Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرمی کا قتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جماعت کو بھیجا اور اس کا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بنایا جب وہ جانے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدائی کے صدمہ سے رو دئیے آپ نے انہیں روک لیا اور ان کے بدلے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو سردار لشکر مقرر کیا اور انہیں ایک خط لکھ کر دیا اور فرمایا کہ جب تک بطن نخلہ نہ پہنچو اس خط کو نہ پڑھنا اور وہاں پہنچ کر جب اس مضمون کو دیکھو تو ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا چنانچہ حضرت عبداللہ اس مختصر سی جماعت کو لے کر چلے جب اس مقام پر پہنچے تو فرمان نبی پڑھا اور کہا میں فرمانبرداری کے لئے تیار ہوں پھر اپنے ساتھیوں کو پڑھ کر سنایا اور واقعہ بیان کیا دو شخص تو لوٹ گئے لیکن اور سب ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہو گئے آگے چل کر ابن الحضرمی کافر کو انہوں نے پایا چونکہ یہ علم نہ تھا کہ جمادی الاخری کا یہ آخری دن ہے یا رجب کا پہلا دن ہے انہوں نے اس لشکر پر حملہ کر دیا ابن الحضرمی مارا گیا اور صحابہ کی یہ جماعت وہاں واپس ہوئی اب مشرکین نے مسلمانوں پر اعتراض کرنا شروع کیا کہ دیکھو انہوں نے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی اور قتل بھی کیا اس بارے میں یہ آیت اتری ( ابن ابی حاتم ) ایک اور روایت میں ہے کہ اس جماعت میں حضرت عمار بن یاسر ، حضرت ابو حذیفہ بن عبتہ بن ربیعہ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عتبہ بن غزوان سلمی ، حضرت سہیل بن بیضاء ، حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت واقد بن عبداللہ یربوعی رضی اللہ عنہم تھے ۔ بطن نخلہ پہنچ کر حضرت عبداللہ بن جحش نے صاف فرما دیا تھا کہ جو شخص شہادت کا آرزو مند ہو وہی آگے بڑے یہاں سے واپس جانے والے حضرت سعد بن ابی وقاص اور عتبہ رضی اللہ عنہما تھے ان کے ساتھ نہ جانے کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ ان کا اونٹ گم ہو گیا تھا جس کے ڈھونڈنے میں وہ رہ گئے ، ۔ مشرکین میں حکم بن کیسان ، عثمان بن عبداللہ وغیرہ تھے ۔ حضرت واقد کے ہاتھوں عمرو قتل ہوا اور یہ جماعت مال غنیمت لے کر لوٹی ۔ یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمان صحابہ کو ملی اور یہ جانباز جماعت دو قیدیوں کو اور مال غنیمت لے کر واپس آئی مشرکین مکہ نے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنا چاہا ( یہاں اصل عربی میں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے ) اور انہوں نے اعتراضا کہا کہ دیکھو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار ہیں لیکن حرمت والے مہینوں کی کوئی حرمت نہیں کرتے اور ماہ رجب میں جدال وقتال کرتے ہیں ، مسلمان کہتے تھے کہ ہم نے رجب میں قتل نہیں کیا بلکہ جمادی الاخری میں لڑائی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ رجب کی پہی رات اور جمادی الاخری کی آخری شب تھی رجب شروع ہوتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میان میں ہو گئی تھیں ، مشرکین کے اس اعتراض کا جواب اس آیت میں دیا جا رہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ان مہینوں میں جنگ حرام ہے لیکن اے مشرکوں تمہاری بداعمالیاں تو برائی میں اس سے بھی بڑھ کر ہیں ، تم اللہ کا انکار کرتے ہو تم میرے نبی اور ان کے ساتھیوں کو میری مسجد سے روکتے ہو تم نے انہیں وہاں سے نکال دیا پس اپنی ان سیاہ کاریوں پر نظر ڈالو کہ یہ کس قدر بدترین کام ہیں ، انہی حرمت والے مہینوں میں ہی مشرکین نے مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے روکا تھا اور وہ مجبورا واپس ہوئے تھے اگلے سال اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینوں میں ہی مکہ کو اپنے نبی کے ہاتھ فتح کروایا ۔ انہیں ان آیتوں میں لاجواب کیا گیا عمرو بن الحضرمی جو قتل کیا گیا یہ طائف سے مکہ کو آ رہا تھا ، گو رجب کا چاند چرھ چکا تھا لیکن صحابہ کو معلوم نہ تھا وہ اس رات کو جمادی الاخری کی آخری رات جانتے تھے ، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن جحش کے ساتھ آٹھ آدمی تھے سات تو وہی جن کے نام اوپر بیان ہوئے آٹھویں حضرت رباب اسدی رضی اللہ عنہ تھے انہیں بدر اولیٰ سے واپسی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا تھا یہ سب مہاجر صحابہ تھے ان میں ایک بھی انصاری نہ تھا دو دن چل کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس نامہ مبارک کو پڑھا جس میں تحریر تھا کہ میرے اس حکم نامہ کو پڑھ کر مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں جاؤ وہاں ٹھہرو اور قریش کے قافلہ کا انتظار کرو اور ان کی خبریں معلوم کر کے مجھے پہنچاؤ یہ بزرگ یہاں سے چلے تو سب ہی چلے تھے دو صحابی جو اونٹ کو ڈھونڈنے کے لئے رہ گئے تھے وہ بھی یہاں سے ساتھ ہی تھے لیکن فرغ کے اوپر معدن پر پہنچ کر نجران میں انہیں اونٹوں کی تلاش میں رک جانا پڑا ، قریشیوں کے اس قافلہ میں زیتون وغیرہ تجارتی مال تھا مشرکین میں علاوہ ان لوگوں کے جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں نوفل بن عبداللہ وغیرہ بھی تھے مسلمان اول تو انہیں دیکھ کر گھبرائے لیکن پھر مشورہ کر کے مسلمانوں نے حملہ یہ سوچ کر کیا کہ اگر انہیں چھوڑ دیا تو اس رات کے بعد حرمت کا مہینہ آجائے گا تو ہم پھر کچھ بھی نہ کر سکیں گے انہوں نے شجاعت ومردانگی کے ساتھ حملہ کیا حضرت واقد بن عبداللہ تمیمی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حضرمی کو ایسا تاک کر تیر لگایا کہ اس کا تو فیصلہ ہی ہو گیا عثمان اور حکم کو قید کر لیا اور مال وغیرہ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے راستہ میں ہی سردار لشکر نے کہہ دیا تھا کہ اس مال میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے چنانچہ یہ حصہ تو الگ کر کے رکھ دیا گیا اور باقی مال صحابہ میں تقسیم کر دیا اور اب تک یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنا چاہئے ، جب یہ لشکر سرکار نبوی میں پہنچا تو آپ نے واقعہ سن کر ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کو کب کہا تھا نہ تو قافلہ کا کچھ مال آپ نے لیا نہ قیدیوں کو قبضہ میں کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول وفعل سے یہ مسلمان سخت نادم ہوئے اور اپنی گنہگاری کا انہیں یقین ہو گیا پھر اور مسلمانوں نے بھی انہیں کچھ کہنا سننا شروع کیا ادھر قریشیوں نے طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد اور آپ کے صحابہ حرمت والے مہینوں میں بھی جدال وقتال سے باز نہیں رہتے دوسری جانب یہودیوں نے ایک بدفالی نکالی چونکہ عمرو قتل کیا گیا تھا انہوں نے کہا عمرت الحرب لڑائی پر رونق اور خوب زوروشور سے لمبی مدت تک ہوگی اس کے باپ کا نام حضرمی تھا اس سے انہوں نے فال لی کہ حضرت الحرب وقت لڑائی آپہنچا ، قاتل کا نام واقد تھا جس سے انہوں نے کہا وقدت الحرب لڑائی کی آگ بھڑک اٹھی لیکن قدرت نے اسے برعکس کر دیا اور نتیجہ تمام تر مشرکین کے خلاف رہا اور ان کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر بالفرض جنگ حرمت والے مہینہ میں ہوئی بھی ہو تو اس سے بھی بدترین تمہاری سیاہ کاریاں موجود ہیں تمہارا یہ فتنہ کہ تم دین اللہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی اپنی تمام تر امکانی کوششیں کر رہے ہو یہ اس قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور تم نہ تو اپنے ان کاموں سے رکتے ہو نہ توبہ کرتے ہو نہ اس پر نادم ہوتے ہو ، ان آیات کے نازل ہونے کے بعد مسلمان اس رنج وافسوس نجات پائے ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قافلہ اور قیدیوں کو اپنے قبضہ میں لیا ، قریشیوں نے پھر آپ کے پاس قاصد بھیجا کہ ان دونوں قیدیوں کا فدیہ لے لیجئے مگر آپ نے فرمایا کہ میرے دونوں صحابی سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہما جب آجائیں تب آؤ مجھے ڈر ہے کہ تم انہیں ایذاء نہ پہنچاؤ چنانچہ جب وہ آگئے تو آپ نے فدیہ لے لیا اور دونوں قیدیوں کو رہا کر دیا حکم بن کیسان رضی اللہ عنہ تو مسلمان ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہی رہ گئے آخر بیر معونہ کی لڑائی میں شہید ہوئے ( رضی اللہ عنہ ) ہاں عثمان بن عبداللہ مکہ واپس گیا اور وہیں کفر میں ہی مرا ، ان غازیوں کو یہ آیت سن کر بڑی خوشی حاصل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے حرمت والے مہینوں کی بے ادبی کے سبب سے دوسرے صحابی کی چشمک کی بنا پر کفار کے طعنہ کے باعث جو رنج وغم ان کے دلوں پر تھا سب دور ہو گیا لیکن اب یہ فکر پڑی کہ ہمیں اخروی اجر بھی ملے گا یا نہیں ہم غازیوں میں بھی شمار ہوں گے یا نہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے گئے تو اس کے جواب میں یہ آیت ( ان الذین امنوا ) الخ ، نازل ہوئی اور ان کی بڑی بڑی امیدیں بندھ گئیں رضی اللہ عنہم اجمعین ، اسلام اور کفر کے مقابلہ میں کافروں میں سب سے پہلے یہی ابن الحضرمی مارا گیا ، کفار کا وفد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ کیا حرمت والے مہینوں میں قتل کرنا جائز ہے اور اس پر یہ آیت ( یسئلونک ) الخ ، نازل ہوئی یہی مال غنیمت تھا جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور سب سے پہلے پانچواں حصہ حضرت عبداللہ بن جحش نے ہی نکالا جو اسلام میں باقی رہا اور حکم الہ بھی اس طرح نازل ہوا اور یہی دو قیدی تھے جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے ، اس واقعہ کو ایک نظم میں بھی ادا کیا گیا ہے بعض تو کہتے ہیں کہ یہ اشعار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہیں لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اشعار عبداللہ بن جحش کے ہیں جو اس مختصر سے لشکر کے سردار تھے اللہ ان سے خوش ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

217۔ 1 رجب، ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے زمانہ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے جن میں قتال اور جدال ناپسندیدہ تھا اسلام نے بھی ان کی حرمت کو برقرار رکھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں رجب کے مہینے میں ایک کافر قتل ہوگیا اور بعض کافر قیدی بنا لئے گئے۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہوگیا ہے کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ دیکھو یہ حرمت والے مہینے کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقینا حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے لیکن حرمت کی دہائی دینے والوں کو اپنا عمل نظر نہیں آتا یہ خود اس سے بھی بڑے جرائم کے مرتکب ہیں یہ اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور وہاں سے مسلمانوں کو نکلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کفر و شرک خود قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اس لئے اگر مسلمانوں سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہوگیا تو کیا ہوا ؟ اس پر واویلہ کرنے کے بجائے ان کو اپنا سیاہ نامہ بھی تو دیکھ لینا چاہیئے۔ 217۔ 2 جب یہ لوگ اپنی شرارتوں، سازشوں اور تمہیں مرتد کی کوشش سے باز آنے والے نہیں تو پھر تم ان سے مقاتلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکے رہو۔ 217۔ 3 جو دین اسلام سے پھرجائے یعنی مرتد ہوجائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیاوی سزا قتل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے اور اس آیت میں اسکی اخروی سزا بیان کی جا رہی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کئے گئے اعمال صالحہ بھی کفر کی وجہ سے کالعدم ہوجائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح کفر سے تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبط اعمال اسی وقت ہوگا جب خاتمہ کفر پر ہوگا اگر موت سے پہلے تائب ہوجائے گا تو ایسا نہیں ہوگا یعنی مرتد کی توبہ قبول ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨٦] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ جمادی الثانی ٢ ھ کے آخر میں نخلہ کی طرف بھیجا (جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) تاکہ کفار مکہ کی نقل و حرکت کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ کیونکہ ان کی طرف سے مدینہ پر چڑھائی کا ہر آن خطرہ موجود تھا اس دستہ کو کفار کا ایک تجارتی قافلہ ملا۔ جس پر انہوں نے حملہ کردیا اور ایک آدمی کو قتل کردیا اور باقی لوگوں کو گرفتار کر کے مال سمیت مدینہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے جس کا آپ کو افسوس ہوا۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لڑنے کے لیے نہیں بھیجا تھا اور جس دن یہ لڑائی کا واقعہ ہوا اس دن مسلمانوں کے خیال کے مطابق تو ٣٠ جمادی الثانی تھا مگر حقیقتاً وہ دن یکم رجب ٢ ھ تھا۔ اب کفار مکہ اور یہود اور دوسرے اسلام دشمن لوگوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا کہ دیکھو کہ یہ لوگ جو بڑے اللہ والے بنتے ہیں۔ ماہ حرام میں بھی خونریزی سے نہیں چوکتے۔ اسی پروپیگنڈہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماہ حرام میں لڑنا فی الواقع بڑا گناہ ہے، مگر جو کام تم کر رہے ہو اور کرتے رہے ہو وہ تو اس گناہ سے بھی شدید جرائم ہیں۔ تم اسلام کی راہ میں روڑے اٹکاتے اور مسلمانوں کو ایذائیں دیتے ہو۔ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو۔ مسلمانوں کے مسجد میں داخلہ پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور تم نے مسلمانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں سے نکل جانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ سب جرائم ماہ حرام میں لڑائی کرنے سے بڑے جرائم ہیں۔ علاوہ ازیں جو فتنہ انگیزی کی مہم تم نے چلا رکھی ہے وہ تو قتل سے کئی گنا بڑا جرم ہے (یاد رہے کہ فتنہ سے یہاں مراد ایسی ہر قسم کی مزاحمت ہے جو ان لوگوں نے اسلام کی راہ روکنے کے لیے اختیار کر رکھی تھی) تمہیں اپنی آنکھ کا تو شہتیر بھی نظر نہیں آتا، اور مسلمانوں سے اگر غلط فہمی کی بنا پر یہ لڑائی ہوگئی تو تم نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔- [٢٨٧] یعنی ان معاندین اسلام کے نزدیک تمہارا اصل جرم یہ نہیں کہ تم نے ماہ حرام میں لڑائی کی ہے بلکہ یہ ہے کہ تم مسلمان کیوں ہوئے اور اب تک کیوں اس پر قائم ہو اور اس وقت تک مجرم ہی رہو گے جب تک یہ دین چھوڑ نہ دو اور حقیقتاً وہ یہی کچھ چاہتے ہیں، یہ تمہارے بدترین دشمن ہیں۔ لہذا ان سے ہشیار رہو۔ - [٢٨٨] یعنی جس طرح اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اسلام سے پھرجانے سے پہلے سے کی ہوئی تمام نیکیاں بھی برباد ہوجاتی ہیں۔ الا یہ کہ پھر توبہ کر کے مسلمان ہوجائے اور جب نیکیاں برباد ہوگئیں تو باقی صرف گناہ ہی گناہ ہوں گے، جس کا خمیازہ انہیں دائمی عذاب جہنم کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قِتَالٌ فِيْهِ : یہ ” الشَّهْرِ الْحَرَامِ “ سے بدل اشتمال ہے۔ ” قِتَالٌ“ مبتدا اور ” كَبِيْرٌ“ خبر ہے۔ ” صَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ مبتدا ہے، ” وَكُفْرٌۢ بِهٖ “ اور ” اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ “ کا اس پر عطف ہے اور ان سب کی خبر ” اَكْبَرُ عِنْدَ اللہ “ ہے اور ” وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ “ کا عطف ” سَبِيْلِ اللّٰهِ “ پر ہے اور ” وَكُفْرٌۢ بِهٖ “ میں ” بِهٖ “ کی ضمیر ” سَبِيْلِ اللّٰهِ “ میں مذکور لفظ ” اللّٰهِ “ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور ” الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ“ کو پہلے لانے کے بجائے ” َكُفْرٌۢ بِه “ کو پہلے لانے میں یہ حکمت ہے کہ سبیل اللہ (اسلام) سے روکنے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر مسجد حرام سے روکنے سے بڑا جرم ہے، اس لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔ - ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب یہ چار مہینے حرمت والے ہیں، عہد جاہلیت ہی سے ان میں لوٹ مار اور خون ریزی حرام سمجھی جاتی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ ٢ ھ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن جحش (رض) کی سرکردگی میں فوج کا ایک دستہ جہاد کے لیے روانہ کیا۔ انھوں نے کافروں کے ایک قافلے پر حملہ کیا، جس سے ان کا ایک آدمی مارا گیا اور بعض کو مال سمیت گرفتار کرکے مدینہ لے آئے۔ یہ واقعہ رجب ٢ ھ میں پیش آیا۔ کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ تم نے رجب میں جنگ کرکے اس حرمت کو توڑا ہے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ماہ حرام میں جنگ کرنا اگرچہ واقعی بہت بڑا ہے، مگر تم تو اس سے بھی بڑے گناہوں کا ارتکاب کر رہے ہو (جو یہ ہیں، اللہ کے راستے یعنی اسلام سے روکنا، اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام سے روکنا، مسجد حرام یعنی حرم مکہ میں رہنے والے صحابہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے نکالنا، اس کے علاوہ فتنہ یعنی کفر و شرک پر مسلمانوں کو مجبور کرنے کے لیے عذاب میں مبتلا کرنا قتل سے بھی بڑا جرم ہے) ۔ لہٰذا اگر مسلمانوں نے تلورا اٹھالی ہے تو قابل مؤاخذہ نہیں۔ (ابن کثیر، شوکانی) - حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی حرمت اکثر فقہاء کے نزدیک سورة توبہ کی آیت : (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ ) [ التوبۃ : ٥ ] کے ساتھ منسوخ ہوچکی ہے (الجصاص) مگر سورة توبہ ہی کی آیت : (اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا) [ التوبۃ : ٣٦ ] اس آیت میں ہے : ( مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ )” ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ “ پھر فرمایا : (فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ) [ التوبۃ : ٣٦ ] ” سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور کافروں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں۔ “ اور (اَلشَّهْرُ الْحَرَام بالشَّهْرِ الْحَرَامِ ) [ البقرۃ : ١٩٤ ] ” حرمت والا مہینا حرمت والے مہینے کے بدلے ہے “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت والے مہینوں میں لڑنے کی اجازت کا سبب یہ ہے کہ کفار چونکہ ان مہینوں میں بھی مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں، اس لیے مسلمانوں پر بھی ان مہینوں میں نہ لڑنے کی کوئی پابندی نہیں۔ اگر فی الواقع کفار ان مہینوں کی حرمت کی پاس داری کریں تو مسلمانوں کو بھی کرنی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخری حج کے خطبہ میں بھی ان مہینوں کی حرمت کا ذکر فرمایا۔ عطاء اور بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے اور یہی درست معلوم ہوتا ہے ۔- وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے آیت : ( وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ) [ البقرۃ : ١٩١ ]- اِنِ اسْتَطَاعُوْا : یہ اس بات کی بشارت ہے کہ کفار بیشمار لڑائیوں کے باوجود کبھی اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کہ تمام مسلمانوں کو دین سے مرتد کردیں۔ اسلام کو سربلند رکھنے والے کچھ لوگ ہمیشہ ان کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ دیکھیے سورة فتح کی آخری آیات اور سورة صف کی آیت (٨، ٩) - حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص (نعوذ باللہ) مرتد ہوجائے اور اسی حالت میں مرجائے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں، لیکن اگر پھر سچے دل سے تائب ہو کر اسلام قبول کرے تو مرتد ہونے سے پہلے کے اعمال ضائع نہیں جاتے بلکہ ان کا بھی ثواب مل جاتا ہے۔ ( فتح البیان)- اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے اور توبہ نہ کرے تو اس کی سزا قتل ہے، جو (حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ ) دنیا میں ان کے اعمال ضائع ہونے کا نتیجہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوْہُ ) [ بخاری، الجہاد، والسیر، باب لا یعذب بعذاب اللہ : ٣٠١٧ ] ” جو اپنا دین (اسلام) بدل لے اسے قتل کر دو ۔ “ اسلام کی وجہ سے دنیا میں حاصل جان و مال اور عزت کی حرمت، مرنے کے بعد جنازہ اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن، مسلمان بیوی کی زوجیت، وراثت غرض مسلمانوں والے تمام حقوق ارتداد کی وجہ سے ختم ہوجائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اشہر حرم میں قتال کا حکم :- آیات مذکورہ میں سے دوسری آیت اس پر شاہد ہے کہ اشہر حرم یعنی چار مہینے رجب، ذیقعدہ، ذی الحجۃ، محرم میں قتال حرام ہے اسی طرح قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں پوری تصریح کے ساتھ اشہر حرم میں قتال کی ممانعت آئی ہے، مثلاً مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ (اور حجۃ الوداع کے معروف و مشہور خطبہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منہا اربعۃ حرم ثلاث متوالیات ورجب مضر۔- ان آیات وروایات سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ چار مہینوں میں قتال حرام ہے اور یہ حرمت ہمیشہ کے لئے ہے۔- اور امام تفسیر عطاء بن ابی رباح قسم کھا کر فرماتے تھے کہ یہ حکم ہمیشہ کے لئے باقی ہے اور بھی متعدد حضرات تابعین اس حکم کو ثابت غیر منسوخ قرار دیتے ہیں مگر جمہور فقہاء کے نزدیک اور بقول جصاص عام فقہاء امصار کے مسلک پر یہ حکم منسوخ ہے اب کسی مہینہ میں قتال ممنوع نہیں۔- اب رہا یہ سوال کہ اس کا ناسخ کونسی آیت ہے اس میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں بعض نے فرمایا کہ آیت کریمہ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً (٣٦: ٩) اس کی ناسخ ہے اور اکثر حضرات نے آیت فاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ (٥: ٩) کو ناسخ قرار دیا ہے اور لفظ حیث کو اس جگہ زمانے کے معنی میں لیا ہے کہ مشرکین کو جس مہینہ اور جس زمانے میں پاؤ قتل کردو اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس حکم کا ناسخ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا عمل ہے کہ خود آپ نے طائف کا محاصرہ اشہر حرم میں فرمایا اور حضرت عامر اشعری کو اشہر حرم ہی میں اوطاس کے جہاد کے لئے بھیجا اسی بناء پر عامہ فقہاء اس حکم کو منسوخ قرار دیتے ہیں۔ جصاص نے فرمایا وھو قول فقہاء الامصار۔ روح المعانی نے اسی آیت کے تحت میں اور بیضاوی نے سورة براءت کے پہلے رکوع کی تفسیر مظہری میں مذکورہ تمام دلائل کا جواب یہ دیا ہے کہ اشہر حرم کی حرمت کی تصریح خود اس آیت میں موجود ہے جس کو آیۃ السیف کہا جاتا ہے یعنی اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ (٣٦: ٩) اور یہ آیت آیات قتال میں سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے اور خطبہ حجۃ الوداع میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے صرف اسی (80) روز پہلے ہوا ہے اس میں بھی اشہر حرم کی حرمت کی تصریح موجود ہے اس لئے آیات متذکرہ کو اس کا ناسخ نہیں کہا جاسکتا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا محاصرہ طائف ذوالقعدہ میں نہیں شوال میں ہوا ہے اس لئے اس کو بھی ناسخ نہیں کہہ سکتے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اشہر حرم میں قتال کی حرمت مطلقہ جو مذکورہ آیات سے معلوم ہوتی ہے اس میں سے وہ صورت مستثنیٰ کردی گئی ہے کہ خود کفار ان مہینوں میں مسلمانوں سے قتال کرنے لگیں تو جوابی حملہ اور دفاع مسلمانوں کے لئے بھی جائز ہے اتنے حصہ کو منسوخ کہا جاسکتا ہے جس کی تصریح اس آیت میں ہے الشَّهْرُ الْحَرَام بالشَّهْرِ الْحَرَامِ (١٩٤: ٢) - تو خلاصہ یہ ہوا کہ ابتداءً قتال تو ان مہینوں میں ہمیشہ کے لئے حرام ہے مگر جب کفار ان مہینوں میں حملہ آور ہوں تو مدافعانہ قتال کی مسلمانوں کو بھی اجازت ہے جیسا کہ امام جصاص نے بروایت حضرت جابر بن عبداللہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شہر حرام میں اس وقت تک قتال نہ کرتے تھے جب تک قتال کی ابتداء کفار کی طرف سے نہ ہوجائے۔- انجام ارتداد :- آیت مذکورہ يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ کے آخر میں مسلمان ہونے کے بعد کفر و ارتداد اختیار کرنے کا یہ حکم ذکر فرمایا ہے کہ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ (یعنی ان لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت میں سب غارت ہوجائیں گے۔- مسئلہ : دنیا میں اعمال کا ضائع ہونا یہ ہے کہ اس کی بی بی نکاح سے نکل جاتی ہے اگر اس کا کوئی مورث مسلمان مرے اس شخص کو میراث کا حصہ نہیں ملتاحالت اسلام میں نماز روزہ جو کچھ کیا تھا سب کالعدم ہوجاتا ہے مرنے کے بعد جنازے کی نماز نہیں پڑھی جاتی مسلمانوں کے مقابر میں دفن نہیں ہوتا۔- مسئلہ : اگر یہ شخص پھر مسلمان ہوجاوے تو آخرت میں دوزخ سے بچنے اور دنیا میں آئندہ کے لئے احکام اسلام کا جاری ہونا تو یقینی ہے لیکن دنیا میں اگر حج کرچکا تو بشرط وسعت دوبارہ اس کا فرض ہونا نہ ہونا اور آخرت میں پچھلے نماز روزہ کے ثواب کا عود کرنا نہ کرنا اس میں اختلاف ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ دوبارہ حج کو فرض کہتے ہیں اور گذشتہ نماز و روزہ پر ثواب ملنے کے قائل نہیں اور امام شافعی ددنوں امر میں اختلاف کرتے ہیں۔- مسئلہ : لیکن جو کافر اصلی ہو اور اس حالت میں کوئی نیک کام کرلے اس کا ثواب معلق رہتا ہے اگر کبھی اسلام لے آیا سب پر ثواب ملنا ہے اور اگر کفر پر مرگیا تو سب بیکار جاتا ہے حدیث میں اسلمت علیٰ ما اسلفت من خیر اسی معنی میں وارد ہے۔- مسئلہ : غرض مرتد کی حالت کافر اصلی سے بدتر ہے اسی واسطے کافر اصلی سے جزیہ قبول ہوسکتا ہے اور مرتد اگر اسلام نہ لاوے اگر مرد ہے قتل کردیا جاتا ہے، اگر عورت ہے تو دوام حبس کی سزا دی جاتی ہے کیونکہ اس سے اسلام کی اہانت ہوئی ہے سرکاری اہانت اسی سزا کے لائق ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْہِ۝ ٠ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْہِ كَبِيْرٌ۝ ٠ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَكُفْرٌۢ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝ ٠ ۤ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللہِ۝ ٠ ۚ وَالْفِتْنَۃُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۝ ٠ ۭ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَيَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝ ٠ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝ ٠ ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝ ٢١٧- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- كبير - الْكَبِيرُ والصّغير من الأسماء المتضایفة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صغیرا في جنب شيء، وكبيرا في جنب غيره، ويستعملان في الكمّيّة المتّصلة كالأجسام، وذلک کالکثير والقلیل، وفي الكمّيّة المنفصلة کالعدد، وربما يتعاقب الکثير والکبير علی شيء واحد بنظرین مختلفین نحو : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة 219] و : كثير «1» قرئ بهما . وأصل ذلک أن يستعمل في الأعيان، ثم استعیر للمعاني نحو قوله : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] ، وقوله : وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ 3] ، وقوله : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة 3] إنما وصفه بالأكبر تنبيها أنّ العمرة هي الحجّة الصّغری كما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «العمرة هي الحجّ الأصغر» فمن ذلک ما اعتبر فيه الزمان،- ( ک ب ر ) کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں ۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں ۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ یعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں ۔ کہ اس میں ایک قرآت کثیر بھی ہے ۔ یہ اصل وضع کے لحاظ سے تو اعیان میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن استعارہ کے طور پر معانی پر بھی بولے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے ۔ اور نہ بڑی کو ( کوئی بات بھی نہیں ) مگر اسے گن رکھا ہے ۔ وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ 3] اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة 3] اور حج اکبر کے دن ۔۔۔ میں حج کو اکبر کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ عمرۃ حج اصغر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ؛العمرۃ ھہ الحج الاصغر ۔ کہ عمرہ حج اصغر ہے ۔ اور کبھی بڑائی بلحاظ زمانہ مراد ہوتی ہے چناچہ محاورہ ہے ۔- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - زال ( لایزال)- مَا زَالَ ولا يزال خصّا بالعبارة، وأجریا مجری کان في رفع الاسم ونصب الخبر، وأصله من الیاء، لقولهم : زَيَّلْتُ ، ومعناه معنی ما برحت، وعلی ذلك : وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود 118] ، وقوله : لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة 110] ، وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد 31] ، فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر 34] ، ولا يصحّ أن يقال : ما زال زيد إلّا منطلقا، كما يقال : ما کان زيد إلّا منطلقا، وذلک أنّ زَالَ يقتضي معنی النّفي، إذ هو ضدّ الثّبات، وما ولا : يقتضیان النّفي، والنّفيان إذا اجتمعا اقتضیا الإثبات، فصار قولهم : ما زَالَ يجري مجری (کان) في كونه إثباتا فکما لا يقال : کان زيد إلا منطلقا لا يقال : ما زال زيد إلا منطلقا .- ( زی ل ) زالہ یزیلہ زیلا - اور مازال اور لایزال ہمیشہ حرف نفی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور یہ کان فعل ناقص کی طرح اپنے اسم کی رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں اور اصل میں یہ اجوف یائی ہیں کیونکہ عربی زبان میں زیلت ( تفعیل ) یاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور مازال کے معنی ہیں مابرح یعنی وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ - وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود 118] وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة 110]- وہ عمارت ہمیشہ ( ان کے دلوں میں باعث اضطراب بنی ) رہیگی ۔ وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد 31] کافر لوگ ہمیشہ ۔۔۔ رہیں گے ۔ فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر 34] تم برابر شبہ میں رہے ۔ اور محاورہ میں مازال زید الا منطلقا کہنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ ماکان زید الا منطلقا کہاجاتا ہے کیونکہ زال میں ثبت گی ضد ہونے کی وجہ نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، ما ، ، و ، ، لا ، ، بھی حروف نفی سے ہیں اور نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے لہذا مازال مثبت ہونے میں گان کیطرح ہے تو جس طرح کان زید الا منطلقا کی ترکیب صحیح نہیں ہے اس طرح مازال زید الا منطلقا بھی صحیح نہیں ہوگا ۔ - حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - ردت - والارْتِدَادُ والرِّدَّةُ : الرّجوع في الطّريق الذي جاء منه، لکن الرّدّة تختصّ بالکفر، والارتداد يستعمل فيه وفي غيره، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] وقوله عزّ وجلّ : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] ، أي : عاد إليه البصر، - ( رد د ) الرد ( ن )- الارتدادؤالردۃ اس راستہ پر پلٹنے کو کہتے ہیں جس سے کوئی آیا ہو ۔ لیکن ردۃ کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے کے ساتھ مختض ہوچکا ہے اور ارتداد عام ہے جو حالت کفر اور دونوں کی طرف لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] بیشک جو لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے ( اس کے ) بعد کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی ۔ - فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] پھر جب ( یوسف (علیہ السلام) کے زندہ و سلامت ہونے ) خوشخبری دینے والا ( یعقوب (علیہ السلام) کے پاس ) آپہنچا تو اس نے آنے کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ) یعقوب (علیہ السلام) ) کے چہرہ پر ڈال دیا تو وہ فورا بینا ہوگئے ۔ یعنی ان کی بینائی ان کی طرف لوٹ آئی - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - حبط - وحَبْط العمل علی أضرب :- أحدها :- أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] - والثاني :- أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي :- «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» .- والثالث :- أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان .- وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات .- ( ح ب ط ) الحبط - حبط عمل کی تین صورتیں ہیں - ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں - اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو - لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔- ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے - لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] - ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے یسئلونک عن الشھرالحرام قتال فیہ، قل قتال فیہ کبیر و صدعن سبیل اللہ وکفر بہ والمسجد الحرام و اخراج اھلہ منہ اکبر عنداللہ۔ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو اس میں لڑنا بہت برا ہے مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ کے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا کے بندوں پر بند کردینا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے) ۔ یہ آیت اشہر حرام میں تحریم قتال کے حکم کو متضمن ہے۔ اس مضمون پر دلالت میں اس کی طرح یہ قول باری ہے (الشھرالحرام بالشھرالحرام و الحرمات قصاص ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا) ۔ اسی طرح قول باری ہے ان عدۃ الشھور عنداللہ اثنا عشر شھراً فی کتاب اللہ یوم خلق السموت والارض منھا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموافیھن انفسکم۔ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد اس کے نوشتے میں بارہ ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں حجاج نے لیث بن سعد سے، انہوں نے ابوالتربیر سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے، آپ نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشہر حرام میں کفار سے جنگ نہیں کرتے تھے البتہ اگر آپ پر کافروں کی طرف سے حملہ ہوتا تو پھر ایسا کرتے، جب ماہ حرام آجاتا تو آپ ٹھہر جاتے حتی کہ وہ مہینہ گزر جاتا۔ اس آیت کی منسوخیت کے متعلق اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے کہ اس کا حکم باقی ہے منسوخ نہیں ہوا۔ عطاء بن ابی رباح کا بھی یہی قول ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج سے یہ بیان کیا ہے کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے یہ پوچھا کہ پہلے تو ماہ حرام میں مسلمانوں کے لئے جنگ کرنا حلال نہیں ہوتا تھا پھر اس کے بعد وہ اس ماہ میں کافروں سے جنگ کرنے لگ گئے۔ یہ سن کر عطاء نے مجھ سے حلیفہ کہا کہ مسلمانوں کے لئے یہ حلال ہی نہیں کہ وہ حرم اور ماہ حرام میں جنگ کریں الایہ کہ انہیں جنگ پر مجبور کردیا جائے پھر کہنے لگے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ سلیمان بن یسار اور سعید بن المسیب نے کہا ہے کہ ماہ حرام میں بھی قتال جائز ہے اور یہی فقہائے امصار کا قول ہے۔- اور پہلی آیت اللہ کے اس قول سے منسوخ ہے اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم تمہیں جہاں کہیں بھی مشرک ملیں انہیں قتل کرو۔ اسی طرح قول باری ہے قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ان مشرکین سے قتال کرو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے کہ یہ آیت ماہ حرام میں قتال کی ممانعت کے بعدنازل ہوئی۔ اسی طرح ماہ حرام کے متعلق سائلین کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون لوگ تھے۔ حسن اور ان کے سوا دوسروں کا کہنا ہے کہ کافروں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر یہ بات پوچھی تھی ان کے اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو نشانہ تنقید بنایا جائے کیونکہ انہوں نے ماہ حرام میں قتال کو حلال کردیا تھا۔ بعض دوسروں کا قول ہے کہ یہ سوال خود مسلمانوں نے کیا تھا تاکہ اللہ کے متعلق اللہ کے حکم کا پتہ لگ جائے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس آیت کے نزول کا ایک پس منظر ہے۔ وہ ہے ایک مشرک و اقدبن عبداللہ عمرو بن حضرمی کا قتل جس کا وقوعہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا تھا۔ اس پر مشرکین نے پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ حرام میں قتال کو حلال کردیا۔ اہل جاہلیت حرمت کے مہینوں میں قتال کی حرمت کا اعتقاد رکھتے تھے۔- اللہ تعالیٰ نے انہیں بتادیا کہ ماہ حرام میں قتال علی حالہ ممنوع ہے اور مشرکین کے سامنے ان کی دو عملی کو واضح کردیا کہ ایک طرف تو وہ کفر پر اڑے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف ماہ حرام میں کسی کے قتل ہوجانے کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں حالانکہ کفر سب سے بڑا جرم ہے جبکہ اس کے ساتھ مسجد حرام سے اہل حرم یعنی مسلمانوں کا اخراج بھی عمل میں لایا گیا ہو حالانکہ مسلمان کافروں کی بہ نسبت مسجد حرام میں رہنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ قول باری ہے انما یعمم مسجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر۔ اللہ کی مسجدوں کو تو صرف وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اللہ اور مسجد حرام کے ساتھ کفر زیادہ گھنائونا جرم ہے جس کی صورت یہ ہے کہ اللہ نے مسجد حرام کو مسلمانوں کی عبادت گاہ بنائی تھی تاکہ وہ اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ کافروں نے وہاں بت رکھ دیے اور مسلمانوں کو وہاں جانے سے روک دیا جس سے مسجد حرام کے ساتھ کفر لازم آگیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا حالانکہ وہ کفار کی بہ نسبت مسجد حرام کے زیادہ حق دار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتادیا کہ ماہ حرام میں ایک مشرک کو قتل کے فعل کی بہ نسبت کافروں کے یہ جرائم زیادہ لائق تنقید ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢١٧) حرمت کے مہینے یعنی رجب کے مہینے میں آپ سے لڑائی کرنے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔- آپ فرما دیجیے کہ رجب کے مہینے میں لڑائی کرنا بہت بڑے گناہ کا باعث ہے اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی اطاعت سے پھیرنا اور ان کو مسجد حرام داخل ہونے سے روکنا اللہ تعالیٰ کے ہاں عمرو بن حضرمی کے قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، قتل سے بڑا گناہ ہے اور یہ اہل مکہ تم لوگوں کو دین اسلام سے منحرف کرنے کی کوشش میں ہیں اور جو اسلام سے پھر کر اسی حالت میں مرجائے تو اس کے سارے اعمال اور تمام نیکیاں برباد گئیں اور آخرت میں ان کو کوئی بدلہ نہیں ملے گا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے، نہ وہاں ان کو موت آئے گی اور نہ ہی اس سے چھٹکارا ملے گا۔- شان نزول : یسئلونک عن الشھر الحرام (الخ)- ابن جریر (رح) ابن ابی حاتم (رح) اور طبرانی (رح) نے کبیر میں اور حضرت امام بیہقی (رح) نے اپنی سنن میں جندب بن عبداللہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر عبداللہ بن جحش (رض) کو امیر بنایا۔- ان حضرات کو ابن حضرمی ملا، انہوں نے اس کو قتل کردیا اور ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ دن مبارک رجب کا ہے یا جمادی الآخر کا، تو مشرکین نے مسلمانوں سے کہا کہ ان لوگوں نے حرمت کے مہینے میں قتل کیا ہے، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری کہ آپ سے حرمت کے مہینے میں قتال کرنے کے بارے میں پوچھتے ہیں، پھر بعد میں بعض حضرات کہنے لگے کہ اگر ان لوگوں کا اس میں گناہ نہیں ہوگا تو ثواب بھی نہیں ملے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ان الذین امنوا والذین ھاجرو (الخ) اور ابن مندہ نے اس روایت کو عثمان بن عطا (رض) سے اور عطا کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، فرمان خداوندی (آیت) ” یسئلونک عن الخمر “ الخ۔ اس کی تفسیر سورة مائدہ میں آئے گی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٧ (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ ط) - قتال کا حکم آنے کے بعد اب وہ پوچھتے تھے کہ یہ جو حرمت والے مہینے ہیں ان میں جنگ کرنا کیسا ہے ؟ اس لیے کہ سیرت میں یہ واقعہ آتا ہے کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن جحش (رض) کو چند افراد کے دستے کا کمانڈر بنا کر ہدایت فرمائی تھی کہ مکہ اور طائف کے درمیان جا کر وادئ نخلہ میں قیام کریں اور قریش کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ وادئ نخلہ میں قیام کے دوران وہاں قریش کے ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی اور مسلمانوں کے ہاتھوں ایک مشرک عمرو بن عبداللہ الحضرمی مارا گیا۔ اس روز رجب کی آخری تاریخ تھی اور رجب کا مہینہ اشہر حرم میں سے ہے۔ یہ ہجرت کے بعد پہلا خون تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ اس پر مشرکین نے بہت واویلا کیا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہے ‘ بنے پھرتے ہیں اللہ والے ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والے ‘ دین والے ‘ آخرت والے اور انہوں نے حرمت والے مہینے کو بٹہّ لگا دیا ‘ اس میں جنگ کی۔ تو یہ دراصل اللہ تعالیٰ اپنے ان مؤمن بندوں کی طرف سے گویا خود صفائی پیش کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ حرمت والے مہینوں میں قتال کا کیا حکم ہے ؟- (قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ ط) - (وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ق وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ ج) ۔ - یہ وہ سنگین جرائم ہیں جن کا ارتکاب مشرکین مکہ کی جانب سے ہو رہا تھا۔ یہاں فرمایا گیا کہ یہ سب کام اشہر حرم میں جنگ کرنے سے بھی بڑے جرائم ہیں۔ لہٰذا ان کے سدبابّ کے لیے اگر اشہر حرم میں جنگ کرنی پڑجائے تو کوئی حرج نہیں۔ ُ - (وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ط) ۔ - قبل ازیں آیت ١٩١ میں الفاظ آ چکے ہیں : (وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج) فتنہ ہر وہ کیفیت ہے جس میں صاحب ایمان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اسلام پر عمل کرنا مشکل ہوجائے۔ آج کا پورا معاشرہ فتنہ ہے۔ اسلام پر عمل کرنا مشکل ہے ‘ بدمعاشی اور حرام خوری کے راستے کھلے ہوئے ہیں ‘ اکل حلال اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ دانتوں پسینہ آئے تو شاید نصیب ہو۔ نکاح اور شادی کے جائز راستوں پر بڑی بڑی شرطیں اور قدغنیں عائد ہیں ‘ جبکہ ناجائز مراسم اور زنا کے راستے کھلے ہیں۔ جس معاشرے کے اندر باطل کا غلبہ ہوجائے اور حق پر چلنا ممکن نہ رہے وہ بڑے فتنے میں مبتلا ہے۔ باطل کا غلبہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ فتنہ قتل کے مقابلے میں بہت بڑی شے ہے۔- (وَلاَ یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ط) ۔ - وہ تو اس پر تلے ہوئے ہیں کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔ یہاں مشرکین مکہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے ‘ کیونکہ اب یہ غزوۂ بدر کی تمہید چل رہی ہے۔ اس کے بعد غزوۂ بدر ہونے والا ہے ‘ اس کے لیے اہل ایمان کو ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے اور انہیں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مشرکین کی جنگ کا مقصد تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کرنا ہے ‘ وہ تو اپنی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے لوٹا کر واپس لے جائیں۔- (وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ ) - (فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ ) اور اسی حالت میں اس کی موت آگئی کہ وہ کافر ہی تھا - (فَاُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ج) ۔ - پہلے خواہ کتنی ہی نیکیاں کی ہوئی تھیں ‘ کتنی ہی نمازیں پڑھی ہوئی تھیں ‘ کتنا ہی انفاق کیا ہوا تھا ‘ صدقات دیے تھے ‘ جو کچھ بھی کیا تھا سب کا سب صفر ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :232 یہ بات ایک واقعہ سے متعلق ہے ۔ رجب سن ۲ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نَخْلہ کی طرف بھیجا تھا ( جو مکے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے ) اور اس کو ہدایت فرمادی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور ان کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے ۔ جنگ کی کوئی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دی تھی ۔ لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ ملا اور اس پر انہوں نے حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں کو ان کے مال سمیت گرفتار کر کے مدینے لے آئے ۔ یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی ، جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا اور یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب ( یعنی ماہ حرام ) ہی میں ہوا ہے یا نہیں ۔ لیکن قریش نے ، اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہودیوں اور منافقین مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دیے کہ یہ لوگ چلے ہیں بڑے اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہ حرام تک میں خونریزی سے نہیں چوکتے ۔ انہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے ۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلا شبہہ ماہ حرام میں لڑنا بڑی بری حرکت ہے ، مگر اس پر اعتراض کرنا ان لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا ، جنھوں نے ۱۳ برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لیے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے ، پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلا وطن ہونے پر مجبور ہو گئے ، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اپنے ان بھائیوں کے لیے مسجد حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کر دیا ۔ حالانکہ مسجد حرام کسی کی مملوکہ جائداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اس کی زیارت سے روکا گیا ہو ۔ اب جن ظالموں کا نامہ اعمال ان کرتوتوں سے سیاہ ہے ، ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر زور شور کے اعتراضات کریں ، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہو گیا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مال غنیمت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ، تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی ۔ نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ لینے سے بھی انکار فر ما دیا تھا ، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لوٹ ناجائز ہے ۔ عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا ، جس نے انہیں اس پر داد دی ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :233 مسلمانوں میں بعض سادہ لوح لوگ ، جن کے ذہن پر نیکی اور صلح پسندی کا ایک غلط تصور مسلط تھا ، کفار مکہ اور یہودیوں کے مذکورہ بالا اعتراضات سے متاثر ہوگئے تھے ۔ اس آیت میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم اپنی ان باتوں سے یہ امید نہ رکھو کہ تمہارے اور ان کے درمیان صفائی ہو جائے گی ۔ ان کے اعتراضات صفائی کی غرض سے ہیں ہی نہیں ۔ وہ تو دراصل کیچڑ اچھالنا چاہتے ہیں ۔ انہیں یہ بات کھل رہی ہے کہ تم اس دین پر ایمان کیوں لائے ہو اور اس کی طرف دنیا کو دعوت کیوں دیتے ہو ۔ پس جب تک وہ اپنے کفر پر اڑے ہوئے ہیں اور تم اس دین پر قائم ہو ، تمہارے اور ان کے درمیان صفائی کسی طرح نہ ہو سکے گی ۔ اور ایسے دشمنوں کو تم معمولی دشمن بھی نہ سمجھو ۔ جو تم سے مال و زر یا زمین چھیننا چاہتا ہے ، وہ کمتر درجے کا دشمن ہے ۔ مگر جو تمہیں دین حق سے پھیرنا چاہتا ہے ، وہ تمہارا بدترین دشمن ہے ۔ کیونکہ پہلا تو صرف تمہاری دنیا ہی خراب کرتا ہے ، لیکن یہ دوسرا تمہیں آخرت کے ابدی عذاب میں دھکیل دینے پر تلا ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

141:سورۂ توبہ (۹: ۶۳) میں چار مہینوں کو اشہر حرم کہا گیا ہے، یعنی حرمت والے مہینے، آنحضرتﷺ نے ان کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ چار مہینے رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں۔ ان مہینوں میں جنگ منع ہے، البتہ اگر کوئی دُشمن حملہ کردے تو اپنا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک سفر کے دوران چند صحابہ کی کچھ مشرکین سے جھڑپ ہوگئی اور مشرکین میں سے ایک آدمی عمرو بن اُمیہ ضمری مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا، یہ واقعہ جمادی الثانیہ کی ۹۲ تاریخ کی شام کو واقع ہوا، لیکن اس شخص کے قتل ہوتے ہی رجب کا چاند نظر آگیا۔ اس پر مشرکین نے مسلمانوں کے خلاف ایک طوفان مچادیا کہ یہ لوگ حرمت والے مہینوں کا بھی پاس نہیں کررہے ہیں۔ یہ آیت اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اول تو عمرو بن امیہ کا قتل غلط فہمی میں ہوا، جان بوجھ کر حرمت والے مہینے میں قتل نہیں کیا گیا، لیکن جو لوگ اس واقعے پر طوفان کھڑا کئے ہوئے ہیں، انہوں نے اس سے کہیں بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا ہوا ہے۔ وہ لوگوں کو نہ صرف مسجدِ حرام سے روکتے ہیں، بلکہ جو لوگ حقیقۃً مسجد حرام میں عبادت کے اہل ہیں، ان کے لئے زندگی اجیرن بناکر انہیں یہاں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں، اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کفر کی روِش اختیار کئے ہوئے ہیں۔