضہ قدرت میں نہیں تھے پھر ہوگئے بلکہ اس طرح کہ اس کے سوا ان کا کوئی اور مالک نہیں ہے۔- لبید کا ایک شعر :- وما المرء الا کا لشھاب وضوء لا یحوردماداً بعد از ھوسا طع - انسان کی حقیقت ایک چنگاری اور اس کی روشنی کی طرح ہے کہ چمکنے کے بعد وہ راکھ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ شاعر کی مراد یہ ہے کہ وہ راکھ ہوجائے گا اس طریقے پر نہیں کہ پہلے وہ راکھ تھا اب پھر اپنی اصلیت کی طرف لوٹ گیا۔
(٢١٠) کیا اہل مکہ اس چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ بغیر کسی کیفیت کے قیامت کا دن آجائے اور اللہ تعالیٰ اس کام سے فارغ ہوجائے، اہل جنت کو جنت میں اور اہل دوزخ کو دوزخ میں داخل کردے اور آخرت میں تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد ہے۔
آیت ٢١٠ (ہَلْ یَنْظُرُوْنَ الاَّ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآءِکَۃُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ ط) - یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح احکامات اور تنبیہات آجانے کے بعد بھی کج روی سے باز نہیں آتے تو کیا وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنا جلال دکھائے اور فرشتوں کی افواج قاہرہ کے ساتھ ظاہر ہو کر ان کا حساب چکا دے ؟- انسان کا نفس اسے ایک تو یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ دین کے اس حصے پر تو آرام سے عمل کرتے رہوجو آسان ہے ‘ باقی پھر دیکھا جائے گا۔ گویا میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔ دوسری پٹی یہ پڑھاتا ہے کہ ٹھیک ہے یہ بھی اللہ کا حکم ہے اور دین کا بھی تقاضا ہے ‘ لیکن ابھی ذرا ذمہ داریوں سے فارغ ہوجائیں ‘ ابھی ذرا بچوں کے معاملات ہیں ‘ بچے برسر روزگار ہوجائیں ‘ بچیوں کے ہاتھ پیلے ہوجائیں ‘ میں ریٹائرمنٹ لے لوں اور اپنا مکان بنا لوں ‘ پھر میں اپنے آپ کو دین کے لیے خالص کرلوں گا۔ یہ نفس کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ اس طرح وقت گزرتے گزرتے انسان موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔ کیا معلوم موت کی گھڑی کب آجائے یہ مہلت عمر تو اچانک ختم ہوسکتی ہے۔ پوری دنیا کی قیامت بھی جب آئے گی اچانک آئے گی اور ہر شخص کی ذاتی قیامت تو اس کے سر پر تلوار کی طرح لٹکی ہوئی ہے۔ ازروئے حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :- (مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ ) (٢٥)- جو مرگیا تو اس کی قیامت تو آگئی - تو کیا تمہارے پاس کوئی گارنٹی ہے کہ یہ سارے کام کرلو گے اور یہ سارے کام کر چکنے کے بعد زندہ رہو گے اور تمہارے جسم میں توانائی کی کوئی رمق بھی باقی رہ جائے گی کہ دین کا کوئی کام کرسکو ؟ تو پھر تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو ؟ ہوسکتا ہے اچانک اللہ کی طرف سے مہلت ختم ہوجائے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :228 یہ الفاظ قابل غور ہیں ۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں ، کتابوں کی تنزیل میں ، حتّٰی کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کر دیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے ۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا ۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو ، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آ جائیں گے ، کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا ۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکا دینے کی ساری قدر و قیمت اسی وقت تک ہے ، جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو ۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تخت جلال پر متمکن ہے ، اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے ، اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں ، اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے ، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے ، تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟ اس وقت تو کوئی کٹّے سے کٹّا کافر اور بدتر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی ۔ جب وہ ساعت آگئی ، تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش ، بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے ۔
139: مختلف کفار اور خاص طور پر یہود مدینہ، اس قسم کے مطالبات کرتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ براہ راست ہمیں نظر آکر ہمیں ایمان لانے کا حکم کیوں نہیں دیتا ؟ یہ آیت اس قسم کے مطالبات کا جواب دے رہی ہے، اور وہ یہ کہ یہ دنیا آزمائش کے لئے بنائی گئی ہے کہ انسان اپنی عقل استعمال کرے اور کائنات میں پھیلے ہوئے واضح دلائل کی روشنی میں اللہ کی توحید اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ اسی لئے اس آزمائش میں اصل قیمت ایمان بالغیب کی ہے۔ اگر اﷲ تعالیٰ براہ راست نظر آجائیں تو آزمائش کیا ہوئی؟ اور اﷲ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب غیب کی چیزیں انسان کو آنکھوں سے نظر آجائیں تو پھر ایمان معتبر نہیں ہوتا اور ایسا اسی وقت ہوگا جب یہ کائنات ختم کرکے سزا اور جزا کا مرحلہ آجائے گا۔ معاملہ چکانے سے یہاں یہی مراد ہے۔