نفلی خیرات مقاتل فرماتے ہیں یہ آیت نفلی خیرات کے بارے میں ہے ، سدی کہتے ہیں اسے آیت زکوٰۃ نے منسوخ کر دیا ۔ لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے ، مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے نبی لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کس طرح خرچ کریں تم انہیں کہدو کہ ان لوگوں سے سلوک کریں جن کا بیان ہوا ۔ حدیث میں ہے کہ اپنی ماں سے سلوک کر اور اپنے باپ اور اپنی بہن سے اور اپنے بھائی سے پھر اور قریبی اور قریبی لوگوں سے یہ حدیث بیان فرما کر حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کیا اور فرمایا یہ ہیں جن کے ساتھ مالی سلوک کیا جائے اور ان پر مال خرچ کیا جائے نہ کہ طبلوں باجوں تصویروں اور دیواروں پر کپڑا چسپاں کرنے میں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تم جو بھی نیک کام کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اور وہ اس پر بہترین بدلہ عطا فرمائے گا وہ ذرے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔
215۔ 1 بعض صحابہ کرام کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کئے جا رہے ہیں یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس لئے معلوم ہوا کہ نفاق کا یہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے زکوٰۃ سے متعلق نہیں کیونکہ ماں باپ پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے کہ اس میں کراہت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔
[٢٧٤] یعنی اسکا پندار نفس یا انا اسے غرور وتکبر ہی کی راہ دکھلاتا ہے اور متکبرین کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا۔ جنت کہنے لگی، پروردگار میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں تو وہی لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے اور دوزخ کہنے لگی کہ مجھ میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں متکبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری کتاب التوحید، باب ماجاء فی قول اللہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) - اور ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون ؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے سچا کر دے اور دوزخی ہر موٹا، بدمزاج اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب قول اللہ تعالیٰ اقسموا باللہ جھد ایمانہم)
پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے حیات دنیا کے مزین کیے جانے کا ذکر فرمایا، بنی اسرائیل کے باہمی اختلاف کا باعث بھی حسد، ضد اور سرکشی بیان فرمایا، جو عموماً مال سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس پر صحابہ کرام (رض) کے سوال کا ذکر فرمایا کہ وہ (اس فتنے سے بچنے کے لیے ) کیا خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی دیا اور یہ بھی بتادیا کہ کہاں خرچ کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ خرچ کرنے کی جگہیں بھی بتائی جائیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ صفراء (گرمی) کا کوئی مریض کسی مہربان طبیب سے پوچھے کہ میں شہد پی لوں تو وہ جواب میں کہے، پی لو، مگر سرکہ ملا کر، کیونکہ سرکہ اس کی گرمی کو کم کر دے گا۔ ان کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ” تم خیر میں سے جو بھی خرچ کرو “ یعنی جو چاہو خرچ کرو، مگر وہ مال حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو، کیونکہ حرام کو خیر نہیں کہہ سکتے۔ (طنطاوی)- خرچ کرنے کی جگہوں میں سے سب سے پہلے والدین کا ذکر کیا، تاکہ ان کے جنم دینے اور پرورش کرنے کا کچھ حق ادا ہوجائے، پھر زیادہ قرابت والے، تاکہ قرابت اور رشتہ داری کا حق ادا ہو، پھر یتامیٰ ، کیونکہ وہ مہربان باپ کے سائے سے محروم ہوچکے ہیں، پھر مساکین، ان کے فقر و احتیاج کی وجہ سے، پھر مسافر، کیونکہ وہ اپنے شہر سے دور ہونے کی وجہ سے ایک طرح سے محتاج ہیں۔ رازی نے فرمایا، خرچ کرنے کی جگہوں میں یہ ترتیب ہی صحیح ترتیب ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے بعد خلاصہ بیان فرمایا کہ تم خیر میں سے جو عمل بھی کرو گے تو بیشک اللہ تعالیٰ اسے خوب جاننے والا ہے۔ اس میں وہ کام اور وہ جگہیں بھی آگئیں جن کا یہاں ذکر نہیں ہوا، مثلاً سائلین اور غارمین وغیرہ، بشرطیکہ وہ کام اور وہ جگہیں خیر ہوں، کیونکہ غلط جگہ خرچ کرنا فعل خیر نہیں۔ میمون بن مہران اس آیت کو پڑھ کر کہنے لگے کہ یہ ہیں مسلمان کے خرچ کرنے کی جگہیں، ان میں طبلہ، سارنگی، لکڑی کی تصویروں اور گھر کی آرائش کا ذکر نہیں ہے۔ (ابن کثیر)- اس آیت میں زکوٰۃ کے علاوہ خرچ کا ذکر ہے جو نفل ہو، یا بعض اوقات فرض، کیونکہ ماں باپ کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (٦٠) ۔- ایک روایت میں یہ سوال کرنے والا عمرو بن جموح کو بتایا گیا ہے، مگر وہ روایت موضوع ہے، اس میں کلبی اور ابو صالح متہم بالکذب ہیں۔ (الاستیعاب فی بیان الاسباب)
خلاصہ تفسیر :- بارہواں حکم صدقہ کے مصارف :- لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (ثواب کے واسطے) کیا چیز خرچ کیا کریں (اور کس موقع پر صرف کیا کریں) آپ فرما دیجئے کہ جو مال تم کو صرف کرنا ہو سو (اس کی تعیین تو تمہاری ہمت پر ہے مگر ہاں موقع ہم بتلائے دیتے ہیں کہ) ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں اور بےباپ کے بچوں کا اور محتاجوں کا اور مسافر کا اور جونسا نیک کام کرو گے (خواہ راہ خدا میں خرچ کرنا ہو یا اور کچھ ہو) سو اللہ تعالیٰ کو اس کی خوب خبر ہے (وہ اس پر ثواب دیں گے) - معارف و مسائل : - اس سے پہلی آیتوں میں مجموعی حیثیت سے یہ مضمون بہت تاکید کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ کفر ونفاق کو چھوڑو اور اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ حکم الہیٰ کے مقابل میں کسی کی بات مت سنو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جان اور مال خرچ کیا کرو اور ہر طرح کی شدت اور تکلیف پر تحمل کرو اب یہاں سے اسی اطاعت و فرمانبرداری اور اللہ کی راہ میں جان ومال خرچ کرنے کے متعلق کچھ جزئیات کی تفصیل بیان ہوتی ہے جو کہ مال اور جان اور دیگر معاملات مثل نکاح و طلاق وغیرہ کے متعلق ہیں اور اوپر سے جو سلسلہ احکام ابواب البر کا جاری ہے اس میں داخل ہیں اور ان جزئیات کا بیان بھی ایک خاص نوعیت رکھتا ہے کہ اکثر ان میں سے وہ ہیں جن کے متعلق صحابہ کرام (رض) اجمعین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا ان کے استفتاء اور سوالات کا جواب براہ راست عرش رحمٰن سے بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیا گیا اس کو اگر یوں سمجھا جائے کہ حق تعالیٰ نے خود فتویٰ دیا تو یہ بھی صحیح ہے اور قرآن کریم کی آیت قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ (١٢٧: ٤) میں صراحۃ حق تعالیٰ نے فتویٰ دینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، اس لئے اس نسبت میں کوئی استبعاد بھی نہیں۔- اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ فتاوٰی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہیں جو آپ کو بذریعہ وحی تلقین کئے گئے ہیں بہرحال اس رکوع میں جو احکام شرعیہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کے چند سوالات کے جواب میں بیان ہوئے ہیں وہ ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں پورے قرآن میں اس طرح سوال و جواب کے انداز سے خاص احکام تقریباً سترہ جگہ میں آئے ہیں جن میں سے سات تو اسی جگہ سورة بقرہ میں ہیں ایک سورة مائدہ میں ایک سورة انفال میں، یہ نو سوالات تو صحابہ کرام کی طرف سے ہیں سورة اعراف میں دو اور سورة بنی اسرائیل، سورة کہف، سورة طٰہ، سورة نازعات میں ایک ایک، یہ کل چھ سوال کفار کی طرف سے ہیں جن کا جواب قرآن میں جواب کے عنوان سے دیا گیا ہے۔- مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی جماعت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام سے بہتر نہیں دیکھی کہ دین کے ساتھ انتہائی شغف اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انتہائی محبت وتعلق کے باوجود انہوں نے سوالات بہت کم کئے کل تیرہ مسائل میں سوال کیا ہے جن کا جواب قرآن میں دیا گیا ہے کیونکہ یہ حضرات بےضرورت سوال نہ کرتے تھے (قرطبی) - متذکرہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں صحابہ کرام (رض) اجمعین کا استفتاء یعنی سوال ان الفاظ سے نقل فرمایا گیا ہے يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ یعنی لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں یہی سوال اس رکوع میں تین آیتوں کے بعد پھر انہی الفاظ کے ساتھ دہرایا گیا وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ لیکن اس ایک ہی سوال کا جواب آیت متذکرہ میں کچھ اور دیا گیا ہے اور تین آیتوں کے بعد آنے والے سوال کا جواب اور ہے۔- اس لئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک ہی سوال کے دو مختلف جواب کس حکمت پر مبنی ہیں یہ حکمت ان حالات و واقعات میں غور کرنے سے واضح ہوجاتی ہے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں مثلا آیت متذکرہ کا شان نزول یہ ہے کہ عمرو بن جموح نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا تھا کہ ما ننفق من اموالنا واین نضعھا۔ (اخرجہ ابن المنذر مظہری) یعنی ہم اپنے اموال میں سے کیا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں اور ابن جریر کی روایت کے موافق یہ سوال تنہا عمرو ابن جموح کا نہیں تھا بلکہ عام مسلمانوں کا سوال تھا اس سوال کے دو جزو ہیں ایک یہ کہ مال میں سے کیا اور کتنا خرچ کریں دوسرے یہ کہ اس کا مصرف کیا ہو کن لوگوں کو دیں۔- اور دوسری آیت جو دو آیتوں کے بعد اسی سوال پر مشتمل ہے اس کا شان نزول بروایت ابن ابی حاتم یہ ہے کہ جب قرآن میں مسلمانوں کو اس کا حکم دیا گیا کہ اپنے مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں تو چند صحابہ کرام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ انفاق فی سبیل اللہ کا جو حکم ہمیں ملا ہے ہم اس کی وضاحت چاہتے ہیں کہ کیا مال اور کونسی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کیا کریں اس سوال میں صرف ایک ہی جزء ہے یعنی کیا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں کا سوال تھا اور دوسرے میں صرف کیا خرچ کریں کا سوال ہے اور پہلے سوال کے جواب میں جو کچھ قرآن میں ارشاد فرمایا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سوال کے دوسرے جزء کو یعنی کہاں خرچ کریں زیادہ اہمیت دے کر اس کا جواب تو صریح طور پر دیا گیا اور پہلے جزء یعنی کیا خرچ کریں کا جواب ضمنی طور پر دے دینا کافی سمجھا گیا اب الفاظ قرآنی میں دونوں اجزاء پر نظر فرمائیں، پہلے جز یعنی کہاں خرچ کریں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے، قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ یعنی جو کچھ بھی تم کو اللہ کے لئے خرچ کرنا ہو اس کے مستحق ماں باپ اور رشتہ دار اور بےباپ کے بچے اور مساکین اور مسافر ہیں۔- اور دوسرے جزء یعنی کیا خرچ کریں کا جواب ضمنی طور پر ان الفاظ سے دیا گیا وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ یعنی تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کی خوب خبر ہے، اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر کوئی تحدید اور پابندی نہیں کہ مال کی اتنی ہی مقدار صرف کرو بلکہ جو کچھ بھی اپنی استطاعت کے موافق خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا اجر وثواب پاؤ گے۔- الغرض پہلی آیت میں شاید سوال کرنے والوں کے پیش نظر زیادہ اہمیت اسی سوال کی ہو کہ ہم جو مال خرچ کریں اس کا مصرف کیا ہو کہاں خرچ کریں، اسی لئے اس کے جواب میں اہمیت کے ساتھ مصارف بیان فرمائے گئے، اور کیا خرچ کریں اس سوال کا جواب ضمنی طور پر دے دینا کافی سمجھا گیا، اور بعد والی آیت میں سوال صرف اتنا ہی تھا کہ ہم کیا چیز اور کیا مال خرچ کریں اس لئے اس کا جواب ارشاد ہوا قُلِ الْعَفْوَ یعنی آپ فرمادیں کہ جو کچھ بچے اپنی ضرورت سے وہ خرچ کیا کریں ان دونوں آیتوں سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے کے متعلق چند ہدایات و مسائل معلوم ہوئے۔- مسئلہ : اول یہ کہ دونوں آیتیں زکوٰۃ فرض کے متعلق نہیں کیونکہ زکوۃٰ فرض کے لئے تو نصاب مال بھی مقرر ہے اور اس میں جتنی مقدار خرچ کرنا فرض ہے وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ پوری طرح متعین ومقرر فرمادی گئی ہے ان دونوں آیتوں میں نہ کسی نصاب مال کی قید ہے نہ خرچ کرنے کی مقدار بتلائی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں آیتیں صدقات نافلہ کے متعلق ہیں اس سے یہ شبہ بھی رفع ہوگیا کہ پہلی آیت میں خرچ کا مصرف والدین کو بھی قرار دیا گیا ہے حالانکہ ماں باپ کو زکوٰۃ دینا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم کے مطابق جائز نہیں کیونکہ ان آیتوں کا تعلق فریضہ زکوٰۃ سے ہے ہی نہیں۔- مسئلہ : دوسری ہدایت اس آیت سے یہ حاصل ہوئی کہ ماں باپ اور دوسرے اعزاء و اقرباء کو جو کچھ بطور ہدیہ دیا یا کھلایا جاتا ہے اگر اس میں بھی اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے کی نیت ہو تو وہ بھی موجب اجر وثواب اور انفاق فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔- مسئلہ : تیسری ہدایت یہ حاصل ہوئی کہ نفلی صدقات میں اس کی رعایت ضروری ہے کہ جو مال اپنی ضروریات سے زائد ہو وہی خرچ کیا جائے اپنے اہل و عیال کو تنگی میں ڈال کر اور ان کے حقوق کو تلف کرکے خرچ کرنا ثواب نہیں اسی طرح جس کے ذمہ کسی کا قرض ہے قرض خواہ کو ادا نہ کرے اور نفلی صدقات و خیرات میں اڑائے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نہیں پھر ضرورت سے زائد مال کے خرچ کرنے کا جو ارشاد اس آیت میں ہے اس کو حضرت ابوذر غفاری اور بعض دوسرے حضرات نے حکم وجوبی قرار دیا کہ اپنی ضروریات سے زائد جو کچھ ہے سب کا صدقہ کردینا واجب ہے مگر جمہور صحابہ کرام وتابعین اور ائمہ دین اس پر ہیں کہ ارشاد قرآنی کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو وہ ضروریات سے زائد ہونا چاہئے یہ نہیں کہ ضرورت سے زائد جو کچھ ہو اس کو صدقہ کردینا ضروری یا واجب ہے صحابہ کرام کے تعامل سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ٠ۥۭ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ٠ ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ ٢١٥- ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملي چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
خرچ کی ابتداء کس سے کی جائے - قول باری ہے (لیسئلونک ماذا ینفقون قل ما انفقتم من خیر خلق الدین و الاقربین والیتامی والمساکین و ابن السبیل، وما تفعلوا من خیر فان اللہ بہ علیم۔ لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں۔ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہوگا۔ ) ۔ سوال کے ذریعے خرچ کی مقدار پوچھی گئی ہے اور جواب میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے خواہ اس کی مقدار تھوڑی ہو یا بہت۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ کن لوگوں پر خرچ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل ماانفقتم من خیر یہ فقرہ قلیل اور کثیر دونوں کو شامل ہے اس لئے کہ خیر کا لفظ انفاق یعنی خرچ کی ان تمام صورتوں کو شامل ہے جو رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ پھر یہ بتادیا کہ کن لوگوں پر خرچ کیا جائے فللوالدین ولاقربین یعنی والدین اور رشتہ دار اور وہ تمام لوگ جن کا اس آیت میں ذکرہوا ہے لیکن والدین اور رشتے داران دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ حق دار ہیں جو قرابت اور تنگدستی میں ان کے ہم پلہ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں مال کے اس حصے کی نشاندہی فرما دی ہے جس میں سے خرچ کرنا واجب ہے۔- قول باری ہے ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو۔ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں کہو جو کچھ ضرورت سے زیادہ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جو کچھ تمہارے اہل و عیال کے خرچ سے بچ جائے۔ قتادہ کا قول ہے کہ العفو سے مراد الفضل ہے یعنی بچ رہنے والا۔- اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ انسان کی اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات سے جو بچ رہے اس سے نفقہ کیا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کے بھی یہی معنی ہیں خیرالصدقۃ ماکان عن ظھر غنی بہترین صدقہ وہ ہے جو غنی یعنی فراخی کی حالت کی موجودگی میں کیا جائے۔ ایک اور روایت میں ہے خیرالصدقۃ ماایقت غنی وابدا بمن تعول۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو فراخی کو باقی رہنے دے اور خرچ کی ابتدا اس سے کرو جس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری تم پر ہے۔ ان احادیث میں مندرجہ مضمون اس قول باری کے مطابق ہے ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے الیدالعلیاخیرمن الیدالسفلی وابداء بمن تعول امک وابوک اختک ماخوک دادناک فادناک۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ خرچ کی ابتدا ان لوگوں سے کرو جن کے نان و نفقہ کی ذمہ داری تم پر ہے۔ یعنی تمہاری ماں، تمہارا باپ، تمہاری بہن، تمہارا بھائی اور تمہارا قریبی اور اس کے بعد کا قریبی اور اسی طرح آگے تک۔ ثغلبہ بن زہدم اور طارق نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ یہ حدیث اس آیت کے معنی پر دلالت کر رہی ہے کہ قل ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین۔ اس سے مراد یہ ہے کہ زیادہ قریبی کو مقدم کیا جائے پھر اس کے بعد کے قریبی کو اور اسی طرح آگے تک۔ حسن بصری سے روایت ہے کہ آیت زکوۃ اور تطوع یعنی خیرات و صدقات سب کے متعلق ہے۔ اس کا حکم باقی ہے اور یہ منسوخ نہیں ہوئی۔ سدی کا قول ہے کہ یہ آیت زکوۃ کی فرضیت کے ساتھ منسوخ ہوگئی ہے۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی بلکہ یہ زکواۃ یعنی فرض اور تطوع دونوں کو عام ہے۔ جہاں تک فرض یعنی زکواۃ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں والدین اور ولد نیچے تک مراد نہیں ہیں اس لئے کہ انہیں زکواۃ دینے کے متعلق دلیل موجود ہے۔ رہ گیا تطوع یعنی نفلی اخراجات تو یہ سب کے لئے عام ہے۔ پھر جب ہمارے لئے فرضیت زکواۃ کے باوجود ان دونوں صورتوں پر عمل ممکن ہے تو اس آیت پر منسوخ ہونے کا حکم لگانا درست نہیں ہے۔ یہی حکم تمام آیات کا ہے کہ جب ان کے احکام پر کسی ایک کی منسوخیت کے اثبات کے بغیر عمل کرنا ممکن ہو تو اسی صورت میں ہمارے لئے جائز نہیں ہوگا کہ کسی پر نسخ کا حکم لگا دیں۔ آیت سے یہ مراد لینے میں بھی کوئی امتناع نہیں کہ والدین اور رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے جبکہ وہ محتاج ہوں اور خرچ کرنے والا خوشحال ہو۔ اس لئے کہ لفظ قل العفو کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ ایک شخص پر اس کے زائد مال میں نفقہ واجب ہے۔ جب وہ اور اس کے اہل و عیال محتاج ہوں گے تو اس کے پاس زائد کوئی مال نہیں بچے گا اس لئے اس پر نفقہ واجب نہیں ہوگا۔ اس آیت کی کئی اور معانی پر بھی دلالت ہو رہی ہے۔ ایک یہ کہ جو شخص تھوڑا یا بہت خرچ کرے گا وہ اللہ کے ہاں ثواب کا مستحق ہوگا بشرطیکہ اس کا مقصد رضائے الٰہی ہو۔ اس میں نفلی صدقات اور فرض سب شامل ہیں۔ دوسرا یہ کہ زیادہ قریبی اپنی اپنی ترتیب کے لحاظ سے اس نفقہ کے زیادہ حق دار ہیں۔- اس لئے کہ قول باری ہے فللوالدین والاقربین۔ اس کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس سلسلے میں وضاحت موجود ہے۔ آپ نے فرمایا ابداء بمن تعول امک و اباک واختک واخاک وادناک فادناک۔ اس میں والدین اور رشتہ داروں کی کفالت کے وجوب پر بھی دلالت ہو رہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس پر مساکین اور مسافروں اور ان تمام کی کفالت بھی واجب ہے جن کا ذکر آیت میں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر آیت تو اسی کا تقاضا کرتا ہے لیکن ہم نے اس نفقہ سے ان کی تخصیص کردی ہے جس کے اقارب مستحق ہیں اور یہ تخصیص ہم نے اور دلیل کی بنا پر کی ہے۔ یہ لوگ زکواۃ اور نفلی طور پر کئے جانے والے اخراجات میں داخل ہیں۔ ہمیں عبدالباتی بن القانع نے، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں محمد بن البکر نے، انہیں سفیان نے مزاحم بن زفر سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا ” ایک دینار تم اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہو، ایک مسکین کو دیتے ہو، ایک غلام آزاد کرانے کی خاطر خرچ کرتے ہو اور ایک تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔ ان میں سے سب سے زیادہ اس دینار کے خرچ کرنے کا ثواب ملے گا جو تم اپنے اہل و عیال پر صرف کرتے ہو “۔ یہی روایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً بھی بیان ہوئی ہے ہمیں عبدالباتی نے، انہیں محمد بن یحییٰ المروزی نے، انہیں عاصم بن علی نے، انہیں المسعودی نے مزاحم بن زفر سے ، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی۔- ہمیں عبدالباقی نے، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے، انہیں محمد بن کثیر نے، انہیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے، انہوں نے عبداللہ بن زید سے، انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے، آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ ان المسلم اذا نفق نفقۃ علی اھلہ کانت لہ صدقۃ جب کوئی مسلمان اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے تو یہ نفقہ اس کے لئے صدقہ بن جاتا ہے۔ یہ تمام روایات قول باری ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو۔ کے مضمون سے مطابقت رکھتی ہیں۔ آیت میں لفظ العفو سے مراد کے متعلق اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد فراخی سے زائد مال حسن اور عطا بن ابی رباح کا قول ہے کہ اسراف کے بغیر میانہ روی۔ مجاہد کا قول ہے اس سے مراد مفروض صدقہ ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ جب العفو کا معنیٰ جو کچھ بچ رہے، کے ہیں تو اس سے زکواۃ بھی مراد لینا جائز ہے اس لئے کہ زکواۃ اسی مال پر واجب ہوتی ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور جس سے فراخی حاصل ہوتی ہو یہی صورتحال تمام واجب صدقات کی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس سے نفلی صدقات مراد ہوں۔ اس صورت میں اس حکم کے ضمن میں اپنی ذات، اپنے اہل و عیال اور اپنے اقارب پر خرچ کرنے کی تمام صورتیں آجائیں گی۔ اس کے بعد جو بچ رہے اسے غیروں میں صرف کر دے۔ اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فقیر پر صدقہ فطر اور دوسرے تمام صدقات واجب نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بچ رہنے والے اور فراخی سے زائد مال کو خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔
(٢١٥) یہ سوال میراث کی آیتوں کے اترانے سے پہلے کا ہے یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے پوچھتے ہیں کہ صدقہ کسے دیں آپ فرما دیجعے کہ اپنا مال، والدین اور رشتہ داروں (مگر اس کے بعد میراث کی آیت سے والدین کو صدقہ دینا منسوخ ہوگیا) یتیموں، مسکینوں اور نووارد لوگوں پر خرچ کرو اور تم جو کچھ ان لوگوں پر خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کو اور تمہاری نیتوں کو خوب جاننے والا ہے اور تمہیں اس کا بدلہ دینے والا ہے۔- شان نزول : یسئلونک ماذا ینفقون “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے ابن جریج (رض) سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم اپنا مال کہاں کرچ کریں، اس پر یہ آیت مبارکہ اتری اور ابن منذر (رح) نے ابوحبان (رح) سے روایت کیا ہے کہ عمرو بن جموع (رض) نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم اپنا مال کس طرح خرچ کریں اس پر یہ آیت اتری۔
آیت ٢١٥ (یَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط) - یعنی انفاق کے لیے جو کہا جا رہا ہے تو ہم کیا خرچ کریں ؟ کتنا خرچ کریں ؟ انسان بھلائی کے لیے جو بھی خرچ کرے تو اس میں سب سے پہلا حق کن کا ہے ؟- (قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ) - (فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط) - سب سے پہلا حق والدین کا ہے ‘ اس کے بعد درجہ بدرجہ قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔- (وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ) - تم جو بھی اچھا کام کرو گے تو جان لو کہ وہ اللہ کے علم میں ہے۔ ضرورت نہیں ہے کہ دنیا اس سے واقف ہو ‘ تمہیں اگر اللہ سے اجر لینا ہے تو وہ تورات کے اندھیرے میں بھی دیکھ رہا ہے۔ اگر تمہارے دائیں ہاتھ نے دیا ہے اور بائیں کو پتا نہیں چلا تو اللہ کو تو پھر بھی پتا چل گیا ہے۔ تو تم خاطر جمع رکھو ‘ تمہاری ہر نیکی اللہ کے علم میں ہے اور وہ اسے ضائع نہیں کرے گا۔ - اب اگلی آیت میں قتال کے مضمون کا تسلسل ہے۔ میں نے سورة البقرۃ کے نصف آخر کے مضامین کو چار مختلف رنگوں کی لڑیوں سے تشبیہہ دی تھی ‘ جن کو باہم بٹ لیا جائے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آتے ہیں اور اگر انہیں کھول دیا جائے تو ہر رنگ مسلسل نظر آتا ہے۔