تعارف اللہ بزبان اللہ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا ، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں ، اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا ۔ جیسے کہ دوسری آیت میں آیا کہ آیت ( وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّهُمْ عَنْ اٰيٰـتِهَا مُعْرِضُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:32 ) یعنی آسمان کو محفوظ چھت بنایا اس کے باوجود وہ نشانیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں ، آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے ۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں ۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی ۔ جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے ۔ ایک جگہ فرمایا ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ ) 40 ۔ غافر:64 ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں پیاری پیاری صورتیں عطا فرمائیں اور طرح طرح کی غذائیں پہنچائیں یہی اللہ ہے جو برکتوں والا اور تمام عالم کو پالنے والا ہے پس سب کا خالق ، سب کا رازق ، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لئے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے ۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو ۔ صحیحین میں حدیث ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کونسا ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا حضرت معاذ والی حدیث میں ہے جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں دوسری حدیث میں ہے تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے ۔ طفیل بن سنجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہے؟ انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا ۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو ۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا ۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو ۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی خواب بیان کیا ۔ آپ نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے؟ میں نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا طفیل نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا ۔ یاد رکھو اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے ( ابن مردویہ ) ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں ۔ آپ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے ( ابن مردویہ ) ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں ۔ توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہو جاؤ ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو ، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ کی حیات کی ، یہ بھی شرک ہے انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے ۔ آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہو جاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا ۔ یہ سب کلمات شرک ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے؟ دوسری حدیث میں ہے تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں انداد کے معنی شریک اور برابر کے ہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں تم توراۃ و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے ، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو؟ پانچ احکام٭٭ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو ، قریب تھا کہ وہ اس میں غفلت کریں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کاربند ہو کر دوسروں کو بھی حکم دو ۔ لہذا یا تو آپ کہہ دیجئے یا میں پہنچا دوں ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت لے گئے تو کہیں مجھے عذاب نہ دیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں پس یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی مسجد میں جمع کیا ، جب مسجد بھر گئی تو آپ اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود بھی عمل کریں تم سے بھی ان پر عمل کراؤں ۔ ایک یہ کہ اللہ ایک کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خاص اپنے مال سے کسی غلام کو خریدے اور غلام کام کاج کرے لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے کسی اور کو دے دے کیا ۔ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا ، تمہیں روزی دینے والا ، تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے ۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ دوسری یہ کہ نماز کو ادا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بندے کی طرف ہوتی ہے ۔ جب تک کہ وہ نماز میں ادھر ادھر منہ پھیرے جب تم نماز میں ہو تو خبردار ادھر ادھر الفتات نہ کرنا ۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں ۔ یاد رکھو روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے ۔ چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو دشمنوں نے قید کر لیا اور گردن کے ساتھ اس کے ساتھ باندھ دئیے گردن مارنے کے لئے لے جانے لگے تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ سے فدیہ لے اور مجھے چھوڑ دو چنانچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے کر اپنی جان چھڑا لی ۔ پانچواں اس کا حکم یہ ہے کہ بہ کثرت اس کے نام کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن دوڑتا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن و امان پا لیتا ہے اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب میں بھی تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان حاکم وقت کے احکام سننا ۔ اور جاننا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر نکل جائے گویا وہ اسلام کے پٹے کو اپنے گلے سے اتار پھینکے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کر لے جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو فرمایا اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو ۔ مسلمانوں کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارتے رہو جو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے رکھے ہیں مسلمین مومنین اور عباد اللہ یہ حدیث حسن ہے اس آیت میں بھی یہی بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہیں روزی دیتا ہے پس عبادت بھی اسی کی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا چاہیے کسی اور کی عبادت نہ کرنی چاہئے ہر ایک عبادت کے لائق صرف وہی ہے ۔ اثبات وجود الہ العلمین٭٭ امام رازی وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے ۔ اور فی الواقع یہ آیت اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت ، حکمت ، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے کسی بدوی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے؟ تو اس نے کہا دعا ( یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر ۔ وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر ۔ فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج ۔ وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر ۔ ) یعنی مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہو سکتے؟ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے آپ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا ، آوازوں کا جداگانہ ہونا ، نغموں کا الگ ہونا ، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتے ہیں کہ چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں ۔ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم ۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑ گئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو آپ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہو گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے ، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں ۔ کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے ۔ حضرت امام احمد بن حنل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا ۔ سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے ۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے ۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر ۔ حضرت ابو نواس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا آسمان سے بارش برسنا ، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے ابن المعتز فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے بزرگوں کا مقولہ ہے کہ آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت ، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو ۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے ، ٹھہر جانے ، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو ۔ سمندروں کو دیکھو ، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے ، جن کے رنگ ، جن کی صورتیں مختلف ہیں ۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو ، ادھر سے ادھر پھر جانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو ۔ کھیتوں ، باغوں کی سبزیوں٠ اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میووں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک ، لیکن شکلیں صورتیں ، خوشبوئیں ، رنگ ذائقہ ، فائدہ الگ الگ ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے؟ کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے؟ کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی ۔ یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لئے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں ، اس کی پرزور حکمتوں ، اس کی لاثانی رحمتوں ، اس کے بےنظیر انعاموں ، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لئے کافی وافی ہیں ۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا ، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک ۔ ہاں دنیا کے لوگو سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے ، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے ، میری تمناؤں کا مرکز ، میری امیدوں کا آسرا ، میرا ماویٰ ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں ۔
[٢٦] دلائل توحید :۔ مدینہ میں موجود تین طرح کے لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے مشترکہ خطاب فرما کر انہیں اسلام کی بنیادی دعوت کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ تم لوگ یہ خوب جانتے ہو کہ اللہ ہی نے تمہیں بھی اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی پیدا کیا۔ پھر تمہارے لیے زمین کو مستقر اور آسمان کو محفوظ چھت بنادیا کہ کوئی سیارہ اوپر سے گر کر زمین کو تہس نہس نہیں کردیتا۔ پھر تمہاری تمام ضروریات زندگی اسی زمین سے وابستہ کردیں اور گاہے گاہے آسمان سے بارش برسا کر تمہارے کھانے پینے کی چیزیں اور پھل وغیرہ بھی وہی تمہیں مہیا کرتا ہے، تو پھر تمہیں عبادت بھی صرف اسی کی کرنی چاہیے اور کسی دوسرے کو اس کے اقتدار و تصرف میں شریک سمجھ کر اس کی عبادت نہ کرنی چاہیے۔ اسی صورت میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ تم عذاب اخروی سے بچ سکو۔
اس سے پہلی آیت تک تو تمہید تھی کہ قرآن جو ہدایت کا اصلی سر چشمہ ہے اسے ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے لوگ تین قسم کے ہیں، اب آگے براہ راست خطاب کے ساتھ تمام لوگوں کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جا رہی ہے جو اس کتاب کی دعوت کا حقیقی مقصد ہے، جس کے لیے کتابیں اتاری گئیں اور انبیاء بھیجے گئے وہ ہے دعوت توحید یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کی عبادت اور دعا میں کسی کو شریک نہ کرنا۔ - طبری نے ابن عباس (رض) سے (اعْبُدُوْا) کا معنی بیان کیا ہے : ” اَیْ وَحِّدُوْا رَبَّکُمْ “ یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔ - 3 توحید کے لیے پہلی دلیل یہ بیان فرمائی کہ میں تمہارا رب ہوں جو تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔ دوسری دلیل اس کی وہ نعمت ہے جو رب ہونے سے بھی پہلے کی ہے اور وہ ہے تمہیں پیدا کرنا۔ باقی تمام نعمتیں اس کے بعد ہیں، اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں قرآن مجید اس دلیل پر بہت زور دیتا ہے اور اسے بار بار دہراتا ہے۔ اس لیے کہ کفار بھی مانتے تھے کہ خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ) [ الزخرف : ٨٧ ]” اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ “ - ” لَعَلَّ “ یہاں ” کَیْ “ یعنی ” تاکہ “ کے معنی میں ہے۔ - ( تَتَّقُوْنَ ) بچ جاؤ یعنی اللہ کی گرفت سے اور جہنم سے بچ جاؤ۔
خلاصہ تفسیر :- اے لوگو عبادت اختیار کرو اپنے پروردگار کی جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں عجب نہیں کہ تم دوزخ سے بچ جاؤ (شاہی محاورہ میں عجب نہیں کا لفظ وعدہ کے موقع پر بولا جاتا ہے) وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے بنایا تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی پھر (پردہ عدم سے) نکالا بذریعہ اس پانی کے پھلوں سے غذا کو تم لوگوں کے واسطے اب ٹھراؤ اللہ پاک کے مقابل اور تم تو جانتے بوجھتے ہو، (یعنی یہ جانتے ہو کہ یہ تمام تصرّفات خدا تعالیٰ کے سوا کوئی کرنے والا نہیں پھر خدا کے مقابلہ میں دوسری چیزوں کو معبود بنانا کیسے درست ہوسکتا ہے) - معارف و مسائل :- ربط آیات :- سورة بقرہ کی دوسری آیت میں اس دعاء و درخواست کا جواب تھا جو سورة فاتحہ میں آئی ہے یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ جو صراط مستقیم تم طلب کرتے ہو وہ اس کتاب میں ہے کیونکہ قرآن کریم اول سے آخر تک صراط مستقیم ہی تشریح ہے،- اس کے بعد قرآنی ہدایات کو قبول کرنے اور نہ کرنے کے اعتبار سے انسان کے تین گروہوں کو بیان کیا گیا پہلی تین آیات میں مؤمنین متقین کا ذکر ہوا جنہوں نے ہدایات قرآنی کو اپنا نصب العین بنا لیا بعد کی دو آیتوں میں اس گروہ کا ذکر کیا جس نے کھلے طور پر اس ہدایت کی مخالفت کی اس کے