آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت نوح اور حضرت آدم کے درمیان دس زمانے تھے ان زمانوں کے لوگ حق پر اور شریعت کے پابند تھے پھر اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ، بلکہ آپ کی قرأت بھی یوں ہے آیت ( وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا ) 10 ۔ یونس:19 ) ابی بن کعب کی قرأت بھی یہی ہے ، قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے کہ جب ان میں اختلاف پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا پیغمبر بھیجا یعنی حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت مجاہد بھی یہی کہتے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت مروی ہے کہ پہلے سب کے سب کافر تھے ، لیکن اول قول معنی کے اعتبار سے بھی اور سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے ، پس ان پیغمبروں نے ایمان والوں کو خوشیاں سنائی اور ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا ، ان کے ساتھ اللہ کی کتاب بھی تھی تاکہ لوگوں کے ہر اختلاف کا فیصلہ قانون الٰہی سے ہوسکے ، لیکن ان دلائل کے بعد بھی صر ف آپ کے حسد وبغض تعصب وضد اور نفسانیت کے بنا پر پھر اتفاق نہ کر سکے ، لیکن ایمان دار سنبھل گئے اور اس اختلاف کے چکر سے نکل کر سیدھی راہ لگ گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آگے ہوں گے ، اہل کتاب کو کتاب اللہ ہم سے پہلے دی گئی ہمیں اس کے بعد دی گئی لیکن انہوں نے اختلاف کیا اور اللہ پاک نے ہماری رہبری کی جمعہ کے بارے میں بھی نااتفاقی رہی لیکن ہمیں ہدایت نصیب ہوئی یہ کل کے کل اہل کتاب اس لحاظ سے بھی ہمارے پیچھے ہیں جمعہ ہمارا ہے ہفتہ یہودیوں کا اور اتوار نصرانیوں کا ، زید بن اسلم فرماتے ہیں جمعہ کے علاوہ قبلہ کے بارے میں بھی یہی ہوا نصاریٰ نے مشرق کو قبلہ بنایا یہود نے بھی ، ان میں بعض کی نماز رکوع ہے اور سجدہ نہیں ، بعض کے ہاں سجدہ ہے اور رکوع نہیں ، بعض نماز میں بولتے چلتے پھرتے رہتے ہیں لیکن امت محمد کی نماز سکون و وقار والی ہے نہ یہ بولیں نہ چلیں نہ پھریں ، روزوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہوا اور اس میں بھی امت محمدیہ کو ہدایت نصیب ہوئی ان میں سے کوئی تو دن کے بعض حصے کا روزہ رکھتا ہے کوئی گروہ بعض قسم کے کھانے چھوڑ دیتا ہے لیکن ہمارا روزہ ہر طرح کامل ہے اور اس میں بھی راہ حق ہمیں سمجھائی گئی ہے ، اسی طرح حضرت ابراہیم کے بارے میں یہود نے کہا کہ وہ یہودی تھے نصرانیوں نے انہیں نصاری کہا لیکن دراصل وہ کسر مسلمان تھے پس اس بارے میں بھی ہماری رہبری کی گئی اور خلیل اللہ کی نسبت صحیح خیال تک ہم کو پہنچا دئیے گئے ، حضرت عیسیٰ کو بھی یہودیوں نے جھٹلایا اور ان کی والدہ ماجدہ کی نسبت بدکلامی کی ، نصرانیوں نے انہیں اللہ اور اللہ کا بیٹا کہا لیکن مسلمان اس افراط وتفریط سے بچا لئے گئے اور انہیں روح اللہ کلمۃ اللہ اور نبی برحق مانا ، ربیع بن انس فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح ابتداء میں سب لوگ اللہ واحد واحد کی عبادت کرنے والے نیکیوں کے عامل برائیوں سے مجتنب تھے بیچ میں اختلاف رونما ہو گیا تھا پس اس آخری امت کو اول کی طرح اختلاف سے ہٹا کر صحیح راہ پر لگا دیا یہ امت اور امتوں پر گواہ ہو گی یہاں تک کہ امت نوح پر بھی ان کی شہادت ہوگی ، قوم یہود ، قوم صالح ، قوم شعیب اور آل فرعون کا بھی حساب کتاب انہی کی گواہیوں پر ہوگا یہ کہیں گے کہ ان پیغمبروں نے تبلیغ کی اور ان امتوں نے تکذیب کی ، حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں آیت ( واللہ یہدی ) الخ ، سے پہلے یہ لفظ بھی ہیں آیت ( ولیکونوا شہداء علی الناس یوم القیامۃ ) الخ ، ابو العالیہ فرماتے ہیں اس آیت میں گویا حکم ہے کہ شبہ ، گمراہی ، اور فتنوں سے بچنا چاہئے ، یہ ہدایت اللہ کے علم اور اس کی رہبری سے ہوئی وہ جسے چاہے راہ استقامت سجھا دیتا ہے ، بخاری ومسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تھے تو یہ پڑھتے دعا ( اللہم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل فاطر السماوات والارض عالم الغیب والشہادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اہدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تہدی من تشاء الی صراط مستقیم ۔ یعنی اے اللہ اے جبرائیل ومیکائل اور اسرافیل کے اللہ عزوجل اے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے الہ العالمین ۔ اے چھپے کھلے کے جاننے والے اللہ جل شانہ تو ہی اپنے بندوں کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے میری دعا ہے کہ جس جس چیز میں یہ اختلاف کریں تو مجھے اس میں حق بات سمجھا تو جسے چاہے راہ راست دکھلا دیتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دعا یہ بھی منقول ہے ( اللہم ارنا الحق حق وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاوارزقنا اجتنابہ ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل واجعلنا للمتقین اماما ) ۔ اے اللہ ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کی تابعدار نصیب فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچا کہیں ایسا نہ کہ حق وباطل ہم پر خلط ملط ہوجائے اور ہم بہک جائیں اے اللہ ہمیں نیکوکار اور پرہیزگار لوگوں کا امام بنا ۔
213۔ 1 یعنی توحید پر۔ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام) ، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیاء دیتے رہے قائم رہے۔ آیت مفسرین صحابہ نے فاختَلَفُوْا منسوخ مانا ہے یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک و ظاہر پرستی عام ہوگئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلاف کا فیصلہ اور حق اور توحید قائم اور واضح کریں (ابن کثیر) 213۔ 2 اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور انحراف کا منبع بغض اور عناد بنتا ہے امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلاف کی شدت سے محفوظ رہی لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا اس سے اختلاف کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تاآنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیزیں بن کر رہ گیا ہے۔ 213۔ 3 مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعہ کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کیا یہود نے ان کو جھٹلایا اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور اللہ بنادیا اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرمانروا بندے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا ایک نے یہودی اور دوسرے نے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ (حنیفاً مُسْلِماً ) تھے اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔
[٢٨١] اس امت واحدہ کا طریق اور دین کیا تھا ؟ وہ تھا توحید خالص اور صرف اللہ اکیلے کی اطاعت اور بندگی۔ یہی چیز انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں سب سے پہلے انسان ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) خود نبی تھے۔ لہذا آپ (علیہ السلام) کی ساری اولاد اور آپ (علیہ السلام) کی امت اسی دین پر قائم تھی۔ مگر موجودہ دور کے مغربی علماء (جنہیں ہم مسلمانوں نے آج کل ہر شعبہ علم میں انہیں اپنا استاد تسلیم کرلیا ہے) جب مذہب کی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز شرک کی تاریکیوں سے کیا، پھر اس پر کئی ادوار آئے اور بالآخر انسان توحید کے مقام پر پہنچا ہے اور یہی نظریہ ہمارے ہاں کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور یہ اسلام کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق بالکل غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔- کہا یہ جاتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے قدیم اور ابتدائی جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ ان ہولناک حوادثات کے مشاہدہ سے پیدا ہوا جو اس دنیا میں طوفانوں، زلزلوں اور وباؤں کی صورت میں آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ اس خوف کے جذبہ نے انسان کو ان ان دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا۔ جن کو انسان نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا۔ اس طرح انسان نے شرک سے دین کا آغاز کیا۔- یہ نظریہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ دنیا میں زلزلے طوفان، سیلاب اور وبائیں کبھی کبھار آتی ہیں۔ جبکہ دنیا کی بہاریں انسان کی پیدائش سے پہلے ہی موجود بھی تھیں اور بکثرت بھی تھیں۔ درختوں کو پھل لگتے تھے، فصلیں اگتی تھیں، بارشیں ہوتی تھیں۔ چاندنی پھیلتی تھی، تارے چمکتے، پھول کھلتے تھے۔ گویا انسان کے رزق اور رزق کے علاوہ اس کے جمال اور خوش ذوقی کے سامان پہلے سے ہی بکثرت موجود تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تو ربوبیت کی یہ برکتیں اور رحمت کی شانیں پہلے تھیں یا اتفاقی حوادث ؟ یا یہ برکتیں تعداد میں زیادہ تھیں۔ یا ان کے مقابلہ میں اتفاقی حوادث ؟ اور کیا ابتداًء انسان کو ایک رحمن ورحیم اور رزاق ہستی کے ان بیشمار انعامات کا معترف ہو کر جذبہ شکر سے اس کا دل معمور ہونا چاہیے تھا یا ابتداًء ہی اس پر حوادث کا خوف طاری ہونے لگا تھا ؟ جو شخص بھی ان باتوں پر ضد اور ہٹ دھرمی سے ہٹ کر غور کرے گا۔ وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ فطرت انسانی کا اصلی رخ وہی ہے۔ جس کا پتہ قرآن کریم دے رہا ہے۔ نہ وہ جسکی طرف یہ مغربی علماء نشاندہی کرتے ہیں۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ خوف کا لفظ ہی پہلے سے کسی نعمت کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔ خوف دراصل کسی ایسی نعمت کے چھن جانے کا نام ہے جو انسان کو عزیز بھی ہو اور پہلے سے مہیا بھی ہو۔ زلزلوں کا خطرہ ہو یا سیلابوں کا خوف ہو یا وباؤں کا ان سب میں کسی نہ کسی عزیز تر نعمت کے چھن جانے کا مفہوم پایا جاتا ہے، خواہ یہ نعمت انسان کی صحت ہو، یا رزق ہو۔ گویا ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کا شعور لازمی چیز ہے اور جب نعمت کا شعور پایا گیا تو ایک منعم حقیقی کا شعور بھی لازمی ہوا اور پھر اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا بھی ناگزیر ہوا۔ انسان کے مشاہدہ کائنات کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ انسان میں نعمتوں اور رحمتوں کی فراوانی اور اس کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکرگزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا پھر وہ اسی جذبہ کے تحت اس کی بندگی کی طرف مائل ہوا۔ رہا یہ سوال کہ جب ایک دفعہ انسان توحید کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا تو پھر شرک کی راہوں پر کیسے جا پڑا تو اس کا سبب یہ ہرگز نہیں کہ اس کی فطرت میں کوئی خرابی موجود تھی بلکہ اس کی اصل وجہ انسان کی قوت ارادہ و اختیار کا غلط استعمال ہے کہ ان میں سے عیار لوگوں نے اپنے دنیوی مفادات کی خاطر کچھ غلط سلط عقائد گھڑ کر عوام الناس کو غلط راہوں پر ڈال دیا ہے۔- جب لوگوں میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہوگیا اور شرک نے کئی دوسری اخلاقی قدروں کو بھی بگاڑنا شروع کردیا تو اللہ نے پھر سے انبیاء کو مبعوث فرمانا شروع کردیا۔ ان سب انبیاء کی تعلیم ایک ہی تھی یعنی کائنات کی ہر ایک چیز کا اور انسانوں کا خالق، مالک اور رازق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہذا وہی اکیلا پرستش اور بندگی کے لائق ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اسی کی بندگی کرے اور اسی کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ پھر جو لوگ اللہ کے احکام کو مان کر اس کی تعمیل کریں گے انہیں اچھا بدلہ ملے گا اور جو نافرمان اور مشرک ہوں گے انہیں سزا بھی ملے گی۔ اس جزا و سزا کے لیے اخروی زندگی اور اس پر ایمان لانا ناگزیر ہے اور یہ دنیا محض دارالامتحان ہے۔ دارالجزاء نہیں اور یہی کلیات دین ہر نبی پر نازل کئے جاتے رہے جو عقل سلیم کے عین مطابق ہے۔- [٢٨٢] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں ہر نبی کی امت کی پوری داستان عروج وزوال بیان فرما دی ہے۔ عروج کا دور اس وقت ہوتا ہے جب تک یہ امت مجموعی طور پر متحد اور متفق رہے اور جب اس میں ایسے اختلاف پیدا ہوجائیں جو فرقہ بندی کی بنیاد بن جائیں تو بس سمجھئے کہ اس کے زوال کا آغاز ہوگیا اور یہ اختلاف اس وجہ سے نہیں ہوتے کہ کتاب اللہ میں حق بات کی پوری وضاحت نہیں ہوتی اور حق ان پر مشتبہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس اختلاف اور فرقہ بندی کے اصل محرکات کچھ اور ہوتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد بار ایک جامع لفظ (بَغْیًا بَیْنَھُمْ ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی بعض لوگ حق کو جاننے کے باوجود اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے سے دریغ نہیں کرتے تاکہ ان کا اپنا جھنڈا بلند ہو۔ بعض لوگ اپنے آباء کے دین کو اصل دین قرار دے لیتے اور اس پر مصر ہوجاتے ہیں یا کسی امام کے متبع امام کے قول کو حکم الٰہی پر ترجیح دینے پر اصرار کرتے ہیں تو اس طرح نئے نئے فرقے وجود میں آتے رہتے ہیں اور وحدت ملت پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور یہی فرقے اس کے زوال کا سبب بن جاتے ہیں۔- ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ ایک نیا نبی مبعوث فرماتے رہے جو لوگوں کو اختلافی امور میں حق کا راستہ دکھلا کر انہی میں سے ایک نئی امت تشکیل کرتا اور لوگوں کو پھر سے ایک امت کی صورت میں متحد کردیتا۔ مگر امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیونکہ آپ نے یہ بشارت دے دی ہے کہ میری امت میں سے ایک فرقہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ تاآنکہ قیامت آجائے (بخاری، کتاب الاعتصام، باب قول النبی لا تزال طائفہ من امتی۔۔ ) صحابہ (رض) نے عرض کیا وہ کونسا فرقہ ہوگا ؟ فرمایا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ (ترمذی، کتاب الایمان، باب افتراق ھذہ الامۃ) نیز دیکھئے اسی سورة کا حاشیہ نمبر ٢٢٠) لہذا آج بھی فرقہ پرستی کا صرف یہی علاج ہے کہ ہر قسم کے تعصبات کو چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔
اس آیت میں اس تاریخی حقیقت کا انکشاف فرمایا ہے کہ انسانیت کی ابتدا کفر و شرک اور عظیم الشان مخلوقات، مثلاً سورج، چاند، آگ، ہوا، پانی، فرشتوں اور نیک انسانوں وغیرہ کی پرستش سے نہیں ہوئی، بلکہ خالص توحید سے ہوئی ہے۔ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین توحید رکھتے تھے اور ان کی ایک ہی ملت تھی۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” آدم اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس قرن (ایک ہزار سال) تھے۔ یہ سب شریعت حقہ (توحید) پر تھے، پھر (شیطان کے بہکانے سے ان میں شرک آیا اور) ان میں اختلافات پیدا ہوئے، تب اللہ تعالیٰ نے ( نوح (علیہ السلام) اور دوسرے) انبیاء بھیجے۔ “ [ طبری و حاکم ٢؍٤٤٢، ح : ٣٦٥٤، بسند صحیح ] پھر مسلسل انبیاء آتے رہے اور ان پر کتابیں نازل ہوتی رہیں، تاکہ ان کو اختلافات سے نکال کر ہدایت الٰہی کی طرف لایا جائے۔ اس آیت میں ” فَبَعَثَ اللّٰهُ “ کا عطف محذوف پر ہے یعنی ” فَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰہُ “ ” پس انھوں نے اختلاف کیا تو اللہ نے نبی بھیجے۔ “ (کبیر، ابن جریر) مزید دیکھیے سورة یونس (٢١) ۔- (فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ) یعنی پہلی امتوں میں اختلافات لاعلمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ باہمی حسد، ضد اور سرکشی کی وجہ سے پیدا ہوئے، جس سے وہ فرقوں میں بٹ گئیں اور اس وجہ سے گمراہ ہوگئیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی بھیج کر اور اس پر اپنی آخری کتاب نازل فرما کر تمام اختلافات کا فیصلہ فرما دیا اور اپنی توفیق خاص ” بِاِذْنِهٖ “ سے مومنوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کردی ہے۔ (بیضاوی، فتح البیان) واضح رہے کہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی شروع میں دین میں کوئی اختلاف نہیں تھا، سلف صالحین سب کے سب کسی شخص کی تقلید کے بجائے براہ راست قرآن و حدیث پر عمل کرتے تھے۔ ان میں نہ شیعہ سنی کی تفریق تھی، نہ ان میں کوئی حنفی تھا، نہ مالکی، نہ شافعی، نہ حنبلی، نہ نقشبندی، نہ قادری، نہ سہروردی، نہ چشتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا :” تم ضرور ہی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے چل پڑو گے، جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی ضب (سانڈے) کے بل میں جا گھسے ہوں تو تم بھی ان کے پیچھے جاؤ گے۔ “ پوچھا گیا : ” یا رسول اللہ اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟ “ فرمایا : ” پھر اور کون ہیں ؟ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بنی إسرائیل : ٣٤٥٦۔ مسلم : ٢٦٦٩ ] آپ کے اس فرمان کے مطابق جب اس امت میں بھی اہل کتاب کی طرح شخصی رائے کی تقلید اور اپنے دھڑے کی بےجا حمایت پر جمود پیدا ہوگیا، لوگوں نے قرآن و حدیث کے بجائے اقوال رجال کو دین سمجھنا شروع کردیا تو امت مختلف فرقوں میں بٹ کر تباہ ہوگئی۔ اس سے صرف وہ لوگ محفوظ رہے جو قرآن و سنت پر براہ راست کار بند رہے اور کسی نئے گروہ کا حصہ نہ بنے۔ [ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ]- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو اٹھتے تو اپنی رات کی نماز کا افتتاح اس دعا سے کرتے : ( اَللّٰھُمَّ رَبَّ جِبْرَاءِیْلَ وَ مِیْکَاءِیْلَ وَ اِسْرَافِیْلَ ، فَاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ، اہْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَہْدِیْ مَنْ تَشَاءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) [ مسلم،- صلٰوۃ المسافرین، باب صلوۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ودعاءہ باللیل : ٧٧٠ ]
ربط آیات :- اوپر دین حق سے اختلاف کرنے کی علت حب دنیا کو بتایا ہے آگے اسی مضمون کی تائید فرماتے ہیں کہ مدت سے یہی قصہ چلا آرہا ہے کہ ہم دلائل واضحہ دین حق پر قائم کرتے ہیں اور طالبان دنیا اپنی دنیوی اغراض کے سبب اس سے خلاف کرتے رہے۔- خلاصہ تفسیر :- (ایک زمانہ میں) سب آدمی ایک ہی طریق پر تھے (کیونکہ اول دنیا میں حضرت آدم (علیہ السلام) مع اپنی بی بی کے تشریف لائے اور جو اولاد ہوتی گئی ان کو دین حق کی تعلیم فرماتے رہے اور وہ ان کی تعلیم پر عمل کرتے رہے ایک مدت اسی حالت میں گذر گئی پھر اختلاف طبائع سے اغراض میں اختلاف ہونا شروع ہوا حتی ٰکہ ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی) پھر (اس اختلاف کے رفع کرنے کو) اللہ تعالیٰ نے (مختلف) پیغمبروں کو بھیجا جو کہ (حق ماننے والوں کو) خوشی (کے وعدے) سناتے تھے اور (نہ ماننے والوں کو عذاب سے) ڈراتے تھے اور ان (پیغمبروں کی مجموعی جماعت) کے ساتھ (آسمانی) کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں (اور ان پیغمبروں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل فرمانا) اس غرض سے (تھا) کہ اللہ تعالیٰ (ان رسل وکتب کے ذریعہ سے اختلاف کرنے والے) لوگوں میں ان کے امور اختلافیہ (مذہبی) میں فیصلہ فرمادیں (کیونکہ رسل وکتب امر واقعی کا اظہار کردیتے ہیں اور امر واقعی کے متعین ہونے سے ظاہر ہے کہ غیر واقعی کا غلط ہوجانا معلوم ہوجاتا ہے اور یہی فیصلہ ہے اور ان پیغمبروں کے ساتھ کتاب اللہ آنے سے چاہئے تھا کہ اس کتاب کو قبول کرتے اور اس پر مدار کار رکھ کر اپنے سب اختلافات مٹا دیتے مگر بعضوں نے خود اس کتاب ہی کو نہ مانا اور خود اسی میں اختلاف کرنا شروع کردیا) اور اس کتاب میں (یہ) اختلاف اور کسی نے نہیں کیا مگر صرف ان لوگوں نے جن کو (اولا) وہ کتاب ملی تھی (یعنی اہل علم واہل فہم نے کہ اول مخاطب وہی لوگ ہوتے ہیں دوسرے عوام ان کے ساتھ لگ لیا کرتے ہیں اور اختلاف بھی کیسے وقت کیا) بعد اس کے کہ ان کے پاس دلائل واضحہ پہنچ چکے تھے (یعنی ان کے ذہن نشین ہوچکے تھے اور اختلاف کیا کس وجہ سے صرف) باہمی ضدا ضدی کی وجہ سے (اور اصلی وجہ ضدا ضدی کی حب دنیا ہوتی ہے حب مال ہو یا حب جاہ پس مدار علت مخالفت حق کا وہی حب دنیا ٹھری اور یہی مضمون تھا سابق میں) پھر (یہ اختلاف کفار کا کبھی اہل ایمان کو مضر نہیں ہوا بلکہ) اللہ تعالیٰ نے (ہمیشہ) ایمان والوں کو وہ امر حق جس میں (مختلفین) اختلاف کیا کرتے تھے بفضلہ تعالیٰ (رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانے کی بدولت) بتلا دیا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اسی کو راہ راست بتلا دیتے ہیں۔- معارف و مسائل : - اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی زمانہ میں تمام انسان ایک ہی مذہب وملت اور عقیدہ و خیال پر تھے جو ملت اور دین فطرت تھی پھر ان میں مزاج و مذاق اور رائے وفکر کے اختلاف سے بہت سے مختلف خیالات و عقائد پیدا ہوگئے جن میں یہ امتیاز کرنا دشوار تھا کہ ان میں حق کونسا ہے اور باطل کونسا حق کو واضح کرنے اور صحیح راہ حق بتلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے اور ان پر کتابیں اور وحی نازل فرمائی انبیاء (علیہم السلام) کی جدوجہد اور تبلیغ و اصلاح کے بعد انسان دو گروہوں میں منقسم ہوگئے ایک وہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات کو قبول کیا اور انبیاء (علیہم السلام) کے متبع ہوگئے جن کو مومن کہا جاتا ہے دوسرے وہ جنہوں نے آسمانی ہدایات اور انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلایا ان کی بات نہ مانی یہ لوگ کافر کہلاتے ہیں اس آیت کے پہلے جملہ میں ارشاد ہے وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ لفظ امۃ عربی لغت کے اعتبار سے ہر ایسی جماعت کو کہا جاتا ہے جس میں کسی وجہ سے رابطہ و اتحاد اور وحدت قائم ہو خواہ یہ وحدت نظریات و عقائد کی ہو یا ایک زمانہ میں یا کسی ایک خطہ ملک میں جمع ہونے کے یا کسی دوسرے علاقہ یعنی نسب، زبان، رنگ وغیرہ کی، مفہوم اس جملہ کا یہ ہے کہ کسی زمانہ میں تمام انسان باہم متفق ومتحد ایک جماعت تھے اس میں دو باتیں قابل غور ہیں۔- اول یہ کہ اس جگہ وحدت سے کس قسم کی وحدت مراد ہے دوسرے یہ کہ وحدت کس زمانہ میں تھی امر اول کا فیصلہ تو اسی آیت کے آخری جملہ نے کردیا جس میں اس وحدت کے بعد اختلاف واقع ہونے کا اور مختلف راہوں میں حق متعین کرنے کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجی ہے کیونکہ یہ اختلاف جس میں فیصلہ کرنے کے لئے انبیاء (علیہ السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجی گئی ہیں ظاہر ہے کہ وہ نسب یا زبان یا رنگ یا وطن اور زمانہ کا اختلاف نہ تھا بلکہ نظریات اور عقائد و خیالات کا اختلاف تھا اسی کے مقابلہ سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں وحدت سے بھی وحدت فکر و خیال اور وحدت عقیدہ ومسلک مراد ہے۔- تو اب مفہوم آیت کا یہ ہوگیا کہ ایک زمانہ ایسا تھا جب کہ تمام افراد انسانی صرف ایک ہی عقیدہ و خیال اور ایک ہی مذہب ومسلک رکھتے تھے وہ عقیدہ ومسلک کیا تھا اس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ سب عقیدہ توحید و ایمان پر متفق تھے دوسرے یہ کہ سب کفر وضلال پر متحد تھے مگر جمہور مفسرین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ مراد عقائد صحیحہ توحید و ایمان پر سب کا متحد ہونا سورة یونس میں بھی اسی مضمون کی ایک آیت آئی ہے،- وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْ آ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَھُمْ فِيْمَا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ (١٩: ١٠) یعنی سب آدمی ایک ہی امت تھے پھر آپس میں اختلاف پڑگیا اور اگر اللہ تعالیٰ کا یہ ازلی فیصلہ نہ ہوتا (کہ اس عالم دنیا میں حق و باطل کھرا کھوٹا سچ اور جھوٹ ملے جلے چلیں گے تو قدرت الہیہ ان سب جھگڑوں کا ایسا فیصلہ کردیتی کہ حق سے اختلاف کرنے والوں کا نام ہی نہ رہتا۔- اور سورة انبیاء میں فرمایا :- اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ (٩٢: ٢١) یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لئے سب میری ہی عبادت کرتے رہو۔ - اسی طرح سورة مؤ منون میں فرمایا :- وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ (٥٢: ٢٣) یعنی یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لئے مجھ سے ہی ڈرتے رہو،- ان تمام آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ وحدت سے عقیدہ ومسلک کی وحدت اور دین حق توحید ایمان میں سب کا متحد ہونا مراد ہے،- اب یہ دیکھنا ہے کہ دین حق اسلام و ایمان پر تمام انسانوں کا اتفاق و اتحاد کسی زمانہ کا واقعہ ہے یہ وحدت کہاں تک قائم رہی ؟ مفسرین صحابہ کرام (رض) اجمعین میں سے حضرت ابی بن کعب اور ابن زید نے فرمایا کہ یہ واقعہ عالم ازل کا ہے جب تمام انسانوں کی ارواح کو پیدا کرکے ان سے سوال کیا گیا تھا الست بربکم یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں اور سب نے بلا استثناء یہ جواب دیا تھا کہ بیشک آپ ہمارے رب اور پروردگار ہیں اس وقت تمام افراد انسانی ایک ہی عقیدہ حق پر قائم تھے جس کا نام ایمان واسلام ہے (قرطبی) - اور حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ یہ وحدت عقیدہ کا اس وقت کا ہے جب کہ آدم (علیہ السلام) مع اپنی زوجہ محترمہ کے دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی اولاد ہوئی اور پھیلتی گئی وہ سب کے سب حضرت آدم (علیہ السلام) کے دین اور انہی کی تعلیم و تلقین کے تابع توحید کے قائل تھے اور سب کے سب باستثناء قابیل وغیرہ متبع شریعت و فرمانبردار تھے،- مسند بزار میں حضرت ابن عباس کے اس قول کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ وحدت عقیدہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ادریس (علیہ السلام) تک قائم رہی اس وقت تک سب کے سب مسلم اور توحید کے معتقد تھے اور آدم (علیہ السلام) اور ادریس (علیہ السلام) کے درمیان زمانہ دس قرن ہے بظاہر قرن سے ایک صدی مراد ہے تو کل زمانہ ایک ہزار سال کا ہوگیا، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ وحدت عقیدہ کا زمانہ وہ ہے جب کہ نوح (علیہ السلام) کی بدعاء سے دنیا میں طوفان آیا اور بجز ان لوگوں کے جو نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے تھے باقی ساری دنیا غرق ہوگئی تھی طوفان ختم ہونے کے بعد جتنے آدمی اس دنیا میں رہے وہ سب مسلمان موحد اور دین حق کے پیرو تھے۔- اور درحقیقت ان تینوں اقوال میں کوئی اختلاف نہیں یہ تینوں زمانے ایسے ہی تھے جن میں سارے انسان ملت واحدہ اور امت واحدہ بنے ہوئے دین حق پر قائم تھے،- آیت کے دوسرے جملہ میں ارشاد ہے، فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو خوشی سناتے تھے اور ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں میں ان کے امور اختلافیہ میں فیصلہ فرمادیں،- یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اوپر کے جملہ میں تمام انسانوں کا امت واحدہ اور ملت واحدہ ہونا بیان کیا تھا اور اس جملہ میں اسی پر تفریع کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ہم نے انبیاء اور کتابیں بھیجی تاکہ اختلاف کا فیصلہ کیا جائے ان دونوں جملوں میں بظاہر جوڑ نہیں معلوم ہوتا کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتابوں کے بھیجنے کی علت لوگوں کا اختلاف ہے اور اختلاف اس وقت تھا نہیں مگر جواب بالکل واضح ہے کہ مراد آیت مذکورہ کہ یہ ہے کہ ابتداء عالم میں تمام انسان ایک ہی عقیدہ حق کے قائل اور پابند تھے پھر رفتہ رفتہ اختلافات پیدا ہوگئے اختلافات پیدا ہونے کے بعد انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔- اب ایک بات رہ جاتی ہے کہ اوپر صرف امت واحدہ ہونے کا ذکر کیا گیا اختلاف پیدا ہونے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا، جو لوگ قرآن کریم کے اسلوب حکیم پر کچھ نظر رکھتے ہیں ان کے لئے اس کا جواب مشکل نہیں کہ قرآن کریم احوال ماضیہ کے بیان میں قصہ کہانی یا تاریخ کی کتابوں کے سارے قصہ کو کہیں نقل نہیں کرتا بلکہ درمیان سے وہ حصہ حذف کردیتا ہے جو اس سیاق کلام سے خود بخود سمجھا جاسکے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں جو قیدی رہا ہو کر آیا اور خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے یوسف (علیہ السلام) کے پاس بھیج دو تو قرآن میں اس قیدی کی تجویز نقل کرکے بعد بات یہاں سے شروع ہوتی ہے يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ اس کا ذکر نہیں کیا کہ بادشاہ نے اس کی تجویز کو پسند کیا اور اس کو جیل خانہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس بھیجا وہ وہاں پہنچ کر ان سے مخاطب ہوا کیونکہ پچھلے اور اگلے جملوں کے ملانے سے یہ ساری باتیں خود بخود سمجھ میں آجاتی ہیں، - اسی طرح اس آیت میں وحدت ملت کے بعد اختلاف واقع ہونے کا تدکزہ اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اختلافات کا وقوع تو ساری دنیا جانتی ہے ہر وقت مشاہدہ میں آتا ہے ضرورت اس امر کے اظہار کی تھی کہ ان اختلافات کثیرہ سے پہلے ایک زمانہ ایسا بھی گذر چکا ہے جس میں سارے انسان ایک ہی مذہب وملت اور ایک ہی دین حق کے پیرو تھے اس کو بیان فرمایا پھر جو اختلاف دنیا میں پھیلے ہوئے اور سب مشاہدہ میں آرہے ہیں ان کے وقوع کا بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی، ہاں یہ بتلایا گیا کہ ان اختلافات میں راہ حق کی ہدایت اور رہنمائی کا سامان حق تعالیٰ نے کیا فرمایا اس کے متعلق ارشاد ہوا فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ یعنی حق تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجا جو دین حق کا اتباع کرنے والوں کو دائمی آرام و راحت کی خوش خبری اور اس سے اعراض کرنے والوں کو عذاب جہنم کی وعید سنادیں اور ان کے ساتھ اپنی وحی اور کتابیں بھیجی جو مختلف عقائد و خیالات میں سے صحیح اور حق کو واضح کرکے بتلادیں اس کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ انبیاء (علیہم السلام) ورسل اور آسمانی کتابوں کے کھلے ہوئے فیصلوں کے بعد بھی یہ دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی کچھ لوگوں نے ان ہدایات واضحہ کو قبول نہ کیا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ قبول نہ کرنے والے اول وہی لوگ ہوئے جن کے پاس یہ انبیاء (علیہم السلام) اور آیات الہیہ بھیجی گئی تھیں یعنی اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ آسمانی کتابوں میں کوئی اشتباہ یا التباس کی گنجائش نہ تھی کہ ان کی سمجھ میں نہ آئے یا غلط فہمی کا شکار ہوجائیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ جاننے بوجھنے کے باوجود ان لوگوں نے محض ضد اور ہٹ دھرمی سے انکار کیا۔- اور دوسرا گروہ وہ ہوا جن کو اللہ تعالیٰ نے راہ ہدایت پر لگادیا اور جس نے انبیاء ورسل اور آسمانی کتابوں کے فیصلے ٹھنڈے دل سے تسلیم کئے انھیں دونوں گروہوں کا بیان قرآن کریم نے سورة تغابن میں اس طرح فرمایا ہے، خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (٢: ٦٤) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں سے کچھ کافر ومنکر ہوگئے کچھ مومن ومسلم۔- خلاصہ مضمون آیت کان النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً کا یہ ہے کہ پہلے دنیا کے سب انسان دین حق پر قائم تھے پھر اختلاف طبائع سے اغراض میں اختلاف ہونا شروع ہوا ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی یہاں تک کہ حق و باطل میں التباس ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) اور اپنی کتابیں راہ حق کی ہدایت کرنے کے لئے اور اسی دین حق پر دوبارہ قائم ہوجانے کے لئے بھیجی جس پر سب انسان پہلے قائم تھے لیکن ان سب ہدایات واضحہ اور آیات بینات کے ہوتے ہوئے کچھ لوگوں نے مانا اور کچھ لوگوں نے ضد اور عناد سے انکار و انحراف کی راہ اختیار کرلی۔- مسائل :- مسئلہ : اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت سے انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں دنیا میں بھیجیں یہ سب اس واسطے تھیں کہ یہ لوگ جو دین حق کی ملت واحدہ کو چھوڑ کر مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں پھر ان کو اسی ملت واحدہ پر قائم کردیں انبیاء (علیہم السلام) کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا کہ جب لوگ اس راہ حق سے بچلے تو ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا اور کتاب اتاری کہ اس کے موافق چلیں پھر کبھی بہکے تو دوسرا نبی اور کتاب اللہ تعالیٰ نے اسی راہ حق پر قائم کرنے کے لئے بھیج دیا اس کی مثال ایسی ہے جیسے تندرستی ایک ہے اور بیماریاں بیشمار جب ایک مرض پیدا ہوا تو اس کے موافق دوا اور پرہیز مقرر فرمایا جب دوسرا مرض پیدا ہوا تو دوسری دوا اور پرہیز اس کے موافق بتلایا اب آخر میں ایسا جامع نسخہ تجویز فرمایا جو ساری بیماریوں سے بچانے میں اس وقت تک کے لئے کامیاب ثابت ہو جب تک اس عالم کو باقی رکھنا منظور ہو یہ مکمل اور جامع نسخہ ایک جامع اصول علاج سب پچھلے نسخوں کے قائم مقام اور آئندہ سے بےنیاز کرنے والا ہو اور وہ نسخہ جامع اسلام ہے جس کے لئے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن بھیجے گئے اور پچھلی کتابوں میں تحریف ہو کر جو پچھلے انبیاء کی تعلیمات ضائع اور گم ہوجانے کا سلسلہ اوپر سے چلا آیا تھا جس کے سبب نئے نبی اور نئی کتاب کی ضرورت پیش آتی تھی اس کا یہ انتظام فرما دیا گیا کہ قرآن کریم کے تحریف سے محفوظ رہنے کا ذمہ خود حق تعالیٰ نے لے لیا اور قرآن کریم کی تعلیمات کو قیامت تک ان کی اصلی صورت میں قائم اور باقی رکھنے کے لئے اللہ جل شانہ نے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام میں تاقیامت ایک ایسی جماعت قائم رکھنے کا وعدہ فرما لیا جو ہمیشہ دین حق پر قائم رہ کر کتاب وسنت کی صحیح تعلیم مسلمانوں میں شائع کرتی رہے گی کسی کی مخالفت و عداوت ان پر اثر انداز نہ ہوگی اس لئے اس کے بعد دروازہ نبوت اور وحی کا بند ہوجانا ناگزیر امر تھا آخر ختم نبوت کا اعلان کردیا گیا۔