ف 1 ہدایت اور ضلالت کے اعتبار سے انسانوں کے تین گروہوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت تمام انسانوں کو دی جا رہی ہے۔ فرمایا جب تمہارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے تمہاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہو ؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو اگر تم عذاب خداوندی سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو جانتے بوجھتے شرک کا ارتکاب مت کرو۔
یعنی تمہیں اور تمہارے باپ دادا کو پیدا کرنے کے بعد تمہاری ضروریات کے لیے تمہیں کسی دوسری ہستی کے سپرد نہیں کردیا، بلکہ ہر چیز کا بندوبست خود فرمایا، زمین کو تمہارے لیے بچھونا بنایا، آسمان کو چھت بنایا، پھر آسمان سے پانی اتار کر تمہاری روزی کے لیے مختلف انواع کے پھل پیدا کیے۔ جب تم یہ سب کچھ جانتے ہو تو لازم ہے کہ اللہ کے لیے کسی قسم کے شریک نہ بناؤ، یا پھر اس کی زمین سے نکل جاؤ اور اپنے کسی داتا یا دستگیر کی بنائی ہوئی زمین کے اوپر اور اس کے بنائے ہوئے آسمان کے نیچے رہو اور اسی کا پیدا کیا ہوا رزق کھاؤ۔ - مَاۗءً کا ترجمہ ” کچھ پانی “ تنوین کی وجہ سے اور ( اَنْدَادًا ) کا ترجمہ ” کسی قسم کے شریک “ جمع اور نکرہ کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہے، یعنی نہ ذات میں شریک بناؤ، نہ صفات میں اور نہ افعال میں۔
کائنات زمین و آسمان میں قدرت حق کے مظاہر :- پھر دوسری آیت میں رب کی دوسری صفات کا بیان اس طرح فرمایا گیا ہے : الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ یعنی رب وہ ذات ہے جس نے بنایا تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی پھر اس پانی کے ذریعہ پردہ عدم سے نکالی پھلوں کی غذا تمہارے لئے،- پہلی نعمت : - اس سے پہلی آیت میں ان انعامات کا ذکر تھا جو انسان کی ذات سے متعلق ہیں اور اس آیت میں آیت میں ان انعامات کا ذکر ہے جو انسان کے گرد وپیش کی چیزوں سے متعلق ہیں یعنی پہلی آیت میں انفسی اور دوسری میں آفاقی نعمتوں کا ذکر فرما کر تمام اقسام نعمت کا احاطہ فرمایا گیا۔- ان آفاقی نعمتوں میں سے زمین کی پیدائش کا ذکر ہے کہ اس کو انسان کے لئے فرش بنادیا نہ پانی کی طرح نرم ہے جس پر قرار نہ ہو سکے اور نہ لوہے پتھر کی طرح سخت ہے کہ ہم اسے اپنی ضرورت کے مطابق آسانی سے استعمال نہ کرسکیں بلکہ نرمی اور سختی کے درمیان ایسا بنایا گیا جو عام انسانی ضروریات زندگی میں کام دے سکے۔- فراش کے لفظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ زمین گول نہ ہو کیونکہ زمین کا یہ عظیم الشان کرہ گول ہونے کے باوجود دیکھنے میں ایک سطح نظر آتا ہے اور قرآن کا عام طرز یہی ہے کہ ہر چیز کی وہ کیفیت بیان کرتا ہے جس کو ہر دیکھنے والا عالم، جاہل، شہری، دیہاتی سمجھ سکے،- دوسری نعمت یہ ہے کہ آسمان کو ایک مزیّن اور نظر فریب چھت بنادیا تیسری نعمت یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسایا پانی آسمان سے برسانے کے لئے ضروری نہیں کہ بادل کا واسطہ درمیان میں نہ ہو بلکہ محاورات میں ہر اوپر سے آنے والی چیز کو آسمان سے آنا بولتے ہیں۔- خود قرآن کریم نے متعدد مقامات میں بادلوں سے پانی برسانے کا ذکر فرمایا ہے مثلاً ارشاد ہے ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ (واقعہ : ٦٩) کیا بارش کا پانی سفید بادلوں سے تم نے اتارا ہے یا ہم اس کے اتارنے والے ہیں،- دوسری جگہ ارشاد ہے،- وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا (نباء : ١٤) ہم نے اتارا پانی بھرے ہوئے بادلوں سے پانی کا ریلا۔- پروردگار عالم کی چار مذکورہ صفات میں سے پہلی تین باتیں تو ایسی ہیں کہ ان میں انسان کی سعی وعمل تو کیا خود اس کے وجود کو بھی دخل نہیں بیچارے انسان کا نام ونشان بھی نہ تھا جب زمین اور آسمان پیدا ہوچکے تھے اور بادل اور بارش اپنا کام کررہے تھے ان کے متعلق تو کسی بیوقوف جاہل کو بھی یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام سوائے حق جل شانہ کے کسی انسان یا بت یا کسی اور مخلوق نے کئے ہوں گے، ہاں زمین سے پھل اور پھلوں سے انسانی غذا نکالنے میں کسی سادہ لوح اور سطحی نظر رکھنے والے کو یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ انسانی سعی وعمل اور اس کی دانشمندانہ تدبیروں کا نتیجہ ہیں کہ وہ زمین کو نرم کرنے اور کمانے میں پھر بیج ڈالنے اور جمانے میں پھر اس کی تربیت اور حفاظت میں اپنی محنت خرچ کرنا ہے لیکن قرآن کریم نے دوسری آیات میں اس کو بھی صاف کردیا کہ انسان کی سعی اور محنت کو درخت اگانے یا پھل نکالنے میں قطعاً کوئی دخل نہیں بلکہ اس کی ساری تدبیروں اور محنتوں کا حاصل رکاوٹوں کو دور کرنے سے زیادہ کچھ نہیں یعنی انسان کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ پیدا ہونے والے درخت کی راہ سے رکاوٹیں دور کرے اور بس۔- غور کیجئے کہ زمین کا کھودنا، اس میں ہل چلانا، اس میں سے جھاڑ جھنکاڑ کو دور کرنا، اس میں کھاد ڈال کر زمین کو نرم کرنا جو کاشتکاروں کا ابتدائی کام ہے اس کا حاصل اس کے سوا کیا ہے کہ بیج یا گٹھلی کے اندر سے جو نازک کونپل قدرت خداوندی سے نکلے گی زمین کی سختی یا کوئی جھاڑ جھنکاڑ اس کی راہ میں حائل نہ ہوجائیں بیچ میں سے کونپل نکالنے اور اس میں پھول پتّیاں پیدا کرنے میں اس بیچارے کا شتکار کی محنت کا کیا دخل ہے،- اسی طرح کاشتکار کا دوسرا کام زمین میں بیج ڈالنا پھر اس کی حفاظت کرنا پھر جو کونپل نکلے اس کی سردی گرمی اور جانوروں سے حفاظت کرنا ہے اس کا حاصل اس کے سوا کیا ہے کہ قدرت خداوندی سے پیدا ہونے والے کونپلوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے ان سب کاموں کو کسی درخت کے نکلنے یا پھلنے پھولنے میں بجز رفع موانع کے اور کیا دخل ہے ؟ ہاں پانی سے جمنے والے بیج کی اور اس سے نکلنے والے درخت کی غذا تیار ہوتی ہے اور اسی سے وہ پھلتا پھولتا ہے لیکن پانی کاشتکار کا پیدا کیا ہوا نہیں اس میں بھی کاشتکار کا کام صرف اتنا ہے کہ قدرت کے پیدا کئے ہوئے پانی کو قدرت ہی کے پیدا کئے ہوئے درخت تک ایک مناسب وقت میں اور مناسب مقدار میں پہنچادے،- آپ نے دیکھ لیا کہ درخت کی پیدائش اور اس کے پھلنے پھولنے میں اوّل سے آخر تک انسان کی محنت اور تدبیر کا اس کے سوا کوئی اثر نہیں کہ نکلنے والے درخت کے راستے سے روڑے ہٹادے یا اس کو ضائع ہونے سے بچالے باقی رہی درخت کی پیدائش اس کا بڑہنا اس میں پتے اور شاخیں پھر پھول اور پھل پیدا کرنا سو اس میں سوائے خدا تعالیٰ کی قدرت کے اور کسی کا کوئی دخل نہیں، - اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ (واقعہ ٦٤: ٦٣) بتلاؤ جو کچھ تم بوتے ہو اسے تم اگاتے ہو ؟ یا ہم اگانے والے ہیں،- قرآن کے اس سوال کا جواب انسان کے پاس بجز اس کے اور کیا ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ان سب درختوں کو اگانے والے ہیں، - اس تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ جس طرح زمین اور آسمان کی پیدائش اور برق و باراں کے منظم سلسلہ میں انسانی سعی و محنت کا کوئی دخل نہیں اسی طرح کھیتی اور درختوں کے پیدا ہونے اور ان سے پھول پھل نکلنے اور ان سے انسان کی غذائیں تیار ہونے میں بھی اس کا دخل صرف برائے نام ہے اور حقیقت میں یہ سب کاروبار صرف حق تعالیٰ کی ایسی چار صفات کا بیان ہے جو سوائے اس کے اور کسی مخلوق میں پائی ہی نہیں جاسکتیں اور جب ان دونوں آیتوں سے یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کو عدم سے وجود میں لانا اور پھر اس کی بقاء و ترقی کے سامان زمین اور آسمان بارش اور پھل پھول کے ذریعے مہیا کرنا سوائے ذات حق جل شانہ کے اور کسی کا کام نہیں تو ہر ادنٰی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو اس پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ عبادت و اطاعت کے لائق اور مستحق بھی صرف وہی ذات ہے اور اس سے بڑا کوئی ظلم نہیں کہ انسان کے بود و وجود اور اس کے بقاء وارتقاء کے سارے سامان تو اللہ تعالیٰ پیدا کرے اور غافل انسان دوسروں کی چوکھٹوں پر سجدہ کرتا پھرے دوسری چیزوں کی بندگی میں مشغول ہوجائے مولانا رومی نے اسی غافل انسان کی زبان پر فرمایا ہے۔- نعمت راخوردہ عصیاں میکنم - نعمت ازتومن بغیرے می تنم - اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی ساری مخلوقات کا سردار اس لئے بنایا تھا کہ ساری کائنات اس کی خدمت کرے اور یہ صرف کائنات کی خدمت اور عبادت میں مشغول رہے اور کسی کی طرف نظر نہ رکھے اس کا یہ رنگ ہوجائے، - بگذارزیادگل وگلبن کہ ہیچم یاد نیست - درزمین و آسمان جزذکر حق آباد نیست - لیکن غافل انسان نے اپنی حماقت سے اللہ تعالیٰ ہی کو بھلا دیا تو اسے ایک خدا کی غلامی کے بجائے ستر کروڑ دیوتاؤں کی غلامی کرنا پڑی، - ایک در چھوڑ کے ہم ہوگئے لاکھوں کے غلام - ہم نے آزادی عرفی کا نہ سوچا انجام - اسی غیروں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اس آیت کے آخر میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اب تو مت ٹھراؤ اللہ کا مقابل اور تم تو جانتے بوجھتے ہو یعنی جب تم نے یہ جان لیا کہ تم کو نیست سے ہست کرنے والا تمہاری تربیت اور پرورش کے سارے سامان مہیا کرکے ایک قطرہ سے حسین و جمیل حساس اور عاقل انسان بنانے والا تمہارے رہن سہن کے لئے اور دوسری ضروریات کے لئے آسمان بنانے والا آسمان سے پانی برسانے والا پانی سے پھل اور پھل سے غذا مہیا کرنے والا بجز حق تعالیٰ کے کوئی نہیں تو عبادت و بندگی کا مستحق دوسرا کون ہوسکتا ہے کہ اس کو خدا کا مقابل یا سہیم وشریک ٹھہرایا جائے اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو اس جہان میں اس سے بڑھ کر کوئی ظلم اور بیوقوفی وبے عقلی نہیں ہوسکتی کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق سے دل لگایا جائے اور اس پر بھروسہ کیا جائے۔- آنانکہ بجز روی تو جائے نگرانند - کو تہ نظرانندچہ کو تہ نظرانند - خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں اس چیز کی دعوت دی گئی ہے جو آسمانی کتابوں کے اور تمام انبیاء کے بھیجنے کا اصل مقصد ہے یعنی صرف ایک خدا کی عبادت و بندگی جس کا نام توحید ہے اور یہ وہ انقلابی نظریہ ہے جو انسان کے تمام اعمال و احوال اور اخلاق ومعاشرت پر گہرا اثر رکھتا ہے کیونکہ جو شخص یہ دیقین کرے کہ تمام عالم کا خالق ومالک اور تمام نظام عالم میں متصرف اور تمام چیزوں پر قادر صرف ایک ذات ہے بغیر اس کی مشیت اور ارادے کے نہ کوئی ذرّہ حرکت کرسکتا ہے نہ کوئی کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کی پوری توجہ ہر مصیبت و راحت اور ہر تنگی وفراخی میں صرف ایک ذات کی طرف ہوجائے گی اور اس کو وہ بصیرت حاصل ہوجائے گی جس کے ذریعہ وہ اسباب ظاہرہ کی حقیقت کو پہچان لے گا کہ یہ سلسلہ اسباب درحقیقت ایک پردہ ہے جس کے پیچھے دست قدرت کارفرما ہے،- برق اور بھاپ کے پوجنے والے دانایان یورپ اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں تو انھیں معلوم ہوجائے کہ برق اور بھاپ سے آگے بھی کوئی ہے اور حقیقی پاور اور طاقت نہ برق میں ہے نہ بھاپ پیدا کئے اس کو سمجھنے کے لئے بصیرت چاہئے اور جس نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا وہ دنیا میں کتنا ہی دانشمند وفلاسفر کہلاتا ہو مگر اس کی مثال اس دیہاتی بیوقوف کی سی ہے جو کسی ریلوے اسٹیشن پر پہنچا اور دیکھا کہ گارڈ کے ہاتھ میں دو جھنڈیوں سرخ اور سبز ہیں سبز کے دکھلانے سے ریل چلنے لگتی ہے اور سرخ جھنڈی دکھلانے سے ریل تھم جاتی ہیں یہ دیکھ کر وہ ان جھنڈیوں ہی ڈنڈوت کرنے لگے اور سمجھنے کہ یہ جھنڈیاں ہی طاقت کی مالک ہیں کہ اتنی بڑی تیز رفتار پہاڑ کی طرح بوجھل گاڑی کو چلانا اور روکنا ان کا کام ہے جس طرح دنیا اس دیہاتی پر ہنستی ہے کہ اس جاہل کو یہ خبر نہیں مشین کا کل پرزوں کا ہے اور جس نے ذرا نگاہ کو اور گہرا کرلیا تو اسے یہ نظر آجاتا ہے کہ درحقیقت اس کا چلانا نہ ڈرائیور کا کام ہے نہ انجن کے کل پرزوں کا بلکہ اصل طاقت اس اسٹیم کی ہے جو انجن کے اندر پیدا ہو رہی ہے اسی طرح ایک موحد انسان ان سب عقلمندوں پر ہنستا ہے کہ حقیقت کو تم نے بھی نہیں پایا فکر و نظر کی منزل ابھی اور آگے ہے ذرا نگاہ کو تیز کرو اور غور سے کام لو تو معلوم ہوگا کہ اسٹیم اور آگ وپانی بھی کچھ نہیں طاقت وقوت صرف اسی ذات کی ہے جس نے آگ اور پانی پیدا کئے ہیں اور اسی کی مشیت وامر کے ماتحت یہ سب چیزیں اپنی ڈیوٹی ادا کر رہی ہیں، - خاک وباد وآب وآتش بندہ اند - بامن وتومردہ باحق زندہ اند
الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً ٠ ۠ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ٠ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٢- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - فرش - الفَرْشُ : بسط الثّياب، ويقال لِلْمَفْرُوشِ : فَرْشٌ وفِرَاشٌ. قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِراشاً [ البقرة 22] ، أي : ذلّلها ولم يجعلها ناتئة لا يمكن الاستقرار عليها، والفِرَاشُ جمعه : فُرُشٌ. قال : وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ [ الواقعة 34] ، فُرُشٍ بَطائِنُها مِنْ إِسْتَبْرَقٍ [ الرحمن 54] . والفَرْشُ : ما يُفْرَشُ من الأنعام، أي : يركب، قال تعالی: حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وكنّي بِالْفِرَاشِ عن کلّ واحد من الزّوجین، فقال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «الولد للفراش» وفلان کريم المَفَارِشِ أي : النّساء . وأَفْرَشَ الرّجل صاحبه، أي : اغتابه وأساء القول فيه، وأَفْرَشَ عنه : أقلع، والفَرَاشُ : طير معروف، قال : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] ، وبه شبّه فَرَاشَةُ القفل، والْفَرَاشَةُ : الماء القلیل في الإناء .- ( ف ر ش ) الفرش ( ن ض ) کے اصل معنی کپڑے کو بچھانے کے ہیں لیکن بطور اسم کے ہر اس چیز کو جو بچھائی جائے فرش وفراش کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِراشاً [ البقرة 22] جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا ۔۔۔۔۔ بنایا یعنی قابل رہائش بنایا اور اسے ابھرا ہوا نہیں بنایا جس پر سکونت ناممکن ہو اور الفراش کی جمع فرس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ [ الواقعة 34] اور اونچے اونچے فرشتوں میں ۔ فُرُشٍ بَطائِنُها مِنْ إِسْتَبْرَقٍ [ الرحمن 54] ایسے بچھو نوں پر جن کے استر طلس کے ہیں ۔۔۔۔ اور فرش سے مراد وہ جانور بھی ہوتے ہیں جو بار برداری کے قبال نہ ہوں جیسے فرمایا : ۔ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] چوپایوں میں سے بڑی عمر کے جو بار برداری کے کام آتے ہیں اور چھوئی عمر جو بار برادری کا کام نہیں دیتے اور زمین میں لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے ) بھی ۔ اور کنایہ کے طور پر فراش کا لفظ میاں بیوی میں سے ہر ایک پر بولا جاتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا الولد للفراش کہ بچہ خاوند کا ہے ۔ اور محاورہ ہے ۔ فلان کریمہ المفارش یعنی اس کی بیگمات اعلیٰ مرتبہ گی ہیں ۔ افرش الرجل صاحبہ اس نے اپنے ساتھی کی غیبت اور بد گوئی کی ۔ افرش عنہ کسی چیز سے رک جانا ( الفرشہ پروانہ تتلی وغیرہ اس کی جمع الفراش آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] جیسے بکھرے ہوئے پتنگے ۔ اور تشبیہ کے طور پر تالے کے کنڈے کو بھی فراشۃ القفل کہا جاتا ہے نیز فراشۃ کے معنی بر تن میں تھوڑا سا پانی کے بھی آتے ہیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - ندد - نَدِيدُ الشیءِ : مُشارِكه في جَوْهَره، وذلک ضربٌ من المماثلة، فإنّ المِثْل يقال في أيِّ مشارکةٍ کانتْ ، فكلّ نِدٍّ مثلٌ ، ولیس کلّ مثلٍ نِدّاً ، ويقال : نِدُّهُ ونَدِيدُهُ ونَدِيدَتُهُ ، قال تعالی:- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] ، وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] وقرئ : (يوم التَّنَادِّ ) [ غافر 32] «2» أي : يَنِدُّ بعضُهم من بعض . نحو : يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] .- ( ن د د )- ندید الشئی ۔ وہ جو کسی چیز کی ذات یا جوہر میں اس کا شریک ہو اور یہ ممانعت کی ایک قسم ہے کیونکہ مثل کا لفظ ہر قسم کی مشارکت پر بولا جاتا ہے ۔ اس بنا پر ہرند کو مثل کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر مثل ند نہیں ہوتا ۔ اور ند ، ندید ندید ۃ تینوں ہم معنی ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔- فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْداداً [ البقرة 22] پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْداداً [ البقرة 165] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک خدا بناتے ہیں ۔ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْداداً [ فصلت 9] اور بتوں کو اس کا مد مقابل بناتے ہو ۔ اور ایک قرات میں یوم التناد تشدید دال کے ساتھ ہے اور یہ نذ یند سے مشتق ہے جس کے معنی دور بھاگنے کے ہیں اور قیامت کے روز بھی چونکہ لوگ اپنے قرابتدروں سے دور بھاگیں گے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ [ عبس 34] میں مذکور ہے اس لئے روز قیامت کو یو م التناد بتشدید الدال کہا گیا ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
قول باری ہے : الذی جعل لکم الارض فراشاً (وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا) یعنی تمہارے لئے قرار اور ٹھکانا بنایا اور صرف فراش کا لفظ علی الاطلاق ذکر کیا جائے تو یہ زمین کو شامل نہیں ہوگا، بلکہ زمین کو فرش کا نام اسی لفظ کے ساتھ مقید کر کے دیا جاتا ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : والجبال اوتاداً (اور پہاڑوں کو میخیں ) اوتاد یعنی میخوں کے اسم کا اطلاق پہاڑوں کا مفہوم ادا نہیں کرتا۔ اسی طرح قول باری ہے : والشمس سراجاً اور سورج کو چراغ ) اسی بنا پر فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص فرش اور بچھونے پر نہ سونے کی قسم کھالے اور پھر زمین پر سو جائے تو وہ حانث نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص چراغ تلے نہ بیٹھنے کی قسم کھا کر دھوپ میں بیٹھ جائے تو وہ حانث قرار نہیں پائے گا اس لئے کہ قسموں کو ان اسماء پر محمول کیا جاتا ہے جو معتاد و متعارف ہوں۔- عرف کے اندر فراش اور سراج کے الفاظ کا اطلاق زمین اور سورج پر نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اللہ سبحانہ نے اپنے منکر کو کافر کا نام دیا ہے۔ اسی طرح زارع یعنی کاشتکار کو نیز غرق، آہن شخص کو کافر کہا اجتا ہے۔ کافر کا یہ اسم علی الاطلاق مذکورہ بالا دونوں افراد کو شامل نہیں ہوتا، بلکہ اللہ کا کفر کرنے والے کو شامل ہوتا ہے۔ ایسے مطلق اور مقید اسماء کی مثالیں بہت زیادہ ہیں اور بہت سے احکام میں ان کا اعتبار واجب ہوتا ہے، یعنی عرف اور عادت کے اندر جو لفظ مطلق ہو اسے اس کے اطلاق پر رکھا جائے اور جو عقید ہوا سے اس کی تقیید پر برقرار رہنے دیا جائے۔ کسی لفظ کو اس کے اصل مقام سے آگے نہ لے جایا جائے۔- زیر بحث آیت میں اللہ کی وحدانیت پر نیز ایسے صانع اور قادر مطلق پر دلالت موجود ہے جس کے مشابہ کوئی چیز نہیں اور جسے کوئی چیز عاجز اور درماندہ نہیں کرسکتی۔ یہ دلالت آسمانوں کی بلندی، ستونوں کے بغیر ان کے قیام اور مردر ایام کے باوجود ان کے دوام کی شکل میں موجود ہے۔ زمانہ ہائے دراز گزر جانے کے باوجود آسمان اپنی جگہ قائم ہیں اور ان میں کوئی تغیر و تبدل پیدا نہیں ہوا، قول باری ہے : وجعلنا لسمآء سفقاً محفوظاً (اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت کی شکل دے دی) اسی طرح زمین کا ثبات اور کسی سہارے کے بغیر اس کا قیام توحید باری اور خالق کائنات کی قدرت کے عظیم ترین دلائل میں سے ہیں جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کوئی چیز اللہ کو عاجز نہیں کرسکتی۔ زمین و آسمان کے اس کارخانے میں ہمارے لئے اس کی ذات سے آگاہ ہونے، اس کی ذات پر ان سے استدلال کرنے اور اس کی نعمتوں کی یاد دہانی کے تمام اسباب موجود ہیں۔- قول باری : فاخر جبہ من الثمرات رزقا لکم (اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق پہنچایا) اس قول باری : ھو الذی خلق لکم ما فی فی الارض جمیعاً (وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں) نیز : وسخرلکم ما فی السموت وما فی الارض (اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس نے اسے تمہارے لئے مسخر کردیا) نیز : قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لبعادہ و الطیبات من الرزق صاے محمد، ان سے کہو کہ کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں) کی نظیر ہے۔ ان تمام آیات سے اس بارے میں استدلال کیا جاتا ہے کہ اشیاء کی اصل اباحت ہے اور ان میں سے کوئی چیز صرف اس وقت حرام ہوگی جب اس کے متعلق حرمت کی دلیل قائم ہوجائے گی۔
(٢٢) اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جس نے تمہارے لیے زمین کو بستر اور بچھونا اور آسمان کو بلند چھت والا بنایا اور آسمان سے بارش اتاری جس سے طرح طرح کے پھل تمہارے لیے اور تمام مخلوقات کے لیے پیدا کیے، لہذا اللہ تعالیٰ کے برابر و مشابہ کسی کو نہ بناؤ کیونکہ تم خوب جانتے ہو کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
آیت ٢٢ (الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءًص) - وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب تم بھی مانتے ہو کہ اس کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ‘ تو پھر اس کے شریک کیوں ٹھہراتے ہو ؟ اہل عرب یہ بات مانتے تھے کہ کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے ‘ البتہ جو ان کے دیوی دیوتا تھے انہیں وہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کے اوتار ہیں یا اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں ‘ اس کے اولیاء ہیں ‘ اس کی بیٹیاں ہیں ‘ لہٰذا یہ شفاعت کریں گے تو ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب تم یہ مانتے ہو کہ کائنات کا خالق ایک اللہ ہے ‘ وہی اس کا مدبر ہے تو اب کسی کو اس کا مدمقابل نہ بناؤ۔ ّ - اَنْدَاد ” نِدّ “ کی جمع ہے ‘ اس کا معنی مدمقابل ہے۔ خطبۂ جمعہ میں آپ نے یہ الفاظ سنے ہوں گے : ” لَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ “۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا : اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ ) (١) ” یہ کہ تو اس کا کوئی مدمقابل ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے “۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کسی درجے میں کوئی شریک یا مدمقابل نہیں ہے۔ اس ضمن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کو اس درجے توحید کی باریکیوں تک پہنچا کر گئے ہیں کہ ایسے تصوراتّ کی بالکل جڑ کٹ جاتی ہے۔ ایک صحابی (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایسے ہی کہہ دیا : ” مَاشَاء اللّٰہُ وَمَا شِءْتَ “ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور فرمایا : (اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا ؟ مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہٗ ) ” کیا تو نے مجھے اللہ کا مدمقابل بنا دیا ہے ؟ (بلکہ وہی ہوگا) جو تنہا اللہ چاہے۔ “ (٢) اس کائنات میں مشیت صرف ایک ہستی کی چلتی ہے۔ کسی اور کی مشیت اس کی مشیت کے تابع پوری ہوجائے تو ہوجائے ‘ لیکن مشیت مطلقہ صرف اس کی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا : - (اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ) (القصص : ٥٦)- ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یقینا آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ‘ بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ “ - اگر ہدایت کا معاملہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں ہوتا تو ابوطالب دنیا سے ایمان لائے بغیر رخصت نہ ہوتے۔- ان دو آیتوں میں توحید کے دونوں پہلو بیان ہوگئے ‘ توحید نظری بھی اور توحید عملی بھی۔ توحید عملی یہ ہے کہ بندگی صرف اسی کی ہے۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالرسالت کا بیان آرہا ہے۔
18 ان دو آیتوں (آیت نمبر : ٢١ اور ٢٢) میں اسلام کے بنیادی عقیدے توحید کی دعوت دی گئی ہے اور مختصر انداز میں اس کی دلیل بھی بیان کردی گئی ہے اہل عرب یہ مانتے تھے کہ ساری کائنات کو پیدا کرنا، زمین و آسمان کی تخلیق اور آسمان سے بارش برسانا اور اس سے پیداوار اگانا، یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں، اس کے باوجود یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے کام بتوں کے سپرد کر رکھے ہیں اور وہ بت اپنے کاموں میں براہ راست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہذا وہ ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے تھے کہ وہ ان کی مددکریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہر چیز پیدا کرنے والے ہم ہیں اور ہمیں کائنات چلانے کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں تو عبادت کسی اور کی کرنا کتنے بڑے ظلم کی بات ہے۔