Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تصدیق نبوت اعجاز قرآن توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ ۔ جب تم ایسا نہیں کر سکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو؟ اپنے ہم فکر اور مددگار سب کو جمع کرو تو بھی تم سب ناکام رہو گے ۔ مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور ان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زباں دان فصیح و بلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو ۔ قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے سورۃ قصص میں ہے آیت ( قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَآ اَتَّبِعْهُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 28 ۔ القصص:49 ) یعنی اگر تم سچے ہو تو ان دونوں سے ( یعنی توریت و قرآن سے ) زیادہ ہدایت والی کوئی اور اللہ کی کتاب لاؤ تو میں بھی اس کی تابعداری کروں گا ۔ سورۃ سبحان میں فرمایا آیت ( قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا ) 17 ۔ الاسراء:88 ) یعنی اگر تمام جنات اور انسان جمع ہو کر اور ہر ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ یہ چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنائیں تو بھی ان کے امکان میں نہیں سورۃ ہود میں فرمایا آیت ( اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 11 ۔ ہود:13 ) یعنی کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کو خود اس پیغمبر نے گھڑ لیا تم کہو کہ اگر تم سچے ہو تو تم سب مل کر اور اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ ۔ سورۃ یونس میں ہے آیت ( وَمَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ يُّفْتَرٰي مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) 10 ۔ یونس:37 ) یعنی یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف سے گھڑا ہوا نہیں بلکہ یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور کتاب تفصیل ہے جس کے اللہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں جو رب العالمین کی طرف سے ہے کیا یہ لوگ اسے خود ساختہ کہتے ہیں ان سے کہو کہ اللہ کے سوا ہر شخص کو بلا کر اس قرآن کی سینکڑوں سورتوں میں سے ایک چھوٹی سی سورت جیسی سورت تو بنا لاؤ تاکہ تمہارا سچ ظاہر ہو ۔ یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا اوپر کی آیت مثلہ کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ ۔ بعض نے یہ ضمیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ جیسا کوئی امی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ مجاہد قتادہ عمرو بن مسعود ابن عباس حسن بصری اور اکثر محققین کا یہی قول ہے امام ابن جریر طبری زمحشری رازی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی ۔ خواہ وہ امی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشنگوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پس اس عام اعلان سے جو بار بار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں ۔ مکہ میں اور مدینہ میں بارہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ کی اور آپ کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آ گئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا ، نہ ایک سورت کا ، پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہو جائیں اور قیامت تک محنت کرلیں ۔ پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرات ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہو سکتا ؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بےمثل اسی طرح اس کا کلام بھی ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے آیت ( الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ) 11 ۔ ہود:1 ) یعنی اس کتاب کی آیتیں جو حکمت والے ہر طرح کی خبریں جاننے والے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں ۔ پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بےنظیر ہے جس کے مقابلے ، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بےبس ہے اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے ۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے ۔ سچ ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ) 6 ۔ الانعام:115 ) یعنی خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے ۔ پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تواہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدرو قیمت ہی اسی پر مقولہ مشہور ہے کہ اعذبہ اکذبہ جوں جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزید سر تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں ۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے ۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال ۔ پر پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں ۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس برخلاف اس کے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے ، خیرو برکت سے پر ہے ۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش ، عبارت کی روانی ، معانی کی نورانیت ، مضمون کی پاکیزگی ، سونے پر سہاگہ ہے ۔ اس کی خبروں کی حلاوت ، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست ، مردہ دلوں کی زندگی ہے ۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دوہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے ۔ بار بار پڑھو دل نہ اکتائے ، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں ۔ یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا ۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے ۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں ، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا ، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے ۔ دل کھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔ رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے آیت ( فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) 22 ۔ السجدہ:17 ) اس دائمی جنت میں ہر وہ چیز ہے جو دل کو بھائے اور آنکھوں میں اتر جائے ۔ ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا آیت ( اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ ) 17 ۔ الاسرآء:68 ) فرمایا ( ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ 16؀ۙ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ 17؀ ) 67 ۔ الملک:17-16 ) کیا تم اپنے دھنسائے جانے یا آسمان سے پتھر برسائے جانے سے نڈر ہو گئے ہو؟ کیا آسمانوں والا اس پر قادر نہیں؟ اسے محض دھمکی ہی نہ سمجھو بلکہ اس کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی ۔ زجرو تو پیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے ۔ آیت ( فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ) 29 ۔ العنکبوت:40 ) ایک ایک کو ہم نے اس کی بدکرداریوں میں پکڑ لیا ۔ بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے آیت ( اَفَرَءَيْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِـنِيْنَ ٢٠٥؀ۙ ثُمَّ جَاۗءَهُمْ مَّا كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ ٢٠٦؀ۙ مَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يُمَـتَّعُوْنَ ٢٠٧؀ۭ ) 26 ۔ الشعرآء:207-206-205 ) اگر ہم نے کچھ سال انہیں فائدہ نہیں دیا تو کیا ہوا ؟ آخر وعدے کی گھڑی آ پہنچی اور اس جاہ و جلال نے کوئی نفع نہ بخشا ۔ غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا ۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت ، حلاوت و حکمت سے معمور کر دیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے ۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے ۔ ابن مسعود وغیرہ اسلاف امت کا قول ہے کہ جب قرآن میں آیت ( یا ایھا الذین امنوا ) آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے آیت ( يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ ) 7 ۔ الاعراف:157 ) یعنی بھلائیوں کا حکم دیتا ہے برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے خبیث چیزیں حرام کرتا ہے وہ بوجھل بیڑیاں جو پاؤں میں تھیں وہ سخت طوق جو گلوں میں تھے اتار پھینکتا ہے قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف ۔ اولیاء اللہ کے لئے طرح طرح کی نعمتیں ۔ دشمنان اللہ کے لئے طرح طرح کے عذاب ۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے ۔ کہیں بدکاریوں سے ممانعت ہے ۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی ، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے ۔ یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کر دیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں ۔ صحیح بخاری مسلم میں بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لئے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہہوں گے اس لئے کہ اور انبیاء کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا ۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کر دینے والا ہے ۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں واللہ اعلم ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آپ کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے ۔ للہ الحمد والمنتہ ۔ بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لا سکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں ۔ یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے ، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہو سکتا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں ۔ گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے امام رازی نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔ جہنم کا ایندھن وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے ۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے آیت ( وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ) 72 ۔ الجن:15 ) ظالم لوگ جہنم کی لکڑیاں ہیں اور جگہ فرمایا تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے اگر وہ سچے معبود ہوتے تو وہاں وارد نہ ہوتے دراصل یہ سب کے سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبو دار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے ۔ ( ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم ) ابن عباس ابن مسعود اور چند اور صحابہ سے سدی نے نقل کیا ہے کہ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریج بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں ۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:98 ) تم اور تمہارے وہ معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں قرطبی اور رازی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوں لیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لئے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہو گی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے ۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لئے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہو قرآن کریم میں ہے آیت ( كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا ) 17 ۔ الاسرآء:97 ) جہاں شعلے ہلکے ہوئے کہ ہم نے اور بھڑکا دیا ۔ ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں ۔ قرطبی فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہو گی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی ۔ اعدت یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لئے تیار کئے گئے ہیں ۔ ابن مسعود کا یہی قول ہے اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لئے ہے ۔ لہذا آگ کی تیاری کے لئے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے ۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے ۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ اعدت کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے بہت سی حدیثیں بھی ہیں ۔ ایک مطول حدیث میں ہے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا ، دوسری حدیث میں ہے جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی ۔ تیسری حدیث میں ہے صحابہ کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے آپ نے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہ کو پہنچا ۔ چوتھی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا ۔ پانچویں حدیث میں ہے کہ آپ نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے ۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں اور سورۃ یونس میں جو کہا گیا ہے کہ ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لئے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورۃ کوثر اور سورۃ العصر اور سورۃ آیت ( قل یاایھا الکفرون جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بےجا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجز نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لئے پسند کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جا سکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہو گیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لئے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے ۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے یہ تو رازی کا کہنا ہے ۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بےبس ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورۃ والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے ( تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بیحد فصیح و بلیغ اور جامع اور مانع ہے پھر سورۃ والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا ۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا یاوبریا وبرانما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہے پھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی؟ انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام؟

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 توحید کے بعد اب رسالت کا اثبات فرمایا جا رہا ہے ہم نے بندے پر کتاب نازل فرمائی ہے اس کے منزل من اللہ ہونے میں اگر تمہیں شک ہے تو اپنے تمام حمایتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو سمجھ لینا چاہیے کہ واقع یہ کلام کسی انسان کی کاوش نہیں ہے کلام الہی ہی ہے اور ہم پر اور رسالت مآب پر ایمان لا کر جہنم کی آگ سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے جو کافروں کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] قرآن کا چیلنج اور اس کی معجزانہ حیثیت :۔ اس آیت میں خالصتاً کافروں کو خطاب کیا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں اس کلام (قرآن) کے اللہ کا کلام ہونے میں شک ہے تو پھر تم سب مل کر اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھاؤ۔ حقیقت حال از خود تم پر واضح ہوجائے گی۔ کافروں کو اس قسم کا چیلنج قرآن کریم میں چار اور مقامات پر بھی کیا گیا ہے یعنی سورة یونس کی آیت نمبر ١٤، سورة ہود آیت نمبر ١٣، سورة بنی اسرائیل آیت ٨٨ اور سورة طور کی آیت نمبر ٣٤ میں اور یہ ایسا چیلنج ہے۔ جس کا جواب کفار سے نہ اس دور میں میسر آسکا نہ آج تک میسر آیا ہے اور نہ ہی آئندہ تا قیامت میسر آسکے گا اور قرآن کریم کی یہ اعجازی حیثیت آج تک بدستور مسلم ہے۔- اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ انبیاء کو ایسی چیز بطور معجزہ دی جاتی ہے۔ جس کی اس زمانہ میں دھوم مچی ہوئی ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ساحری اپنی انتہائی بلندی پر پہنچی ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو ایسے معجزات عطا کئے جن کے آگے فرعون کے بڑے بڑے جادوگروں کو سربسجود ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طب اپنی انتہائی بلندیوں کو پہنچی ہوئی تھی۔ بقراط، ارسطالیس، لقمان اور جالینوس جیسے حکماء کا ڈنکا بجتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا کئے جو ان حکماء کی دسترس سے ما ورا تھے۔ بھلا کون سا حکیم مردوں کو زندہ کرسکتا تھا۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے شعراء میں باہمی مقابلے ہوتے تھے اور مقابلہ میں بہترین قرار دیئے جانے والے شعراء کا کلام کعبہ کے دروازہ پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ سبع معلقات اسی دور کی یادگار ہے۔ جو آج بھی متداول ہے۔ ایسے ہی شعراء ادباء اور خطباء کو اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا اور فرمایا کہ اپنے سب مدد گاروں، جنوں یا انسانوں اور اپنے دیوتاؤں اور معبودوں سب کی مدد لے کر اس قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ لیکن یہ سب لوگ ایسا کلام پیش کرنے میں عاجز ثابت ہوئے۔- پھر قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت تک ہی محدود نہ تھا اس کے مضامین کی ندرت اور حقائق سے نقاب کشائی اور غیب کی اطلاعات ایسے اوصاف تھے جو انسان کی بساط سے باہر تھے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلیل :۔ اب دوسری طرف یہ صورت حال تھی کہ اس قرآن کو پیش کرنے والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود امی تھے، لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی استاد بھی نہ تھا۔ ان کی طرف سے اس طرح کا کلام پیش کیا جانا مزید باعث حیرت واستعجاب تھا۔- لہذا قرآن کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتوں کا از خود ثبوت مہیا ہوجاتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت (٢) قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت (٣) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کا ثبوت۔- اب ہم قرآن کے چند امتیازی پہلوؤں کی وضاحت پیش کریں گے۔- قرآن کے امتیازی پہلو :۔ ١۔ پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے گئے وہ سب وقتی اور عارضی تھے، کسی نے دیکھے اور کسی نے صرف سنے تھے۔ مگر قرآن کو سب دیکھ سکتے ہیں اور اس وقت سے لے کرتا قیامت دیکھ سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک زندہ جاوید، دائمی اور لازوال معجزہ ہے۔- ٢۔ اس کی اعجازی حیثیت صرف یہی نہیں کہ اس دور کے فصحاء اور بلغاء اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہ گئے تھے۔ بلکہ آج تک اس کی زبان ادب کی زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ جو درجہ یہاں ہندوستان میں اردوئے معلیٰ کو حاصل ہے۔ وہی درجہ قرآن کو عام لوگوں کی ادبی زبان پر حاصل ہے اور اس کی عربی زبان پر اتنی گہری چھاپ ہے کہ عربی زبان تغیرات زمانہ کی دستبرد سے آج تک بہت حد تک محفوظ ہے۔ اگر بالفرض محال قرآن کی زبان نہ محفوظ رہتی تو اس کے مقابلہ میں غالباً آج کی عربی زبان پہچانی بھی نہ جاسکتی۔- ٣۔ قرآن کی اعجازی حیثیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ اس ہستی کی زبان سے ادا ہوئی جو فصاحت و بلاغت سے سابقہ شناسائی تو درکنار، لکھنا پڑھنا تک نہ جانتے تھے۔ آپ کی نبوت سے پہلے کی زبان عام امی لوگوں جیسی ہی تھی۔ آپ کو نبوت سے پہلے عبادت گزاری سے تو دلچسپی ضرور تھی۔ مگر عربی ادب سے قطعاً ناآشنا تھے۔- ٤۔ قرآن کی حکمت نظری یہ ہے کہ اس کے دلائل نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ خواہ یہ دلائل توحید پر ہوں یا آخرت کے قیام اور دوبارہ زندگی پر، اور ایسی اشیاء سے پیش کیے گئے ہیں جو ہر انسان کے مشاہدہ اور تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ یہاں نہ تثلیث کا گورکھ دھندا ہے، نہ نیکی اور بدی کے الگ الگ خداؤں کا اور نہ لاتعداد خداؤں کی کارسازی کا۔ لہذا اس کو سمجھنے میں کسی کو کوئی ابہام یا دشواری پیش نہیں آتی۔ پھر چونکہ دلائل فصیح زبان میں پیش کئے گئے ہیں۔ لہذا اس سے اونٹوں کو چرانے والے اعرابی بھی اسی طرح لطف اندوز ہوتے تھے جس طرح فصحاء اور بلغاء لطف اندوز ہوتے تھے، جب آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ 94؀) 15 ۔ الحجر :94) کے الفاظ نازل ہوئے تو ایک اعرابی سجدہ میں گرپڑا اور کہنے لگا میں اس کی فصاحت کو سجدہ کرتا ہوں۔ جب سورة کوثر کی تین مختصر سی آیات نازل ہوئیں تو اسے سیدنا علی (رض) نے بیت اللہ میں جا لٹکایا جہاں معروف عرب شعراء لٹکایا کرتے تھے، تو اس کے نیچے کسی نے لکھ دیا کہ (ما هٰذَآ قَوْلُ الْبَشَرِ ) غرض ایسے واقعات بیشمار ہیں اور غالباً اسی وجہ سے کفار قرآن کو سحر بلکہ سحر مبین کہا کرتے تھے۔- اشتراکیت کی ناکامی کی وجہ :۔ ٥۔ قرآن کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس کے تمام تر احکام اس کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق ہیں اور قابل عمل بھی، خواہ وہ انفرادی حیثیت رکھتے ہوں یا اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں یا عبادات سے، معاشرتی احکام ہوں یا معاشی، ملکی خارجہ پالیسی سے متعلق ہوں یا اندرونی پالیسی سے سب کے سب قابل عمل ہیں اور عمل میں لائے جا چکے ہیں۔ اپریل ١٩١٧ ء میں روس میں اشتراکی حکومت قائم ہوئی اور پون صدی بھی گزرنے نہ پائی تھی کہ دم توڑ گئی۔ اس ٧٥ سال کے عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اشتراکیت کے مرکز روس میں بھی اشتراکی نظریہ کے مطابق حکومت کی جاسکی ہو اور اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اشتراکی نظریات انسانی فطرت کے خلاف تھے اور ان میں انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات کی خاطر کچل دیا گیا تھا۔ مگر اسلام کی تعلیم اور اس کے احکام انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ نہ ہی اس کی حکمت نظری اور حکمت عملی میں کوئی تضاد یا تصادم ہے۔ اگر مسلمان صحیح طور پر اسلامی احکام پر کاربند ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں دنیا میں سر بلندی اور سرخروئی حاصل نہ ہو۔ گویا قرآن کی تعلیم صرف یہی نہیں کہ وہ قابل عمل ہے۔ بلکہ اپنے پیروکاروں کو بلند مقام پر فائز کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔- ٦۔ قرآن عظیم کا چھٹا امتیاز اس کی جامعیت اور ہمہ گیری ہے جو انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں کو محیط ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے جو نہ کسی دوسری الہامی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ نہ کسی دوسرے مذہب میں۔ پھر یہ صرف دنیا کی زندگی کے لیے ہدایت نہیں دیتی بلکہ ما بعد الطبیعیات پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔- ٧۔ قرآن کا ساتواں امتیاز یہ ہے کہ اس کے احکام عام حالات میں ایک اوسط درجہ کی طاقت کے انسان کی استعداد کا لحاظ رکھ کر کیے گئے ہیں۔ پھر معاشرہ کے معذور لوگوں اور بدلتے ہوئے حالات کا لحاظ رکھ کر ان احکام میں رخصت یا رعایت رکھی گئی ہے۔ تاکہ کسی موقعہ پر بھی لوگوں کو اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے میں دشواری پیش نہ آئے۔ بالفاظ دیگر قرآن کریم کا کوئی حکم ایسا نہیں جو تکلیف مالایطاق کے ضمن میں آتا ہو۔ - قرآن کا اصل موضوع :۔ ٨۔ قرآن پاک کا آٹھواں اور نہایت اہم امتیاز یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع سے ادھر ادھر بالکل نہیں ہٹتا۔ اس کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلنے سے انسان کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ قرآن عظیم کا کوئی صفحہ، کوئی سورت، کوئی آیت کوئی سطر نکال کے دیکھ لیجئے، خواہ یہ احکام سے متعلق ہو یا دلائل سے یا سابقہ اقوام کی سرگزشت اور ان کے انجام سے، ہر ہر مقام پر آپ کی ہدایت کے لیے کوئی نہ کوئی سبق موجود ہوگا۔- قرآن میں بےکار بحثوں سے اجتناب :۔ ٩۔ قرآن کا نواں امتیاز ایجاز ہے یعنی ایسی تفصیل میں وہ ہرگز نہیں جاتا جس کا ہدایت سے کچھ تعلق نہ ہو۔ مثلاً قرآن نے ام موسیٰ کی طرف وحی کا تو ذکر کیا مگر اس کا نام نہیں لیا۔ سیدنا آدم (علیہ السلام) کو جنت میں ایک درخت کے نزدیک نہ جانے کے حکم کا ذکر کیا مگر درخت کا نام نہ لیا۔ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اَھِلَّہ، یعنی نئے چاندوں یا اشکال قمر کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اشکال قمر کی وجہ بتانے کے بجائے جواب کا رخ اس طرف موڑ دیا جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی تھی کیونکہ اشکال قمر کی وجہ جاننے میں انسان کی ہدایت کا کوئی پہلو نہ تھا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اصحاب کہف کی تعداد سے متعلق بحث و کرید کرنے سے منع فرمایا۔ کیونکہ ایسی بےکار بحثوں کا ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا اور ایسی بحثیں صرف وقت کے ضیاع اور بےعملی کا باعث ہی نہیں بنتیں بلکہ بسا اوقات تفرقہ بازی کی بنیاد بھی بن جاتی ہیں۔- ١٠۔ اور قرآن پاک کا دسواں اور اہم امتیاز یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی نبی اور رسول کی سیرت و کردار کو داغدار نہیں کیا۔ بائیبل میں بعض انبیاء کی سیرت و کردار پر جس طرح سوقیانہ حملے کیے گئے ہیں۔ اس کا ذکر ہم کسی دوسرے مقام میں کر رہے ہیں۔- ١١۔ اور گیا رہواں امتیاز اس کی شائستہ اور مہذبانہ زبان ہے۔ گالی گلوچ یا فحش الفاظ سے کلیتاً اجتناب کیا گیا ہے۔ زلیخا کو سیدنا یوسف (علیہ السلام) سے فی الواقع انہی معنوں میں عشق تھا جو مشہور و معروف ہیں لیکن وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو استعمال نہیں فرمایا کیونکہ یہ لفظ سوقیانہ اور بازاری قسم کا ہے جس سے فحاشی کی بو آتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے بدترین دشمنوں کا بھی نام نہیں لیا۔ بلکہ ان میں سے بعض کے اوصاف ایسے بیان کردیئے ہیں جس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ان آیات کا روئے سخن فلاں شخص کی طرف ہے۔ اس کلیہ سے استثناء صرف ابو لہب کے لیے ہے۔ جس کی چند در چند وجوہ ہیں جن کا ذکر مناسب مقام پر سورة لہب میں کردیا گیا ہے۔- الغرض قرآن کے امتیازات و عجائب اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس قدر غور و فکر اور گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا جائے، نئے سے نئے پہلو سامنے آنے لگتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ قرآن ایسی کتاب ہے جس کے عجائب ختم ہونے میں نہیں آسکتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو ( ُ لَا رَيْبَ ) قرار دیا، اب فرمایا کہ ( اس کتاب میں کوئی شک تو نہیں لیکن) اگر تم اس کے بارے میں کسی ادنیٰ سے شک میں بھی مبتلا ہو تو اس جیسی ایک سورت بنا کرلے آؤ۔ یہ چیلنج پہلے اس کتاب جیسی ایک کتاب لانے کا کیا گیا۔ [ بنی إسرائیل : ٨٨ ] پھر اس جیسی دس سورتیں لانے کا۔ [ ہود : ١٣ ] پھر مکہ میں اس جیسی ایک سورت لانے کا چیلنج کیا گیا۔ [ یونس : ٣٨ ] اب مدینہ میں یہ چیلنج دہرایا جا رہا ہے، کیونکہ سورة بقرہ مدنی ہے۔ - پچھلی دو آیات میں شرک کی تردید اور توحید کی دعوت ہے۔ ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت ہے۔ - عَبْدِنَا اگرچہ تمام بندے اللہ تعالیٰ ہی کے بندے ہیں مگر ” ہمارے بندے “ سے مراد ہمارا خاص بندہ ہے، جیسے : ” بیت اللہ “ اور ” ناقۃ اللہ “ اسے اضافت تشریفی کہتے ہیں۔ - ہر زمانے میں جو چیز کمال کو پہنچی ہوئی تھی اس زمانے کے پیغمبر کو ایسا معجزہ دیا گیا جس کے سامنے انسانی کمال عاجز اور بےبس ہو، جیسے فرعون کے جادوگر اور عصائے موسیٰ ، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے با کمال طبیب اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا مردوں کو زندہ کرنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اہل عرب کو اپنی فصاحت و بلاغت پر فخر تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا معجزہ عطا فرمایا جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال سیکڑوں برس گزرنے کے باوجود نہ کوئی پیش کرسکا نہ کرسکے گا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت ( ٤٧ تا ٥١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

رسالت محمدی کا اثبات : بذریعہ اعجاز قرآن : وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 23؀ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ خلاصہ تفسیر : اگر تم لوگ کچھ خلجان میں ہو اس کتاب کی نسبت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اپنے بندے خاص پر تو پھر تم بنا لاؤ ایک محدود ٹکڑا جو اور اس کا ہم پلہ ہو (کیونکہ تم بھی عربی زبان جانتے ہو اور اس کی نظم ونثر کے مشاق ہو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی کوئی مشق بھی نہیں کی، اور جب اس کے باوجود تم قرآن کے ایک ٹکڑے کی بھی مثل نہ بنا سکو تو بشرط انصاف بےتامل ثابت ہوجاوے گا کہ یہ معجزہ منجانب اللہ ہے اور آپ اللہ کے پیغمبر ہیں) اور بلالو اپنے حمائیتیوں کو (جو) خدا سے الگ (الگ تجویز کر رکھے ہیں) اگر تم سچے ہو پھر اگر تم یہ کام نہ کرسکو اور قیامت تک بھی نہ کرسکو گے تو پھر ذرا بچتے ہوئے دوزخ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار رکھی ہوئی ہے کافروں کے واسطے، معارف و مسائل ؛ ربط آیات و خلاصہ مضمون : یہ سورة بقرہ کی تیئیسویں اور چوبیسویں آیتیں ہیں اس سے پہلی دوآیتوں میں توحید کا ثبوت تھا ان دونوں آیتوں میں رسالت محمدی کا اثبات ہے (علیہ الصلوٰم والسلام) وہ ہدایت جو قرآن لے کر آیا ہے اس کے دو عمود ہیں، توحید اور رسالت، پہلی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے چند مخصوص کام ذکر کے توحید ثابت فرمائی گئی ہے اور طریق اثبات دونوں کا ایک ہی ہے کہ پہلی دو آیتوں میں چند ایسے کام مذکور تھے جو سوائے حق تعالیٰ کے کوئی نہیں کرسکتا مثلا زمین اور آسمان کا پیدا کرنا، آسمان سے پانی اتارنا، پانی سے پھل پھول پیدا کرنا، اور خلاصہ استدلال یہ تھا کہ جب یہ کام اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا تو مستحق عبادت بھی اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا اور ان دونوں آیتوں میں ایک ایسا کلام پیش کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا نہیں ہوسکتا، اور نہ کوئی انسانی فرد یا جماعت اس کی مثال ونظیر لاسکتی ہے جس طرح زمین و آسمان کی بناوٹ، پانی برسانے اور اس سے پھل پھول نکالنے سے انسانی طاقت پیش کانے سے پوری مخلوق کا عاجز رہنا اس کی دلیل ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہی کا ہے کسی مخلوق کا نہیں اس آیت میں قرآن نے پوری دنیا کے انسانوں کو خطاب کرکے چیلنج دیا ہے کہ اگر تم اس کلام کو اللہ کا کلام نہیں بلکہ کسی انسان کا کلام سمجھتے ہو تو تم بھی انسان ہو تمہیں بھی ایسا کلام پیش کرنے پر قدرت ہونا چاہئے پورا کلام تو کیا تم اس کلام کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی نظیر و مثال بنا کر دکھلا دو اور اس پر تمہارے لئے یہ مزید آسانی دی جاتی ہے کہ تنہا کوئی آدمی نہ بنا سکے تو تمہیں اختیار ہے سارے جہان سے اپنے حمایتی اور مددگار جمع کرلو اور ایک بین العالمی کانفرنس کر کے اس قرآن کی چھوٹی سی سورت کی مثال بنا لاؤ، پھر اسی پر بس نہیں کیا دوسری آیت میں ان کو غیرت دلائی کہ تمہاری مجال نہیں کہ اس جیسی ایک سورت بناسکو، پھر عذاب سے ڈرایا کہ جب تم اس کلام کی مثال بنانے سے اپنا عجز محسوس کرتے ہو، اور یہ صاف اس کی دلیل ہے کہ انسان کا کلام نہیں بلکہ ایسی ہستی کا کلام ہے جو تمام مخلوق سے مافوق اور بلند وبالا ہے جس کی قدرت کاملہ سب پر حاوی ہے تو پھر اس پر ایمان نہ لانا اپنے ہاتھوں جہنم میں اپنا ٹھکانہ کرنا ہے اس سے بچو۔ حاصل یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں قرآن کریم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلیٰ معجزہ بتلا کر آپ کی رسالت اور سچائی کا ثبوت پیش کیا گیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات تو ہزاروں ہیں اور بڑے بڑے حیرت انگیز ہیں لیکن ان سب میں سے اس جگہ آپ کے علمی معجزے یعنی قرآن کریم کے ذکر پر اکتفاء کر کے یہ بتلا دیا گیا کہ آپ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے اور اس معجزہ انبیاء (علیہم السلام) عام معجزات میں بھی ایک خاص امتیاز یہ حاصل ہے کہ عام دستور یہ ہے کہ ہر نبی و رسول کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے کچھ معجزات ظاہر فرماتے ہیں مگر یہ معجزات ان رسولوں کے ہاتھوں ظاہر ہوتے ہیں انھیں کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں مگر قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے، وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ لفظ ریب کا ترجمہ اردو میں شک کا کیا جاتا ہے مگر امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ درحقیقت ریب ایسے تردد اور وہم کو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد کوئی نہ ہو، ذرا غور کرنے سے رفع ہوجائے اسی لئے قرآن کریم میں اہل علم سے ریب کی نفی کی گئی ہے اگرچہ مسلمان نہ ہوں جیسے ارشاد ہے وَلَا يَرْتَابَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْمُؤ ْمِنُوْنَ (٧٤: ٣١) یہی وجہ ہے کہ شروع سورة بقرہ میں قرآن کریم کے متعلق فرمایا لَا رَيْبَ فِيْهِ کہ اس میں کوئی گنجائش نہیں اور اس میں آیت میں فرمایا وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ یعنی اگر ہو تم کسی تردد میں جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن کریم اپنے واضح اور معجزانہ دلائل کی بناء پر کسی شک وتردد کا محل نہیں ہے لیکن اپنی ناواقفیت سے پھر بھی تمہیں کوئی تردد ہے تو سن لو فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ لفظ سورة کے معنی محدود قطعہ کے ہیں اور سورت قرآن اس خاص حصہ قرآن کو کہا جاتا ہے جو بذریعہ وحی ممتاز اور علیحدہ کردیا گیا ہے، پورے قرآن میں اس طرح ایک سو چودہ سورتیں چھوٹی بڑی ہیں اور اس جگہ لفظ سورت بغیر الف لام کے لانے سے اس طرف اشارہ پایا گیا کہ چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اس حکم میں شامل ہے معنی یہ ہیں کہ اگر تمہیں اس قرآن کے کلام الہی ہونے میں کوئی ہونے میں کوئی تردد ہے، اور یہ سمجھتے ہو کہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی دوسرے انسان نے خود بنا لیا ہے تو اس کا فیصلہ بڑی آسانی سے اس طرح ہوسکتا ہے کہ تم بھی اس قرآن کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال بنا لاؤ اگر تم اس کی مثال بنانے میں کامیاب ہوگئے تو بیشک تمہیں حق ہوگا کہ اس کو بھی کسی انسان کا کلام قرار دو اور اگر تم عاجز ہوگئے تو سمجھ لو کہ یہ انسان کی طاقت سے بالاتر خالص اللہ جل شانہ کا کلام ہے، یہاں کوئی کہہ سکتا تھا کہ ہمارا عاجز ہوجانا تو اس کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ سبھی انسان عاجز ہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی یا جماعت یہ کام کرلے اس لئے ارشاد فرمایا، وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰھِ شہداء شاہد کی جمع ہے جس کے معنی حاضر کے آتے ہیں گواہ کو بھی شاہد اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا حاضر عدالت ہونا ضروری ہے اس جگہ شہداء سے مراد یا تو عام حاضرین ہیں کہ سارے جہان میں جس جس سے تم اس کام میں مدد لینا چاہو لے سکتے ہو اور یا اس سے مراد ان کے بت ہیں جن کے بارے میں ان کا یہ خیال تھا کہ قیامت کے روز یہ ہمارے لئے گواہی دیں گے، دوسری آیت میں ان کو ڈرایا گیا کہ اگر تم یہ کام نہ کرسکو تو پھر جہنم کی ایسی سخت آگ سے بچنے کا سامان کرو جس کے انگارے آدمی اور پتھر ہوں گے اور وہ تم ہی جیسے انکار کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے اور اسی جملہ کے بیچ میں جو واقعہ ہونے والا تھا اس کی خبر بھی دے دی، وَلَنْ تَفْعَلُوْا یعنی خواہ تم کتنا ہی انفرادی اور اجتماعی زور لگاؤ تمہاری مجال نہیں کہ اس کی مثال بناسکو، اس پر غور کیا جائے کہ جو قوم اسلام اور قرآن کی مخالفت اور اس کو گرانے مٹانے کے لئے اپنی جان، مال، آبرو، اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لئے تلی ہوئی تھی، اس کو یہ آسان موقع دیا جاتا ہے کہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال بنا لاؤ تو تم ہرگز یہ کام نہ کرسکو گے مگر پوری قوم میں کوئی بھی اس کام کے لئے آگے نہ بڑھا اس سے بڑھ کر کونسا اعتراف اپنے عجز کا اور قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا ہوسکتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایسا ہوا معجزہ ہے جس نے تمام سرکشوں کی گردنیں جھکادیں، قرآن ایک زندہ اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے : تمام انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات صرف ان کی حیات تک معجزہ ہوتے لیکن قرآن کا معجزہ بعد وفات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی طرح معجزہ کی حیثیت میں باقی ہے آج بھی ایک ادنٰی مسلمان ساری دنیا کے اہل علم و دانش کو للکار کر دعوٰی کرسکتا ہے کہ اس کی مثال نہ کوئی پہلے لایا اور اس کا نہ آج لا سکتا ہے اور جس کو ہمت ہو پیش کرکے دکھلائے، شیخ جلال الدین سیوطی مفسر جلالین نے اپنی کتاب خصائص کبرٰی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو معجزوں کے متعلق بحوالہ حدیث لکھا ہے کہ قیامت تک باقی ہیں ایک قرآن کا معجزہ دوسرے یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت ابوسعید خدری نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایام حج میں تینوں جمرات پر لاکھوں آدمی تین روز تک مسلسل کنکریاں پھینکتے ہیں پھر کوئی ان کنکریوں کے ڈھیر کو یہاں سے اٹھاتا بھی نظر نہیں آتا اور ایک مرتبہ پھینکی ہوئی کنکر کو دوبارہ استعمال کرنا بھی ممنوع ہے اس لئے ہر حاجی اپنے لئے مزدلفہ سے کنکریاں نئی لے کر آتا ہے اس کا مقتضیٰ تو یہ تھا کہ جمرات کے گرد ایک ہی سال میں ٹیلہ لگ جاتا جس میں جمرات چھپ جاتے اور چند سال میں تو پہاڑ ہوجاتا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہاں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے کہ جس جس کا حج قبول ہو اس کنکریاں اٹھالی جائیں تو اب اس جگہ صرف ان کم نصیبوں کی کنکریاں باقی رہ جاتی جن کا حج قبول نہیں ہوا اس لئے اس جگہ پڑی ہوئی کنکریاں بہت کم نظر آتی ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پہاڑ کھڑا ہوگیا ہوتا یہ روایت سنن بہیقی میں موجود ہے، یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے ذریعہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی کی تصدیق ہر سال اور ہر زمانے میں ہو سکتی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ حج میں لاکھوں آدمی جمع ہوتے ہیں اور ہر شخص ہر جمرہ پر ہر روز سات سات کنکریاں پھینکتا ہے اور بعض جاہل تو بڑے بڑے پتھر پھینکتے ہیں اور یہ بھی یقینی طور پر معلوم ہے کہ ان کنکریوں کو یہاں سے اٹھانے اور صاف کرنے کا حکومت یا کوئی جماعت بھی روزانہ انتظام نہیں کرتی نہ اٹھائی جاتی ہیں اور جیسا قدیم سے دستور چلا آتا ہے کہ اس جگہ سے کنکریاں اٹھائی ہی نہیں جاتیں تو اگلے سال اس کا دو گنا اور تیسرے سال تگنا ہوجائے گا پھر کیا شبہ ہے کہ چند سال میں یہ حصہ زمین مع جمرات کے ان کنکریوں میں چھپ جائے گا اور بجائے جمرات کے ایک پہاڑ کھڑا نظر آئے گا مگر مشاہد اس کے خلاف ہے اور یہ مشاہدہ ہر زمانے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق اور آپ پر لانے کے لئے کافی ہے سنا ہے کہ اب یہاں سے کنکریاں اٹھانے کا کچھ انتطام ہونے لگا ہے مگر تیرہ سو برس تک کا عمل بھی اس مضمون کی تصدیق کے لئے کافی ہے ؛ اسی طرح معجزہ قرآن ایک زندہ اور ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں اس کی نظیر یا مثال پیش نہیں کی جاسکی آج بھی نہیں کی جاسکتی، اعجاز قرآنی کی تشریح : اس اجمالی بیان کے بعد آپ کو یہ معلوم کرنا ہے کہ قرآن کریم کو کس بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ قرار دیا گیا اور اس کا اعجاز کن کن وجوہ سے ہے اور کیوں ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہوگئی دوسرے یہ کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ چودہ سو برس کے عرصہ میں قرآن کی زبردست تحدّدی (چیلنج) کے باوجود کوئی اس کی یا اس کے کسی ٹکڑے کی مثال پیش نہیں کرسکا، یہ تاریخی حیثیت سے کیا وزن رکھتا ہے یہ دونوں باتیں طویل الذکر اور تفصیل کی طالب ہیں، وجوہ اعجاز قرآنی : پہلی بات کہ قرآن کو معجزہ کیوں کہا گیا ؟ اور وہ کیا وجوہ ہیں جن کے سبب ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے اس پر قدیم وجدید علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور ہر مفسر نے اپنے اپنے طرز میں اس مضمون کو بیان کیا ہے میں اختصار کے ساتھ چند ضروری چیزیں عرض کرتا ہوں، اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب کل علوم کی جامع کتاب، کس جگہ، کس ماحول میں، اور کس پر نازل ہوئی اور کیا وہاں کچھ ایسے علمی سامان موجود تھے جن کے ذریعہ دائرہ اسباب میں ایسی جامع بےنظیر کتاب تیار ہوسکے، جو علوم اوّلین و آخرین کی جامع اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق بہترین ہدایت پیش کرسکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام ہو اور تدبیر منزل سے لے کر سیاست ممالک تک ہر نظام کے بہترین اصول ہوں، جس سرزمین اور جس ذات پر یہ کتاب مقدس نازل ہوئی اس کی جغرافیائی کیفیت اور تاریخی حالت معلوم کرنے کے لئے آپ کو ایک ریگستانی خشک اور گرم علاقہ سے سابقہ پڑے گا جس کو بطحاء مکہ کہتے ہیں اور جو نہ زرعی ملک ہے نہ صنعتی نہ اس ملک کی آب وہوا ہی کچھ خوشگوار ہے جس کے لئے باہر کے آدمی وہاں پہنچنے کی رغبت کریں نہ راستے ہی کچھ ہموار ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا آسان ہو اکثر دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ نما ہے جہاں خشک پہاڑوں اور گرم ریگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور دور تک نہ کہیں بستی نظر آتی ہے نہ کوئی کھیت نہ درخت، اس پورے خطہ ملک میں کچھ بڑے شہر بھی نہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں اور ان میں اونٹ بکریاں پال کر اپنی زندگی گذارنے والے انسان بستے ہیں اس کے چھوٹے دیہات کا تو دیکھنا کیا جو برائے نام چند شہر کہلاتے ہیں ان میں بھی کسی قسم کے علم وتعلیم کا کوئی چرچا نہیں نہ وہاں کوئی اسکول اور کالج ہے نہ کوئی بڑی یونیورسٹی یا دارالعلوم، وہاں کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے محض قدرتی اور پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کا ایک فن ضرور دے دیا ہے جس میں وہ ساری دنیا سے فائق اور ممتاز ہیں وہ نثر اور نظم میں ایسے قادر الکلام ہیں کہ جب بولتے ہیں تو رعد کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں ان کی ادنٰی ادنٰی چھوکریاں ایسے فصیح وبلیغ شعر کہتی ہیں کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جائیں، لیکن یہ سب کچھ ان کا فطری فن ہے جو کسی مکتب یا مدرسہ میں حاصل نہیں کیا جاتا، غرض نہ وہاں تعلیم و تعلم کا کوئی سامان ہے نہ وہاں کے رہنے والوں کو ان چیزوں سے کوئی لگاؤ یا دل بستگی ہے ان میں کچھ لوگ شہری زندگی بسر کرنے والے ہیں تو وہ تجارت پیشہ ہیں مختلف اجناس مال کی درآمد برآمد ان کا مشغلہ ہے، اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف گھرانہ میں وہ ذات مقدّس پیدا ہوتی ہے جو مہبط وحی ہے جس پر قرآن اترا ہے اب اس ذات مقدّس کا حال سنئے : ولادت سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا پیدا ہونے سے پہلے یتیم ہوگئے ابھی سات سال کی عمر بھی نہ تھی کہ والدہ کی بھی وفات ہوگئی آغوش مادر کا گہوارہ بھی نصیب نہ رہا شریف آباء و اجداد کی فیاضی اور بےمثل سخاوت نے اپنے گھر میں کوئی اندوختہ نہ چھوڑا تھا جس سے یتیم کی پرورش اور آئندہ زندگی کا سامان ہوسکے نہایت عسرت کی زندگی پھر ماں باپ کا سایہ سر پر نہیں، ان حالات میں آپ نے پرورش پائی اور عمر کا ابتدائی حصہ گذارا جو تعلیم و تعلم کا اصلی وقت ہے، اس وقت اگر مکہ میں کوئی دارالعلوم یا اسکول وکالج بھی ہوتا تو بھی آپ کے لئے اس سے استفادہ مشکل تھا مگر معلوم ہوچکا کہ وہاں سرے سے یہ علمی مشغلہ اور اس سے دلچسپی ہی کسی کو نہ تھی اسی لئے یہ پوری قوم عرب امیین کہلاتے تھے قرآن کریم نے بھی ان کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ آپ ہر قسم کی تعلیم و تعلم سے بیخبر رہے وہاں کوئی بڑا عالم بھی ایسا نہ تھا جس کی صحبت میں رہ کر یہ علوم حاصل کئے جاسکیں جن کا قرآن حامل ہے پھر قدرت کو تو ایک فوق العادۃ معجزہ دکھلانا تھا، آپ کے لئے خصوصی طور پر ایسے سامان ہوئے معمولی نوشت وخواند جو ہر جگہ کے لوگ کسی نہ کسی طرح سیکھ ہی لیتے ہیں آپ نے وہ بھی نہ سیکھی بالکل امی محض رہے کہ اپنا نام تک بھی نہ لکھ سکتے تھے عرب کا مخصوص فن شعر و سخن تھا جس کے لئے خاص خاص اجتماعات کئے جاتے اور مشاعرے منعقد ہوتے اور اس میں ہر شخص مسابقت کی کوشش کرتا تھا آپ کو حق تعالیٰ نے ایسی فطرت عطا فرمائی تھی کہ ان چیزوں سے بھی دلچسپی نہ لی نہ کبھی کوئی شعر یا قصیدہ لکھا نہ کسی ایسی مجلس میں شریک ہوئے، ہاں امی محض ہونے کہ ساتھ بچپن سے ہی آپ کی شرافت نفس، اخلاق فاضلہ، فہم، و فراست کے غیر معمولی آثار، دیانت و امانت کے اعلیٰ ترین شاہکار آپ کی ذات مقدس میں ہر وقت مشاہدہ کئے جاتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب کے بڑے بڑے مغرور ومتکبّر سردار آپ کی تعظیم کرتے تھے اور سارے مکہ میں آپ کو امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا، یہ امی محض چالیس سال تک مکہ میں اپنی برادری کے سامنے رہتے ہیں کسی دوسرے ملک کا سفر بھی نہیں کرتے جس سے یہ خیال پیدا ہوسکے کہ وہاں جاکر علوم حاصل کئے ہوں گے صرف ملک شام کے دو تجارتی سفر ہوئے وہ بھی گنے چنے چند کے لئے جس میں اس کا امکان نہیں، اس امی محض ذات مقدس کی زندگی کے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گذرے کہ نہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ لگایا نہ کسی مکتب میں گئے نہ کسی مجلس میں کوئی نظم وقصیدہ ہی پڑھا ٹھیک چالیس سال کے بعد ان کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگا جس کا نام قرآن ہے جو اپنی لفظی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم وفنون کے لحاظ سے محیّر العقول کلام ہے اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو بھی اس کے معجزہ ہونے میں کسی انصاف پسند کو کیا شبہ رہ سکتا ہے مگر یہاں یہی نہیں بلکہ اس نے ساری دنیا کو تحدد کی (چیلنج) دیا کہ کسی کو اس کے کلام الہی ہونے میں شبہ ہو تو اس کا مثل بنا لائے، اب ایک طرف قرآن کی یہ تحدی اور چیلنج اور دوسری طرف ساری دنیا کی مخالف طاقتیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کو شکست دینے کے لئے اپنی مال، جان، اولاد، آبرو، سب گنوانے کو تیار ہیں مگر اتنا کام کرنے کے لئے کوئی جرأت نہیں کرتا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثال بنا لائے فرض کرلیجئے کہ یہ کتاب بےمثال و بےنظیر بھی نہ ہوتی جب بھی ایک امیّ محض کی زبان سے اس کا ظہور اعجاز قرآن اور وجوہ اعجاز کی تفصیل میں جائے بغیر بھی قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے لئے کم نہیں جس کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے، اعجاز قرآن کی دوسری وجہ : اب اعجاز قرآن کی دوسری وجہ دیکھئے یہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن اور اس کے احکام دنیا کے لئے آئے لیکن اس کے بلا واسطہ اور پہلے مخاطب عرب تھے جن کو اور کوئی علم وفن آتا تھا یا نہیں مگر فصاحت و بلاغت ان کا فطری ہنر اور پیدائشی وصف تھا جس میں وہ اقوام دنیا سے ممتاز سمجھے جاتے تھے قرآن ان کو مخاطب کرکے چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمہیں میرے کلام الہی ہونے میں کوئی شبہ ہے تو میرے ایک سورت کی مثال بنا کر دکھلا دو اگر قرآن کی یہ تحدی (چیلنج) صرف اپنے حسن معنوی یعنی حکیمانہ اصول اور علمی معارف و اسرار ہی کی حد تک ہوتی جو قوم امیین کے لئے اس کی نظیر پیش کرنے سے عذر معقول ہوتا لیکن قرآن نے صرف حسن معنوی ہی کے متعلق تحدی نہیں کی بلکہ لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا کو چیلنج دیا ہے اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے اقوام عالم میں سب سے زیادہ مستحق عرب ہی تھے اگر فی الواقع یہ کلام قدرت بشر سے باہر کسی مافوق قدرت کا کلام نہیں تھا تو بلغاء عرب کے لئے کیا مشکل تھا کہ ایک امی شخص کے کلام کی مثال بلکہ اس سے بہتر کلام فوراً پیش کردیتے اور ایک دو آدمی یہ کام نہ کرسکتے تو قرآن نے ان کو یہ سہولت بھی دی تھی کہ ساری قوم مل کر بنا لائے مگر قرآن کے اس بلند بانگ دعوے اور پھر طرح طرح سے غیرت دلانے پر بھی عرب کی غیّور قوم پوری کی پوری خاموش ہے چند سطریں بھی مقابلہ پر نہیں پیش کرتی، عرب کے سرداروں نے قرآن اور اسلام کے مٹانے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغلوب کرنے میں جس طرح اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا وہ کسی لکھے پڑھے آدمی سے مخفی نہیں شروع میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے گنے چنے رفقاء کو طرح طرح کی ایذائیں دے کر چاہا کہ وہ کلمہ اسلام کو چھوڑ دیں مگر جب دیکھا کہ یہاں وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے تو خوشامد کا پہلو اختیار کیا عرب کا سردار عتبہ ابن ربیعہ قوم کا نمائندہ بن کر آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرب کی پوری دولت و حکومت اور بہت حسن و جمال کی لڑکیوں کی پیشکش اس کام کے لئے کی کہ آپ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں آپ نے اس کے جواب میں قرآن کی چند آیتیں سنا دینے پر اکتفا فرمایا جب یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو جنگ و مقابلہ کے لئے تیار ہو کر قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت جو قریش عرب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے مقابلہ میں سر دھڑ کی بازی لگائی جان مال اولاد سب کچھ اس مقابلہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار ہوئے یہ سب کچھ کیا مگر یہ کسی سے نہ ہوسکا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کرتا اور چند سطریں مقابلہ پر پیش کردیتا کیا ان حالات میں سارے عرب کے مقابلہ سے سکوت اور عجز اس کی کھلی ہوئی شہادت نہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کے کام یا کلام کی نظیر انسان کیا ساری مخلوق کی قدرت سے باہر ہے، پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ عرب نے اس کے مقابلہ سے سکوت کیا بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں سب نے اس کے بےمثال ہونے کا اعتراف کیا اور جو ان میں سے منصف مزاج تھے انہوں نے اس بنی عبد مناف کی ضد کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے باوجود اعتراف کے محروم رہے قریش عرب کی تاریخ ان واقعات پر شاہد ہے میں اس میں سے چند واقعات اس جگہ بیان کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوسکے کہ پورے عرب نے اس کلام کے بےمثل، بےنظیر ہونے کو تسلیم کیا اور اس کی مثال پیش کرنے کو اپنی رسوائی کے خیال سے چھوڑ دیا جس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا چرچا مکہ سے باہر حجاز کے دوسرے مقامات میں ہونے لگا اور حج کا موسم آیا تو قریش مکہ کو اس کی فکر ہوئی کہ اب اطراف عرب سے حجاج آئیں گے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ کلام سنیں گے تو فریفتہ ہوجائیں گے اور غالب خیال یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں گے اس کے انسداد کی تدبیر سوچنے کے لئے قریش نے ایک اجلاس منعقد کیا اس اجلاس میں عرب کے بڑے بڑے سردار موجود تھے ان میں ولید بن مغیرہ عمر میں سب سے بڑے اور عقل میں ممتاز سمجھے جاتے تھے سب نے ولید بن مغیرہ کو یہ مشکل پیش کی کہ اب اطراف ملک سے لوگ آئیں گے اور ہم سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پوچھیں گے تو ہم کیا کہیں ؟ ہمیں آپ کوئی ایسی بات بتلائیے کہ ہم سب وہ بات کہہ دیں ایسا نہ ہو کہ خود ہمارے بیانات میں اختلاف ہوجائے ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ہی کہو کیا کہنا چاہئے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں ہم سب یہ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاذ اللہ مجنون ہیں، ان کا کلام مجونانہ بڑ ہے، ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ایسا ہرگز نہ کہنا کیونکہ یہ لوگ جب ان کے پاس جائیں گے اور ان سے ملاقات و گفتگو کریں گے، اور ان کو فصیح وبلیغ عاقل انسان پائیں گے تو انھیں یقین ہوجائے گا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ اچھا ہم ان کو یہ کہیں کہ وہ شاعر ہیں ولید نے اس سے بھی منع کیا اور کہا کہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے وہ تو شعر و شاعری کے ماہر ہیں انھیں پتا چل جائے گا کہ یہ شعر نہیں اور نہ آپ شاعر ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سب لوگ تمہیں جھوٹا سمجھیں گے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ تو پھر ہم ان کو کاہن قرار دیں، جو شیاطین وجنات سے سن کر غیب کی خبریں دیا کرتے ہیں ولید نے کہا یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کلام کسی کاہن کا نہیں ہے وہ پھر بھی تمہیں جھوٹا سمجھیں گے اس کے بعد قرآن کے بارے میں جو ولید بن مغیرہ کا اثرات تھے ان کو ان الفاظ میں بیان کیا، خدا کی قسم تم میں کوئی آدمی شعر و شاعری اور اشعار عرب سے میرے برابر واقف نہیں، خدا کی قسم اس کلام میں خاص حلاوت ہے، اور ایک خاص رونق ہے جو میں نے کسی شاعر یا فصیح وبلیغ کے کلام میں نہیں پاتا، پھر ان کی قوم نے دریافت کیا کہ آپ ہی بتلائیے پھر ہم کیا کریں ؟ اور ان کے بارے میں لوگوں سے کیا کہیں ؟ ولید نے کہا میں غور کرنے کے بعد کچھ جواب دوں گا پھر بہت سوچنے کے بعد کہا کہ اگر کچھ کہنا ہی ہے تو تم ان کو ساحر کہو کہ اپنے جادو سے باپ بیٹے اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں، قوم اس پر مطمئن اور متفق ہوگئی اور سب سے یہی کہنا شروع کیا مگر خدا کا چراغ کہیں پھونکوں سے بجُھنے والا تھا ؟ اطراف عرب کے لوگ آئے قرآن سنا اور بہت سے مسلمان ہوگئے اور اطراف عرب میں اسلام پھیل گیا، (خصائص کبٰری) اسی طرح ایک قرشی سردار نضر بن حارث نے ایک مرتبہ اپنی قوم کو خطاب کرکے کہا، اے قوم قریش، آج تم ایک مصیبت میں گرفتار ہو کہ اس سے پہلے کبھی ایسی مصیبت سے سابقہ نہیں پڑا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری قوم کے ایک نوجوان تھے اور تم سب ان کے عادات و اخلاق کے گرویدہ اور اپنی قوم میں ان کو سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ امانت دار جانتے اور کہتے تھے اب جب کہ ان کے سر میں سفید بال آنے لگے اور انہوں نے ایک بےمثال کلام اللہ کی طرف سے پیش کیا تو تم ان کو جادوگر کہنے لگے خدا کی قسم وہ جادوگر نہیں ہم نے جادوگروں کو دیکھا اور برتا ہے ان کے کلام سنے ہیں اور طریقوں کو سمجھا ہے وہ بالکل اس سے مختلف ہیں، اور کبھی تم ان کو کاہن کہنے لگے، خدا کی قسم وہ کاہن بھی نہیں ہم نے بہت سے کاہنوں کو دیکھا اور ان کے کلام سنے ہیں ان کو ان کے کلام سے کوئی مناسبت نہیں، اور کبھی تم ان کو شاعر کہنے لگے خدا کی قسم وہ شاعر بھی نہیں ہم نے خود شعر شاعری کے تمام فنون کو سیکھا سمجھا ہے اور بڑے بڑے شعراء کے کلام ہمیں یاد ہیں ان کے کلام سے اس کو کوئی مناسبت نہیں پھر کبھی تم ان کو مجنون بتاتے ہو خدا کی قسم وہ مجنون بھی نہیں، ہم نے بہت سے مجنونوں کو دیکھا بھالا ان کی بکواس سنی ہے ان کے مختلف اور مختلط کلام سنے ہیں یہاں یہ کچھ نہیں اے میری قوم تم انصاف کے ساتھ ان کے معاملہ میں غور کرو یہ سرسری ٹلا دینے کی چیز نہیں، (خصائص کبرٰی ص ١١٤: ج ١) حضرت ابوذر صحابی فرماتے ہیں کہ وہ اللہ کا رسول ہے، میں نے پوچھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ بھائی نے کہا کہ کوئی ان کو شاعر کہتا ہے کوئی کاہن بتلاتا ہے کوئی جادوگر کہتا ہے، میرا بھائی انیس خود بڑا شاعر اور کہانت وغیرہ سے واقف آدمی تھا اس نے مجھ سے کہا کہ جہاں تک میں نے غور کیا لوگوں کی یہ سب باتیں غلط ہیں ان کا کلام نہ شعر ہے نہ کہانت ہے نہ مجنونانہ کلمات ہیں بلکہ مجھے وہ کلام صادق نظر آتا ہے، ابوذر فرماتے ہیں کہ بھائی سے یہ کلمات سن کر میں نے مکہ کا سفر کیا اور مسجد حرام میں آکر پڑگیا تیس روز میں نے اس طرح گذارے کہ سوائے زمزم کے پانی کے میرے پیٹ میں کچھ نہیں گیا اس تمام عرصہ میں نہ مجھے بھوک کی تکلیف معلوم ہوئی نہ کوئی ضعف محسوس کیا (خصائص کبرٰی ص ١١٦: ج ١) واپس گئے تو لوگوں سے کہا کہ میں نے روم اور فارس کے فصحاء وبلغاء کے کلام بہت سنے ہیں، اور کاہنوں کے کلمات اور حمیر کے مقالات بہت سنے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کی مثال میں نے آج تک نہیں سنی تم سب میری بات مانو۔ اور آپ کا اتباع کرو، چناچہ فتح مکہ کے سال میں ان کی پوری قوم کے تقریباً ایک ہزار آدمی مکہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے (خصائص کبرٰی ص ١١٦: ج ١) اسلام اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل اور اخنس بن شریق وغیرہ بھی لوگوں سے چھپ کر قرآن سنا کرتے اور اس کے عجیب و غریب بےمثل وبے نظیر اثرات سے متاثر ہوتے تھے مگر جب قوم کے کچھ لوگوں نے ان کو کہا کہ جب تم اس کلام کو ایسا بےنظیر پاتے ہو تو اس کو قبول کیوں نہیں کرتے ؟ تو ابوجہل کا جواب یہ تھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بنی عبد مناف میں اور ہمارے قبیلہ میں ہمیشہ سے رقابت اور معاصرانہ مقابہ چلتا رہتا ہے وہ جس کام میں آگے بڑہنا چاہتے ہیں ہم بھی اس کا جواب دیتے ہیں اب جبکہ ہم اور وہ دونوں برابر حیثیت کے مالک ہیں تو اب وہ یہ کہنے لگے کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ہم اس میں کیسے ان کا مقابلہ کریں میں تو کبھی اس کا اقرار نہ کروں گا (خصائص) خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے اس دعوے اور چیلنج پر صرف یہی نہیں کہ پورے عرب نے ہار مان لی اور سکوت کیا بلکہ اس کی مثل وبے نظیر ہونے اور اپنے عجز کا کھلے طور پر اعتراف بھی کیا ہے اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس کی کوئی وجہ نہ تھی کہ سارا عرب بلکہ ساری دنیا اس کا مثل لانے سے عاجز ہوجاتی، قرآن اور پیغمبر قرآن کے مقابلہ میں جان، ومال، اولاد وآبرو سب کچھ قربان کرنے کے لئے تو وہ تیار ہوگئے مگر اس کے لئے کوئی آگے نہ بڑھا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کر کے دو سطریں اس کے مقابلہ میں پیش کردیتا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اپنے جاہلانہ اعمال و افعال کے باوجود منصف مزاج تھے جھوٹ کے پاس نہ جاتے تھے جب انہوں نے قرآن کو سن کر یہ سمجھ لیا کہ جب در حقیقت اس کلام کی مثل ہم نہیں لا سکتے تو محض دھاندلی اور کٹھ حجتی کے طور پر کوئی کلام پیش کرنا اپنے لئے عار سمجھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہم نے کوئی چیز پیش بھی کردی تو پورے عرب کے فصحاء وبلغاء اس امتحانی مقابلہ میں ہمیں فیل کردیں گے اور خواہ مخواہ رسوائی ہوگی اسی لئے پوری قوم نے سکونت اختیار کیا اور جو زیادہ منصف مزاج تھے انہوں نے صاف طور پر اقرار و تسلیم بھی کیا جاسکے کچھ وقائع پہلے بیان ہوچکے ہیں، اسی سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ عرب کے سردار اسعد بن زراہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس کے سامنے اقرار کیا کہ : ہم نے خواہ مخواہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرکے اپنے رشتے ناتے توڑے اور تعلقات خراب کئے میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں ہرگز جھوٹے نہیں اور جو کلام وہ لائے ہیں بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔ (خصائص ص ١١٦ ج ١) قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص مسمّٰی بن نسیبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ سے قرآن سنا اور چند سوالات کئے جن کا جواب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے اور پھر اپنی قوم میں واپس گئے تو لوگوں سے کہا : میں نے روم وفارس فصحاء وبلغاء کے کلام سنے ہیں بہت سے کاہنوں کے کلمات سننے کا تجربہ ہوا ہے حمیر کے مقالات سنتا رہا ہوں مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا تم سب میری بات مانو اور ان کا اتباع کرو، انھیں کی تحریک و تلقین پر ان کی قوم کے ایک ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوگئے، (خصائص ص ١١٦ ج ١) یہ اقرار و تسلیم صرف ایسے ہی لوگوں سے منقول نہیں جو آپ کے معاملات سے یکسو اور غیرجانبدار تھے بلکہ وہ لوگ جو ہر وقت ہر طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں لگے ہوئے تھے قرآن کے متعلق ان کا بھی یہی حال تھا مگر اپنی ضد اور حسد کی وجہ سے اس کا اظہار لوگوں پر نہ کرتے تھے، علامہ سیوطی نے خصائص کبرٰی میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل اور ابوسفیان اور اخنس بن شریق رات کو اپنے اپنے گھروں سے نکلے کہ چھپ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سنیں ان میں ہر ایک علیحدہ علیحدہ نکلا ایک کی دوسرے کو خبر نہ تھی اور علیحدہ علیحدہ گوشوں میں چھپ کر قرآن سننے لگے تو اس میں ایسے محو ہوئے کہ ساری رات گذر گئی جب صبح ہوئی تو سب واپس ہوئے اتفاقا راستہ میں مل گئے اور ہر ایک نے دوسرے کا قصّہ سنا تو سب آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے یہ بری حرکت کی اور کسی نے یہ بھی کہا کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے کیونکہ اگر عرب کے عوام کو اس کی خبر ہوگی تو وہ سب مسلمان ہوجائیں گے، یہ کہہ سن کر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے اگلی رات آئی تو پھر ان میں سے ہر ایک کے دل میں یہی ٹیس اٹھی کہ قرآن سنیں اور پھر اسی طرح چھپ چھپ کر ہر ایک نے قرآن سنا یہاں تک کہ رات گذر گئی اور صبح ہوتے ہی یہ لوگ واپس ہوئے تو پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور اس کے ترک پر سب نے اتفاق کیا مگر تیسری رات آئی تو پھر قرآن کی لذت وحلاوت نے انھیں چلنے اور سننے پر مجبور کردیا پھر پہنچنے اور رات بھر قرآن سن کر لوٹنے لگے تو پھر راستہ میں اجتماع ہوگیا تو اب سب نے کہا کہ آؤ آپس میں معاہدہ کرلیں کہ آئندہ ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے، چناچہ اس معاہدہ کی تکمیل کی گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے صبح کو اخنس بن شریق نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور پہلے ابوسفیان کے پاس پہنچا کہ بتلاؤ اس کلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس نے دبے دبے لفظوں میں قرآن کی حقانیت کا اعتراف کیا تو اخنس نے کہا کہ بخدا میری بھی یہی رائے ہے اس کے بعد وہ ابوجہل کے پاس پہنچا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تم نے محمد کے کلام کو کیسا پایا ؟ ابوجہل نے کہا کہ صاف بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان اور بنو عبد مناف کے خاندان میں ہمیشہ سے چشمک چلی آتی ہے قوم کی سیادت و قیادت میں وہ جس محاذ پر آگے بڑہنا چاہتے ہیں ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں انہوں نے سخاوت و بخشش کے ذریعہ قوم پر اپنا اثر جمانا چاہا تو ہم نے ان سے بڑھ کر یہ کام کر دکھایا انہوں نے لوگوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تو ہم اس میدان میں بھی ان سے پیچھے نہیں رہے یہاں تک کہ پورا عرب جانتا ہے کہ ہم دونوں خاندان برابر حیثیت کے مالک ہیں، ان حالات میں ان کے خاندان سے یہ آواز اٹھی کہ ہمارے میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ ہم کیسے کریں اس لئے ہم نے تو یہ طے کرلیا ہے کہ ہم زور اور طاقت سے ان کا مقابلہ کریں گے اور ہرگز ان پر ایمان نہ لائیں گے (خصائص ص ١١٥ ج ١) یہ ہے قرآن کا وہ کھلا ہوا معجزہ جس کا دشمنوں کو بھی اعتراف کرنا پڑا ہے یہ تمام واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے (خصائص کبرٰی) میں نقل کئے ہیں، تیسری وجہ : تیسری وجہ اعجاز قرآنی کی یہ کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں ہیں جو قرآن نے دیں اور ہوبہو اسی طرح واقعات پیش آئے جس طرح قرآن نے خبر دی تھی مثلا قرآن نے خبر دی کہ روم وفارس کے مقابلہ میں ابتداءً اہل فارس غالب آئیں گے اور رومی مغلوب ہوں گے لیکن ساتھ ہی یہ خبر دی کہ دس سال گذرنے نہ پائیں گے کہ پھر رومی اہل فارس پر غالب آجائیں گے مکہ کے سرداروں نے قرآن کی اس خبر پر حضرت صدیق اکبر سے ہار جیت کی شرط کرلی اور پھر ٹھیک قرآن کی خبر کے مطابق رومی غالب آگئے تو سب کو اپنی ہار ماننا پڑی اور ہارنے والے پر جو مال دینے کی شرط کی تھی وہ مال ان کو دینا پڑا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مال کو قبول نہیں فرمایا کیونکہ وہ ایک قسم کا جوا تھا اسی طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو امور غیبیہ کے متعلق قرآن میں دی گئیں اور ان کی سچائی بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوگئی، چوتھی وجہ : چوتھی وجہ اعجاز قرآنی کی یہ ہے کہ اس میں پچھلی امتوں اور ان کی شرائع اور تاریخی حالات کا ایسا صاف تذکرہ ہے کہ اس زمانہ کے بڑے بڑے علماء یہود ونصارٰی جو پچھلی کتابوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اتنی معلومات نہ تھیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو کبھی نہ کسی مکتب میں قدم رکھا نہ کسی عالم کی صحبت اٹھائی نہ کسی کتاب کو ہاتھی لگایا پھر یہ ابتداء دنیا سے آپ کے زمانہ تک تمام اقوام عالم کے تاریخی حالات اور نہایت صحیح اور سچے سوانح اور ان کی شریعتوں کی تفصیلات کا بیان ظاہر ہے کہ بجز اس کے نہیں ہوسکتا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہی کا ہو اور اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو یہ خبریں دی ہوں۔ پانچویں وجہ : یہ ہے کہ اس کی متعدد آیات میں لوگوں کے دل کی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دی گئی اور پھر ان کے اقرار سے ثابت ہوگیا کہ وہ بات صحیح اور سچی تھی یہ کام بھی عالم الغیب والشہادۃ ہی کرسکتا ہے کسی بشر سے عادۃ ممکن نہیں مثلا ارشاد قرآنی ہے : اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا (١٢٢: ٣) جب تمہاری دو جماعتوں نے دل میں ارادہ کیا کہ پسپا ہوجائیں، اور یہ ارشاد کہ : يَقُوْلُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ (٥٨: ٨) وہ لوگ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا، یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کو انہوں نے کسی سے ظاہر نہیں کیا قرآن کریم نے ہی ان کا انکشاف کیا ہے، چھٹی وجہ : چھٹی وجہ اعجاز قرانی کی وہ آیات ہیں جن میں قرآن نے کسی قوم یا فرد کے متعلق یہ پیشنگوئی کی کہ وہ فلاں کام نہ کرسکیں گے اور پھر وہ لوگ باوجود ظاہری قدرت کے اس کام کو نہ کرسکے جیسے یہود کے متعلق قرآن نے اعلان کیا کہ اگر وہ فی الواقع اپنے آپ کو اللہ کے دوست اور ولی سمجھتے ہیں توا نھیں اللہ کے پاس جانے سے محبت ہونا چاہئے وہ ذرا موت کی تمنا کرکے دکھائیں اور پھر ارشاد فرمایا ؛ وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا (٩٥: ٢) وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرسکیں گے، موت کی تمنا کرنا کسی کے لئے مشکل نہ تھا خصوصا ان لوگوں کے لئے جو قرآن کو جھٹلاتے تھے، قرآن کے ارشاد کی وجہ سے ان کی تمنائے موت میں خوف وہراس کی کوئی وجہ نہ تھی یہود کے لئے تو مسلمانوں کو شکست دینے کا یہ موقع بڑا غنیمت تھا کہ فوراً تمنائے موت کا ہر مجلس ومحفل میں اعلان کرتے، مگر یہود ہوں یا مشرکین زبان سے کتنا ہی قرآن کو جھٹلائیں ان کے دل جانتے تھے کہ قرآن سچا ہے اس کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی اگر موت کی تمنا ہم اس وقت کریں گے تو فوراً مرجائیں گے، اس لئے قرآن کے اس کھلے ہوئے چیلنج کے باوجود کسی یہودی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایک مرتبہ زبان سے تمنائے موت کا اظہار کردے، ساتویں وجہ : وہ خاص کیفیت ہے جو قرآن کے سننے سے ہر خاص وعام اور مومن و کافر پر طاری ہوتی ہے جیسے حضرت جبیر بن مطعم (رض) کو اسلام لانے سے پہلے پیش آیا کہ اتفاقا انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز مغرب میں سورة طور پڑہتے ہوئے سنا جب آپ آخری آیات پر پہنچنے تو جبیر کہتے ہیں کہ میرا دل گویا اڑنے لگا اور یہ سب سے پہلا دن تھا کہ میرے دل میں اسلام نے اثر کیا وہ آیات یہ ہیں، اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ (٣٧: ٣٥: ٥٢:) کیا وہ بن گئے ہیں آپ ہی آپ یا وہی ہیں بنانے والے یا انہوں نے بنائے ہیں آسمان اور زمین کوئی نہیں پر یقین نہیں کرتے کیا ان کے پاس خزانے تیرے رب کے یا وہی داروغہ ہیں۔ آٹھویں وجہ : یہ ہے کہ اس کو بار بار پڑھنے اور سننے سے کوئی اُکتاتا نہیں بلکہ جتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے اس کا شوق اور بڑہتا ہے دنیا کی کوئی بہتر سے بہتر اور مرغوب کتاب لے لیجئے اس کو دو چار مرتبہ پڑھا جائے تو انسان کی طیبعت اکتا جاتی ہے پھر نہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو یہ صرف قرآن کا خاصہ ہے کہ جتنا کوئی اس کو زیادہ پڑہتا ہے اتنا ہی اس کو شوق ورغبت بڑہتا جاتا ہے یہ بھی قرآن کے کلام الہی ہونے کا ہی اثر ہے، نویں وجہ : یہ ہے کہ قرآن نے اعلان کیا ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے وہ قیامت تک بغیر کسی ادنیٰ تغیر و ترمیم کے باقی رہے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کو اس طرح پورا فرمایا کہ جب سے قرآن کریم نازل ہوا ہے چودہ سو برس کے قریب ہونے کو آئے ہیں ہر قرن ہر زمانے میں لاکھوں انسان ایسے رہے ہیں اور رہیں گے جن کے سینوں میں پورا قرآن اس طرح محفوظ رہا کہ ایک زیر وزبر کی غلطی کا امکان نہیں ہر زمانے میں مرد، عورت، بچے، بوڑھے اس کے حافظ ملتے ہیں بڑے سے بڑا عالم اگر کہیں ایک زیر وزبر کی غلطی کرجائے تو ذرا ذرا سے بچے وہیں غلطی پکڑ لیں گے، دنیا کا کوئی مذہب اپنی کتاب کے متعلق اس کی مثال تو کیا اس کا دسواں حصہ بھی پیش نہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۝ ٠ ۠ وَادْعُوْا شُہَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٢٣- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - سُّورَةُ- المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها - [ النور 1] ، - السورۃ - کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر :- مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه .- شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا شھدآء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین (اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لائو، اپنے سارے ہمنوائوں کو بلالو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھائو۔ )- اس آیت میں کئی وجوہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی سب سے بڑی دلالت موجود ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اللہ نے مخاطبین کو اس جیسی ایک سورت پیش کرنے کا چیلنج کردیا اور پھر ببانگ دہل یہ اعلان کردیا کہ اپنی حمیت اور فخر و غرور کے باوجود وہ ایسا کرنے سے عاجز ہیں، حالانکہ اس کتاب کی زبان دہی ہے جو ان کی اپنی زبان ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اندر ہی پیدا ہو کر عربی زبان سیکھی تھی، لیکن اس چیلنج کا جواب دینے کے لئے ان کا نہ تو کوئی خطیب میدان میں آیا اور نہ ہی کسی شاعر نے یہ تکلیف اٹھائی حالانکہ ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام کو کمزور کرنے اور آپ کے پیش کردہ دلائل کو باطل قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور اپنی جان اور اپنا مال صرف کیا تھا۔ اگر یہ لوگ مذکورہ چیلنج قبول کر کے میدان میں آ جاتے اور کتاب اللہ کا مقابلہ کرنے کی قدرت حاصل کرلیتے تو ان کی یہ کارکردگی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کو باطل کرنے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفقاء کی طرف سے آپ کا ساتھ چھوڑ جانے کے لئے موثر ترین حربہ ہوتی، لیکن جب مقابلہ میں آنے سے ان کی عاجزی واضح ہوگئی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ یہ کتاب اللہ قادر مطلق کی طرف سے آپ پر نازل ہوئی ہے اور اس جیسی کتاب پیش کرنا بندوں کے بس سے باہر ہے۔ مقابلہ میں آنے کی بجائے انہوں نے زیادہ سے زیادہ یہی عذر پیش کردیا کہ یہ جادو ہے اور اگلے لوگوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا : فلیا توا بحدیث مثلہ ان کانوا صدقین (تو پھر یہ لوگ اس جیسی کوئی بات ہی پیش کردیں، اگر یہ سچے ہیں) نیز فرمایا : فاتوا بعشر سور مثلہ مفتریان (تو اس جیسی دس سورتیں ہی گھڑ کر پیش کر دو ) اس صورت میں اللہ سبحانہ نے انہیں نظم قرآنی کے ساتھ چیلنج کیا، معنی کے ساتھ چیلنج نہیں کیا اور ان کی عاجزی اور درماندگی بھی واضح کردی۔ اس طرح یہ کتاب ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک معجزے کے طور پر قیامت تک کے لئے باقی رہ گئی اور اس کے ذریعے اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور اس کی بنیاد پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت کو واضح کردیا، اس لئے کہ دیگر تمام انبیاء کے معجزات ان کے گزر جانے کے ساتھ ہی ختم ہوگئے اور اب صرف خبر کے واسطے سے ہمیں ان کا معجزات ہونا معلمو ہوتا ہے، لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ معجزہ دنیا سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی باقی اور قائم ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جو شخص بھی اس معجزے پر اعتراض کرے گا ہم اسے یہی چیلنج دیں گے کہ اس جیسی کتاب پیش کرو، اور پھر اسے پتہ لگ جائے گا کہ آپ کی نبوت کی تثبیت کے لئے اس کتاب میں دلالت کے کون کون سے پہلو ہیں۔ جس طرح یہی صورت ان لوگوں کے لئے تھی جو آپ کے زمانے میں موجود تھے۔ ان پر بھی اسی طرح کی حجت قائم ہوگئی تھی اور انہیں لاجواب کردیا گیا تھا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرنے والے دونوں کو یہ معلوم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انسانوں میں عقل و دانش کے اعتبار سے کامل ترین، حلم و بردباری کے لحاظ سے اکمل ترین اور فہم و فراست میں افضل ترین انسان تھے۔ کسی نے بھی آپ کی دانائی کے کمال، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برد باری کے وفور، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معاملہ فہمی کی صحت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کی عمدگی پر انگشت نمائی نہیں کی اور یہ بات ناممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسی صفات رکھنے والا انسان ایک طرف یہ دعویٰ کرے کہ وہ اللہ کا نبی ہے جسے اس نے اپنی تمام مخلوقات کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے ، پھر اپنے کلام کو اس کی نبوت کی علامت اور اس کی صداقت کی دلیل بنا کر مخالفین کو اس کے ذریعہ چیلنج دے کر وہ اس جیسا کوئی کلام پیش کریں۔ جبک ہیہ بات عیاں ہو کر مخالفین میں سے ہر شخص اس کی طرح اہل زبان ہے اور پھر دوسری طرف اس کا کذب اور اس کے دعوے کا بطلان ظاہر ہوجائے۔ یہ کیفیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ کلام کے ذریعے مخالفین کو چیلنج کر کے بیانگ دہل ان کے عجز کا صرف اس لئے اعلان کردیا کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا تھا اور بندوں کو اس جیسا کلام پیش کرنے کی قدرت نہیں تھی۔- اسی سیاق تلاوت میں قول باری ہے : فان لم تفعلوا ولن تفعلوا (لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقینا کبھی نہیں کرسکتے) ان الفاظ کے ذریعے اللہ نے یہ خبر دے دی کہ مخالفین اس کلام کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور وہ آئندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ یہ اخبار بالغیب ہے اور نفس الامر میں بھی یہ خبر اسی طرح پائی گئی جس طرح دی گئی تھی۔ اس آیت کا تعلق اعجاز نظم قرآنی سے نہیں ہے، بلکہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو سچا ثابت کرنے کے سلسلے میں بذاتہ ایک مستقل دلیل ہے، کیونکہ یہ اخبار بالغیب ہے جس طرح مثلاً آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخالفین سے یہ فرماتے کہ میرے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ تم سب اپنے اعضا و جوارح کی صحت اور سلامتی کے باوجود تم میں سے کوئی شخص نہ اپنے سر کو ہاتھ لگا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی جگہ سے کھڑا ہوسکتا ہے۔ “ پھر اعضا و جوارح کی صحت و سلامتی کے باوجود ان میں سے کوئی شخص نہ تو اپنے سر کو ہاتھ لگا سکے اور نہ ہی اپنی جگہ سے کھڑا ہو سکے، جبکہ ان کی طر ف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس چیلنج کو جھٹلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جائے۔ تو آپ کا یہ قول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحت کی دلیل بن جاتی، کیونکہ ایسی صورت میں مخالفین کا مذکورہ کام سر انجام دینے سے عاجز رہنا صرف اس بنا پر ہوتا کہ آپ نے انہیں یہ بات اس قادر اور حکیم ذات کی طرف سے کہی تھی جس نے مذکورہ حالت کے اندر مخالفین کو اس کام سے روک دیا تھا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ نے جن و انس تمام مخلوق کو چیلنج کیا تھا کہ وہ سب مل کر بھی قرآن جیسی کتاب پیش کرنے سے عاجز ہیں، چناچہ ارشاد ہوا : قل لمئن اجتمعت الانس والجن علی ان یا نوا بمثل ھذا القرآن لا یساتون بمثلہ ولوکان یعضھم لبعض ظھیراً (کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں) پھر جب ان کی ناکامی واضح ہوگئی تو ارشاد ہوا : قالوا بعشر سور مثلہ مفتریات (اس جیسی دس سورتیں گھڑ کرلے آئو) جب وہ اس میں بھی ناکام رہے تو فرمایا :(فلیاتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صادقین (اس جیسی کوئی ایک بات بھی پیش کردیں اگر وہ سچے ہیں) اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت جیسی کوئی سورت پیش کرنے کا چیلنج دیا، پھ رجب ان کی ناکامی عیاں ہوگئی اور ان پر حجت قائم ہوگئی اور دوسری طرف ان مخالفین نے دلیل کا مقابلہ دلیل سے کرنے سے گریز کرتے ہوئے جنگ کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کی ٹھان لی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ قول باری ہے : وادعوا شھداء کم من دون اللہ کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے ان کے اصنام کو باطل ثابت کیا جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ ان کے یہ اصنام اللہ کے ہاں ان کے شفیع بنیں گے۔- ایک قول کے مطابق آیت میں مراد وہ تمام لوگ ہیں جو ان مخالفین کی تصدیق کرتے اور ان کے ہم رائے تھے۔ اور اس کے ساتھ یہ واضح کردیا کہ یہ سب کے سب اجتماعی اور انفرادی طور پر مذکورہ چیلنج کا جواب دینے میں ناکام رہے۔ یہی بات اس قول باری سے بھی واضح ہے : - لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیراً ۔- سورئہ فاتحہ کی ابتدا سے لے کر سورة بقرہ کے اس مقام تک جہاں ہم اب پہنچے ہیں درج ذیل مضامین بیان ہوئے ہیں۔- اللہ کے نام سے ابتدا کرنے کا حکم، اللہ کی حمد و ثنا کے طریقے کی تعلیم، ہدایت کے اس راستے پر چلنے اور اس کی طرف راغب ہونے کی دعا جو راستہ ہمیں اس کی معرفت اور اس کی نجت اور رضا مندی کی سمت لے جائے اور اس راستے سے بچانے کی التجا جو اس کے غصب کے مستحقین نیز اس کی ذات کی معرفت اور اس کی نعمت کے شکر سے بھٹک جانے والوں کا اختیار کردہ راستہ ہے ۔ پھر سورة بقرہ کی ابتدا اہل ایمان کے ذکر سے کی گئی، بعدازاں کافروں کا ذکر وہا اور پھر منافقین کا تذکرہ اور پھر دو مثالوں کے ذریعے ان منافقین کی اصل صورت حال کو ہمارے ذہنوں سے قریب تر کردیا گیا۔ ان کے متعلق پہلی مثال ایسے شخص کی حالت کے ذریعے بیان ہوئی جس سے آگ جلائی ہو اور دوسری مثال اس بجلی کے ذریعے بیان ہوئی جو تاریکیوں میں چمکتی ہے، لیکن چمک کر فوراً ختم ہوجاتی ہے۔ ٹھہرتی نہیں یہ دراصل منافقین کے اظہار ایمان کی مثال ہے جبکہ دوسری طرف ان کا کفر پر ثبات ہوتا ہے اور وہ اس کفر ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت رات کی اس تاریکی اور بارش کی طرح ہے جس کے درمیان بجلی چمکتی اور ان کے سامنے روشنی ہوجاتی ہے پھر یہ روشنی غائب ہوجاتی ہے اور یہ لوگ حسب سابق اندھیروں میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں اور انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔- منافقین کا ذکر ختم کرنے کے بعد اللہ نے توحید پر ایسی دلالت قائم کرنے کا ذکر کیا جسے جھٹلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ یہ کہ اللہ نے زمین کو پھیلا دیا اور اسے لوگوں کا ٹھکانہ بنادیا اور سب کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ فراہم کردیا۔ نیز زمین سے ان سب کے گزارے کے اسباب، ان کی غذا اور ان کے لئے فائدے کے دیگر ذرائع پیدا کردیئے نیز یہ کہ اس نے اس زمین کو کسی سہارے اور ٹیک کے بغیر قائم رکھا ہے اس لئے کہ زمین کا حادث ہونا ثابت ہے۔ اس لئے اس کی کوئی نہ کوئی انتہا بھی ضرور ہوگی۔ زمین کو روک کر قائم رکھنے اولا اللہ ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور جو تمہارا بھی خالق ہے اور جس نے زمین سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لئے رزق کی نعمت بہ ہم پہنچائی کیونکہ ان تمام کاموں کی قدرت صرف اسی قادر مطلق کو حاصل ہوسکتی ہے جسے کوئی چیز نہ تو عاجز کرسکتی ہو اور نہ کوئی چیز اس کے مشابہ ہو۔ اس طرح اللہ سبحانہ نے لوگوں کو ان مذکورہ دلائل سے قائل کیا ا اور انہیں اپنی ان نعمتوں سے اگٓاہی بخشی۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ دلیل یہ دی کہ تمام مخالفین قرآن جیسی ایک سورت پیش کرنے سے عاجز ہیں اور اس کے بعد تمام انسانوں کو خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دی جس نے ان پر اس قدر انعامات کئے ہیں۔ ارشاد ہوا : فلا تجعلوا اللہ انداداً وانتم تعلمون (پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدمقابل نہ ٹھہرائو) یعنی تمہیں معلوم ہے کہ جن معبودان باطل کو تم الہ کے طور پر پکارتے ہو وہ درج بالا افعال میں سے کوئی افعال میں سے کوئی فعل سر انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے، نیز یہ کہ ان کے بجائے اللہ ہی تم پر انعام کرنے والا ہے اور وہی تمہیں پیدا کرنے والا ہے۔- قول باری : وانتم تعلمون کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تمہیں واجب اور غیر واجب کے مابین فرق کا علم ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل کی وہ نعمت بخشی ہے جس کے ذریعے اس فرق تک رسائی تمہارے لئے ممکن ہے۔ اس لئے تمہیں اس کا مکلف بنانا ضروری ہوگیا کیونکہ عقل کے نزدیک اللہ کی ذات کی عدم معرفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ اس معرفت کے تمام اسباب مہیا کردیئے گئے ہوں اور تمام رکاوٹیں دور ک ردی گئی ہوں۔- جب اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت، نیز اس کی خالقیت کی بات دلائل کے ذریعے تمام لوگوں کے ذہنوں میں واضح کردی گئی تو وعید کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا : (وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فالقوا النار التی وقودھا الناس والحجارۃ اعدت للکفرین۔ )- (لیکن اگر ت م نے ایسا نہ کیا اور یقینا کبھی نہیں کرسکتے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لئے) اس کے بعد ان نعمتوں کا ذکر کیا جن کا وعدہ آخرت میں اہل ایمان سے کیا گیا ہے، چناچہ ارشاد ہوا : وبشر الذین امنوا وعملوا الصالحات ان لھم جنت تجری من تحتھا الانھر (اور اے اے پیغمبر، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور اس کے مطابق اپنے عمل درست کرلیں انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی) تاآخر آیات

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) تم اپنی کتابوں میں یہ بات پاتے ہو کہ اس وحدہ لاشریک کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے مشابہ اور شریک ہے اور اگر تمہیں اس کلام میں جو کہ ہم نے بذریعہ جبریل امین اپنے خاص بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے، شک ہے کہ یہ کلام انہوں نے خود بنا لیا ہے تو اس کلام جیسی ایک سورت لے آؤ اور اپنے ان معبودوں کو بھی ساتھ ملا لو جن کی تم عبادت کرتے ہو یا اپنے سرداروں کو بلا لو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو اور حقیقت یہ ہے کہ ایک سو رہ بھی تم ہرگز اس جیسی لانے پر قادر نہیں ہوسکتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا) ‘ - ” تعارف قرآن “ میں یہ بات تفصیل سے بیان کی گئی تھی کہ قرآن حکیم میں ایسے پانچ مقامات ہیں جہاں پر یہ چیلنج موجود ہے کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ کلام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اختراع ہے تو تم بھی مقابلے میں ایسا ہی کلام پیش کرو۔ سورة الطور کی آیات ٣٣ ‘ ٣٤ میں ارشاد ہوا : ” کیا ان کا یہ کہنا ہے کہ اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود گھڑ لیا ہے ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں۔ پھر چاہیے کہ وہ اسی طرح کا کوئی کلام پیش کریں اگر وہ سچے ہیں “۔ سورة بنی اسراء یل (آیت ٨٨) میں فرمایا گیا کہ ” اگر تمام جن و انس جمع ہو کر بھی اس قرآن جیسی کتاب پیش کرنا چاہیں تو ہرگز نہیں کرسکیں گے ‘ چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں “۔ پھر سورة ہود (آیت ١٣) میں فرمایا گیا کہ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان سے کہہ دیجیے (اگر پورے قرآن کی نظیر نہیں لاسکتے) تو ایسی دس سورتیں ہی گھڑ کرلے آؤ “ اس کے بعد مزید نیچے اتر کر ‘ جسے برسبیل تنزل کہا جاتا ہے ‘ سورة یونس (آیت ٣٨) میں اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آنے کا چیلنج دیا گیا۔ مذکورہ بالا تمام مقامات مکی سورتوں میں ہیں۔ پہلی مدنی سورة ” البقرۃ “ کی آیت زیر مطالعہ میں یہی بات بڑے اہتمام کے ساتھ فرمائی گئی کہ اگر تم لوگوں کو اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے (کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے) تو اس جیسی ایک سورت تم بھی موزوں کر کے لے آؤ یہ ایک سورت سورة العصر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی ‘ سورة الکوثر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی۔- (وَادْعُوْا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) - قریش کا خیال یہ تھا کہ شعراء کے پاس جن ہوتے ہیں ‘ جو انہیں شعر سکھاتے ہیں ‘ ورنہ عام آدمی تو شعر نہیں کہہ سکتا۔ چناچہ فرمایا کہ جو بھی تمہارے مددگار ہوں ‘ ایک اللہ کو چھوڑ کر جس کی بھی تم مدد حاصل کرسکتے ہو ‘ جنات ہوں یا انسان ہوں ‘ خطیب ہوں ‘ شعراء ہوں یا ادیب ہوں ‘ ان سب کو جمع کرلو اور اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ ‘ اگر تم سچے ہو۔ ّ - قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ چناچہ یہاں گویا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہا جا رہا ہے کہ حقیقت میں تمہیں اس قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ‘ یہ تو تم محض بات بنا رہے ہو۔ اگر تمہیں واقعتا شک ہے ‘ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آؤ میدان میں اور اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :23 یعنی جب تم خود بھی اس بات کے قائل ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں ، تو پھر تمہاری بندگی اسی کے لیے خاص ہونی چاہیے ، دُوسرا کون اس کا حق دار ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی بجا لاؤ ؟ دُوسروں کو اللہ کا مدِّ مقابل ٹھہرانے سے مراد یہ ہے کہ بندگی و عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی قسم کا رویّہ خدا کے سوا دُوسروں کے ساتھ برتا جائے ۔ آگے چل کر خود قرآن ہی سے تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ عبادت کی وہ اقسام کون کون سی ہیں جنہیں صِرف اللہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے اور جن میں دُوسروں کو شریک ٹھہرانا وہ ” شرک“ ہے ، جسے روکنے کے لیے قرآن آیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani