Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایام حیض اور جماع سے متعلقہ مسائل: حضرت انس فرماتے ہیں کہ یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے اور نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ، صحابہ نے اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جس کے جواب میں یہ آیت اتری ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے جماع کے اور سب کچھ حلال ہے یہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ انہیں تو ہماری مخالفت ہی سے غرض ہے ، حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشر نے یہودیوں کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمیں جماع کی بھی رخصت دی جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ یہ سن کر متغیر ہو گیا یہاں تک کہ اور صحابہ نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو گئے ۔ جب یہ بزرگ جانے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی بزرگ تحفتاً دودھ لے کر آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور وہ دودھ انہیں پلایا ، اب معلوم ہوا کہ وہ غصہ جاتا رہا ۔ ( مسلم ) پس اس فرمان کا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو یہ مطلب ہوا کہ جماع نہ کرو اس لئے کہ اور سب حلال ہے ۔ اکثر علماء کا مذہب ہے کہ سوائے جماع کے مباشرت جائز ہے ، احادیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسی حالت میں ازواج مطہرات سے ملتے جلتے لیکن وہ تہمند باندھے ہوئے ہوتی تھیں ( ابو داؤد ) حضرت عمارہ کی پھوپھی صاحبہ حضرت عائشہ صدیقہ سے سوال کرتی ہیں کہ اگر عورت حیض کی حالت میں ہو اور گھر میں میاں بیوی کا ایک ہی بستر ہو تو وہ کیا کرے؟ یعنی اس حالت میں اس کے ساتھ اس کا خاوند سو سکتا ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا ، سنو ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے ، آتے ہی نماز کی جگہ تشریف لے گئے اور نماز میں مشغول ہو گئے ، دیر زیادہ لگ گئی اور اس عرصہ میں مجھے نیند آ گئی ، آپ کو جاڑا لگنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ادھر آؤ ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو حیض سے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھٹنوں کے اوپر سے کپڑا ہٹانے کا حکم دیا اور پھر میری ران پر رخسار اور سینہ رکھ کر لیٹ گئے ، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گئی تو سردی کچھ کم ہوئی اور اس گرمی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آ گئی ۔ حضرت مسروق ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے پاس آئے اور کہا السلام علی النبی و علی اھلہ حضرت عائشہ نے جواب دے کر مرحبا مرحبا کہا اور اندر آنے کی اجازت دی ، آپ نے کہا ام المومنین ایک مسئلہ پوچھتا ہوں لیکن شرم معلوم ہوتی ہے ۔ آپ نے فرمایا ، سُن میں تیری ماں اور تو قائم مقام میرے بیٹے کے ہے ، جو پوچھنا ہو پوچھ ، کہا فرمائیے آدمی کیلئے اپنے حائضہ بیوی حلال ہے؟ فرمایا سوائے شرمگاہ کے اور سب جائز ہے ۔ ( ابن جریر ) اور سندوں سے بھی مختلف الفاظ کے ساتھ حضرت ام المومنین کا یہ قول مروی ہے ، حضرت ابن عباس مجاہد حسن اور عکرمہ کا فتویٰ بھی یہی ہے ، مقصد یہ ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا اس کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ امور بالاتفاق جائز ہیں ۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے میں حیض سے ہوتی تھی ، میں ہڈی چوستی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ہڈی کو وہیں منہ لگا کر چوستے تھے ، میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں منہ لگا کر اسی گلاس سے پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی ، ابو داؤد میں روایت ہے کہ میرے حیض کے شروع دِنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ ہی لحاف میں سوتے تھے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا کہیں سے خراب ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی ہی جگہ کو دھو ڈالتے ۔ اگر جسم مبارک پر کچھ لگ جاتا تو اسے بھی دھو ڈالتے اور پھر ان ہی کپڑوں میں نماز پڑھتے ۔ ہاں ابو داؤد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں میں جب حیض سے ہوتی تو بسترے سے اتر جاتی اور بورئیے پر آجاتی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب بھی نہ آتے جب تک میں پاک نہ ہو جاؤں ۔ تو یہ روایت محمول ہے کہ آپ پرہیز اور احتیاط کرتے تھے نہ یہ کہ محمول ہو حرمت اور ممانعت پر بعض حضرات یہ بھی فرماتے ہیں کہ تہبند ہوتے ہوئے فائدہ اٹھائے ، حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی کسی اہلیہ سے ان کی حیض کی حالت میں ملنا چاہتے تھے تو انہیں حکم دیتے تھے کہ تہبند باندھ لیں ( بخاری ) اس طرح بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ میری بیوی سے مجھے اس کے حیض کے حالت میں کیا کچھ حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہبند سے اوپر کا کل ( ابوداؤد وغیرہ ) ایک اور روایت میں ہے کہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے ۔ حضرت عائشہ حضرت ابن عباس ، حضرت سعید بن مسیب اور حضرت شریح کا مذہب بھی یہی ہے ۔ امام شافعی کے اس بارے میں دو قول ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ اکثر عراقیوں وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ تو متفقہ فیصلہ ہے کہ جماع حرام ہے اس لئے اس کے آس پاس سے بھی بچنا چاہئے تاکہ حرمت میں واقع ہونے کا خطرہ نہ رہے ۔ حالت حیض میں جماع کی حرمت اور اس کام کے کرنے والے کا گنہگار ہونا تو یقین امر ہے جسے توبہ استغفار کرنا لازمی ہے لیکن اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں اس میں علماء کرام کے دو قول ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کفارہ بھی ہے چنانچہ مسند احمد اور سنن میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ دے ۔ ترمذی میں ہے کہ خون اگر سرخ ہو تو ایک دینار اور اگر زرد رنگ کا ہو تو آدھا دینار ۔ مسند احمد میں ہے کہ اگر خون پیچھے ہٹ گیا اور ابھی اس عورت نے غسل نہ کیا ہو اور اس حالت میں اس کا خاوند اس سے ملے تو آدھا دینار ورنہ پورا دینار ، دوسرا قول یہ ہے کہ کفارہ کچھ بھی نہیں صرف اللہ عزوجل سے استغفار کرے ۔ امام شافعی کا بھی آخری اور زیادہ صحیح یہی مذہب ہے اور جمہور علماء بھی اسی کے قائل ہیں ۔ جو حدیثیں اوپر بیان ہوئیں ان کی نسبت یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ان کا مرفوع ہونا صحیح نہیں بلکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے ۔ یہ فرمان کہ جب تک عورتیں پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ ۔ یہ تفسیر ہے اس فرمان کی کہ عورتوں سے ان کی حیض کی حالت میں جدا رہو ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حیض ختم ہو جائے پھر نزدیکی حلال ہے ۔ حضرت امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل فرماتے ہیں طہر یعنی پاکی دلالت کرتی ہے کہ اب اس سے نزدیکی جائز ہے ۔ حضرت میمونہ اور حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو تہبند باندھ لیتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں سوتی ، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جس زندگی سے منع کیا گیا ہے وہ جماع ہے ، ویسے سونا بیٹھنا وغیرہ سب جائز ہے ۔ اس کے بعد یہ فرمان ان کے پاک ہو جانے کے بعد ان کے پاس آؤ ۔ اس میں ارشاد ہے کہ اس کے غسل کر لینے کے بعد ان سے جماع کرو ۔ امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہر حیض کی پاکیزگی کے بعد جماع کرنا واجب ہے ، اس کی دلیل آیت ( فائتوھن ) ہے جس میں حکم ہے لیکن یہ دلیل کوئی پختہ نہیں ۔ یہ امر تو صرف حرمت کو ہٹا دینے کا اعلان ہے اور اس کے سوا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ، علماء اصول میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ امر یعنی حکم مطلقاً وجوب کیلئے ہوتا ہے ان لوگوں کو امام ابن حزم کا جواب بہت گراں ہے ، بعض کہتے ہیں یہ امر صرف اباحت کیلئے ہے اور چونکہ اس سے پہلے ممانعت وارد ہو چکی ہے یہ قرینہ ہے جو امر کو وجوب سے ہٹا دیتا ہے لیکن یہ غور طلب بات ہے ، دلیل سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر یعنی پہلے منع ہو پھر حکم ہو تو حکم اپنی اصل پر رہتا ہے یعنی جو بات منع سے پہلے جیتی تھی ویسی ہی اب ہو جائے گی یعنی اگر منع سے پہلے وہ کام واجب تھا تو اب بھی واجب ہی رہے گا ، جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ) 9 ۔ التوبہ:5 ) یعنی جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے جہاد کرو ۔ اور اگر یہ کام ممانعت سے پہلے مباح تھا تو اب بھی وہ مباح رہے گا جیسے آیت ( ۭوَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ) 5 ۔ المائدہ:2 ) جب تم احرام کھول دو تو شکار کھیلو ، اور جگہ ہے آیت ( فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 62 ۔ الجمعہ:10 ) یعنی جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ۔ ان علماء کرام کا یہ فیصلہ ان مختلف اقوال کو جمع بھی کر دیتا ہے جو امر کے وجوب وغیرہ کے بارے میں ہیں ۔ غزالی وغیرہ نے بھی اسے بیان کیا ہے اور بعض ائمہ متاخرین نے بھی اسے پسند فرمایا ہے اور یہی صحیح بھی ہے ۔ یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ تمام علماء امت کا اتفاق ہے کہ جب خون حیض کا آنا رُک جائے ، مدت حیض گزر جائے پھر بھی اس کے خاوند کو اپنی بیوی سے مجامعت کرنی حلال نہیں جب تک وہ غسل نہ کر لے ، ہاں اگر وہ معذور ہو اور غسل کے عوض تیمم کرنا اسے جائز ہو تو تیمم کر لے ۔ اس کے بعد اس کے پاس اس کا خاوند آ سکتا ہے ۔ ہاں امام ابو حنیفہ ان تمام علماء کے مخالف ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ جب حیض زیادہ سے زیادہ دِنوں تک آخری معیاد یعنی دس دن تک رہ کر بند ہو گیا تو اس کے خاوند اس سے صحبت کرنا حلال ہے ، گو اس نے غسل نہ کیا ہو ، واللہ اعلم ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو لفظ ( یطھرون ) کا اس سے مراد خون حیض کا بند ہونا ہے اور ( تطھرون ) سے مراد غسل کرنا ہے ۔ حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت حسن ، حضرت مقاتل بن حیات ، حضرت لیث بن سعد وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ، پھر ارشاد ہوتا ہے اس جگہ سے آؤ جہاں سے آنے کا حکم اللہ نے تمہیں دیا ہے ، مراد اس سے آگے کی جگہ ہے ۔ حضرت ابن عباس ، حضرت مجاہد وغیرہ بہت سے مفسرین نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ مراد اس سے بچوں کے تولد ہونے کی جگہ ہے ، اس کے سوا اور جگہ یعنی پاخانہ کی جگہ جانا حرام ہے ، ایسا کرنے سے حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔ صحابہ اور تابعین سے بھی یہی مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ جس جگہ سے حالت حیض میں تم روکے گئے تھے اب وہ جگہ تمہارے لئے حلال ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاخانہ کی جگہ وطی کرنا حرام ہے ۔ اس کا مفصل بیان بھی آتا ہے انشاء اللہ ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ پاکیزگی کی حالت میں آؤ جبکہ حیض سے نکل آئیں اس لئے اس کے بعد کے جملہ میں ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والوں ، اس حالت میں جماع سے باز رہنے والوں ، گندگیوں اور ناپاکیوں سے بچنے والوں ، حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے نہ ملنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ سے محفوظ رہنے والوں کو بھی پروردگار اپنا محبوب بنا لیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

222۔ 1 بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے اسے استحاضہ کہتے ہیں جس کا حکم حیض سے مختلف ہے حیض کے ایام میں عورت کو نماز معاف ہے اور روزے رکھنے ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مردوں کے لئے صرف ہم بستری سے منع کیا ہے البتہ بوس و کنار جائز ہے اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر کام کرسکتی ہے۔ 222۔ 2 جہاں سے اجازت ہے یعنی شرم گاہ سے۔ کیونکہ حالت حیض میں بھی اسی سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جا رہی ہے تو اس کا مطلب (فرج، شرم گاہ) کی اجازت ہے نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید وضاحت کردی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩٥] اذی کا معنی تکلیف، بیماری اور گندگی بھی ہے۔ چناچہ طبی حیثیت سے حیض کے دوران عورت کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ صحت کی نسبت بیماری سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ حیض کی مدت ہر عورت کے جسم اور اس کے مزاج کے لحاظ سے کم و بیش ہوتی ہے جو عموماً کم ازکم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن تک ہوسکتی ہے اور اپنی اپنی عادت (مدت حیض) کا ہر عورت کو علم ہوتا ہے۔- [٢٩٦] الگ رہو اور قریب نہ جاؤ۔ ان دونوں سے مراد مجامعت کی ممانعت ہے۔ یہود و نصاریٰ دونوں اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار تھے۔ یہود تو دوران حیض ایسی عورتوں کو الگ مکان میں رکھتے اور ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی نہ کھاتے تھے اور نصاریٰ دوران حیض مجامعت سے بھی پرہیز نہ کرتے تھے۔ چناچہ مسلمانوں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت کی رو سے خاوند اور بیوی دونوں اکٹھے مل کر رہ سکتے ہیں اکٹھا کھانا کھا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ میاں اپنی بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے، اس کے گلے لگ سکتا ہے اور اس سے چمٹ بھی سکتا ہے (اور یہی مباشرت کا لغوی معنی ہے) اور قرآن میں جو کسی دوسرے مقام پر (باشروھن) مجامعت کے معنوں میں آیا ہے تو وہ کنائی معنی ہے لغوی نہیں بس صرف مجامعت نہیں کرسکتا۔ حیض کے دوران عورت جو کام نہیں کرسکتی، وہ درج ذیل ہیں۔- ١۔ وہ نماز نہیں پڑھ سکتی اور حیض کے دوران اسے نماز معاف ہے، ان کی قضا اس پر واجب نہیں۔- ٢۔ وہ روزے بھی نہیں رکھ سکتی۔ لیکن روزے اسے معاف نہیں بلکہ بعد میں ان کی قضا دینا واجب ہے۔- ٣۔ وہ ماسوائے طواف کعبہ کے حج کے باقی سب ارکان بجا لاسکتی ہے اور واجب طواف کعبہ کے لیے اسے اس وقت تک رکنا پڑے گا جب تک پاک نہ ہو لے۔- ٤۔ وہ کعبہ میں یا کسی بھی مسجد میں داخل نہیں ہوسکتی۔- ٥۔ وہ قرآن کو چھو نہیں سکتی۔ البتہ زبانی قرآن کریم کی تلاوت کی اسے اکثر علماء کے نزدیک اجازت ہے۔- ٦۔ استحاضہ حیض سے بالکل الگ چیز ہے۔ استحاضہ بیماری ہے جبکہ حیض بیماری نہیں بلکہ عورت کی عادت میں شامل ہے۔ لہذا استحاضہ میں وہ تمام پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ جو حیض کی صورت میں تھیں، حتیٰ کہ اس سے صحبت بھی کی جاسکتی ہے۔- [٢٩٧] یہاں حکم سے مراد کوئی ایسا شرعی حکم نہیں جس کا بجا لانا ضروری ہو، بلکہ وہ طبعی حکم مراد ہے جو ہر جاندار کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور جس سے ہر متنفس بالطبع واقف ہوتا ہے۔ اس کے خلاف کرے یعنی دبر میں جماع کرے تو وہ مجرم ہوگا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ ( فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ ۝ۚ ) 23 ۔ المؤمنون :7)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الْمَحِيْضِ “ حَاضَ یَحِیْضُ (ض) سے اسم مصدر ہے، اس کا اصل معنی ” بہنا “ ہے۔ مراد عورت کا وہ خون ہے جو ہر ماہ عادت کے مطابق آتا ہے۔ عادت کے خلاف جو خون آئے وہ استحاضہ (بیماری) ہے۔ - ” اَذًى“ کا لفظ تکلیف، بیماری اور گندگی تینوں معنوں میں آتا ہے۔ نکرہ ہونے کی وجہ سے ” ایک طرح کی گندگی “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کا گندگی ہونا تو ظاہر ہے، طبی حیثیت سے بھی عورت ان دنوں صحت کی نسبت بیماری کے زیادہ قریب ہوتی ہے اور اس حالت میں اس سے جماع خاوند اور بیوی دونوں کے لیے بیماری کا باعث ہوسکتا ہے۔ انس (رض) فرماتے ہیں کہ یہود میں جب کسی عورت کو حیض آتا تو وہ نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ گھر میں ان کے ساتھ اکٹھے رہتے، صحابہ کرام (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (اس بارے میں) پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ ) [ البقرۃ : ٢٢٢ ] تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جماع کے علاوہ سب کچھ کرو۔ “ [ مسلم، الحیض،- باب جواز غسل الحائض ۔۔ : ٣٠٢ ] احادیث میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ اس حالت میں خاوند کے لیے عورت کا بوسہ لینا، اس سے چمٹنا، الغرض سب کچھ سوائے جماع کے جائز ہے۔ وہ اس حالت میں گھر میں رہ کر کھانا پکانا، بچے کو دودھ پلانا، غرض گھر کا ہر کام کرسکتی ہے، البتہ مسجد میں جانا اور نماز، روزہ اس کے لیے جائز نہیں۔- حَتّٰى يَـطْهُرْنَ : یہ باب ” نَصَرَ “ اور ” کَرُمَ “ سے ہے، بمعنی پاک ہوجائیں ” فَاْتُوْھُنَّ “ باب تفعل ہے، جس میں مبالغہ ہے، یعنی ” خوب پاک ہوجائیں “ غسل کرلیں۔ ” حَتّٰى يَـطْهُرْنَ “ سے معلوم ہوا کہ حیض سے پاک ہونے تک جماع منع ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے جماع کی اجازت ” تَطَهَّرْنَ “ (یعنی غسل کرنے) کے بعد دی ہے۔ اکثر اہل علم یہی فرماتے ہیں کہ غسل سے پہلے جماع جائز نہیں۔ طبری نے اس پر علماء کا اجماع ذکر کیا ہے، البتہ بعض علماء پاک ہونے کے بعد عورت کے شرم گاہ کو دھو لینے کے بعد جماع جائز سمجھتے ہیں، مگر پہلی بات میں زیادہ احتیاط ہے۔ - فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ ” فَاْتُوْھُنَّ “ کا مطلب یہ نہیں کہ ضرور ہی ان سے صحبت کرو، بلکہ منع کرنے کے بعد امر آئے تو اجازت مراد ہوتی ہے، جیسے : (ۭوَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا) [ المائدۃ : ٢ ] ” جب احرام کھول دو تو شکار کرو۔ “ ” جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے “ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ سے (یعنی شرم گاہ میں جماع سے) تمہیں منع کیا تھا، اب اس جگہ سے عورت کے پاس جانے کی اجازت ہے۔ دبر کی اجازت نہ پہلے تھی نہ اب ہے، یہ تو سراسر گندگی ہے اور ” الْمُتَطَهِّرِيْنَ “ ( بہت پاک رہنے والوں) سے اس کی کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی طرح حیض کی حالت میں جانا بھی ” الْمُتَطَهِّرِيْنَ “ کے لائق نہیں۔ اگر کوئی اس حالت میں چلا گیا تو بہت توبہ کرنے سے اللہ کی محبت کا پھر حق دار بن سکتا ہے۔ ” التَّـوَّابِيْنَ “ اور ” الْمُتَطَهِّرِيْنَ “ کی یہ تفسیر آیت کی مناسبت سے ہے، ورنہ لفظ عام ہیں، جن میں ہر گناہ سے بہت توبہ اور ہر نجاست سے بہت اجتناب اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ - عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص حیض کی حالت میں بیوی کے پاس جائے وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔ “ [ أبو داوٗد، النکاح، باب فی کفارۃ من أتی حائضًا : ٢١٦٨۔ نسائی : ٢٩٠۔ ترمذی : ١٣٦۔ ابن ماجہ : ٦٤٠ ] شیخ البانی (رض) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرنے کا اختیار ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- حکم نمبر ١٩ حیض میں جماع کی حرمت اور پاکی کی شرائط :- وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ (الی قولہ) وَبَشِّرِ الْمُؤ ْمِنِيْنَ اور لوگ آپ سے حیض کی (حالت میں صحبت وغیرہ کرنے) کا حکم پوچھتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ وہ (حیض) گندگی کی چیز ہے تو حالت حیض میں عورتوں (کے ساتھ صحبت کرنے) سے علیحدہ رہا کرو اور (حالت میں) ان سے قربت مت کرو جب تک وہ (حیض سے) پاک نہ ہوجاویں پھر جب وہ (عورتیں) اچھی طرح پاک ہوجاویں (کہ ناپاکی کا شک وشبہ نہ رہے) تو ان کے پاس آؤ جاؤ (یعنی ان سے صحبت کرو) جس جگہ سے تم کو خدا تعالیٰ نے اجازت دی ہے (یعنی آگے سے) یقینا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے (مثلاً اتفاقا یا بےاحتیاطی سے حالت حیض میں صحبت کر بیٹھا پھر متنبہ ہو کر توبہ کرلی) اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے (جو حالت حیض میں صحبت کرنے سے اور دوسرے منہیات سے بچتے ہیں اور حالت پاکی میں اجازت صحبت کی دینا پھر اس قید سے اجازت دینا کہ آگے کے موقع میں صحبت ہو اس لئے ہے کہ) تمہاری بیبیاں تمہارے لیے (بمنزلہ) کھیت (کے) ہیں جس میں نطفہ بجائے تخم کے اور بچہ بجائے پیداوار کے ہے) سو اپنے کھیت میں جس طرف سے چاہو آؤ (اور جس طرح کھیتوں میں اجازت ہے اسی طرح بیبیوں کے پاس پاکی کی حالت میں ہر طرف سے آنے کی اجازت ہے خواہ کروٹ سے ہو یا پیچھے سے یا آگے بیٹھ کر ہو یا اوپر یا نیچے لیٹ کر ہو یا جس ہیئت سے ہو مگر آنا ہو ہر حال میں کھیت کے اندر کہ وہ خاص آگے کا موقع ہے کیونکہ پیچھے کا موقع کھیت کے مشابہ نہیں اس میں صحبت نہ ہو اور ان لذات میں ایسے مشغول مت ہوجاؤ کہ آخرت ہی کو بھول جاؤ بلکہ) آئندہ کے واسطے اپنے لئے کچھ (اعمال صالحہ) کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے (ہر حال میں) ڈرتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ بیشک تم اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے والے ہو اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے) ایمان داروں کو (جو نیک کام کریں خدا سے ڈریں خدا تعالیٰ کے سامنے جانے کا یقین رکھیں) خوشی کی خبر سنا دیجئے (کہ ان کو آخرت میں ہر طرح کی نعمتیں ملیں گی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ۝ ٠ ۭ قُلْ ھُوَاَذًى۝ ٠ ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ۝ ٠ ۙ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَطْہُرْنَ۝ ٠ ۚ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللہُ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِيْنَ۝ ٢٢٢- حيض - الحیض : الدّم الخارج من الرّحم علی وصف مخصوص في وقت مخصوص، والمَحِيض : الحیض ووقت الحیض وموضعه، علی أنّ المصدر في هذا النّحو من الفعل يجيء علی مفعل، نحو : معاش ومعاد، وقول الشاعر : لا يستطیع بها القراد مقیلاأي مکانا للقیلولة، وإن کان قد قيل : هو مصدر، ويقال : ما في برّك مكيل ومکال - ( ح ی ض ) الحیض ۔ وہ خون جو مخصوص دنوں میں صفت خاص کے ساتھ عورت کے رحم سے جاری ہوتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہے اور محیض کے معنی حیض اور مقام حیض کے ہیں کیونکہ فعل سے اس قسم کے مصادر مفعل کے وزن پر آتے ہیں جیسے معاش ومعاذا ور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( کہ چیچڑی اس میں قیلولہ کی جگہ بھی نہیں پاتی ہے میں مقیلا ظرف ہے یعنی قیلولہ کرنے کی جگہ گو بعض نے کہا ہے کہ یہ مصدر ہے اور کہا جاتا ہے کہ تیرے غلہ میں ماپ نہیں ہے ۔- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ - عزل - الاعْتِزَالُ : تجنّب الشیء عمالة کانت أو براءة، أو غيرهما، بالبدن کان ذلک أو بالقلب، يقال : عَزَلْتُهُ ، واعْتَزَلْتُهُ ، وتَعَزَّلْتُهُ فَاعْتَزَلَ. قال تعالی: وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] - ( ع ز ل ) الا عتزال - کے معنی ہیں کسی چیز سے کنارہ کش ہوجانا عام اس سے کہ وہ چیز کوئی پیشہ ہو یا کوئی بات وغیرہ ہو جس سے بری ہونے کا اعلان کیا جائے نیز وہ علیحدہ گی بذریعہ بدن کے ہو یا بذریعہ دل کے دنوں قسم کی علیحگی پر بولا جاتا ہے عزلتہ واعتزلتہ وتعزلتہ میں نے اس کو علیحہ فاعتزل چناچہ وہ علیحہ ہ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] اور جب تم نے ان مشرکوں سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - تَّوَّاب - والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ- [ الرعد 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] .- التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حیض کا بیان - قول باری ہے ویسئلونک عن المحیض قل ھواذی فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا کیا حکم ہے کہہ دیجئے کہ وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو) لفظ محیض حیض کے لئے اسم ہے اور یہ بھی درست ہے کہ یہ موضع حیض کے لئے اسم ہو۔ مثلا مقیل (قیلولہ کرنے کی جگہ) یا مبیت (رات گزارنے کی جگہ) وغیرہ۔ لیکن لفظ محیض سے جس مضمون کی طرف اشارہ ہو رہا ہے اس کی دلالت یہ ہے کہ یہاں اس سے حیض مراد ہے اس لئے کہ سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے کہ ” یہ گندگی کی حالت ہے “ یہ بات حیض کی صفت موضع حیض کی نہیں ہوسکتی لوگوں نے دراصل اس کے حکم کے متعلق سوال کیا تھا اور یہ پوچھا تھا کہ اس حالت میں ان کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ مدینہ میں یہود ان کے پڑوسی تھے جو حیض کی حالت میں عورتوں کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا بھی ترک کردیتے تھے اس لئے مسلمانوں نے یہ جاننا چاہا کہ اسلام میں اس کا کیا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ھواذیً یعنی حیض نجاست اور گندگی ہے حیض کی اس کیفیت کے بیان سے یہ لازم آگیا کہ لوگ اس سے اجتناب کریں اس لئے کہ انہیں نجاستوں سے اجتناب کا پہلے ہی سے علم تھا۔ اس بنا پر حیض پر نجاست اور گندگی کا اطلاق کر کے انہیں سمجھا دیا کہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔ نجاستوں پر لفظ اذی کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہے ۔- اذا اصاب نعل احدکم اذی فلیمسحھا ب الارض ولیصل فیہ فانہ لہ طھور، جب تم میں سے کسی کے جوتے کو نجاست لگ جائے تو اسے زمین پر گڑ کر صاف کرلے اور اس کے ساتھ نماز پڑھ لے کیونکہ زمین اس کی طہارت کا ذریعہ ہے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجاست کو اذی کا نام دیا۔ نیز جب یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ھواذی فرما کر یہ خبر نہیں دی کہ حیض کی وجہ سے لوگوں کو اذیت ہوتی ہے کیونکہ اس اطلاع کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ لوگوں کو فطری طور پر یہ بات م معلوم تھی۔ اس بنا پر ہمیں یہ پتہ چل گیا کہ ھواذی فرما کر دراصل اس کی نجاست اور اس سے اجتناب کی اطلاع دی جا رہی ہے کیونکہ ہر وہ چیز جس پر لفظ اذی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ نجاست ہو مثلاً یہ قول باری ہے ولاجناح علیکم ان کان بکم اذیً من مطر، تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اگر تمہیں بارش کی وجہ سے وقت ہو…) بارش نجس نہیں ہوتی۔ اسی طرح قول باری ہے ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب من قبلکم و من الذین اشرکوا اذی کثیراً ۔ اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے) اس لئے زیر بحث آیت میں جس اذی کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد نجاست ہے اور ایسی گندگی جس سے اجتناب لازم ہے یہ تشریح اس لئے کی گئی کہ سوال کرنے والوں کے سوال کا یہی مقتضیٰ تھا اور خطاب کے الفاظ کی بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ حیض کی حالت میں مافوق الازار استمتاع جائز ہے لیکن اختلاف اس میں ہے کہ کن باتوں سے اجتناب ضروری ہے۔ پہلی بات کی اجازت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل سے حاصل ہوئی جس کی روایت حضرت عائشہ (رض) اور حضرت میمونہ (رض) نے ان الفاظ میں کی کہ آپ ازواج مطہرات سے حیض کے دوران مافوق الازارہم کنار ہوتے تھے۔ فقہاء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ فرج سے اجتناب ضروری ہے لیکن ماتحت الازاراستمتاع میں اختلاف رائے ہے۔- حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ فرج کے ماسوا اس کے لئے عمل جنسی کرنا جائز ہے ۔ (اس میں دبر داخل نہیں ہے اس لئے کہ ایتان و بریہرصورت حرام ہے) یہی سفیان ثوری اور محمد بن الحسن کا قول ہے۔ ان دونوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ خون نکلنے کی جگہ سے اس عمل کے دوران پرہیز کرے گا۔ اسی قسم کی روایت حسن بصری، شعبی، سعید بن المسیب اور ضحاک سے بھی ہے۔ حضرت عمر (رض) بن الخطاب اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اسے صرف مافوق الازار کی اجازت ہے، یہی امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، اوزاعی، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن، حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ اس سے پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب بھی نہ جائو) میں ماتحت الازار کی ممانعت پر دلالت دو وجہ سے ہو رہی ہے۔ اول قول باری فاتعزالوالنساء فی المحیض ) ہے جس کا ظاہر مافوق الازار اور ماتحت الازار دونوں سے اجتناب کے لزوم کا متقاضی ہے لیکن جب مافوق الازار سے استمتاع پر سب کا اتفاق ہوگیا تو اس دلالت کی بنا پر ہم نے اسے تسلیم کرلیا لیکن ممانعت کا حکم ماتحت الازار میں بحالہ باقی ہے کیونکہ اس کی اباحت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ دوسری وجہ قول باری ولاتقربوھن ہے مافوق الازار اور ماتحت الازار کے امتناع پر اس فقرے کی دلالت کی بھی وہی کیفیت ہے جو پہلے فقرے کی دلالت کی ہے۔- اس لئے اختلاف رائے کی وجہ سے اس سے صرف اسی چیز کی تخصیص کی جائے گی جس پر دلالت قائم ہوجائے۔ اس پر سنت سے بھی دلالت ہو رہی ہے۔ یہ یزیدبن ابی انیسہ کی حدیث ہے جس کی روایت انہوں نے ابواسحاق سے کی اور انہوں نے حضرت عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام عمیر سے کہ عراق کے کچھ لوگوں نے حضرت عمر (رض) سے استفسار کیا تھا کہ حالت حیض میں شوہر کے لئے اپنی بیوی سے کون کون سی باتیں حلال ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ یہی سوال میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا تو آپ نے جواب دیا تھا کہ لک منھا مافوق الازار ولیس لک عھا تحتۃ تمہیں مافوق الازار کی اجازت ہے ماتحت الازار کی نہیں) ۔ اس پر شیبانی کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عبدالرحمن بن الاسود سے روایت کی ہے انہوں نے اپنے والد اسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے وہ فرماتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی حالت حیض میں ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے حیض شروع ہوتے ہی ازار بند باندھنے کے لئے کہتے پھر اس سے اگر چاہتے تو ہم کنار ہوتے لیکن تم میں کون ایسا ہے جو اپنے جذبات پر اس طرح قابو رکھ سکے جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکھا کرتے تھے شیبانی نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے حضرت میمونہ (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے۔ جو لوگ مادون الازار کی اباحت کے قائل ہیں انہوں نے حماد بن سلمہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے حماد نے اس کی ثابت سے روایت کی ہے اور ثابت نے حضرت انس سے کہ یہودیوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حیض والی عورت کو گھر سے نکال دیتے تھے اور اس ک ساتھ کھانا پینا ترک کردیتے تھے حتی کہ ایک گھر میں نہیں رہتے تھے۔ حضور (رض) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے بارے میں پوچھا گیا جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ویسئلونک عن المحیض۔ تاآخر آیت۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک گھر میں ان کے ساتھ رہو اور جماع کے سوا جو چاہو کرو۔ اسی طرح ان حضرات نے حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ حضور (رض) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ مجھے کھجور کی چھوٹی چٹائی پکڑا دو ۔ حضرت عائشہ (رض) نے کہا کہ میں تو حائضہ ہوں، اس پر آپ نے فرمایا کہ ” تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے “۔ ان حضرات نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس حدیث کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ ہر وہ عضو جو حیض میں ملوث نہیں ہے حیض کی حالت میں اس کی طہارت اور جو ازاستمتاع کا وہی حکم ہے جو حیض آنے سے پہلے تھا۔ جو لوگ ماتحت الازار کی ممانعت کے قائل ہیں ان کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ حضرت انس کی روایت میں صرف نزول آیت کے سبب کا ذکر ہے اور یہودیوں کے طرز عمل کی اطلاع ہے حضور (رض) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کی مخالفت کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم حیض والی عورتوں کو گھروں سے نکال دیں اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ترک کردیں۔ حضور (رض) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول کہ اصنعواکل شی الاالنکاح ۔ یہ جائز ہے کہ اس سے مراد مادون الفرج عمل جنسی ہو۔- اس لئے کہ یہ بھی نکاح یعنی جماع کی ایک صورت ہے۔ حضرت عمر (رض) کی ایک روایت جس کا ہم نے درج بالا سطور میں ذکر کیا ہے وہ زیر بحث روایت سے متاخر اور اس کے لئے فیصلہ کن ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زیر بحث روایت جو حضرت انس (رض) کی ہے اس میں نزول آیت کے سبب کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دریافت کیا تھا کہ حائضہ عورت سے کسی قسم کا تعلق حلال ہے اور یہ سوال لامحالہ حضرت انس (رض) کی روایت کے بعد کی بات ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ حضرت عمر (رض) نے یہ سوال لازمی طور پر یہ جاننے کے بعد کیا ہوگا کہ حائضہ عورت سے ہمبستری حرام ہے۔ دوم یہ کہ اگر یہ سوال نزول آیت کی حالت میں فوراً بعد ہوتا تو اس میں اسی بات کے ذکر پر اکتفا کرلیا جاتا جو حضرت انس (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اصنعواکل شئی الالنکاح۔ اس سے یہ چیز واضح ہوگئی کہ حضرت عمر (رض) کا سوال اس کے بعد ہوا تھا۔ ایک اور پہلو سے غور کریں کہ اگر حضرت عمر (رض) اور حضرت انس (رض) کی روایتوں میں تعارض پیدا ہوگیا ہے تو اس صورت میں حضرت عمر (رض) کی روایت پر عمل کرنا اولیٰ ہوگا اس لئے کہ اس میں مادون الفرج عمل جنسی کی ممانعت ہے جبکہ حضرت انس (رض) کی روایت بظاہر اباحت کی متقاضی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جب اباحت اور ممانعت کا اجتماع ہوجائے تو ممانعت اولیٰ ہوتی ہے۔ ایک اور جہت سے غور کریں وہ یہ کہ حضرت عمر (رض) کی روایت کی تائید ظاہر آیت فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھون) سے ہوتی ہے جبکہ حضرت انس (رض) کی روایت اس کی تخصیص کرتی ہے اس لئے ایسی روایت جو قرآن کے موافق ہو اس روایت سے اولیٰ ہوتی ہے جو قرآن کی تخصیص کرے۔ نیز حضرت انس (رض) کی روایت عام اور مجمل ہے اس میں کسی معین جگہ کی اباحت کا ذکر نہیں ہے جبکہ حضرت عمر (رض) کی روایت مفصل ہے جس میں مافوق الازار اور ماتحت الازار دونوں جگہوں کے حکم کا بیان ہے۔ واللہ اعلم۔- حیض کا مفہوم اور اس کی مقدار کا بیان - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حیض خون کی اس مقدار کا نام ہے جس کے ساتھ بہت سے احکام کا تعلق ہوتا ہے مثلاً نماز اور روزے کی تحریم ہمبستری کی ممانعت، عدت کا اختتام، مسجد میں داخل ہونے ، قرآن مجید کو ہاتھ لگانے اور تلاوت قرآن سے پرہیز وغیرہ۔ اس کی آمد سے عورت بالغ ہوجاتی ہے جب خون کے وجود کے ساتھ ان احکام کا تعلق ہوگا تو اس کی مقدار کو حیض کا نام دیا جائے گا اور اگر ان احکام کا تعلق نہیں ہوگا تو اسے حیض نہیں کہا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عورت حیض کے ایام میں اور ایام کے بعد ایک ہی کیفیت کا خون دیکھتی ہے لیکن ایام کے دوران ان کا خون حیض کہلاتا ہے۔ اس لئے کہ خون کے وجود کے ساتھ ان احکام کا تعلق ہوجاتا ہے اور ایام کے بعد کا خون حیض نہیں کہلاتا کیونکہ اس کے وجود کے ساتھ ان احکام کا تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا۔ اگر وہ دوران حمل خون دیکھ بھی لے لیکن چونکہ اس خون کے ساتھ ہمارے ذکرکردہ احکام کا تعلق نہیں ہوتا اس لئے وہ حیض نہیں کہلاتا۔ اسی طرح استحاضہ والی عورت ایک عرصے تک خون بہتے ہوئے دیکھتی ہے لیکن یہ حیض نہیں ہوتا جبکہ استحاضہ کا خون اس کیفیت کا ہوتا ہے جسے وہ ایام کے دوران دیکھتی ہے اس لئے حیض اس خون کا نام ہوا جس کے ساتھ شرعی لحاظ سے ان احکام کا تعلق ہوتا ہے بشرطیکہ اس کی کوئی نہ کوئی مقدار ہو۔ حیض اور نفاس اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان کی وجہ سے روزہ اور نماز حرام ہوجاتے ہیں ہمبستری کی ممانعت ہوجاتی ہے اور ان باتوں سے پرہیز کیا جاتا ہے جن سے ایک حائضہ عورت پرہیز کرتی ہے لیکن ان دونوں میں دو وجہ سے فرق ہوتا ہے۔- اول یہ کہ حیض کی مدت کی مقدار نفاس کی مدت کی مقدار سے مختلف ہوتی ہے دوم یہ کہ نفاس کا عدت کے گزرنے اور عورت کے بالغ ہونے کے سلسلے میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ابوالحسن حیض کی یہ تعریف کرتے تھے کہ یہ رحم سے نکلنے والا وہ خون ہوتا ہے جس کے شروع ہوجانے پر عورت بالغ ہوجاتی ہے اور عورتیں وقتاً فوقتاً جس کی عادی ہوجاتی ہیں۔ ہمارے نزدیک اس تعریف سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کے شروع ہوجانے پر عورت اس وقت بالغ ہوتی ہے جب اس سے پہلے وہ اپنی عمر یا احتلام یا ہمبستری پر انزال کی وجہ سے بالغ نہ ہوچکی ہو۔ اگر ان صورتوں کے ذریعے وہ پہلے بالغ ہوچکی ہو پھر وہ خون دیکھے تو وہ حیض کا خون ہوگا جبکہ وہ اسے مدت حیض کی مقدار دیکھتی رہے اگرچہ وہ اس کی ابتداء کے ساتھ بالغ قرار نہ بھی پائے۔ مدت حیض کی مقدار کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ کم سے کم مدت حیض تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔- یہی سفیان ثوری کا قول ہے کہ یہی بات ہمارے تمام اصحاب سے مشہور ہے۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا وقل ہے اگر دو دن اور تیسرے دن کا اکثر حصہ خون آتا رہے تو یہ حیض ہوگا۔ امام محمد کا مشہور قول اما م ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ حیض کی قلیل اور کثیر مدت کے لئے کوئی وقت نہیں ہے۔ عبدالرحمن بن مہدی نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ آپ کے خیال میں حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے۔ ہمیں عبداللہ بن جعفر فارس نے انہیں ہارون بن سلیمان الجزار نے اور انہیں عبدالرحمن بن مہدی نے امام مالک کی درج بالا روایت بیان کی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے۔ عبدالرحمن بن مہدی نے حماد بن سلمہ سے ، انہوں نے علی بن ثابت سے، انہوں نے محمد بن زید سے اور انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی کہ حیض تیرہ دنوں تک آتا ہے اور اگر اس سے بڑھ جائے تو وہ استحاضہ ہوگا۔ عطاء کا قول ہے کہ اگر پندرہ دنوں سے بڑھ جائے تو وہ استحاضہ ہوگا۔ امام ابوحنیفہ پہلے عطاء بن ابی رباح کے قول کے مطابق حیض کی کم سے کم مدت ایک دن ایک رات اور زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن کے قائل تھے پھر آپ نے اس سے رجوع کرلیا اور وہی قول اختیار کرلیا جو پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ جو لوگ حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن کے قائل ہیں ان کا استدلال قاسم کی حدیث سے ہے جو انہوں نے حضرت ابوامامہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے اقل الحیض ثلاثۃ ایام واکثرہ عشرۃ حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے) ۔- اگر یہ حدیث صحیح ہے تو کسی کو اس سے ہٹنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس حدیث کی تائید حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی اور حضرت انس (رض) بن مالک کے قول سے بھی ہوتی ہے۔ ان دونوں نے یہ فرمایا کہ حیض تین دنوں چار دنوں سے لے کر دس دنوں تک ہوتا ہے اس سے جو زائد ہو وہ استحاضہ ہوتا ہے ان کے اس قول کی ہمارے بیان کردہ مسلک پر دو طریقے سے دلالت ہو رہی ہے۔ اول یہ کہ جب ایک قول صحابہ کرام کی ایک جماعت سے منقول ہو اور کثرت سے اس کی نقل کی جائے اور اس قول کی مخالفت میں بھی کوئی قول موجود نہ ہو تو یہ اجماع ہوتا ہے اور بعد میں آنے والوں کے لئے حجت کا کام دیتا ہے۔ ان دونوں حضرات سے جو قول منقول ہے اور جو ہمارے مسلک کی تائید میں ہے اس سے ان کے ہم چشموں کا کوئی اختلاف ظاہر نہیں ہوا۔- اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس قول کا حجت ہونا ثابت ہوگیا۔ دوم یہ کہ اس قسم کی مقداریں جو حقوق اللہ ہیں اور ان کا درجہ محض عبادات کا ہے۔ ان کے اثبات کا صرف یہ طریقہ ہے کہ یا تو شریعت کی طرف سے اس سلسلے میں رہنمائی کی جائے یا امت کا اس پر اتفاق ہوجائے مثلا فرض نمازوں کی رکعتوں اور رمضان کے روزوں کی تعداد یا حدود کی مقداریں یا فرضیت زکواۃ کے لئے اونٹوں کی تعداد وغیرہ حیض اور طہر کی مدت کی مقدار بھی اسی طرح کی ہے۔ اسی طرح مہر کی مقدار ہے جو نکاح میں شرط ہے نیز نماز میں تشہد کی مقدار قعدہ اخیرہ کرنا بھی یہی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ان مقادیر کی تحدید اور ان کے اثبات کے متعلق کسی صحابی سے کوئی روایت ہو تو ہمارے نزدیک توقف ہوگی یعنی ہم اسے شریعت کی رہنمائی سمجھیں گے کیونکہ ان چیزوں کو قیاس کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حیض کی مقدار کا اعتبار عورتوں کی عادات کے ذریعے کرنے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس لئے اس معاملے میں عورتوں کی عادات سے رجوع کرنا واجب ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے جو آپ نے حمنہ (رض) بنت حجش سے فرمایا تھا تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کما تحیض النساء فی کل شھہر۔ جس طرح عورتیں ہر ماہ حیض کے ایام گزارتی ہیں تم بھی چھ یا سات دن گزار لو۔ اس کا علم اللہ کو ہے) ۔ آپ نے حیض کی مدت کا معاملہ عورتوں کی عادت پر چھوڑ دیا اور اس کے لئے چھ یا سات دن مقرر کردیئے، اس بنا پر یہ کہنا جائز ہے کہ جو لوگ حیض کی اکثر اور اقل مدت کے لئے دس اور تین دن کے قائل ہیں انہوں نے یہ بات عورتوں کی عادت کے سامنے رکھ کر کہی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم اور ہمارے مخالفین حیض کی اقل مدت کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں جس سے حیض کسی طرح کم نہ ہو۔ اسی طرح ہماری بحث حیض کی اکثر مدت کے متعلق ہو رہی ہے جس سے حیض زیادہ نہ ہو جس عدد کا ذکر کیا گیا ہے اس پر ہم سب متفق ہیں رہ گئی حمنہ (رض) کے واقعے میں چھ یا سات کی بات تو وہ اس کے متعلق کوئی حد نہیں ہے اور تحدید کے سلسلے میں اس جیسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لئے اختلاف کے موقع پر اس جیسی روایت سے استدلال ساقط ہوگیا۔ حمنہ (رض) کو حضور کا یہ فرمانا کہ تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کما تحیض النساء فی کل شھر) یہ ہمارے قول کی صحت کے لئے ابتدائی طور پر دلیل کا کام دے سکتا ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کا یہ حصہ کما تحیض النساء فی کل شھر) چونکہ عورتوں کے پورے جنس کا احاطہ کئے ہوئے ہے تو اس کا اقتضاء یہ ہے کہ یہ حکم تمام عورتوں کے لئے ہو۔- یہ بات اس چیز کی نفی کرتی ہے کہ عورت کا حیض اس سے کم مدت کا ہو۔ اگر اس امر پر کہ حیض کبھی تین دنوں کا بھی ہوتا ہے اجماع کی دلالت قائم نہ ہوجاتی تو کسی کے لئے یہ گنجائش نہ ہوتی کہ وہ حیض کی مدت چھ یا سات دن سے کم مقرر کرے جب تین دن پر سب کا اتفاق ہوگیا تو ہم نے حدیث کے عموم سے اس کی تخصیص کردی اور حدیث کے مقتضی کے مطابق تین دن سے کم کی نفی کا حکم باقی رہا۔ اسی طریقے سے حیض کی اکثر مدت کے اثبات کے لئے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں مارایت ناقصات عقل و دین اغلب لعقول ذوی الالباب منھن، میں نے عقل اور دین کے لحاظ سے ناقص کسی کو نہیں دیکھا جو عقلمندوں کی عقل پر ان سے بڑھ کر غالب آجانے والی ہو) ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ دین کے لحاظ سے ان میں کیا کمی ہے ؟ آپ نے فرمایا تمکث احداھن الایام واللیالی لاتصلی، بےچاری کئی دن اور کئی رات اس طرح گزار دیتی ہے کہ نماز نہیں پڑھ سکتی) اس قول سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حیض کی مدت وہ ہے جس پر ایام ولیالی کے اسم کا اطلاق ہو سکے۔ ایام ولیالی کی کم سے کم مقدار تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔ اس پر اعمش کی روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) بنت ابی جیش سے فرمایا تھا اجتنبی الصلوۃ ایام محیضتک ثم اغتسلی وتوضای لکل صلاۃ۔ اپنے حیض کے ایام کی مقدار نماز سے پر ہیر کرو۔ پھر غسل کر کے ہر نماز کے لئے وضو کرو) ۔- الحکم نے ابوجعفر سے روایت کی ہے کہ حضرت سودہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے استحاضہ ہوتا ہے آپ نے انہیں یہ حکم دیا کہ ایام حیض کی مقدار وہ بیٹھ رہیں یعنی نماز وغیرہ سے اجتناب کریں جب یہ ایام گزر جائیں تو ہر نماز کے لئے وضو کر کے نماز ادا کرلیں۔ فاطمہ (رض) بنت ابی جیش کی حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں دعی الصلوۃ بعددالایام التی کنت تحیضین فیھا ثم اغتسلی ، ان دنوں کی گنتی کی مقدار نماز چھوڑ دو جس میں تم حیض کے ایام گزارتی تھیں پھر غسل کرلو) ۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے مروی حدیث میں اس عورت کے متعلق ذکر ہے جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ وہ خون بہاتی رہتی ہے آپ نے اسے یہ فرمایا کہ وہ ان دنوں اور راتوں کی گنتی پر نظر رکھے جو وہ حیض کے ایام کے طور پر ہر ماہ گزارتی تھی ان دنوں کی مقدار ہر ماہ نماز نہ پڑھے پھر اس کے بعد غسل کر کے نماز پڑھ لے۔ شریک نے ابوالیقظان سے انہوں نے عدی بن ثابت سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عدی کے دادا اسے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا المستحافتہ تدع الصلوۃ ایام حیضھا ثم تغتسل وتتوضا لکل صلاۃ ، مستحاضہ اپنے حیض کے ایام کی مقدار نماز چھوڑ دے گی پھر غسل کر کے ہر نماز کے لئے وضو کرے گی) ۔ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں تدع اصلواۃ ایام اقرائھا۔ اپنے قروع یعنی حیض کے ایام کی مقدار نماز چھوڑ دے گی) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) بنت ابی جیش کو نیز اس عورت کو جس کا واقعہ حضرت ام سلمہ (رض) نے بیان کیا ہے حیض کے ایام کی مقدار نماز چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا۔ آپ نے یہ پوچھے بغیر حکم دیا تھا کہ استحاضہ سے قبل اس کے حیض کے ایام کی مقدار کیا تھی ؟ اس پورے بیان سے یہ بات واجب ہوگئی کہ حیض کی مدت ہونی چاہیے جس پر ایام کے اسم کا اطلاق ہوتا ہو اور یہ تین سے لے کر دس تک ہے اگر حیض کی مدت تین دن سے کم ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سوال کے جواب میں ایام ولیالی کا ذکر نہ فرماتے۔- آپ نے عدی بن ثابت کی روایت کردہ حدیث میں فرمایا المستحاضۃ تدع اصلواۃ ایام حیضھا ۔ یہ لفظ تمام عورتوں کے لئے عام ہے اور ایام کے اسم کا اطلاق جب کسی محدود یا محصور عدد پر ہوتا ہے تو اس سے کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ دس مراد ہوتا ہے اس اسم کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی محدود یا متعین عدد ہو جس کی طرف ایام کی اضافت کی جائے۔ اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایام ولیالی کا جو ذکر کیا ہے تین اور دس اس کا عدد ہوجائے۔ ایک اور پہلو سے بھی غور کریں وہ یہ کہ اگر پہلے سے اس وقت کی معرفت حاصل ہوجائے جس کی طرف ایام کی اضافت کی گئی ہے تو اس وقت ایام کا اسم کسی محدود یا محصور عدد پر مشتمل نہیں ہوتا۔ اس کی نظیر کہنے والے کا یہ قول ہے ” ایام السنۃ سال کے ایام اس میں ایام کا لفظ نہ تین پر دلالت کرے گا اور نہ دس پر کیونکہ السنۃ یعنی سال کا وقت سب کو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ قول باری ایاما معدودات ۔ تین سے لے کر دس تک کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ اس لئے کہ فرمانالٰہی ہے کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم۔ جب اللہ نے ان ایام کی اضافت اس وقت کی طرف کردی جس کی معرفت مخاطبین کو حاصل ہوچکی تھی یعنی رمضان کا پورا مہینہ تو اس صورت میں ایام کا اسم تین سے لے کر دس تک کے ساتھ مختص نہیں ہوا۔- لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول میں کہ تدع اصلواۃ ایام حیضھا و ایام قرائھا ۔ مخاطبین کو پہلے سے اس عورت کے ایام کی تعداد کے متعلق کوئی علم نہیں تھا۔ اس لئے ایام کا ذکر اس عورت ہی کی طرف راجع ہوگا۔ اس عدد کی طرف نہیں جو اس کیساتھ مختص ہے۔ اس صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ لفظ ایام کو اس عدد پر محمول کیا جائے جو اس کے ساتھ مختص ہے اور یہ تین سے لے کر دس تک ہے۔ یہ اس وجہ سے ایسا ہوگیا کہ ایام کے اسم کا اطلاق کر کے کبھی اس سے مبہم وقت مراد لیا جاتا ہے جس طرح کہ لیالی کے اسم کا اطلاق کر کے کبھی اس سے مبہم وقت مراد ہوتا ہے اور رات کی تاریکی مراد نہیں ہوتی جب اس وقت کی معرفت پہلے سے حاصل ہوجائے جس کی طر ف ایام کی اضافت کی گئی ہے تو ایسی صورت میں ایام کے ذکر کا معنی مبہم وقت ہوتا ہے جس سے کوئی عدد مراد نہیں ہوتا۔ شاعر کا مصرعہ ہے۔۔۔ لیالی تصطاد الرجالی بضاحم ۔۔ ایسی راتیں جو تاریکی کے ذریعے مردوں کا شکار کرتی ہیں یہاں شاعر نے دن کی سفیدی کو چھوڑ کر صرف رات کی تاریکی مراد نہیں لی ہے۔ اسی طرح ایک اور شاعر کا قول ہے۔ واذکرایام الحمی ثم انثنی۔ علی کبدی من خشیۃ ان تصدعا۔ ولیست عشیات الحمی برواجع ۔ الیک ولکن خل عینیک قدمعا۔۔ میں حمیٰ کے مقام پر اپنے گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتا ہوں اور پھر اپنے جگر پر اس ڈر سے دوہرا ہوجاتا ہوں کہ کہیں یہ مارے غم کے پھٹ نہ جائے جمیٰ میں گزاری ہوئی شامیں اب تمہاری طرف لوٹ کر نہیں آسکتیں لیکن اب تم ان کی یاد میں اپنی آنکھوں کو آنسو بہانے کے لئے تنہا چھوڑ دو ۔- شاعر نے یہاں ایام کے ذکر سے دن کی سفیدی مراد نہیں لی ہے اور نہ ہی شاموں کے ذکر سے دن کا اواخر مراد لیا ہے بلکہ اس سے وہ وقت مراد لیا ہے جس کی معرفت مخاطب کو پہلے سے حاصل ہوچکی ہے اسی طرح قول باری ہے فاصبح من النادمین وہ نادمین میں سے ہوگیا) یہاں لفظ اصبح سے دن کے آخری حصے کو چھوڑ کر صرف اول حصہ مراد نہیں لیا گیا ہے اسی طرح شاعر کا قول ہے۔ اصبحت عاذلتی معتلہ ۔۔ مجھے ملامت کرنے والی خود بیمار ہوگئی۔ یہاں شاعر نے شام کو چھوڑ کر صرف صبح کا وقت مراد نہیں لیا۔ لبید کا شعر ہے۔ وامسیٰ کا حلام النیام نعیمھم ۔ وای نعیم خلتہ لایزایل۔۔ ان کی عیش و عشرت اور آرام و راحت نیند میں پڑے انسانوں کا خواب بن گئی اور کون سی عیش و عشرت ایسی ہے جس کے متعلق تمہارا یہ خیال ہو کہ وہ زائل نہیں ہوگی۔ یہاں شاعر نے صبح کو چھوڑ کر صرف مساء یعنی شام کا ارادہ نہیں کیا بلکہ ایک وقت مبہم مراد لیا ہے۔ لغت میں یہ بات اس قدر مشہور ہے کہ اس کے لئے کثرت شواہد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جب ایام کا اسم ان دو معنوں میں بٹ گیا تو ہم یہ کہیں گے کہ جس وقت کی معرفت پہلے سے حاصل ہوچکی ہو اور اس کی طرف ایام کی اضافت کی جائے تو اس کا معنی مطلق وقت ہوگا اور اگر وقت کی معرفت پہلے سے نہ ہو اور ایام کی اضافت اس کی طرف کی جائے تو اس کا معنی تعیین کی صورت میں تین سے لے کر دس تک ہوگا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے وہ یہ کہ جب عربوں کی زبان میں یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ ایام کے اسم کی جب کسی عدد کی طرف اضافت کی جائے تو وہ تین سے دس تک کے درمیان اعداد پر محمول ہوتا ہے۔- اور ایام کا یہ اسم کسی حال میں بھی اس عدد یعنی تین سے لے کر دس تک سے جدا نہیں ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ” احد عشر “ کہیں گے تو اس کے ساتھ ” ایاما “ نہیں کہیں گے بلکہ ” احدعشریوما “ کہیں گے۔ اسی طرح جب آپ مہینے کا اطلاق کرتے ہوئے ثلاثین کہیں گے تو اس کے ساتھ ایام کہنا بجا نہ ہوگا بلکہ آپ کہیں گے ثلاثین یوما جب ایام کا اسم اس عدد کے ذکر کے ساتھ جس کی طرف اس کی اضافت ہوئی ہے تین سے لے کر دس تک پر بولا جاتا ہے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہی اس اسم کا حقیقی معنی ہے اور یہ اس طرح استعمال ہونے کی صورت میں اپنے حقیقی معنی پر محمول ہوتا ہے اور اس معنی سے اسے کسی دلالت کے بغیر ہٹایا نہیں جاسکتا اس لئے کہ اس صورت میں وہ مجاز ہوگا۔ اس لئے حقیقی معنی سے کسی دوسرے معنی کی طرف اس طرح ہرگز نہیں لے جایا جاسکتا کہ اس سے اسم ایام کی نفی ہوجائے اور جب اس اسم کا مدلول یعنی عدد جو تین سے لے کر دس تک ہے متعین ہوجائے گا ایام کی اضافت اس کی طرف کردی جائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا دعی الصلوۃ ایام اقدائک۔ تو آپ نے ایام کو اقراء کے لئے مخصوص کردیا اب ایام کی کم سے کم دلالت تین پر ہوتی ہے اور اقراء بھی جمع ہے جو کم سے کم تین پر محمول ہوتی ہے۔- اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ تین دن میں تین اقراء کے حساب سے ہر قرار یعنی حیض کے لئے ایک دن کی مدت متعین کردی گئی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول سے مراد ایک حیض ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس عورت کی عادت یہ ہو کہ اس کا حیض تین سے لے کر دس دن کے مابین جاری رہتا ہو اس کے حق میں لفظ اقراء سے لامحالہ یہی دن مراد ہونگے اور یہ بات تو واضح ہے کہ اس جیسی صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ایام اقراء ک) سے مراد ایک حیض ہی ہوگا۔ اسی طرح وہ عورت جس کی عادت نہ ہو یعنی ہر ماہ اس کے حیض کے ایام میں کمی بیشی ہوجاتی ہو۔ اس کے حق میں بھی لفظ اقراء سے ایک حیض مراد ہوگا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول اغتسلی وتوضاء لکل صلوۃ) دلالت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حیض کی مدت گزر جانے کے بعد غسل اور وضو کا عمل کرو۔ اس لئے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ایام اقرائک۔ سے مراد ایک حیض کے ایام ہیں نیز اعمیش کی روایت کردہ حدیث میں الفاظ ہیں ایام محیضتک۔ دوسری حدیث میں ایام حیضک ۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں فلتدع اصلواۃ الایام واللیالی التی کانتتقعد) ایک روایت کے الفاظ ہیں نقصان دینھن تمکث احداھن الایام واللیالی لاتصلی) ان تمام روایات میں حضور ؟ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اقراء کا ذکر نہیں کیا بلکہ حیض کا لفظ ادا فرمایا۔ ان روایات کی مقتضیٰ کے بموجب یہ ضروری ہے کہ حیض ایام کا نام ہو اور وہ مدت جس پر ایام کے اسم کا اطلاق نہ ہوتا ہو وہ حیض قرار نہ دیا جائے۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیض کے سلسلے میں تمام عورتوں کے حکم کو بیان کرنے کا قصد کیا تھا۔ محمد بن شجاع نے روایت بیان کی ہے انہیں یحییٰ بن ابی بکیر نے انہیں اسرائیل نے عثمان بن سعید سے، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے فاطمہ (رض) بت ابی حبیش سے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں فاطمہ (رض) کی بات آئی تو آپ نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا مری فاطمۃ فلتمسک کل شھر عددایام اقراء ھا فاطمہ (رض) سے کہو کہ وہ ہر ماہ اپنے اقراء یعنی حیض کے ایام کی تعداد کے برابر دنوں میں روزہ ، نماز وغیرہ سے رک جائے یعنی پرہیز کرے) ۔- اس حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واضح کردیا کہ اقراء کے ذکر سے آپ کی مراد ہر ماہ کا حیض ہے۔ اس لئے کہ آپ نے فرمایا کہ تمسک کل شھر۔ یعنی وہ ہر ماہ پرہیز کرے گی۔ ایک دوسری حدیث میں آپ نے یہ بتادیا کہ عورتوں کی عادت ہر ماہ ایک حیض ہوتی ہے۔ یہ بات آپ نے حمنہ (رض) کو ان الفاظ میں بتائی تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کم اتحیض النساء فی کل شھر۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ ایک حیض کو اقراء کا نام دیا جائے جبکہ ایک حیض اقراء نہیں بلکہ قرہ ہوتا ہے۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ اقراء کا اطلاق حیض کے پورے گروہ پر کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب قرء حیض کے خون کا نام ہے تو ایک حیض کو اقراء کا نام دینا جائز ہے اور اس کی یہ تاویل کی جائے گی کہ اقراء خون کے اجزاء سے عبارت ہے جس طرح کہ ” ثوب اخلاق “ (پرانے کپڑے) سے کپڑے کے ٹکڑے مراد ہوتے ہیں۔ ورنہ ایک کپڑے کی صفت اخلاق نہیں ہوسکتی جو جمع ہے ایک شاعر کا قول ہے۔- جاء الشتاء و قمیصی اخلاق۔۔۔ شراذ مریضعک منہ التواق۔۔ سردیاں آگئیں اور میری قمیض چیتھڑوں کی شکل کے ٹکڑوں پر مشتمل ہے کہ جس سے دیکھنے والے کو بھی ہنسی آجاتی ہے۔ شاعر نے ایک قمیض کو چیتھڑوں کا نام دیا اس لئے کہ اس نے یہ کہہ کر قمیض کے ٹکڑے مراد لئے ہیں اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ ایک حیض کو اقراء کا نام دے کر اس سے خون کے اجزاء مراد لئیجائیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایام کا نام کبھی دو دنوں پر بھی واقع ہوتا ہے اس لئے یہ واجب ہے کہ حیض کی کم سے کم مدت کو دو دنوں پر محمول کیا جائے۔ اس لئے کہ ایام کا اطلاق دو دنوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دو دنوں پر ایام کا اطلاق مجازاً ہوتا ہے جبکہ اس کے حقیقی معنی تین یا اس سے زائددن ہیں اور لفظ کے استعمال کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے اس کے معنی پر محمول کیا جائے الایہ کہ کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو اسے اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی کی طرف سے جانا ضروری قرار دے۔ ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ حیض کی اکثر اور اقل مدت کی مقدار کے اثبات کے لئے ہمارے پاس قیاس کا ذریعہ استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے اثبات کا طریقہ یا تو توقیف ہے یا سب کا اتفاق ہے جیسا کہ ہم اس باب میں پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ تین دن بھی حیض کے ہوتے ہیں اور دس دن بھی۔ اختلاف تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ کے اندر ہے ہم نے اس مدت کو ثابت کردیا ہے جس پر سب کا اتفاق ہے لیکن اختلافی مدت کا کوئی ثبوت نہیں ملا کیونکہ اس کے ثبوت کے لئے نہ تو توقیف ہی ہے اور نہ ہی سب کا اتفا اق۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس عورت کو پہلی مرتبہ حیض آئے وہ خون دیکھتے ہی نماز پڑھنا چھوڑ دے گی خواہ اس نے ایک دن اور ایک رات ہی یہ خون دیکھا ہو۔ اس سے اس امر پر دلالت ہوگئی کہ ایک دن اور ایک رات حیض کی مدت ہے۔ اب جو شخص یہ دعوی کرے کہ یہ حیض کا خون نہیں تھا اسے اس کی دلیل پیش کرنا ہوگی۔ اس لئے کہ ابتداء میں تو اس خون پر حیض کا حکم لگا دیا گیا تھا۔- اب یہ حکم کسی دلالت کی وجہ سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے جو اس کے خاتمہ کو واجب کرتی ہو۔ اس صورتحال سے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ حیض کی مدت ایک دن ایک رات تسلیم کرلی جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سب کا اس پر بھی تو اتفاق ہے کہ ایسی عورت اگر ایک نماز کے پورے وقت میں خون دیکھتی رہے تو وہ نماز چھوڑ دے گی اس لئے تمہارے استدلال کی روشنی میں اس اتفاقی مسئلے کو بھی اس بات کی دلیل قرار دینا چاہیے کہ حیض کی مدت ایک نمازکا وقت ہے۔ دراصل بات ایسی نہیں ہے کہ ایک نماز کا وقت کم سے کم مدت حیض ہوجائے بلکہ اس کے اس خون کی صورتحال کے متعلق انتظار کیا جائے اور حیض کی مدت کی تکمیل تک خواہ وہ ہمارے مخالف کے بقول ایک دن ایک رات ہی کیوں نہ ہو اس پر حکم لگانے میں رعایت کی جائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب باری تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ولایحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن، اور ان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس چیز کو پوشیدہ رکھیں جو اللہ نے ان کے رحم میں پیدا کردیا ہے) تو اس نے اس کے ذریعے عورت کے قول کی طرف رجوع کرنا واجب کردیا اس لئے کہ ترک کتمان کی نصیحت بھی تو اسی کو ہورہی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کا ہمارے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو صرف اس بات کی گفتگو ہے کہ جب عورت اپنے حمل کی اطلاع دے تو اس کی اطلاع قبول کرلی جائے ہم بھی تو اس کے متعلق اس کے ہی قول کو آخری بات تسلیم کرتے ہیں لیکن خون کے متعلق یہ حکم لگانا کہ آیا یہ حیض کا خون ہے یا نہیں تو اس کا دارومدار اس کے قول پر نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ ایک حکم ہے اور حکم کی تخلیق اس کے رحم میں نہیں ہوئی ہے کہ ہم اس کے متعلق اس کی طرف رجوع کریں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے درج بالا سطور میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس شخص کے قول کے بطلان پر مشتمل ہے جس نے حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات سے کم رکھی ہے نیز اس شخص کے قول کا بھی بطلان ہوجاتا ہے جس نے اقل اور اکثر مدت حیض کے لئے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے۔ اسی طرح اس شخص کے قول کا فساد بھی واضح ہوجاتا ہے جس نے اس معاملے کو عورتوں کی عادت کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے جو شخص اقل اور اکثر مدت حیض کے لئے کسی مقدار کا قائل نہیں ہے۔ اس کے قول کے بطلان کی دلیل یہ ہے کہ اگر صورتحال اسی طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہو تو اس سے ضروری ہوجاتا ہے کہ اس سے جو خون بھی خارج ہوتا حیض شمار ہوتا جس کے نتیجے میں دنیا کے اندر کسی مستحاضہ کا وجود ہی نہ ہوتا اس لئے کہ خواہ آرہا ہے اور یہ سارے کا سارا حیض ہے۔ سنت اور اتفاق امت سے اس قول کے بطلان کا ہمیں علم ہوتا ہے اس لئے کہ فاطمہ (رض) بنت حبیش نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی عرض کیا تھا کہ مجھے استحاضہ ہے میں کبھی پاک نہیں ہوتی اور مجھے ڈر ہے اسلام میں میرا کوئی حصہ ہی نہ ہو یعنی میں کسی قسم کی کوئی عبادت ہی نہ کرسکوں۔ اسی طرح حمنہ (رض) کو سات برسوں تک استحاضہ کا خون آتا رہا لیکن شارع (علیہ السلام) نے ان دونوں کو کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا یہ خون حیض کا خون ہے۔ اس کے برعکس انہیں یہ بتایا کہ اس خون کا اتنا حصہ حیض ہے اور اتنا حصہ استحاضہ ہے۔- اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس خون میں سے حیض کے خون کے لئے وقت کی ایک مقدار مقرر کی جائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایام کا ذکر کر کے اس مقدار کی اطلاع دی۔ اس قول سے ایک اور بات لازم آتی ہے وہ یہ کہ اگر اقل اور اکثر مدت حیض کے لئے کوئی مقدار مقرر نہ ہو تو ایسی عورت جسے پہلی دفعہ حیض آیا ہو اگر اس کے خون کا اخراج ایک سال تک جاری رہے تو اس ساری مدت کو حیض شمار کرلیا جائے کیونکہ حیض کے متعلق اس کی عادت تو ہے نہیں اور یہ خون اس کے رحم سے نکل رہا ہے۔ اس نتیجے سے آپ کے اپنے دعوے میں تخلف پیدا ہوجاتا ہے جس کے بطلان پر سب کا اتفاق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نفاس بھی اپنے احکام کے لحاظ سے حیض کی طرح ہے اور چونکہ اقل نفاس کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے اس لئے اقل حیض کی بھی کوئی مدت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نفاس کا اثبات اتفاق امت کے ذریعے ہوا ہے۔ ہم حیض کو اس پر قیاس نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے اثبات کا ذریعہ قیاس نہیں ہے۔ جس گروہ نے تھوڑے اور بہت خون کو حیض شمار کیا ہے اور جس گروہ نے اس کی مدت ایک دن ایک رات مقرر کی ہے ان دونوں کا استدلال قرآن مجید کی اس آیت سے ہے فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی ان کی تائید میں ہے کہ اذا اقبلت الحیضۃ فدعی اصلوۃ۔ جب حیض آجائے تو نمازچھوڑ دو ) آیت اور سنت کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ قلیل اور کثیر سب حیض شمار کیا جائے۔ اس لئے کہ لفظ میں کوئی توقیت نہیں ہے جب وہ ایک دن ایک رات خون دیکھے گی تو اس پر ظاہر آیت اور سنت کے مطابق حیض کا حکم لگ جائیگا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ضروری بات یہ ہے کہ اس خون کا حیض ہونا ثابت ہوجائے تاکہ شوہر اس کے دوران بیوی سے الگ رہے کیونکہ حیض کی کیفیت اس کے معنی اور اس کی صفت کے متعلق آیت اور حدیث کے الفاظ میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس وقت اس کا حیض ہونا ثابت ہوجائے گا اس پر حدیث اور آیت کا حکم جاری ہوجائے گا اور جب تک اس میں اختلاف ہے اس وقت تک یہ آیت اور حدیث اس کی دلیل نہیں بن سکے گی اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی زیر بحث مسئلے میں فریق مخالف کا دعویٰ اس مسئلے کے اثبات کے لئے دلیل کا کام نہیں دے سکتا۔- اگر یہ کہا جائے کہ شارع (علیہ السلام) نے حیض کے خون کی علامت اور اس کی خصوصیت ایسے واضح طریقے سے بیان کردی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے حیض کے خون کے لئے کسی مقدار کی تعبین کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی چناچہ شارع (علیہ السلام) کا قول ہے دم الحیض ھوالاسعودالمحتدھر حیض کا خون دوہ ہوتا ہے جو سیاہ اور گہرا سرخ ہو) اس لئے جب بھی اس صفت کا خون پایا جائے گا وہ حیض کہلائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ک اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس خون کی یہ صفت اور رنگت نہ ہو وہ کبھی حیض کا خون نہیں ہوتا ہے جبکہ ایک عورت اسے ایام کے دوران دیکھے یا وہ عورتا یسی ہو جسے پہلی دفعہ حیض آیا ہو اور اس نے ایسا خون دیکھا ہو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حدیث میں بیان کردہ خون ایام ماہواری گزرنے کے بعد آجاتا ہے یا ایام کے دوران آجاتا ہے۔ اس صورت میں ایا م کے دوران آنے والا خون حیض شمار ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ کہلاتا ہے۔ اس بنا پر یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صفت کے وجود کو حیض کی نشانی قرار دیا ہے اور اس کی دلیل بنادیا ہے جبکہ یہ صفت حیض کی عدم موجودگی میں پائی جاتی ہے اور کبھی حیض موجود ہوتا ہے لیکن یہ صفت معدوم ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ آپ نے کسی متعین خاتون کے حالات سے یہ معلوم کرلیا ہوگا کہ اس کے حیض کا خون ہمیشہ اس رنگت کا ہوتا ہے۔ اس بنا پر آپ نے اس متعین خاتون کے حیض کا حکم بیان فرما دیا۔ تمام عورتوں کے حیض کے خون کے متعلق نہیں فرمایا۔ اس لئے اس رنگت اور صفت کا دوسری عورتوں کے حیض کے خون میں اعتبار کرنا درست نہیں ہوگا۔ مذکورہ بالا دونوں گروہوں نے آیت ویسئلونک عن المحیض قل ھواذی۔ سے استدلال کیا ہے کہ اس آیت میں حیض کو اذی یعنی گندگی کی حالت قرار دیا گیا ہے اس لئے جس وقت بھی یہ اذی پایا جائے گا اس پر حیض کا حکم لگ جائے گا۔- اس لئے اس میں مقدار کے اعتبار کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آیت میں مقدار کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔ دوسرا اگر وہ جو اقل مدت حیض یعنی ایک دن ایک رات کا قائل ہے وہ یہ کہتا ہے کہ آیت کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ رات اور دن کے دوران جس وقت بھی اذی کی کیفیت پائی جائے اسے حیض شمارکر لیا جائے خواہ اس کی مدت ایک رات ایک دن یا اس سے کم ہو لیکن ہم نے اس حکم سے کم کی مدت کی تخصیص کردی ہے جس کی دلیل ہمارے پاس موجود ہے اس کے بعد ایک دن ایک رات کی مدت کے لئے لفظ کا حکم بحالہ باقی رہے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پہلے حیض کا ہونا ثابت ہوجائے تاکہ یہ صفت ثابت کی جاسکے یہ صفت حیض کا اذی یعنی گندگی کی حالت ہونا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حیض کو اذی قرار دیا ہے اذی کو حیض قرار نہیں دیا ہم جان چکے ہیں کہ ہرو اذی حیض نہیں ہوتا اگرچہ ہر حیض اذی ہوتا ہے جس طرح کہ ہر نجاست حیض نہیں ہوتی اگرچہ ہر حیض نجاست ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ حیض کا ثبوت ہوجائے تاکہ اسے اذی قرارا دیا جاسکے۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگر اللہ کی مراد یہ ہوتی کہ اذی کو حیض کا اسم قرار دیا جائے تو پھر بھی اس کی میراد یہ نہ ہوتی کہ ہر اذی حیض ہے۔ اس لئے کہ واقعاتی دنیا میں اذی کی تمام صورتیں حیض نہیں ہوتیں چناچہ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سے مراد اذی منکر یعنی ناپسندیدہ گندگی کی حالت ہے کیونکہ اس کی معرفت کے لئے کسی اور دلالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب ہمیں ا س کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے تو ہم اس پر حیض کا حکم لگا دیتے ہیں۔- نیز یہ بھی ہے کہ اذی ایک مشترک اسم ہے جو ایسی چیزوں پر محمول ہوتا ہے جن کے معانی مختلف ہوتے ہیں۔ اس لئے جس اسم کی یہ کیفیت ہو اس کا عموم بننا کسی طرح بھی جائز نہیں ہوتا۔ جو لوگ حیض کی اکثر مدت پندرہ دن کے قائل ہیں انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول سے استدلال کیا ہے کہ مارایت ناقصات عقل و دین اغلب لعقول ذدی الالباب منھن۔ آپ سے جب عورتوں کے دینی نقص کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا تمکث احداھن نصف عمرھا لاتصلی۔ ایک بےچاری عورت اپنی زندگی کا آدھا حصہ اسی طرح گزار دیتی ہے کہ نماز نہیں پڑھ سکتی) ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ مہینے میں پندرہ دن حیض کے ہوتے ہیں اور پندرہ دن طہر کے کیونکہ یہی پندرہ دن کم سے کم طہر کے ہوتے ہیں اور اسی طرح اس کی آدھی عمر حیض کی ہوتی ہے اگر حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت اس سے کم ہوتی تو کوئی ایسی عورت نہ ہوتی جو اپنی آدھی عمر نماز نہ پڑھ سکتی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ کسی نے نصف عمرھا کی روایت نہیں کی ہے بلکہ اس حدیث کی روایت دو طرح سے ہوئی ہے اول شطرعمرھا۔ اور دوسری تمکث احداھن الایام واللیالی لاتصلی۔ نصف عمر کا ذکر کسی روایت میں موجود نہیں ہے۔ دوسری جانب شطرعمرھا۔ کی اس پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصف عمر مرادلیا ہے۔ اس لئے شطر کا ذکر اسی طرح ہے جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمایا ہو کہ ” طائفۃ عمرھا “ اپنی عمر کا ایک حصہ) یا ” بعض عمرھا “ اپنی عمر کا بعض حصہ) یا اسی طرح کا کوئی اور مفہوم۔ دیکھئے قول باری ہے فول وجھک شطر المسجد الحرام۔ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف موڑ لو) یہاں شطر سے اللہ کی مراد جہت اور سمت ہے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ سے نصف مراد نہیں لیا۔ اب حدیث میں مذکورہ شطرعمرھا کی مقدار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرما دی ہے تمکث احداھن الایام واللیالی لاتصلی۔ اس لئے ضروری ہے کہ شطر سے یہی مراد لی جائے اور کوئی چیز مراد نہ لی جائے۔ علاوہ ازیں دنیا میں کوئی عورت ایسی نہیں ہے جو اپنی عمر کا نصف حصہ حیض میں گزارا چکی ہو اس لئے کہ بلوع سے پہلے گزرا ہوا عمر کا حصہ طہرہ کا حصہ ہوتا ہے جو حیض کے بغیر گزر جاتا ہے۔ اس لئے اگر یہ ممکن ہوتا کہ بلوغ کے بعد مرنے تک حیض ہر ماہ پندرہ دنوں کا ہوتا تو پھر بھی عمر کا آدھا حصہ حیض میں نہ گزرتا۔ اس بیان سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ جن لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ عورت کی عمر کا آدھا حصہ حیض میں گزرتا ہے ان کا یہ گمان باطل ہے۔- کم سے کم مدت طہر میں اختلااف رائے - امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر، ثوری، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ طہر کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ یہی عطاء کا قول ہے امام مالک سے ایک روایت کے مطابق اس کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں ہے۔ عبدالملک بن حبیب نے امام مالک سے جو روایت کی ہے اس کے مطابق طہر کی مدت پندرہ دن سے کم نہیں ہوتی امام مالک سے ایک روایت دس دن کی بھی ہے) ۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ کبھی تو طہر پندرہ دن سے کم ہوتا ہے ایسی صورت میں عورت کے طہر کی اس مدت کی طرف رجوع کیا جائے گا جو اس سے پہلے وہ گزارتی آئی ہے۔ امام شافعی سے یہ منقول ہے کہ اگر عورت کہے کہ اس کے طہر کی مدت پندرہ دن سے کم رہی ہے تو اس کے ہی قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ طحاوی نے ابو عمران سے اور انہوں نے یحییٰ بن اکثم سے نقل کیا ہے کہ طہر کی اقل مدت انیس دن ہے، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حیض اور طہر کے لئے ایک ماہ کے برابر مدت مقرر کی ہے اور حیض عادۃ طہر سے کم مدت لیتا ہے۔- اس لئے یہ جائز نہیں کہ حیض پندرہ کا ہو بلکہ اسے دس دن کا ہونا ضروری ہے اور مہینے کے باقی دن طہر کے ہوں گے۔ اور یہ انیس دن ہوتے ہیں کیونکہ مہینہ کبھی انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے ہم نے سعید بن حییر سے نقل کیا ہے کہ اقل طہر تیرہ دن کا ہوتا ہے۔ طہر کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک مہینے کو حیض اور طہر کا بدل بنایا ہے تو ضروری ہوگیا کہ طہر کی مدت حیض کی مدت سے زیادہ ہو۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمنہ (رض) کو فرمایا تھا تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کما تحیض النساء فی کل شھر۔ آپ نے چھ یا سات دن حیض کے مقرر کردیئے اور مہینے کے باقی دنوں کو طہر قرار دیا، آپ کے اس فرمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمام عورتوں کے لئے یہی حکم ہو جب تک کہ پندرہ دن کی مدت طہر کے لئے کوئی اور دلیل نہ مل جائے۔ رہ گئے دس یا تیرہ دن تو ان کے ثبوت کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس لئے یہ مدت طہر کی درست مدت قرار نہیں دی جائے گی۔ نیز حیض سے پاک ہونے کے ساتھ نمازیں لازم ہوجاتی ہیں۔ اس لئے طہر کی مشابہت اقامت کی حالت کے ساتھ ہوگئی اب جبکہ اقامت کی کم سے کم مدت ہمارے نزدیک پندرہ دن اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی انتہا نہیں ہے تو یہ ضروری ہوگیا کہ حیض سے پاک ہونیکا زمانہ یعنی طہر بھی اسی طرح ہو۔ یعنی اس کی کم سے کم مدت بھی پندرہ دن ہو۔ ایک اور پہلو سے اس پر غور کیجئے طہر کی مقدار کے اثبات کا طریقہ یا تو توقیف ہے یا اتفاق امت ہے۔ فقہاء سلف سے متفقہ طور پر یہ ثابت ہے کہ پندرہ دن طہر کی صحیح مدت ہے اور اس سے کم کی مدت میں اختلاف ہے اس لئے ہم نے متفقہ طور پر ثابت ہونے والے امر کو اختیار کرلیا۔ اس سے کم مدت کے طہر کا ثبوت نہیں مل سکا کیونکہ نہ اس کے متعلق توقیف ہے اور نہ ہی اتفاق۔ یحییٰ بن اکثم سے طہر کی مدت انیس دن نقل کی گئی ہے یہ کئی وجوہ سے غلط ہے ایک تو یہ کہ سلف کا پندرہ دن کی مدت پر اتفاق ہوچکا ہے اس لئے اس کے خلاف اب کوئی قول قابل قبول نہیں ہوگا۔ دوسری یہ کہ یحییٰ بن اکثم سے پہلے جن حضرات کا طہر کی مدت کے متعلق اختلاف منقول ہوا ہے اس کی تین صورتیں ہیں۔ عطاء کا قول ہے کہ اس کی مدت پندرہ دن ہے سعید بن جبیر کے نزدیک یہ تیرہ دن ہے امام مالک سے ایک روایت میں پندرہ دن اور ایک روایت میں دس دن ہے۔- ان حضرات میں سے کوئی بھی انیس دن کا قائل نہیں ہے۔ یحییٰ بن اکثم کا قول اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ انہوں نے توقیف یا اتفاق کے بغیر طہر کے لئے اس مدت کا اثبات کردیا ہے اور یہ بات ان جیسے مسائل میں جائز نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے استدلال میں جو بات کہی ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں وہ ایک بےمعنی بات ہے اور اس سے وہ چیز واجب نہیں ہوتی جسے وہ واجب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ایک ماہ کو ایک حیض اور طہر کے قائم مقام کردیا ہے تو یہ اس بات سے مانع نہیں ہے کہ ایک حیض اور طہر ایک ماہ سے کم مدت میں پایا جائے۔ اس لئے کہ اگر ایک عورت کو تین دن تک حیض آئے تو اس صورت میں اس کا حیض اور طہر ایک ماہ سے کم عرصے میں گزر جائے گا۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ماہ کو ایک حیض اور طہر کے لئے واجب کرنا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ ایک ماہ سے کم مدت میں ایک حیض اور طہر کا وجود نہ ہو اور حیض کا دس دن سے کم ہونا بھی درست ہے تاکہ عورت ایک ماہ سے کم مدت میں ایک حیض اور طہر گزارے اور اس کی عدت تین ماہ سے کم مدت میں گزر جائے اگرچہ مہینوں کے حساب سے عدت گزارنے کی صورت میں تین ماہ سے کم مدت میں اس کی عدت گزر نہ سکتی ہو تو اس صورتحال کے پیش نظر اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حیض کے دس دن پورے کرلینے کے بعد اس کے طہر کی مدت انیس دن سے کم رہ جائے۔ ہمارے اس بیان سے یہ ظاہر ہوگیا کہ یحییٰ بن اکثم کی ذکر کردہ وجہ اس کی دلیل نہیں ہے کہ طہر کی کم سے کم مدت کو انیس دن میں محدود کرنا واجب ہے۔ ان کی بات صرف یہ ظاہر کرتی ہے کہ طہر کبھی اتنی مقدار کا بھی ہوتا ہے اور اس پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ اس سے کم مدت کا نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔- حالت حیض میں پیدا ہونے والے طہر یعنی طہر متخلل میں اختلاف کا بیان - ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ جو عورت ایک دن خون دیکھے اور ایک دن طہر۔ اسے لگاتار خون دیکھنے والی تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح امام ابویوسف نے کہا ہے کہ اگر دو خون کے درمیان آنے والا طہر پندرہ دن سے کم مدت کا ہوگا اسے لگاتار خون یعنی حیض سمجھا جائے گا۔ امام محمد کا قول ہے کہ اگر دو خون کے درمیان آنے والا طہر تین دن سے کم مدت کا ہوگا تو اسے لگاتار خون سمجھا جائیگا اور اگر تین دن یا اس سے زائد مدت کا ہوگا تو اس صورت میں دونوں خون یعنی حیض کی مدت اور ان کے درمیان آنے والے طہر پر غور کیا جائے گا۔ اگر طہر کا زمانہ ان دونوں خون کے زمانے سے زیادہ ہوگا تو یہ طہر ان دونوں خون کے درمیان فصل پیدا کر دے گا۔ اگر دونوں خون اور طہر کی مدتیں ایک جیسی ہوں یا طہر کی مدت کم ہو تو پھر اس مدت کو لگاتار خون کی مدت شمار کیا جائیگا۔ جس وقت طہر کی مدت دو خون کی مدت سے زیادہ ہونے کی بنا پر ان دونوں کے درمیان فصل پیدا کر دیگا تو اس صورت میں ہر خون کا علیحدہ اعتبار کیا جائے گا یعنی اگر پہلا خون تین دن کی مدت کا ہوگا و ہ حیض شمار ہوگا۔ اگر پہلا خون تین دن کا نہ ہو اور دوسرا تین دنوں کا ہوجائے تو یہ دوسرا خون حیض شمار ہوگا۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی تین دن کا نہ ہو تو کوئی بھی خون حیض شمار نہیں ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر عورت ایک خون دیکھے اور ایک دن طہر یا دو دن طہر دیکھے اور پھر دو دن خون تو وہ طہر کے دنوں کو نظر انداز کر کے خون کے ایام کو ایک دوسرے کے ساتھ ضم کر دے گی۔- اگر یہ صورت حال مسلسل رہے تو وہ اپنے حیض کے دنوں پر تین دنوں کے ذریعے استظہار کرے گی یعنی گزرنے کے بعد تین دنوں تک احتیاط کرے گی اور نماز وغیرہ نہیں پڑھے گی اگر اس نے ایام استظہار کے دوران بھی طہر دیکھا تو وہ اسے نظر انداز کر دے گی تاکہ دم استظہار کے تین حاصل ہوجائیں۔ ایام طہر کے دوران وہ نماز پڑھے گی روزے رکھے گی اور شوہر سے ہمبستری بھی کرسکے گی اور خون کے ایام ایک دوسرے کے ساتھ جمع کر کے ایک حیض شمار ہوگا اور طلاق کی عدت میں ایام طہر کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایام حیض کے بعد تین دن استظہار یعنی احتیاط کیا تو ایام طہر کے انقطاع کی صورت میں ہر نماز کے لئے وضو اور ہر روز غسل کریگی۔ امام مالک کہتے ہیں کہ میں اسے غسل کا حکم اس لئے دے رہا ہوں کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شائد خون دوبارہ شروع نہ ہوجائے۔ الربیع نے امام شافعی سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات تو ظاہر ہے کہ حائضہ عورت ہمیشہ خون کہ بہتا ہوا نہیں دیکھتی یہی حال مستحاضہ کا ک بھی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ کبھی خون دیکھتی ہے اور کسی وقت خون بند ہوتا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک گھڑی کے لئے خون کا بند ہوجانا اسے حیض کے حکم سے باہر نہیں لاتا گویا خون بند ہونے کی وجہ سے اس کے لئے جو طہر کا وقت پیدا ہوتا ہے وہ حیض میں ہی شمار ہوتا ہے اور یہ سارا وقت لگاتار خون آنے کا وقت سمجھا جاتا ہے۔ ایک یا دو گھڑی کے لئے خون بند ہوجانے کے متعلق فقہاء کا متفقہ قول یہی ہے۔ نیز دو خون کے درمیان آنے والا طہر سب کے نزدیک صحیح طہر نہیں ہوتا۔- اس لئے کہ کسی نے طہر کی مدت ایک یا دو دن مقرر نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی کا یہ قول ہے کہ دو حیض کے درمیان آنے والا طہر دس دن سے کم مدت کا ہوتا ہے جیسا کہ ہم اس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں نیز یہ وجہ بھی ہے کہ اگر ایک یا دو دن کا طہر جو دو خون کے درمیا ن آجاتا ہے نماز اور روزہ واجب کرنے والا طہر ہوتا تو پھر یہ بھی ضروری ہوتا کہ ان دونوں میں ہر خون ایک مکمل حیض ہوجائے۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ طہر کی یہ مقدار دو خون کے درمیان فصل کرنے اور ان میں سے ہر ایک کو ایک مکمل حیض قرار دینے میں غیر معتدبہ ہے تو یہ ضروری ہے کہ اس مقدار سے طہر کا حکم ساقط ہوجائے اور اسے اس کے ماقبل اور مابعد کے ساتھ خون تصور کر کے اس عرصے کو لگاتار خون آنے کا عرصہ سمجھ لیا جائے۔ ایام حیض میں نظر آنے والی صفرۃ یعنی زردی اور کدرۃ یعنی گدلے رنگ کے متعلق اختلاف ہے۔ ام عطیہ (رض) انصاریہ سے مروی ہے کہ ہم حیض سے غسل کرلینے کے بعد نظر آنے والی زردی اور گدلے رنگ کا کوئی اعتبار نہیں کرتے تھے فقہاء امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ ایام حیض میں نظر آنے والی زردی حیض کا ہی ایک حصہ ہے۔ ان میں امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر، امام مالک، لیث بن سعد، عبدالہ بن الحسن اور امام شافعی شامل ہیں۔ البتہ کدرت یعنی گدلے رنگ کے متعلق اختلاف ہے مذکورہ بالافقہائے کرام کی متفقہ رائے یہ ہے کہ ایام حیض میں نظر آنے والی کدرت حیض ہی کا حصہ ہے خواہ اس سے پہلے خون نہ بھی آیا ہو۔ البتہ امام ابویوسف کا قول ہے کہ اگر خون آنے کے بعد کدرت نظر آئے تو وہ حیض کا حصہ ہے۔- اگر خون آنے سے پہلے نظر آجائے تو وہ حیض کا حصہ نہیں ہے حضرت عائشہ (رض) اور حضرت اسماء (رض) سے مروی ہے کہ حائضہ عورت اس وقت تک نماز پڑھنا شروع نہیں کرے گی جب تک کہ سفید چونا نہ دیکھ لے۔ فقہاء کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ خون آنے کے بعد نظر آنے والا گدلا رنگ یعنی کدرت حیض کا ہی حصہ ہوتا ہے جب کہ خون آنے کے بعد اس کا پایا جانا اس کی دلیل ہے کہ یہ گدلا پن خون کے بعض اجزاء کے اختلاط کی وجہ سے پیدا ہوا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ایام حیض کے دوران اس طرح نظر آنے والے گدلے رنگ کا بھی یہی حکم ہو خواہ اس سے پہلے خون نہ بھی آیا ہو اور ایسے وقت میں جس کے دوران عادۃ حیض کا خون آتا ہے کدرت کا نظر آنا اس بات کی دلیل ہوجائے کہ یہ کدرت خون کے اجزاء کا سفید رنگ کے ساتھ اختلاط کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ اس بات کی دلیل کہ وقت کا اس کدرت کے نظر آنے پر اثر ہوتا ہے یہ ہے کہ عورت اپنے حیض کے ایام کے دوران اور اس کے بعد خون دیکھتی ہے پھر ہوتا یہ ہے کہ ایام کے دوران نظر آنے والا خون حیض شمار ہوتا ہے اور بعد میں نظر آنے والا خون حیض شمار نہیں ہوتا۔- اس طرح وقت اس خون کے حیض ہونے کی علامت اور اس کی دلیل بن جاتا ہے اسی طرح یہ ضروری ہے کہ وقت اس بات کی دلیل بن جائے کہ کدرت حیض کے خون کے اجزاء سے بنی ہے اور یہ حیض میں شامل ہے۔ جس عورت کو پہلی دفعہ حیض آئے اور مسلسل خون جاری رہے۔ اس کے حکم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ دس دن حیض کے ہوں گے اور اس سے زائد ایام استحاضہ کے ہوں گے۔ یہاں تک کہ مہینے کا اختتام ہوجائے۔ اس صورت میں دس دن حیض کے ہوں گے اور بیس دن طہر کے۔ فقہ حنفی کے اصول کی کتابوں میں اس مسئلے میں کوئی اختلاف منقول نہیں ہے۔ تاہم بشربن الولید نے امام ابویوسف سے نقل کیا ہے کہ ایسی عورت حیض کی کم سے کم مدت یعنی تین دن گزار کر نماز شروع کر دے ، دس دن کے بعد شوہر کے ساتھ ہمبستری کرسکے گی اور روزہ قضاء کرنا شروع کرے گی۔ رمضان کے دس روزے رکھے گی اور سات قضاء کرے گی ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ ایسی عورت اپنے خاندان کی عورتوں کے ایام حیض کی مقدار حیض کے دن گزارے گی۔- امام مالک کا قول ہے کہ ایسی عورت عورتیں حیض کے جتنے دن گزارتی ہیں وہ گزارے گی اس کے بعد پھر وہ مستحاضہ ہوجائے گی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اس کے حیض کی مدت وہی ہے جو حیض کی کم سے کم مدت ہے یعنی ایک دن ایک رات۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل سب کا وہ اتفاق ہے کہ ایسی عورت کو حیض کی اکثر مدت تک جس کے متعلق اگرچہ فقہاء کا آپس میں اختالف ہے نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس طرح ان ایام میں گویا اس پر حائضہ ہونیکا حکم لگا دیا گیا۔ اور یہ ایام بھی ایسے ہیں کہ ان کا حیض کے ایام ہونا جائز ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ پورا عشرہ حیض کا ہوجائے۔ اس لئے کہ اس عشرہ میں اس پر حائضہ ہونے کا حکم لگارہا۔ اور اس کی عادت بھی اس کے خلاف نہیں (پہلی دفعہ حیض آنے کی وجہ سے دراصل اس کی سرے سے ہی کوئی عادت نہیں تو پھر خلاف ہونے کا کیا سوال) ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ سب یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا خون دس دن سے کم عرصے میں منقطع ہوجاتا تو یہ ساراعرصہ حیض شمار ہوتا۔ اس لئے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ دس دن پر بھی حیض کا ہی حکم لگے گا اور اس حکم کو توڑنا اسی وقت د رست ہوگا جبکہ کوئی دلالت موجود ہو۔ اگر اقل مدت سے زائد مدت کے ایام حیض ہونے میں شک ہوتا جبکہ اکثر مدت سے زائد مدت بھی موجود ہو تو پھر بھی یہ بات بہتر ہوتی کہ شک کی وجہ سے اس مدت میں کمی نہ پیدا کی جائے جس پر ہم نے ایام حیض ہونے کا حکم لگا دیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مہینے کے متعلق جس کے آخر میں رویت ہلال نہ ہو سکے تیس دن پورے کرنے کا حکم لگا دیا۔- آپ کا قول ہے فان غم علیکم فعدواثلاثین، اگر رکاوٹ کی وجہ سے رویت ہلال نہ ہو سکے تو تیس دن کی گنتی کرلو) چونکہ مہینے کی ابتداء یقین کی حالت میں ہوئی تھی۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شک کی بنا پر اس کے اختتام کا حکم نہیں دیا اگر یہ کہا جائے کہ جس عورت کی عادت دس دن سے کم کی ہو اور پھر کسی ماہ خون زیادہ دنوں تک آتا رہا تو ایسی صورت میں ا سے اس کی عادت کی طرف لوٹایا جائے گا اور ابتداء میں اس کی عادت سے زائد دنوں پر ہماری طرف سے حیض کا حکم لگانا اب اس کی عادت کا اعتبار کرنے سے مانع نہیں ہوا (اس سے یہ معلو م ہوا کہ ابتداء میں عادت سے زائد دنوں پر حیض کا حکم لگانا درست نہیں تھا) ۔- اسی طرح وہ عورت جس نے اپنے ایام کے شروع میں خون دیکھ لیا اسے ترک صلوۃ کا حکم دے دیا گیا خواہ وہ خون تین دن سے کم مدت تک ہی کیوں نہ جاری رہا ہو، جب تین دن سے پہلے خون آنا بند ہوجائے تو ہم حکم لگائیں گے کہ جو خون اس نے دیکھا تھا وہ حیض کا خون نہیں تھا۔ اور اگر تین دن مکمل ہوگئے تو ہم کہیں گے کہ یہ حیض تھا (یہ کیسی بات ہوئی کہ شروع میں ہم ایک خون پر حیض ہونے کا حکم لگا کر نماز چھوڑنے کے لئے کہتے ہیں پھر بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ حیض کا خون نہیں ہے) ۔ ان دونوں اعتراضات کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جس عورت کے ایام معروف و متعین ہوں، اس کے زائد دنوں پر حیض کا جو حکم لگایا جاتا ہے وہ دراصل قطعی نہیں ہوتا بلکہ اس کی قطعیت کا ابھی انتظار ہوتا ہے۔ اور یہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب حیض دس دنوں کے اندر منقطع ہوجائے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مستحاضہ کے متعلق یہ ارشاد ہے کہ تدع الصلوۃ ایام اقراء ھا) ۔- یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ زائد دنوں کے متعلق انتظار کیا جائے کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس کے ایام حیض معروف و متعین ہیں لیکن جس عورت کو پہلی دفعہ حیض آیا ہو اس کی عادت اور اس کے ایام معلوم نہیں ہوتے جن کا اعتبارا کرلیا جائے اس لئے دس دن میں بھی اس کا خون دیکھنا اس بات کا متقاضی نہیں ہوگا کہ اس خون کے متعلق آخری فیصلے کے سلسلے میں انتظار کیا جائے۔ بلکہ ہمارے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ ایسی عورت جسے پہلی دفعہ حیض کا خون آیا ہے اس نے دس دن کے اندر جو دیکھا وہ اس کی عادت کی طرح ہوگا اور یہی آگے چل کر اس کے لئے ایام اور وقت بن جائے گا۔ جب بات اس طرح ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا کہ اس نے دس دنوں میں جو خون دیکھا ہے اس کے حکم کا انتظار کیا جائے بلکہ واجب ہوگا کہ اس خون پر حیض کا حکم لگا دیا جائے کیونکہ اس جیسا خون حیض ہوسکتا ہے۔ رہ گئی وہ عورت جس نے اپنا اول ایام میں خون دیکھا اور ہم نے اس پر اس لحاظ سے حیض کا حکم لگا دیا کہ اسے نماز اور روزہ چھوڑنے کا حکم دے دیا اور پھر تین دن سے کم عرصے میں خون کا انقطاع اسے حیض کے حکم سے نکال دیتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے ابتداء میں لگایا گیا حیض کا حکم قطعی نہیں تھا بلکہ اس کی قطعیت کا انتظار تھا کیونکہ ہمیں یہ علم تھا کہ اقل حیض کی ایک مقدار ہے کہ جب اس مقدار سے خون آنے کی مدت ہوگی تو یہ خون حیض نہیں ہوگا۔ اس بناپر اس پر لگایا ہوا حکم انتظار کے تحت رہا۔ اس کے برعکس ایسی عورت کا جسے پہلی دفعہ حیض آیا ہے تین دن تک حیض کا خون دیکھنے کے بعد اس کی کوئی ایسی حالت نہیں تھی جس کی رعایت کی جائے اور اس کا انتظار کیا جائے اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ سارا عشرہ حیض شمار کیا جائے کیونکہ ایسی کوئی دلالت موجود نہیں تھی جو اس سے کم مدت پر اقتضاء کو واجب کردیتی۔ امام ابویوسف نے ایسی عورت کو اس عورت کے بمنزلہ قرار دیا جس کا حیض پانچ یا چھ دن رہتا ہے اور چھٹے دن میں اسے شک رہتا ہے پھر سب کا یہ قول ہے کہ ایسی عورت نماز کے معاملے میں حیض کی کم سے کم مدت کا اعتبار کریگی اسی طرح میراث اور رجعت کے معاملے میں بھی اسی مدت کا اعتبار کرے گی اور ازدواجی تعلق کے معالمے میں حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت یعنی دس دن کا اعتبار کرے گی۔ اس کا یہ اعتبار احتیاط کے طور پر ہوگا یہی حکم اس عورت کا بھی ہے جسے پہلی دفعہ حیض آیا ہو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درج بالا صورت ہمارے مسئلے کی نظیر نہیں ہے اس وجہ سے کہ اس عورت کے حیض کے معلوم ایام تھے ہم نے پانچ دن کا یقین کرلیا اور چھٹے دن کے متعلق ہم نے شک کیا نماز اور روزے کے معاملے میں ہم نے احتیاط کا پہلو اختیار کیا اور ازدواجی تعلق کے بارے میں بھی ہم نے احتیاط کیا اور شک کی بنا پر اس کی اباحت کا حکم نہی دیا۔ اس کے برعکس ایسی عورت جسے پہلی مرتبہ حیض آیا ہے اس کے لئے حیض کے ایام نہیں ہوتے جن کا اعتبار کرنا واجب ہو۔ اس لئے اگر وہ ایسا خون دیکھے جو حیض کا خون بن سکتا ہو تو وہ حیض ہوگا۔ اسے اقل حیض کی طرف لوٹانے کا کوئی معنی نہیں۔ اس لئے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی دلالت نہیں ہے جو اس کو واجب کر دے۔ اس جہت سے بھی یہ قول فاسد ہے کہ اقل حیض اس کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے اقل حیض اور اس سے بڑھ جانے والے حیض میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کہ دونوں صورتوں میں اقل حیض کی طرف لوٹانے کا وجوب ممتنع ہے۔ اس صورت میں اس خون پر حیض ہونے کا حکم لگانے اور اس حکم کو منقوص کرنے کی دلالت کو ختم کرنے کے لئے حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت کا اعتبار کرنا واجب ہوگا۔- امام ابوحنیفہ کے قول کی صحت پر یہ چیز بھی دلالت کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نابالغ لڑکی اور سن یاس کو پہنچ جانے والی عورت دونوں کی عدت کی مدت حیض کی بجائے تین مہینے رکھی اور اس طرح ہر حیض اور طہر کے بدلے ایک مہینہ رکھ دیا گیا۔ یہ صورتحال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی عورت کو خون جاری ہوجائے اور پہلے سے ایام حیض کے سلسلے میں اس کی کوئی عادت نہ ہو تو یہ ضروری ہے کہ وہ ایک حیض اور ایک طہر مکمل کرے اور یہ تو ظاہر ہے کہ طہر کی زیادہ سے زیادہ مدت کے لئے کوئی حد مقرر نہیں ہے جبکہ حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت کے لئے ایک حد مقرر ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ حیض کی اکثر مدت گزارے اور مہینے کے باقی دن طہر کے ہوجائیں۔ اس لئے کہ مہینے کے باقی دنوں میں حیض کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے اس لئے اسی کا اعتبار کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ اس بنا پر یہ ضروری ہوگا کہ مہینے کے باقی ماندہ دنوں میں جس طہر کا اعتبار کیا گیا ہے یہ وہ طہر ہو جو حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد باقی رہ جائے آپ نہیں دیکھتے کہ اگر آپ حیض کی مدت دس دن سے گھٹا دیں گے تو آپ کو حیض کے گھٹائے ہوئے دنوں کو طہر میں بڑھانے کی ضرورت پڑجائے گی جبکہ طہر کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ سات دنوں کو طہر میں بڑھانے کی ضرورت پڑجائے گی جبکہ طہر کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ سات دنوں کا ہو تو اس کا اس طرح ہونا پانچ دنوں یا چھ دنوں کے ہونے سے اولیٰ نہیں ہوتا یعنی دنوں کی کمی بیشی سے طہر کی کیفیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بنا پر یہ واجب ہے کہ حیض کی اکثر مدت یعنی دس دن کا اعتبار کر کے مہینے کے باقی دنوں کو طہر شمار کرلیا جائے۔ پہلی دفعہ حیض کا خون دیکھنے والی اس عورت کے لئے ایک ماہ میں حیض اور طہر دونوں کو پورا کرلینے کے وجوب پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول دلالت کرتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمنہ (رض) سے فرمایا تھا تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کما تحیض النساء کل شھر۔- اس میں آپ نے یہ بتادیا کہ ہر ماہ عورتوں کی عادت ایک حیض اور ایک طہر کی ہوتی ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ایسی عورت کے لئے آپ نے چھ یا سات دنوں کا کیوں نہیں اعتبار کیا جبکہ حدیث میں اس کا ذکر ہے اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہم نے کچھ وجوہ کی بنا پر اس کا اعتبار نہیں کیا۔ اول یہ کہ ہم نے کسی اہل علم کو ایسی عورت یعنی پہلی دفعہ حیض کا خون دیکھنے والی کے متعلق ایسا کہتے ہوئے نہیں سنا اور نہ ہی ہمارے علم میں اس کا کوئی قائل ہے۔ دوم یہ کہ چھ یا سات دن کی عادت اس خاتون کی تھی جس کو اس حدیث میں مخاطب کیا گیا ہے یعنی حضرت حمنہ (رض) اس بنا پر دوسری عورتوں میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اس بیان کی روشنی میں حدیث سے ہمارا استدلال صحیح ہے۔ اس لئے کہ ہم نے اس حدیث سے ایک ماہ میں متعارف اور متعاد صورت میں ایک حیض اور طہر کو ثابت کرنا چاہا ہے۔ جو ہم نے ثابت کردیا۔ جو لوگ پہلی دفعہ حیض کا خون دیکھنے والی عورت کے مسلسل جریان خون کی صورت میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اتنے دن حیض کے شمار کرے گی جتنے دن اس کے خاندان کی عورتیں کرتی ہیں (یاد رہے کہ یہ ابراہیم نحعی کا قول ہے) ان کے اس قول کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستحاضہ کو اس کے خاندان کی عورتوں کی عادت اور مدت حیض کی طرف نہیں لوٹایا تھا بلکہ ایک عورت کو اس کی اپنی عادت اور مدت کی طرف لوٹایا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ وہ اپنے حیض کے ایام کی مقدار بیٹھ رہے گی یعنی حیض گزار دے گی جبکہ دوسری کو یہ حکم تھا کہ وہ چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہے بیٹھ رہے گی۔- ایک اور خاتون کو آپ نے ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا حکم دیا تھا آپ نے ان میں سے کسی خاتون کو اپنے خاندان کی عورتوں کے حیض کے ایام کی مقدار بیٹھنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ نیز اپنے خاندان کے عورتوں اجنبی عورتوں اور عمر میں اپنے سے بڑی یا چھوٹی عورت کے ایام حیض ایک جیسے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان عورتوں کی عمروں کے درمیان کوئی بڑا فرق نہیں ہوتا لیکن حیض کی عادت میں فرق ہوتا ہے۔ اس بنا پر اپنے خاندان کی عورتوں کی اس سلسلے میں دوسری عورتوں کے مقابلے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اہل علم کا اس قول باری ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن۔ ان کے قریب بھی نہ جائو جب تک یہ پاک نہ ہوجائیں جب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جائو ) کی تفسیر و تشریح میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ حیض کا خون بند ہوتے ہی ہمبستری کی اباحت ہوجاتی ہے اور اس میں حیض کے اقل یا اکثر مدت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے جبکہ دوسرے اہل علم کا قول ہے کہ خواہ حیض کی اقل مدت ہو یا اکثر خون بند ہوجانے کے بعد جب تک غسل نہیں کریگی اس سے ہمبستری جائز نہیں ہوگی امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر اس کا خون دس دن سے کم مدت میں بند ہوجائے تو جب تک وہ غسل نہ کرلے بشرطیکہ اسے پانی میسر ہو یا اس پر ایک نمازکا وقت گزر نہ جائے وہ حائضہ کے حکم میں رہے گی۔