- خلاصہ یہ ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی مختلف کتابیں آنے سے کوئی اس دھوکہ میں نہ پڑجائے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں لوگوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کرنے اور افتراق پیدا کرنے کے لئے نازل کی گئی ہیں بلکہ منشاء ان سب انبیاء (علیہم السلام) اور کتابوں کا یہ ہے کہ جس طرح پہلے سارے انسان ایک ہی دین حق کے پیرو ہو کر ملت واحدہ تھے اسی طرح پھر اسی دین حق پر سب جمع ہوجائیں۔- مسئلہ : دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مذہب کی بناء پر قومیت کی تقسیم مسلم وغیرمسلم کا دو قومی نظریہ عین منشاء قرآنی کے مطابق ہے آیت فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (٢: ٦٤) اس پر شاہد ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ اسلام میں اس دو قومی نظرئیے کی اصل بنیاد درحقیقت صحیح متحدہ قومیت پیدا کرنے پر ہے جو ابتداء آفرینش میں قائم تھی جس کی بنیاد وطنیت پر نہ تھی بلکہ عقیدہ حق اور دین حق کی پیروی پر تھی ارشاد قرآنی کان النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً نے بتلایا کہ ابتداء عالم میں اعتقاد صحیح اور دین حق کی پیروی کے اعتبار سے ایک صحیح اور حقیقی وحدت قومی قائم تھی بعد میں لوگوں نے اختلافات پیدا کئے انبیاء نے لوگوں کو اسی اصلی وحدت کی طرف بلایا جنہوں نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ اس متحدہ قومیت سے کٹ گئے اور جداگانہ قوم قرار دئیے گئے۔- مسئلہ : تیسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ ازل سے سنت اللہ یہی جاری ہے کہ برے لوگ ہر نبی مبعوث کے خلاف اور ہر کتاب الہی سے اختلاف کو پسند کرتے رہے اور ان کے مقابلہ و مخالفت میں پورا زور خرچ کرنے کے لئے آمادہ رہے ہیں تو اب اہل ایمان کو ان کی بدسلوکی اور فساد سے تنگدل نہ ہونا چاہئے جس طرح کفار نے اپنے بڑوں کا طریقہ کفر وعناد اور انبیاء کی مخالفت کا اختیار کیا اسی طرح مؤمنین صالحین کو چاہئے کہ وہ اپنے بزرگوں کا یعنی انبیاء (علیہم السلام) کا وظیفہ اختیار کریں کہ ان لوگوں کی ایذاؤں اور مخالفتوں پر صبر کریں اور حکمت وموعظت اور نرمی کے ساتھ ان کو دین حق کی طرف بلاتے رہیں اور شاید اسی مناسبت سے اگلی آیت میں مسلمانوں کو مصائب وآفات پر تحمل اور صبر کی تلقین کی گئی ہے۔
كَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ٠ ۣ فَبَعَثَ اللہُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ٠ ۠ وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ ٠ ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْہِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْہُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ ٠ ۚ فَہَدَى اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْہِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِہٖ ٠ ۭ وَاللہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ ٢١٣- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ - بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سدفھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
قول باری ہے (کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبیین ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلاف رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے) اس کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے کہ تمام لوگ کفر کے طریقے پر تھے اگرچہ ان کے مذاہب مختلف تھے اور یہ ممکن ہے کہ ا ن میں مسلمان بھی ہوں اگرچہ ان کی تعداد تھوڑی تھی، اس صورت حال کے تحت کافروں کی جماعت پر امت کے لفظ کا اطلاق درست ہوگیا اس لئے کہ ایک لفظ کا اطلاق اکثریت اور عمومیت کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ ضحاک اور قتادہ کا قول ہے کہ پہلے تما م لوگ حق کے راستے پر ایک امت تھے لیکن پھر ان میں اختلافات پیدا ہوگئے۔- قول باری ہے (فھدی اللہ الذین امنوا لما اختلفوا فیہ من الحق باذنہ ۔ پس جو لوگ ایمان لائے انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا)- عبداللہ بن طائوس نے اپنے والد طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (نحن الاخزون السابقون یوم القیامہ بیدان کل امۃ اوتوا الکتاب قبلنا واوتیناہ من بعدھم فھذ ایومھم الذی اختلفوا فیہ فھدانا اللہ لہ و للیھود غد و انصاری بعد غد ہم دنیا میں سب سے آخر میں آئے لیکن قیاتم میں سب سے آگے ہوں گے۔ البتہ ہر امت کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد کتاب ملی۔ یہی وہ دن ہے جس کے متعلق انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق ہمیں سیدھی راہ دکھائی یہود کے لئے آنے والا کل اور نصاریٰ کے لئے آنے والا پرسوں ہے۔ )- اعمش نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے لیکن اس میں ایک لفظ یہ ہے (یوم لجمعتہ لناوغداللیھود و بعد غد للنصاری جمعے کا دن ہمارے لئے، ہفتے کا دن یہودیوں کے لئے اور اتوار کا دن عیسائیوں کے لئے ہے۔ )- اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ قول باری (فھدی اللہ الذین امنوا لما اختلفوا فیہ) سے مراد جمعہ کا دن ہے ۔ لیکن عموم لفظ حق کی ان تمام صورتوں کا متقاضی ہے جن کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دی۔ یوم جمعہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ او اللہ اعلم بالصواب
(٢١٣) انسان حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایک ملت یعنی کفر پر قائم تھے اور یہ بھی تفسیر کی گئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں مسلمان تھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایسے انبیاء کرام کو بھیجا جو مومنین کو جنت کی خوشخبری سنانے والے اور کافروں کو دوزخ کے عذاب سے ڈراتے اور ان پر جبریل امین کے ذریعے ایسی کتاب کو بھی نازل کیا گیا جو حق اور باطل کو بیان کرنے والی تھی تاکہ ہر ایک نبی دینی مسائل میں اپنی کتاب کے ذریعے سے فیصلہ کرسکے تاکہ وہ کتاب آپس میں فیصلہ کرسکے اور اگر (آیت) ” لیحکم “۔ لتحکم، تاء کے ساتھ پڑھا جائے تو اس سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارک مراد ہوگی، دین اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اہل کتاب ہی کی بناء پر اختلاف اور انکار کیا ہے، باوجود اس کے کہ ان کی کتابوں میں اس کے متعلق واضح نشانیاں بیان کی جاچکی تھیں، دین حق میں اختلاف کرنے سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذریعے مومنین کو حق بات کی ہدایت عطا فرمائی۔- یعنی دین میں اختلاف کرنے اور حق کو باطل کے ساتھ ملانے سے اللہ تعالیٰ نے مومنین کی انبیاء کرام کے ذریعے اپنے حکم و ارادہ سے حفاظت فرمائی جو اس چیز کا اہل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اس کو دین پر استقامت دیتا ہے۔
آیت ٢١٣ (کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف) - اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں سب کے سب انسان ایک ہی امت تھے۔ تمام انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم ( علیہ السلام) نبی ہیں۔ چناچہ امت تو ایک ہی تھی۔ جب تک ان میں گمراہی پیدا نہیں ہوئی ‘ اختلافات پیدا نہیں ہوئے ‘ شیطان نے کچھ لوگوں کو نہیں ورغلایا ‘ اس وقت تک تو تمام انسان ایک ہی امت تھے۔ اب یہاں پر ایک لفظ محذوف ہے : ثُمَّ اخْتَلَفُوْا (پھر ان میں اختلافات ہوئے) ۔ اختلاف کے نتیجے میں فساد پیدا ہوا اور کچھ لوگوں نے گمراہی کی روش اختیار کرلی۔ آدم ( علیہ السلام) کا ایک بیٹا اگر ہابیل تھا تو دوسرا قابیل بھی تھا۔- (فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَص) ۔ - اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا سلسلہ جاری فرمایا جو نیکوکاروں کو بشارت دیتے تھے اور غلط کاروں کو خبردار کرتے تھے۔- (وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ط) (وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ الاَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ ج) - بَغْیًا کا لفظ قبل ازیں آیت ٩٠ میں آچکا ہے۔ وہاں میں نے وضاحت کی تھی کہ دین میں اختلاف کا اصل سبب یہی ضدمّ ضدا والا رویہّ ہوتا ہے۔ انسان میں غالب ہونے کی جو طلب اور امنگ ( ) موجود ہے وہ حق کو قبول کرنے میں مزاحم ہوجاتی ہے۔ دوسرے کی بات ماننا نفس انسانی پر بہت گراں گزرتا ہے۔ آدمی کہتا ہے میں اس کی بات کیوں مانوں ‘ یہ میری کیوں نہ مانے ؟ انسان کے اندر جہاں اچھے میلانات رکھے گئے ہیں وہاں بری امنگیں اور میلانات بھی رکھے گئے ہیں۔ چناچہ انسان کے باطن میں حق و باطل کی ایک کشاکش چلتی ہے۔ اسی طرح کی کشاکش خارج میں بھی چلتی ہے۔ تو فرمایا کہ جب انسانوں میں اختلافات رونما ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو بھیجا جو مبشر اور منذر بن کر آئے۔ ُ ّ - (فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہٖ ط) (وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ )- سلسلۂ انبیاء و رسل کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن حکیم نازل فرما کر ‘ اپنی توفیق سے ‘ اس نزاع و اختلاف میں حق کی راہ اہل ایمان پر کھولی ہے۔ اور اللہ ہی ہے جو اپنی مشیتّ اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق جس کو چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔- اب بڑی سخت آیت آرہی ہے ‘ جو بڑی لرزا دینے والی آیت ہے۔ صحابہ کرام (رض) میں سے ایک بڑی تعداد مہاجرین کی تھی جو مکہ کی سختیاں جھیل کر آئے تھے۔ ان کے لیے تو اب جو بھی مراحل آئندہ آنے والے تھے وہ بھی کوئی ایسے مشکل نہیں تھے۔ لیکن جو حضرات مدینہ منورہ میں ایمان لائے تھے ‘ یعنی انصار ‘ ان کے لیے تو یہ نئی نئی بات تھی۔ اس لیے کہ انہوں نے تو وہ سختیاں نہیں جھیلی تھیں جو مکہ میں مہاجرین نے جھیلی تھیں۔ تو اب روئے سخن خاص طور پر ان سے ہے ‘ اگرچہ خطاب عام ہے۔ قرآن مجید میں یہ اسلوب عام طور پر ملتا ہے کہ الفاظ عام ہیں ‘ لیکن روئے سخن کسی خاص طبقہ کی طرف ہے۔ تو درحقیقت یہاں انصار کو بتایا جا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا پھولوں کی سیج نہیں ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :230 ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بنیاد پر ”مذہب“ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی ، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا ۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے ۔ اس کے بعد ایک مدت تک نسل آدم راہ راست پر قائم رہی اور ایک امت بنی رہی ۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے ۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی ، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات ، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم ، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے ۔ اسی خرابی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو مبعوث کرنا شروع کیا ۔ یہ انبیا علیہم السلام اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی امت بنالے ۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہ حق کو واضح کر کے انہیں پھر سے ایک امت بنا دیں ۔