Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پاک دامن عورتیں بت پرست مشرکہ عورتوں سے نکاح کی حرمت بیان ہو رہی ہے ، گو آیت کا عموم تو ہر ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی ممانعت پر ہی دلالت کرتا ہے لیکن دوسری جگہ فرمان ہے آیت ( وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ ) 5 ۔ المائدہ:5 ) یعنی تم سے پہلے جو لوگ کتاب اللہ دئیے گئے ہیں ان کی پاکدامن عورتوں سے بھی جو زنا کاری سے بچنے والی ہوں ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کرنا تمہارے لئے حلال ہے ، حضرت ابن عباس کا قول بھی یہی ہے کہ ان مشرکہ عورتوں میں سے اہل کتاب عورتیں مخصوص ہیں ، مجاہد عکرمہ ، سعید بن جبیر ، مکحول ، حسن ، ضحاک ، قتادہ زید بن اسلم اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فرمان ہے ، بعض کہتے ہیں یہ آیت صرف بت پرست مشرکہ عورتوں ہی کے لئے نازل ہوئی ہے یوں کہہ لو یا وُوں مطلب دونوں کا ایک ہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کو ناجائز قرار دیا سوائے ایمان دار ، ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے خصوصا ان عورتوں سے جو کسی دوسرے مذہب کی پابند ہوں ۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( ۭوَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:5 ) یعنی کافروں کے اعمال برباد ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ قریب تھا کہ انہیں کوڑے لگائیں ، ان دونوں بزرگوں نے کہا اے امیرالمونین آپ ناراض نہ ہوں ہم انہیں طلاق دے دیتے ہیں آپ نے فرمایا اگر طلاق دینی حلال ہے تو پھر نکاح بھی حلال ہونا چاہئے میں انہیں تم سے چھین لوں گا اور اس ذلت کے ساتھ انہیں الگ کروں گا ، لیکن یہ حدیث نہایت غریب ہے اور حضرت عمر سے بالکل ہی غریب ہے ، امام ابن جریر نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کر کے حلال ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ صرف سیاسی مصلحت کی بناء پر تھا تاکہ مسلمان عورتوں سے بےرغبتی نہ کریں یا اور کوئی حکمت عملی اس فرمان میں تھی چنانچہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت حذیفہ کو یہ فرمان ملا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ کیا آپ اسے حرام کہتے ہیں ، خلیفۃ المسلمین نے جواب دیا کہ حرام تو نہیں کہتا مگر مجھے خوف ہے کہیں تم مومن عورتوں سے نکاح نہ کرو؟ اس روایت کی اسناد بھی صحیح ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمان مرد نصرانی عورت سے نکاح کر سکتا ہے لیکن نصرانی مرد کا نکاح مسلمان عورت سے نہیں ہو سکتا اس روایت کی سند پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے ، ابن جریر میں تو ایک مرفوع حدیث بھی باسناد مروی ہے کہ ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرلیں لیکن اہل کتاب مرد مسلمان عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے مگر امت کا اجماع اسی پر ہے ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ حضرت فاروق نے اہل کتاب کے نکاح کو ناپسند کیا اور اس آیت کی تلاوت فرما دی ، امام بخاری حضرت عمر کا یہ قول بھی نقل فرماتے ہیں کہ میں کسی شرک کو اس شرک سے بڑھ کر نہیں پاتا کہ وہ عورت کہتی ہے کہ عیسیٰ اس کے اللہ ہیں حضرت امام احمد سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں مراد اس سے عرب کی وہ مشرکہ عورتیں ہیں جو بت پرست تھیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایمان والی لونڈی شرک کرنے والی آزاد عورت سے اچھی ہے یہ فرمان عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوتا ہے ، ان کی ایک سیاہ رنگ لونڈی تھی ایک مرتبہ غصہ میں آکر اسے تھپڑ مار دیا تھا پھر گھبرائے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا آپ نے پوچھا اس کا کیا خیال کہا حضور وہ روزے رکھتی ہے نماز پڑھتی ہے اچھی طرح وضو کرتی ہے اللہ کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے ۔ آپ نے فرمایا اے ابو عبداللہ پھر تو وہ ایماندار ہے کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اسے آزاد کر دوں گا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے نکاح بھی کر لوں گا چنانچہ یہی کیا جس پر بعض مسلمانوں نے انہیں طعنہ دیا ، وہ چاہتے تھے کہ مشرکوں میں ان کا نکاح کرا دیں اور انہیں اپنی لڑکیاں بھی دیں تاکہ شرافت نسب قائم رہے اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ مشرک آزاد عورتوں سے تو مسلمان لونڈی ہزارہا درجہ بہتر ہے اور اسی طرح مشرک آزاد مرد سے مسلم غلام بھی بڑھ چڑھ کر ہے ، مسند عبد بن حمید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے محض حسن پر فریفتہ ہو کر ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ، ممکن ہے ان کا حسن انہیں مغرور کر دے عورتوں کے مال کے پیچھے ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ممکن ہے مال انہیں سرکش کر دے نکاح کرو تو دینداری دیکھا کرو بدصورت سیاہ فام لونڈی بھی اگر دیندار ہو تو بہت افضل ہے ، لیکن اس حدیث کے راویوں میں افریقی ضعیف ہے ، بخاری مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار باتیں دیکھ کر عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے ایک تو مال دوسرے حسب نسب تیسرے جمال وخوبصورتی چوتھے دین ، تم دینداری ٹٹولو ، مسلم شریف میں ہے دنیا کل کی کل ایک متاع ہے ، متاع دنیا میں سب سے افضل چیز نیک بخت عورت ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں بھی نہ دو جیسے اور جگہ ہے ۔ آیت ( لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ ) 60 ۔ الممتحنہ:10 ) نہ کافر عورتیں مسلمان مردوں کے لئے حلال نہ مسلمان مرد کافر عورتوں کے لئے حلال ۔ پھر فرمان ہے کہ مومن مرد گو چاہے حبشی غلام ہو پھر بھی رئیس اور سردار آزاد کافر سے بہتر ہے ۔ ان لوگوں کا میل جول ان کی صحبت ، محبت دنیا حفاظ دنیا اور دنیا طلبی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینی سکھاتی ہیں جس کا انجام جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کی پابندی اس کے حکموں کی تعمیل جنت کی رہبری کرتی ہے گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے وعظ ونصیحت اور پند وعبرت کے لئے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما دیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221۔ 1 مشرکہ عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عورتیں ہیں اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے۔ البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہل کتاب مرد سے نہیں ہوسکتا۔ تاہم حضرت عمر (رض) نے مصلحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا (ابن کثیر) آیت میں اہل ایمان کو ایمان دار مردوں اور عورتوں سے نکاح کی تاکید کی گئی ہے اور دین کو نظر انداز کر کے محض حسن وجمال کی بنیاد پر نکاح کرنے کو آخرت کی بربادی قرار دیا گیا جس طرح حدیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے مال، حسب نسب، حسن وجمال یا دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو (صحیح بخاری) اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے فرمایا خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ (صحیح مسلم) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩٤] کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا تعلق محض شہوانی تعلق ہی نہیں جیسا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے بلکہ اس تعلق کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے دماغ اخلاق اور تمدن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ مثلاً ایک مومن ایک مشرکہ سے نکاح کرتا ہے تو اگر وہ مومن اپنے ایمان میں پختہ، علم میں بیوی سے فائق تر اور عزم کا پکا ہوگا تو اس صورت میں وہ اپنی بیوی کی اور کسی حد تک اپنے سسرال والوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ ورنہ عموماً یوں ہوتا ہے کہ مرد مغلوب اور عورت اس کے افکار پر غالب آجاتی ہے اور اگر دونوں اپنی اپنی جگہ پکے ہوں تو ان میں ہر وقت معرکہ آرائی ہوتی رہے گی اور اگر دونوں ڈھیلے ہوں تو وہ دونوں شرک اور توحید کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ صورت اسلامی نقطہ نظر سے قطعاً گوارا نہیں اور ایسی صورت کو بھی شرک ہی قرار دیا گیا ہے اور اگر مرد مشرک اور بیوی موحد ہو تو شرک کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ لہذا نقصان کے احتمالات زیادہ ہونے کی بنا پر ایسے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا اور فرمایا کہ ظاہری کمال و محاسن دیکھنے کی بجائے صرف ایمان ہی کو شرط نکاح قرار دیا جائے ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نکاح کے بعد کوئی ایک فریق مشرک ہوجائے تو سابقہ نکاح از خود ٹوٹ جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ : پہلے مسلمان اور کافر میں رشتہ ناتا جاری تھا، اس آیت سے حرام ٹھہرا۔ اگر مرد یا عورت نے شرک کیا، اس کا نکاح ٹوٹ گیا۔ شرک یہ کہ اللہ کی صفت کسی اور میں جانے، مثلاً کسی کو سمجھے کہ اس کو ہر بات معلوم ہے، یا وہ جو چاہے سو کرسکتا ہے، یا ہمارا بھلا یا برا کرنا اس کے اختیار میں ہے اور یہ کہ اللہ کی تعظیم کسی اور پر خرچ کرے، مثلاً کسی چیز کو سجدہ کرے اور اس کو مختار جان کر اس سے حاجت طلب کرے۔ باقی یہود و نصاریٰ کی عورتوں سے نکاح درست ہے، ان کو مشرک نہیں فرمایا۔ (موضح)- شاہ صاحب کے آخری جملہ میں کچھ تفصیل کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اہل کتاب کو مشرکین کے مقابلے میں ذکر فرمایا ہے، وہاں مشرکین سے مراد بت پرست ہیں، یہود و نصاریٰ نہیں، چناچہ فرمایا : (لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ ) [ البینۃ : ١ ] ” وہ لوگ جنھوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا، باز آنے والے نہ تھے۔ “ یہ اور دوسری وہ آیات جن میں اہل کتاب اور مشرکین کو الگ الگ بیان کیا ہے، مثلاً سورة بقرہ (١٠٥) اور حج (١٧) اور بعض مقامات پر یہود و نصاریٰ کو بھی شرک کرنے والے قرار دیا ہے، جیسے فرمایا : (وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ۭ ۔۔ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) [ التوبۃ : ٣٠، ٣١ ] ” اور یہودیوں نے کہا، عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔۔ وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔ “ (مزید دیکھیے مائدہ : ٧٢) چناچہ بعض صحابہ اہل کتاب میں سے شرک کرنے والی عورتوں سے نکاح کو درست نہیں سمجھتے۔ چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا : ” میں اس سے بڑا شرک نہیں جانتا کہ کوئی عورت کہتی ہو میرا رب عیسیٰ ہے، حالانکہ وہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے۔ “ [ بخاری، الطلاق، باب قولہ : ( ولا تنکحوا المشرکات ۔۔ ) : ٥٢٨٥ ] امام بخاری (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں صرف یہی قول ذکر کیا ہے۔ اس کے مطابق اہل کتاب کی صرف موحد عورتوں سے نکاح درست ہوگا، مگر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا شرک خود ذکر کرنے کے باوجود ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے، تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں۔ امیر المومنین عمر بن خطاب، عثمان بن عفان (رض) اور دوسرے کبار صحابہ کا یہی فتویٰ ہے، چناچہ فرمایا : ( وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ ) [ المائدۃ : ٥ ] ” تم سے پہلے جنھیں کتاب دی گئی ان کی پاک دامن عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔ “ خلاصہ یہ کہ مسلمان کے لیے کسی ہندو یا بت پرست، کمیونسٹ یا آتش پرست مشرکہ عورت سے نکاح کرنا حرام ہے، البتہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں اگرچہ ایمان کا خطرہ ہے، اس لیے کراہت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٥) ۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ بت پرست، دہریے اور آتش پرست کسی آسمانی تعلیم کو نہ مانتے ہیں نہ اس کے پابند ہیں، جب کہ اہل کتاب عورتوں کو ان کی کتاب کے حوالے سے توحید و رسالت کی دعوت دی جاسکتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ) [ آل عمران : ٦٤ ] ” کہہ دے اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ “ اور مرد کے غالب ہونے کی وجہ سے ان کے توحید قبول کرنے کی بھی قوی امید ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب اہل کتاب کی عورتوں سے جو شرک کی مرتکب ہوں، نکاح جائز ہے تو مسلمان عورتیں، جو شرک کرتی ہوں، ان سے بھی نکاح جائز ہے۔ کیونکہ وہ قرآن و حدیث کو مانتی ہیں اور انھیں اس کے حوالے سے توحید و سنت کا قائل کیا جاسکتا ہے۔ - وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا : اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت آزاد ہو یا غلام، اسے مشرک کے نکاح میں دینا جائز نہیں، پھر مشرک خواہ بت پرست ہو یا یہودی یا عیسائی یا مجوسی یا دہریہ، کسی بھی غیر مسلم سے مسلم عورت کا نکاح جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں سے نکاح حرام کرنے کے بعد سورة مائدہ (٥) میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی، مگر مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دینے سے منع کرنے کے بعد کسی غیر مسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی۔ قرطبی نے اس بات پر امت کا اجماع نقل فرمایا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح کسی بھی غیر مسلم سے نہیں ہوسکتا (کیونکہ یہ اسلام کی سربلندی کے خلاف ہے) ۔ - تنبیہ : جس طرح کسی بھی مشرک سے مسلمان عورت کا نکاح جائز نہیں، خواہ یہودی ہو یا عیسائی، اسی طرح اگر کوئی کلمہ گو مسلمان بھی شرک کا مرتکب ہو، جیسا کہ اس حاشیے کے شروع میں شاہ عبد القادر (رض) نے وضاحت فرمائی ہے تو اس سے کسی مسلمان موحدہ عورت کا نکاح جائز نہیں۔ کیونکہ مرد کے غالب ہونے کی وجہ سے اس موحدہ عورت کو شرک پر مجبور کیے جانے کا خطرہ ہے۔ - وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ : یہ جملہ واضح دلیل ہے کہ عورت اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی، بلکہ اس کا ولی اس کا نکاح کرکے دے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح الفاظ میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سے منع فرمایا، دیکھیے صحیح بخاری جس میں امام بخاری (رض) نے زیر تفسیر آیت اور دو مزید آیات اور احادیث سے یہ مسئلہ ثابت فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اٹھارہواں حکم مناکحت کفار :- اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک وہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان عورت (چاہے) لونڈی (کیوں نہ ہو وہ ہزار درجہ) بہتر ہے کافر عورت سے (چاہے وہ آزاد بی بی ہی کیوں نہ) گو وہ (کافر عورت بوجہ مال یا جمال کے) تم کو اچھی معلوم ہو (مگر پھر بھی واقع میں مسلمان عورت ہی اس سے اچھی ہے) اور (اسی طرح اپنے اختیار کی) عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک یہ مسلمان نہ ہوجاویں اور مسلمان مرد (چاہے) غلام (ہی کیوں نہ ہو وہ ہزار درجہ) بہتر ہے کافر مرد سے (چاہے وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو) گو وہ (کافر مرد بوجہ مال یا جاہ کے) تم کو اچھا ہی معلوم ہو (مگر پھر بھی واقع میں مسلمان ہی اس سے اچھا ہے اور وجہ ان کافروں کے برا ہونے کی اور وہی اصل سبب ان سے ممانعت نکاح کا ہے یہ ہے کہ) یہ (کافر) لوگ دوزخ (میں جانے) کی تحریک دیتے ہیں (کیونکہ کفر کی تحریک کرتے ہیں اور اس کا انجام جہنم ہے) اور اللہ تعالیٰ جنت اور مغفرت (کے حاصل کرنے) کی تحریک کرتے ہیں اپنے حکم سے ( اور اس حکم کا ظہور اس طرح ہوا کہ کفار کے متعلق یہ حکم صادر فرما دیا کہ ان سے نکاح نہ کیا جائے تاکہ ان کی تحریک کے اثر سے پوری حفاظت رہ سکے اور اس سے محفوظ رہ کر جنت اور مغفرت حاصل ہوجاوے) اللہ تعالیٰ اس واسطے اپنے احکام بتلا دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ نصیحت پر عمل کریں (اور مستحق جنت و مغفرت ہوجاویں) - فوائد از بیان القرآن :- مسئلہ : جو قوم اپنی وضع اور طرز سے اہل کتاب سمجھے جاتے ہوں لیکن عقائد کی تحقیق کرنے سے کتابی ثابت نہ ہوں اور قوم کی عورتوں سے نکاح درست نہیں جیسے آجکل عموماً انگریزوں کو عام لوگ عیسائی سمجھتے ہیں حالانکہ تحقیق سے ان کے بعض عقائد بالکل ملحدانہ ثابت ہوئے کہ نہ خدا کے قائل نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے معتقد نہ انجیل کی نسبت آسمانی کتاب ہونے کا اعتقاد، سو ایسے لوگ عیسائی نہیں ایسی جماعت میں جو عورت ہو اس سے نکاح درست نہیں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں کہ بلا تحقیق یورپ کی عورتیں بیاہ لاتے ہیں۔- مسئلہ : اس طرح جو مرد ظاہری حالت سے مسلمان سمجھا جائے لیکن عقائد اس کے کفر تک پہنچے ہوں اس سے مسلمان عورت کا نکاح درست نہیں اور اگر نکاح ہوجانے کے بعد ایسے عقائد خراب ہوجاویں تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے جیسے آج کل بہت سے آدمی اپنے مذہب سے ناواقف سائنس کے اثر سے اپنے عقائد تباہ کرلیتے ہیں لڑکی والوں پر واجب ہے کہ پیام آنے کے وقت اول عقائد کی تحقیق کرلیا کریں تب زبان دیں۔- معارف و مسائل :- مسلم و کافر کا باہمی ازدواج ممنوع ہے :- آیات مذکورہ میں ایک اہم مسئلہ یہ بیان فرمایا گیا کہ مسلمان مردوں کا نکاح کافر عورتوں سے اور کافر مردوں کا نکاح مسلمان عورتوں سے جائز نہیں وجہ یہ ہے کہ کافر مرد اور عورتیں انسان کو جہنم کی طرف لے جانے کے سبب بنتے ہیں کیونکہ ازدواجی تعلقات آپس کی محبت ومودت اور یگانگت کو چاہتے ہیں اور بغیر اس کے ان تعلقات کا اصلی مقصد پورا نہیں ہوتا اور مشرکین کے ساتھ اس قسم کے تعلقات قریبہ محبت ومودت کا لازمی اثر یہ ہے کہ ان کے دل میں بھی کفر و شرک کی طرف میلان پیدا ہو یا کم ازکم شرک سے نفرت ان کے دلوں سے نکل جائے اور اس کا انجام یہ ہے کہ یہ بھی کفر و شرک میں مبتلا ہوجائیں اور اس کا نتیجہ جہنم ہے اس لئے فرمایا گیا کہ یہ لوگ جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو جنت اور مغفرت کی طرف دعوت دیتا ہے اور صاف صاف اپنے احکام بیان فرما دیتا ہے تاکہ لوگ نصیحت پر عمل کریں اس جگہ چند باتیں قابل غور ہیں۔- اول : یہ کہ اس آیت میں لفظ مشرک سے اگر مطلقا غیر مسلم مراد ہوں تو قرآن کریم کی ایک دوسری آیت کی بنا پر اہل کتاب کی غیر مسلم عورتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے : وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اور اگر مشرک سے خاص وہ غیر مسلم مراد ہیں جو اہل کتاب نہیں تو یہ آیت اپنی جگہ عام ہے تمام ان غیر مسلموں کو جو کسی پیغمبر اور آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے۔- دوسری بات : قابل غور یہ ہے کہ مسلم و کافر کے درمیان ازدواجی تعلقات کو حرام قرار دینے کی جو وجہ قرآن کریم میں بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کے ساتھ ایسے تعلقات قریبہ کفر و شرک میں مبتلا ہوجانے کا سبب بن سکتے ہیں یہ بات تو بظاہر تمام غیرمسلم فرقوں میں مساوی ہے پھر اہل کتاب کی عورتوں کی متثنی کرنے کی کیا وجہ ہے ؟- جواب ظاہر ہے کہ اہل کتاب کا اختلاف اسلام کے ساتھ بہ نسبت دوسرے غیر مسلموں کے کم اور ہلکا ہے کیونکہ عقائد اسلام کے تین عمود ہیں، توحید، آخرت، رسالت، ان میں سے عقیدہ آخرت میں تو اہل کتاب یہود و نصاریٰ بھی اپنے اصل مذہب کے اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ متفق ہیں اسی طرح خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا خود ان کے اصل مذہب میں بھی کفر ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت و محبت کے غلو میں شرک تک جاپہنچے۔- اب بنیادی اختلاف صرف یہ رہ جاتا ہے کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول نہیں مانتے اور اسلام میں یہ عقیدہ بھی بنیادی عقیدہ ہے اس کے بغیر کوئی انسان مومن نہیں ہوسکتا بہرحال دوسرے غیرمسلم فرقوں کی نسبت سے اہل کتاب کا اختلاف ہلکا اور کم ہے اس لئے اس میں مفسدہ کا خطرہ زیادہ نہیں۔- تیسری بات : قابل غور یہ ہے کہ جب اہل کتاب کا اختلاف ہلکا قرار دے کر ان کی عورتوں سے نکاح مسلمان کا جائز ہوا تو اس کے برعکس مسلمان عورتوں کا نکاح بھی غیر مسلم اہل کتاب سے جائز ہوجانا چاہئے مگر ذرا غور کرنے سے فرق واضح ہوجاتا ہے کہ عورت کچھ فطرۃ ضعیف ہے اور پھر شوہر اس پر حاکم اور نگران بنایا گیا ہے اس کے عقائد ونظریات سے عورت کا متأثر ہوجانا مستبعد نہیں اس لئے اگر مسلمان عورت غیر مسلم کتابی کے نکاح میں رہے تو اس کے عقائد خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے بخلاف اس کے کہ غیرمسلم کتابی عورت مسلمان کے نکاح میں رہے تو اس کے خیالات کا اثر شوہر پر پڑنا اصولاً مستبعد ہے کوئی بےاصول اور افراط کا شکار ہوجائے یہ اس کا اپنا قصور ہے۔- چوتھی بات : قابل غور یہ ہے کہ ازدواجی تعلقات میں جو کچھ اثر ہوتا ہے وہ طرفین پر یکساں ہوتا ہے اس لئے جیسے یہ اندیشہ ہے کہ مسلمان کے عقائد غیرمسلم سے متاثر ہوجائیں اسی طرح یہ بھی تو احتمال ہے کہ معاملہ برعکس ہو غیرمسلم کے عقائد مسلمان سے متأثر ہوں اور وہ ہی اسلام قبول کرلے تو اس کا متقضا یہ ہے کہ مسلم وغیرمسلم کے ازدواجی تعلقات کو ممنوع نہ کیا جائے۔- لیکن یہاں حکمت کی بات یہ ہے کہ جب کسی چیز میں ایک نفع کی امید بھی ہو اور کسی ضرر کا خطرہ بھی ہو تو عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ضرر سے بچنے کا اہتمام نفع کی فکر سے زیادہ ضروری ہے فارسی کا ایک حکیمانہ مقولہ مشہور ہے کہ " عقلمند تریاق بیقین وزہر بگماں نخورد " اس لئے اس نفع کی امید کو نظر انداز کیا گیا کہ شاید وہ غیرمسلم متاثر ہو کر اسلام قبول کرلے اہتمام اس کا کیا گیا کہ مسلمان متاثر ہو کر کفر میں مبتلا نہ ہوجائے۔- پانچویں بات : قابل غور یہ ہے کہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی عورتوں سے مسلمان مردوں کو نکاح کی اجازت کے بھی معنی یہ ہیں کہ اگر نکاح کرلیا جائے تو نکاح صحیح ہوجائے گا اولاد ثابت النسب ہوگی لیکن روایات حدیث اس پر شاہد ہیں کہ یہ نکاح بھی پسندیدہ نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان کو اپنے نکاح کے لئے دیندار صالح عورت تلاش کرنا چاہئے تاکہ خود اس کے لئے بھی دین میں معین ثابت ہو اور اس کی اولاد کو بھی دیندار ہونے کا موقع میسر آئے اور جب غیر متدین مسلمان عورت سے نکاح پسند نہیں کیا گیا تو کسی غیرمسلم سے کیسے پسند کیا جاتا یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم کو جب خبر پہنچی کہ عراق وشام کے مسلمانوں میں کچھ ایسے ازدواج کی کثرت ہونے لگی تو بذریعہ فرمان ان کو اس سے روک دیا گیا اور اس پر توجہ دلائی گئی کہ یہ ازدواجی تعلق دیانۃً بھی مسلم گھرانوں کے لئے خرابی کا سبب ہے اور سیاسۃ بھی (کتاب الآثار للامام محمد) اور آج کے غیرمسلم اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور ان کے سیاسی مکر و فریب اور سیاسی شادیاں اور مسلم گھرانوں میں داخل ہو کر ان کو اپنی طرف مائل کرنا اور ان کے راز حاصل کرنا وغیرہ جس کا اقرار خود بعض مسیحی مصنفین کی کتابوں میں میجر جنرل اکبر کی کتاب حدیث دفاع میں اس کی کچھ تفصیلات حوالوں کے ساتھ مذکور ہیں۔- ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فاروق اعظم کی دوربیں نظریں ان واقعات کو دیکھ رہی تھیں خصوصاً اس زمانہ کے یورپ کے اکثر وہ لوگ جو عیسائی یا یہودی کہلائے جاتے ہیں اور مردم شماری کے رجسٹروں میں ان کی قومیت عیسائی یا یہودی لکھی جاتی ہے اگر ان کے حالات کی تحقیق کی جائے تو ان میں بکثرت ایسے لوگ ملیں گے جن کو عیسائیت اور یہودیت سے کوئی تعلق نہیں وہ بالکل ملحد بےدین ہیں نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہیں، یہ نہ انجیل کو نہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان ہے نہ تورات پر نہ خدا تعالیٰ پر نہ آخرت پر ظاہر ہے کہ حلت نکاح کا قرآنی حکم ایسے لوگوں کو شامل نہیں ان کی عورتوں سے نکاح قطعاً حرام ہے ایسے لوگ ظاہر ہے کہ آیت قرآن والْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ کے استثناء میں داخل نہیں ہوتے غیر مسلموں کی طرح ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح بھی قطعاً حرام ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝ ٠ ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝ ٠ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝ ٠ ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ۝ ٠ ۚۖ وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِـاِذْنِہٖ۝ ٠ ۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ۝ ٢٢١ ۧ- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ- [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح - قول باری ہے ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن، مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لے آئیں انکے ساتھ نکاح نہ کرو) ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے حدیث بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے ابوطلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن۔ پھر اہل کتاب کو اس سے مستثنیٰ کردیا۔ چناچہ فرمایا والمحصنات من الذین ادتوا الکتاب من قبلکم اذا تیتموھن اجودھن محصنین غیر مسافحین ولامتخذی اخدان۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں جو ان قوموں میں سے ہوں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو) ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے محصنات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکدامن ہوں بدکار نہ ہوں۔- یہ کہہ کر حضرت ابن عباس (رض) نے بتادیا کہ قول باری ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن ۔ قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ پر مرتب ہے اور کتابی عورتیں ان سے مستثنیٰ ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت کتابی اور غیر کتابی تمام عورتوں کو عام ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید، انہیں یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ بن نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت بیان کی کہ آپ اہل کتاب کے طعام میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن صالح نے، انہیں لیث نے، انہیں نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی جب آپ سے یہودی یا نصرانی عورت سے نکاح کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں کو مسلمانوں پر حرام کردیا ہے۔ آپ یہ بھی فرماتے کہ ” مجھے کسی ایسے شرک کا علم نہیں جو اس بات سے بڑھ کر ہو۔۔۔ یا یوں فرماتے، اس سے زیادہ عظیم ہو۔۔۔ کہ کوئی عورت یہ کہے کہ میرا رب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا اللہ کے بندوں میں سے کوئی بندہ ہے “۔ حضرت ابن عمر (رض) نے پہلی روایت میں کتابی عورت سے نکاح کو مکروہ کہا ہے لیکن تحریم کا ذکر نہیں کیا جبکہ دوسری روایت میں صرف آیت کی تلاوت کی لیکن قطعی طور پر کوئی بات نہیں کی اور یہ بتایا کہ عیسائیوں کا مذہب شرک ہے۔ ہمیں ابوعبید نے روایت کی ، انہیں علی بن سعد نے ابواللیح سے، انہوں نے میمون بن مہران سے کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہا کہ ہم ایسی سرزمین میں رہتے ہیں جہاں ہمارے ساتھ اہل کتاب بھی بستے ہیں، ہم ان کے ساتھ شادی بیاہ بھی کرتے ہیں اور ان کا کھانا بھی کھالیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابن عمر (رض) نے کہا میرے سامنے آیت تحلیل اور آیت تحریم دونوں تلاوت کردیں میں نے پھر کہا کہ یہ آیتیں تو میں بھی پڑھتا ہوں لیکن ہم ان کی عورتوں سے نکاح کرتے اور ان کا کھانا کھاتے ہیں یہ سن کر حضرت ابن عمر (رض) نے دوبارہ آیت تحلیل اور آیت تحریم کی تلاوت کردی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کا اباحت یا ممانعت کے جواب سے پہلو تہی کر کے آیت کی تلاوت کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اس کے حکم کے متعلق توقف تھا یعنی اس حکم کے متعلق آپ کوئی قطعی رائے نہیں رکھتے تھے کراہت کی جو روایت آپ سے منقول ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے نزدیک یہ کراہت تحریم کی بنا پر نہیں تھی جس طرح کہ ایسی کتابی عورتوں سے نکاح کرنا جن کا تعلق اہل حرب سے ہو یعنی ایسے لوگوں سے ہو جو مسلمانوں سے پر سرپیکار ہوں۔ یہ کراہت بھی تحریم کی بنا پر نہیں ہوتی۔- کتابی عورتوں سے نکاح پر صحابہ کا تعامل۔۔۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت منقول ہے ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں سعید بن ابی مریم نے یحییٰ بن ایوب اور نافع بن یزید سے، انہوں نے عفرہ کے آزاد کردہ غلام عمر سے روایت کی۔ عمر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن علی بن السائب کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت عثمان (رض) نے نائیلہ بنت الفرافصہ الکلبیہ سے نکاح کرلیا۔ نائلہ عیسائی تھیں، حضرت عثمان (رض) نے بیویوں کی موجودگی میں ان سے نکاح کیا تھا۔ اسی سند سے راوی نافع کے ذکر کے بغیر یہ مروی ہے کہ حضرت طلحہ (رض) بن عبیداللہ نے شام کی رہنے والی ایک یہودی عورت سے نکاح کیا تھا۔ حضرت حذیفہ (رض) کے متعلق یہ روایت ہے کہ آپ نے ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا حضرت عمر (رض) کو جب پتہ چلا تو آپ نے حضرت حذیفہ (رض) کو لکھا کہ وہ اس عورت کو چھوڑ دیں۔ حضرت حذیفہ (رض) نے جواب میں لکھا کہ مجھے بتایا جائے کہ آیا یہ عورت میرے لئے حرام ہے ؟ حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ ” حرام تو نہیں ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم لوگ اس طرح بدکار یہودی عورتوں سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کرلو “۔ تابعین کی ایک جماعت سے بھی کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت منقول ہے ، ان میں حسن بصری، ابراہیم نخعی اور شعبی شامل ہیں۔ ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ کسی صحابی یا تابعی نے ان سے نکاح کی تحریم کا فتوی دیا ہو۔- حضرت ابن عمر (رض) سے جو روایت ہے وہ تحریم پر دلالت نہیں کرتی اس سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسے پسند نہیں کرتے تھے جس طرح کہ حضرت عمر (رض) سے کراہت کی روایت ہے کہ آپ نے حضرت حذیفہ (رض) کے نکاح کو پسند نہیں کیا تھا جو انہوں نے ایک کتابی عورت سے کیا تھا۔ دوسری طرف حضرت عثمان (رض) ، حضرت طلحہ (رض) اور حضرت حذیفہ (رض) نے کتابی عورتوں سے نکاح کیا تھا اگر یہ نکاح صحابہ کرام کے ہاں حرام ہوتا تو اس پر سب نکیر کرتے اور اس کے مخالف ہوجاتے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نکاح کے جواز پر سب کا اتفاق تھا۔ قول باری ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن) کتابی عورتوں سے نکاح کی حرمت کو واجب نہیں کرتا۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ لفظ المشرکات کا ظاہر اطلاق کی صورت میں بت پرستوں کو شامل ہوتا ہے اور اس میں کتابی عورتیں داخل نہیں ہوتیں۔ اگر ان کے دخول کے لئے کوئی دلالت موجود ہو تو پھر وہ اس کے ذیل میں آتی ہیں۔ آپ یہ قول باری نہیں دیکھتے مایودالذین کفروامن اھل الکتب ولاالمشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم۔ یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو) نیزقول باری لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین، جو لوگ کافر تھے اہل کتاب میں سے وہ باز آنے والے نہ تھے) ۔- ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور مشرکین کے درمیان لفظی طور پر فرق رکھا ہے۔ اس کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ معطوف معطوف علیہ کا غیر ہو الایہ کہ کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو یہ ثابت کر دے کہ اسم سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الگ سے ان کا ذکر کیا اس میں ایک قسم کی تعظیم یا تاکید پائی جاتی ہے۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے من کان عدواللہ وملائکتہ ورسلہ و جبریل ومیگال، جو شخص اللہ اس کے فرشتوں اس کے پیغمبروں اور جبریل ومیکائیل کا دشمن ہو۔۔۔ آیت میں حضرت جبریل اور حضرت میکائیل کا الگ سے ذکر ہوا حالانکہ یہ دونوں لفظ ملائکتہ میں داخل ہیں اس کا مقصد ان دونوں کی عظمت شان بیان کرنا ہے۔ زیادہ ظاہر بات جو ہے وہ یہ ہے کہ معطوف، معطوف علیہ کا غیر ہوتا ہے الا یہ کہ ایسی دلیل موجود ہو جو یہ ثابت کر دے کہ معطوف معطوف علیہ کے جنس میں سے ہے۔ اب یہاں اہل کتاب پر مشرکین کو عطف کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب ایک دوسرے کے غیر ہیں۔ اور نکاح کی حرمت بت پرست مشرکین تک محدود ہے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر یہ حکم سب کے لئے عام ہوتا یعنی اس میں اہل کتاب اور مشرکین دونوں شامل ہوتے تو اس صورت میں یہ ضروری تھا کہ یہ عموم قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ کے حکم پر مرتب ہو۔ اور جہاں تک ان دونوں آیتوں پر عمل ممکن ہو تاہم ایک کو دوسری کی وجہ سے منسوخ قرار نہ دیتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ میں وہ کتابی عورتیں مراد ہیں جو اسلام لے آئی تھیں۔ ارشاد باری ہے وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ وماانزل الیکم۔ اہل کتاب میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے) ۔ اسی طرح قول باری ہے من اھل الکتب امۃ قائمۃ یتلون ایات اللہ اناء اللیل و ھم یسجدون۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو راہ راست پر قائم ہے۔ راتوں کو اللہ کی آیات تلاوت کرتے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتے) ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو خلاف مفروض ہے جو قائل اور استدلال کرنے والے کی غباوت ذہنی کا پتہ دیتی ہے۔ اس استدلال کے بطلان کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ اہل کتاب کے اسم کا جب بھی اطلاق کیا جاتا ہے وہ ان کے کافروں کو شامل ہوتا ہے جیسا کہ قول باری ہے من الذین اوتوا الکتاب حتی یعطوالجزیۃ عن ید۔ ان اہل کتاب سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں) ۔- اسی طرح قول باری ہے ومن اھل الکتاب من ان تامنہ بقظار یودہ الیک۔ اور اہل کتاب میں سے ایسا بھی ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی اسے دے دو تو وہ تمہیں ادا کرے دے گا) اسی طرح کی اور آیات جن میں اہل کتاب کا لفظہ بغیر کسی قید کے علی الاطلاق استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ یہود و نصاریٰ دونوں کو شامل ہے۔ اس سے ایسے افراد سمجھ میں نہیں آتے جو پہلے اہل کتاب تھے اور پھر مسلمان ہوگئے۔ البتہ یہ بات اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب یہ ایمان کے ذکر کے ساتھ مقیدہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ان لوگوں کا ارادہ کیا جو اسلام لے آئے تھے تو اس ذکر کے ساتھ کہ یہ اہل کتاب ہیں ان کے اسلام کا بھی ذکر کیا۔ چناچہ قول باری ہے لیسواسوائً من اھل الکتاب امۃ قائمۃ یتلون ایات اللہ اناء اللیل ولعم یسجدون۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں مومنات کا ذکر ہے یہ ان مومنات کو بھی شامل ہے جو پہلے اہل کتاب تھیں اور پھر مسلمان ہوگئیں اور ان کو بھی جو پہلے ہی مومنات تھیں۔ اس لئے کہ قول باری ہے والمحصنات من المومنات والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ اب یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ والمحصنات من الذین اوتوالکتاب۔ سے مراد وہی مومنات ہوں جن کا ابتداء میں ذکر ہوچکا ہے۔ اس قول کے قائلین بعض دفعہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو علی بن ابی طلحہ (رض) سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کعب (رض) بن مالک نے ایک کتابی عورت سے نکاح کا ارادہ کیا۔- انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا انھالاتحصنک یہ تمہارے اندر صفت احصان یعنی پاک دامنی پیدا نہیں کرے گی) اس قول میں نہی کے ظاہر الفاظ یہ مفہوم ادا کرتے ہیں کہ ایسا کرنے میں خرابی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سند سے یہ حدیث مقطوع ہے اور اس جیسی حدیث کے ذریعے ظاہر قرآن پرا عتراض نہیں کیا جاسکتا جو اس کی منسوخیت پر دلالت کرتا ہے اور اس کی تخصیص نہیں کرتا۔ اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو یہ کراہت پر محمول کیا جائے گا جس طرح کہ حضرت عمر (رض) سے منقول ہے کہ آپ نے حضرت حذیفہ (رض) کے ایک یہودی عورت سے نکاح کو ناپسند کیا تھا لیکن حرام نہیں سمجھا تھا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد انھالاتحصنک دلالت کرتا ہے کیونکہ تحصین، یعنی محصن بنانے کی نفی نکاح کے فاسد ہونے پر دلالت نہیں کرتی جس طرح کہ نابالغ لڑکی یا لونڈی کے ساتھ نکاح سے انسان محصن نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ان کے ساتھ نکاح جائز ہوتا ہے۔ ایسی کتابی عورت جو حربی بھی ہو اس کے ساتھ نکاح میں اختلاف ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت سنائی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں عباد بن العوام نے سفیان بن حسین سے ، انہوں نے الحکم سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے آپ نے فرمایا کہ اہل کتاب جب ہم سے برسرپیکار ہوں تو ان کی عورتیں حلال نہیں ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی قاتلوا الذین لایومنون باللہ۔ تا وھم صاغرون۔ الحکم کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے اس کا ذکر کیا تو انہیں یہ بات بہت اچھی لگی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے اس بات کو کراہت کی بنا پر ایسا سمجھا ہو۔ ہمارے اصحاب بھی اسے مکروہ سمجھتے ہیں لیکن تحریم میں قائل نہیں ہیں۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے حربی اہل کتاب کی عورتوں کو مکروہ سمجھا ہے قول باری والمحصنات من الذین اوتوالکتاب نے حربی اور غیر حربی یعنی ذمی کتابی عورتوں میں فرق نہیں کیا اور دلالت کے بغیر اس معموم میں تخصیص بھی نہیں ہوسکتی۔ رہ گیا قول باری قاتلوا الذین لایومنون باللہ تا آخر آیت۔ تو اس کا نکاح کے جواز یا فساد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر وجوب قتال نکاح کے فساد کے علت ہوتا تو پھر ضروری ہوتا کہ خوارج اور اسلامی حکومت کے باغیوں کی عورتوں سے بھی نکاح جائز نہ ہو کیونکہ قول باری ہے فقاتلوا التی تبغی و حتی تفی الی امر اللہ، پس اس گروہ سے جنگ کرو جو بغاوت کرے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے) ۔ ہمارے اس بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ وجوب قتال کا نکاح کو فاسد کردینے میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہمارے اصحاب نے اسے اس قول باری کی بنا پر مکروہ سمجھا ہے۔ لاتجدقوماً یومنون باللہ والیوم الاخر یعادون من حاد اللہ ورسولہ ولوکانوا اباء ھم او ابناء ھم اواخوانھم اوعشیرتھم تم ایسی کوئی قوم نہیں پائو گے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی ہو اور پھر وہ ان لوگوں سے دوستی کرے جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرتے ہوں خواہ وہ ان کے آبائو یا اولاد یا بھائی کیوں نہ ہوں) اور نکاح سے مودت و محبت پیدا ہوتی ہے۔ قول باری ہے وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ۔ اللہ نے تمہارے درمیان اسے یعنی نکاح کو محبت اور رحمت کا سبب بنادیا) جب اللہ نے یہ بتادیا کہ نکاح مودت اور محبت کا سبب ہے اور اس نے اہل حرب سے دوستی کا نٹھنے سے منع فرمایا تو ہمارے اصحاب نے اہل حرب کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ سمجھا ۔ قول باری یوادون من حاد اللہ ورسولہ۔ اہل حرب کے متعلق ہے اہل ذمہ سے اس کا تعلق نہیں ہے،۔ اس لئے کہ لفظ حاد اس معنی کے لئے مشتق ہے کہ وہ ایک حد یعنی کنارے پر ہیں۔- اور ہم ایک حد یعنی کنارے پر “۔ جس طرح کہ لفظ المشاقۃ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک شق یعنی کنارے پر اور ہم ایک شق پر “۔ یہ اہل حرب کی خصوصیت ہوتی ہے اہل ذمہ کی نہیں ہوتی۔ اسی بنا پر اہل حرب کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ اس کا بچہ دارالحرب میں پرورش پائے گا اور اس میں حربیوں والے اخلاق و صفات پیدا ہوں گے اس سے ہمیں روکا گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔ میں ہر اس مسلمان سے برات کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا بستا ہو۔ ) اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے اس سے انکار تو نہیں کیا کہ قول باری لاتجدقوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ۔ اس قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ کی تخصیص کرتا اور اس کے حکم کو ذمی عورتوں تک محدود رکھتا ہے حربی عورتیں اس میں داخل نہیں ہوتیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کا اقتضاء صرف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والوں کے ساتھ محبت و مودت کا رشتہ قائم نہ ہو۔ آیت میں اس سے روکا گیا ہے جہاں تک نکاح وغیرہ کا تعلق ہے آیت اس پر مشتمل نہیں ہے۔ اگرچہ یہ نکاح باہمی محبت و مودت کا ذریعہ بن جاتا ہے نفس نکاح اس کا سبب نہیں ہوتا اگرچہ اس کے نتیجیمیں یہ چیز پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے فقہائے نے ایسی عورتوں کے مقابلے میں دوسری عورتوں سے نکاح کو پسند کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کی تحریم کے معاً بعد قول باری ہے اولئک یدعون الی النار۔ یہ لوگ آگ یعنی جہنم کی طرف بلاتے ہیں) اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کی یہی خاصیت ان کے ساتھ نکاح کی حرمت کی علت ہے۔ اب یہی علت کتابی عورتوں میں پائی جاتی ہے خواہ وہ ذمی عورتیں ہوں یا حربی۔ اس بنا پر ان سے بھی اس علت کی وجہ سے اسی طرح نکاح حرام ہونا چاہیے جس طرح مشرک عورتوں سے حرام ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تحریم نکاح کے لئے یہ علت موجب نہیں ہے کیونکہ اگر بات ایسی ہوتی تو مشرک عورتوں سے کسی بھی صورت میں نکاح کی اباحت نہیں ہوتی حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ ابتدائے ا سلام میں اس کی اباحت تھی حتی کہ اس کی حرمت نازل ہوگئی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ بات ایسی نہیں ہے کہ جو تحریم نکاح کے لئے علت موجبہ ہو جبکہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویاں کافر تھیں اور اللہ کے دو نبیوں کے نکاح می تھیں۔ چناچہ ارشاد باری ہے ضرب اللہ مثلاً للذین کفو وا امراۃ نوح مراۃ لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانت ھما فلم یغنیا عنھما من اللہ شیئاً و قیل ادخلا النار مع الداخلین، اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے یہ دونوں عورتیں ہمارے دو نیک بندوں کے عقد میں تھیں، پھر ان دونوں عورتوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور ان کے شوہر اللہ کے مقابلے میں ان عورتوں کے کچھ کام نہ آئے ان عورتوں سے کہا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جائو) ۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کے وجود کے ساتھ ان کے نکاح کی صحت کی خبر دی جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کفر تحریم نکاح کے لئے علت موجبہ نہیں ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کے سیاق میں ضرور فرمایا ہے کہ اولئک یدعون الی النار۔ اس بات کو اللہ نے بطلان نکاح کی ایک نشانی قرار دیا اور ایسی باتیں جو علل شرعیہ جیسی خصوصیت رکھتی ہوں ان کے ذریعے اسم سے متعلق ہونے والے حکم کی تاکید نہیں ہوتی۔ اور اسم کی تخصیص کی طرح اس حکم کی بھی تخصیص جائز ہوتی ہے۔ جب قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب۔- میں اس تحریم کی تخصیص جائز ہے جس کا تعلق اسم یعنی اہل کتاب سے ہے تو اس حکم کی تخصیص بھی جائز ہے جو اس مفہوم پر عائد ہو رہا ہے جس میں علل شرعیہ کا رنگ اور ان جیسی خصوصیت پائی جا رہی ہے۔ اس کی نظیر یہ قول ہے انما یریدالشیطان ان یوفع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمروالمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور قمار کے ذریعے تمہارے درمیان بعض و عداوت پیدا کر دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے روک دے) ۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کی بنا پر پیدا ہونے والے ممنوعات کا ذکر کر کے انہیں علت کا رنگ دے دیا حالانکہ ان ممنوعات کو ان کے معلولات میں جاری کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بیع و شراء اور شادی بیاہ کے تمام معاملات اور لین دین کی تمام صورتیں حرام ہوجاتیں اس لئے کہ شیطان ان تمام باتوں کے ذریعے ہمارے درمیان بغض و عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور ہمیں اللہ کی یاد سے روکتا ہے۔ اب جبکہ مذکورہ تمام باتوں میں اس مفہوم (شیطان کا بغض و عداوت پیدا کرنے کا ارادہ اور یا دالٰہی سے باز رکھنے کی کوشش) کا اعتبار کرنا واجب نہیں ہوا باوجودیکہ یہ مفہوم ان تمام امور میں پایا جاتا ہے بلکہ اس کا حکم صرف دو باتوں یعنی خمر اور میسر تک محدود رہا دوسرے امور تک متعدی نہیں ہوا تو اسی طرح ان تمام علل شرعیہ کا حکم ہے خواہ وہ منصوص ہوں یا ان کا اقتضاء ہو یا بطریق استدلال انہیں ثابت کیا گیا ہو ۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر علل شرعیہ کی تخصیص کے سلسلے میں استدلال کیا گیا ہے۔- ہمارے اس بیان سے یہ بات واجب ہوگئی کہ تحریم نکاح کا حکم صرف مشرک عورتوں تک محدود رہے اور ان کے سوا دوسری عورتیں مثلاً ذمی یا حربی اس میں داخل نہ ہوں اور قول باری اولئک یدعون الی النار۔ مشرک عورتوں سے نکاح کے امتناعی حکم کی تاکید بن جائے اور دوسری عورتوں تک یہ حکم متعدی نہ ہو۔ اس لئے کہ شرک اور جہنم کی آگ کی طرف بلاوایہ دونوں باتیں تحریم نکاح کی علامتیں ہیں اور یہ کتابی عورتوں میں موجود نہیں ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حکم مشرکین عرب کے متعلق ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے خلاف برسرپیکار تھے۔ مسلمانوں کو ان کی عورتوں سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا تاکہ یہ عورتیں اپنے اہل خاندان کے مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کی مودت و الفت کا وسیلہ نہ بن جائیں اور اس طرح ان کے خلاف جنگ کرنے میں مسلمانوں کے اندر کوتاہی نہ پیدا ہوجائے۔ اس حکم کا تعلق اہل ذمہ کے ساتھ نہیں ہے جو مسلمانوں سے دوستی رکھتے تھے اور جن کے خلاف ہمیں جنگ نہ کرنے کا حکم ملا تھا۔ الایہ کہ دشمنی کی یہی کیفیت ان ذمیوں میں بھی پیدا ہوجائے تو اس صورت میں برسرپیکار ذمی عورتوں سے نکاح کی حرمت ہوجائے گی اور ہمارے لئے اس علت کے معلول کے حکم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوجائیگا۔ قول باری ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ اور ایک مومن لونڈی ایک مشرک عورت سے بہتر ہے) اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینا جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آزاد مشرک عورت سے نکاح کی بجائے جو انہیں اچھی بھی لگے اور اس سے نکاح کرنے کی ان میں استطاعت بھی ہو مومن لونڈی سے نکاح کرلیں۔- اب ظاہر ہے کہ جو شخص آزاد مشرک عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہوگا اسے آزاد مسلمان عورت سے نکاح کرنے کی بھی استطاعت ہوگی۔ اس لئے کہ رواج کے مطابق ان دونوں کے مہر کی رقموں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ جب یہ صورتحال ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ قول باری بھی ہے کہ ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ ولواعجبتکم) پھر آزاد مشرک عورت سے نکاح کرنے کی بجائے مومن لونڈی سے نکاح کرنے کی ترغیب اسی وقت درست ہوگی جبکہ وہ آزاد مسلمان خاتون سے نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہوگا تو ان تمام باتوں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زیر بحث آیت آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کے جواز کو متضمن ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت عام ہے اس میں استطاعت رکھنے والا مال دار اور عدم استطاعت کا حامل فقیر دونوں شامل ہیں پھر اس حکم کے فورا بعد یہ قول باری ہے ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ اس میں ان لوگوں کے لئے لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی اباحت ہے جنہیں مشرک عورت کے نکاح گئی تھی اس بنا پر یہ حکم اباحت غنی اور فقیر دونوں کے لئے عام ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢١) مرثد بن ابی مرثد غنوی نامی ایک مسلمان نے اس بات کا ارادہ کیا تھا کہ عناق نامی ایک مشرکہ عورت سے شادی کرے، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس سے منع فرمادیا کہ مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو، مسلمان باندی سے شادی کرنا آزاد مشرک عورت سے شادی کرنے سے بہتر ہے اگرچہ اس کا حسن و جمال تمہیں پسند ہو، اور اسی طرح مشرک مردوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، شادی نہ کرو اور مسلمان غلام سے شادی کرنا آزاد مشرک مرد سے شادی کرنے سے بہتر ہے اگرچہ اس کی قوت وبدن تمہیں اچھا لگے یہ کافر کفر اور دوزخیوں کے کاموں کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ توحید اور توبہ کی طرف اپنے حکم سے تحیریک دیتے ہیں اور شادی کے بارے میں احکام الہی کو بیان فرماتے ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں اور ناجائز طریقہ پر شادی کرنے سے پرہیز کریں۔- شان نزول : (آیت) ” ولا تنکحوالمشرکات “۔ (الخ)- ابن منذر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) اور واحدی (رح) نے مقاتل (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ ابن مرثد غنوی کے متعلق نازل ہوئی ہے، اس نے ایک حسین و جمیل مشرکہ عناق نامی عورت سے شادی کرنے کے بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی تھی۔- اور فرمان الہی (آیت) ” ولا مۃ مومن ۃ (الخ) واحدی نے بواسطہ سدی (رح) ، ابومالک (رح) ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت عبداللہ بن رواحہ کے بارے میں اتری ہے، ان کی ایک سیاہ باندی تھی، غصہ میں ایک مرتبہ اسے تھپڑ مار دیا پھر اس بات سے گھبرا کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقعہ بیان کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اولا اسے آزاد کردو اور پھر اس سے شادی کرلو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اس پر لوگوں نے انھیں طعنے دینے شروع کیے کہ باندی سے شادی کی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ مومن باندی مشرک عورت سے بہتر ہے اور اسی روایت کو ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے منقطع سند سے روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢١ (وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ط) (وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ ج) (وَلاَ تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط) (وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ ط) ۔ - خواہ وہ صاحب حیثیت اور مال دار ہو ‘ لیکن دولت ایمان سے محروم ہو تو تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی بہن یا بیٹی اس کے نکاح میں دے دو ۔- (اُولٰٓءِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِج ) ۔ - اگر ان سے رشتے ناتے جوڑو گے تو وہ تمہیں بھی جہنم میں لے جائیں گے اور تمہاری اولاد کو بھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :237 یہ ہے علت و مصلحت اس حکم کی جو مشرکین کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق نہ رکھنے کے متعلق اوپر بیان ہوا تھا ۔ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی ، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے ۔ مومن اور مشرک کے درمیان اگر یہ قلبی تعلق ہو ، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آئندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرز زندگی کا نقش ثبت ہو گا ، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہو جائے گی ، اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے ازدواج سے اسلام اور کفر و شرک کی ایک ایسی معجون مرکب اس گھر اور اس خاندان میں پرورش پائے گی ، جس کو غیر مسلم خواہ کتنا ہی ناپسند کریں ، مگر اسلام کسی طرح پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ جو شخص صحیح معنوں میں مومن ہو وہ محض اپنے جذبات شہوانی کی تسکین کے لیے کبھی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اس کے گھر اور اس کے خاندان میں کافرانہ و مشرکانہ خیالات اور طور طریقے پرورش پائیں اور وہ خود بھی نادانستہ اپنی زندگی کے کسی پہلو میں کفر و شرک سے متاثر ہو جائے ۔ اگر بالفرض ایک فرد مومن کسی فرد مشرک کے عشق میں بھی مبتلا ہو جائے ، تب بھی اس کے ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان ، اپنی نسل اور خود اپنے دین و اخلاق پر اپنے شخصی جذبات قربان کر دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani