Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایلاء اور اس کی وضاحت: ایلاء کہتے ہیں قسم کو ۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرنے کی ایک مدت تک کیلئے قسم کھا لے تو دو صورتیں ، یا وہ مدت چار مہینے سے کم ہو گی یا زیادہ ہوگی ، اگر کم ہو گی تو وہ مدت پوری کرے اور اس درمیان عورت بھی صبر کرے ، اس سے مطالبہ اور سوال نہیں کر سکتی ، پھر میاں بیوی آپس میں ملیں جلیں گے ، جیسے کہ بخاری صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ کیلئے قسم کھا لی تھی اور انتیس دن پورے الگ رہے اور فرمایا کہ مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے اور اگر چار مہینے سے زائد کی مدت کیلئے قسم کھائی ہو تو چار ماہ بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ تقاضا اور مطالبہ کرے کہ یا تو وہ میل ملاپ کر لے یا طلاق دے دے ، اور اس خاوند کا حکم ان دو باتوں میں سے ایک کے کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ عورت کو ضرر نہ پہنچے ۔ یہی بیان یہاں ہو رہا ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کریں یعنی ان سے مجامعت نہ کرنے کی قسم کھائیں ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایلاء خاص بیویوں کیلئے ہے ، لونڈیوں کیلئے نہیں ۔ یہی مذہب جمہور علماء کرام کا ہے ، یہ لوگ چار مہینہ تک آزاد ہیں ، اس کے بعد انہیں مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی بیویوں سے مل لیں یا طلاق دے دیں ، یہ نہیں کہ اب بھی وہ اسی طرح چھوڑے رہیں ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں یہ اشارہ جماع کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی بخش دے گا اور جو تقصیر عورت کے حق میں ان سے ہوئی ہے اسے اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا ، اس میں دلیل ہے ان علماء کی جو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کے ذمہ کفارہ کچھ بھی نہیں ۔ امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکی کہ قسم کھانے والا اگر اپنی قسم توڑ ڈالنے میں نیکی دیکھتا ہو تو توڑ ڈالے ، یہی اس کا کفارہ ہے ، اور علماء کرام کی ایک دوسری جماعت کا یہ مذہب ہے کہ اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اس کی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

226۔ 1 یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھالے کہ اپنی بیوی سے ایک مہینہ یا دو مہینے تعلق نہیں رکھوں گا پھر قسم کی مدت پوری کر کے تعلق قائم کرلیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا کفارہ قسم ادا کرنا پڑے گا اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے یا مدت مقرر کئے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کرلیں یا پھر اسے طلاق دے دیں پہلی صورت میں اسے کفارہ قسم ادا کرنا ہوگا اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اسکو دونوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ اس سے تعلق قائم کرے یا طلاق دے تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠٢] ایلاء (اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھانا) کی مدت چار ماہ ہے۔ مثلاً اگر کسی نے تین ماہ تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی تو یہ شرعاً ایلاء نہ ہوگا۔ اب آگے اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ تین ماہ کے اندر صحبت کرلی، تو اب اس پر قسم کا کفارہ دینا ہوگا اور اگر تین ماہ کے بعد کی تو نہ کفارہ ہے نہ طلاق اور چار ماہ گزر جائیں اور مرد رجوع نہ کرے تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور بعض فقہاء کے نزدیک یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور طلاق عدالت کے ذریعہ ہوگی۔ (مزید تفصیل سورة مجادلہ میں دیکھئے)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

صیغہ جمع مذکر غائب، باب افعال، مہموز الفاء اور ناقص یائی، ” آلٰی یُؤْلِیْ اِیْلَاءٌ“” أل ی “ اس کا مادہ ہے۔ ان دو آیتوں میں ” ایلاء “ کے معنی یہ ہیں کہ مرد قسم کھالے کہ وہ اپنی بیوی سے جماع نہیں کرے گا، پھر اگر یہ قسم چار ماہ یا اس سے کم مدت کے لیے کھائی ہو تو اسے اپنی قسم پوری کرنے کا اختیار ہے، اگر وہ مدت پوری کرکے اپنی بیوی سے تعلق قائم کرلے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہوگا اور اگر اس مدت سے پہلے ہی تعلق بحال کرلے تو قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے قریب نہ جانے کی قسم کھائی تھی، مدت پوری ہونے پر آپ نے ان سے تعلق قائم فرما لیا۔ [ بخاری، النکاح، باب ھجرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نساء ہ۔۔ : ٥٢٠٢ ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی کفارہ ادا نہیں کیا۔ (شوکانی) جاہلیت میں نکاح کرنے کے بعد بعض لوگ لمبی مدت تک بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھا لیتے، یا مدت کی تعیین کیے بغیر ہمیشہ کے لیے قسم کھالیتے، وہ بیچاری لٹکی رہتی، نہ خاوند والی نہ بغیر خاوند کے کہ کہیں اور نکاح کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس ظلم کا خاتمہ فرمایا۔ اب اگر کوئی چار ماہ سے زائد مدت کے لیے، یا مدت مقرر کیے بغیر قسم کھالے تو ایسے شخص کے لیے اس آیت میں چار ماہ کی مدت مقرر کردی گئی ہے کہ یا تو اس مدت کے پورا ہوتے ہی اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے، یا پھر سیدھی طرح سے طلاق دے دے۔ پہلی صورت اختیار کرے گا تو اسے کفارہ دینا ہوگا اور اگر وہ دونوں میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہ کرے تو حاکم وقت اسے مجبور کرے گا کہ دونوں میں سے ایک اختیار کرے۔ صرف چار ماہ گزرنے سے خود بخود طلاق واقع نہیں ہوگی۔ آیت کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے اور امام بخاری (رض) نے ” کِتَاب الطَّلاَقِ (٥٢٩١) “ میں ابن عمر، عثمان، علی، ابو درداء، عائشہ (رض) اور ان کے علاوہ بارہ صحابہ سے یہ قول ذکر فرمایا ہے۔ اکثر ائمہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- حکم نمبر ٢٢ ایلاء کا حکم :- لِلَّذِيْنَ يُؤ ْلُوْنَ (الی قولہ) سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ یعنی جو لوگ (بلا قید مدت یا چار ماہ یا زائد مدت کے لئے) قسم کھا بیٹھتے ہیں اپنی بیبیوں کے پاس جانے سے ان کیلئے چار مہینے تک کی مہلت ہے سو اگر (ان چار مہینے کے اندر) یہ لوگ (اپنی قسم کو توڑ کر عورت کی طرف) رجوع کرلیں (تب تو نکاح باقی رہے گا اور) اللہ تعالیٰ (ایسی قسم کو توڑنے کا گناہ کفارہ سے) معاف کردیں گے (اور چونکہ اب بی بی کے حقوق ادا کرنے لگا اس پر) رحمت فرمادیں گے اور اگر بالکل چھوڑ ہی دینے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے ( اور اس لئے چار ماہ کے اندر قسم توڑ کر رجوع نہیں کیا) تو (چار ماہ گذرتے ہی قطعی طلاق پڑجاویں گی اور) اللہ تعالیٰ (ان کی قسم کو بھی) سنتے ہیں اور ان کے اس پختہ ارادے کو بھی) جانتے ہیں (اس لئے اس کے متعلق حکم مناسب ارشاد فرمایا)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ۝ ٠ ۚ فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٢٢٦- إيلاء - وحقیقة الإيلاء والأليّة : الحلف المقتضي لتقصیر في الأمر الذي يحلف عليه . وجعل الإيلاء في الشرع للحلف المانع من جماع المرأة، وكيفيته وأحكامه مختصة بکتب الفقه .- ایلاء والیۃ اس کو کہتے ہیں جس پر ( قسم کھانے والے کو ) تکلیف اور کوتاہی کا سامنا کرنا پڑے اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس قسم کو کہتے ہیں جو عورت کے ساتھ جماع پر اٹھائی جائے اس قسم کو کیفیت اور احکام کا بیان کرنا کتب فقہ کے ساتھ مختص ہے۔ - یؤلون - ۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ ایلاء ( افعال) وہ عورتوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھاتے ہیں۔ ایلاء والیہ۔ اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں کہ جس پر قسم کھانے والے کو تکلیف اور کوتاہی کا سامنا کرنا پڑے۔ اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس قسم کو کہتے ہیں جو عورت کے ساتھ جماع نہ کرنے پر اٹھائی جائے۔ - الوت فی الامر۔ کے معنی ہیں کسی کام میں کوتاہی کرنا۔ قسم کھانے کے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے۔ ولا یاتل اولو الفضل منکم (24:22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل ( اور صاحب وسعت) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- ربص - التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة 228] - ( ر ب ص ) التربص - کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں - شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - فيأ - الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] - ( ف ی ء )- الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ایلاء کا بیان - قول باری والذین یویون من نساء ھم تربص اربعۃ اشھر جو لو اپنی بیویوں سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ان کے لئے مہلت چار ماہ تک ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لغت میں ایلاء حلف کو کہتے ہیں۔ چناچہ عرب کہتے ہیں الی یولی ایلاء والیۃ) کثیر کا شعر ہے۔ قلیل الا لا یا حافظ لیمینہ و ان مدرت منہ الایہ برت۔۔ میرا ممدوح بہت کم قسمتیں کھاتا ہے لیکن اپنی کھائی ہوئی قسم کی حفاظت پوری طرح کرتا ہے اور اگر اس کے منہ سے کوئی قسم نکل جائے تو وہ پوری ہوسکتی ہے۔ لغت میں ایلاء کے اصل معنی یہی ہیں۔ شریعت میں ایلاء بیوی کے ساتھ ہمبستری ترک کرنے کی قسم کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں مدت گزرنے کے ساتھ ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ حتی کہ اگر کوئی شخص یہ فقرہ کہے ” آلی فلان من امراتہ (فلاں نے اپنی بیوی سے ایلا کرلیا) تو اس سے درج بالا مفہوم ہی سمجھ میں آتا ہے۔ ایک شخص کس قسم کی قسم کھا کر ایلاء کرنے والا (مولی) بنتا ہے۔ اس کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو وہ صورت ہے جس کی روایت حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے حسن بصری اور عطاء بن ابی رباح نے کی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ وہ رضاعت کی بنا پر عورت سے قربت نہیں کرے گا تو ایسا شخص مولی نہیں ہوگا۔- مولی صرف اس وقت بنے گا جب غصے کی بنا پر اہ ربیوی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے قسم کھائے کہ وہ اس کے ساتھ ہمبستری نہیں کرے گا۔ دوسری روایت حضرت ابن عباس (رض) سے ہے کہ ہر وہ قسم جو جماع کے لئے رکاوٹ بن جائے ایلاء ہے۔ اس کے اندر رضا اور غضب کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے یہی ابراہیم نخعی، ابن سیرین اور شعبی کا قول ہے۔ تیسری وہ صورت ہے جس کی روایت سعید بن المسیب سے کی گئی ہے کہ اس کا تعلق جماع اور غیر جماع جیسی باتوں سے ہے مثلا یہ قسم کھالے کہ وہ بیوی سے بات نہیں کرے گا اس سے وہ شخص مولی بن جائے گا۔ جعفر بن برقان نے یزیدبن الاصم سے یہ نقل کیا ہے کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کرلیا پھر میری ملاقات حضرت ابن عباس (رض) سے ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے اس کے اخلاق و عادات اچھے نہیں ہیں۔ یہ سن کر میں نے کہا ” بخدا وہ جا چکی ہے اور اب میں اس سے بات تک بھی نہیں کروں گا “۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ” چار ماہ گزرنے سے پہلے پہلے تم اس کے پاس چلے جائو “۔ حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول سعید بن المسیب کے قول اور حضرت ابن عمر (رض) کے اس قول کی موافقت پر دلالت کرتا ہے کہ قسم کھائے بغیر کنارہ کشی بھی ایلاء کی ایک صورت ہے۔ چوتھی صورت وہ ہے جو حضرت ابن عمر (رض) کے اس قول پر مشتمل ہے کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا اور اس سے کنارہ کشی کرلی تو یہ ایلاء ہے حضرت ابن عمر (رض) نے اس میں قسم اٹھانے کا ذکر نہیں کیا۔- جن لوگوں نے بیوی کو نقصان پہنچانے کی خاطر ترک جماع اور نقصان نہ پہنچانے کے ارادے سے اس کے ترک میں فرق کیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ جماع عورت کا حق ہے جس کا وہ مطالبہ بھی کرسکتی ہے اور شوہر کو اسے اس حق سے محروم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس لئے اگر وہ قسم کھا کر بیوی کے حق جماع کا تارک بن جائے گا تو وہ مولی ہوگا یہاں تک کہ بیوی اپنی علیحدگی کے حق تک پہنچا جائے اس لئے کہ مرد کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ اسے معروف طریقے سے اپنی بیوی بنائے رکھے یا حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چھوڑ دے۔ اگر ترک جماع سے اس کا ارادہ کسی بھلائی کا ہو مثلا بیوی بچے کو دودھ پلاتی ہو اور شوہر اس سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھالے تاکہ ہمبستری سے دودھ خراب ہوجانے کی بنا پر بچے کو نقصان نہ پہنچے۔ تو اس صورت میں بیوی کو اس کے حق سے محروم کرنے کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی معروف طریقے سے اسے بیوی بنائے رکھنے کی کوئی خلاف ورزی ہوگی۔ اس لئے تیسری بات یعنی بھلے طریقے سے اسے چھوڑ دینا اس پر لازم نہیں آئے گی اور نہ ہی اس کی اس قسم کی بنا پر جدائی کا حکم متعلق ہوگا۔ قول باری فان فادا قا ن اللہ غفوررحیم۔ اگر وہ پلٹ آئیں تو اللہ غفور ورحیم ہے) سے ان لوگوں کا استدلال ہے جو ایلاء کی قسم میں نقصان پہنچانے کے قصد کو بھی شامل کرتے ہیں اس لئے کہ یہ قول باری اس کا مقتضی ہے کہ وہ ایسی قسم کھا کر گنہگار بن جائے کہ اب اس کا رجوع کرلینا اس کے گناہ کی بخشش کا متقاضی ہو۔ ہمارے نزدیک یہ آیت مذکورہ بالا شخص کی تخصیص پر دلالت نہیں کرتی اس لئے کہ آیت ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایلاء کرتے ہیں اور یہ شخص (یعنی نقصان پہنچانے کے ارادے سے ایلاء کرنے والا) بھی ان میں سے ایک ہے اس لئے بخشش کا حکم صرف اس کی طرف لوٹا ہے دوسروں کی طرف اس کا رجوع نہیں ہوا۔ ایلاء کے معاملے میں مطیع اور عاصی یعنی فرمانبردار اور نافرمان دنوں کی حالت کی یکسانیت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ قسم توڑنے کی صورت میں دونوں پر ہی کفارہ لازم آتا ہے۔ اسی طرح مدت گزر جانے پر طلاق کے ایجاب کے سلسلے میں ان دونوں کا یکساں ہونا واجب ہے۔ نیز ایسی تمام قسمیں جو سچے ارادے سے کھائی جاتی ہیں ان میں فرمانبردار اور نافرمان کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا اس لئے کہ جہاں تک کفارہ کے وجوب کا تعلق ہے وہ دونوں صورتوں میں واجب ہو کر رہتا ہے۔ اس لئے طلاق کا حکم بھی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہونا چاہیے کیونکہ کفارہ اور طلاق دونوں ہی کا تعلق قسم کے ساتھ ہوتا ہے ایک اور پہلو بھی ہے خواہ کسی نے نقصان پہنچانے کے ارادے سے اپنی بیوی کو طلاق دی ہو یا نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہو جہاں تک رجوع کا تعلق ہے۔- اس کے لحاظ سے دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں ایلاء کی صورت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اس لئے کہ آیت نے مطیع اور عاصی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے اس لئے آیت سب کو عام ہے تاہم فقہائے امصار اس سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی قسم میں بیوی کو اس طرح تنگ کرنے کا ارادہ کرے کہ اس کے ساتھ بول چال وغیرہ بند کر دے تو وہ مولی ہوجائے گا۔ ان کا یہ قول بےمعنی ہے اس لئے کہ قول باری للذین یولون من نساء ھم۔ کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ اس میں ترک جماع کی قسم پوشیدہ ہے۔ کیونکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ترک جماع کی قسم کھانے والا مولی ہوتا ہے اس لئے ترک جماع کو سب کے نزدیک آیت میں پوشیدہ مانا جائے گا جسے ہم نے ثابت کردیا۔- اب اس کے سوا دوسری باتیں مثلا ترک کلام وغیرہ تو آیت میں اسے پوشیدہ ماننے کے لئے کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اس لئے اسے پوشیدہ نہیں مانا جائے گا۔ ہماری اس بات پر یہ قول باری فان فاوافان اللہ غفور رحیم) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے سب کے نزدیک پلٹنے اور واپس ہونے سے مراد ہمبستری ہے سلف میں اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری للذین یولون من نسائھم) میں جو بات پوشیدہ ہے وہ جماع ہے اس کے سوا اور کوئی چیز مثلاً کلام وغیرہ پوشیدہ نہیں ہے۔ رہ گئی وہ روایت جو حضرت ابن عمر (رض) سے ہے کہ ہجران یعنی کنارہ کشی طلاق کو واجب کردیتی ہے۔ تو یہ قول شاذ ہے تاہم اس میں اس کی گنجائش ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اس سے یہ مراد لی ہو کہ جب کوئی شخص قسم کھالے اور پھر ایلاء کی مدت میں اس سے کنارہ کش رہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن اس تاویل کے باوجود حضرت ابن عمر (رض) کا یہ قول کتاب اللہ کے خلاف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا للذین یولون من نساء ھم اور لفظ الیہ کا معنی حلف یا قسم ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اب بیوی کو چھوڑ دینا یا اس سے علیحدہ رہنا قسم نہیں ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ کفارہ کے وجوب کا تعلق نہیں ہوگا۔ اشعث نے روایت کی ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) کے پاس ایک عورت تھی جو بڑی بدخلق تھی۔ حضرت انس پانچ یا چھ مہینے اس سے الگ رہتے پھر اس کے پاس آجاتے لیکن آپ اسے ایلاء نہیں سمجھتے تھے۔ سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہائے امصار میں اس مدت کے متعلق اختلاف ہے۔ جس کی قسم کھا کر ایک شوہر مولی بن سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور سعید بن جبیر (رض) کا قول ہے کہ اس نے چار ماہ سے کم مدت کی قسم کھائی اور چار ماہ ہمبستری سے باز رہا تو وہ مولی نہیں ہوگا۔ یہی ہمارے اصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اوزاعی کا قول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، ابراہیم نخعی، الحکم، قتادہ اور حماد بن ابی سلمہ کا قول ہے کہ وہ مولی ہوجائے گا اگر وہ اس سے چار ماہ تک علیحدہ رہے گا۔ اس کے بعد وہ عورت طلاق بائن کی وجہ سے اس سے علیحدہ ہوجائے گی۔ ابن شیرمہ اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے حسن بن صالح نے مزید کہا ہے کہ اسی طرح اگر کسی نے یہ قسم کھائی کہ وہ اپنی بیوی سے اس گھر میں قربت نہیں کرے گا تو وہ مولی بن جائے گا۔- اگر اس نے اسے چار ماہ چھوڑے رکھا تو وہ ایلاء کی بنا پر بائن ہوجائے گی۔ اگر اس نے کسی اور گھر میں مدت گزرنے سے پہلے اس سے قربت کرلی تو ایلاء ساقط ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے یہ قسم اٹھالی کہ وہ اس گھر میں داخل نہیں ہوگا جبکہ اس گھر میں اس کی بیوی رہتی ہو اور اس نے بیوی کی خاطر یہ قسم اٹھائی ہو تو وہ مولی بن جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے للذین یولون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر) ایلاء قسم کو کہتے ہیں۔ ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ قسم کے بغیر ترک جماع سے ایلاء کا حکم نہیں لگتا۔ اگر کوئی شخص ترک جماع کی قسم کھالے اور مدت چار ماہ سے کم ہو، پھر قسم کی مدت گزر جائے تو وہ باقی ماندہ مدت میں بھی تارک جماع ہوگا لیکن یہ باقی ماندہ مدت قسم کے بغیر گزرے گی اور قسم کے بغیر ترک جماع کا عورت کے بائن ہونے کے وجوب پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ نیز چار ماہ سے کم کی مدت سے بھی بائن ہونے کا حکم عائد نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لئے مہلت کی مدت چار ماہ رکھی ہے اس کے بعد اب علیحدگی کو واجب کرنے کے لئے کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی اور شوہر کی حیثیت اس شخص جیسی ہوجاتی ہے جو قسم کے بغیر جماع سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ اس لئے اسے ایلاء کا حکم لاحق نہیں ہوگا۔ حسن بن صالح کا یہ قول بےمعنی ہے کہ اگر وہ یہ قسم کھالے کہ اس گھر میں بیوی سے قربت نہیں کرے گا تو اس صورت میں وہ مولی بن جائے گا۔- اس لئے کہ ایلاء ہر اس قسم کو کہتے ہیں جو بیوی کے متعلق کھائی جائے اور جو چار ماہ تک اس کے ساتھ ہمبستری سے مانع ہوجائے اور وہ یہ قسم بھی نہ توڑے جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔ اب اس شخص کی کھائی ہوئی یہ قسم ایسی ہے جو اس مدت میں بیوی سے ہمبستری کے راستے میں اس کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے اس لئے کہ قسم توڑے بغیر اس کے لئے بیوی سے قربت ممکن ہے مثلا یہ کہ کسی اور گھر میں اس سے قربت کرلے۔ جو شخص پورے چار ماہ ترک جماع کی قسم کھالے اس کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف ہے امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ ایسا شخص مولی ہوگا اور اگر اس مدت کے اندر اس سے قربت نہیں کرے گا یہاں تک کہ مدت گزر جائے تو ایلاء کی بنا پر عورت بائن ہوجائے گی۔ عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل جاہلیت کا ایلاء کا ایک یا دو سال کا ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے اس کی مدت چار ماہ مقرر کردی۔ اب جس شخص کا ایلاء اس سے کم مدت کا ہوگا وہ مولی نہیں کہلائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ اگر اس نے چار ماہ کی قسم کھائی تو مولی نہیں بنے گا۔ چار ماہ سے زائد کی قسم پر وہ مولی قرار پائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر کتاب اس قول کی تردید کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا للذین یولون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر) اللہ تعالیٰ نے اس مدت کی مہلت کو پلٹنے اور رجوع کرلینے کی مدت قرار دی۔ اس سے زائد مدت کو نہیں اب جو شخص اس مدت میں قسم کی وجہ سے ہمبستری سے باز رہا اس نے ایلاء کا حکم یعنی طلاق کی راہ ہموار کردی۔ اس لحاظ سے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا خواہ اس نے ترک جماع کے لئے چار ماہ کی قسم کھائی ہو یا اس سے زائد مدت کی۔ اس لئے کہ زائد مدت اس کے لئے مہلت کی مدت نہیں ہے۔ معہذاظاہر کتاب ایسے شخص کے مولی بننے کا متقاضی ہے خواہ اس نے چار ماہ یا اس سے کم یا اس سے زائد مدت کی قسم کھائی ہو۔ اس لئے کہ حلف کی مدت کا آیت میں ذکر نہیں ہے پھر ہم نے چار ماہ سے کم مدت کی تخصیص دلالت کی بنا پر کی ہے۔ اس لئے لفظ کا حکم چار ماہ یا اس سے زائد مدت کے لئے بحالہ باقی رہے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ اگر کسی نے پورے چار ماہ کی قسم کھائی تو اس کے ساتھ طلاق کا تعلق درست نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آپ اس مدت کے گزرنے پر طلاق واقع کرتے ہیں لیکن مدت گزرنے کے بعد ایلاء کا وجود نہیں ہے۔ اس لئے طلاق واقع کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ طلاق واقع کرنا ممتنع نہیں ہے اس لئے مدت کا گزر جانا جب ایقاع طلاق کا سبب ہے تو وقوع طلاق کے وقت قسم کے باقی رہنے کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ سال کا گزر جانا جب وجوب زکواۃ کے لئے سبب قرار پایا تو اب ضروری نہ رہا کہ وجوب کے وقت سال بھی موجود ہو کیونکہ اس وقت گزر کر معدوم ہوچکا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تونے اگر فلاں شخص کے ساتھ گفتگو کی تو تجھے طلاق تو اس قول کی حیثیت سچے دل سے کھائی ہوئی قسم کی ہوگی۔ اگر عورت نے اس شخص سے گفتگو کرلی تو فوری طور پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ حالانکہ عورت کے حق میں کھائی ہوئی قسم گزر گئی اور ختم ہوگئی۔ اسی طرح جب ایلاء میں مدت کا گزر جانا وقوع طلاق کا سبب ہے تو قسم کی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہونے میں کوئی امتناع نہیں ہوگا۔ قول باری ہے فان فاوا فان اللہ غفور رحیم) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لغت میں الفی کسی چیز کی طرف رجوع کو کہتے ہیں۔ قول باری حتی لفی الی امر اللہ فان فائوت فاصلحوا بینھما بالعدل۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔- اگر وہ یعنی زیادتی کرنے والا گروہ رجوع کرلے تو ان دونوں گروہوں کے درمیان انصاف کی روشنی میں صلح کرا دو ) یعنی وہ گروہ زیادتی سے انصاف کی طرف رجوع کرے جو کہ حکم خداوندی ہے۔ اب جبکہ الفی کا معنی کسی چیز کی طرف رجوع کرنا ہے تو آیت میں موجود لفظ کے ظاہر کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو نقصا ن پہنچانے کی خاطر اس سے جماع نہ کرنے کی قسم کھالی ہو پھر اس سے یہ کہدے کہ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور تیرے ساتھ ہمبستری نہ کرنے کا میں نے ارادہ کیا تھا اس سے باز آتا ہوں تو اس کا یہ کہنا رجوع کرنا قرار پائے گا خواہ وہ ہمبستری پر قدرت کھتا ہو یا اس سے عاجز ہو۔ یہ تو لفظ کا مقتضی ہے تاہم اہل علم اس پر متفق ہیں کہ اگر شوہر کو بیوی تک رسائی ممکن ہو تو ہمبستری کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی شخص نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی سے ایلاء کرلیا یا اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جسے طے کرنے میں چار ماہ لگتے ہوں یا بیوی کے اندام نہانی کا راستہ بند ہو یا بیوی نابالغ اور کم سن ہو یا خود شوہر کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو تو ان تمام صورتوں میں ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ زبانی طور پر اگر وہ رجوع کرلیتا ہے اور مدت گزر جاتی ہے لیکن عذر موجود رہتا ہے تو اس کا یہ رجوع درست ہوگا اور مدت گزرنے پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگر شوہر نے حج کا احرام باندھ رکھا ہو اور ابھی حج میں چار ماہ باقی ہوں تو ایسی صورت میں جماع کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع نہیں ہوسکتا امام زفر کا قول ہے کہ اس صورت میں بھی قول کے ذریعے رجوع ہوسکتا ہے۔ ابن القاسم کا قول ہے کہ جب شوہر ایلاء کرے اور بیوی اتنی چھوٹی ہو کہ اس جیسی کے ساتھ جماع نہیں کیا جاسکتا ہو تو شوہر مولی قرار نہیں پائے گا یہاں تک کہ بیوی جماع کے قابل ہوجائے اور اس کے بعد چار ماہ کی مدت گزر جانے پر اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے گا۔- یہ ابن القاسم بن عمرو کی اپنی رائے ہے۔ انہوں نے امام مالک سے اس کی روایت نہیں کی ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر مولی کو چار ماہ کی مدت گزرنے پر بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے کہ یا تو رجوع کرلو یا طلاق دے دو پھر وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے تو اگر اس نے اس سے ہمبستری نہیں کی یہاں تک کہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی تو اب اس کے لئے اپنی بیوی کو حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا اور نہ ہی اب رجوع ہو سکے گا۔ البتہ اگر اسے کوئی عذر ہو مثلا وہ بیمار ہو یا قید میں ہو یا اسی قسم کی کوئی اور مجبوری ہو تو اس کا رجوع ثابت ہوجائے گا۔ اگر اس کی عدت گزرنے کے بعد وہ اس سے نکاح کرلیتا ہے اگر اس کے بعد بھی وہ اس سے ہمبستری نہیں کرتا ہے یہاں تک کہ چار ماہ کا عرصہ گزر جاتا ہے تو پھر بھی اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے کہ یا تو رجوع کرلو یا طلاق دے دو ۔ اسماعیل بن اسحاق نے کہا ہے کہ امام مالک کا قول ہے کہ اگر چار ماہ گزر جائیں اور وہ بیمار یا قید میں ہو تو جب تک صحت یاب نہ ہوجائے اسے بذریعہ عدالت مطلع نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اسے اس چیز کا مکلف نہیں بنایا جائے گا جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ امام مالک کا یہ بھی قول ہے کہ اگر چار ماہ کی مدت گزر جائے اور وہ موجود نہ ہو تو اگر چاہے تو کفارہ ادا کر دے اس صورت میں اس کا ایلاء ساقط ہوجائے گا۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ امام مالک نے اس خاص مسئلے میں یہ بات اس لئے کہی ہے کہ ان کے نزدیک قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا جائز ہے اگرچہ قسم توڑنے کے بعد کفارہ ادا کرنا ان کے نزدیک مستحب ہے۔ اشجعی نے سفیان ثوری سے مولی کے متعلق یہ نقل کیا ہے کہ اگر اسے بیماری بڑھاپے یا قید کی مجبوری ہو یا بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو تو اسے چاہیے کہ زبانی طور پر رجوع کرے۔ مثلا یوں کہے کہ میں تیری طرف لوٹ آیا “۔ اس کا یہ کہنا کافی ہوجائے گا۔ یہی حسن بن صالح کا بھی قول ہے اوزاعی کا قول ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ایلاء کرلے پھر بیمار پڑجائے یا سفر پر چلا جائے اور پھر جماع کے بغیر اپنے رجوع پر گواہی قائم کرلے جبکہ وہ بیمار یا سفر پر ہو اور اس میں جماع کرنے کی قدرت نہ ہو تو اس کا رجوع ہوجائے گا۔ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے گا اور وہ عورت اس کی بیوی رہے گی۔ اسی طرح اگر عورت کے ہاں چار ماہ کے دوران بچہ پیدا ہوگیا یا حیض آگیا یا شوہر کو حاکم نے علاقہ بدرکر دیا تو وہ رجوع پر گواہی قائم کر دے گا اور اس کا ایلاء ختم ہوجائے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر ایلاء کرنے کے بعد بیمار پڑگیا اور پھر چار ماہ کی مدت گزر گئی تو جس طرح تندرست آدمی کو مطلع کیا جاتا ہے اسے بھی بذریعہ عدالت مطلع کر کے کہا جائے گا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے اور اس کام کو اس کے تندرست ہونے تک موخر نہیں کیا جائے گا مزنی نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اگر ایسا شخص جس کا آلہ تناسل مقطوع ہو اپنی بیوی سے ایلاء کرلے تو اس کا رجوع زبانی الفاظ کے ذریعے ہوگا۔ امام شافعی نے اپنے امالی (ایسی کتاب جو کسی کے ایلاء کرائے ہوئے اقوال پر مشتمل ہو) میں کہا ہے کہ اس شخص کا کوئی ایلاء نہیں ہوتا جس کا آلہ تناسل کاٹ دیا گیا ہو۔ ان کا یہ قول بھی ہے کہ اگر بیوی بچی ہو اور وہ اس سے ایلاء کرلے تو جب وہ جماع کے قابل ہوجائے گی اس کے بعد چار ماہ کی مدت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کوئی قیدی ہو تو زبانی الفاظ کے ذریعے اس کا رجوع ثابت ہوجائے گا۔- اگر ایلاء کرنے کے بعد احرام باندھ لے تو اب جماع کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع ثابت نہیں ہو سکے گا۔ اگر بیوی باکرہ ہو اور مولی یہ کہے کہ مجھے اس کی بکارت زائل کرنے کی قدرت نہیں ہے تو اسی صورت میں اسے اتنی مہلت دی جائے گی جتنی ایک نامرد کو دی جاتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر کوئی مولی چار ماہ کی مدت کے اندر جماع کرنے کی قدرت حاصل نہ کرسکے تو اس کا رجوع زبانی الفاظ کے ذریعے ثابت ہوجائے گا۔ اس کی دلیل قول باری فان فائو قان اللہ غفور رحیم ہے۔ یہ شخص زبانی طور پر رجوع کرچکا اس لئے کہ لفظ الفی کا معنی کسی چیز کی طرف رجوع کرنا ہے۔- یہ شخص بیوی سے جماع کرنے سے قول یعنی قسم کے ذریعے رکا تھا۔ اب جب قول کے ذریعے رجوع کرے مثلا یوں کہے میں تمہاری طرف لوٹ آیا “ تو گویا اس نے اپنی ذات کو قول یعنی قسم کے ذریعے جس چیز سے روکا تھا اس سے واپس ہو کر اس کی ضد کو اختیار کرلیا، اس لئے آیت کا عموم اس کو شامل ہوجائے گا۔ نیز جب بیوی سے جماع کرنا متعذر ہو تو اس صورت میں شوہر کا قول وطی کے قائم مقام ہو کر بیوی کو بائن ہونے سے روک دیتا ہے۔ یہ بات بھی ہمارے دعوے کی تائید میں ہے۔ البتہ حیض یا احرام کی وجہ سے وطی کی تحریم تو یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ احرام تو اس لئے نہیں کہ وہ وطی کا عمل کیا کرتا تھا اور احرام کی وجہ سے یہ عمل ساقط نہیں ہوسکتا جو کہ دراصل بیوی کا حق ہے۔ حیض اور نفاس بھی کوئی عذر اس لئے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مولی کو چار ماہ مہلت دی تھی اور اسے اس بات کی خبر تھی کہ اس مدت میں اسے حیض بھی آئے گا۔ اور سلف کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں ” فی “ سے مراد جماع ہے بشرطیکہ جماع کا امکان ہو، اس لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ جماع کا امکان ہوتے ہوئے وہ فی کو کسی اور چیز کی طرف منتقل کر دے، وطی کی تحریم سے وطی کا امکان ختم نہیں ہوتا اس لئے حیض اور نفاس کی صورت احرام اور ظہار وغیرہ کی صورت جیسی ہوجائے گی اس لئے کہ اسے وطی سے تحریم وطی کی بنا پر روک دیا گیا تھا عجز اور تعذر کی بنا پر روکا نہیں گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تحریم کی صورت میں بھی جماع کے سلسلے میں عورت کا حق باقی رہتا ہے ساقط نہیں ہوتا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر شوہر نے خلع کی وجہ سے بیوی کو بائن کردیا جبکہ اس نے اس سے ایلاء بھی کیا ہو تو اس طرح واقع ہونے والی تحریم اس کے زبانی رجوع کے جواز کی موجب نہیں ہوگی لیکن اگر اس نے اس حالت میں اس سے جماع کرلیا تو ایلا باطل ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب زبانی طور پر رجوع کرنا قسم کو ساقط نہیں کرتا تو اس کا باقی رہنا واجب ہے کیونکہ اس کے اسقاط میں زبانی طور پر رجع کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔- اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اس وجہ سے واجب نہیں ہے کہ طلاق کے تعلق کی جہت سے یہ جائز ہے کہ قسم باقی رہ جائے اور ایلاء باطل ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ اسے تین طلاق دے دے اور پھر وہ کسی اور شخص سے نکاح کرنے کے بعد دوبارہ اس کے عقد میں آجائے تو اس صورت میں بھی اس کی قسم باقی رہے گی کہ اگر وہ اس کے ساتھ ہمبستری کرے گا تو حانث ہوجائے گا اور اس قسم کی وجہ سے اسے کوئی طلاق لاحق نہیں ہوگی اگرچہ اس نے اس سے وطی کرنا چھوڑ ہی کیوں نہ رکھا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت سے یہ کہے ” بخدا میں تجھ سے قربت نہیں کروں گا “ تو یہ ایلاء نہیں ہوگا لیکن اگر اس کے بعد وہ اس سے نکاح کرلے گا تو قسم باقی رہے گی اور وطی کرنے کی صورت میں اس پر کفارہ لازم آئے گا اور وہ طلاق کے اعتبار سے مولی نہیں قرار پائے گا۔ اس لئے قسم کا باقی رہنا طلاق کے حکم کے اندر علت نہیں بنے گا۔ اسی وجہ سے یہ جائز ہے کہ وہ زبانی طور پر رجوع کرلے اس سے اس قسم میں طلاق ساقط ہوجائے گی اور وطی کی وجہ سے قسم ٹوٹ جانے کا حکم باقی رہے گا۔- ہمارے اصحاب نے زبانی طور پر رجوع کی صحت کے لئے پوری مدت میں عذر باقی رہنے کی شرط عائد کی ہے۔ اس مدت کے دوران کسی وقت بھی اگر اسے جماع کرنے پر قدرت حاصل ہوجائے گی تو اس صورت میں جماع کے سوا اور کسی طریقے سے اس کا رجوع درست نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبانی طور پر رجوع جماع کے قائم مقام ہوتا ہے۔ بشرطیکہ جماع کی صورت معدوم ہوتا کہ مدت گزرنے کے ساتھ طلاق واقع نہ ہوجائے۔ اس لئے مدت کے اندر جس وقت بھی اسے جماع پر قدرت حاصل ہوجائے گی تو زبانی طور پر رجوع کی سہولت باطل ہوجائے گی۔ جس طرح کہ تیمم کرنے والے کے تیمم کو نماز کی اباحت کے لئے پانی کے ذریعہ طہارت کے قائم مقام بنادیا جاتا ہے۔ اور نماز سے فراغت سے پہلے جس وقت بھی اسے پانی میسر آجاتا ہے اس کا تیمم باطل ہوجاتا ہے اور حکم اصل فرض کی طرف لوٹ آتا ہے خواہ پانی کا وجود نماز کی ابتداء میں ہوجائے یا نماز کے آخر میں۔ ٹھیک اسی طرح مدت ایلاء کے اندر وطی پر قدرت زبانی طور پر رجوع کی سہولت کو باطل کردیتی ہے۔ امام محمد کا قول ہے کہ مدت کے اندر عذر کی موجودگی کی وجہ سے جب وہ زبانی طور پر رجوع کرلے پھر مدت ختم ہوجائے اور عذر باقی رہے تو ایلاء کا حکم باطل ہوجائے گا اور اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجائے گی جو کسی اجنبی عورت سے قربت نہ کرنے کی قسم کھالے پھر اس کے ساتھ نکاح کرلے تو قسم باقی رہے گی اور وطی کی صورت میں اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور اگر وہ چار ماہ تک اس سے جماع نہ کرے تو عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢٦۔ ٢٢٧) اور حضرات یہ قسم کھالیں کہ چار مہینے یا اس سے زیادہ تک بیوی کے پاس نہیں جائیں گے، پھر اپنی عورت سے ہمبستری کرنے کو چھوڑ دیں تو وہ چار ماہ تک انتظار کریں، پھر اگر وہ چار ماہ سے پہلے اپنی عورت سے صحبت کرلیں تو توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان کی قسم کے گناہ معاف کردے گا اور قسم کے کفارہ کو بھی اس نے بیان فرما دیا، اس کو ادا کردیں اور اگر طلاق کا پکا ارادہ کرلیں اور اپنی قسم پوری کردیں تو اللہ تعالیٰ اس قسم کو سننے والا ہے اور اس بات کو جاننے والا ہے کہ ان کی عورت چار ماہ کے گزرنے کے بعد ایک قطعی طلاق سے جدا ہوجائے گی۔- اور یہ حکم اس شخص کے بارے میں آیا ہے کہ جو اس بات کی قسم کھائے کہ اپنی بیوی سے چار ماہ یا اس سے زائد ہمبستری نہیں کروں گا، سو اگر اپنی قسم کو پورا کردے، اور چار ماہ گزرنے تک اس سے ہمبستری نہ کرے تو اس کی عورت ایک قطعی طلاق سے الگ اور جدا ہوجائے گی، اور اگر چار ماہ گزرنے سے پہلے بیوی کے ساتھ صحبت کرے، تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوجائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٦ (لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآءِہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ ج) ۔ - اگر کوئی مرد کسی وقت ناراض ہو کر یا غصے میں آکر یہ قسم کھالے کہ اب میں اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا ‘ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا ‘ تو یہ ایلاء کہلاتا ہے۔ خود آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی ازواج مطہرات سے ایلاء فرمایا تھا۔ ازواج مطہرات نے عرض کیا تھا کہ اب عام مسلمانوں کے ہاں بھی خوشحالی آگئی ہے تو ہمارے ہاں یہ تنگی اور سختی کیوں ہے ؟ اب ہمارے بھی نفقات بڑھائے جائیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ایلاء کیا۔ اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ عام طور پر ہوتا یہ تھا کہ لوگ قسم تو کھا بیٹھتے تھے کہ بیوی کے پاس نہ جائیں گے ‘ مگر بعد میں اس پر پچھتاتے تھے کہ کیا کریں۔ اب وہ بیوی بےچاری معلقّ ہو کر رہ جاتی۔ اس آیت میں ایلاء کی مہلت مقرر کردی گئی کہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک انتظار کیا جاسکتا ہے۔- (فَاِنْ فَآءُ وْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ۔ - ان چار ماہ کے دوران اگر وہ اپنی قسم کو ختم کریں اور رجوع کرلیں ‘ تعلق زن و شو قائم کرلیں تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :245 اصطلاح شرع میں اس کو ایلاء کہتے ہیں ۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوش گوار تو نہیں رہ سکتے ۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ لیکن ایسے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر رشتہ ازدواج میں تو بندھے رہیں ، مگر عملاً ایک دوسرے سے اس طرح الگ رہیں کہ گویا وہ میاں اور بیوی نہیں ہیں ۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چار مہینے کی مدت مقرر کر دی کہ یا تو اس دوران میں اپنے تعلقات درست کرلو ، ورنہ ازدواج کا رشتہ منقطع کر دو تاکہ دونوں ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جس سے نباہ کر سکیں ، اس کے ساتھ نکاح کرلیں ۔ آیت میں چونکہ”قسم کھالینے“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اس لیے فقہائے حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشا یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شو نہ رکھنے کی قسم کھائی ہو ، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہوگا ، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا ، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدت کے لیے ہو ، اس آیت کا حکم اس صورت پر چسپاں نہ ہوگا ۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئ ہو ، دونوں صورتوں میں ترک تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مدت ہے ۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے ۔ ( بدایۃ المجتہد ، جلد دوم ، ص ۸۸ ، طبع مصر ، سن ۱۳۳۹ ھ ) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اس ترک تعلق کے لیے ہے ، جو بگاڑ کی وجہ سے ہو ۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی رابطہ منقطع کر دینا ، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں ، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا ۔ لیکن دوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطہ جسمانی کو منقطع کر دے ، ایلاء ہے اور اسے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے ، خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :246 بعض فقہا نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ اگر وہ اس مدت کے اندر اپنی قسم توڑ دیں اور پھر سے تعلق زن و شو قائم کرلیں تو ان پر قسم توڑنے کا کفارہ نہیں ہے ، اللہ ویسے ہی معاف کر دے گا ۔ لیکن اکثر فقہا کی رائے یہ ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا ۔ غفورٌ رحیم کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کفارہ سے تمہیں معاف کر دیا گیا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہارے کفارے کو قبول کر لے گا اور ترک تعلق کے دوران میں جو زیادتی دونوں نے ایک دوسرے پر کی ہو ، اسے معاف کر دیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

عربوں میں یہ ظالمانہ طریقہ رائج تھا کہ وہ یہ قسم کھابیٹھتے تھے کہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جائیں گے، نتیجہ یہ کہ بیوی غیر معین مدت تک لٹکی رہتی تھی، نہ اسے بیوی جیسے حقوق ملتے تھے اور نہ وہ کہیں اور شادی کرسکتی تھی، ایسی قسم کو ایلاء کہا جاتا ہے، اس آیت نے یہ قانون بنادیا کہ جو شخص ایلاء کرے وہ یا تو چار مہینے کے اندر اندر اپنی قسم توڑ کر کفارہ ادا کرے اور اپنی بیوی سے معمول کے ازدواجی تعلقات بحال کرلے، ورنہ چار مہینے تک اگر اس نے اپنی قسم نہ توڑی توبیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی، آیت میں جوکہا گیا ہے کہ‘‘ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو ’’ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ چار مہینے قسم توڑے بغیر گزاردیں تونکاح خود بخود ختم ہوجائے گا۔