Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جہاد بقائے ملت کا بنیادی اصول دشمنان اسلام سے دین اسلام کے بچاؤ کے لئے جہاد کی فرضیت کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے زہری فرماتے ہیں جہاد ہر شخص پر فرض ہے ، خواہ لڑائی میں نکلے خواہ بیٹھا رہے سب کا فرض ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں جب ان سے فریاد کی جائے یہ فریاد رسی کریں جب انہیں میدان میں بلایا جائے یہ نکل کھڑے ہوں صحیح حدیث شریف میں ہے جو شخص مر جائے اور اس نے نہ تو جہاد کیا ہو نہ اپنے دل میں جہاد کی بات چیت کی ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور حدیث میں ہے ، فتح مکہ کے بعد ہجرت تو نہیں رہی لیکن جہاد اور نیت موجود ہے اور جب تم سے جہاد کے لئے نکلنے کو کہا جائے تو نکل کھڑے ہو یہ حکم آپ نے مکہ کی فتح کے دن فرمایا تھا ۔ پھر فرمایا ہے حکم جہاد گو تم پر بھاری پڑے گا اور اس میں تمہیں مشقت اور تکلیف نظر آئے گی ممکن ہے قتل بھی کئے جاؤ ممکن ہے زخمی ہو جاؤ پھر سفر کی تکلیف دشمنوں کی یورش کا مقابلہ ہو لیکن سمجھو تو ممکن ہے تم برا جانو اور ہو تمہارے لئے اچھا کیونکہ اسی سے تمہارا غلبہ اور دشمن کی پامالی ہے ان کے مال ان کے ملک بلکہ ان کے بال بچے تک بھی تمہارے قدموں میں گر پڑیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لئے اچھا جانو اور وہ ہی تمہارے لئے برا ہو عموما ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک چیز کو چاہتا ہے لیکن فی الواقع نہ اس میں مصلحت ہوتی ہے نہ خیروبرکت اسی طرح گو تم جہاد نہ کرنے میں اچھائی سمجھو دراصل وہ تمہارے لئے زبردست برائی ہے کیونکہ اس سے دشمن تم پر غالب آجائے گا اور دنیا میں قدم ٹکانے کو بھی تمہیں جگہ نہ ملے گی ، تمام کاموں کے انجام کا علم محض پروردگار عالم ہی کو ہے وہ جانتا ہے کہ کونسا کام تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے اچھا ہے اور کونسا برا ہے ، وہ اسی کام کا حکم دیتا ہے جس میں تمہارے لئے دونوں جہان کی بہتری ہو تم اس کے احکام دل وجان سے قبول کر لیا کرو اور اس کے ہر ہر حکم کو کشادہ پیشانی سے مان لیا کرو اسی میں تمہاری بھلائی اور عمدگی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

216۔ 1 جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو چاہے تمہیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے اس لئے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے ہوسکتا ہے اس میں تمہارے لئے بہتری ہو جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح اور غلبہ، عزت اور سر بلندی اور مال و اسباب مل سکتا ہے اسی طرح تم جس کو پسند کرو (یعنی جہاد کے بجائے گھر میں بیٹھے رہنا) اس کا نتیجہ تمہارے لئے خطرناک ہوسکتا ہے یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨٥] مکی دور میں بعض جوشیلے مسلمان جہاد کی اجازت مانگتے رہے مگر انہیں جہاد کی بجائے صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور یہاں مدینہ میں آ کر جب اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی اور جہاد فرض کیا گیا تو بعض مسلمانوں نے اسے دشوار سمجھا۔ کیونکہ ہر معاشرہ میں تمام آدمی ایک ہی جیسے نہیں ہوتے، بعض جوشیلے، دلیر اور جوان بہت ہوتے ہیں تو بعض بوڑھے کمزور اور کم ہمت بھی ہوتے ہیں۔ یہ خطاب اسی دوسری قسم کے لوگوں سے ہے اور انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ جو چیز تمہیں بری معلوم ہوتی ہے، ہوسکتا ہے وہ فی الحقیقت بری نہ ہو، بلکہ تمہارے حق میں بہت مفید ہو اور اس کے برعکس بھی معاملہ ہوسکتا ہے اور بالخصوص یہ بات جہاد کے سلسلہ میں اس لیے کہی گئی کہ قتال سے ہر انسان کی طبیعت طبعاً نفرت کرتی ہے کیونکہ زندگی سے پیار ہر جاندار کی فطرت میں طبعاً داخل ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاد میں جان و مال کا نقصان ہوگا۔ حالانکہ یہی جہاد کسی قوم کی روح رواں ہوتی ہے۔ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں جہاد کو بہت افضل عمل قرار دیا گیا ہے اور بعض لوگ تو اسے اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ جہاد کو فرض کفایہ کی بجائے فرض عین سمجھنے لگے ہیں اور اسے اسلام کا چھٹا رکن سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا انداز فکر درست نہیں۔ جہاد افضل الاعمال ہونے کے باوجود نہ فرض عین ہے اور نہ اسلام کا چھٹا رکن (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة نساء کی آیت نمبر ٩٦ اور سورة توبہ کی آیت نمبر ٩٢ کے حواشی)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كُرْهٌ“ یہ مصدر بمعنی ” کَرَاہِیَۃٌ“ ہے۔ مصدر کو اسم مفعول ” مَکْرُوْہٌ“ کی جگہ مبالغہ کے لیے لایا گیا ہے، جیسا کہ ” زَیْدٌ عَدْلٌ“ ” زید سراپا عدل ہے۔ “ تو یہاں ” كُرْهٌ“ کا معنی ہوگا ” سراسر ناپسند ہے۔ “ ” كُتِب “ یہ وہی ” كُتِب “ ہے جو اس سے پہلے قصاص، وصیت اور صیام کے لیے آیا ہے۔ - پچھلی آیت میں مال خرچ کرنے کی ترغیب کے بعد اب جان خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ ” الْقِتَالُ “ سے ہر لڑائی مراد نہیں، بلکہ عہد کا الف لام ہونے کی وجہ سے خاص یعنی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لڑائی ہے۔ - ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ وہ جہاد کریں اور دشمنوں سے اسلام کا دفاع کریں۔ امام زہری نے فرمایا، جہاد ہر ایک پر واجب ہے، خواہ لڑائی میں نکلے یا بیٹھا رہے، بیٹھنے والوں پر لازم ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں، جب ان سے فریاد کی جائے، فریاد کو پہنچیں، جب انھیں میدان میں بلایا جائے نکل کھڑے ہوں۔ (ابن کثیر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص اس حال میں مرجائے کہ اس نے نہ جنگ کی اور نہ اپنے نفس کے ساتھ جنگ کی بات کی، تو وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب ذم من مات ۔۔ : ١٩١٠، - عن أبی ہریرۃ (رض) ]- جہاد یعنی اللہ کا دین غالب کرنے کے لیے اپنی آخری کوشش کرتے رہنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن نفیر یعنی لڑائی کے لیے نکلنا ہر وقت ہر مسلمان پر فرض نہیں۔ (دیکھیے توبہ (١٢٢) البتہ تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ تین مواقع پر قتال آدمی پر فرض عین ہوجاتا ہے : 1 جب امام کسی خاص شخص کو یا تمام مسلمانوں کو نکلنے کا حکم دے دے، الایہ کہ امام کسی کو مستثنیٰ کر دے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک میں سب کو نکلنے کا حکم دیا مگر علی (رض) کو پیچھے رہنے کا حکم دیا۔ (مسلم : ٣١؍٢٤٠٤) اس کی دلیل سورة توبہ کی آیات (٣٨، ٣٩) ہیں۔ 2 جب کفار مسلمانوں کی کسی آبادی پر حملہ کردیں تو اس کے رہنے والوں پر اس کا دفاع واجب ہے۔ (دیکھیے بقرہ : ١٩١) اس حد تک کہ اگر ان کے پاس کافی اسلحہ نہ بھی ہو تو پتھروں، اینٹوں، لکڑیوں غرض جو کچھ بھی ملے اس کے ذریعے سے لڑنا فرض ہے۔ اگر دانتوں سے کاٹ کھانے کے سوا کچھ نہ ملے تو دانتوں سے کاٹ کر اپنا دفاع واجب ہے۔ اگر اس آبادی والے دفاع نہ کرسکیں یا سستی کریں تو قریب والی آبادی، پھر اس کے بعد والی پر، حتیٰ کہ تمام دنیا کے اہل اسلام پر لڑنا فرض ہوجاتا ہے، کیونکہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔ 3 جب دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو ثابت قدم رہنا واجب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ ) [ الأنفال : ١٥ ] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، ایک لشکر کی صورت میں ملو تو ان سے پیٹھیں نہ پھیرو۔ “ حافظ ابن حجر نے فرمایا : ” جب کسی شخص پر لڑائی فرض عین ہوجائے تو ” فَلاَ إِِذْنَ “ یعنی اس وقت والدین یا کسی اور سے اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔ “ [ فتح الباری، الجہاد والسیر، باب الجہاد بإذن الأبوین ] اس بات پر بھی علماء کا اتفاق ہے کہ اپنے دفاع کی خاطر لڑنے کے لیے کوئی بھی شرط لازم نہیں، نہ امیر کا حکم، نہ والدین کی اجازت اور نہ کوئی اور شرط، جیسا کہ ابو بصیر (رض) کا واقعہ اس کی واضح دلیل ہے۔ - وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ یعنی وہ تمہیں سراسر ناپسند ہے، کیونکہ اس میں زخمی ہونے، اعضاء کٹنے اور جان جانے کا سامنا ہوتا ہے، جب کہ ہر آدمی فطری طور پر زندہ رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں مال کا خرچ، اہل و عیال اور وطن سے جدائی، سفری صعوبتیں، کھانے پینے اور نیند کی بےترتیبی، غرض بیشمار مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ - وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ) قرطبی (رض) نے فرمایا : ” معنی یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ تم جہاد میں جو مشقت ہے اسے ناپسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے، اس لیے کہ تم غالب رہو گے، فتح یاب ہو گے، غنیمت حاصل کرو گے اور اجر پاؤ گے اور تم میں سے جو فوت ہوگا وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ تم آرام طلبی اور لڑائی ترک کرنے کو پسند کرو، حالانکہ یہ چیز تمہارے لیے بہت بری ہے، کیونکہ تم مغلوب ہوجاؤ گے اور تمہاری حکومت ختم ہوجائے گی۔ “ قرطبی (رض) مزید فرماتے ہیں : ” اللہ کا یہ فرمان بالکل صحیح ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، جیسا کہ اندلس میں پیش آیا، انھوں نے جہاد ترک کیا، لڑائی سے بزدلی اختیار کی اور کثرت سے فرار اختیار کیا تو دشمن تمام شہروں پر قابض ہوگیا۔ شہر بھی کیسے کیسے اور کیا کیا اسیری ؟ قتل، بچوں اور عورتوں کی غلامی اور عزتوں کی بربادی۔ ( إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ) یہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں کا کیا کمایا ہے۔ “ (قرطبی)- قرطبی کے کئی سو سال پہلے لکھے ہوئے یہ الفاظ آج بھی حقیقت ہیں، جن سے دل درد و غم سے بھرجاتا ہے، اس وقت اندلس سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا تھا، اب مسلمانوں کی آرام طلبی اور ترک جہاد نے کفار کو عراق، افغانستان پر قبضے کا اور باقی تمام مسلمان ممالک میں اپنے احکام چلانے کا موقع دیا ہے اور ہند اور اندلس کی طرح مسلمانوں کا وجود ختم کرنے کے در پے ہیں۔ اب آرام طلبی اور ترک جہاد کا کون سا موقع ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ قتال کی کڑوی دوا کے سوا مسلمانوں کی شفا کی کوئی صورت نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- تیرہواں حکم فرضیت جہاد :- جہاد کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعا) گراں (معلوم ہوتا) ہے اور یہ بات ممکن ہے کہ تم کسی بات کو گراں سمجھو اور (واقع میں) وہ تمہارے حق میں خیر (اور مصلحت) ہو اور یہ (بھی) ممکن ہے کہ تم کسی امر کو مرغوب سمجھو اور (واقع میں) وہ تمہارے حق میں (باعث) خرابی کا ہو اور (ہر شے کی حقیقت حال کو) اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم (پورا پورا) نہیں جانتے (اچھے برے کا فیصلہ اپنی خواہش کی بنیاد نہ کرو جو کچھ اللہ کا حکم ہوجائے اسی کو اجمالا مصلحت سمجھ کر اس پر کار بند رہا کرو) - چودہواں حکم تحقیق قتال در شہر حرام :- (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چند صحابہ کرام (رض) اجمعین کا ایک سفر میں اتفاق سے کفار کے ساتھ مقابلہ ہوگیا ایک کافر ان کے ہاتھ سے مارا گیا اور جس روز یہ قصہ ہوا رجب کی پہلی تاریخ تھی مگر صحابہ کرام اس کو جمادی الاخریٰ کی تیس سمجھتے تھے اور رجب اشہر حرم میں سے ہے کفار نے اس واقعہ پر طعن کیا کہ مسلمانوں نے شہر حرام کی حرمت کا بھی خیال نہیں کیا مسلمانوں کو اس کی فکر ہوئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اور بعض روایات میں ہے کہ خود بعض کفار قریش نے بھی حاضر ہو کر اعتراضا سوال کیا اس کا جواب ارشاد ہوتا ہے ) ۔