220۔ 1 جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لئے سزا کی دھمکی نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رض) ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس سزا کے مستحق نہ قرار پاجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) 220۔ 2 یعنی تمہیں بغرض اصلاح و بہتری بھی ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔
[٢٩٣] اس سے پیشتر یتیموں کے بارے میں دو حکم نازل ہوچکے تھے۔ ایک یہ کہ یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔ (٦: ١٥٢) اور دوسرا یہ کہ جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔ (٤ : ١٠) لہذا مسلمان یتیموں کے بارے میں سخت محتاط ہوگئے اور ان کے مال اپنے مال سے بالکل الگ کردیئے کہ اسی سے ان کا کھانا پینا اور دوسری ضروریات پوری کی جائیں۔ مگر اس طرح بھی یتیموں کا بعض صورتوں میں نقصان ہوجاتا تھا۔ مثلاً ان کے لیے کھانا پکایا، جو کھانا بچ جاتا وہ ضائع ہوجاتا، ایسی ہی صورت حال سے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا۔ جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اصل میں تو یتیموں کی اصلاح اور بھلائی مقصود ہے جس صورت میں وہ میسر آئے وہ تم اختیار کرسکتے ہو۔ اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملانا مناسب سمجھتے ہو تو بھی کوئی حرج نہیں، آخر وہ تمہارے ہی بھائی ہیں۔ یعنی تم ان کا مال ملا بھی سکتے ہو، الگ بھی کرسکتے ہو، کچھ مال ملا لو یا بعض حالتوں میں ان کا مال الگ کردو، ہر صورت درست ہے۔ بشرطیکہ تمہاری اپنی نیت بخیر ہو اور اصل مقصود یتیم کی بھلائی ہو اور اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کئی طرح کی پابندیاں عائد کر کے تم پر سختی کرسکتا تھا۔ یہ اس کی حکمت اور رحمت ہے کہ اس نے تمہیں ہر طرح کی صورت حال کی اجازت دے دی ہے۔
فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ : اس کا تعلق اس سے پہلی آیت ” لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ “ کے ساتھ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے لیے شراب اور جوئے میں دنیا کے فائدے اور دنیا اور آخرت میں ان کے نقصانات اور ان کا کبیرہ گناہ ہونا اور شراب اور جوئے کے بجائے اللہ کے راستے میں اپنی بہترین چیزیں خرچ کرنا کھول کر بیان کر رہا ہے، تاکہ تم چند روزہ دنیا اور ہمیشہ رہنے والی آخرت دونوں میں خود ہی غور وفکر کرلو کہ عقل سے کام لے کر تم کس کو ترجیح دیتے ہو۔ - الْيَتٰمٰي “ جس کا باپ فوت ہوگیا ہو وہ بالغ ہونے تک یتیم ہے۔ (لَاَعْنَتَكُمْ ) ” عَنَتٌ“ کا معنی مشقت ہے، جیسے سورة توبہ (١٢٨) میں ہے : (عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ ) ” اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو۔ “ ” اَعْنَتَ “ باب افعال سے ماضی معروف ہے اور ” اِعْنَاتٌ“ اس سے مصدر ہے، جس کے معنی ہیں، آدمی کو ایسی مشقت میں ڈالنا جس میں ہلاکت کا خطرہ ہو۔ (راغب)- اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ” اِصْلَاحٌ“ کی تنوین کی وجہ سے ” کچھ نہ کچھ سنوارتے رہنا “ ترجمہ کیا ہے، یعنی ان کے مال کی حفاظت کے ساتھ ان کی تعلیم، اخلاق، صحت اور تمام معاملات کی کچھ نہ کچھ اصلاح جو تمہارے بس میں ہو، کرتے رہنا، انھیں یتیم سمجھ کر باز پرس نہ کرنے سے بہت بہتر ہے۔ - وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ : ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” جب یہ آیت اتری : (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ) [ بنی إسرائیل : ٣٤ ] ” اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہے “ تو لوگوں نے یتیموں کے اموال الگ کردیے، چناچہ یتیموں کا کھانا خراب اور گوشت بدبودار ہونے لگا۔ “ یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کی گئی اور اس پر یہ آیت اتری تو لوگوں نے انھیں اپنے ساتھ ملا لیا۔ [ مسند أحمد : ١؍٣٢٥، ح : ٣٠٠٤۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٠٦، ح :- ٣١٠٣، صححہ الحاکم و وافقہ الذھبی و حسنہ الألبانی ]- وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْ ) مگر اللہ تعالیٰ نے تم پر مشقت نہیں ڈالی، بلکہ آسانی اور وسعت پیدا فرمائی۔ چناچہ اصلاح کی نیت سے انھیں اپنے ساتھ ملا سکتے ہو اور اگر محتاج ہو تو بقدر خدمت و ضرورت ان کے مال سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بالْمَعْرُوْفِ ) [ النساء : ٦ ] ” اور جو غنی ہو تو وہ بہت بچے اور جو محتاج ہو تو وہ جانے پہچانے طریقے سے کھالے۔ “
سترہواں حکم۔ مخالطت یتیم :- (چونکہ ابتداء میں مثل ہندوستان کے عرب میں بھی یتیموں کا حق دینے میں پوری احتیاط نہ تھی اس لئے یہ وعید سنائی گئی کہ یتیموں کا مال کھانا ایسا ہے جیسا دوزخ کے انگار پیٹ میں بھرنا تو سننے والے ڈر کے مارے اتنی احتیاط کرنے لگے کہ ان کا کھانا بھی الگ پکواتے اور الگ رکھواتے اور اتفاقا اگر بچہ کم کھاتا تو کھانا بچتا اور سڑتا تھا کیونکہ اس کا استعمال نہ ان لوگوں کے لئے جائز تھا اور نہ یتیم کے مال کو صدقہ کردینے کا اختیار تھا اس طرح تکلیف بھی ہوتی اور یتیم کا نقصان بھی اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا اس کے متعلق آیت میں یہ ارشاد آیا) اور لوگ آپ سے یتیم بچوں (کے خرچ علیٰحدہ یا شامل رکھنے) کا حکم پوچھتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ (اصل مقصود ہمارا ان کے اموال کھانے کی ممانعت سے یہ ہے کہ ان کی مصلحت کو ضائع نہ کیا جائے اور جب خرچ شامل رکھنے میں ان کی مصلحت ہے تو) ان کی مصلحت کی رعایت رکھنا (علیٰحدہ خرچ رکھنے سے جو خلاف مصلحت ہے) زیادہ بہتر ہے اور تم ان کے ساتھ خرچ شامل رکھو تو (کچھ ڈر کی بات نہیں کیونکہ) وہ بچے تمہارے (دینی) بھائی ہیں (اور بھائی بھائی شامل رہا ہی کرتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ مصلحت کے ضائع کرنے والے کو اور مصلحت کی رعایت رکھنے والے کو (الگ الگ) جانتے ہیں (اس لئے کھانے پینے میں اشتراک ایسا نہ ہونا چاہئے جس میں یتیم کی مصلحت ضائع ہوجائے اور بلا علم وبلا قصد کچھ کمی بیشی ہو بھی جائے تو چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس کی نیک نیتی معلوم ہے اس لئے اس پر مواخذہ ہوگا) اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو (اس معاملہ میں سخت قانون مقرر کرکے) تم کو مصیبت میں ڈال دیتے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ زبردست ہیں (مگر قانون سہل اس لئے مقرر فرمایا کہ وہ) حکمت والے (بھی) ہیں (ایسا حکم نہیں دیتے جو نہ ہوسکے)
فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ٠ ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ٠ ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ٠ ۭ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ٠ ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ٠ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَاَعْنَتَكُمْ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٢٢٠- يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملي چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- خلط - الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی:- فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ- [ ص 24] ، - ( خ ل ط ) الخلط - ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- عنت - الْمُعَانَتَةُ کالمعاندة لکن المُعَانَتَةُ أبلغ، لأنها معاندة فيها خوف وهلاك، ولهذا يقال : عَنَتَ فلان : إذا وقع في أمر يخاف منه التّلف، يَعْنُتُ عَنَتاً. قال تعالی: لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ- [ النساء 25] ، وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ أي : ذلّت وخضعت، ويقال : أَعْنَتَهُ غيرُهُ. وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] ، ويقال للعظم المجبور إذا أصابه ألم فهاضه : قد أَعْنَتَهُ.