Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پھر فرماتا ہے جو قسمیں تمہارے منہ سے بغیر قصداً اور ارادے کے عادتاً نکل جائیں ان پر پکڑ نہیں ۔ مسلم بخاری کی حدیث میں ہے جو شخص لات اور عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے وہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) پڑھ لے ۔ یہ ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ان لوگوں کو ہوا تھا جو ابھی ابھی اسلام لائے تھے اور جاہلیت کے زمانہ کی یہ قسمیں ان کی زبانوں پر چڑھی ہوئی تھیں تو ان سے فرمایا کہ اگر عادتاً کبھی ایسے شرکیہ الفاظ نکل جائیں تو فوراً کلمہ توحید پڑھ لیا کرو تاکہ بدلہ ہو جائے ۔ پھر فرمایا ہاں جو قسمیں پختگی کے ساتھ دِل کی ارادت کے ساتھ قصداً کھائی جائیں ان پر پکڑ ہے ۔ دوسری آیت کے لفظ ( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ) 5 ۔ المائدہ:89 ) ہیں ، ابو داؤد میں بروایت حضرت عائشہ ایک مرفوع حدیث مروی ہے جو اور روایتوں میں موقوف وارد ہوئی ہے کہ یہ لغو قسمیں وہ ہیں جو انسان اپنے گھر بار میں بال بچوں میں کہہ دیا کرتا ہے کہ ہاں اللہ کی قسم اور انہیں اللہ کی قسم ، غرض بطور تکیہ کلام کے یہ لفظ نکل جاتے ہیں دِل میں اس کی پختگی کا خیال بھی نہیں ہوتا ، حضرت عائشہ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ دو قسمیں ہیں جو ہنسی ہنسی میں انسان کے منہ سے نکل جاتی ہیں ، ان پر کفارہ نہیں ، ہاں جو ارادے کے ساتھ قسم ہو پھر اس کا خلاف کرے تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا ، آپ کے علاوہ اور بھی بعض صحابہ اور تابعین نے یہی تفسیر اس آیت کی بیان کی ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ ایک آدمی اپنی تحقیق پر بھروسہ کر کے کسی معاملہ کی نسبت قسم کھا بیٹھے اور حقیقت میں وہ معاملہ یوں نہ ہو تو یہ قسمیں لغو ہیں ، یہ معنی بھی دیگر بہت سے حضرات سے مروی ہیں ، ایک حسن حدیث میں ہے جو مرسل ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیر اندازوں کی ایک جماعت کے پاس جا کھڑے ہوئے ، وہ تیر اندازی کر رہے تھے اور ایک شخص کبھی کہتا اللہ کی قسم اس کا تیر نشانے پر لگے گا ، کبھی کہتا اللہ کی قسم یہ خطا کرے گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نے کہا دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس کی قسم کے خلاف ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دو قسمیں لغو ہیں ان پر کفارہ نہیں اور نہ کوئی سزا یا عذاب ہے ، بعض بزرگوں نے فرمایا ہے یہ وہ قسمیں ہیں جو انسان کھا لیتا ہے پھر خیال نہیں رہتا ، یا کوئی شخص اپنے کسی کام کے نہ کرنے پر کوئی بد دعا کے کلمات اپنی زبان سے نکال دیتا ہے ، وہ بھی لغو میں داخل ہیں یا غصے اور غضب کی حالت میں بےساختہ زبان سے قسم نکل جائے یا حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر لے تو اسے چاہئے کہ ان قسموں کی پروا نہ کرے اور اللہ کے احکام کیخلاف نہ کرے ، حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انصار کے دو شخص جو آپس میں بھائی بھائی تھے ان کے درمیان کچھ میراث کا مال تھا تو ایک نے دوسرے سے کہا اب اس مال کو تقسیم کر دو ، دوسرے نے کہا اگر اب تو نے تقسیم کرنے کیلئے کہا تو میرا مال کعبہ کا خزانہ ہے ۔ حضرت عمر نے یہ واقع سن کر فرمایا کہ کعبہ ایسے مال سے غنی ہے ، اپنی قسم کا کفارہ دے اور اپنے بھائی سے بول چال رکھ ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی رشتے ناتوں کے توڑنے اور جس چیز کی ملکیت نہ ہو ان کے بارے میں قسم اور نذر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے تمہارے دِل جو کریں اس پر گرفت ہے یعنی اپنے جھوٹ کا علم ہو اور پھر قسم کھائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ) 5 ۔ المائدہ:89 ) یعنی جو تم مضبوط اور تاکید والی قسمیں کھا لو ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والا ہے اور ان پر علم و کرم کرنے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

225۔ 1 یعنی جو غیر ارادے اور عادت کے طور پر ہوں البتہ عملاً جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠١] اور اگر کفارہ ادا کر دے تو اس صورت میں بھی اللہ بخشنے والا ہے اور بلا ارادہ قسمیں کھانے پر مواخذہ کرنے پر بھی، قسم کا کفارہ ایک دوسرے مقام پر مذکور ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا انہیں پوشاک مہیا کرے یا غلام آزاد کرے یا تین دن کے روزے رکھے۔ (٨٩ ٥)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لغو قسموں سے مراد وہ قسمیں ہیں جو نیت کے بغیر عادت کے طور پر یوں ہی زبان سے نکل جاتی ہیں۔ ایسی قسموں پر کسی قسم کا کفارہ یا سزا نہیں ہے، ہاں جو قسمیں دل کے ارادے کے ساتھ کھائی جائیں کہ اللہ کی قسم میں یہ کام ضرور کروں گا، یا نہیں کروں گا اور پھر ان کی خلاف ورزی کی جائے تو ان پر کفارہ ہے، مگر کوئی شخص جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائے کہ میں نے یا فلاں نے یہ کام کیا ہے یا نہیں کیا تو یہ کبیرہ گناہ ہے۔ اس کا کفارہ نہیں صرف ندامت، آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد اور استغفار ہی اس کا علاج ہے۔ اسے ” یمین غموس “ کہتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- حکم نمبر ٢١ جھوٹی قسمیں کھانے کا حکم :- اللہ تعالیٰ تم پر آخرت میں دارو گیر نہ فرماویں گے تمہاری قسموں میں ایسی بیہودہ قسم پر (جس میں بلا قصد جھوٹ بولا گیا) لیکن دارو گیر فرماویں گے اس جھوٹی قسم پر جس میں تمہارے دلوں نے (جھوٹ بولنے کا) ارادہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ غفور ہیں (کہ ایسی بیہودہ قسم پر دارو گیر نہ فرمائی) حلیم ہیں (کہ قصدا جھوٹی قسم کھانے کی سزا میں آخرت تک کی مہلت دی )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝ ٢٢٥- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- لغو - اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم : عن اللّغا ورفث التّكلّم يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ 35] - ( ل غ و ) اللغو - ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیت تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات - يَمِينُ ) قسم)- في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ.- الیمین - بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] ، - ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے لایواخدکم اللہ باللغوفی ایمانکم ولکن اخذکم بما کسبت قلوبکم واللہ غفور حلیم۔ جو بےمعنی قسمیں تم بلا ارادہ کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ اللغو کا کئی مقام پر ذکر کیا ہے۔- اس لئے استعمال کے موقع و محل کی مناسبت سے اس سے مختلف معانی مراد لئے گئے ہیں قول باری ہے۔ لاتسمع فیھا لاغیہ۔ تم جنت میں کوئی فحش اور قبیح کلمہ نہیں سنو گے) یہاں لاغیۃ سے مراد فحش اور قبیح کلمہ ہے۔ اس طرح قول باری لایسمعون فیھا لغواً ولاتاثیماً ۔ وہ جنت میں کوئی لغو اور گناہ میں مبتلا کرنے والی بات نہیں سنیں گے) یہاں لفظ لغو کا وہی مفہومہ ہے جو پچھلی آیت میں لاغیۃ کا ہے۔ نیز قول باری ہے واذاسمعوا اللغوا عرضواعنہ اور جب کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں یہاں لغو سے مراد کفر اور کلام قبیح ہے۔ اسی طرح قول باری ہے والغوافیہ اور قرآن سننے کے درمیان غل مچا دیا کرو۔ یہاں اس سے مراد وہ شور و غل ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کہ سامعین کے ذہنوں کو قرآن سننے کی طرف سے مشغول کردیا جائے۔ اسی طرح قول باری ہے واذا مروا باللغومروکداما اور جب یہ کسی فضول چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو دامن بچا کر وقار سے گزر جاتے ہیں) یہاں لغو سے مراد فضول اور باطل گفتگو یا شئے ہے جب کوئی شخص بےفائدہ اور بےمعنی گفتگو کرے تو محاورے میں یہ فقرہ کہا جاتا ہے لغافی کلامہ اس نے فضول اور لایعنی باتیں کیں۔ بےمعنی قسم کے متعلق سلف سے کئی اقوال منقول ہیں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو کسی ایسی بات کی قسم کھا بیٹھتا ہے جس کے متعلق اس کا خیال ہو کہ وہ ایسی ہی ہوگی حالانکہ وہ ایسی نہیں ہوتی مجاہد اور ابراہیم نخعی سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ مجاہد نے قول باری ولکن یواخذکریما عقدتم الایمان۔ مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو اس کی وہ ضرور تم سے بازپرس کرے گا) کی تفسیر میں کہا ہے کہ تم جانتے ہوئے ایک چیز کی قسم کھا بیٹھو یہی معنی قول باری بما کسبت قلوبکم کا بھی ہے حضر ت عائشہ (رض) کا قول ہے کہ یمین لغویہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے ” لاو اللہ یا بلی واللہ (نہیں، بخدا نہیں یا بخدا کیوں نہیں) حضرت عائشہ (رض) سے یہ روایت مرفوعاً بھی نقل ہوئی ہے۔ ہمارے نزدیک اس سے مراد گزری ہوئی بات پر قسم کھانے سے روکنا ہے عطاء نے اس کے متعلق حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ کوئی شخص یہ کہے ” فعلنا واللہ کذایاصنعنا واللہ کذا، (بخدا ہم نے یہ کام کیا یا بخدا ہم نے یہ حرکت کی) حسن بصری اور شعبی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے اس کے متعلق سعید بن جبیر کا قول ہے یہ وہ شخص ہے جو کسی حرام کام کے کرنے کی قسم کھا لیتا ہے پھر وہ کام نہ کرنے پر اللہ اس کی گرفت نہیں کرتا “۔- آیت زیر بحث کی یہ تاویل قول باری عرضۃ لایمانکم کی اس تاویل کے مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی شخص کا قسم کے ذریعے ایک مباح فعل سے باز رہنا یا ممنوع فعل کر گزرنا ہے اب جبکہ لفظ لغو ان تمام معانی کا احتمال رکھتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنے قول ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم کا ماقبل کے قول پر عطف کر کے ایسی قسم مراد لی ہے جس کی گرہ دل میں جھوٹ اور خلاف واقعہ بات پر باندھی جائے۔ تو اس سے یہ واجب ہوجاتا ہے کہ آیت میں جس گرفت اور مواخذہ کا ذکر ہے وہ سزائے آخرت ہو اور اس قسم کے ٹوٹنے پر کفارہ لازم نہ آئے۔ اس لئے کہ اس کفار سے کا دل کے کسب سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اس کے ذریعے قاصد خیر اور قاصد شرودنوں کا حال یکساں ہوتا ہے نیز عمد اور سہو دونوں کا حکم بھی ایک جیسا ہوتا ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوگیا کہ آیت میں مذکورہ عقوبت سے مراد وہ سزا ہے جو اسے یمین غموس کا ارادہ کرنے پر ملے گی اور یمین غموس وہ قسم ہے جو وہ کسی گزشتہ فعل پر کھاتا ہے۔ اس قسم کا اٹھانے والا دراصل خلاف واقعہ بات کہہ کر جھوٹ کا ارادہ کرتا ہے اس لئے یمن لغو وہ قسم ہونی چاہیے جس میں جھوٹ کا ارادہ نہیں ہوتا۔ یہ گزرے ہوئے کسی فعل کے متعلق ہوتی ہے اور قسم اٹھانے والا یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے جس طرح کی قسم کھائی ہے واقعہ بھی یہی ہے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا نام لغو اس لئے رکھا ہے کہ کفارہ کے وجوب کے لحاظ سے اور نہ ہی سزا کے استحقاق کے لحاظ سے اس کے ساتھ کوئی حکم متعلق ہوتا ہے۔ یہی وہ قسم ہے جس کے مفہوم کی روایت حضرت عائشہ (رض) سے اور حضرت ابن عباس (رض) سے ہوئی ہے کہ کوئی شخص اپنی بات پیش کرتے ہوئے لاو اللہ یا بلی واللہ کہے اور یہ خیال کرے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے اس کی حیثیت اس لغو کلام کی سی ہوگی جو بےفائدہ ہوتا ہے اور جس کے ساتھ کسی حکم کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ ایک احتمال یہ بھی ہے آیت میں مذکورہ یمین سے اللہ نے وہ صورت مراد لی ہو جس کا ذکر سعید بن جبیر نے کیا ہے کہ ایک شخص کسی فعل حرام کی قسم اٹھالے اور پھر قسم پوری نہ کرنے پر اللہ اس کا مواخذہ نہ کرے۔ اس مواخذہ سے سعید بن جبیر کی مراد آخرت کی سزا ہے اگرچہ قسم توڑنے کی صورت میں اس پر کفارہ واجب ہوجائے گا مسروق کا قول ہے کہ ہر وہ قسم جسے قسم کھانے والا پوری نہ کرسکتا ہو یمین لغو ہے اس میں کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ یہ بات سعید بن جبیر کے قول اور ہماری کہی ہوئی بات کے موافق ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ قسم توڑنے پر سعید بن جبیر اس پر کفارہ واجب کرتے ہیں اور مسروق کفارہ واجب نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت بھی ہے وہ یہ کہ جس لغو قسم پر کفارہ واجب ہوجائے وہ یمین لغو ہے ضحاک سے بھی اسی قسم کی ایک روایت ہے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ بھول کر قسم توڑ دینے کا نام یمین لغو ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢٥) اللہ تعالیٰ تمہارے ترک احسان کے متعلق قسموں کو سنتا ہے اور تمہاری نیتوں اور قسموں کے کفارہ کی ادائیگی کو جانتا ہے، تمہاری فضول قسموں پر جیسا کہ خرید وفروخت کے وقت، لا واللہ، اور بلی واللہ، تم کہتے ہو کوئی کفارہ نہیں۔ لیکن جن قسموں میں تم اپنے خیالات دلوں میں پوشیدہ رکھ کے جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہو، اس پر اللہ تعالیٰ آخرت میں مواخذہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہاری ان فضول اور بیہودہ قسموں کی جو بغیر ارادہ کے نکل جائیں بخشش فرمانے والا ہے اور سزا کے بارے میں دانستہ جھوٹی قسموں پر جلدی بھی نہیں فرماتا، یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ گناہ کرنے کے لیے قسم کھانے کو لغو کہتے ہیں، اگر اس کو چھوڑ دے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے تو اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٥ (لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْ اَیْمَانِکُمْ ) - عربوں کا انداز گفتگو اس طرح کا ہے کہ واللہ ‘ باللہَ کے بغیر ان کا کوئی جملہ شروع ہی نہیں ہوتا۔ اس سے درحقیقت ان کی نیت قسم کھانے کی نہیں ہوتی بلکہ یہ ان کا گفتگو کا ایک اسلوب ہے۔ اس طرح کی قسموں پر مؤاخذہ نہیں ہے۔- (وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ ط) ۔ - ایسی قسموں کو توڑو گے تو کفارہّ دینا ہوگا۔ کفارے ّ کا حکم سورة المائدۃ میں بیان ہوا ہے۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ سورة البقرۃ میں شریعت اسلامی کا ابتدائی خاکہ دے دیا گیا ہے اور اس کے تکمیلی احکام کچھ سورة النساء میں اور کچھ سورة المائدۃ میں بیان ہوئے ہیں۔- (وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ) ۔ - وہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔ وہ فوراً نہیں پکڑتا ‘ بلکہ اصلاح کی مہلت دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :244 یعنی بطور تکیہ کلام کے بلا ارادہ جو قسمیں زبان سے نکل جاتی ہیں ، ایسی قسموں پر نہ کفارہ ہے اور نہ ان پر مواخذہ ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

147: لغو قسم سے مراد تو وہ قسم ہے جو قسم کھانے کے ارادے سے نہیں، بلکہ تکیۂ کلام کے طور سے زبان پر آجائے، خاص طور پر عربوں میں اس کا بہت رواج تھا کہ بات بات میں وہ ’’واللہ‘‘ کہہ دیتے تھے۔ اسی طرح بعض اوقات انسان ماضی کے کسی واقعے پر قسم کے ارادے ہی سے قسم کھاتا ہے، لیکن اس کے اپنے خیال کے مطابق وہ قسم صحیح ہوتی ہے، جھوٹ بولنے کا ارداہ نہیں ہوتا، لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جو بات قسم کھاکر کہی تھی، وہ حقیقت میں صحیح نہیں تھی، ان دونوں طرح کی قسموں کو لغو کہا جاتا ہے۔ اس آیت نے بتایا کہ اس پر گناہ نہیں ہوتا۔ البتہ انسان کو چاہئے کہ وہ قسم کھانے میں احتیاط سے کام لے، اور ایسی قسم سے بھی پرہیز کرے۔