بعد تیرہ آیتوں میں اس خطرناک گروہ کے حالات بیان کئے گئے جو حقیقت میں تو قرآنی ہدایات کے مخالف تھے مگر دنیا کی ذلیل اغراض یا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے خیال سے اپنے کفر و مخالفت کو چھپا کر مسلمانوں میں شامل رہتے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے،- اسی طرح سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں ہدایت کے قبول کرنے اور نہ کرنے کے معیار پر کل انسانوں کو تین گروہوں میں بانٹ دیا گیا جس میں اس طرف بھی اشارہ پایا گیا کہ انسانوں کی گروہی اور قومی تقسیم نسب اور وطن یا زبان اور رنگ کی بنیادوں پر معقول نہیں بلکہ اس کی صحیح تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی ہدایات کو ماننے والے ایک قوم اور نہ ماننے والے دوسری قوم جن کو سورة مجادلہ میں حزب اللہ اور حزب الشیطان کا نام دیا گیا ،- غرض سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں قرآنی ہدایات کو ماننے یا نہ ماننے کی بنیاد پر انسان کو تین گروہوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کا کچھ حال بیان فرمایا گیا،- اس کے بعد مذکورہ اکیسویں اور بائیسویں آیتوں میں تینوں گروہوں کو خطاب کرکے وہ دعوت پیش کی گئی ہے جس کے لئے قرآن نازل ہوا اس میں مخلوق پرستی سے باز آنے اور ایک خدا کی عبادت کرنے کی طرف دعوت ایسے انداز سے دی گئی ہے کہ اس میں دعویٰ کے ساتھ اس کے واضح دلائل بھی موجود ہیں جن میں ادنٰی سمجھ بوجھ والا انسان بھی ذرا سا غور کرے تو توحید کے اقرار پر مجبور ہوجائے،- پہلی آیت میں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ سے خطاب شروع ہوا لفظ النَّاس عربی زبان میں مطلق انسان کے معنی میں آتا ہے اس لئے مذکورہ تینوں گروہ اسمیں داخل ہیں جن کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ عبادت کے معنی ہیں اپنی پوری طاقت مکمل فرمانبرداری میں صرف کرنا اور خوف و عظمت کے پیش نظر نافرمانی سے دور رہنا (روح البیان ص ٧٤ ج ١) اور لفظ رَبّ کے معنی پروردگار کے ہیں جس کی پوری تشریح پہلے گذر چکی ہے، ترجمہ یہ ہوا کہ عبادت کرو اپنے رب کی،- یہاں پر لفظ رب کی جگہ لفظ اللہ یا اسما حسنیٰ میں سے کوئی اور نام بھی لایا جاسکتا تھا مگر ان میں سے اس جگہ لفظ رب کا انتخاب کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اس مختصر سے جملے میں دعوے کے ساتھ دلیل بھی آگئی کیونکہ عبادت کی مستحق صرف وہ ذات ہوسکتی ہے جو انسان کی پرورش کی کفیل ہو جو اس کو ایک قطرہ سے تدریجی تربیت کے ساتھ ایک بھلا چنگا، سمیع وبصیر، عقل و ادراک والا ماہر انسان بنا دے اور اس کی بقا وارتقاء کے وسائل مہیا کرے اور یہ ظاہر ہے کہ انسان کتنا ہی جاہل ہو، اور اپنی بصیرت کو برباد کرچکا ہو جب بھی ذرا غور کرے گا تو اس کا یقین کرنے میں اسے ہرگز تامل نہیں ہوگا کہ یہ شان ربوبیت بجز حق تعالیٰ کے اور کسی میں نہیں اور انسان پر یہ مربّیانہ انعامات نہ کسی پتھر کے تراشے ہوئے بت نے کئے ہیں اور نہ کسی اور مخلوق نے اور وہ کیسے کرتے جب کہ وہ سب خود اپنے وجود اور بقاء میں اسی ذات واحد کے محتاج ہیں ایک محتاج دوسرے محتاج کی کیا حاجت روائی کرسکتا ہے ؟ اور اگر ظاہری طور پر کرے بھی تو وہ بھی درحقیقت اسی ذات کی تربیت ہوگی جس کی طرف یہ دونوں محتاج ہیں - خلاصہ یہ ہے کہ اس جگہ لفظ رب لا کر یہ واضح کردیا گیا کہ جس ذات کی عبادت کی طرف دعوت دی گئی ہے اس کے سوا کوئی دوسری ہستی عبادت کی مستحق ہو ہی نہیں سکتی اس جملہ میں انسانوں کے تینوں گروہوں کو خطاب ہے، اور ہر مخاطب کیلئے اس جملہ کا معنی ومطلب جدا ہے مثلاً جب کہا گیا کہ اپنے رب کی عبادت کرو تو کفار کے لئے اس خطاب کے معنی یہ ہوئے کہ مخلوق پرستی چھوڑ کر توحید اختیار کرو، اور منافقین کے لئے اس کے یہ معنی ہوئے کہ نفاق چھوڑ کر اخلاص پیدا کرو گناہ گار مسلمانوں کے لئے معنی یہ ہوئے کہ گناہ سے باز آؤ اور کامل اطاعت اختیار کرو اور متقی مسلمانوں کے لئے اس جملہ کے یہ معنی ہوئے کہ اپنی اطاعت و عبادت پر ہمیشہ قائم رہو اور اس میں ترقی کی کوشش کرو (روح البیان) اس کے بعد رب کی چند صفات خاصہ کا ذکر کر کے اس مضمون کی مزید توضیح فرمادی گئی ارشاد ہوتا ہے - الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ یعنی تمہارا پروردگار وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان قوموں کو بھی جو تم سے پہلے گذر چکی ہیں اس میں رب کی وہ صفت بتلائی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق میں پائے جانے کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ نیست سے ہست اور نابود سے بود کرنا پھر بطن مادر کی تاریکیوں اور گندگیوں میں ایسا حسین و جمیل پاک وصاف انسان بنادینا کہ فرشتے بھی اس کی پاکی پر رشک کریں یہ سوائے اس ذات حق کے کس کا کام ہوسکتا جو کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں اس آیت میں خَلَقَكُمْ کے ساتھ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ کا اضافہ کرکے ایک تو یہ بتلا دیا کہ تم اور تمہارے آباء و اجداد یعنی تمام بنی نوع انسان کا خالق وہی پروردگار ہے دوسرے صرف مِنْ قَبْلِكُمْ کا ذکر فرمایا مِنْ بَعدِكُمْ یعنی بعد میں پیدا ہونے والے لوگوں کا ذکر نہیں کیا اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بعد کوئی دوسری امت یا دوسری ملت نہیں ہوگی کیونکہ خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نہ کوئی نبی مبعوث ہوگا نہ اس کی کوئی جدید امت ہوگی اس کے بعد اسی آیت کا آخری جملہ ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی دنیا میں گمراہی اور آخرت میں عذاب سے نجات پانے کی امید تمہارے لئے صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ توحید کو اختیار کرو اور شرک سے باز آؤ - کسی کا عمل اس کی نجات اور جنت کا یقینی سبب نہیں :- لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ اس جملہ میں لفظ لَعَلَّ استعمال فرمایا ہے جو رجاء یعنی امید کے معنی میں آتا ہے اور ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے جہاں کسی فعل کا وقوع یقینی نہ ہو حکم ایمان و توحید کے نتیجہ میں نجات اور جنت کا حصول وعدہ الیہہ کے مطابق یقینی ہے مگر اس یقینی شے کو امید ورجاء کے عنوان سے بیان کرنے میں حکمت یہ بتلانا ہے کہ انسان کا کوئی عمل اپنی ذات میں نجات وجنت کی قیمت نہیں بن سکتا بلکہ فضل خداوندی اس کا اصل سبب ہے ایمان وعمل کی توفیق ہونا اس فضل خداوندی کی علامت ہے علت نہیں۔- عقیدہ توحید ہی دنیا میں امن امان اور سکون و اطمینان کا ضامن ہے :- عقیدہ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے یہ صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے جو انسان کی تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کے لئے پناہ گاہ اور ہر غم وفکر میں اس کا غمگسار ہے کیونکہ عقیدہ توحید کا حاصل یہ ہے کہ عناصر کے کون و فساد اور ان کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی مشیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں، - ہر تغیر ہے غیب کی آواز - ہر تجدد میں ہیں ہزاروں راز - اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ کسی کے قلب و دماغ پر چھا جائے اور اس کا حال بن جائے تو یہ دنیا ہی اس کے لئے جنت بن جائے گی سارے جھگڑے فساد اور ہر فساد کی بنیاد ہی منہدم ہوجائیں گی کیونکہ اس کے سامنے یہ سبق ہوگا - از خداداں خلاف دشمن ودوست - کہ دل ہر دودر تصرف اوست - اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بےنیاز ہر خوف وخطر سے بالا تر زندگی گذارتا ہے اس کا حال یہ ہوتا ہے ،- موحد چہ برپائے ریزی زرش چہ فولاد ہندی نہی برسرش - امید وہراسش نباشد زکس ہمیں است بنیاد توحید وبس - کلمہ الا الہٰ الہ اللہ جو کلمہ توحید کہلاتا ہے اس کا یہی مفہوم ہے مگر یہ ظاہر ہے کہ توحید کا محض زبانی اقرار اسکے لئے کافی نہیں بلکہ سچے دل سے اس کا یقین اور یقین کے ساتھ استحضار ضروری ہے کیونکہ توحید خدا واحد دیدن بودنہ واحد گفتن،- کلمہ لا الہٰ الّا اللہ کے پڑھنے والے دنیا میں کروڑوں ہیں اور اتنے ہیں کہ کسی زمانے میں اتنے نہیں ہوئے لیکن عام طور پر یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے توحید کا رنگ ان میں رچا نہیں ورنہ ان کا وہی حال ہوتا جو پہلے بزرگوں کا تھا کہ نہ کوئی بڑی سے بڑی قوت و طاقت ان کو مرعوب کرسکتی تھی اور نہ کسی قوم کی عددی اکثریت ان پر اثرانداز ہوسکتی تھی نہ کوئی بڑی سے بڑی دولت و سلطنت ان کے قلوب کو خلاف حق اپنی طرف جھکا سکتی تھی ایک پیغمبر کھڑا ہو کر ساری دنیا کو للکار کر کہہ دیتا تھا کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ انبیاء کے بعد صحابہ کرام اور تابعین جو تھوڑی سے مدت میں دنیا پر چھا گئے ان کی طاقت وقوت اسی حقیقی توحید میں مضمر تھی اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو یہ دولت نصیب فرمائے،
رکوع نمبر 3- يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ٢١ ۙ- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو :- عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر - کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر :- وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا - [ الحجر 2] .- ( ر ب ب ) الرب - ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔- رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔
(٢١) اس سے اہل مکہ اور یہودی بھی مراد ہیں، اپنے اس رب کی توحید بیان کرو جس نے تمہیں نطفہ سے پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی پیدا کیا تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے غصہ اور عذاب سے بچ جاؤ۔
سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں قرآن کی دعوت کا خلاصہ آگیا ہے کہ قرآن اپنے مخاطب کو کیا ماننے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی پکار کیا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ‘ سورة البقرۃ کے نزول سے قبل دو تہائی قرآن نازل ہوچکا تھا۔ ترتیب مصحف کے اعتبار سے وہ قرآن بعد میں آئے گا ‘ لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے وہ پس منظر میں موجود ہے۔ لہٰذا سورة البقرۃ کے پہلے دو ‘ رکوعوں میں مکی قرآن کے مباحث کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے اور تیسرے رکوع میں قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ اور لب لبابّ آگیا ہے ‘ جبکہ قرآن مجید کا فلسفہ اور بعض نہایت اہم موضوعات و مسائل کا خلاصہ چوتھے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ اب ہم تیسرے رکوع کا مطالعہ کر رہے ہیں : آیت ٢١ (یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) یہ قرآن کی دعوت کا خلاصہ ہے اور یہی تمام انبیاء و رسل ( علیہ السلام) کی دعوت تھی۔ سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک رسول کا نام لے کر اس کی دعوت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : (یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ) ” اے میری قوم کے لوگو اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا کوئی اور الٰہ اس کے سوا نہیں ہے “۔ سورة الشعراء میں رسولوں کی دعوت کے ضمن میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں : (فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ) ” پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو “۔ سورة نوح میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت ان الفاظ میں بیان ہوئی : (اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ) ” کہ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو “- پھر ازروئے قرآن یہی عبادتِ رب انسان کی غایت تخلیق ہے : (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنِ ) (الذّٰریٰت) ” اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی صرف اس لیے کیا ہے کہ ہماری بندگی کریں “۔ چناچہ تمام رسولوں کی دعوت یہی ” عبادتِ ربّ “ ہے اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت بھی یہی ہے ‘ لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رسولوں کی دعوت کے ضمن میں صیغۂ خطاب ” یٰقَوْمِ “ ہے۔ یعنی ” اے میری قوم کے لوگو “ جبکہ یہاں صیغۂ خطاب ہے : ” یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ “ یعنی ” اے بنی نوع انسان “ معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے تمام رسول ( علیہ السلام) صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف آئے ‘ جبکہ پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل رسول ہیں جن کی دعوت آفاقی ہے۔ - عام طور پر لوگ جو غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں اس پر اس دلیل سے جمے رہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اَجداد کا راستہ یہی تھا۔ (الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ) کے الفاظ میں اس دلیل کا ردّ بھی موجود ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے ‘ جیسے تم خطا کرسکتے ہو اسی طرح وہ بھی تو خطا کرسکتے تھے۔ لہٰذا یہ نہ دیکھو کہ آباء و اجداد کا راستہ کیا تھا ‘ بلکہ یہ دیکھو کہ حق کیا ہے۔- ( لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) ” تاکہ تم بچ سکو “۔ یعنی دنیا میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکو اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکو۔ ان دونوں سے اگر بچنا ہے تو اللہ کی بندگی کی روش اختیار کرو۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :21 اگرچہ قرآن کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام ہے ، مگر اس دعوت سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا لوگوں کی اپنی آمادگی پر اور اس آمادگی کے مطابق اللہ کی توفیق پر منحصر ہے ۔ لہٰذا پہلے انسانوں کے درمیان فرق کر کے واضح کر دیا گیا کہ کس قسم کے لوگ اس کتاب کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں اُٹھا سکتے ۔ اس کے بعد اب تمام نوعِ انسانی کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جاتی ہے ، جس کی طرف بُلانے کے لیے قرآن آیا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :22 یعنی دنیا میں غلط بینی و غلط کاری سے اور آخرت میں خدا کے عذاب سے بچنے کی توقع ۔