- ( ع ن ت ) المعانتۃ - : یہ معاندۃ کے ہم معنی ہے معنیباہم عنا داوردشمنی سے کام لینا لیکن معانتۃ اس سے بلیغ تر ہے کیونکہ معانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو ۔ چناچہ عنت فلان ۔ ینعت عنتا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص ایسے معاملہ میں پھنس جائے جس میں تلف ہوجانیکا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء 25] اس شخص کو ہے جسے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] اور چاہتے ہیں کہ ( جس طرح ہو ) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے : اور آیت کریمہ : وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1»اور سب ( کے ) چہرے اس زندہ وقائم کے روبرو جھک جائیں گے ۔ میں عنت کے معنی ذلیل اور عاجز ہوجانے کے ہیں اور اعنتہ کے معنی تکلیف میں مبتلا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا ۔ اور جس ہڈی کو جوڑا گیا ہو اگر اسے کوئی صدمہ پہنچے اور وہ دوبارہ ٹو ٹ جائے تو ایسے موقع پر بھی اعتتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
یتیم کے مال میں تصرف - قول باری ہے ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیروان تخالطوھم فاخوانکم۔ اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے کہہ دیجئے جس طرز عمل میں ان کے لئے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہتر ہے اور اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یتیم وہ ہوتا ہے جو اپنے ماں باپ میں سے ایک سے تنہا رہ جائے چناچہ باپ کے رہتے ہوئے ماں کی وفات کی وجہ سے وہ یتیم ہوتا ہے اس کے برعکس صورت میں بھی وہ یتیم ہوتا ہے البتہ یتیم کا اطلاق زیادہ تر اس صورت میں ہوتا ہے جب باپ نہ ہو خواہ ماں زندہ ہی کیوں نہ ہو۔ باپ زندہ ہونے کی صورت میں ماں کی وفات کی وجہ سے بہت ہی کم یتیم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے سلسلے میں جتنے احکام بیان کئے ہیں ان میں وہ یتیم مراد ہیں جن کے باپ موجود نہ ہوں اور وہ نابالغ ہوں۔ بالغ ہونے کے بعد ایسے شخص پر یتیم کا اطلاق بطور مجاز ہوتا ہے کیونکہ یتیمی سے ان کا زمانہ بہت قریب ہوتا ہے۔ اس بات کی دلیل کہ تنہا رہ جانے والے کو یتیم کہا جاتا ہے۔ یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک تنہا رہ جانے والی بیوی کو بھی یتیمہ کا نام دیا جاتا ہے خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی۔ شاعر کا شعر ہے۔ ان القبور تنکح الایسامی۔۔ النسوۃ الاراصل الیتامی۔۔- بے شک قبریں بیوہ عورتوں سے نکاح کرلیتی ہیں وہ عورتیں جو بیوہ اور شوہر کی وفات کے بعد تنہا رہ جاتی ہیں۔ ٹیلے کو بھی یتیمہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اپنے گرد کے ماحول میں تنہا ہوتا ہے۔ ایک شاعر نے اپنی اونٹنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔۔ قوداء یملک وحلھا مثل الیتیم من الامانب۔۔ یہ اونٹنی ایسی سدھائی ہوئی ہے کہ ایک تنہا ٹیلے کی طرح خرگو ش بھی اس کے کجا وے کو اپنے قابو میں کرسکتا ہے۔ اگر سیپ میں ایک ہی موتی ہو تو اسے ” درۃ یتیمۃ “ کہا جاتا ہے کیونکہ سیپ میں وہ تنہا ہوتا ہے اور اس کی کوئی نظیر نہیں ہوتی خلیفہ ابوالعباس سفاح کی مدح اور خوارج کے مختلف مذاہب کے متعلق ابن المقفع نے کتاب لکھی ہے جس کا نام اس نے یتیمیۃ الدہر رکھا ہے۔ ابوتمام نے اس کے متعلق یہ شعر کہا ہے۔۔ وکثیر عزۃ یوم مبین ینسب وابن المقفع فی الیتیمۃ یسھب۔ مشہور شاعر اور غزہ کا عاشق کثیر جس دن تشبیب بیان کرتا ہے تو عورتوں کے حسن و خوبصورتی کی خوب شرح کرتا ہے اور ابن المقفع اپنی کتاب یتیمہ الدہر میں بھی ایک چیز کے بیان میں بہت طاولت اختیار کرتا ہے۔- اب جبکہ یتیم کا اسم تنہا رہ جانے والے کے لئے ہے تو یہ ہر اس فرد کو شامل ہوگا جس کی ماں یا باپ گزر گیا ہو خواہ وہ خود نابالغ ہو یا بالغ۔ تاہم اس کا اطلاق اس بچے پر ہوتا ہے جو نابالغ ہو اور اس کا باپ دنیا میں موجود نہ ہو۔ ہمیں جعفر بن محمد نے، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے انہیں ابوعبید نے انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیر) کی تفسیر میں بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ان الذین یا کلون اموال الیتامی ظلماً انمایاکلون فی بطونھم ناراً وسیصلون سعیراً ۔ وہ لوگ جو ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ جہنم کی آگ سے بھرتے ہیں انہیں جلد ہی جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا) ۔ تو مسلمان یتیموں کو اپنے ساتھ رکھنے کو ناپسند کرنے لگے اور اپنے ساتھ ان کے مشترک رہن سہن اور خرچ وغیرہ کو گناہ کی بات سمجھنے لگے۔ مسلمانوں نے اس کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار بھی کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ویسئلونک عن الیتامی لوگ آپ سے یتیموں کے متعلق پوچھتے ہیں) تا قول باری ولوشاء اللہ لاعنتکم۔ اگر اللہ چاہتا تو لئے تنگی پیدا کردیتا) یعنی اگر اللہ چاہتا تو تمہیں حرج اور تنگی میں ڈال دیتا لیکن اس نے تمہارے لئے وسعت اور آسانی پیدا کردی۔ اس لئے فرمایا ومن کان غنیاً فلیستعفف ومن کان فقیراً فلیاکل بالمعروف۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو فقیر ہو وہ معروف طریقے سے کھائے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔- آپ نے فرمایا ابتغواب اموال الیتامی لاتاکلھا الصدقۃ، یتیموں کے مال میں خرید و فروخت کرو یعنی تجارت میں لگائو انہیں اس طرح پڑا نہ رہنے دو کہ زکواۃ انہیں کھاجائے یعنی زکواۃ ادا کرتے کرتے ان کا مال ختم ہوجائے۔ حضرت عمر (رض) سے یہ روایت موقوفاً بھی مروی ہے ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عائشہ (رض) حضرت ابن عمر (رض) ، قاضی شریح اور تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ یتیم کا مال مضاربت اور تجارت کے لئے دیا جاسکتا ہے یہ آیت بہت سے احکام پر مشتمل ہے۔ قول باری قل اصلاح لھم خیر۔ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ یتیم کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا لینا اور اس میں خرید و فروخت کے ذریعے تصرف کرنا بشرطیکہ اس میں یتیم کا فائدہ ہو۔ مضاربت کے طور پر کسی دوسرے کے حوالے کردینا اور یتیم کے سرپرست کا خود مضاربت کرنا سب جائز ہے۔ آیت میں اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ پیش آنے والے نئے واقعات کے احکام کے متعلق اجتہاد کرنا جائز ہے۔ اس لئے کہ آیت میں جس اصلاح یعنی بھلائی کے طرز عمل کا ذکر ہے وہ صرف اجتہاد اور غالب گمان کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ یتیم کا سرپرست یتیم کے مال میں سے اپنے لئے خرید سکتا ہے بشرطیکہ اس میں یتیم کی بہتری مقصود ہو۔ وہ اس طرح کہ یتیم کو جو کچھ ہاتھ آئے اس کی قیمت اس سے زیادہ ہو جو اس کی ملکیت سے نکل جائے۔ یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے نیز سرپرست اپنے مال میں سے یتیم کے ہاتھوں فروخت بھی کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اس میں بھی اس کی بھلائی پیش نظر ہوتی ہے۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو کہ سرپرست کو اگر اس میں بھلائی نظر آئے تو وہ یتیم کا نکاح بھی کرا سکتا ہے۔ نزدیک یہ صورت اس وقت درست ہے جبکہ ولی اور یتیم کے درمیان قرابت داری نہیں کرا سکتا جس کے ساتھ یتیم کی رشتہ داری نہ ہو اس لئے کہ نفس وصیت سے حاصل نہیں ہوتی لیکن ظاہر آیت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ قاضی لاح اور بھلائی کو پیش نظر رکھتے ہیں وہ اس کا نکاح کرا دے اور ولی اسے ایسی تعلیم دلوائے جس میں دینی لحاظ سے اور سے بھی آراستہ کرے اس کے لئے گنجائش صنعت و تجارت کی تعلیم کی خاطر اسے اس کی بھلائی پیش نظر ہوتی ہے۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص کی سرپرستی میں اس کا کوئی یتیم رشتہ دار پرورش پا رہا ہو تو اسے اس بات کی اجازت ہے کہ صنعت و حرفت کی تعلیم کی غرض سے اسے کسی کے پاس بٹھا دے، امام محمد کا قول ہے کہ اسے اجازت ہے کہ اس پر اس کے مال سے خرچ کرے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر یتیم کو ہبہ کے طور پر کوئی مال دیا جائے تو اس کا سرپرست اس مال کو اپنے قبضے میں لے لے اس لئے کہ اسی میں یتیم کی بہتری ہے غرض ظاہر آیت ان تمام صورتوں کے جواز کا تقاضا کرتا ہے۔ قول باری ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیر۔ میں مراد یہ ہے کہ ویسئلونک القوام علی الایتام الکافلین لھم۔ (آپ سے یتیموں کے سرپرستوں کے متعلق پوچھتے ہیں جو ان کی کفالت کریں) اس میں یتیم کا ہر محرم رشتہ دار داخل ہے۔ اس لئے کہ وہی یتیم کو سنبھال سکتا ہے۔ اس کی حفاظت نگہداشت اور پرورش کرسکتا ہے اور قول باری قل اصلاح لھم خیر میں اصلاح کی خاطر وہ تمام صورتیں آجاتی ہیں جن کا ذکر ہم پچھلی سطور میں کر آئے ہیں جن میں یتیم کے مال میں تصرف اس کا نکاح، اس کی تعلیم اور تادیب سب شامل ہیں۔ قول باری خیر کئی معانی پر دلالت کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ یتیموں پر ان طریقوں سے تصرف کی اباحت جو ہم ذکر کر آئے ہیں۔ دوم یہ کہ یتیم کی سرپرستی حصول ثواب کا ذریعہ ہے کیونکہ خیر کہا ہے اور جو چیز خیر ہوتی ہے اس کے کرنے سے ثواب کا استحقاق ہوجاتا ہے ۔ سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے واجب نہیں کیا بلکہ اس پر ثواب کا وعدہ دلالت کرتا ہے یتیم کے ولی پر تجارت وغیرہ کے ذریعے اس کے مال میں تصرف نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کی شادی کرانے پر مجبور ہے۔ اس لئے کہ ظاہر لفظ ہے کہ اس سے مراد ترغیب اور ارشاد ہے۔ قول باری وان تغالطوھم فاخوانکم۔ میں اس بات کی اباحت ہے کہ ولی ساتھ یتیم کے مال کو ملا سکتا ہے، اس میں تجارت وغیرہ کے ذریعے تصرف بھی کرسکتا یہ بھی اجازت ہے کہ ولی نکاح وغیرہ کے ذریعے یتیم کو اپنے خاندان میں داخل کرسکتا اسے اپنا واماد بنالے یا یتیم لڑکی کو اپنی بہو بنالے وغیرہ۔ اس طریقے سے وہ یتیم شامل کرے گا اور خود بھی اس کے خاندان میں شامل ہوجائے گا۔ قول باری وان تخالطوھم۔ میں اپنے مال کے ساتھ یتیم کے مال کو ملا لینے اس کرنے کی اباحت اور اپنی اولاد میں سے کسی کے ساتھ اس کا نکاح پڑھانے کا جواز ہے۔ اسی طرح اگر وہ اس کا نکاح کسی ایسے فرد کے ساتھ پڑھا دے جو اس کے زیر کفالت ہو اس کا بھی اس آیت سے جواز معلوم ہوتا ہے۔ اس طریقے سے آیت پر عمل ہوگا اور اس کے ساتھ یتیم کی مخالفت ہوجائے گی۔ اس بات کی دلیل کہ مخالطت کا لفظ ان تمام صورتوں کو شامل ہے اگر کوئی کسی کا شریک یعنی حصہ دار ہو تو اس وقت یہ کہا جاتا ہے۔” خلان خلیط فلان “ اسی طرح یہ فقرہ اس وقت بھی بولا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ لین دینی یا خرید و فروخت کرتا ہو یا ایک ساتھ اٹھنا، بیٹھنا اور کھانا پینا ہو اگرچہ وہ اس کا شریک نہ بھی ہو۔ اسی طرح اگر کوئی کسی کے ساتھ شادی بیاہ کے ذریعے رشتہ داری کرے تو اس وقت یہ کہا جاتا ہے ” قداختلط فلان بفلان “ (فلاں فلاں کے ساتھ مل گیا ہے) یہ تمام معانی لفظ خلطۃ سے ماخود ہیں جس کا معنی ہے۔ حقوق میں کسی تمیز کے بغیر اشتراک۔ اس مخالطت کی صحت کے لئے اصلاح کی شرط ہے جو آیت میں دو طریقوں سے بیان ہوئی ہے۔ اول یہ کہ لوگوں کے سوال کے جواب میں یتیموں کا معاملہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کے ذکر کو مقدم کیا ہے دوم یہ کہ مخالطت کے ذکر کے فوراً بعد یہ ارشاد فرمایا واللہ یعلم المفسدین من المصلح، اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فساد کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون) ۔- اوپر کے بیان سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت اس امر کے جواز پر مشتمل ہے کہ ولی اپنے مال کے ساتھ یتیم کے مال کی وہ مقدار ملا سکتا ہے جس کے متعلق اسے غالب گمان ہو کہیتیم کو اپنے ساتھ رکھنے کی صورت میں مال کی یہ مقدار یتیم پر خرچ ہوجائے گی جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ اسی طرح آیت کی دلالت مناھدہ کے جواز پر بھی ہو رہی ہے جو عام طور پر لوگ سفر کے دوران کرتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک ساتھ سفر کرنے والے اپنے اپنے اخراجات کا ایک متعین حصہ نکال کر اکٹھا کر کے ملا لیتے ہیں اور پھر اسے سے سب کا خرچ چلاتے ہیں۔ اس میں بعض لوگ بعض کے مقابلہ میں بسیار خور ہوتے ہیں اور بعض کم خور لیکن جب اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال میں اس صورت کو جائز کردیا ہے تو پھر یہ صورت ان بالغوں کے مال میں جو بطیب خاطر اپنا اپنا مال ملا لیتے ہیں بطریق اولی جائز ہونی چاہیے۔- مناھدہ کے جواز کے لئے اصحاب کہف کے واقعہ میں نظیر موجود ہے۔ ارشاد باری ہے فابعثوا احدکم بودقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظوایھا اذ کی طعاماً ، اپنے میں سے کسی کو یہ چاندی کا سکہ دے کر شہر بھیجو پھر وہ وہاں جا کر دیکھے کہ اچھا کھانا کہاں ملتا ہے) آیت میں مذکورہ چاندی کا سکہ سب کا تھا اس لئے کہ قول باری ہے بورقکم۔ اس سکے کی نسبت پوری جماعت کی طرف کی گئی ہے اور پھر اس سے کھانے کی چیز خرید کر لانے کو کہا گیا ہے تاکہ سب مل کر اسے کھائیں۔ قول باری وان تخالطوھم فاخوانکم مشارکت اور مخالطت کے جواز پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح کی جو کوشش کر رہا ہے اس میں وہ ثواب کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس لئے کہ قول باری فاخوانکم اس پر دلالت کر رہا ہے کیونکہ بھائی کی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں ہو کر اس کی مدد کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ قول باری ہے انما المومنون اخوۃ فاصلحوابین اخویکم، تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لئے تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو ) اسی طرح قول رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے ۔ واللہ فی عون العبد مادام العبدفی عون اخیہ۔ جب تک ایک شخص اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد میں لگا رہتا ہے) ۔ اس بنا پر قول باری فاخوانکم اس نیکی کی طرف ترغیب اور ارشاد پر دلالت کر رہا ہے نیز اس سلسلے میں جتنا کچھ کیا جائے اس پر ثواب کے استحقاق پر بھی دلالت ہو رہی ہے۔ قول باری ہے ولوشاء اللہ لاعنتکم۔ اور اگر اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا) اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں اس حکم کا مکلف بنانے کے سلسلے میں تمہارے لئے تنگی پیدا کردیتا اور تمہیں وہ یتیموں کو اپنے ساتھ شامل کرلینے اور ان کے مال میں تصرف کرنے سے تمہیں روک دیتا اور تمہیں اپنے مال کو ان کے مال سے جدا رکھنے کا حکم دے دیتا یا یہ کہ تم پر ان کے مال میں تصرف واجب کردیتا اور ان کا مال تجارت میں لگا کر ان کے لئے نفع حاصل کرنا ضروری قرار دے دیتا لیکن اللہ تعالیٰ نے وسعت پیدا کردی اور آسانی مہیا کردی نیز تمہیں اصلاح کی خاطر ان کے مال میں تصرف کی اجازت دے دی اور پھر اس پر تمام سے ثواب کا بھی وعدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ تمام واجب نہیں کیں کہ پھر تم ان کی وجہ سے تنگ ہوتے، اللہ تعالیٰ نے یہ اس لئے کیا کہ تمہیں اپنی نعمتیں یاد دلائے، بندوں کے لئے آسانی اور وسعت کا اعلان کرے اور یہ بتادے کہ وہ ہمیشہ اپنے بندوں کی بھلائی چاہتا ہے۔ قول باری فاخوانکم۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے بھی احکام کے لحاظ سے مومن ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ نے انہیں ” تمہارے بھائی “ کہہ کر پکارا ہے نیز اللہ کا یہ بھی فرمان ہے انما المومنون اخوۃ۔ واللہ اعلم
(٢٢٠) حضرت عبداللہ بن زوار (رض) نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یتیموں کے ساتھ کھانے پینے اور رہائش کے بارے میں پوچھا تھا کہ یہ چیز ہے یا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یتیموں کے ساتھ کھانے پینے اور رہائش میں میل جول رکھنے کے متعلق دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیجیے کہ ان کے مال کی اصلاح ان کے ساتھ اختلاط کے ترک کرنے سے بہتر ہے۔- اور اگر تم کھانے پینے اور رہایش میں ان سے کے ساتھ میل جول رکھنا چاہتے ہو سو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، لہٰذا ان کے حقوق کی حفاظت کرو اور اللہ تعالیٰ یتیموں کے اموال میں مصلحت کے ضائع کرنے والے اور باقی رکھنے والے کو علیحدہ علیحدہ جانتے ہیں۔- اور اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو تمہارے لیے اس میل جول کو حرام کردیں اور جو شخص یتیم کا مال ضائع کرے وہ اس سے انتقام لینے پر قادر ہیں اور یتیم کا مال ضائع کرے وہ اس سے انتقام لینے پر قادر ہیں اور یتیم کے مال کی اصلاح کے بارے میں فیصلہ فرمانے والے ہیں۔- شان نزول : ویسئلونک عن الیتمی (الخ)- امام ابو داؤد (رح) ونسائی (رح) اور امام حاکم (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جس وقت (آیت) ” ولا تقربومال الیتیم “۔ اور (آیت) ” ان الذین یاکلون اموال الیتمی “۔ یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ چناچہ جس کے زیر پرورش کوئی یتیم تھا اس نے یتیم کا کھانا اپنے کھانے سے اور اس کا پینا اپنے پینے سے الگ کردیا اور اپنے کھانے سے زیادہ یتیم کے لیے کھانے کی چیز رکھنا شروع کردی، جب تک کہ وہ اس کو کھا لیتا یا ضائع کردیتا، مگر یہ چیز صحابہ کرام (رض) کے لیے مشقت کا باعث ہوئی، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس چیز کو بیان کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری۔
آیت ٢٢٠ (فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط۔ - تمہارا یہ غور و فکر دنیا کے بارے میں بھی ہونا چاہیے اور آخرت کے بارے میں بھی۔ دنیا میں بھی اسلام رہبانیت نہیں سکھاتا۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ نہ کھاؤ ‘ نہ پیو ‘ چلے کشی کرو ‘ جنگلوں میں نکل جاؤ نہیں ‘ اسلام تو متمدن زندگی کی تعلیم دیتا ہے ‘ گھر گھرہستی اور شادی بیاہ کی ترغیب دیتا ہے ‘ بیوی بچوں کے حقوق بتاتا ہے اور ان کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمہیں آخرت کی بھی فکر کرنی چاہیے ‘ اور دنیا و آخرت کے معاملات میں ایک نسبت و تناسب ( ) قائم رہنا چاہیے۔ دنیا کی کتنی قدر و قیمت ہے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی کتنی قدر و قیمت ہے ‘ اس کا صحیح طور پر اندازہ کرنا چاہیے۔ اگر یہ اندازہ غلط ہوگیا اور کوئی غلط تناسب قائم کرلیا گیا تو ہرچیز تلپٹ ہوجائے گی۔ مثال کے طور پر ایک دوا کے نسخے میں کوئی چیز کم تھی ‘ کوئی زیادہ تھی۔ اگر آپ نے جو چیز کم تھی اسے زیادہ کردیا اور جو زیادہ تھی اسے کم کردیا تو اب ہوسکتا ہے یہ نسخۂ شفا نہ رہے ‘ نسخہ ہلاکت بن جائے۔- (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی ط) (قُلْ اِصْلاَحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ ط) - ان کی مصلحت کو پیش نظر رکھنا بہتر ہے ‘ نیکی ہے ‘ بھلائی ہے۔ اصل میں لوگوں کے سامنے سورة بنی اسرائیل کی یہ آیت تھی : (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ الاَّ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) (آیت ٣٤) اور مال یتیم کے قریب تک نہ پھٹکو ‘ مگر ایسے طریقے پر جو (یتیم کے حق میں) بہتر ہو۔ چناچہ وہ مال یتیم کے بارے میں انتہائی احتیاط کر رہے تھے اور انہوں نے یتامٰی کی ہنڈیاں بھی علیحدہ کردی تھیں کہ مبادا ان کے حصے کی کوئی بوٹی ہمارے پیٹ میں چلی جائے۔ لیکن اس طرح یتامٰیکی دیکھ بھال کرنے والے لوگ تکلیف اور حرج میں مبتلا ہوگئے تھے۔ کسی کے گھر میں یتیم پرورش پا رہا ہے تو اس کا خرچ الگ طور پر اس کے مال میں سے نکالا جا رہا ہے اور اس کے لیے الگ ہنڈیا پکائی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ اس حکم سے یہ مقصد نہیں تھا ‘ مقصد یہ تھا کہ تم کہیں ان کے مال ہڑپ نہ کر جاؤ ‘ ان کے لیے اصلاح اور بھلائی کا معاملہ کرنا بہتر طرزعمل ہے۔- (وَاِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ ط) (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ط) ۔ - وہ جانتا ہے کہ کون بدنیتی سے یتیم کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہے اور کون یتیم کی خیر خواہی چاہتا ہے۔ یہ ہنڈیا علیحدہ کر کے بھی گڑبڑ کرسکتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو ہنڈیا مشترک کر کے بھی حق پر رہ سکتا ہے۔- (وَلَوْ شَاء اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ ط) ۔ - لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں مشقت اور سختی سے بچایا اور تم پر آسانی فرمائی۔- (اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )- وہ انتہائی مشقت پر مبنی سخت سے سخت حکم بھی دے سکتا ہے ‘ اس لیے کہ وہ زبردست ہے ‘ لیکن وہ انسانوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا ‘ بلکہ اس کے ہر حکم کے اندر حکمت ہوتی ہے۔ اور جہاں حکمت نرمی کی متقاضی ہوتی ہے وہاں وہ رعایت دیتا ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :236 اس آیت کے نزول سے پہلے قرآن میں یتیموں کے حقوق کے حفاظت کے متعلق بار بار سخت احکام آچکے تھے اور یہاں تک فرما دیا گیا تھا کہ ”یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو“ ۔ اور یہ کہ ” جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں ، وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں ۔ “ ان شدید احکام کی بنا پر وہ لوگ ، جن کی تربیت میں یتیم بچے تھے ، اس قدر خوف زدہ ہوگئے تھے کہ انہوں نے ان کا کھانا پینا تک اپنے سے الگ کر دیا تھا اور اس احتیاط پر بھی انہیں ڈر تھا کہ کہیں یتیموں کے مال کا کوئی حصہ ان کے مال میں نہ مل جائے ۔ اسی لیے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ان بچوں کے ساتھ ہمارے معاملے کی صحیح صورت کیا ہے ۔
144: جب قرآنِ کریم نے یتیموں کا مال کھانے پر سخت وعید سنائی (سورہ نسا ۴: ۱۔ ۲) تو بعض صحابہ جن کی سرپرستی میں کچھ یتیم تھے، اتنی احتیاط کرنے لگے کہ ان کا کھانا الگ پکواتے اور انہیں الگ ہی کھلاتے، یہاں تک کہ اگر ان کا کچھ کھانا بچ جاتا تو سڑ جاتا تھا، اس میں تکلیف بھی تھی اور نقصان بھی۔ اس آیت نے واضح کردیا کہ اصل مقصد یہ ہے کہ یتیموں کی مصلحت کا پورا خیال رکھا جائے، سرپرستوں کو مشکل میں ڈالنا مقصد نہیں ہے۔ لہٰذا ان کا کھانا ساتھ پکانے اور ساتھ کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ معقولیت اور انصاف کے ساتھ ان کے مال سے ان کے کھانے کا خرچ وصول کیا جائے۔ پھر اگر غیر ارادی طور پر کچھ کمی بیشی ہو بھی جائے تو معاف ہے۔ ہاں جان بوجھ کر ان کو نقصان نہ پہنچایا جائے، رہی یہ بات کہ کون انصاف اور اصلاح سے کام لے رہا ہے اور کس کی نیت خراب ہے، اسے اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