- اگر ان دو باتوں میں سے ایک وقوع پذیر ہوجائے تو وہ حیض سے نکل جائے گی اور شوہر کے لئے ہمبستری بھی جائز ہوجائے گی اور آخری حیض کی صورت میں اس کی مدت بھی گزر جائے گی۔ اگر اس کے ایام دس دن کے ہوں تو دس دن گزرنے کے ساتھ ہی حیض کا حکم مرتفع ہوجائے گا اور شوہر سے ہمبستری کی اباحت یا عدت گزر جانے یا اس طرح کے اور مسائل کے لحاظ سے اس کی حیثیت ایک اجنبی عورت کی سی ہوگی۔ جو لوگ حیض کے دن گزر جانے اور خون کے منقطع ہونے کے ساتھ ہی غسل کرنے سے پہلے درج بالا تمام صورتوں میں وطی کی اباحت کے قائل ہیں ان کا استدلال قول باری ولا تقربوھن حتی یطھرن۔ پر ہے ان کا کہنا ہے کہ حرف حتی غایت کے لئے آتا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مابعد کا حکم غایت کے حکم کے خلاف ہو۔ اسی طرح آیت میں خون منقطع ہوتے ہی وطی کی اباحت کے لئے عموم ہے اس کی مثالیں قرآن مجید کی ان آیات میں ملتی ہیں حتی مطلع الفجر۔ طلوع فجر تک) اور فقاتلوا التی تبغی حتی تفی الی امر اللہ۔ تو اس گروہ سے جنگ کرو جس نے بغاوت کی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے) ۔- نیز ولاجنباً الاعا بری سبیل حتی تغتسلوا۔ اور نہ ہی حالت جنابت میں نماز کے قریب جائو جب تک غسل نہ کرلو اللہ کہ راستے کو عبور کر رہے ہو یعنی سفر کی حالت میں ہو ) ان آیات میں حتی کے ذریعے ذکر کردہ امور کی نہایتیں بیان کی گئی ہیں اور حتی کے مابعد کا حکم ان نہایتوں کے حکم کے خلاف ہے۔ اسی طرح قول باری حتی یطھرن کا حکم ہے جب اس کی قرات تخفیف طاء اور ھاء کے ساتھ کی جائے اس صورت میں اس کا معنی انقطاع الدم یعنی خون کا بند ہوجانا ہوگا ان کا کہنا ہے کہ اس کی قرات تشدید کے ساتھ بھی ہوئی ہے۔ اس صورت میں اس میں اسی معنی کا احتمال ہوگا جو تخفیف کی قرات میں ہے یعنی اس سے انقطاع دم مراد لیا جائے گا کیونکہ جب عورت کا خون آنا بند ہوجائے تو یہ کہنا بھی جائز ہے کہ طھرت المراۃ اور یہ بھی کہ تطھرت المراۃ جس طرح کہ یہ کہا جاتا ہے کہ تقطع الجل رسی ٹوٹ گئی یا تکسرالکوز، کوزہ ٹوٹ گیا۔ اس میں تقطع بمعنی اتقطع اور تکسر، بمعنی انکسر ہوتا ہے۔ ان جملوں کا یہ مقتضیٰ نہیں ہوتا کہ جن چیزوں کی طرف ان افعال کی نسبت ہوئی ہے وہ خود یہ فعل کریں دوسرے الفاظ میں یہ فعل لازم ہوتے ہیں نہ کہ متعدی۔ جن لوگوں کا یہ فعل ہے کہ جب تک عورت حیض سے پاک ہو کر غسل نہ کرے اس وقت تک درج بالا تمام صورتوں میں وطی کی ممانعت ہوتی ہے ان کا استدلال قول باری فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ۔ جب یہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس اسی طریقے سے جائو جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے) ۔ پر ہے۔- وہ کہتے ہیں کہ آیت میں اباحت وطی کی دو شرطیں بیان ہوئی ہیں خون کا بند ہوجانا اور غسل کرلینا۔ اس لئے کہ قول باری فاذا تطھرن میں غسل کے سوا اور کسی معنی کا احتمال نہیں۔ اس کی مثال کسی قائل کا یہ قول ہے لاتعط زیداً دیناراً حتی یدخل الداز فاذا خلھا وقعد فیھا فاعطہ دیناراً (زید کو اس وقت تک ایک دینار نہ دو جب تک وہ گھر میں داخل ہو کر وہاں بیٹھ نہ جائے یعنی دونوں باتوں پر موقوف ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ فان طلقھا فلاجناح علیھما ان یتراجعا۔ یہ عورت اس طلاق کے بعد اپنے پہلے شوہر کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے پھر اگر وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر رجوع کرلینے میں کوئی گناہ نہیں ہوگا) ۔ آیت میں پہلے شوہر کے لئے حلال ہونے کے لئے دو باتوں کی شرط لگائی گئی ہے اور ان میں سے ایک کے ذریعے وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ اسی طرح قول باری فاذا تطھرن فانوھن۔ وطی کی اباحت کے لئے دو باتوں کے ساتھ مشروط ہے۔ اول طہر جو کہ خون بند ہونے کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور دوم غسل۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری حتی یطھرن جب تخفیف کے ساتھ پڑھا جائے تو اس سے مراد خون کا بند ہونا ہے نہ کہ غسل کرنا۔- اس لئے کہ اگر حیض کی حالت میں غسل کرلے تو اس سے وہ پاک نہیں ہوگی۔ اس لئے قول باری حتی یطھرن صرف ایک معنی کا احتمال رکھتا ہے اور وہ ہے خون کا بند ہوجانا جس کے ذریعے وہ حیض سے نکل آتی ہے لیکن اگر اس کی قرات تشدید کے ساتھ کی جائے تو اس میں دو باتوں کا احتمال پیدا ہوگا۔ انقطاع دم اور غسل جیسا کہ ہم ابھی بیان کر آئے ہیں اس بنا پر تخفیف کی قرات محکم ہوگی اس لئے کہ اس میں صرف ایک معنی مراد ہوگا اور تشدید کی قرات متشابہ کیونکہ اس میں دو معنوں کا احتمال ہے اور متشابہ کا حکم یہ ہے کہ اسے محکم پر محمول کیا جائے اور محکم کی طرف لوٹایا جائے۔ اس طرح دونوں ق راتوں کا معنی یکساں ہوجائے گا۔ اور ان دونوں کا ظاہر خون بند ہوتے ہی جو دراصل حیض سے خروج ہے وطی کی اباحت کا مقتضی ہوگا۔ قول باری فاذا تطھرن میں دونوں معنوں کا احتمال ہے جو حتی یطھرن کی تشدید والی قرات میں ہے اور یہ بمنزلہ اس قول کے ہوگا۔ ولاتقدبوھن حتی یطھرن فاذاتطھرن فاتوھن۔ اس صورت میں یہ بالکل درست اور مستقیم کلام ہوگا جس طرح کہ آپ یہ کہتے ہیں لا تعطہ حتی یدخل المداد فاذا دخلھا فاعطہ۔- اس صورت میں یہ غایت کے حکم کی تاکید ہوگا۔ اگرچہ اس کا حکم ماقبل کے حکم کے خلاف ہے جب اس میں اس طریقے پر احتمال کی گنجائش ہے جو ہم نے بیان کیا ہے اور غایت کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا بھی ضروری ہے تو ظاہر آیت جس چیز کا متقاضی ہے وہ یہی ہے کہ خون بند ہوتے ہی جس کے ذریعے حیض سے خروج عمل میں آجاتا ہے وطی کی اباحت ہوجاتی ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی اس میں احتمال پایا جاتا ہے وہ یہ کہ قول باری فاذاتطھرن کا معنی فاذاھل لھن ان یتطھرن بالماء اوالتیم ہے یعنی جب ان کے لئے پانی یا تیمم کے ذریعے پاک ہونا حلال ہوجائے جس طرح کہ یہ قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اذا غابت الشمس فقد افطرالصائم۔ جب سورج غروب ہوجائے تو روزے دار کا روز کھل جاتا ہے) اس کا معنی ہے فقد حل لہ لافطار۔ یعنی اس کے لئے روزہ کھولنا حلال ہوجاتا ہے۔ اسی طرح آپ کا قول ہے من کسواوعرج فقد حل وعلیہ المحج من قابل۔ جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو اس کا احرام کھل گیا اور اس پر اگلے سال کا حج ہے) اس کا معنی ہے فقد جازلہ ان یحل یعنی اس کے لئے احرام کھولنا جائز ہوگیا یا جس طرح کسی مطلقہ عورت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اذا انقضت عدتھا فقد حلت لازدواج “ جب اس کی عدت گزر جائے تو وہ ازدواج کے لئے حلال ہوگئی) اس کا معنی ہے فقد حل لھا ان تتزوج یعنی اس کے لئے نکاح کرنا حلال ہوگیا۔ یہی مفہوم ہے اس قول کا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) بنت قیس سے فرمایا تھا۔ اذاحللت فاذنینی جب آیت میں اس معنی کا احتمال مان لیا جائے گا تو غایت کے مابعد بھی دحلی کی ممانعت سے غایت اپنے حقیقی معنی سے نہیں ہٹے گا۔ قول باری فلاتحل لہ من بعد حتی تنلح زوجاً غیرہ۔ میں غایت اپنے حقیقی معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور دوسرے شوہر کا نکاح یعنی اس عورت کے ساتھ اس کی ہمبستری ہی وہ چیز ہے جو تین طلاقوں کی وجہ سے واقع تحریم کو ختم کردیتی ہے۔ دوسرے شوہر کا وطی کرنا اس کے لئے مشروط ہے دوسرے شوہر کی طرف سے طلاق ملنے سے قبل اس کی وطی کے ساتھ ہی تحریم رفع ہوجاتی ہے دوسرے شوہر کی طرف سے طلاق اس تحریم کو ختم کرنے کے لئے شرط نہیں ہے اس بنا پر آیت میں ہمارے بیان کے مطابق امام شافعی کے لئے اپنے مسلک کی صحت کو ثابت کرنے کی غرض سے کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی ان ک مخالفین کے قول کی نفی کے لئے کوئی دلیل ہے۔- جہاں تک ہمارے مسلک کا تعلق ہے تو اس کی رو سے آیت اپنی تاویل کے احتمال کے لحاظ سے دو حالتوں میں اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہوگی یعنی ان دونوں حالتوں میں اس پر عمل کرنا ممکن ہوگا جس کی تفصیل درج ذیل ہے اگر قول باری یطھرن کی قرات تخفیف کے ساتھ کی جائے تو یہ اپنے حقیقی معنی میں اس عورت کے مسئلے میں قابل عمل ہوگا جس کے حیض کے ایام دس دن کے ہوں۔ اس صورت میں شوہر کے لئے دس دن گزر جانے کے ساتھ ہی وطی کرنا مباح ہوگا اور قول باری یطھرن تشدید کی قرات کے ساتھ اور قول باری فاذا تطھرن دونوں پر عمل غسل کی صورت میں ہوگا جبکہ اس کے ایام دس دن سے کم ہوں اور ایک نماز کا وقت نہ گزر جائے کیونکہ ہمارے پاس اس کی دلیل موجود ہے کہ ایک نمازکا وقت گزرجانا وطی کو مباح کردیتا ہے ہم عنقریب اس کی وضاحت کریں گے۔ اس صورت میں دونوں فعلوں میں سے کسی کو بھی مجازی معنی میں استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ دونوں اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ دونوں ق راتوں کو دو آیتیں قرار دے کر ان دونوں پر بیک وقت اور ایک ہی حالت میں عمل کرلیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ہم ان کو دو آیتیں قرار دے دیں پھر بھی جو بات ہم نے کہی ہے وہ اولی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر دو آیتیں ایسی اتریں کہ ایک انقطاع دم کو وطی کی اباحت کی غایت قرار دیتی اور دوسری غسل کو اس کی اباحت کی غایت ٹھہراتی تو اس صورت میں دو حالتوں میں ان پر اس طرح عمل کرنا واجب ہوتا کہ ان میں سے ہر ایک کو غایت کے حکم کے سلسلے میں اس کے مقتضیٰ کے مطابق حقیقی معنی پر برقرار رکھا جاتا یہ صورت صرف اسی وقت ممکن ہے جب دو حالتوں کے اندر ان پر اس طریقے سے عمل کیا جائے جو ہم نے بیان کیا ہے۔- (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں )

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢٢) یہ آیت مبارکہ ابن الدحداح (رح) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس چیز کے متعلق پوچھا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ سے حیض کی حالت میں ہمبستری کرنے کے متعلق دریافت کرتے ہیں، اے محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ حیض گندگی اور حرام ہے لہٰذا حالت حیض میں ان سے ہمبستری کرنا قطعی طور پر چھوڑ دو اور جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائیں، اس چیز کے قریب بھی نہ جاؤ جب وہ اچھی طرح پاک ہو کر (دس دن سے کم پر) غسل کرلیں تو جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے وہاں ان کے ساتھ ہمبستری کرو اور اللہ تعالیٰ گناہوں سے توبہ کرنے والوں اور گندگیوں اور گناہوں سے پاک رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ویسئلونک عن المحیض “۔ (الخ)- امام مسلم (رح) اور ترمذی (رح) نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے جب کسی عورت کو حیض آتا تھا تو یہودی اس کے ساتھ نہ اپنے گھروں میں کھاتے تھے اور نہ اس کے ساتھ لیٹتے تھے۔ تو صحابہ کرام (رض) نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری یعنی حیض والی عورت سے صحبت کرنے کے علاوہ ہر ایک چیز جائز ہے۔- اور ماوردی (رح) نے صحابہ کرام (رض) کے تذکرہ میں بواسطہ ابن اسحاق (رح) ، محمد بن ابی محمد، (رح) عکرمہ (رض) یا سعید (رح) ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ثابت بن وحداح نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس چیز کے بارے میں پوچھا، اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور ابن جریر (رح) نے بھی سدی (رح) سے اسی سند اور مفہوم سے روایت کیا ہے۔- (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٢ (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ ط) (قُلْ ہُوَ اَذًیلا) (فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْْمَحِیْضِلا) (وَلاَ تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ ج) (فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ط) - معلوم ہوا کہ بدیہیات فطرت اللہ تعالیٰ کے اوامر میں شامل ہیں۔ عورتوں کے ساتھ مجامعت کا طریقہ انسان کو فطری طور پر معلوم ہے ‘ یہ ایک امر طبعی ہے۔ ہر حیوان کو بھی جبلی طور پر معلوم ہے کہ اسے اپنی مادّہ کے ساتھ کیسا تعلق قائم کرنا ہے۔ لیکن اگر انسان فطری طریقہ چھوڑ کر غیر فطری طریقہ اختیار کرے اور عورتوں کے ساتھ بھی قوم لوط والا عمل کرنے لگے تو یہ حرام ہے۔ صحیح راستہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری فطرت میں ڈالا ہے۔ - (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ ) ۔ - ان سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے توبہ کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں سے دور رہتے ہیں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :238 اصل میں اَذیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی گندگی کے بھی ہیں اور بیماری کے بھی ۔ حیض صرف ایک گندگی ہی نہیں ہے ، بلکہ طبی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے ، جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :239 قرآن مجید اس قسم کے معاملات کو استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے ۔ اس لیے اس نے ”الگ رہو“ اور ”قریب نہ جاؤ “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ ایک فرش پر بیٹھنے یا ایک جگہ کھانا کھانے سے بھی احتراز کیا جائے اور اسے بالکل اچھوت بنا کر رکھ دیا جائے ، جیسا کہ یہود اور ہنود اور بعض دوسری قوموں کا دستور ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی جو توضیح فرما دی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں صرف فعل مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے ، باقی تمام تعلقات بدستور برقرار رکھے جائیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :240 یہاں حکم سے مراد حکم شرعی نہیں ہے ، بلکہ وہ فطری حکم مراد ہے ، جو انسان اور حیوان ، سب کی جبلت میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور جس سے ہر متنفس بالطبع واقف ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani