ف 1 یہ قرآن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب و عجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقینا قیامت تک قاصر رہیں گے۔ ف 2 پتھر سے مراد بقول ابن عباس گندگی کے پتھروں اور بعض حضرات کے نزدیک پتھر کے وہ اصنام (بت) بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے جن کی لوگ دنیا میں پرستش کرتے رہے ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ (اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ ) 021:098 تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہونگے۔ ف 3 اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں اور مشرکوں کے لیے تیار کی گئ ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنت اور دوزخ کا وجود ہے جو اس وقت بھی ثابت ہے یہی سلف امت کا عقیدہ ہے۔ یہ تمثیلی چیزیں نہیں ہیں جیسا کہ بعض متجدد دین اور منکرین حدیث باور کراتے ہیں۔
[٢٨] جہنم کا ایندھن کون سی اشیاء ہوں گی ؟ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی علم تھا کہ ایسا کلام پیش کرنا انسان کے بس سے باہر ہے اور یہ جو پانچ مرتبہ قرآن میں کفار کو چیلنج کیا گیا ہے تو یہ ان پر اتمام حجت کے لیے ہے کہ اگر ان واضح دلائل کے بعد کوئی کفر پر اڑا رہتا ہے تو اسے اس دوزخ کے عذاب سے ڈر جانا چاہیے۔ جس کا ایندھن انسان ہی نہیں معدنی پتھر (جیسے پتھری کوئلہ، گندھک) وغیرہ بھی ہوں گے جو آگ کی حدت کو بیسیوں گنا تیز کردیتے ہیں۔- بعض علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں حجارۃ سے مراد پتھر کے وہ بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی رہی اور اس قول کی تائید اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98) 21 ۔ الأنبیاء :98) تم بھی اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو سب دوزخ کا ایندھن بنو گے۔ تاکہ کافروں کو اپنے معبودوں کی خدائی کی حقیقت معلوم ہو سکے اور ان کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ - [٢٨۔ الف ] تقوی کا لغوی مفہوم :۔ اتقاء یا تقویٰ کا معنی اپنے اعمال کے انجام سے ڈر جانا ہے۔ اور اس کے مادہ وَ قَ یَ میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں : (١) ڈرنا۔ (٢) بچنا۔ (٣) پرہیز کرنا۔ گویا تقویٰ کے معنی اپنے نفس کو ہر اس چیز سے بچانا ہے جس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اور شرعی اصطلاح میں اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچانے کا نام تقویٰ ہے جو گناہ کا موجب ہو۔ اور جن امور سے شریعت نے منع کیا ہے انہیں چھوڑنے سے یہ بات حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر تقویٰ کا مفہوم محض نواہی کو چھوڑنے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اوامر کی بجاآوری کو بھی اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔ کیونکہ جیسے بےحیائی کے کام کرنا گناہ ہے ویسے ہی نماز یا روزہ وغیرہ ادا نہ کرنا بھی گناہ ہے۔ اور تمام تر عبادات کا بنیادی مقصد انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے یعنی وہ ہر کام کے کرنے سے پہلے اس کا انجام سوچتا ہے اور اس انجام کو ملحوظ رکھ کر اسے اختیار کرتا یا چھوڑتا ہے۔ اور چونکہ انجام سے دو چار کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لہذا تقویٰ کے مفہوم میں گناہوں کے انجام سے ڈرنے اور بچنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے ڈرنا اور ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا از خود شامل ہوجاتا ہے۔- [٢٩] اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ وجود میں لائی جا چکی ہے (اور اسی طرح جنت بھی) اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ جبکہ بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اور دوزخ عالم آخرت میں جزا و سزائے اعمال کے وقت تیار کئے جائیں گے۔
عام آگ انسانی جسم اور پتھروں سے بجھ جاتی ہے یا مدہم ہوجاتی ہے، مگر جہنم کی آگ کی حرارت اس قدر ہے کہ انسان اور پتھر اس کا ایندھن بن کر اسے مزید بھڑکائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہاری آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ “ [ بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ النار و أنہا مخلوقۃ : ٣٢٤٩، عن أبی ہریرۃ (رض) ] عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” یہ پتھر گندھک کے ہوں گے۔ “ (طبری) وہ بت بھی مراد ہیں جنھیں کفار پوجتے تھے۔ دیکھیے سورة انبیاء : (٩٨) ۔- ( اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ) اس سے معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں کے لیے بنائی گئی ہے، کوئی مومن اس میں جائے گا تو کفر کے کسی کام کے ارتکاب کی وجہ ہی سے جائے گا، اگرچہ ہمیشہ اس میں نہیں رہے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم اس وقت بھی موجود ہے، یہی تمام سلف کا عقیدہ ہے، اس کا انکار صریح آیات و احادیث کا انکار ہے۔
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ - اگر تم اس کی مثال نہ لاسکے اور ہرگز نہ لاسکو گے تو پھر اس جہنم کی آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو منکروں کے لئے تیار کی گئی ہے .
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ٠ ۚۖ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ٢٤- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان 56] ، وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد 34] ، ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد 37] ، قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم 6]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان 56] اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے گا ۔ وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد 34] اور ان خدا کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ۔ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد 37] تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مدد گار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم 6] اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - وقد - يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ- [ آل عمران 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ- ( و ق د )- وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - حجر - الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه :- أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24]- ( ح ج ر ) الحجر - سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ - عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٢٤) سو اگر تم اس جیسی سورت نہ لا سکو مفہوم کے لحاظ سے یہاں (آیت) ” لن تفعلوا “۔ پہلے ہے (آیت) ” لم تفعلو “۔ بعد میں ہے اگر پھر بھی تم ایمان نہیں لئے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافروں ہی کے لیے پیدا اور تیار کی گئی ہے۔
آیت ٢٤ (فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا) - ذرا انداز دیکھئے ‘ کیسا تحدی اور چیلنج کا ہے اور یہ چیلنج اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ انداز دنیا کی کسی کتاب کا نہیں ہے ‘ یہ دعویٰ صرف قرآن کا ہے۔ کیسا دو ٹوک انداز ہے : ” پھر اگر تم نہ کر پاؤ ‘ اور تم ہرگز نہیں کر پاؤ گے۔ “ - (فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ج - جہنم کے ایندھن کے طور پر پتھروں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ اس کے دو امکانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کو معلوم ہے پتھر کے کوئلے کی آگ عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں بڑی سخت ہوتی ہے۔ لہٰذا جہنم کی آگ بہت بڑے بڑے پتھروں سے دہکائی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ مشرکین نے جو معبود تراش رکھے تھے وہ پتھر کے ہوتے تھے۔ مشرکین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ تمہارے ان معبودوں کو بھی جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ تمہاری حسرت کے اندر اضافہ ہو کہ یہ ہیں وہ معبودان باطل جن سے ہم دعائیں مانگا کرتے تھے ‘ جن کے سامنے ماتھے ٹیکتے تھے ‘ جن کے سامنے ڈنڈوت کرتے تھے ‘ جن کو چڑھاوے چڑھاتے تھے - (اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ )- یہ جہنم منکرین حق کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اب یہاں گویا ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے بعد ایمان بالآخرت کا ذکر آگیا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :24 اس سے پہلے مکّے میں کئی بار یہ چیلنج دیا جا چکا تھا کہ اگر تم اس قرآن کو انسان کی تصنیف سمجھتے ہو ، تو اس کے مانند کوئی کلام تصنیف کر کے دکھاؤ ۔ اب مدینے پہنچ کر پھر اس کا اِعادہ کیا جارہا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سُورہٴ یونس علیہ السلام ، آیت ٤۸ و سُورہٴ ہُود ، آیت ۱۳ ۔ بنی اسرائیل ، آیت ۸۸ ۔ الطور ، آیت ۲۳ ۔ ۳٤ ) سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :25 اس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے ، بلکہ تمہارے وہ بُت بھی وہاں تمہارے ساتھ ہی موجود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبُود و مسجُود بنا رکھا ہے ۔ اس وقت تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ خدائی میں یہ کتنا دخل رکھتے تھے ۔
19 پچھلی آیات میں توحید کا بیان تھا اب اسلام کے دوسرے اہم عقیدے یعنی آنحضرتﷺ کی رسالت کا بیان ہے اور عرب کے جو لوگ قرآن پر ایمان لانے کے بجائے یہ الزام لگاتے تھے کہ آنحضرتﷺ شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی طرف سے یہ کلام بنالیا ہے، انہیں زبردست چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر ایسا کلام کوئی انسان بناسکتا ہے تو تم بڑے فصیح وبلیغ ہو، تم سب مل کر قرآن جیسی کوئی ایک سورت ہی بناکر لے آؤ، ساتھ ہی قرآن نے دعوی کیا ہے کہ تم سب مل کر بھی ایسا نہیں کرسکوگے اور واقعہ یہی ہے کہ اہل عرب جو اپنی زبان وادب پر ناز کرتے تھے ان سب کو اس چیلنج کے بعد سانپ سونگھ گیا اور کوئی شخص یہ چیلنج قبول کرنے کے لئے آگے نہ بڑھا بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے اس خدائی کلام کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور اس طرح آنحضرتﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح ثابت اور واضح ہوگئی۔