Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قسم اور کفارہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی اور صلہ رحمی کے چھوڑنے کا ذریعہ اللہ کی قسموں کو نہ بناؤ ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) 24 ۔ النور:22 ) یعنی وہ لوگ جو کشادہ حال اور فارغ البال ہیں وہ قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے پر قسمیں نہ کھا بیٹھیں ، انہیں چاہئے کہ معاف کرنے اور درگزر کرنے کی عادت ڈالیں ، کیا تمہاری خود خواہش نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے ، اگر کوئی ایسی قسم کھا بیٹھے تو اسے چاہئے کہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کر دے ، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ ہم پیچھے آنے والے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے بڑھنے والے ہیں ، فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی ایسی قسم کھا لے اور کفارہ ادا نہ کرے اور اس پر اَڑا رہے وہ بڑا گنہگار ہے ، یہ حدیث اور بھی بہت سی سندوں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں ۔ حضرت مسروق وغیرہ بہت سے مفسرین سے بھی یہی مروی ہے ، جمہور کے ان اقوال کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم انشاء اللہ میں اگر کوئی قسم کھا بیٹھوں گا اور اس کے توڑنے میں مجھے بھلائی نظر آئے گی تو میں قطعاً اسے توڑ دوں گا اور اس قسم کا کفارہ ادا کروں گا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ سے فرمایا اے عبدالرحمن سرداری امارت اور امامت کو طلب نہ کر اگر بغیر مانگے تو دیا جائے گا تو اللہ کی جانب سے تیری مدد کی جائے گی اور اگر تو نے آپ مانگ کر لی ہے تو تجھے اس کی طرف سونپ دیا جائے گا تو اگر کوئی قسم کھا لے اور اس کے خلاف بھی بھلائی دیکھ لے تو اپنی قسم کا کفارہ دے دے اور اس نیک کام کو کر لے ( بخاری و مسلم ) صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جو شخص کوئی قسم کھا لے پھر اس کے سوا خوبی نظر آئے تو اسے چاہئے کہ اس خوبی والے کام کو کرلے اور اپنی اس قسم کو توڑ دے اس کا کفارہ دے دے ، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اس کا چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ۔ ابو داؤد میں ہے نذر اور قسم اس چیز میں نہیں جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ہی ہے نہ رشتوں ناتوں کو توڑتی ہے جو شخص کوئی قسم کھا لے اور نیکی اس کے کرنے میں ہو تو وہ قسم کو چھوڑ دے اور نیکی کا کام کرے ، اس قسم کو چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کل کی کل صحیح احادیث میں یہ لفظ ہیں کہ اپنی ایسی قسم کا کفارہ دے ، ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ ایسی قسم کا پورا کرنا یہی ہے کہ اسے توڑ دے اور اس سے رجوع کرے ، ابن عباس سعید بن مسیب مسروق اور شعبی بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کے ذمہ کفارہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

224۔ 1 یعنی غصے میں اس طرح کی قسم مت کھاؤ کہ فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا فلاں سے نہیں بولوں گا فلاں کے درمیان صلح نہیں کراؤں گا۔ اس قسم کی قسموں کے لئے حدیث میں کہا گیا ہے اگر کھالو تو انہیں توڑ دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو (کفارہ قسم کے لئے دیکھئے (لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ باللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ ۭذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ۭ وَاحْفَظُوْٓا اَيْمَانَكُمْ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 89؀) 005:089

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٠٠] یعنی کوئی اچھا کام نہ کرنے پر اللہ کی قسم کھا کر اللہ کے نام کو بدنام نہ کرو جیسے یہ قسم کہ میں اپنے ماں باپ سے نہ بولوں گا یا بیوی سے اچھا سلوک نہ کروں گا یا فلاں کو صدقہ نہ دوں گا یا یہ کہ اب میں کسی کے درمیان مصالحت نہ کراؤں گا۔ یعنی برائی کے کاموں میں اللہ کے نام کا استعمال مت کرو اور اگر کسی نے یہ کام کیا ہو تو اسے چاہیے کہ قسم توڑ ڈالے اور اس کا کفارہ ادا کرے۔ چناچہ آپ نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ (رض) کو حکم دیا کہ اگر تو کسی بات کی قسم کھائے پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھے تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر اور جس کام کو بہتر سمجھے وہی کر۔ (بخاری، کتاب الایمان والنذور)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بعض لوگ غصے میں آکر کسی نیک کام کے نہ کرنے کی قسم کھالیتے اور پھر اس قسم کو نیکی سے باز رہنے کے لیے آڑ بنا لیتے۔ اس آیت میں اس قسم کے لوگوں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نام کی قسمیں اس لیے نہ کھاؤ کہ نیکی، پرہیزگاری اور لوگوں میں صلح کرانے جیسے نیک کاموں سے باز رہنے کا بہانہ ہاتھ آجائے، کیونکہ غلط قسم پر اڑے رہنا گناہ ہے۔ دیکھیے سورة نور (٢٢) ۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد الرحمان بن سمرہ (رض) سے فرمایا : ” جب تم کسی بات پر قسم کھالو، پھر دیکھو کہ دوسرا کام اس سے بہتر ہے تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بہتر ہے۔ “ [ بخاری، الأیمان والنذور، باب قول اللہ تعالیٰ : ( لا یؤاخذکم اللہ ۔۔ ) : ٦٦٢٢ ] قسم کے کفارے کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٨٩) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- حکم نمر ٢٠ نیک کام نہ کرنے کی قسم کی ممانعت :- اور اللہ کے نام کو اپنی قسموں کے ذریعے ان امور کا حجاب مت بناؤ کہ تم نیکی کے اور تقویٰ کے اور اصلاح فیما بین خلق کے کام کرو (یعنی اللہ کے نام کی یہ قسم نہ کھاؤ کہ ہم یہ نیک کام نہ کریں گے) اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتے جانتے ہیں (تو زبان سنبھال کر بات کرو اور دل میں برے خیالات مت لاؤ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَجْعَلُوا اللہَ عُرْضَۃً لِّاَيْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَـتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَيْنَ النَّاسِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ٢٢٤- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - ( عرضة)- ، قد تکون بمعنی العارض أي الحاجز أو المعروض کالقبضة والغرفة بمعنی المقبوض والمغروف، وهو الشیء الذي يعرض وينصب .- برَّ- ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8]- ( ب رر)- البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بر کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ولاتجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبروا وتتقواوتصلحوا بین الناس واللہ سمیع علیم۔ اللہ کے نام کو ایسی قسمیں کھانے کے لئے استعمال نہ کرو جن سے مقصود نیکی اور تقویٰ اور بندگان خدا کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو۔- اللہ تمہاری ساری باتیں سن رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے) ۔ اس آیت کی دوتفسیریں کی گئیں ہیں اول یہ کہ وہ اپنی قسم کو نیکی، تقوی اور بندگان خدا کی بھلائی کے کاموں کے لئے رکاوٹ بنا دے جب اس سے ان کاموں کو سرانجام دینے کا مطالبہ کیا جائے تو کہہ دے کہ میں نے تو ان کاموں کے نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اور اس طرح وہ اپنی قسم کو اپنے اور نیکی کے کاموں کے درمیان حائل بنا دے یا یہ کہ نیکی تقوی اور بھلائی کے کاموں پر مامور ہے اگر وہ ان کاموں کے نہ کرنے کی قسم کھائے گا تو اللہ کے حکم کی مخالفت کرے گا۔ اس لئے اسے اپنی قسم توڑ کرنی کی کے یہ کام کرلینے چاہئیں۔ مجاہد، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، حسن بصری اور طائوس سے یہی منقول ہے اس کی نظیر یہ قول باری ہے ولایاتل اولوا الفضل منکم والسعۃ ان یوتوا اولی القربی والمساکین والمھاجرین فی سبی اللہ اور تم سے جو صاحب حیثیت اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ اشعث نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر کے پاس دو یتیم پرورش پا رہے تھے ایک کا نام مسطح تھا یہ غزوہ بدر میں بھی شامل ہوچکا تھا۔- جب افک کا مشہور واقعہ پیش آیا تو مسطح اس معاملے میں مخالفین کے ہتھے چڑھ گیا۔ حضرت ابوبکر (رض) کو اس سے بڑا غصہ آیا اور آپ نے قسم کھالی کہ ان دونوں کے ساتھ نہ صلہ رحمی کریں گے اور نہ ہی ان کی کوئی مددکریں گے۔ اس پر یہ آیت ولایاتل اولوا الفضل منکم۔ نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے ایک کے لئے کپڑے بنا دیئے اور دوسرے کو سواری مہیا کردی ہم نے زیر بحث آیت کا جو مفہوم بیان کیا ہے سنت میں بھی اسی مفہوم کی روایتیں موجود ہیں۔ حضرت انس بن مالک (رض) ، حضرت عدی بن حاتم اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ قول نقل کیا ہے من حلف علی یمین فوا غیرھا، خیراً منھا خلیات الذی ھو خیر ولیکفرعن یمینہ جو شخص کسی بات کی قسم کھا بیٹھے اور پھر دیکھے کہ کوئی دوسری بات اس سے بہتر ہے تو وہ بہتر بات پر عمل کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے۔ آیت زیر بحث کی جو تاوایل ہم نے کی ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں اس تاویل کی بنیاد پر قول باری ولاتجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس کی قسم اسے بھلائی کے کاموں سے نہ روکے بلکہ وہ بھلائی کے کام کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے۔ آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ قول باری عرضۃ لایمانکم۔ سے مراد ہے کثرت سے اللہ کی قسمیں کھانا۔ یہ بات اللہ کے مقابلے میں دلیری کرنے اور ہر الٹے سیدھے کام میں اس کے نام کے بےجا استعمال کی ایک صورت ہے یعنی کثرت سے اللہ کے نام کی قسمیں نہ کھائو تاکہ کم قسمیں کھانے کی صورت میں) ان قسموں کو پورا کرسکو اور قسم توڑنے کے گناہ سے بچ سکو حضرت عائشہ (رض) سے اسی قسم کی ایک روایت ہے۔ جو شخص کسی شئے کا کثرت سے ذکر کرتا ہے وہ اسے نشانہ بنالیا ہے جیسا کہ کوئی کہنے والا یہ کہے کہ ” تم نے تو مجھے نشانہ ملامت بنا لیا ہے “ (جب کوئی شخص کسی کو کثرت سے ملامت کرے تو اس وقت یہ فقرہ بولا جاتا ہے) شاعر کا قول ہے۔ لاتجعلینی عرضۃ اللوائم۔ اے محبوبہ تو مجھے ملازمت کرنے والی عورتوں کا نشانہ نہ بنا۔ اللہ تعالیٰ نے کثرت سے قسم کھانے والوں کی مذمت کی ہے۔ قول باری ہے ولاتطع کل حلاف مھین تم ایسے ہر شخص کی بات نہ مانو جو بہت زیادہ قسمیں کھانے والا ذلیل ہے۔ آیت کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ کے نام کو نشانہ نہ بنائو اور اسے ہر الٹے سیدھے کام میں استعمال نہ کرو تاکہ جب تمہاری قسمیں کم ہوں تو تم انہیں پورا کرسکو اور قسم توڑنے کے گناہ سے بچ جائو۔- اس لئے کہ قسموں کی کثرت نیکی اور تقوی سے دور اور گناہ نیز اللہ کے سامنے دلیری کے اظہار سے قریب کردیتی ہے گویا کہ معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کثرت سے قسمیں کھانے اور اس کے سامنے دلیری کے اظہار سے روک رہا ہے کیونکہ ان سے باز رہنے میں ہی نیکی تقوی اور بھلائی ہے۔ اس طرح تم ان سے باز رہ کرنیکوکار اور پرہیزگار بن سکتے ہو اس لئے کہ قول باری ہے کنتم خیرامۃ اخرجت للناس اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے) چونکہ زیر بحث آیت میں مذکورہ بالا دونوں تاویلوں کا احتمال ہے اس طرح یہ آیت اللہ کے نام کے بےجا استعمال اور ہرالٹی سیدھی بات میں اس کی قسمیں کھا کر اسے نشانہ بنانے کی ممانعت کا فائدہ دے گی۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات کی بھی ممانعت ہوجائے گی کہ کوئی شخص اپنی قسم کو نیکی، تقویٰ اور بھلائی سے باز رہنے کا ذریعہ نہ بنائے خواہ وہ کثرت سے قسمیں نہ بھی کھاتا ہو۔ بلکہ اس پر یہ واجب ہے کہ کثرت سے قسمیں نہ کھائے اور جب کوئی قسم کھالے تو اسے پورا کرنے سے باز نہ رہے بشرطیکہ اس کی قسم طاعت نیکی تقوی اور بھلائی کے کسی کام کے لئے ہو جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من حلف علی یمین قراء غیرھا خیراً منھا خلیات الذی موخیرولیکفرعن یمینہ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢٤) یہ آیت حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے اس بات کی قسم کھالی تھی کہ اپنی بہن اور داماد کے ساتھ حسن سلوک نہیں کریں گے اور نہ ان سے بات چیت کریں گے اور نہ ان کے درمیان صلح کرائیں گے، اس چیز کی اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کے لیے پردہ مت بناؤ، کہ نہ نیکی کریں گے اور نہ قطع رحمی سے ہٹیں گے اور صلح کریں گے بلکہ جو اچھا اور بہتر کام ہو وہ کرو اور اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرتے رہو اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ کسی کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک نہیں کریں گے بلکہ ترک احسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسم کھانے سے بچو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ، یعنی لوگوں میں اختلافات اور تقسیم کا عمل اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اس سے بچتے رہو۔- شان نزول : ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لایمانکم (الخ)- ابن جریر (رح) نے ابن جریج (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے کہ جب انہوں نے مسطح کے بارے میں حسن سلوک نہ کرنے کی قسم کھالی تھی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٤ (وَلاَ تَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِاَّیْمَانِکُمْ ) (اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ ط) - یعنی اللہ تعالیٰ کے عظیم نام کو استعمال کرتے ہوئے ایسی قسمیں مت کھاؤ جو نیکی وتقویٰ اور مقصد اصلاح کے خلاف ہوں۔ کسی وقت غصے ّ میں آکر آدمی قسم کھا بیٹھتا ہے کہ میں فلاں شخص سے کبھی حسن سلوک اور بھلائی نہیں کروں گا ‘ اس سے روکا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھی اسی طرح کی قسم کھالی تھی۔ مِسطَح ایک غریب مسلمان تھے ‘ جو آپ (رض) کے قرابت ‘ دار بھی تھے۔ ان کی آپ (رض) مدد کیا کرتے تھے۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر تہمت لگی تو مسطح بھی اس آگ کے بھڑکانے والوں میں شامل ہوگئے۔ حضرت ابوبکر (رض) ان کے طرز عمل سے بہت رنجیدہ خاطر ہوئے کہ میں تو اس کی سرپرستی کرتا رہا اور یہ میری بیٹی پر تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگیا۔ آپ (رض) نے قسم کھائی کہ اب میں کبھی اس کی مدد نہیں کروں گا۔ یہ واقعہ سورة النور میں آئے گا۔ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم ایسا نہ کرو ‘ تم اپنی نیکی کے دروازے کیوں بند کرتے ہو ؟ جس نے ایسی قسم کھالی ہے وہ اس قسم کو کھول دے اور قسم کا کفارہ دے دے۔ اسی طرح لوگوں کے مابین مصالحت کرانا بھی ضروری ہے۔ دو بھائیوں کے درمیان جھگڑا تھا ‘ آپ نے مصالحت کی کوشش کی لیکن آپ کی بات نہیں مانی گئی ‘ اس پر آپ نے غصے میں آکر کہہ دیا کہ اللہ کی قسم ‘ اب میں ان کے معاملے میں دخل نہیں دوں گا۔ اس طرح کی قسمیں کھانے سے روکا گیا ہے۔ اور اگر کسی نے ایسی کوئی قسم کھائی ہے تو وہ اسے توڑ دے اور اس کا کفارہّ دے دے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :243 احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے کسی بات کی قسم کھائی ہو اور بعد میں اس پر واضح ہو جائے کہ اس قسم کے توڑ دینے ہی میں خیر اور بھلائی ہے ، اسے قسم توڑ دینی چاہیے اور کفارہ ادا کرنا چاہیے ۔ قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا یا تین دن کے روزے رکھنا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سُورہ مائدہ ، آیت ۸۹ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

146: بعض مرتبہ انسان کسی وقتی جذبے سے مغلوب ہو کر قسم کھالیتا ہے کہ فلاں کام نہیں کروں گا، حالانکہ وہ نیک کام ہوتا ہے، مثلاً ایک مرتبہ حضرت مسطح (رض) سے ایک غلطی ہوگئی تھی توحضرت صدیق اکبر (رض) نے یہ قسم کھالی تھی کہ آئندہ وہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے، یا جیسے روح المعانی میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے اپنے بہنوئی کے بارے میں قسم کھالی تھی کہ وہ ان سے بات نہیں کریں گے، اور نہ ان کی بیوی سے ان کی صلح کرائیں گے، یہ آیت ایسی قسم کھانے سے منع کررہی ہے، کیونکہ اس طرح اللہ کا نام ایک غلط مقصد میں استعمال ہوتا ہے، اور صحیح حدیث میں آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی نامناسب قسم کھالے تو اسے توڑدینا چاہئے اور اس کا کفارہ ادا کرنا چاہئے۔