- لوگ آپ سے شہر حرام میں قتال کرنے کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ اس میں خاص طور) یعنی عمدا) قتال کرنا جرم عظیم ہے (مگر مسلمانوں سے یہ فعل بالقصد صادر نہیں ہوا بلکہ تاریخ کی تحقیق نہ ہونے کے سبب غلطی سے ایسا ہوگیا یہ تو تحقیقی جواب ہے) اور (الزامی جواب یہ ہے کہ کفار و مشرکین کا تو کسی طرح منہ ہی نہیں مسلمانوں پر اعتراض کرنے کا، کیونکہ اگرچہ شہر حرام میں لڑنا جرم عظیم لیکن ان کفار کی جو حرکتیں ہیں یعنی) اللہ تعالیٰ کی راہ (دین) سے (لوگوں کو) روک ٹوک کرنا (یعنی مسلمان ہونے پر تکلیفیں پہنچانا کہ ڈر کے مارے لوگ مسلمان نہ ہوں) اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی کعبہ) کے ساتھ کفر کرنا (کہ وہاں بہت سے بت رکھ چھوڑے تھے اور بجائے خدا کی عبادت کے ان کی عبادت اور طواف کرتے تھے) اور جو لوگ مسجد حرام کے اہل تھے (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے مؤ منین) ان کو (تنگ اور پریشان کرکے) اس (مسجد حرام) سے خارج (ہونے پر مجبور) کردینا (جس سے نوبت ہجرت یعنی ترک وطن کی پہنچی سو یہ حرکتیں شہر حرام میں قتال کرنے سے بھی زیادہ) جرم عظیم ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (کیونکہ یہ حرکتیں دین حق کے اندر فتنہ پردازی کرنا) اور (ایسی) فتنہ پردازی کرنا (اس) قتل (خاص) سے (جو مسلمانوں سے صادر ہوا) بدرجہا (قباحت میں) بڑھ کر ہے (کیونکہ اس قتل سے دین حق کو تو کوئی مضرت نہیں پہنچی بہت سے بہت اگر کوئی جان کر کرے خود ہی گنہگار ہوگا اور ان حرکتوں سے تو دین حق کو ضرر پہنچتا ہے کہ اس کی ترقی رکتی ہے) اور یہ کفار تمہارے ساتھ ہمیشہ جنگ (وجدال کا سلسلہ جاری ہی) رکھیں گے اس غرض سے کہ اگر (خدا نہ کرے) قابو پاویں تو تم کو تمہارے دین (اسلام) سے پھیر دیں (ان کے اس فعل سے دین کی مزاحمت ظاہر ہے) - انجام ارتداد :- اور جو شخص تم میں سے اپنے دین (اسلام) سے پھر جاوے پھر کافر ہی ہونے کی حالت میں مرجاوے تو ایسے لوگوں کے (نیک) اعمال دنیا اور آخرت میں سب غارت ہوجاتے ہیں (اور) یہ لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔- شہر حرام میں قتال کرنے کے بارے میں مسلمانوں کو جواب مذکور سن کر گناہ نہ ہونے کا تو اطمینان ہوگیا تھا مگر اس خیال سے دل شکستہ تھے کہ ثواب تو ہوا ہی نہ ہوگا آگے اس میں تسلی کی گئی۔- وعدہ ثواب پر اخلاص نیت :- حقیقۃ جو لوگ ایمان لائے ہوں اور جن لوگوں نے راہ خدا میں ترک وطن کیا ہو اور جہاد کیا ہو ایسے لوگ تو رحمت خداوندی کے امیدوار ہوا کرتے ہیں (اور تم لوگوں میں یہ صفات علی سبیل منع الخلو موجود ہیں، چناچہ ایمان اور ہجرت تو ظاہر ہے رہا اس جہاد خاص میں شبہ ہوسکتا ہے، سو چونکہ تمہاری نیت تو جہاد ہی کی تھی لہذا ہمارے نزدیک وہ بھی جہاد ہی میں شمار ہے پھر ان صفات کے ہوتے ہوئے تم کیوں ناامید ہوتے ہو) اور اللہ تعالیٰ (اس غلطی کو) معاف کردیں گے (اور ایمان و جہاد و ہجرت کی وجہ سے تم پر) رحمت کریں گے۔- معارف و مسائل : - بعض احکام جہاد :- مسئلہ : مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں جہاد کے فرض ہونے کا حکم ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَال یعنی تم پر جہاد فرض کیا گیا ان الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاد ہر مسلمان پر ہر حالت میں فرض ہے، بعض آیات قرآنی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریضہ فرض عین کے طور پر ہر ہر مسلم پر عائد نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اس فرض کو ادا کردے تو باقی مسلمان سبکدوش سمجھے جائیں گے ہاں کسی زمانہ یا کسی ملک میں کوئی جماعت بھی فریضہ جہاد ادا کرنے والی نہ رہے تو سب مسلمان ترک فرض کے گنہگار ہوجائیں گے، حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد الجہاد ماض الیٰ یوم القیامۃ کا یہ مطلب ہے کہ قیامت تک ایسی جماعت کا موجود رہنا ضروری ہے جو فریضہ جہاد ادا کرتی رہے قرآن مجید کی دوسری آیت میں ارشاد ہے :- فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَةً ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰي (٩٥: ٤) یعنی اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو تارکین جہاد پر فضیلت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے دونوں سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے،- اس میں ایسے لوگوں سے جو کسی عذر کے سبب یا کسی دوسری دینی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوں ان سے بھی بھلائی کا وعدہ مذکور ہے ظاہر ہے کہ اگر جہاد ہر فرد مسلم پر فرض عین ہوتا تو اس کے چھوڑنے والوں سے وعدہ حسنیٰ یعنی بھلائی کا وعدہ ہونے کی صورت نہ تھی۔- اسی طرح ایک دوسری آیت میں ہے :- فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ (١٢٢: ٩) اور کیوں نہ نکل کھڑی ہوئی تمہاری ہر بڑی جماعت میں سے چھوٹی جماعت اس کام کے لئے کہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں۔- اس میں خود قرآن کریم نے یہ تقسیم عمل پیش فرمائی کہ کچھ مسلمان جہاد کا کام کریں اور کچھ تعلیم دین میں مشغول رہیں اور یہ جبھی ہوسکتا ہے جبکہ جہاد فرض عین نہ ہو بلکہ فرض کفایہ ہو۔ - نیز صحیح بخاری ومسلم کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرکت جہاد کی اجازت چاہی تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جاؤ ماں باپ کی خدمت کرکے جہاد کا ثواب حاصل کرو اس سے بھی یہ معلوم ہوا کہ جہاد فرض کفایہ ہے جب مسلمانوں کی ایک جماعت فریضہ جہاد کو قائم کئے ہوئے ہو تو باقی مسلمان دوسری خدمتوں اور کاموں میں لگ سکتے ہیں ہاں اگر کسی وقت امام المسلمین ضرورت سمجھ کر نفیر عام کا حکم دے اور سب مسلمانوں کو شرکت جہاد کی دعوت دے تو پھر جہاد سب پر فرض عین ہوجاتا ہے قرآن کریم نے سورة توبہ میں ارشاد فرمایا :- يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ (٣٨: ٩) اے مسلمانو تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم بوجھل بن جاتے ہو۔ - اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے اسی طرح اگر خدانخواستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہوں اور مدافعت کرنے والی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر اور کافی نہ ہو تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہوجاتا ہے اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو ان کے پاس والے مسلمانوں پر، یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے جمہور فقہا ومحدثین نے یہ حکم دیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔- مسئلہ : اسی لئے جب تک جہاد فرض کفایہ ہو اولاد کو بغیر ماں باپ کی اجازت کے جہاد میں جانا جائز نہیں۔- مسئلہ : جس شخص کے ذمہ کسی کا قرض ہو اس کے لئے جب تک قرض ادا نہ کردے اس فرض کفایہ میں حصہ لینا درست نہیں ہاں اگر کسی وقت نفیر عام کے سبب یا کفار کے نرغہ کے باعث جہاد سب پر فرض عین ہوجائے تو اس وقت نہ والدین کی اجازت شرط ہے نہ شوہر کی اور نہ قرض خواہ کی اس آیت کے آخر میں جہاد کی ترغیب کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ جہاد اگرچہ طبعی طور پر تمہیں بھاری معلوم ہو لیکن خوب یاد رکھو کہ انسانی بصیرت ودانشمندی اور تدبیر و محنت عواقب و نتائج کے بارے میں بکثرت فیل ہوتی ہے کسی مفید کو مضر یا مضر کو مفید سمجھ لینا بڑے سے بڑے ہوشیار عقلمند سے بھی مستبعد نہیں ہر انسان اگر اپنی عمر میں پیش آنے والے وقائع پر نظر ڈالے تو اپنی ہی زندگی میں اس کو بہت سے واقعات ایسے نظر پڑیں گے کہ وہ کسی چیز کو نہایت مفید سمجھ کر حاصل کر رہے تھے اور انجام کار یہ معلوم ہوا کہ وہ انتہائی مضر تھی یا کسی چیز کو نہایت مضر سمجھ کر اس سے اجتناب کر رہے تھے، اور انجام کار یہ معلوم ہوا کہ وہ نہایت مفید تھی، انسانی عقل و تدبیر کی رسوائی اس معاملہ میں بکثرت مشاہدہ میں آتی رہتی ہے۔- خویش را دیدم و رسوائی خویش - اس لئے فرمایا کہ جہاد و قتال میں اگرچہ بظاہر مال اور جان کا نقصان نظر آتا ہے لیکن جب حقائق سامنے آئیں گے تو کھلے گا کہ یہ نقصان ہرگز نقصان نہ تھا بلکہ سراسر نفع اور دائمی راحت کا سامان تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَكُرْہٌ لَّكُمْ۝ ٠ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝ ٠ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَشَرٌّ لَّكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝ ٢١٦ ۧ- كتب ( فرض)- ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي - [ المجادلة 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] - نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] - ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے کتب علیکم القتال وھوکرہ لکم تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ آیت کے الفاظ قتال کی فرضیت پر دلالت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ کتب علیکم کے معنی فرض علیکم کے ہیں یعنی تم پر جنگ فرض کردی گئی ہے جس طرح کہ روزے کے سلسلے میں فرمایا گیا کہ کتب علیکم الصیام۔ آیت میں مذکورہ القتال میں الف لام یا تو معہود کے لئے ہے جس سے مخاطبین آگاہ ہیں یا معہود کے لئے نہیں بلکہ ہم جنس کے لئے ہے اس لئے کہ اسم نکرہ پر داخل ہونے والے الف لام یا تو معہود کے لئے ہوتے ہیں یا جنس کے لئے۔ اگر اس سے مراد وہ جنگ ہے جس کا مخاطبین کو علم ہے تو یہ کلام اسی کی طرف راجع ہوگا جس طرح کہ قول باری ہے وقاتلوا المشرکین کا نۃ کما یقاتلونکم کافۃ۔ تم اسی طرح تمام مشرکوں سے جنگ کرو جس طرح وہ تم سے جنگ کرتے ہیں۔- یا یہ قول باری ہے ولاتقاتلوھم عندالمسجد الحرام حتی یقاتلوکم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم۔ ان سے مسجد حرام کے قریب جنگ نہ کرو جب تک کہ وہ یہاں تم سے جنگ نہ کریں اگر وہ تم سے جنگ کریں تو انہیں قتل کرو اگر الف لام سے مراد معہود ہے تو اس میں جنگ کا حکم ایک خاص حالت کے تحت ہوگا اور وہ یہ کہ ہم مشرکین سے اسی وقت جنگ کریں جب وہ ہم سے جنگ کریں۔ اس صورت میں یہ کلام ایسے معہود پر مبنی ہوگا جس کا حکم معلوم ہے اور تاکید کے طور پرا س کے ذکر کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اگر الف لام کسی معہود کے لئے نہیں ہے تو لامحالہ یہ کلام ایسے مجمل کی طرف راجع ہے جس کے بیان اور تفصیل کی ضرورت ہے۔ وہ اس طرح کہ اس حکم کے ورود کے وقت یہ بات معلوم تھی کہ الہ نے ہمیں تمام لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا اس لئے کلام میں عموم کا اعتقاد رکھنا درست نہیں ہوا، اور جس حکم میں عموم کا اعتقاد نہ رکھا جاسکے وہ مجمل ہوتا ہے اور اسے بیان اور وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے۔- ہم عنقریب جہاد کی فرضیت کے متعلق اہل علم کے اختلاف کو بیان کریں گے۔ نیز جہاد کی کیفیت کے بارے میں بھی وضاحت کریں گے۔ جب ہم آیت یقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم۔ پر پہنچیں گے۔ قول باری وھوکرہ لکم کے معنی ہیں کہ یہ تمہیں ناپسند ہے یہاں مصدر کو اسم مفعول کے قائم مقام کردیا گیا ہے۔ جیسے آپ کہتے ہیں کہ فلان رضی اس کے معنی یہ ہیں کہ فلان مرضی (فلاں پسندیدہ ہے)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢١٦) تم پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عام کوچ کرنے میں جہاد فرض کیا گیا ہے اور یہ تم پر بہت گراں تھا اور تم اسے گراں سمجھتے ہو، مگر درحقیقت یہ تمہارے لیے بہتر ہے، تمہیں اس کی وجہ سے شہادت اور مال غنیمت ملے گا اور جہاد نہ کرنے سے شہادت حاصل ہوتی ہے اور نہ مال غنیمت، اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ جہاد کرنا تمہارے لیے بہتر اور جہاد نہ کرنا تمہارے لیے برا ہے یہ آیت حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) اور مقداد بن اسود (رض) اور ان کے ساتھیوں کے متعلق اتری ہے۔- حضرت عبداللہ بن جحش (رض) اور ان کے ساتھیوں نے عمرو بن حضرمی کو جمادی الثانی کو شام کو رجب کا چاند نظر آنے سے پہلے قتل کردیا تھا کفار نے انہیں اس پر برا بھلا کہا، انہوں شہر حرام میں قتال کرنے کے بارے میں دریافت کیا، اس پر یہ آیت کریمہ اتری۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٦ (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ج) - واضح رہے کہ سورة البقرۃ سے پہلے سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نازل ہوچکی تھی اور اس میں قتال کی فرضیتّ آچکی تھی۔ (چنانچہ اس کا ایک نام سورة القتال بھی ہے۔ ) لہٰذا اس حوالے سے کچھ لوگ پریشان ہو رہے تھے۔ خاص طور پر منافقین یہ کہتے تھے کہ بھائی صلح جوئی سے کام لو ‘ بس دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لاؤ ‘ یہ جنگ وجدال اور لڑائی بھڑائی تو کوئی اچھا کام نہیں ہے ‘ اس میں تو بہت خرابی ہے۔ ان کے علاوہ ایسے مسلمان جن کا ایمان قدرے کمزور تھا ‘ اگرچہ وہ منافق تو نہیں تھے ‘ لیکن ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا ‘ ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے اور تربیت کے مراحل سے ابھی نہیں گزرے تھے ‘ ان میں سے بھی بعض لوگوں کے دلوں میں انقباض پیدا ہو رہا تھا۔ یہاں قتال کی فرضیتّ کے لیے کُتِبَ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ روزے ‘ قصاص اور وصیت کے ضمن میں آچکا ہے۔ (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ ۔۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی۔۔ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ اج الْوَصِیَّۃُ ۔۔ ) فرمایا کہ تم پر جنگ فرض کردی گئی ہے اور وہ تمہیں بری لگ رہی ہے۔ - (وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّکُمْ ج ) (وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط) (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ) ۔ - تم اپنی عقل پر ایمان نہ رکھو ‘ اللہ کی وحی پر ایمان رکھو ‘ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھو۔ جس وقت کے لیے جو حکم موزوں تھا وہی تمہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دیا گیا۔ چودہ برس تک تمہیں قتال سے منع کیا گیا۔ اس وقت تمہارے لیے حکم تھا : کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ (اپنے ہاتھ روکے رکھو ) اب تم پر قتال فرض کیا جا رہا ہے ‘ لہٰذا اب اس حکم پر سر تسلیم خم کرنا تمہارے لیے لازم ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani