Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پھر فرمایا کہ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی اولاد ہونے کی جگہ تم اپنی کھیتی میں جیسے بھی چاہو آؤ یعنی جگہ تو وہی ایک ہو ، طریقہ خواہ کوئی بھی ہو ، سامنے کر کے یا اس کے خلاف ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ یہود کہتے تھے کہ جب عورت سے مجامعت سامنے رخ کر کے نہ کی جائے اور حمل ٹھہر جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے ۔ ان کی تردید میں یہ جملہ نازل ہوا کہ مرد کو اختیار ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہودیوں نے یہی بات مسلمانوں سے بھی کہی تھی ، ابن جریح فرماتے ہیں کہ آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا کہ خواہ سامنے سے آئے خواہ پیچھے سے لیکن ایک ہی رہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس کیسے آئیں اور کیا چھوڑیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تیری کھیتی ہے جس طرح چاہو آؤ ، ہاں اس کے منہ پر نہ مار ، زیادہ برا نہ کہہ ، اس سے روٹھ کر الگ نہ ہو جا ، ایک ہی گھر میں رہ ( احمد و سنن ) ابن ابی حاکم میں ہے کہ حمیر کے قبیلہ کے ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ مجھے اپنی بیویوں سے زیادہ محبت ہے تو اس کے بارے میں احکام مجھے بتائے ، اس پر یہ حکم نازل ہوا ۔ مسند احمد میں ہے کہ چند انصاریوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا ، طحاوی کی کتاب مشکل الحدیث میں ہے ایک شخص نے اپنی بیوی سے الٹا کر کے مباشرت کی تھی ، لوگوں نے اسے برا بھلا کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سابط حضرت حفصہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر کے پاس آئے اور کہا میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن شرم آتی ہے ، فرمایا بھتیجے تم نہ شرماؤ اور جو پوچھنا ہو پوچھ لو ، کہا فرمائیے عورتوں کے پیچھے کی طرف سے جماع کرنا جائز ہے؟ فرمایا سنو مجھ سے حضرت ام سلمہ نے فرمایا ہے کہ انصار عورتوں کو الٹا لٹایا کرتے تھے اور یہود کہتے تھے کہ اس طرح سے بچہ بھینگا ہوتا ہے ، جب مہاجر مدینہ شریف آئے اور یہاں کی عورتوں سے ان کا نکاح ہوا اور انہوں نے بھی یہی کرنا چاہا تو ایک عورت نے اپنے خاوند کی بات نہ مانی اور کہا جب تک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ بیان نہ کر لوں تیری بات نہ مانوں گی چنانچہ وہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی ، ام سلمہ نے بٹھایا اور کہا ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آجائیں گے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو انصاریہ عورت شرمندگی کی وجہ سے نہ پوچھ سکی اور واپس چلی گئی لیکن ام المومنین نے آپ سے پوچھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصاریہ عورت کو بلا لو ، پھر یہ آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا جگہ ایک ہی ہو ، مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ہلاک ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا ، میں نے رات کو اپنی سواری الٹی کر دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا ۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامنے سے آ ، پیچھے سے آ ، اختیار ہے لیکن حیض کی حالت میں نہ آ اور پاخانہ کی جگہ نہ آ ۔ انصار والا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کو اللہ بخشے ، انہیں کچھ وہم سا ہو گیا ۔ بات یہ ہے کہ انصاریوں کی جماعت پہلے بت پرست تھی اور یہودی اہل کتاب تھے ۔ بت پرست لوگ ان کی فضیلت اور علمیت کے قائل تھے اور اکثر افعال میں ان کی بات مانا کرتے تھے ۔ یہودی ایک ہی طرح پر اپنی بیویوں سے ملتے تھے ۔ یہی عادت ان انصار کی بھی تھی ۔ ان کے برخلاف مکہ والے کسی خاص طریقے کے پابند نہ تھے ، وہ جس طرح جی چاہتا ملتے ۔ اسلام کے بعد مکہ والے مہاجر بن کر مدینہ میں انصار کے ہاں جب اترے تو ایک مکی مجاہد مرد نے ایک مدنی انصاریہ عورت سے نکاح کیا اور اپنے من بھاتے طریقے برتنے چاہے ، عورت نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ اسی ایک مقررہ طریقہ کے علاوہ اجازت نہیں دیتی ۔ بات بڑھتے بڑھتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی اور یہ فرمان نازل ہوا ۔ پس سامنے سے پیچھے کی طرف سے اور جس طرح چاہے اختیار ہے ہاں جگہ ایک ہی ہو ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے قرآن شریف سیکھا اول سے آخر تک انہیں سنایا ، ایک آیت کی تفسیر اور مطلب پوچھا ۔ اس آیت پر پہنچ کر جب میں نے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے یہی بیان کیا ( جو اوپر گزرا ) ابن عمر کا وہم یہ تھا کہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ قرآن پڑھتے ہوئے کسی سے بولتے چالتے نہ تھے لیکن ایک دن تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچے تو اپنے شاگرد حضرت نافع سے فرمایا جانتے ہو یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا نہیں ، فرمایا یہ عورتوں کی دوسری جگہ کی وطی کے بارے میں اتری ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ایک شخص نے اپنی بیوی سے پیچھے سے کیا تھا جس پر اس آیت میں رخصت نازل ہوئی لیکن ایک تو اس میں محدثین نے کچھ علت بھی بیان کی ہے ، دوسرے اس کے معنی بھی یہی ہو سکتے ہیں کہ پیچھے کی طرف سے آگے کی جگہ میں کیا اور اوپر کی جو روایتیں ہیں وہ بھی سنداً صحیح نہیں بلکہ انہیں حضرت نافع سے مروی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر نے وطی دبر کو جائز کیا ہے؟ تو فرمایا لوگ جھوٹ کہتے ہیں ۔ پھر وہی انصاریہ عورت اور مہاجر والا واقعہ بیان کیا اور فرمایا حضرت عبداللہ تو اس آیت کا یہ مطلب ارشاد فرماتے تھے ، اس روایت کی اسناد بھی بالکل صحیح ہے اور اس کے خلاف سند صحیح نہیں ، معنی مطلب بھی اور ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابن عمر سے اس کے خلاف بھی مروی ہے ۔ وہ روایتیں عنقریب بیان ہوں گی انشاء اللہ جن میں ہے کہ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نہ یہ مباح ہے نہ حلال بلکہ حرام ہے ، تو یہ قول یعنی جواز کا بعض کا بعض فقہاء مدینہ وغیرہ کی طرف بھی منسوب ہے اور بعض لوگوں نے تو اسے امام کی طرف بھی منسوب کیا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا قول ہرگز یہ نہیں ، صحیح حدیثیں بکثرت اس فعل کی حرمت پر وارد ہیں ۔ ایک روایت میں ہے لوگو شرم و حیا کرو اللہ تعالیٰ حق بات فرمانے سے شرم نہیں کرتا ۔ عورت کے پاخانہ کی جگہ وطی نہ کرو ۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس حرکت سے لوگوں کو منع فرمایا ( مسند احمد ) اور روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عورت یا مرد کے ساتھ یہ کام کرے اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نہیں دیکھے گا ( ترمذی ) حضرت ابن عباس سے ایک شخص یہ مسئلہ پوچھتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ کیا تو کفر کرنے کی بابت سوال کرتا ہے؟ ایک شخص نے آپ سے آکر کہا کہ میں نے آیت ( انی شئتم ) کا یہ مطلب سمجھا اور میں نے اس پر عمل کیا تو آپ ناراض ہوئے اور اسے برا بھلا کہا اور فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ خواہ کھڑے ہو کر ، خواہ بیٹھ کر چت خواہ پٹ لیکن جگہ وہی ایک ہو ، ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے پاخانہ کی جگہ وطی کرے وہ چھوٹا لوطی ہے ( مسند احمد ) ابو دردار فرماتے ہیں کہ یہ کفار کا کام ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا یہ فرمان بھی منقول ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے واللہ اعلم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں چلے جاؤ ۔ ایک تو اغلام بازی کرنے والا خواہ وہ اوپر والا ہو خواہ نیچے والا ہو ، اور اپنے ہاتھ سے مشت زنی کرنے والا ، اور چوپائے جانور سے یہ کام کرنے والا اور عورت کی دبر میں وطی کرنے والا اور عورت اور اس کی بیٹی دونوں سے نکاح کرنے والا اور اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا اور ہمسایہ کو ستانے والا ، یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت کرے ، لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ اور ان کے استاد دونوں ضعیف ہیں ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے دوسرے راستے وطی کرے اسے کو اللہ تعالیٰ نظرِ رحمت سے نہیں دیکھے گا ( مسند ) مسند احمد اور سنن میں مروی ہے کہ جو شخص حائضہ عورت سے جماع کرے یا غیر جگہ کرے یا کاہن کے پاس جائے اور اسے سچا سمجھے ، اس نے اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اتری ہے ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ امام بخاری اس حدیث کو ضعیف بتاتے ہیں ، ترمذی میں روایت ہے کہ ابو سلمہ بھی دبر کی وطی کو حرام بتاتے تھے ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں لوگوں کا اپنی بیوی سے یہ کام کرنا کفر ہے ( نسائی ) ایک مرفوع حدیث میں اس معنی کی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے ، اور روایت میں ہے کہ یہ جگہ حرام ہے ۔ حضرت ابن مسعود بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت علی سے جب یہ بات پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا بڑا کمینہ وہ شخص ہے ، دیکھو قرآن میں ہے کہ لوطیوں سے کہا گیا تم وہ بدکاری کرتے ہو جس کی طرف کسی نے تم سے پہلے توجہ نہیں کی ، پس صحیح احادیث اور صحابہ کرام سے بہت سی روایتوں اور سندوں سے اس فعل کی حرمت مروی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر بھی اسے حرام کہتے ہیں ۔ چنانچہ دارمی میں ہے کہ آپ سے ایک مرتبہ یہ سال ہوا تو آپ نے فرمایا کیا مسلمان بھی ایسا کر سکتا ہے؟ اس کی اسناد صحیح ہے اور حکم بھی حرمت کا صاف ہے ، پس غیر صحیح اور مختلف معنی والی روایتوں میں پڑ کر اتنے جلیل القدر صحابی کی طرف ایک ایسا گندا مسئلہ منسوب کرنا ٹھیک نہیں ۔ گو کہ روایتیں اس قسم کی بھی ملتی ہیں ، امام مالک سو ان کی طرف بھی اس مسئلہ کی نسبت صحیح نہیں بلکہ معمر بن عیسیٰ فرماتے ہیں کہ امام صاحب اسے حرام جانتے تھے ، اسرائیل بن روح نے آپ سے ایک مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا تم بےسمجھ ہو ، بوائی کھیت میں ہی ہوتی ہے ، خبردار شرم گاہ کے سوا اور جگہ سے بچو ۔ سائل نے کہا حضرت لوگ تو کہتے ہیں کہ آپ اس فعل کو جائز کہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا جھوٹے ہیں مجھ پر تہمت باندھتے ہیں ۔ امام مالک سے اس کی حرمت ثابت ہے ۔ امام ابو حنیفہ ، شافعی ، احمد اور ان کے تمام شاگردوں اور ساتھی ، سعید بن مسیب ، ابو سلمہ ، عکرمہ ، عطاء ، سعید بن جبیر ، عروہ بن زبیر ، مجاہد ، حسن وغیرہ سلف صالحین سب کے سب اسے حرام کہتے ہیں اور اس بارے میں سخت تشدد کرتے ہیں بلکہ بعض تو اسے کفر کہتے ہیں ، جمہور علماء کرام کا بھی اس کی حرمت پر اجماع ہے ، گو بعض لوگوں نے فقہاء مدینہ بلکہ امام مالک سے بھی اس کی حلت نقل کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ۔ عبدالرحمن بن قاسم کا قول ہے کہ کسی دیندار شخص کو میں نے تو اس کی حرمت میں شک کرنے والا نہیں پایا ، پھر آیت ( نساء کم حرث لکم ) پڑھ کر فرمایا خود یہ لفظ حرث ہی اس کی حرمت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ وہ دوسری جگہ کھیتی کی جگہ نہیں ، کھیتی میں جانے کے طریقہ کا اختیار ہے نہ کہ جگہ بدلنے کا ۔ گو امام مالک سے اس کے مباح ہونے کی روایتیں بھی منقول ہیں لیکن ان کی اسنادوں میں سخت ضعف ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ٹھیک اس طرح امام شافعی سے بھی ایک روایت لوگوں نے گھڑ لی ہے حالانکہ انہوں نے اپنی چھ کتابوں میں کھلے لفظوں اسے حرام لکھا ہے ۔ پھر اللہ فرماتا ہے اپنے لئے کچھ آگے بھی بھیجو یعنی ممنوعات سے بچو نیکیاں کرو تاکہ ثواب آگے جائے ، اللہ سے ڈرو اس سے ملنا ہے وہ حساب کتاب لے گا ، ایماندر ہر حال میں خوشیاں منائیں ، ابن عباس فرماتے ہیں یہ بھی مطلب ہے کہ جب جماع کا ارادہ کرے ۔ یہ دعا ( بسم اللہ اللھم جنبنا الیشیطان و جنب الشیطان مارزقنا ) پڑھے یعنی اے اللہ تو ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان سے بچا لے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اس جماع سے نطفہ قرار پکڑ گیا تو اس بچے کو شیطان ہرگز کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

223۔ 1 یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جا رہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ دلیل کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آجاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور یہ کھیتی صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیر فطری فعل ہے۔ ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩٨] اس آیت کے شان نزول میں دو طرح کی احادیث آئی ہیں۔ ایک یہ کہ یہودی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس اس کے پیچھے سے آئے تو بچہ بھینگا ہوتا ہے (ان کے اس خیال کی تردید میں) یہ آیت نازل ہوئی (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ) مسلم، کتاب النکاح، باب جواز جماعہ امراتہ فی قبلھا من قدامھا و من ورائھا من غیر تعرض للدبر) - دوسری یہ کہ عمر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہنے لگے کہ : میں ہلاک ہوگیا آپ نے پوچھا : تجھے کس چیز نے ہلاک کیا ؟ کہنے لگے میں نے آج اپنی سواری پھیرلی۔ آپ نے کچھ جواب نہ دیا تاآنکہ آپ پر یہ آیت نازل ہوئی (پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) آگے سے صحبت کرو یا پیچھے سے مگر دبر میں یا حیض کی حالت میں مجامعت نہ کرو۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) گویا اس آیت میں بیوی کو کھیتی سے تشبیہ دے کر یہ واضح کردیا کہ نطفہ جو بیج کی طرح ہے صرف سامنے (فرج) ہی میں ڈالا جائے۔ خواہ کسی بھی صورت میں ڈالا جائے، لیٹ کر، بیٹھ کر، پیچھے سے بہرحال فرج ہی میں ڈالا جائے اور پیداوار یعنی اولاد حاصل کرنے کی غرض سے ڈالا جائے۔- [٢٩٩] یعنی اولاد کی خاطر اور اپنی نسل برقرار رکھنے کے لیے یہ کام کرو۔ تاکہ تمہارے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد تمہاری جگہ پر دین کا کام کرنے والے موجود ہوں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح طور پر تربیت کرو انہیں علم سکھلاؤ اور دیندار بناؤ ان کے اخلاق سنوارو اور اس کے عوض آخرت میں اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ ۡ: جابر (رض) سے روایت ہے کہ یہود کہتے تھے کہ جب عورت سے اس کی پچھلی جانب سے ہو کر جماع کیا جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، اس پر یہ آیت اتری۔ [ بخاری، التفسیر، باب ( نساء کم حرث لکم ) : ٤٥٢٨ ] عورتیں کھیتی ہیں، جماع کے لیے کوئی آسن مقرر نہیں، ہر آسن پر کرسکتے ہو، مگر اولاد پیدا کرنے کی جگہ میں ہو۔ دبر موضع حرث (کھیتی کی جگہ) نہیں، موضع فرث (پاخانے کی جگہ) ہے۔ احادیث میں دبر میں جانا حرام قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ شخص ملعون ہے جو عورت کے پاس اس کی دبر میں جائے۔ “ [ أبو داوٗد، النکاح، باب فی جامع النکاح : ٢١٦٢،- عن أبی ہریرۃ (رض) و صححہ الألبانی ] - وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ : یعنی اپنے لیے نیک اعمال آگے بھیجو۔ نیک اولاد انسان کا بہترین سرمایہ ہے۔ بیوی سے صحبت کے وقت نیک اولاد کے حصول کی نیت بھی اس میں شامل ہے۔ - وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ : میاں بیوی کے باہمی معاملات میں اگر کوئی زیادتی ہو تو نہ کوئی گواہ ہوتا ہے نہ دخیل، مگر اللہ سے ملاقات تو یقیناً ہونی ہے، اس لیے اس سے ڈرتے رہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۝ ٠ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ۝ ٠ ۡوَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْہُ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٢٢٣- حرث - الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] ، - وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ، يتناول الحرثین .- ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔- أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر)- اگر ہم ان کو ہمارے مخالف کے قول کے مطابق عمل میں لائیں تو اس صورت میں دو میں سے ایک غایت کا اسقاط لازم آئے گا کیونکہ ہمارا مخالف یہ کہتا ہے کہ اگر حائضہ پاک بھی ہوجائے اور اس کا خون رک بھی جائے پھر بھی غسل سے پہلے وطی کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر ہم اس بات کو اپنے مخالف کے خلاف ابتدائی دلیل کے طور پر استعمال کریں تو ہمارے لئے اس کی گنجائش ہے اور ہماری یہ دلیل اسے مطمئن کرسکتی ہے ہمارے اصحاب نے اس عورت کے متعلق جس کے ایام دس دن سے کم ہوں اور اس کا خون رک جائے وطی کی اباحت کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ یا تو وہ غسل کرے لے یا اس پر ایک نمازکا وقت گزر جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ دوبارہ خون جاری ہوجائے اور یہ خون حیض بن جائے کیونکہ ہر طہر جسے عورت دیکھتی ہے صحیح طہر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ حائضہ عورت کبھی خون کہ بہتا ہوا دیکھتی ہے اور کبھی رکا ہوا۔ اس لئے خون کا ایسے وقت میں رک جانا جس میں حیض آسکتا ہو اس امر کا سبب نہیں بن سکتا کہ اس پر زوال حیض کا حکم لگا دیا جائے۔ اس لئے ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے ایسی عورت میں انقطاع دم کا اعتبار دو میں سے ایک شے کے ذریعے کیا جائے گا یا تو غسل کرلے کہ اس کے ساتھ حیض کا حکم اس سے زائل ہوجائے گا اس پر سب کا اتفاق ہے غسل کرنے کے ساتھ نماز پڑھ لے کیونکہ نمازحیض کے حکم کے منافی ہے۔ اس لئے نماز کی وجہ سے یہ سمجھ لیا جائے گا کہ اس کا حیض ختم ہوگیا یا اس پر ایک نماز کا وقت گزر جائے وقت گزر جانے کے ساتھ اس پر فرض نماز لازم ہوجائے گی اور فرض نماز کالزوم حکم حیض کے بقاء کے منافی ہے کیونکہ یہ جائز ہی نہیں ہے کہ حائضہ کو نماز کی فرضیت لازم ہوجائے۔ اس دوسری صورت میں جب حیض کا حکم منتفی ہو کر طہر کا حکم ثابت ہوجائے گا اور صرف غسل کرنا باقی رہ جائے گا تو یہ وطی سے مانع نہیں ہوگا جس طرح کہ ایک جنبی عورت کی حیثیت ہوتی ہے وہی اس کی ہوجائے گی اور ظاہر ہے کہ اگر اجنبی عورت سے اس کا شوہر ہمبستری کرے تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہوتا ہے۔- صحابہ کرام سے عدت کی مدت کے اختتام کے لئے غسل کے اعتبار کی جو روایات منقول ہیں وہ ہمارے نزدیک اسی معنی پر محمول ہوں گی۔ عیسیٰ الخیاط نے شعبی سے اور انہوں نے تیرہ صحابہ سے یہ روایت نقل کی ہے جن میں حضرت ابوبکر (رض) حضرت عمر (رض) حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) شامل ہیں ان سب کا قول ہے کہ مرد اپنی بیوی کا زیادہ حق دار ہوتا ہے جب تک وہ تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے۔ اس قسم کی روایت حضرت علی (رض) ، حضرت عبادہ بن صامت (رض) اور حضرت ابودرد (رض) سے بھی ہے۔ جب عورت کے ایام دس دنوں کے ہوں تو ہمارے نزدیک دس دنوں کے بعد حیض کا وجود نہیں ہوتا اس لئے دس دنوں کے بعد اس پر حیض گزر جانے کا حکم لگانا واجب ہوگا اس لئے کہ اب اس کے حکم کے بقاء کا جواز ممتنع ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے تو صرف حائضہ یا ایسی عورت کی ہمبستری سے منع فرمایا ہے جس کا حیض آسکتا ہو۔ لیکن جب حیض کا حکم مرتفع ہوجائے اور حیض زائل ہوجائے تو اب ہمبستری میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن۔- اور اب وہ لامحالہ پاک ہوچکی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ عدت گزار رہی ہو تو اس کے ساتھ اس کی عدت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم وہی ہوتا ہے جو طہر والی دوسری عورتوں کا ہے۔ وطی کی ممانعت کے لئے غسل کے وجوب کا کوئی اثر نہیں ہوتا یعنی غسل سے پہلے وطی کا جواز ہوجاتا ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب دس دن سے کم مد ت میں اس کا خون بند ہوجائے تو اس پر غسل واجب ہوجاتا ہے اور غسل کالزوم حکم حیض کے بقاء کے منافی ہے کیونکہ یہ بالکل درست نہیں ہے کہ حائضہ عورت کے لئے غسل لازم ہو جیسا کہ آپ نے نماز کی فرضیت کے سلسلے میں بیان کیا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب غسل حیض کے موجبات اور لوازم میں سے ہے تو اس کا لزوم حیض کے حکم اور اس کی بقاء کے منافی نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب سلام پھیرنا نماز کی تحریمہ کے موجبات میں سے ہے تو نماز کے آخر تک اس کے لزوم کی انتہاء نماز کی بقاء کے حکم کے منافی نہیں ہے۔ اسی طرح حلق یعنی سر کے بال جب صاف کرانا احرام کے موجبات میں سے ہے تو جب تک وہ حلق نہ کرالے اس وقت تک اس کالزوم احرام کی بقاء کے منافی نہیں ہے۔ اسی طرح غسل جب حیض کے موجبات میں سے ہے تو حائضہ پر اس کا وجوب حیض کے حکم کی بقاء کے لئے مانع نہیں ہے۔ رہ گئی نماز جس کی معترض نے مثال دی ہے تو وہ حیض کے موجبات میں داخل ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک علیحدہ حکم ہے جس کالزوم طہر والی عورتوں کے ساتھ نہیں۔ اگر ان کے ساتھ نماز کالزوم ہوجائے تو اس سے حیض کے حکم کی نفی لازم آئے گی اور قول باری حتی یطھرن فاذا تطھرن میں چونکہ غسل کا بھی احتمال موجود ہے۔ اس لئے یہ بمنزلہ قول باری وان کنتم حنباً فاطھروا۔- اور اگر تم ناپاکی کی حالت میں ہو تو خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرلو کے ہوجائے گا اور اس پر دلالت کرے گا۔ حائضہ پر حیض ختم ہوجانے کے بعد غسل واجب ہے۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔ قول باری ہے فاذا اتطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ، جب یہ پاک ہوجاتیں تو ان کے پاس اسی طریقے سے جائو جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس میں ممانعت کی بنا پر لگی ہوئی پابندی اٹھانے اور اباحت کو بحال کرنے کی بات کی گئی ہے اس میں وجوب کی بات نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض۔ جب جمعہ کی نماز ہوجائے تو زمین میں بکھرجائو) یا واذا حللتم فاصطادوا، جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو) ان دونوں آیتوں میں جو حکم ہے وہ دراصل اباحت ہے جو ممانعت کے بعد وارد ہوئی ہے وجوب نہیں ہے کہ نماز جمعہ کے بعد زمین میں بکھر جانا یا احرام کھول کر شکار کرنا ضروری ہے۔ قول باری من حیث امرکم اللہ۔ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ فرج میں عمل جنسی کیا جائے یہی وہ جگہ ہے جس سے حیض کی حالت میں درد رہنے کا حکم اس سلسلہ کلام کے آغاز میں دیا گیا تھا چناچہ فرمان تھا فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ سدی اور ضحاک کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ طہر کے زمانے میں بیویوں سے قربت اختیار کرو نہ کہ حیض کے زمانے میں۔ ابن الحنفیہ کا قول ہے کہ نکاح کے واسطے سے قربت اختیار کرو نہ کہ بدکاری کے واسطے سے ابوبکر حبصاص کہتے ہیں یہ تمام معانی اللہ کی مراد ہیں۔ اس لئے کہ یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے اس لئے یہ تمام معانی آیت کے ذیل میں آجائیں گی۔ قول باری ہے ان اللہ یحب التوابین ویحب المتنطھوین۔ بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں) عطاء سے مردی ہے کہ المتطھرین بالماء للصلوۃ یعنی وہ لوگ جو نماز کے لئے پانی سے طہارت حاصل کرتے ہیں مجاہد کا قول ہے المتطھرین من الذنوب یعنی وہ لوگ جو گناہوں سے پاک رہتے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عطاء کا قول زیادہ مناسب ہے کیونکہ آیت میں طہارت کا ذکر گزر چکا ہے چناچہ قول باری ہے فاذا تطھرن فاتوھن۔ اس لئے اس سے مراد نماز کے لئے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا ہے زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ قول باری ویحب المتطھرین ان لوگوں کی مدح ہو جو نماز کے لئے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرتے ہیں۔ قول باری ہے فیہ رجال یحبون ان یتطھرو ا واللہ یحب المتطھرین۔ اس مسجد میں ایسے لوگ ہیں جو پاکیزگی اختیار کرنا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) روایت میں ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی اس لئے مدح کی ہے کہ وہ لوگ پانی کے ذریعے استنجا کرتے تھے۔- (آیت 222 ۔ کی تفسیر ختم ہوئی۔- ۔۔۔۔- تفسیر آیت 223:- قول باری ہے نسائوکم جدث لکم فالواحرثکم انی شئتم تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جائو) حرث سے مراد تخم ریزی کی جگہ یعنی کھیتی ہے یہاں یہ ہمبستری سے کنایہ ہے۔ عورتوں کو حرث یعنی کھیتی اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ یہ اولاد کے لئے تخم ریزی کی جگہیں ہیں اور قول باری فاتوا حرثکم انی شئتم۔ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ وطی کی اباحت فرج میں عمل جنسی تک محدود ہے اس لئے کہ فرج ہی کاشت کی جگہ ہے۔ عورتوں کے دبر میں عمل جنسی کرنے کے مسئلے میں اختلاف ہے ہمارے اصحاب اسے حرام قرار دیتے اور اس سے سختی سے روکتے تھے۔ یہی ثوری کا قول ہے اور مزنی کی روایت کے مطابق امام شافعی کا بھی یہی قول ہے طحاوی نے کہا ہے کہ ہمیں محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم نے بیان کیا کہ انہوں نے امام شافعی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عورت کی دبر میں عمل جنسی کی تحلیل یا تحریم کے متعلق کوئی صحیح روایت منقول نہیں ہے۔ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ حلال ہے اصبغ بن الفرج نے ابن القاسم سے اور انہوں نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ میں نے کسی ایسے شخص کو جس کی دین کے معاملے میں اقتدا کرتا ہوں اس معاملے میں شک کرتے ہوئے نہیں پایا کہ یہ حلال ہے ۔ یعنی بیوی کی دبر میں عمل جنسی سرانجام دینا پھر امام مالک نے یہ آیت پڑھی نساء کم حرث لکم فاتواحرثکم انی شئتم۔ پھر کہا ” اس سے بڑھ کر اور کیا چیز واضح ہوگی مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے “۔ ابن القاسم کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے کہا کہ ہمارے پاس مصر میں لیث بن سعد ہیں جو حادث بن یعقوب سے حدیث بیان کرتے ہیں اور وہ ابوالحباب سعید بن یسار سے کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے دریافت کیا کہ آپ لونڈیوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ہم ان کے لئے ” تحمیض “ نہ کریں۔ حضرت ابن عمر (رض) نے پوچھا کہ تخمیض کیا شے ہے ؟ میں نے دبر کا ذکر کیا اس پر حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا ” آیا کوئی مسلمان اس طرح بھی کرسکتا ہے “۔ یہ سن کر امام مالک نے کہا ” میں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ابوالحباب سعید بن یسار سے یہ بیان کیا کہ انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اس کے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن القاسم کہتے ہیں کہ امام مالک کی یہ بات سن کر مجلس میں بیٹھا ہوا ایک شخص بول اٹھا ” ابوعبداللہ ؟ (امام مالک کی کنیت) آپ ہی تو کہتے ہیں کہ سالم نے یہ کہا تھا کہ اس غلام یا اس موٹے عجمی یعنی نافع نے میرے والد کی طرف غلط بات کی نسبت کی ہے جس طرح کے عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) کی طرف غلط بات کی نسبت کی ہے “۔ یہ سن کر امام مالک نے کہا ” میں گواہی دیتا ہوں کہ یزید بن رومان نے مجھے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے یہ نقل کیا ہے کہ وہ یہ فعل کرتے تھے “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سلیمان بن بلال نے زید بن اسلم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی دبر میں عمل جنسی کرلیا لیکن پھر اسے اس کا گہرادکھ ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی نساء کم حرث لکم فاتو وا حرثکم انی شئتم۔ اس روایت میں یہ نقص موجود ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے زید بن اسلم کی سماع غیر معلوم ہے۔ فضل بن فضالہ نے عبداللہ بن عباس (رض) سے انہوں نے کعب بن علقمہ سے انہوں نے ابوالنضر سے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام نافع سے پوچھا کہ تمہارے متعلق یہ بات کثرت سے کہی جا رہی ہے کہ تم حضرت ابن عمر (رض) سے یہ نقل کرتے ہو کہ انہوں نے عورتوں کی دبر میں عمل جنسی کرنے کا فتوی دیا تھا۔ نافع نے یہ سن کر کہا کہ لوگوں نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایک دن حضرت ابن عمر (رض) قرآن پاک کے نسخے کو جگہ جگہ سے کھول کر دیکھ رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر اس آیت نساء کم حرث لکم فاتواحرثکم پر پڑی، مجھے کہنے لگے ” نافع تمہیں اس آیت کے پس منظر کے متعلق کچھ پتہ ہے “۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو فرمانے لگے ” ہم قریش کے لوگ عورتوں کو آغوش میں لے کر مباشرت کرتے تھے، انصار کی عورتوں نے یہودیوں سے کروٹ کے بل لیٹ کر ہمبستری کرنے کا طریقہ اخذ کیا تھا یہودی صرف اسی ہیت پر جماع کو جائز سمجھتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی یعنی اس میں ہر ئیت سے مباشرت کی اجازت مل گئی یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نافع کی اس روایت میں بیان کردہ سبب حضرت ابن عمر (رض) سے زید بن اسلم کے بیان کردہ سبب سے مختلف ہے میمون بن مہران نے کہا ہے کہ نافع نے یہ بات یعنی عورتوں کی دبر میں عمل جنس کی حالت اس وقت کہی تھی جب بہت بوڑھے ہوگئے تھے اور دماغی توازن بگڑ گیا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام مالک سے مشہور یہی ہے کہ وہ ایتان دبر کی اباحت کے قائل تھے جبکہ اصحاب مالک اس کی قباحت اور شفاعت کی بنا پر اس کی نفی کرتے ہیں لیکن امام مالک سے یہ بات اس قدر مشہور ہے کہ صرف اس کی نفی کر کے اسے دور نہیں کیا جاسکتا ہے محمد بن سعید نے ابوسلیمان الجوزجانی سے نقل کیا ہے کہ میں مالک بن انس کے پاس موجود تھا۔ ان سے نکاح فی الدبر کے متعلق سوال کیا گیا، انہوں نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ ” میں ابھی اس کام سے فارغ ہو کر غسل کر کے آیا ہوں “۔ ابن القاسم نے بھی امام مالک سے اس کی نقل کی ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں یہ مسئلہ فقہ کی کتابوں میں بھی درج ہے نیز محمد بن کعب القرظی سے منقول ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اور اس قول باری اتاتون الذکران من العالمین وتذرون ماخلق لکم ربکم من ازواجکم۔ کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لئے جو پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو) کی یہ تاویل کرتے تھے کہ ” تم اپنی بیویوں کے ساتھ اس جیسا فعل کرلو اگر تم چاہو “۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ عورتوں کے مقاعد حرام ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ یہ فعل عمل قوم لوط کی چھوٹی شکل ہے۔ اس بارے میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایات مختلف ہیں اس لئے روایات کے تعارض کی بنا پر یہ سمجھا جائے گا کہ اس مسئلے کے بارے میں ان سے گویا کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ ظاہر آیت اس پر دلالت کرتا ہے کہ اباحت فرج میں عمل جنسی تک محدود ہے جو کہ موضع حرث یعنی تخم ریزی کا مقام ہے اور جہاں سے اولاد پیدا ہوتی ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی حرمت کے متعلق بہت سی روایات منقول ہیں۔ خزیمہ بن ثابت (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) اور طلق بن علی (رض) سب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا لاقاتوا النساء فی ادبارھن۔ عورتوں کی دبر میں عمل جنسی نہ کرو) عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے ان کے دادا سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے آپ نے فرمایاھی اللوطیۃ الصغری۔ یہ فعل عمل قوم لوط کی چھوٹی شکل ہے ) یعنی عورتوں کی دبر میں عمل جنسی کرنا۔ حماد بن سلمہ نے حکیم اثرم سے انہوں نے ابوتمیمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا من اتی حائضاً اوامراۃ فی دبرھا فقد کفربماانزل علی محمد، جس شخص نے حائضہ عورت سے ہمبستری کی یا عورت کی دبر میں عمل جنسی کیا اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ شریعت کا انکار کردیا) ۔ ابن جریج نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی کہ یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا کہ جس شخص نے بیوی کے ساتھ عقب سے ہمبستری کی اس کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ بھینگا ہوگا۔ (دراصل یہودی صرف کروٹ کے بل لیٹ کر ہمبستری کو درست سمجھتے تھے) اس پر یہ آیت نازل ہوئی نساء کم حرث لکم فاتواحرثکم انی شئتم۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا مقبلۃ مدبرۃ ماکان فی الفرج، مباشرت اندام نہانی میں ہونی چاہیے خواہ سامنے سے ہو خواہ پیچھے سے۔ حفصہ (رض) بنت عبدالرحمن نے حضرت ام سلمہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا فی صمام واحد ہمبستری ایک ہی ڈاٹ یعنی سوراخ فرج میں ہونی چاہیے) مجاہد نے حضرت ابن عباس (رض) سے آیت کی تفسیر میں اسی طرح فرمایا، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ” بچہ پیدا ہونے کی جگہ یعنی اندام نہانی میں جس ہیت میں چاہو عمل جنسی کرو “۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی، آپ نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یاینظو اللہ الی رجل اتی امرتہ فی دبرھا، اللہ تعالیٰ اس شخص پر نظر بھی نہیں ڈالے گا جو اپنی بیوی کی دبر میں عمل جنسی کرے گا) ۔- طائوس نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے اس شخص کے متعلق مسئلہ پوچھا گیا جو اپنی بیوی کی دبر میں عمل جنسی کرتا ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا ” سائل مجھ سے کفر کے متعلق پوچھتا ہے “ یعنی ایسی حرکت کفر ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے قول باری نساء کم حرث لکم۔ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا۔ اپنی بیویوں کے ساتھ جس طرح چاہوہمبستری کرو چاہو تو عزل کرلو یاچاہو تو عزل نہ کرو “۔ امام ابوحنیفہ نے کثیرالریاح الاصم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اس کی روایت کی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت ہے عزل کی صورت ہمارے نزدیک لونڈی کے ساتھ ہمبستری کے وقت درست ہے لیکن بیوی اگر حرہ ہو تو اس کی اجازت سے عزل کرنا درست ہوگا ہمبستری کے دوران مادہ تولید کو عورت کے رحم میں پہنچنے نہ دینا عزل کہلاتا ہے۔ ) ہمارے اس مسلک کی تائید ان روایات سے ہوتی ہے جو حضرت ابوبکر (رض) ۔ حضرت عمر (رض) حضرت عثمان (رض) حضرت ابن مسعود (رض) حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے مروی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری والذین ھم لفروجھم حافظون الاعلی اندجھم واماملکت ایمانھم۔ مومن وہ ہیں جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ماسوائے اپنی بیویوں یا لونڈیوں کے) وطی فی الدبر کی اباحت کا مقتضی ہے کیونکہ اس میں اباحت کا درد کسی قید یا تخصیص کے بغیر علی الاطلاق ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائیگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا فاتوھن من حیث امرکم اللہ۔ پھر آیات کی ترتیب میں یہ فرمایا فاتواحرثکم انی شئتم۔ تو اس کے ذریعے اس مقام کی وضاحت کردی جس کا امر کیا گیا ہے اور وہ تخم ریزی کا مقام فرج ہے۔ ہمبستری کی ممانعت کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے اس کی مطلقاً اباحت کا ارادہ نہیں کیا بلکہ اس سے مراد بچے کی پیدائش گاہ ہے۔ اس لئے اجازت اب اسی مقام تک محدود ہے کسی اور مقام کے لئے اجازت نہیں ہے۔- تاہم اس آیت نے قول باری الاعلی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم۔ کا فیصلہ کردیا ہے جس طرح حائضہ عورت کے ساتھ ہمبستری کی ممانعت والی آیت نے قول باری الاعلی ازواجھم کا فیصلہ کردیا ہے۔ اس بنا پر معترض کی ذکر کردہ آیت کو حائضہ عورت کے حکم پر مشتمل آیت پر مرتب سمجھا جائے گا یعنی آیت زیر بحث کے حکم کو آیت حیض کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ جو لوگ عورت کی دبر میں عمل جنسی کو ممنوع سمجھتے ہیں ان کا استدلال اس قول باری سے ہے۔ قل ھواذیً اللہ تعالیٰ نے حائضہ عورت کے ساتھ حالت حیض میں پائی جانے والی گندگی کی بنا پر ہمبستری کی ممانعت کردی یہی گندگی اور نجاست غیر موضع الولد یعنی دبر میں ہر حال کے اندر موجود ہوتی ہے اس لئے اس علت کا اقتضاء ہے کہ موضع ولد یعنی فرج کے سوا کسی اور جگہ ہمبستری کے عمل کی اجازت نہ ہو۔ جو لوگ اس کی اباحت کے قائل ہیں وہ درج بالا استدلال کا اس طرح جواب دیتے ہیں کہ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ مستحاضہ کے ساتھ ہمبستری جائز ہے جبکہ اذی یعنی گندگی جو کہ دم استحاضہ ہے وہاں بھی موجود ہے اور استحاضہ کا خون اسی طرح نجس اور پلید ہے جس طرح حیض کا خون اور دوسری تمام نجاستیں۔ یہ لوگ موضع حرث یعنی فرج میں وطی کی اباحت کی تخصیص کا یہ جواب دیتے ہیں کہ مادون الفرج جماع پر سب کا اتفاق ہے جبکہ مادون الفرج یعنی فرج کے علاوہ نسوانی جسم کا کوئی اور حصہ مثلا ران وغیرہ اولاد کی پیدائش گاہ نہیں ہے۔- اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وطی کی اباحت موضع ولد تک محدود نہیں ہے۔ انہیں اس کا یہ جواب دیا جائے گا کہ ظاہر آیت اس کا مقتضی ہے کہ اباحت وطی فرج تک محدود رہے اور یہی مراد خداوندی ہے کیونکہ آیت من حیث امرکم اللہ اس پر معطوف ہے اگر اجماع کی دلالت قائم نہ ہوجاتی تو مادون الفرج وطی کا جواز بھی پیدا نہ ہوتا لیکن ہم نے مادون الفرج جماع کو اس دلالت کی بنا پر تسلیم کرلیا اور ممانعت کا حکم اس جگہ کے لئے باقی رہا جس کے لئے کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢٣) تمہاری منکوحہ عورتوں کی شرم گا ہیں تمہاری اولاد پیدا کرنے کے لیے تمہاری کھیتی کی طرح ہیں، اپنی منکوحہ عورتوں کے ساتھ ان کی شرم گاہوں کے لیے جس طریقہ سے چاہو صحبت کرو خواہ سامنے کی طرف سے یا پیچھے کی طرف سے اور اولاد نیک پیدا کرو، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان کے پیچھے کے راستہ میں اور حالت حیض میں ہمبستری اور صبحت کرنے سے ڈرو، کیوں کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے وہ تمہیں تمہارے اعمال پر بدلہ دے گا اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مسلمانوں کو جو عورتوں سے پیچھے کے راستہ میں اور حیض کی حالت میں صحبت کرنے سے بچتے ہیں، جنت کی خوشخبری سنا دیں۔- شان نزول : (آیت) ” نساؤ کم حرث لکم “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ومسلم، ابوداؤد (رح) اور ترمذی (رح) نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ یہودی کہا کرتے تھے کہ جب آدمی پشت کی جانب سے ہو کر شرم گاہ میں صحبت کرے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری کی تمہاری بیویاں تمہارے لیے کھیت کی مانند ہیں، جس طرح سے چاہو ان سے صحبت اور ہمبستری کرو،۔- اور امام احمد (رح) اور ترمذی (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہلاک ہوگیا، آپ نے فرمایا کس چیز نے تمہیں ہلاک کردیا، عرض کیا رات پشت کی طرف سے ہو کر میں نے اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرلی ہے۔ آپ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، اتنے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی (آیت) ” نساؤ کم حرث لکم “۔ یعنی خواہ تم اپنی کھیتیوں میں سامنے کی طرف سے آؤ یا پشت کی طرف سے، پیچھے کے راستہ میں اور حیض کے زمانہ میں صحبت کرنے سے بچو، ابن جریر (رح) ، ابویعلی اور ابن مردویہ (رح) نے بواسطہ زید بن اسلم، عطابن یسار (رح) حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے پشت کی طرف سے ہو کر اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کی، لوگوں نے اس چیز کو بری نظر سے دیکھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ (آیت) ” نساؤ کم حرث لکم “۔ (الخ)- اور امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عورتوں سے ان کی پشتوں کی جانب سے صحبت کرنے کے بارے میں اتری ہے۔- اور امام طبرانی (رح) نے اوسط میں سند جید کے ساتھ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ (آیت) ” نساؤ کم حرث لکم “۔ (الخ) یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پشت کی طرف سے بیٹھ کر صحبت کرنے کی اجازت کے متعلق اتری ہے اور امام طبرانی (رح) ہی نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اپنی بیوی سے پشت کی طرف سے آکر صحبت کرلی تھی، لوگوں نے اس پر اسے ٹوکا اور ناپسند کیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی، یعنی تمہاری بیویاں کھیتوں کی مانند ہیں جس طریقہ سے چاہوآؤ (اور اپنے کھیت میں آؤ جو اگلا حصہ ہے پچھلا حصہ کھیت نہیں کیوں کہ اس میں کھیتی نہیں اگتی یعنی بچہ کی پیداوار نہیں۔ مترجم)- امام ابوداؤد (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ابن عمر (رض) کی بخشش فرمائے، ان کو وہم ہوگیا ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ انصار کے یہ قبیلہ والے یہودیوں کے اس قبیلے کے ساتھ بت پرستی میں شریک تھے اور یہ لوگ اہل کتاب کو اپنے سے علم میں زیادہ عالم سمجھتے تھے، لہٰذا بہت سی باتوں میں انصار ان کی پیروی کرتے تھے، چناچہ اہل کتاب اپنی بیویوں سے صرف ایک ہی طرف سے صحبت کرتے تھے اور یہ چیز عورت کے حق میں زیادہ پردہ کا باعث ہوتی تھی اور انصار کے قبیلہ نے بھی یہودیوں سے بھی بات لے لی تھی، اور قریش کا قبیلہ عورتوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے صحبت کرتا تھا اور ان سے سامنے سے اور پشت سے ہو کر اور ایسے ان کے ساتھ چت لیٹ کر لذت حاصل کیا کرتا تھا، جب مہاجرین مدینہ منورہ آئے تو مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری عورت کے ساتھ شادی کی، جب مہاجر نے اس عورت کے ساتھ ہمبستری کرنا چاہی تو اس نے اس طریقہ کے ساتھ کرنے سے انکار کیا اور ناپسند کیا اور کہا کہ ہمارے یہاں تو صرف ایک ہی جانب سے صحبت کی جاتی ہے غرض کہ ان دونوں کی یہ بات پھیل گئی حتی کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کی اطلاع ہوئی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل کردی کہ سامنے کی جانب یا پشت کی طرف سے ہو کر یا پہلو کے بل لیٹ کر جس طرح چاہو اولاد پیدا ہونے کی جگہ میں جو اگلا حصہ ہے صحبت اور ہمبستری کرو۔- حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) شرح بخاری میں فرماتے ہیں کہ ابن عمر (رض) نے جو اس آیت کے نزول کا سبب بیان کیا ہے وہ مشہور ہے اور ابن عباس (رض) کو ابوسعید خدری (رض) کی روایت نہیں پہنچی، صرف ابن عمر (رض) کی پہنچی ہے جس پر انہوں نے یہ گفتگو کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٣ (نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ) ۔ - جیسے کھیت میں بیج بوتے ہو ‘ پھر فصل کاٹتے ہو ‘ اسی طرح بیویوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد عطا کرتا ہے۔- (فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِءْتُمْ ز) - تم اپنی کھیتی میں جدھر سے چاہو آؤ ‘ تمہارے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے ‘ آگے سے یا دا ‘ ہنی طرف سے یا بائیں طرف سے ‘ جدھر سے بھی چاہو ‘ مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی اسی خاص جگہ میں ہو جہاں سے پیداوار کی امید ہوسکتی ہے۔- (وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ط) - یعنی اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اپنی نسل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرو۔ اولاد انسان کا اثاثہ ہوتی ہے اور بڑھاپے میں اس کا سہارا بنتی ہے۔ آج تو الٹی گنگا بہائی جارہی ہے اور اولاد کم سے کم پیدا کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ‘ جبکہ ایک زمانے میں اولاد عصائے پیری شمار ہوتی تھی۔ - (وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ط) - نوٹ کیجیے کہ قرآن حکیم میں شریعت کے ہر حکم کے ساتھ تقویٰ کا ذکر بار بار آرہا ہے۔ اس لیے کہ کسی قانون کی لاکھ پیروی کی جا رہی ہو مگر تقویٰ نہ ہو تو وہ قانون مذاق بن جائے گا ‘ کھیل تماشا بن جائے گا۔ اس کی بعض مثالیں ابھی آئیں گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :241 یعنی فطرۃ اللہ نے عورتوں کو مردوں کے لیے سیرگاہ نہیں بنایا ہے ، بلکہ ان دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے ۔ کھیت میں کسان محض تفریح کے لیے نہیں جاتا ، بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے ۔ نسل انسانی کے کسان کو بھی انسانیت کی کھیتی میں اس لیے جانا چاہیے کہ وہ اس سے نسل کی پیداوار حاصل کرے ۔ خدا کی شریعت کو اس سے بحث نہیں کہ تم اس کھیت میں کاشت کس طرح کرتے ہو ، البتہ اس کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جاؤ کھیت ہی میں ، اور اس غرض کے لیے جاؤ کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :242 جامع الفاظ ہیں ، جن سے دو مطلب نکلتے ہیں اور دونوں کی یکساں اہمیت ہے ۔ ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش کرو تاکہ تمہارے دنیا چھوڑنے سے پہلے تمہاری جگہ دوسرے کام کرنے والے پیدا ہوں ۔ دوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑنے والے ہو ، اس کو دین ، اخلاق اور آدمیت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو ۔ بعد کے فقرے میں اس بات پر بھی تنبیہ فرما دی ہے کہ اگر ان دونوں فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی ، تو اللہ تم سے باز پرس کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

145: اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے ایک لطیف کنایہ استعمال کرکے میاں بیوی کے خصوصی ملاپ کے بارے میں چند حقائق بیان فرمائے ہیں۔ پہلی بات تو یہ واضح فرمائی ہے کہ میاں بیوی کا یہ ملاپ صرف لذت حاصل کرنے کے مقصد سے نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اسے انسانی نسل کی بڑھوتری کا ذریعہ سمجھنا چاہئے، جس طرح ایک کاشتکار اپنی کھیتی میں بیج ڈالتا ہے تو اس کا اصل مقصد پیداوار کا حصول ہوتا ہے اسی طرح یہ عمل بھی دراصل انسانی نسل باقی رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ دوسری حقیقت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب اس عمل کا اصل مقصد یہ ہے تو یہ عمل نسوانی جسم کے اسی حصے میں ہونا چاہئے جو اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے، پیچھے کا جو حصہ اس کام کے لئے نہیں بنایا گیا، اس کو فطرت کے خلاف جنسی لذت کے لئے استعمال کرنا حرام ہے۔ تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ نسوانی جسم کا جو اگلا حصہ اس غرض کے لئے بنایا گیا ہے، اس تک پہنچنے کے لئے راستہ کوئی بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ یہودیوں کا خیال یہ تھا کہ اس حصے میں مباشرت کرنے کے لئے بس ایک ہی طریقہ جائز ہے، یعنی سامنے کی طرف سے، اگر مباشرت آگے ہی کے حصے میں ہو، لیکن اس تک پہنچنے کے لئے راستہ پیچھے کا اختیار کیا جائے تو وہ کہتے تھے کہ اولاد بھینگی پیدا ہوتی ہے۔ اس آیت نے یہ غلط فہمی دور کردی۔