Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پھر فرمان ہے کہ اگر چار مہینے گزر جانے کے بعد وہ طلاق دینے کا قصد کرے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہیں طلاق نہیں ہو گی ۔ جمہور متاخرین کا یہی مذہب ہے ، گو ایک دوسری جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ بلا جماع چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق ہو جائے گی ۔ حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر ، حضرت زید بن ثابت اور بعض تابعین سے بھی یہی مروی ہے لیکن یاد رہے کہ راجح قول اور قرآن کریم کے الفاظ اور صحیح حدیث سے ثابت شدہ قول یہی ہے کہ طلاق واقع نہ ہوگی ( مترجم ) پھر بعض تو یہ کہتے ہیں بائن ہوگی ، جو لوگ طلاق پڑنے کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اسے عدت بھی گزارنی پڑے گی ۔ ہاں ابن عباس اور ابو الشعثاء فرماتے ہیں کہ اگر ان چار مہینوں میں اس عورت کو تین حیض آ گئے ہیں تو اس پر عدت بھی نہیں ۔ امام شافعی کا بھی قول یہی ہے لیکن جمہور متاخرین علماء کا فرمان یہی ہے کہ اس مدت کے گزرتے ہیں طلاق واقع نہ ہوگی بلکہ اب ایلاء کرنے والے کو مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی قسم کو توڑے یا طلاق دے ۔ موطا مالک میں حضرت عبداللہ بن عمر سے یہی مروی ہے ۔ صحیح بخاری میں بھی یہ روایت موجود ہے ، امام شافعی اپنی سند سے حضرت سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دس سے اوپر صحابیوں سے سنا کہ وہ کہتے تھے چار ماہ کے بعد ایلاء کرنے والے کو کھڑا کیا گیا تو کم سے کم یہ تیرہ صحابی ہو گئے ۔ حضرت علی سے بھی یہی منقول ہے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں یہی ہمارا مذہب ہے اور یہی حضرت عمر ، حضرت ابن عمر ، حضرت عثمان بن زید بن ثابت اور دس سے اوپر اوپر دوسرے صحابہ کرام سے مروی ہے ، دارقطنی میں ہے حضرت ابو صالح فرماتے ہیں میں نے بارہ صحابیوں سے اس مسئلہ کو پوچھا ، سب نے یہی جواب عنایت فرمایا ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت ابو درداء ، حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس ، بھی یہی فرماتے ہیں اور تابعین میں سے حضرت سعید بن مسیب ، حضرت عمر بن عبدالعزیز ، حضرت مجاہد ، حضرت طاؤس ، حضرت محمد بن کعب ، حضرت قاسم رحمتہ اللہ علیہ اجمعین کا بھی یہی قول ہے اور حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی ، حضرت امام احمد اور ان کے ساتھیوں کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام بن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں ۔ لیث ، اسحق بن راھویہ ، ابو عبید ، ابو ثور ، داؤد وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ یہ سب حضرات فرماتے ہیں کہ اگر چار ماہ کے بعد رجوع نہ کرے تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے گا ۔ اگر طلاق نہ دے تو حاکم خود اس کی طرف سے طلاق دے دے گا مگر یہ طلاق رجعی ہوگی ، عدت کے اندر رجعت کا حق خاوند کو حاصل ہے ، ہاں صرف امام مالک فرماتے ہیں کہ اسے رجعت جائز نہیں یہاں تک کہ عدت میں جماع کرے لیکن یہ قول نہایت غریب ہے ۔ یہاں جو چار مہینے کی تاخیر کی اجازت دی ہے اس کی مناسبت میں موطا امام مالک میں حضرت عبداللہ بن دینار کی روایت سے حضرت عمر کا ایک واقعہ عموماً فقہاء کرام ذِکر کرتے ہیں ، جو یہ ہے کہ حضرت عمر راتوں کو مدینہ شریف کی گلیوں میں گشت لگاتے رہتے ۔ ایک رات کو نکلے تو آپ نے سنا کہ ایک عورت اپنے سفر میں گئے ہوئے خاوند کی یاد میں کچھ اشعار پڑھ رہی ہے جن کا ترجمہ یہ ہے افسوس ان کالی کالی اور لمبی راتوں میں میرا خاوند نہیں ہے جس سے میں ہنسوں ، بولوں ۔ قسم اللہ کی اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس وقت اس پلنگ کے پائے حرکت میں ہوتے ۔ آپ اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ کے پاس آئے اور فرمایا بتاؤ زیادہ سے زیادہ عورت اپنے خاوند کی جدائی پر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے؟ فرمایا چھ مہینے یا چار مہینے ۔ آپ نے فرمایا اب میں حکم جاری کردوں گا کہ مسلمان مجاہد سفر میں اس سے زیادہ نہ ٹھہریں ۔ بعض روایتوں میں کچھ زیادتی بھی ہے اور اس کی بہت سی سندیں ہیں اور یہ واقعہ مشہور ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

227۔ 1 ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہی از خود طلاق واقع نہیں ہوگی (جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے۔ بلکہ خاوند کے طلاق دینے سے طلاق ہوگی جس پر عدالت بھی اسے مجبور کرے گی جیسا کہ جمہور علماء کا مسلک ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ٢٢٧- عزم - العَزْمُ والعَزِيمَةُ : عقد القلب علی إمضاء الأمر، يقال : عَزَمْتُ الأمرَ ، وعَزَمْتُ عليه، واعْتَزَمْتُ. قال : فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران 159] ، وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة 227] ، إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری 43] ، وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، أي : محافظة علی ما أمر به وعَزِيمَةً علی القیام - ( ع ز م ) العزم - والعزیمۃ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا عزمت الامر وعزمت علیہ واعتزمت میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران 159] جب کسی کام کا عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة 227] اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری 43] بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ پایا ۔ یعنی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اسکی حفاظت کرنے اور اسے بجا لانے میں ثابت قدم نہ پایا - طلق - أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] - ( ط ل ق ) - ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم۔ اور اگر وہ طلاق کی ہی ٹھان لیں تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے) ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ طلاق کی ٹھان لینے کے متعلق جبکہ وہ رجوع نہ کرے، سلف کا اختلاف درج ذیل ہے حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ چار ماہ گزر جانا عزیمت طلاق ہے یعنی یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس نے طلاق کی ٹھان لی ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) اور حضرت عثمان (رض) کا یہی قول ہے۔ ان سب نے فرمایا ہے کہ مدت گزرنے کے ساتھ ہی اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی یعنی وہ عدت کے دوران رجوع نہیں کرسکے گا البتہ عدت کے بعد اس سے نکاح کرسکے گا حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت ابوالدرداء سے اس بارے میں رویا ات مختلف ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ان حضرات کا بھی وہی قول ہے جو پہلے گروہ کا ہے۔ دوسری روایت ہے کہ مدت گزرنے کے بعد بذریعہ عدالت اسے مطلع کیا جائے گا کہ یا تو وہ رجوع کرلے یا طلاق دے دے حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ابوالدرداء (رض) کا یہی قول ہے تیسرا قول سعید بن المسیب، سالم بن عبداللہ، ابوبکر بن عبدالرحمن، زہری، عطاء اور طائوس کا ہے کہ جب مدت گزر جائے گی تو اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی یعنی وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کرسکے گا۔ ہمارے اصحاب نے حضرت ابن عباس (رض) اور ان کے ساتھیوں کا قول اختیار کیا ہے کہ اگر رجوع کرنے سے پہلے چار ماہ کی مدت گزر جائے تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا یہی قول ہے امام مالک، لیث بن سعد اور امام شافعی نے حضرت ابوالدرداء (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کا قول اختیار کیا ہے کہ مدت گزر جانے کے بعد اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے گا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے طلاق کی صورت میں اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب تک وہ عدت کے اندر اس سے وطی نہیں کرے گا اس کا رجوع درست نہیں ہوگا۔- امام شافعی کا قول ہے کہ مدت گزرنے کے بعد اگر عورت وطی سے دامن بچائے تو اس کے بعد بھی وہ وطی کا مطالبہ کرسکتی ہے اور جماع کے لئے ایک دن سے زائد کی مہلت نہیں دی جائے گی امام اوزاعی نے سعید بن المسیب اور سالم بن عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کا قول اختیار کیا ہے کہ مدت گزرنے کے ساتھ اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری وان عزموا الطلاق وان اللہ سمیع علیم) ان تمام وجوہ کا احتمال رکھتا ہے جو سلف کے اختلاف کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ اگر آیت میں ان وجوہ کا احتمال نہ ہوتا تو یہ حضرات اس کی ا ن صورتوں میں تاویل نہ کرتے۔ اس لئے کہ یہ جائز ہی نہیں ہے کہ لفظ کی وہ تاویل کی جائے جس کا اس لفظ میں احتمال ہی نہ ہو۔ حضرات سلف اہل لغت تھے اور لفظ کے احتمالات اور معانی مختلفہ سے باخبر تھے۔ انہیں یہ بھی خبر تھی کہ لفظ میں کون سے احتمالات نہیں ہوسکتے جب ان حضرات کا اختلاف ان وجوہ کی شکل میں ظاہر ہوا تو اس سے معلوم ہوگیا کہ لفظ میں یہ سارے احتمالات موجود ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے ۔- سلف کا یہ اختلاف ان کے درمیان مشہورو معروف تھا لیکن کسی کی طرف سے بھی کسی کی تردید نہیں ہوئی۔ اس طرح ان وجوہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے لئے اجتہاد کی گنجائش پر ایک قسم کا اجماع ہوگیا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہمیں یہ ضرورت پیش آگئی ہم ان اقوال میں سے اولیٰ اور حق سے زیادہ قریب قول پر نظر ڈالیں۔ ہم نے دیکھا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ شوہر کے رجوع سے قبل چار ماہ کی مدت کا گزر جانا عزیمت طلاق ہے یعنی یہ اس بات کی نشانی ہے کہ شوہر نے طلاق کی ٹھان لی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے مدت گزر جانے تک رجوع نہ کرنے کی عزیمت طلاق کا نام دیا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہی اس کا نام بن جائے اس لئے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ نام یا تو شرعی طور پر رکھا ہوگا یا لغوی طور پر۔ جو بھی صورت ہو اس کی حجیت ثابت اور اس کا عموم واجب ہے کیونکہ شریعت میں اسماء توقیفی طریقے سے اخذکئے جاتے ہیں یعنی شریعت کی طرف اس کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ مولی کے متعلق اللہ کی طرف سے دو باتوں میں سے ایک کا حکم ہے۔ یا تو رجوع کرے یاعزیمت طلاق یعنی طلاق کی ٹھان لے تو ان دو باتوں کی روشنی میں یہ ضروری ہوگیا کہ رجوع کا معاملہ چار ماہ تک محدود رہے اور اس مدت کے گزرنے کے ساتھ رجوع کی سہولت ہاتھ سے نکل جائے اور عورت کو طلاق ہوجائے۔ اس لئے کہ مدت گزر جانے کے بعد بھی اگر رجوع کی سہولت باقی رہے تو اس صورت میں مدت کا گزرجانا عزیمت طلاق نہیں بن سکے گا۔ ایک اور جہت سے غور کیجئے وہ یہ کہ عزیمت دراصل عقدقلب یعنی دل میں کسی چیز کے ٹھان لینے کو کہتے ہیں۔ اگر آپ دل میں کسی کام کی ٹھان لیں تو آپ یہ فقرہ کہیں گے۔ عزمت علی کذاً میں نے فلاں چیز کی ٹھان لی ہے یعنی میں نے فلاں کام کی گرہ اپنے دل میں باندھ لی ہے۔ جب یہ بات ہے تو ضروری ہے کہ مدت کا گزر جانا وقف (شوہر کو بذریعہ عدالت مطلع کرنا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے) سے بڑھ کر عزیمت طلاق کے مفہوم کو پورا کرنے والا قرار پائے، اس لئے کہ وقف کے قائلین کے مطابق وقف زبانی الفاظ کے ذریعے طلاق واقع کرنے کا متقاضی ہے یا تو شوہر یہ طلاق واقع کرے گا یا قاضی یعنی عدالت اس کی طرف سے یہ کام سرانجام دے گی اس صورت حال کی روشنی میں شوہر کی طر ف سے مدت کے اندر رجوع نہ کرنے کی بنا پر مدت گزرنے کے ساتھ ہی دونوں کے درمیان علیحدگی واقع ہوجانا آیت کے معنی کے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نئے سرے سے طلاق واقع کرنے کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ صرف عزیمت طلاق کا ذکر کیا ہے۔- اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم آیت میں ایسے معنی کا اضافہ کردیں جو اس میں موجود نہ ہو۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا للذین یولون من نساء ھم ترتبص اربعۃ اشھر فان فائوا فان اللہ غفور رحیم وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم۔ تو آیت دو میں سے ایک بات کی متقاضی ہوئی۔ فی ۔ یعنی رجوع کی یا عزیمت طلاق کی ۔ تیسری کسی بات کی نہیں۔ اب فی تو چار ماہ کی مدت کے اندر مراد ہوتا اور اس کا حکم اسی مدت کے اندر محدود ہوتا ہے۔ اس کی دلیل قول باری فان فائوا ہے۔ حرف فائو تعقیب کے لئے آتا ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ فی یعنی رجوع قسم کے بعد ہو کیونکہ اللہ نے فی کو قسم کے پیچھے رکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فی اس فریق کے لئے رکھا گیا ہے جسے چار ماہ انتظار کا حکم دیا گیا ہے یعنی فی یعنی رجوع مرد کا کام ہے۔ اب جبکہ فی مدت کے اندر محدود ہے اور مدت گزرنے کے ساتھ ہی اس کی سہولت ہاتھ سے نکل گئی تو اب طلاق کا حصول واجب ہوگیا۔ اس لئے کہ یہ جائز نہیں کہ رجوع اور طلاق دونوں سے روک دیا جائے۔ رجوع سے مراد چار ماہ کی مدت کے اندر رجوع ہے اس پر اس مدت کے اندر رجوع کی صحت پر سب کا اتفاق دلالت کرتا ہے۔- اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ اس سے مراد اس مدت کے اندر رجوع ہے اس لئے آیت کی عبارت اس طرح ہوگئی ” فان فائوا فیھا “ (اگر اس مدت میں وہ رجوع کرلیں) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی قرات میں اسی طرح مذکور ہے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ رجوع مدت کے اندر محدود ہے مدت سے باہر نہیں اور مدت کے گزرنے کے ساتھ ہی رجوع کا موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور جب یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا للذین یولون من نساء ھم تربص اربعۃ اشھر فان فائوا) تو اس نے حرف فاء کے ذریعے تربص یعنی انتظار پر فی کا عطف کیا، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ فی کی شرط یہ ہے کہ وہ تربص اور مدت کے گزر جانے کے بعد ہو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اگر مدت کے اندر رجوع کرلیتا ہے تو صرف ایسے حق کی ادائیگی میں جلد بازی کرتا ہے جس کے لئے تعجیل کرنا اس پر لازم نہیں ہے جس طرح کہ ایک شخص اس قرض کو جس کے لئے ایک مدت مقرر ہے، مدت سے پہلے ادا کرنے میں تعجیل کرتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر فی اللہ کی مراد نہ ہوتا تو مدت کے اندر اس کا وجود درست نہ ہوتا اور اس فی کے بعد مدت گزرنے پر ایک اور فئے کی ضرورت ہوتی۔ جب اس مدت میں فی درست ہوگیا تو اس سے معلوم ہوگیا کہ آیت میں مذکورہ فی سے اللہ کی مراد یہی فی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے ساتھ عزیمت طلاق کا بطلان ہوجاتا ہے۔ پھر معترض کا یہ قول کہ نئی سے مراد وہ ہے جو مدت گزرنے کے بعد ہوا اور ساتھ ساتھ یہ قول کہ مدت کے اندر بھی فی درست ہوتا ہے جس طرح کہ مدت کے بعد اور اس کے ساتھ عزیمت طلاق باطل ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ دونوں قول ایک دوسرے کے نقیض ہیں جس طرح کہ کوئی یہ کہے کہ مدت کے اندر فی مراد بھی ہے اور مراد بھی نہیں۔ پھر معترض یہ کہہ کر اس مناقضہ سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتا۔ مدت کے اندر فی یعنی رجوع اس قرض کی طرح ہے جس کی ادائیگی کے لئے ایک مدت مقرر ہو لیکن اس مدت سے پہلے اس کی ادائیگی کردی جائے۔ اس لئے کہ ایسے قرض کی ادائیگی کے لئے تاجیل یعنی مہلت کا موجود ہونا اسے لزوم کے حکم سے نہیں نکالتا اس لئے معترض کا اسے اپنے دعوے کی تائید میں بطور نظیر پیش کرنا درست نہیں ہے۔ اگر لزوم کا حکم نہ ہوتا تو ثمن موجل کے بدلے میں ایک چیز کی بیع درست نہ ہوتی (ثمن موجل سے مراد کسی چیز کی قیمت کی فوری ادائیگی نہ کی جائے بلکہ اس کے لئے مہلت لے لی جائے) اس لئے کہ فروخت شدہ شے کی جس قیمت پر فروخت کنندہ کی ملکیت کا تعلق آنے والے وقت میں ہوا اس پر سودا طے کرنا درست نہیں ہوتا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ ” میں تمہیں یہ چیز ایک ہزار درہم میں فروخت کرتا ہوں۔ یہ ہزار درہم تم پر چار ماہ بعد لازم ہوں گے “۔ تو یہ بیع باطل ہوگی۔ قیمت کی ادائیگی میں جس تاخیر کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ تاخیر ثمن پر فروخت کنندہ کی ملکیت واجب ہونے میں رکاوٹ نہیں بنتی اور خریدار جب بھی اس کی ادائیگی میں تعجیل کر کے تاجیل یعنی تاخیر کو ختم کر دے گا تو یہ بات اس سودے کا تقاضا قرار پائے گی۔ لیکن یہ بات ایلاء میں اس لحاظ سے فی کے برعکس ہے کہ فی کا موقعہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد طلاق واجب ہوجاتی ہے اور جب فی سے مراد چار ماہ کی مدت کے اندر واقع ہونے والا فئے ہے تو یہ ضروری ہے کہ مدت کے اندر اس کے موقعہ کا ہاتھ سے نکل جانا طلاق کا موجب بن جائے جیسا کہ ہم پہلے اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔ نیز قول باری فان فائوا) میں ضمیر مولی کی طرف راجع ہے جس کے ذکر سے آیت کی ابتداء ہوئی تھی اور جس کے لئے چار ماہ کے انتظار کا حکم تھا۔ اب ظاہر آیت جس مفہوم کا متقاضی ہے وہ قسم کے بعد فی کا ایقاع ہے۔ ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ قول باری تربص اربعۃ اشھر) اس قول باری کی طرح ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٧ (وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) ۔ - یعنی چار ماہ کا عرصہ گزر جانے پر شوہر کو بہرحال فیصلہ کرنا ہے کہ وہ یا تو رجوع کرے یا طلاق دے۔ اب عورت کو مزید معلقّ نہیں رکھا جاسکتا۔ رجوع کی صورت میں چونکہ قسم توڑنا ہوگی لہٰذا اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے اپنے دور خلافت میں یہ حکم جاری کیا تھا کہ جو لوگ جہاد کے لیے گھروں سے دور گئے ہوں انہیں چار ماہ بعد لازمی طور پر گھر بھیجا جائے۔ آپ (رض) نے یہ حکم غالباً اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے جاری فرمایا تھا۔ اس کے لیے آپ (رض) نے اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ (رض) سے مشاورت بھی فرمائی تھی۔ اگرچہ آپ (رض) کا حضرت حفصہ (رض) سے باپ بیٹی کا رشتہ ہے ‘ مگر دین کے معاملات میں شرم و حیا آڑے نہیں آتی ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ) (الاحزاب : ٥٣) اور اللہ شرماتا نہیں حق بات بتلانے میں۔ آپ (رض) نے ان سے پوچھا کہ ایک عورت کتنا عرصہ اپنی عفت و عصمت کو سنبھال کر اپنے شوہر کا انتظار کرسکتی ہے ؟ حضرت حفصہ (رض) نے کہا چار ماہ۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے مجاہدین کے بارے میں یہ حکم جاری فرما دیا کہ انہیں چار ماہ سے زیادہ گھروں سے دور نہ رکھا جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :247 حضرات عثمان ، ابن مسعود ، زید بن ثابت وغیرہم کے نزدیک رجوع کا موقع چار مہینے کے اندر ہی ہے ۔ اس مدت کا گزر جانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر نے طلاق کا عزم کر لیا ہے ، اس لیے مدت گزرتے ہی طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی اور وہ ایک طلاق بائن ہوگی ، یعنی دوران عدت میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا ۔ البتہ اگر وہ دونوں چاہیں ، تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں ۔ حضرات عمر ، علی ، ابن عباس اور ابن عمر سے بھی ایک قول اسی معنی میں منقول ہے اور فقہائے حنفیہ نے اسی رائے کو قبول کیا ہے ۔ سعید بن مُسَیِّب ، مکحُول ، زُہری وغیرہ حضرات اس رائے سے یہاں تک تو متفق ہیں کہ چار مہینے کی مدت گزرنے کے بعد خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی ، مگر ان کے نزدیک وہ ایک طلاق رجعی ہوگی ، یعنی دوران عدت میں شوہر کو رجوع کر لینے کا حق ہوگا اور رجوع نہ کرے تو عدت گزر جانے کے بعد دونوں اگر چاہیں ، تو نکاح کر سکیں گے ۔ بخلاف اس کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، ابو الدَّرْدَاء اور اکثر فقہائے مدینہ کی رائے یہ ہے کہ چار مہینے کی مدت گزرنے کے بعد معاملہ عدالت میں پیش ہوگا اور حاکم عدالت شوہر کو حکم دے گا کہ یا تو اس عورت سے رجوع کرے یا اسے طلاق دے ۔ حضر عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول اس کی تائید میں بھی ہے اور امام مالک و شافعی نے اسی کو قبول کیا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :248 یعنی اگر تم نے بیوی کو ناروا بات پر چھوڑ ا ہے ، تو اللہ سے بےخوف نہ رہو ، وہ تمہاری زیادتی سے ناواقف نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani