حرمت شراب کیوں؟ جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورۃ بقرہ کی یہ آیت ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ) 2 ۔ البقرۃ:219 ) نازل ہوئی حضرت عمر کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن حضرت عمر نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لئے اور زیادہ صاف بیان فرما اس پر سورۃ نساء کی آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ) 4 ۔ النسآء:43 ) نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں حضرت عمر کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لئے اس کا بیان اور واضح کر اس پر سورۃ مائدہ کی آیت ( انما الخمر ۔ الخ ) اتری جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ ( فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:91 ) پڑے تو آپ بول اٹھے انتہینا انتہینا ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد ، ترمذی اور نسائی وغیرہ ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابو میسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے ، ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں واللہ اعلم ۔ امام علی بن مدینی فرماتے ہیں اس کی اسنا صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں حضرت عمر کے ( انتہینا انتہینا ) کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی حضرت ابو ہریرہ والی اور روایتیں سورۃ مائدہ کی آیت ( انما الخمر ) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورۃ مائدہ میں ہی آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، میسر کہتے ہیں جوے بازی کو گناہ اس ان کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہو جائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ حسان بن ثابت کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں ، اسی طرح اس کی خرید وفروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہو جائے ۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہو جائے ، لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا ، ہوش و حواس کا بیکار ہونا ضروری ہے ، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے ، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لئے حضرت عمر کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو ، چنانچہ آخرکار سورۃ مائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں ، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آجاؤ ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت وبغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے؟ اس کا پورا بیان انشاء اللہ سورۃ مائدہ میں آئے گا ، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی ، پھر سورۃ نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورۃ مائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہو گئی ۔ عفو اور اس کی وضاحتیں ( فل العفو ) کی ایک قرأت قل العفوُ بھی ہے اور دونوں قرأت یں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہو سکتے ہیں اور بندھی بیٹھ سکتے ہیں ، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مال دار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں؟ جس کے جواب میں آیت ( قل العفو ) کہا گیا یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے ، بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے ، حضرت طاؤس کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ بھی دیتے رہا کرو ، ربیع کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو ، سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو ، حضرت حسن فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لئے بیٹھ جاؤ ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا حضور میرے پاس ایک دینار ہے آپ نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ ، کہا میرے پاس ایک اور ہے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو کہا حضرت ایک اور ہے فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ کہا ایک اور بھی ہے فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی کر سکتا ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھر تو اپنے بال بچوں پر پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر پھر تو اور اور حاجت مندوں پر ، اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے ایک اور حدیث میں ہے اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لئے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لئے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں ابن عباس کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہو گیا ، حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے ، ٹھیک قول یہی ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے ، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تا کہ تم دنیائے فانی کی طرف بےرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہو جاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ جو غور وتدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے ۔ یتیم کا مال اور ہماری ذمہ داری ۔ پھر یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ آیت ( وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ) 6 ۔ الانعام:152 ) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو اور فرمایا گیا تھا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا ) 4 ۔ النسآء:10 ) ۔ یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گے تو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کر دیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہو جائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا دوسری جانب والیاں یتیم بھی تنگ آگئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی جس پر یہ آیت ( قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:220 ) نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی ، ابو داود ونسائی وغیرہ میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس کا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے ، حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لئے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہئے ، قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تمہیں تکلیف ومشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کر دی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لئے مباح قرار دیا ، بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لا سکتا ہے ، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے ، یہ مسائل انشاء اللہ وضاحت کے ساتھ سورۃ نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے ۔
219۔ 1 یہ گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔ 219۔ 2 فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی اور مستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے جنسی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے اس طرح اس کی خریدو فروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے لیکن یہ فائدے ان نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام تو قرار نہیں دیا گیا تاہم اس کے لیے تمہبند باندھ دی گئی ہے اس آیت سے ایک بہت اہم نقطہ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز چاہے وہ کتنی ہی بری ہو کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ اور لوگ بعض فوائد بیان کر کے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے اگر دینی نقطہ نظر سے نقصانات ومفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیاوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ 219۔ 3 اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا جس پر فریضہ زکاۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا تاہم افضل ضرور ہے (فتح القدیر) جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے۔ اسلام نے یقینا انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیر کفالت افراد کی خبر گیری اور ان کی ضرویات کو مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے دوسرے اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہم خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑجائے۔
[٢٩٠] یہ شراب کے متعلق ابتدائی حکم ہے۔ جس میں صرف شراب سے نفرت دلانا مقصود تھا اس کے بعد دوسرے حکم میں یہ بتلایا گیا کہ نشہ کی حالت میں نماز ادا کرنا منع ہے۔ پھر تیسری بار آخری حکم سورة مائدہ کی آیت نمبر ٩٠ میں ہے۔ جس میں شراب، جوا اور اس قبیل کی دوسری چیزوں کو قطعی طور پر حرام کیا گیا ہے کہ اگرچہ شراب کے پینے سے وقتی طور پر کچھ سرور حاصل ہوجاتا ہے۔ تاہم اس کے اور جوا کے نقصانات اس کے فائدہ سے بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً شراب پینے سے انسان کی عقل مخمور ہوجاتی ہے اور یہی خرابی کئی طرح کے فتنہ و فساد کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی طرح جوئے میں مفت مال ملنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے مگر یہی چیزیں بعد میں کئی مفاسد، جھگڑوں اور دشمنیوں کا سبب بن جاتی ہے، لہذا ان سے بچنا ہی بہتر ہے۔- [٢٩١] یعنی ضرورت سے زائد سارا مال خرچ کردینا (نفلی صداقت کی آخری حد ہے۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ انسان سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اور بعد میں خود محتاج ہوجائے چناچہ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے اور ابتدا ان لوگوں سے کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب لا صدقہ الا عن ظھر غنی) - حضرت ابو سعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سفر کے دوران فرمایا۔ جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اسے دے دے، جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد زاد راہ ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔ غرض یہ کہ آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا ایسے ہی جدا جدا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ اپنے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ (مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافہ ونحوھا نیز باب استحباب المواسات بفضول المال) - اور صدقہ کی کم ازکم حد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے بالفاظ دیگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایسے لوگوں سے جہاد کیا تھا اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔- اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے العفو کے مفہوم کو سخت غلط معنی پہنائے ہیں۔ حالانکہ آیت سے صاف واضح ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے اموال کے مالک تھے اور اپنی مرضی سے ہی ان اموال میں تصرف کی قدرت رکھتے تھے۔ لہذا جو نظریہ اس آیت سے کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ آیت اس کی قطعاً متحمل نہیں۔ اشتراکی نظریہ کے مطابق ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اور اشتراکی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تو وہ پس انداز کیا کرے گا اور خرچ کیا کرے گا اور انفاق کے متعلق سوال کیا پوچھے گا ؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہی آیت اس نظریہ کی تردید پر بڑی واضح دلیل ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق سائلین نے سوال اس وقت کیا تھا۔ جب جہاد کے لیے مصارف کی شدید ضرورت تھی، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں سے ان کے سب زائد اموال چھین لیے جائیں بلکہ مسلمانوں کی تربیت ہی اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اگر سارے کا سارا زائد مال دے دیں تو یہ سب سے بہتر اور مسلمانوں کے اللہ پر توکل کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن جو مسلمان اپنا سارا زائد مال نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے ان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور اشتراکی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ جو حالات جنگ تو درکنار عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کردیتا ہے۔- ایسے انفاق فی سبیل اللہ کی واضح مثال جنگ تبوک کے موقعہ پر سامنے آتی ہے۔ حضرت عثمان (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے زیادہ سے زیادہ مال دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عمر (رض) اس وقت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی نسبت مالدار تھے۔ دل میں خیال آیا کہ آج اپنے تمام تر اثاثہ کا نصف حصہ خرچ کر کے حضرت ابوبکر صدیق (رض) پر سبقت لے جائیں گے۔ چناچہ جب اپنا مال لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا عمر کیا کچھ لائے ؟ عرض کیا کہ اپنے تمام اموال کا نصف حصہ بانٹ کرلے آیا ہوں۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) تھوڑا سا مال لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے بھی وہی سوال کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کیا کچھ لائے ؟ عرض کیا سب کچھ ہی لے آیا ہوں۔ گھر میں بس اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی باقی ہے۔ یہ جواب سن کر عمر (رض) کو یقین ہوگیا کہ کثرت مال کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے سبقت نہیں لے جاسکتے۔- (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ۔ باب الرجل یخرج من مالہ) - یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا سارے کا سارا مال قبول فرما لیا۔ حالانکہ آپ کا ارشاد ہے کہ صدقہ وہ بہتر ہے جس کے بعد آدمی خود محتاج نہ بن جائے۔ - (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب لاَصَدَقَۃَ الاَّ عَنْ ظَھْرِ غِنًی) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا اللہ پر توکل بےمثال تھا جسے آپ پوری طرح سمجھتے تھے۔- اب اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اسی موقع پر ایک شخص ایک انڈا بھر سونا لایا اور کہنے لگا، مجھے یہ کان سے ملا ہے اور یہ صدقہ ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں، آپ نے اس سے اعراض کیا تو اس شخص نے دائیں ہو کر یہی بات دہرائی تو بھی آپ نے اعراض کیا، پھر بائیں طرف، پھر پیچھے ہو کر یہی بات دہراتا رہا۔ آخر آپ نے وہ سونا پکڑا پھر اسے ہی دے دیا اور فرمایا۔ یہ تمہارے لیے ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے ایک شخض آ کر کہتا ہے کہ یہ صدقہ ہے پھر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگتا ہے اس موقعہ پر بھی آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرجل یخرج من مالہ) اس شخص کا صدقہ قبول نہ کرنے کی وجہ بھی اس حدیث میں مذکور ہے۔ یہ سب واقعات سامنے رکھ کر بتلایئے کہ کیا قل العفو سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے ؟- [٢٩٢] یعنی تمہاری دنیوی ضروریات حقیقتاً کیا ہیں ؟ اور آخرت میں صدقہ کا جو اجر عظیم تمہیں ملے گا۔ ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھ کر تمہیں سوچنا چاہیے۔
الْخَــمْرِ : شراب، اس کی تفسیر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی۔ عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ وَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ ) [ مسلم، الأشربۃ، باب بیان أن کل مسکر۔۔ : ٧٤؍٢٠٠٣ ] ” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے۔ “ بعض لوگوں نے صرف انگور کی شراب کو ” خمر “ قرار دے کر باقی سب کے دوسرے نام رکھ کر انھیں حلال کرلیا۔ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث کے عین مصداق ہیں کہ میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو عورتوں کی شرم گاہوں کو اور ریشم اور خمر (شراب) کو اور باجوں کو حلال کرلیں گے۔ [ بخاری، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر ۔۔ : ٥٥٩٠، عن أبی مالک الأشعری ] ابو مالک اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری امت کے کچھ لوگ خمر (شراب) پییں گے اور اس کا نام کچھ اور رکھ لیں گے۔ “ [ أبو داوٗد، الأشربۃ، باب فی الدّاذیّ : ٣٦٨٨ ]- وَالْمَيْسِرِ : جوا، یہ ” یُسْرٌ“ بمعنی سہولت سے ہے، کیونکہ جوئے میں بغیر مشقت کے دوسرے کا مال آسانی سے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ آج کل پانسے، لاٹری، بیمے اور سٹے وغیرہ کے نام سے جو کاروبار ہورہا ہے سب جوئے کی صورتیں ہیں، حتیٰ کہ اخروٹوں کے ساتھ کھیل میں شرط ہو تو وہ بھی جوا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے سورة مائدہ کی آیت (٣) اور (٩٠) کے فوائد دیکھ لیں۔- وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا : اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے کچھ فوائد بتلائے، مگر ساتھ ہی فرمایا کہ کچھ فوائد کے ساتھ ان میں بہت بڑا گناہ ہے، پھر مقابلہ نفع اور نقصان کا نہیں کیا کہ ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں، بلکہ فرمایا ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی چیز دنیا میں کتنی بھی نفع بخش کیوں نہ ہو، اگر اس میں گناہ ہے تو مومن کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس آیت میں شراب اور جوئے کی حرمت کی طرف اشارہ موجود ہے، کیونکہ ان میں ” اِثْمٌ“ بتایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ” اِثْمٌ كَبِيْرٌ“ کو حرام قرار دیا ہے۔ ( دیکھیے الاعراف : ٣٣) اس سے فوٹو کے فوائد اور گناہ کا، گھر میں ٹیوی، وی سی آر وغیرہ رکھنے کے فوائد اور گناہ کا اور کفار کے ملکوں میں جا کر رہنے کے فوائد اور گناہ کا مقابلہ بھی کرلینا چاہیے۔ - قُلِ الْعَفْوَ ” الْعَفْوَ “ کا معنی صاحب قاموس نے کیا ہے۔ ” خِیَار الشَّیْءِ وَ اَجْوَدُہٗ “ یعنی کسی چیز کا بہترین اور عمدہ ترین حصہ۔ طبری نے بھی کئی مفسرین سے یہ معنی نقل فرمایا ہے۔ اس صورت میں یہ آیت سورة آل عمران کی آیت (٩٢) اور سورة بقرہ کی آیت (٢٦٧) کی ہم معنی ہے، یعنی اپنی بہترین اور محبوب ترین چیز خرچ کرو۔ ترجمہ اسی معنی کے مطابق کیا گیا ہے۔ - دوسرا معنی ہے ” زائد چیز “ اگرچہ زائد کا معنی بھی یہ ہوسکتا ہے کہ جو عمدگی میں بڑھیا ہو، مگر بہت سے علماء نے اس کا معنی اپنی اور گھر کی ضرورتوں سے زائد چیز کیا ہے۔ چناچہ ہمارے شیخ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں ” الْعَفْوَ “ سے مراد وہ مال ہے جو اہل و عیال اور لازمی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد بچ رہے اور جس کے خرچ کرنے کے بعد انسان خود اتنا محتاج نہ ہوجائے کہ دوسروں سے سوال کرنے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بہتر صدقہ وہ ہے جو خوش حالی کے ساتھ ہو اور تم پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔ “ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب لا صدقۃ ۔۔ : ١٤٢٦، عن أبی ہریرۃ (رض) ] یہ حکم زکوٰۃ کے علاوہ نفلی صدقے کا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔ (اشر ف الحواشی) دونوں معنی مراد لینے میں بھی کوئی چیز مانع نہیں۔ بعض مسلمان کہلانے والے کمیونسٹوں نے اس آیت سے ضرورت سے زائد چیزوں کی ذاتی ملکیت کے انکار پر استدلال کیا ہے، حالانکہ اس کے معنی اوّل تو یہ ہیں کہ اپنی بہترین چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اس سے اشتراکی نظریے کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ اگر زائد خرچ کرنے کے معنی مراد لیے جائیں تو وہ بھی اگر لوگوں کی ملکیت میں کچھ ہوگا تو خرچ کریں گے اور یہ اختیار بھی ان کے پاس ہوگا کہ وہ کس چیز کو ضرورت سے زائد سمجھتے ہیں۔ اگر ملکیت ہی حکومت کی ہے تو لوگ کیا خرچ کریں گے۔ جبراً سب کچھ چھین لینے کو قرآن کا منشا قرار دینا، لوگوں کی طرح قرآن پر بھی جبر ہے۔
خلاصہ تفسیر :- پندرہواں حکم متعلقہ شراب وقمار :- لوگ آپ سے شراب اور قمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں (چیزوں کے استعمال) میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی (پیدا ہوجاتی) ہیں اور لوگوں کو (بعضے) فائدے بھی ہیں اور (وہ) گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں (اس لئے دونوں قابل ترک ہیں) - معارف و مسائل : - صحابہ کرام (رض) اجمعین کے سوالات اور ان کے جوابات کا جو سلسلہ اس سورت میں بیان ہو رہا ہے، اس میں یہ آیت بھی ہے اس میں شراب اور جوُئے کے متعلق صحابہ کرام (رض) اجمعین کا سوال اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہے، یہ دونوں مسئلے نہایت اہم ہیں اس لئے کسی قدر تفصیل کے ساتھ ان کی پوری حقیقت اور احکام سنئے۔- حرُمت شراب اور اس کے متعلقہ احکام :- ابتداء اسلام میں عام رسوم جاہلیت کی طرح شراب خوری بھی عام تھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ میں بھی شراب اور قمار یعنی جوا کھیلنے کا رواج تھا عام لوگ تو ان دونوں چیزوں کے صرف ظاہری فوائد کو دیکھ کر ان پر فریفتہ تھے ان کے اندر جو بہت سے مفاسد اور خرابیاں ہیں ان کی طرف نظر نہیں تھی لیکن عادۃ اللہ یہ بھی ہے کہ ہر قوم اور ہر خطہ میں کچھ عقل والے بھی ہوتے ہیں جو طبیعت پر عقل کو غالب رکھتے ہیں کوئی طبعی خواہش اگر عقل کے خلاف ہو تو وہ اس خواہش کے پاس نہیں جاتے اس معاملہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام تو بہت ہی بلند تھا کہ جو چیز کسی وقت حرام ہونے والی تھی آپ کی طبیعت اس سے پہلے ہی نفرت کرتی تھی صحابہ کرام (رض) اجمعین میں بھی کچھ ایسے حضرات تھے جنہوں نے حلال ہونے کے زمانے میں بھی کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد چند حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین کو ان کے مفاسد کا زیادہ احساس ہوا۔ حضرت فاروق اعظم اور معاذ بن جبل اور چند انصاری صحابہ کرام (رض) اجمعین اسی احساس کی بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شراب اور قمار انسان کی عقل کو بھی خراب کرتے ہیں اور مال بھی برباد کرتے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے اس سوال کے جواب میں آیت مذکورہ نازل ہوئی یہ پہلی آیت ہے جس میں شراب اور جوئے سے مسلمانوں کو روکنے کا ابتدائی قدم اٹھایا گیا۔- اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ شراب اور جوئے میں اگرچہ لوگوں کے کچھ ظاہری فوائد ضرور ہیں لیکن ان دونوں میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں پیدا ہوجاتی ہیں جو ان کے منافع اور فوائد سے بڑھی ہوئی ہیں اور گناہ کی باتوں سے وہ چیزیں مراد ہیں جو کسی گناہ کا سبب بن جائیں مثلاً شراب میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ عقل وہوش زائل ہوجاتا ہے جو تمام کمالات اور شرف انسانی کا اصل اصول ہے کیونکہ عقل ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسانوں کو برے کاموں سے روکتی ہے جب وہ نہ رہی تو ہر برے کام کے لئے راستہ ہموار ہوگیا۔- اس آیت میں صاف طور پر شراب کو حرام تو نہیں کہا گیا مگر اس کی خرابیاں اور مفاسد بیان کردیئے گئے کہ شراب کی وجہ سے انسان بہت سے گناہوں اور خرابیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے گویا اس کے ترک کرنے کے لئے ایک قسم کا مشورہ دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بعض صحابہ کرام (رض) اجمعین تو اس مشورہ ہی کو قبول کرکے اسی وقت شراب کو چھوڑ بیٹھے اور بعض نے یہ خیال کیا کہ اس آیت نے شراب کو حرام تو کیا نہیں بلکہ مفاسد دینی کا سبب بننے کی وجہ سے اس کو سبب گناہ قرار دیا ہے ہم اس کا اہتمام کریں گے کہ وہ مفاسد واقع نہ ہوں تو پھر شراب میں کوئی حرج نہیں اس لئے پیتے رہے یہاں تک کہ ایک روز یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے صحابہ کرام میں سے چند اپنے دوستوں کی دعوت کی، کھانے کے بعد حسب دستور شراب پی گئی اسی حال میں نماز مغرب کا وقت آگیا سب نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو ایک صاحب کو امامت کے لئے آگے بڑھایا انہوں نے نشہ کی حالت میں جو تلاوت شروع کی تو سورة قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ کو غلط پڑھا اس پر شراب سے روکنے کے لئے دوسرا قدم اٹھایا گیا اور یہ آیت نازل ہوئی يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى (٤٣: ٤) یعنی اے ایمان والو تم نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ ،- اس میں خاص اوقات نماز کے اندر شراب کو قطعی طور پر حرام کردیا گیا باقی اوقات میں اجازت رہی جن حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین نے پہلی آیت نازل ہونے کے وقت شراب کو نہ چھوڑا تھا اس آیت کے نازل ہونے کے وقت شراب کو مطلقاً ترک کردیا کہ جو چیز انسان کو نماز سے روکے اس میں کوئی خیر نہیں ہوسکتی جب نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت ہوگئی تو ایسی چیز کے پاس نہ جانا چاہئے جو انسان کو نماز سے محروم کردے مگر چونکہ علاوہ اوقات نماز کے شراب کی حرمت صاف طور پر اب بھی نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے کچھ حضرات اب بھی اوقات نماز کے علاوہ دوسرے اوقات میں پیتے رہے یہاں تک کہ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ عتبان بن مالک نے چند صحابہ کرام (رض) اجمعین کی دعوت کی جن میں سعد بن ابی وقاص بھی تھے کھانے کے بعد حسب دستور شراب کا دور چلا نشہ کی حالت میں عرب کی عام عادت کے مطابق شعر و شاعری اور اپنے اپنے مفاخر کا بیان شروع ہوا سعد بن ابی وقاص نے ایک قصیدہ پڑھا جس میں انصار مدینہ کی ہجو اور اپنی قوم کی مدح وثناء تھی اس پر ایک انصاری نوجوان کو غصہ آگیا اور اونٹ کے جبڑے کی ہڈی سعد کے سر پر دے ماری جس سے ان کو شدید زخم آگیا حضرت سعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس انصاری جوان کی شکایت کی اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعاء فرمائی۔ اللہم بین لنا فی الخمر بیاناً شافعاً یعنی یا اللہ شراب کے بارے میں ہمیں کوئی واضح بیان اور قانون عطاء فرمادے اس پر شراب کے متعلق تیسری آیت سورة مائدہ کی مفصل نازل ہوگئی جس میں شراب کو مطلقاً حرام قرار دے دیا گیا آیت یہ ہے :- يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ (٩١: ٥) یعنی اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت اور جوئے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو اس سے بالکل الگ الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے آپس میں بغض اور عدوات پیدا کردے اور اللہ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو کیا اب بھی باز آؤ گے۔- حرمت شراب کے تدریجی احکام :- احکام الہٰیہ کی اصلی اور حقیقی حکمتوں کو تو احکم الحاکمین ہی جانتا ہے مگر احکام شرعیہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلام نے احکام میں انسانی جذبات کی بڑی رعایت فرمائی ہے تاکہ انسان کو ان کے اتباع میں زیادہ تکلیف نہ ہو خود قرآن کریم میں فرمایا لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (٢٨٦: ٢) یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان کو ایسا حکم نہیں دیتا جو اس کی قدرت اور وسعت میں نہ ہو، اسی رحمت و حکمت کا تقاضا تھا کہ اسلام نے شراب کے حرام کرنے میں بڑی تدریج سے کام لیا۔- شراب کی تدریجی ممانعت اور حرمت کی قرآنی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں شراب کے متعلق چار آیتیں نازل ہوئی ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا ہے ان میں سے ایک آیت سورة بقرہ کی ہے جس کی تفسیر آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں اس میں شراب سے پیدا ہوجانے والے گناہوں اور مفاسد کا ذکر کرکے چھوڑ دیا گیا ہے حرام نہیں کیا گویا ایک مشورہ دیا کہ یہ چھوڑنے کی چیز ہے مگر چھوڑنے کا حکم نہیں دیا۔- دوسری آیت سورة نسآء کی لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى میں خاص اوقات نماز کے اندر شراب کو حرام کردیا گیا باقی اوقات میں اجازت رہی۔- تیسری اور چوتھی دو آیتیں سورة مائدہ کی ہیں جو اوپر مذکور ہوچکی ہیں ان میں صاف اور قطعی طور پر شراب کو حرام قرار دیدیا۔- شریعت اسلام نے شراب کے حرام کرنے میں اس تدریج سے اس لئے کام لیا کہ عمر بھر کی عادت خصوصاً نشہ کی عادت کو چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر انتہائی شاق اور گراں ہوتا، علماء نے فرمایا، فطام العادم اشد من فطام الرضاعۃ یعنی جیسے بچے کو ماں کا دودھ پینے کی عادت چھوڑ دینا بھاری معلوم ہوتا ہے انسان کو اپنی کسی عادت مستمرہ کو بدلنا اس سے زیادہ شدید اور سخت ہے اس لئے اسلام نے حکیمانہ اصول کے مطابق اول اس کی برائی ذہن نشین کرائی پھر نمازوں کے اوقات میں ممنوع کیا پھر ایک خاص مدت کے بعد قطعی طور پر حرام کردیا گیا۔- ہاں جس طرح ابتداً تحریم شراب میں آہستگی اور تدریج سے کام لینا حکمت کا تقاضا تھا اسی طرح حرام کردینے کے بعد اس کی ممانعت کے قانون کو پوری شدت کے ساتھ نافذ کرنا بھی حکمت ہی کا تقاضا تھا اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کے بارے میں اول سخت وعیدیں عذاب کی بتلائیں ارشاد فرمایا کہ یہ امّ الخبائث اور امّ الفواحش ہے اس کو پی کر آدمی برے سے برے گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہے۔- ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے یہ روایتیں نسائی میں ہیں اور جامع ترمذی میں حضرت انس کی روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کے بارے میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائی، نچوڑنے والا، بنانے والا، پینے والا، پلانے والا، اس کو لاد کر لانے والا، اور جس کے لئے لائی جائے، اور اس کا بیچنے والا، خریدنے والا، اس کو ہبہ کرنے والا، اس کی آمدنی کھانے والا، اور پھر صرف زبانی تعلیم و تبلیغ پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ عملی اور قانونی طور پر اعلان فرمایا کہ جس کے پاس کسی قسم کی شراب موجود ہو اس کو فلاں جگہ جمع کردے۔- صحابہ کرام (رض) اجمعین میں تعمیل حکم کا بیمثال جذبہ :- فرمانبردار صحابہ کرام نے پہلا حکم پاتے ہی اپنے اپنے گھروں میں جو شراب استعمال کیلئے رکھی تھی اس کو تو اسی وقت بہا دیا، حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منادی نے مدینہ کی گلیوں میں یہ آواز دی کہ شراب حرام کردی گئی ہے تو جس کے ہاتھ میں جو برتن شراب کا تھا اس کو وہیں پھینک دیا، جس کے پاس کوئی سبو یا خم شراب کا تھا اس کو گھر سے باہر لاکر توڑ دیا، حضرت انس اس وقت ایک مجلس میں دور جام کے ساقی بنے ہوئے تھے۔- ابوطلحہ، ابوعبیدہ بن جراح، ابی بن کعب، سہیل، رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ موجود تھے منادی کی آواز کان میں پڑتے ہی سب نے کہا کہ اب یہ شراب سب گرادو اس کے جام وسبو توڑ دو ، بعض روایات میں ہے کہ اعلان حرمت کے وقت جس کے ہاتھ میں جام شراب لبوں تک پہنچا ہوا تھا اس نے وہیں سے اس کو پھینک دیا مدینہ میں اس روز شراب اس طرح بہہ رہی تھی جیسے بارش کی رَو کا پانی اور مدینہ کی گلیوں میں عرصہ دراز تک یہ حالت رہی کہ جب بارش ہوتی تو شراب کی بو اور رنگ مٹی میں نکھر آتا تھا۔- جس وقت ان کو یہ حکم ملا کہ جس کے پاس کسی قسم کی شراب ہے وہ فلاں جگہ جمع کردے اس وقت صرف وہ ذخیرے کچھ رہ گئے تھے جو مال تجارت کی حیثیت سے بازار میں تھے ان کو فرمانبردار صحابہ کرام نے بلاتامل مقررہ جگہ پر جمع فرمادیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنفس نفیس تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے شراب کے بہت سے مشکیزوں کو چاک کردیا اور باقی دوسرے صحابہ کرام کے حوالہ کرکے چاک کرادیا، ایک صحابی جو شراب کی تجارت کرتے تھے اور ملک شام سے شراب درآمد کیا کرتے تھے اتفاقا اس زمانے میں ابھی ساری رقم جمع کرکے ملک شام سے شراب لینے کے لئے گئے ہوئے تھے اور جب یہ تجارتی مال لے کر واپس ہوئے تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان کو اعلان حرمت کی خبر مل گئی، جاں نثار صحابی نے اپنے پورے سرمائے اور محنت کی حاصلات کو جس سے بڑے نفع کی امیدیں لئے ہوئے آرہے تھے اعلان حرمت سن کر اسی جگہ ایک پہاڑی پر ڈال دیا اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا کہ اب میرے اس مال کے متعلق کیا حکم ہے اور مجھ کو کیا کرنا چاہئے ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمان خداوندی کے مطابق حکم دے دیا کہ سب مشکیزوں کو چاک کرکے شراب بہادو، فرمانبردار محب خدا و رسول نے بلا کسی جھجک کے اپنے ہاتھ سے اپنا پورا سرمایہ زمین پر بہادیا، یہ بھی اسلام کا ایک معجزہ اور صحابہ کرام کی حیرت انگیز و بےمثال اطاعت ہے جو اس واقعہ میں ظاہر ہوئی کہ جس چیز کی عادت ہوجائے سب جانتے ہیں کہ چھوڑنا سخت دشوار ہے اور یہ حضرات بھی اس کے ایسے عادی تھے کہ تھوڑی دیر اس سے صبر کرنا دشوار تھا ایک حکم الہٰی اور فرمان نبوی نے ان کی عادات میں ایسا عظیم الشان انقلاب برپا کردیا کہ اب یہ شراب اور جوئے سے ایسے ہی متنفر ہیں جیسے اس سے پہلے ان کے عادی تھے۔- اسلامی سیاست اور عام ملکی سیاستوں کا فرق عظیم :- مذکورہ آیات پھر واقعات میں حرمت شراب کے حکم پر مسلمانوں کے عمل کا ایک نمونہ سامنے آگیا ہے جس کو اسلام کا معجزہ کہو یا پیغمبرانہ تربیت کا بےمثال اثر یا اسلامی سیاست کا لازمی نتیجہ کہ نشہ کی عادت جس کے چھوڑنے کا انتہائی دشوار ہونا ہر شخص کو معلوم ہے اور عرب میں اس کا رواج اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ چند گھنٹے اس کے بغیر صبر نہیں کرسکتے تھے وہ کیا چیز تھی جس نے ایک ہی اعلان کی آواز کان میں پڑتے ہی ان سب کے مزاجوں کو بدل ڈالا ان کی عادتوں میں وہ انقلاب پیدا کردیا کہ اب سے چند منٹ پہلے جو چیز انتہائی مرغوب بلکہ زندگی کا سرمایہ تھی وہ چند منٹ کے بعد انتہائی مبغوض اور فحش و ناپاک ہوگئی۔- اس کے بالمقابل آج کی ترقی یافتہ سیاست کی ایک مثال کو سامنے رکھ لیجئے کہ اب سے چند سال پہلے امریکہ کے ماہرین صحت اور سماجی مصلحین نے جب شراب نوشی کی بیشمار اور انتہائی مہلک خرابیوں کو محسوس کرکے ملک میں شراب نوشی کو قانوناً ممنوع کرنا چاہا تو اس کے لئے اپنے نشر و اشاعت کے وہ نئے سے نئے ذرائع جو اس ترقی یافتہ سیاست کا بڑا کمال سمجھے جاتے ہیں سب ہی شراب نوشی کے خلاف ذہن ہموار کرنے پر لگا دیئے سینکڑوں اخبارات اور رسائل اس کی خرابیوں پر مشتمل ملک میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کئے گئے پھر امریکی دستور میں ترمیم کرکے امتناع شراب کا قانون نافذ کیا گیا مگر ان سب کا اثر جو کچھ امریکہ میں آنکھوں نے دیکھا اور وہاں کے ارباب سیاست کی رپورٹوں سے دنیا کے سامنے آیا وہ یہ تھا کہ اس ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ قوم نے اس ممانعت قانونی کے زمانے میں عام زمانوں کی نسبت بہت زیادہ شراب استعمال کی یہاں تک کہ مجبور ہو کر حکومت کو اپنا قانون منسوخ کرنا پڑا۔- عرب مسلمانوں اور موجودہ ترقی یافتہ امریکنوں کے حالات و معاملات کا یہ عظیم فرق تو ایک حقیقت اور واقعہ ہے جس کا کسی کو انکار کرنے کی گنجائش نہیں یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس عظیم الشان فرق کا اصلی سبب اور راز کیا ہے۔- ذرا سا غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ شریعت اسلام نے صرف قانون کو قوم کی اصلاح کے لئے کبھی کافی نہیں سمجھا بلکہ قانون سے پہلے ان کی ذہنی تربیت کی اور عبادت وزہادت اور فکر آخرت کے کیمیاوی نسخے سے ان کے مزاجوں میں ایک بڑا انقلاب لاکر ایسے افراد پیدا کردیتے جو رسول کی آواز پر اپنی جان ومال آبرو سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوجائیں، مکی زندگی کے پورے دور میں یہی افراد سازی کا کام ریاضتوں کے ذریعے ہوتا رہا جب جاں نثاروں کی جماعت تیار ہوگئی اس وقت قانون جاری کیا گیا ذہنوں کو ہموار کرنے کے لئے تو امریکہ نے بھی اپنے بےمثال ذرائع استعمال کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ان کے سامنے سب کچھ تھا مگر فکر آخرت نہیں تھی اور مسلمانوں کے رگ وپے میں فکر آخرت سمائی ہوئی تھی کاش آج بھی ہمارے عقلاء اس نسخہ کیمیا کو استعمال کرکے دیکھیں تو دنیا کو امن و سکون نصیب ہوجائے۔- شراب کے مفاسد اور فوائد میں موازنہ :- اس آیت میں شراب اور قمار دونوں کے متعلق قرآن کریم نے یہ بتلایا ہے کہ ان دونوں میں کچھ مفاسد بھی ہیں اور کچھ فوائد بھی مگر اس کے مفاسد فوائد سے بڑھے ہوئے ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ اس پر نظر ڈالی جائے کہ ان کے فوائد کیا ہیں اور مفاسد کیا اور پھر یہ کہ فوائد سے زیادہ مفاسد ہونے کے کیا وجوہ ہیں آخر میں چند فقہی ضابطے بیان کئے جائیں گے، جو اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں۔- پہلے شراب کو لے لیجئے اس کے فوائد تو عام لوگوں میں مشہور و معروف ہیں کہ اس سے لذت و فرحت حاصل ہوتی ہے اور وقتی طور پر قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے رنگ صاف ہوجاتا ہے مگر ان حقیر وقتی فوائد کے مقابلے میں اس کے مفاسد اتنے کثیر وسیع اور گہرے ہیں کہ شاید کسی دوسری چیز میں اتنے مفاسد اور مضرات نہ ہوں گے بدن انسانی پر شراب کے مضرات یہ ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ معدے کے فعل کو فاسد کردیتی ہے، کھانے کی خواہش کم کردیتی ہے، چہرے کی ہیئت بگاڑ دیتی ہے، پیٹ بڑھ جاتا ہے مجموعی حیثیت سے تمام قویٰ پر یہ اثر ہوتا ہے جو ایک جرمن ڈاکٹر نے بیان کیا ہے کہ جو شخص شراب کا عادی ہو چالیس سال کی عمر میں اس کے بدن کی ساخت ایسی ہوجاتی ہے جیسے ساٹھ سالہ بوڑھے کی، وہ جسمانی اور قوت کے اعتبار سے سٹھیائے ہوئے بوڑھوں کی طرح ہوجاتا ہے اس کے علاوہ شراب جگر اور گردوں کو خراب کردیتی ہے سِل کی بیماری شراب کا خاص اثر ہے یورپ کے شہروں میں سِل کی کثرت کا بڑا سبب شراب ہی کو بتلایا جاتا ہے وہاں کے بعضے ڈاکٹروں کا قول ہے کہ یورپ میں آدھی اموات مرض سِل میں ہوتی ہیں اور آدھی دوسرے امراض میں اور اس بیماری کی کثرت یورپ میں اسی وقت سے ہوئی جب سے وہاں شراب کی کثرت ہوئی۔- یہ تو شراب کی جسمانی اور بدنی مضرتیں ہیں اب عقل پر اس کی مضرت کو تو ہر شخص جانتا ہے مگر صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ شراب پی کر جب تک نشہ رہتا ہے اس وقت تک عقل کام نہیں کرتی لیکن اہل تجربہ اور ڈاکٹروں کی تحقیق یہ ہے کہ نشہ کی عادت خود قوت عاقلہ کو بھی ضعیف کردیتی ہے جس کا اثر ہوش میں آنے کے بعد بھی رہتا ہے بعض اوقات جنون تک اس کی نوبت پہنچ جاتی ہے اطباء اور ڈاکٹروں کا اتفاق ہے کہ شراب نہ جزو بدن بنتی ہے اور نہ اس سے خون بنتا ہے جس کی وجہ سے بدن میں طاقت آئے، بلکہ اس کا فعل صرف یہ ہوتا ہے کہ خون میں ہیجان پیدا کردیتی ہے جس سے وقتی طور پر قوت کی زیادتی محسوس ہونے لگتی ہے اور یہی خون کا دفعۃ ہیجان بعض اوقات اچانک موت کا سبب بھی بن جاتا جس کو ڈاکٹر ہارٹ فیل ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔- شراب سے شرائین یعنی وہ رگیں جن کے ذریعے سارے بدن میں روح پہنچتی ہے سخت ہوجاتی ہیں جس سے بڑھاپا جلدی آجاتا ہے شراب کا اثر انسان کے حلقوم اور تنفس پر بھی خراب ہوتا ہے جس کی وجہ سے آواز بھاری ہوجاتی ہے اور کھانسی دائمی ہوجاتی ہے اور وہی آخرکار سِل تک نوبت پہنچا دیتی ہے، شراب کا اثر نسل پر بھی برا پڑتا ہے شرابی کی اولاد کمزور رہتی ہے اور بعض اوقات اس کا نتیجہ قطع نسل تک پہنچتا ہے۔- یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شراب پینے کی ابتدائی حالت میں بظاہر انسان اپنے جسم میں چستی و چالاکی اور قوت محسوس کرتا ہے اسی لئے بعض لوگ جو اس میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ان طبعی حقائق کا انکار کرتے ہیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ شراب کا یہ زہر ایسا زہر ہے جس کا اثر تدریجی طور پر ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد یہ سب مضرتیں مشاہدہ میں آجاتی ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔- شراب کا ایک بڑا مفسدہ تمدنی یہ ہے کہ وہ اکثر لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے اور پھر یہ بغض و عداوت دور تک انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں شریعت اسلام کی نظر میں یہ مفسدہ سب سے بڑا ہے اس لئے قرآن نے سورة مائدہ میں خصوصیت کے ساتھ اس مفسدہ کا ذکر فرمایا ہے اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ (٩١: ٥) یعنی شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں بغض و عداوت پیدا کردی۔- شراب کا ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ مدہوشی کے عالم میں بعض اوقات آدمی اپنا پوشیدہ راز بیان کر ڈالتا ہے جس کی مضرت اکثر بڑی تباہ کن ہوتی ہے خصوصاً وہ اگر کسی حکومت کا ذمہ دار آدمی ہے اور بھی حکومت کا راز ہے جس کے اظہار سے پورے ملک میں انقلاب آسکتا ہے اور ملکی سیاست اور جنگی مصالح سب برباد ہوجاتے ہیں ہوشیار جاسوس ایسے مواقع کے منتظر رہتے ہیں۔- شراب کا ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو ایک کھلونا بنا دیتی ہے جس کو دیکھ کر بچے بھی ہنستے ہیں کیونکہ اس کا کلام اور اس کی حرکات سب غیر متوازن ہوجاتی ہیں شراب کا ایک عظیم تر مفسدہ یہ ہے کہ وہ اُمّ الخبائث ہے انسان کو تمام برے سے برے جرائم پر آمادہ کردیتی ہے زنا اور قتل اکثر اس کے نتائج ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عام شراب خانے زنا اور قتل کے اڈے ہوتے ہیں یہ شراب کی جسمانی مضرتیں ہیں اور اس کی روحانی مضرت تو ظاہر ہی ہے کہ نشہ کی حالت میں نہ نماز ہوسکتی ہے نہ اللہ کا ذکر نہ اور کوئی عبادت اسی لئے قرآن کریم میں شراب کی مضرت کے بیان میں فرمایا : وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ (١٩: ٥) یعنی شراب تم کو ذکر اللہ اور نماز سے روکتی ہے۔- اب مالی مضرت اور نقصان کا حال سنئے جس کو ہر شخص جانتا ہے کسی بستی میں اگر ایک شراب خانہ کھل جاتا ہے تو وہ پوری بستی کی دولت کو سمیٹ لیتا ہے اس کی قسمیں بیشمار ہیں اور بعض اقسام تو بےحد گراں ہیں بعض اعداد و شمار لکھنے والوں نے صرف ایک شہر میں شراب کا مجموعی خرچہ پوری مملکت فرانس کے مجموعی خرچ کے برابر بتلایا ہے۔- یہ شراب کے دینی دنیوی جسمانی اور روحانی مفاسد کی مختصر فہرست ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کلمہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ام الخبائث یا ام الفواحش جرمنی کے ایک ڈاکٹر کا یہ مقولہ ضرب المثل کی طرح مشہور ہے کہ اس نے کہا کہ اگر آدھے شراب خانے بند کردئیے جائیں تو میں اس کی ضمانت لیتا ہوں کہ آدھے شفاخانے اور آدھے جیل خانے بےضرورت ہو کر بند ہوجائیں گے، (تفسیر المنار لمفتی عبدہ ص ٢٢٦ ج ٢) - علامہ طنطاوی نے اپنی کتاب الجواہر میں اس سلسلے کی چند اہم معلومات لکھی ہیں، ان میں سے بعض یہاں نقل کی جاتی ہیں۔- ایک فرانسیسی محقق ہنری اپنی کتاب خواطر وسوانح فی الاسلام میں لکھتے ہیں بہت زیادہ مہلک ہتھیار جس سے اہل مشرق کی بیخ کنی کی گئی اور وہ دو دھاری تلوار جس سے مسلمانوں کو قتل کیا گیا یہ شراب تھی ہم نے الجزائر کے لوگوں کے خلاف یہ ہتھیار آزمایا لیکن ان کی اسلامی شریعت ہمارے راستہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوگئی اور وہ ہمارے اس ہتھیار سے متاثر نہیں ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی نسل بڑہتی ہی چلی گئی یہ لوگ اگر ہمارے اس تحفہ کو قبول کرلیتے جس طرح کہ ان کے ایک منافق قبیلے نے اس کو قبول کرلیا ہے تو یہ بھی ہمارے سامنے ذلیل و خوار ہوجاتے آج جن لوگوں کے گھروں میں ہماری شراب کے دور چل رہے ہیں وہ ہمارے سامنے اتنے حقیر و ذلیل ہوگئے ہیں کہ سر نہیں اٹھا سکتے۔- ایک انگریز قانون داں بنتام لکھتے ہیں کہ :- اسلامی شریعت کی بیشمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے اس میں شراب حرام ہے ہم نے دیکھا کہ جب افریقہ کے لوگوں نے اسے استعمال کرنا شروع کیا تو ان کی نسلوں میں پاگل پن سرایت کرنے لگا اور یورپ کے جن لوگوں کو اس کا چسکہ لگ گیا ان کی بھی عقلوں میں تغیر آنے لگا لہذا افریفہ کے لوگوں کے لئے بھی اس کی ممانعت ہونی چاہئے اور یورپین لوگوں کو بھی اس پر شدید سزائیں دینی چاہئیں۔- غرض جس بھلے مانس نے بھی ٹھنڈے دل سے غور کیا وہ بےاختیار پکار اٹھا کہ یہ رجس ہے شیطانی عمل ہے زہر ہے تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے اس اُمّ الخبائث سے باز آجاؤ ،- فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ (٩١: ٥) - شراب کی حرمت و ممانعت کے متعلق قرآن کریم کی چار آیتوں کا بیان اوپر آچکا ہے سورة نحل میں ایک جگہ اور بھی نشہ کی چیزوں کا ذکر ایک دوسرے انداز سے آیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بھی یہاں ذکر کردیا جائے تاکہ شراب ونشہ کے متعلق تمام قرآنی ارشادات مجموعی طور پر سامنے آجائیں وہ آیت یہ ہے،- وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِيْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْهُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنً آ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (٦٧: ١٦) اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں بناتے ہو بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی دلیل ہے جو عقل رکھتے ہیں۔- تشریح و تفسیر :- پچھلی آیتوں میں حق تعالیٰ کی ان نعمتوں کا ذکر تھا جو انسانی غذائیں پیدا کرنے میں عجیب و غریب صنعت وقدرت کا مظہر ہیں اس میں پہلے دودھ کا ذکر کیا جس کو قدرت نے حیوان کے پیٹ میں خون اور فضلہ کی آلائشوں سے الگ کرکے صاف ستھری غذا انسان کے لئے عطا کردی جس میں انسان کو کسی مزید صنعت کی ضرورت نہیں اسی لئے یہاں لفظ نسقیکم استعمال فرمایا کہ ہم نے دودھ پلایا اس کے بعد فرمایا کہ کھجور اور انگور کے کچھ پھلوں میں سے بھی انسان اپنی غذا اور نفع کی چیزیں بناتا ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ کھجور اور انگور کے پھلوں میں سے اپنی غذا اور منفعت کی چیزیں بنانے میں انسانی صنعت کا کچھ دخل ہے اور اسی دخل کے نتیجہ میں دو طرح کی چیزیں بنائی گئیں ایک نشہ آور چیز جس کو خمر یا شراب کہا جاتا ہے دوسری رزق حسن یعنی عمدہ رزق کہ کھجور اور انگور کو تروتازہ کھانے میں استعمال کریں یا خشک کرکے ذخیرہ کرلیں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کھجور اور انگور کے پھل انسان کو دیدئیے اور ان سے اپنی غذا وغیرہ بنانے کا اختیار بھی دے دیا اب یہ اس کا انتخاب ہے کہ اس سے کیا بنائے، نشہ آور چیز بنا کر عقل کو خراب کرے یا غذا بنا کر قوت حاصل کرے۔- اس تفسیر کے مطابق اس آیت سے نشہ آور شراب کے حلال ہونے پر کوئی استدلال نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں مقصود قدرت کے عطیات اور ان کے استعمال کی مختلف صورتوں کا یبان ہے جو ہر حال میں نعمت خداوندی ہے جیسے تمام غذائیں اور انسانی منفعت کی چیزیں کہ ان کو بہت سے لوگ ناجائز طریقوں پر بھی استعمال کرتے ہیں مگر کسی کے غلط استعمال سے اصل نعمت نعمت ہونے سے نہیں نکل جاتی اس لئے یہاں یہ تفصیل بتلانے کی ضرورت نہیں کہ ان میں کونسا استعمال حلال ہے کونسا حرام ہے تاہم ایک لطیف اشارہ اس میں بھی اس طرف کردیا کہ سکر کے مقابل رزق حسن رکھا جس سے معلوم ہوا کہ سکر اچھا رزق نہیں سکر کے معنی جمہور مفسرین کے نزدیک نشہ آور چیز کے ہیں (روح المعانی، قرطبی، جصاص) - یہ آیات باتفاق امت مکی ہیں اور شراب کی حرمت اس کے بعد مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی نزول آیات کے وقت اگرچہ شراب حلال تھی اور مسلمان عام طور پر پیتے تھے مگر اس وقت بھی اس آیت میں اشارہ اس طرف کردیا گیا کہ اس کا پینا اچھا نہیں، بعد میں صراحۃ شراب کو شدت کے ساتھ حرام کرنے کے لئے قرآنی احکام نازل ہوگئے (ہذا ملخص مافی الجصاص والقرطبی) - حرمت قمار (جوا) - میسر مصدر ہے اور اصل لغت میں اس کے معنی تقسیم کرنے کے ہیں یاسر تقسیم کرنیوالے کو کہا جاتا ہے جاہلیت عرب میں مختلف قسم کے جوئے رائج تھے جن میں ایک قسم یہ بھی تھی کہ اونٹ ذبح کرکے اس کے حصے تقسیم کرنے میں جوا کھیلا جاتا تھا بعض کو ایک یا زیادہ حصے ملتے بعض محروم رہتے تھے محروم رہنے والے کو پورے اونٹ کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی گوشت سب فقراء میں تقسیم کیا جاتا خود استعمال نہ کرتے تھے۔- اس خاص جوئے میں چونکہ فقراء کا فائدہ اور جوا کھیلنے والوں کی سخاوت بھی تھی اسی لئے اس کھیل کو باعث فخر سمجھتے تھے جو اس میں شریک نہ ہوتا اس کو کنجوس اور منحوس کہتے تھے۔- تقسیم کی مناسبت سے قمار کو میسر کہا جاتا ہے تمام صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین اس پر متفق ہیں کہ میسر میں قمار یعنی جوئے کی تمام صورتیں داخل اور سب حرام ہیں ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اور جصاص نے احکام القرآن میں نقل کیا ہے کہ مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس اور ابن عمر اور قتادہ اور معاویہ بن صالح اور عطاء اور طاؤس نے فرمایا "- المیسر القمار حتٰی لعب الصبیان بالکعاب والجوز۔ یعنی ہر قسم کا قمار میسر ہے یہاں تک کہ بچوں کو کھیل لکڑی کے گٹگوں اور اخروٹ وغیرہ کے ساتھ۔- اور ابن عباس نے فرمایا المخاطرۃ ُ من القمار یعنی مخاطرہ قمار میں سے ہے (جصاص) ابن سیرین نے فرمایا جس کام میں مخاطرہ ہو وہ میسر میں داخل ہے (روح البیان) - مخاطرہ کے معنی ہیں کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع وضرر کے درمیان دائر ہو یعنی یہ بھی احتمال ہو کہ بہت سا مال مل جائے اور یہ بھی کہ کچھ نہ ملے جیسے آجکل کی لاٹری کے مختلف طریقوں میں پایا جاتا ہے یہ سب قسمیں قمار اور میسر میں داخل اور حرام ہیں اس لئے میسر یا قمار کی تعریف یہ ہے کہ جس معاملہ میں کسی مال کا مالک بنانے کو ایسی شرط پر موقوف رکھا جائے جس کے وجود وعدم کی دونوں جانبیں مساوی ہوں اور اسی بناء پر نفع خالص یا تاوان خالص برداشت کرنے کی دونوں جانبیں بھی برابر ہوں (شامی ص ٣٥٥ جلد ٥ کتاب الخطر والاباحۃ) مثلا یہ بھی احتمال ہے کہ زید پر تاوان پڑجائے اور یہ بھی ہے کہ عمر پر پڑجائے اس کی جتنی قسمیں اور صورتیں پہلے زمانے میں رائج تھیں یا آج رائج ہیں یا آئندہ پیدا ہوں وہ سب میسر اور قمار اور جوا کہلائے گا معمے حل کرنے کا چلتا ہوا کاروبار اور تجارتی لاٹری کی عام صورتیں سب اس میں داخل ہیں ہاں اگر صرف ایک جانب سے انعام مقرر کیا جائے کہ جو شخص فلاں کام کرے گا اس کو یہ انعام ملے گا اس میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس شخص سے کوئی فیس وصول نہ کی جائے کیونکہ اس میں معاملہ نفع وضرر کے درمیان دائر نہیں بلکہ نفع اور عدم نفع کے درمیان دائر ہے،- اسی لئے احادیث صحیحہ میں شطرنج اور چوسر وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جن میں سال کی ہار جیت پائی جاتی ہے تاش پر اگر روپیہ کی ہار جیت ہو تو وہ بھی میسر میں داخل ہے۔- صحیح مسلم میں بروایت بریدہ مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص نرد شیر (چوسر) کھیلتا ہے وہ گویا خنزیر کے گوشت اور خون میں اپنے ہاتھ رنگتا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ شطرنج میسر یعنی جوئے میں داخل ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا شطرنج تو نرد شیر سے بھی زیادہ بری ہے (تفسیر ابن کثیر) - ابتداء اسلام میں شراب کی طرح قمار بھی حلال تھا مکہ میں جب سورة روم کی آیات غُلِبَتِ الرُّوْمُ نازل ہوئی اور قرآن نے خبر دی کہ اس وقت روم اگرچہ اپنے حریف کسرٰی سے مغلوب ہوگئے لیکن چند سال بعد پھر رومی غالب آجائیں گے اور مشرکین مکہ نے اس کا انکار کیا تو حضرت ابوبکر صدیق نے ان سے اسی طرح قمار کی شرط ٹھرائی کہ اگر اتنے سال میں رومی غالب آگئے تو اتنا مال تمہیں دینا پڑے گا یہ شرط مان لی گئی اور واقعہ قرآن کی خبر کے مطابق پیش آیا تو ابوبکر نے یہ مال وصول کیا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے آپ نے اس واقعہ پر اظہار مسرت فرمایا مگر مال کو صدقہ کرنے کا حکم دیدیا۔- کیونکہ جو چیز آئندہ حرام ہونے والی تھی اللہ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حلال ہونے کے زمانے میں بھی محفوظ فرما دیا تھا اسی لئے شراب اور قمار سے ہمیشہ آپ نے اجتناب کیا اور خاص خاص صحابہ کرام (رض) اجمعین بھی ان چیزوں سے ہمیشہ محفوظ رہے۔- ایک روایت میں ہے کہ جبریل امین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جعفر طیار کی چار خصلتیں زیادہ محبوب ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جعفر سے پوچھا کہ آپ میں وہ چار خصلتیں کیا ہیں عرض کیا کہ میں نے اس کا اظہار اب تک کسی سے نہیں کیا تھا مگر جب کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خبر دے دیتو عرض کرتا ہوں کہ وہ چار خصلتیں یہ ہیں کہ میں نے دیکھا کہ شراب عقل کو زائل کردیتی ہے اس لئے میں کبھی اس کے پاس نہیں گیا اور میں نے بتوں کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کسی کا نفع وضرر نہیں اس لئے جاہلیت میں بھی کبھی بت پرستی نہیں کی اور مجھے چونکہ اپنی بیوی اور لڑکیوں کے معاملہ میں سخت غیرت ہے اس لئے میں نے کبھی زنا نہیں کیا اور میں نے دیکھا کہ جھوٹ بولنا دنایت اور رذالت کی بات ہے اس لئے کبھی جہالت میں بھی جھوٹ نہیں بولا (روح البیان) - قمار کے سماجی اور اجتماعی نقصانات :- قمار یعنی جوئے کے متعلق بھی قرآن کریم نے وہی ارشاد فرمایا جو شراب کے متعلق آیا ہے کہ اس میں کچھ منافع بھی نہیں مگر نفع سے اس کا نقصان وضرر بڑھا ہوا ہے اس کے منافع کو تو ہر شخص جانتا ہے کہ جیت جائے تو بیٹھے بیٹھے ایک فقیر بدحال آدمی ایک ہی دن میں مالدار اور سرمایہ دار بن سکتا ہے مگر اس کی معاشی، اجتماعی، سماجی اور روحانی خرابیاں اور مفاسد بہت کم لوگ جانتے ہیں اس کا اجمالی بیان یہ ہے کہ جوئے کا کھیل سارا اس پر دائر ہے کہ ایک شخص کا نفع دوسرے کے ضرر پر موقوف ہے جیتنے والے کا نفع ہی نفع ہارنے والے کا نقصان ہی نقصان کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ اس کاروبار سے کوئی دولت بڑہتی نہیں وہ اسی طرح منجمد حالت میں رہتی ہے اس کھیل کے ذریعے ایک کی دولت سلب ہو کر دوسرے کے پاس پہنچ جاتی ہے اس لئے قمار مجموعی حیثیت سے قوم کی تباہی اور انسانی اخلاق کی موت ہے کہ جس انسان کو نفع رسانی خلق اور ایثار و ہمدردی کا پیکر ہونا چاہئے وہ ایک خونخوار درندہ کی خاصیت اختیار کرلے کہ دوسرے بھائی کی موت میں اپنی زندگی اس کی مصیبت میں اپنی راحت اس کے نقصان میں اپنا نفع سمجھنے لگے اور اپنی پوری قابلیت اس خود غرضی پر صرف کرے بخلاف تجارت اور بیع وشراء کی جائز صورتوں کے ان میں طرفین کا فائدہ ہوتا ہے اور بذریعہ تجارت اموال کے تبادلہ سے دولت بڑھتی ہے اور خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں اس کا فائدہ محسوس کرتے ہیں۔- ایک بھاری نقصان جوئے میں یہ ہے کہ اس کا عادی اصل کمائی اور کسب سے عادۃ محروم ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی خواہش یہی رہتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے ایک شرط لگا کر دوسرے کا مال چند منٹ میں حاصل کرے جس میں نہ کوئی محنت ہے نہ مشقت بعض حضرات نے جوئے کا نام میسر رکھنے کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ اس کے ذریعہ آسانی سے دوسرے کا مال اپنا بن جاتا ہے جوئے کا معاملہ اگر دو چار آدمیوں کے درمیان دائر ہو تو اس میں بھی مذکورہ مضرتیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں لیکن اس نئے دور میں جس کو بعض سطحی نظر والے انسان عاقبت نااندیشی سے ترقی کا دور کہتے ہیں جیسے شراب کی نئی نئی قسمیں اور نئے نئے نام رکھ لئے گئے سود کی نئی نئی قسمیں اور نئے نئے اجتماعی طریقے بنکنگ کے نام سے ایجاد کرلئے گئے ہیں اسی طرح قمار اور جوئے کی بھی ہزاروں قسمیں چل گئیں جن میں بہت سی قسمیں ایسی اجتماعی ہیں کہ قوم کا تھوڑا تھوڑا روپیہ جمع ہوتا ہے اور جو نقصان ہوتا ہے وہ ان سب پر تقسیم ہو کر نمایاں نہیں رہتا اور جس کو یہ رقم ملتی ہے اس کا فائدہ نمایاں ہوتا ہے اس لئے بہت سے لوگ اس کے شخصی نفع کو دیکھتے ہیں لیکن قوم کے اجتماعی نقصان پر دھیان نہیں دیتے اس لئے ان کا خیال ان نئی قسموں کے جواز کی طرف چلا جاتا ہے حالانکہ اس میں وہ سب مضرتیں موجود ہیں جو دو چار آدمیوں کے جوئے میں پائی جاتی ہیں اور ایک حیثیت سے اس کا ضرر اس قدیم قسم کے قمار سے بہت زیادہ اور اس کے خراب اثرات دور رس اور پوری قوم کی بربادی کا سامان ہیں کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ پوری قوم کی دولت سمٹ کر محدود افراد اور محدود خاندانوں میں مرتکز ہوجائے گی جس کا مشاہدہ سٹہ بازار اور قمار کی دوسری قسموں میں روزہ مرہ ہوتا رہتا ہے اور اسلامی معاشیات کا اہم اصول یہ ہے کہ ہر ایسے معاملے کو حرام قرار دیا جس کے ذریعے دولت پوری ملت سے سمٹ کر چند سرمایہ داروں کے حوالے ہوسکے، قرآن کریم نے اس کا اعلان خود تقسیم دولت کا اصول بیان کرتے ہوئے اس طرح فرمادیا ہے كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ (٧: ٥٩) یعنی مال فئے کی تقسیم مختلف طبقوں میں کرنے کا جو اصول قرآن نے مقرر کیا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ دولت سمٹ کر صرف سرمایہ داروں میں جمع نہ ہوجائے۔- قمار یعنی جوئے کی خرابی یہ بھی ہے کہ شراب کی طرح قمار بھی آپس میں لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد کا سبب ہوتا ہے ہارنے والے کو طبعی طور پر جیت جانے والے سے نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور یہ تمدن ومعاشرت کے لئے سخت مہلک چیز ہے اسی لئے قرآن حکیم نے خاص طور پر اس مفسدہ کو ذکر فرمایا ہے۔- اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ (٩١: ٥) شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض ونفرت پیدا کر دے اور تم کو اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے۔- اسی طرح قمار کا ایک لازمی اثر یہ ہے کہ شراب کی طرح آدمی اس میں مست ہو کر ذکر اللہ اور نماز سے غافل ہوجاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے شراب اور قمار کو ایک ہی جگہ ایک ہی انداز سے ذکر فرمایا ہے کہ معنوی طور پر قمار کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے جو آدمی کو اس کے بھلے برے کی فکر سے غافل کردیتا ہے۔ مذکورہ آیت میں بھی ان دونوں چیزوں کو جمع کرکے دونوں کے یہ مفاسد ذکر فرمائے ہیں کہ وہ آپس کی عداوت وبغض کا سبب بنتی ہیں اور ذکر اللہ اور نماز سے مانع بن جاتی ہیں۔- قمار کی ایک اصولی خرابی یہ بھی ہے کہ یہ باطل طریقہ پر دوسرے لوگوں کا مال ہضم کرنے کا ایک طریق ہے کہ بغیر کسی معقول معاوضہ کے دوسرے بھائی کا مال لے لیا جاتا ہے اسی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں منع فرمایا ہے :- لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بالْبَاطِلِ (١٨٨: ٢) لوگوں کے مال باطل طریقہ پر مت کھاؤ - قمار میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ دفعۃ بہت سے گھر برباد ہوجاتے ہیں لکھ پتی آدمی فقیر بن جاتا ہے جس سے صرف یہی شخص متاثر نہیں ہوتا جس نے جرم قمار کا ارتکاب کیا ہے بلکہ اس کا پورا گھرانہ اور خاندان مصیبت میں پڑجاتا ہے اور اگر غور کیا جائے تو پوری قوم اس سے متاثر ہوتی ہے کیونکہ جن لوگوں نے اس کے مالی سکھ کو دیکھ کر اس سے معاہدے اور معاملات کئے ہوئے ہیں یا قرض دیئے ہوئے ہیں وہ اب دیوالیہ ہوجائے گا تو ان سب پر اس کی بربادی کا اثر پڑنا لازمی ہے۔- قمار میں ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی قوت عمل سست ہو کر وہمی منافع پر لگ جاتی ہے اور وہ بجائے اس کے کہ اپنے ہاتھ یا دماغ کی محنت سے کوئی دولت بڑھاتا رہے اس کی فکر اس بات میں محصور ہو کر رہ جاتی ہے کہ کسی طرح دوسرے کی کمائی پر اپنا قبضہ جمائے۔- یہ مختصر فہرست ہے قمار کے مفاسد کی جن سے نہ صرف اس جرم کا مرتکب متأثر ہوتا ہے بلکہ اس کے سب متعلقین اہل و عیال اور پوری قوم متأثر ہوتی ہے اسی لئے قرآن کریم نے فرمایا : وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا یعنی شراب وقمار کے مفاسد ان کے نفع سے زیادہ ہیں۔- چند فقہی ضابطے اور فوائد :- اس آیت میں شراب اور قمار کے بعض فوائد کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے رکنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے جس سے اہم نتیجہ یہ نکل آیا کہ کسی چیز یا کسی کام میں کچھ دنیوی منافع ہونا اس کے منافی نہیں ہے کہ اس کو شرعا حرام قرار دیا جائے کیونکہ جس طرح محسوسات میں اس دوا اور غذا کو مضر کہا جاتا ہے جس کی مضرتیں بہ نسبت اس کے فائدے کے زیادہ سخت ہوں ورنہ یوں تو دنیا کی کوئی بری سے بری چیز بھی منافع سے خالی نہیں، زہر قاتل میں سانپ اور بچھو میں درندوں میں کتنے فوائد ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے ان کو مضر کہا جاتا ہے اور ان کے پاس جانے سے بچنے کی ہدایت کی جاتی ہے اسی طرح معنوی اعتبار سے جن کاموں کے مفاسد ان کے منافع سے زائد ہوں شرعا ان کو حرام کردیا جاتا ہے، چوری، ڈاکہ، زنا، اغوا، دھوکہ، فریب وغیرہ تمام جرائم میں کونسا جرم ایسا ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر یہ بالکل بےفائدہ ہوتے تو کوئی عقل وہوش والا انسان ان کے پاس نہ جاتا حالانکہ ان سب جرائم میں کامل وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہوشیاری عقلمندی میں معروف سمجھے جاتے ہیں اس سے ہی معلوم ہوا کہ فوائد تو کچھ نہ کچھ تمام جرائم میں ہیں مگر چونکہ انکی مضرت فائدہ سے بڑھی ہوئی ہے اس لئے عقل مند انسان ان کو مفید اور جائز نہیں کہتا شریعت اسلام نے شراب اور جوئے کو اسی اصول کے تحت حرام قرار دیا ہے کہ اس کے فوائد سے زیادہ مفاسد اور دینی و دنیوی مضرتیں ہیں۔- ایک اور فقہی ضابطہ :- اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جلب منفعت سے دفع مضرت مقدم ہے یعنی ایک کام کے ذریعے کچھ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے اور ساتھ ہی کوئی مضرت بھی پہنچتی ہے تو مضرت سے بچنے کے لئے اس منفعت کو چھوڑ دینا ہی ضروری ہوتا ہے ایسی منفعت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو مضرت کے ساتھ حاصل ہو۔ - خلاصہ تفسیر :- سولہواں حکم مقدار انفاق :- اور لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ (خیر خیرات میں) کتنا خرچ کیا کریں آپ فرما دیجئے کہ جتنا آسان ہو (کہ اس کے خرچ کرنے سے خود پریشان ہو کر دنیوی تکلیف میں یا کسی کا حق ضائع کرکے اخروی تکلیف میں نہ پڑجائیں) اللہ تعالیٰ اس طرح احکام کو صاف صاف بیان فرماتے ہیں تاکہ تم (کو ان کو علم ہوجائے اور اس علم کی وجہ سے ہر عمل کرنے سے پہلے) دنیا وآخرت کے معاملات میں (ان احکام کو) سوچ لیا کرو (اور سوچ کر ہر معاملہ میں ان احکام کے موافق عمل کیا کرو)
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ٠ ۭ قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ٠ ۡوَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ٠ ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ٠ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ ٢١٩ ۙ- خمر - أصل الخمر : ستر الشیء، ويقال لما يستر به : خِمَار، لکن الخمار صار في التعارف اسما لما تغطّي به المرأة رأسها، وجمعه خُمُر، قال تعالی:- وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور 31] والخَمْر سمّيت لکونها خامرة لمقرّ العقل، وهو عند بعض الناس اسم لكلّ مسكر . وعند بعضهم اسم للمتخذ من العنب والتمر، لما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «الخمر من هاتین الشّجرتین : النّخلة والعنبة» - ( خ م ر ) الخمر - ( ن ) اصل میں خمر کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں اسی طرح خمار اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے کوئی چیز چھپائی جائے مگر عرف میں خمار کا لفظ صرف عورت کی اوڑھنی پر بولا جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سر کو چھپاتی ہے ۔ اس کی جمع خمر آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔- وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ [ النور 31] اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں ۔ کہاجاتا ہے ۔ الخمر - ۔ شراب ۔ نشہ ۔ کیونکہ وہ عقل کو ڈہانپ لیتی ہے بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پر خمر کا لفظ بولا جاتا ہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہا جاتا ہے ۔ جو انگور یا کھجور سے بنائی گئ ہو ۔ کیونکہ ایک روایت میں ہے (122) الخمر من ھاتین الشجرتین التخلۃ و العنبۃ ( کہ خمر ( شراب حرام صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یا کھجور سے بنائی گئی ہو ۔ - ميسر - ( المیسر) مصدر ميميّ کالموعد، وهو مشتقّ إما من الیسر لأنّ فيه أخذ المال بيسر، وإمّا من الیسار لأنه سبب له .- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- العفو - ۔ ای قل انفقوا العفو۔ العفو۔ آسان ۔ حاجت سے زیادہ ۔ معاف کردینا۔ یہ عفا یعفوا ( باب نصر) کا مصدر ہے بقدر طاقت جو بن آئے ۔ جو اپنے اور عیال کے خرچ سے زائدہو۔ عفو بروزن فعول بہت زیادہ معاف کرنے والا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔
شراب کی حرمت - ارشاد باری ہے یسئلونک عن الخمروالمسر قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس و اثمھما اکبر من نفعھما۔ آپ سے پوچھتے ہیں کہ شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں مگر ان کا نقصان ان کے فائدے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ آیت تحریم خم کا تقاضا کرتی ہے اگر اس کی تحریم کے لئے کوئی اور آیت نازل نہ بھی ہوتی پھر بھی یہی آیت اس مقصد کے لئے کافی ہوتی۔ اس لئے کہ ارشاد باری ہے قل فیھما اثم کبیر اور گناہ سارے کا سارا حرام ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ قول باری ہے قل انما حرم ربی الفواحش ماظھرمنھما وما بطن والاثم آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جو چیزیں میرے رب نے حرام کی ہیں وہ یہ ہیں بےشرمی کے کام، خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ کردیا کہ گناہ حرام ہے۔ پھر شراب کے متعلق صرف اتنی بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اس میں گناہ ہے بلکہ فرمایا گناہ کبیر ہے تاکہ اس کی ممانعت کی اور تاکید ہوجائے اور و منافع للناس میں اس کی اباحت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے مراد دنیاوی فوائد ہیں اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ دنیاوی لحاظ سے محرمات کے مرتکبین کو کوئی نہ کوئی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن یہ فوائد انہیں اس عذاب سے نہیں بچا سکتے جو انہیں ملنے والا ہے۔- شراب کے فوائد کا ذکر اس کی اباحت کی دلیل نہیں ہے۔۔ اس بنا پر شراب کے فوائد کا ذکر اس کی اباحت کی دلیل نہیں ہے۔ خاص طور پر جب کہ آیت کے سیاق میں اس کے منافع کے ذکر کے ساتھ اس کی ممانعت کی بھی تاکید کردی ہے چناچہ فرمایا واثمھما اکبر من نفعھما یعنی شراب کے استعمال پر ملنے والے اس فوری فائدے کے مقابلہ میں بہت بڑھ کر ہے جو اسے حاصل ہوسکتی ہے۔ شراب کے متعلق جو دوسری آیتیں نازل ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے یایھا الذین امنوا لاتقرلوا الصلوۃ وانتم سگاری حتی تعلموا ماتقولون۔ اے ایمان والو نشے کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جائو یہاں تک کہ تمہیں یہ معلوم ہونے لگے کہ تم کیا کہہ ہو۔ اس آیت میں شراب کی اتنی مقدار کی تحریم پر دلالت نہیں ہے جس سے نشہ آجائے۔ اس میں نشہ آور مقدار کی حرمت پر دلالت ہے۔ اس لئے کہ نماز ایک فرض عبادت ہے جس کی ادائیگی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور جو چیز نماز کی وقت پر ادائیگی میں رکاوٹ ہو وہ ممنوع ہوگی۔ اب جبکہ نماز حالت سکر میں ممنوع ہے اور شرب خم سے ترک صلوۃ لازم آتی ہے اس بنا پر اس کے پینے کی ممانعت ہوگی اس لئے کہ ایسا کام جو فرض کے لئے رکاوٹ بن جائے وہ ممنوع ہوتا ہے۔ شراب کے متعلق ایک اور آیت ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے انما الفمووا المیسروالانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ یہ شراب، یہ جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو تاقول باری فھل انتم منتھون کیا تم باز آجائو گے۔ اس آیت میں شراب کی حرمت کا کئی وجوہ سے ذکر ہے۔ اول یہ قول باری ہے رجس من عمل الشیطان۔ رجس کا اطلاق صرف اسی چیز پر کرنا درست ہوتا ہے جو ممنوع اور حرام ہو پھر اس کی تاکید اپنے اس ارشاد فاحتنبوہ سے کی۔ یہ امر ہے جس کا تقاضا ہے کہ اس کے اجتناب کو اپنے اوپر لازم کرلیا جائے۔ پھر یہ فرمایا فھل انتم منتھون جس کا مفہوم یہ ہے کہ فانتھوا یعنی باز آجائو۔- کیا شراب کی قلیل مقدار بھی حرام ہے ؟۔۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری فیھما اثم کبیر۔ میں شراب کی قلیل مقدار کی تحریم پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ آیت میں مراد یہ ہے کہ وہ مقدار جسے استعمال کر کے سکر، ترک صلوۃ غیر انسانی حرکات اور جنگ و جدل کی وجہ سے پینے والا گنہگار ٹھہرے۔ جب ان باتوں کی وجہ سے اس پر گناہ میں ملوث ہونے کا حکم لگا دیا جائے گا تو اس صورت میں ہم ظاہر آیت کا متقضیٰ یعنی حکم تحریم کو پورا کریں گے اور ظاہر ہے کہ قلیل مقدار میں شراب کے استعمال سے یہ باتیں پیدا نہیں ہوتیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیت میں قلیل مقدار کی تحریم پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فیھما اثم کبیر میں ایک لفظ پوشیدہ ہے وہ ہے شوبھا اس لئے عبارت یوں ہوگی۔ فی شربھا اثم کبیر، شراب پینے میں بڑا گناہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس شراب میں کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ یہ اللہ کا فعل ہے۔ گناہ میں ملوث ہونے کی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہمارا بھی اس شراب میں کوئی کردار پیدا ہوجائے جس کی وجہ سے ہم سزا اور عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔- جب لفظ شرب کو پوشیدہ مان لیا جائے تو عبارت یوں ہوگی فی شربھا فعل المیسراثم شراب پینے اور جوا کھیلنے میں بہت بڑا گناہ ہے۔ عبارت کی یہ صورت شراب کی قلیل اور کثیر دونوں مقداروں کو شامل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتا کہ حرمت الخمد (شراب حرام ہوگئی) تو یہی بات سمجھ میں آتی کہ اس سے مراد شراب نوشی اور اس سے نفع اندوزی ہے۔ یہ مفہوم اس کی قلیل اور کثیر دونوں مقدار کی تحریم کا تقاضا کرتا ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث بھی مروی ہے ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے، انہیں جعفر بن محمد الیمان نے، انہیں ابوعبید نے ، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن طلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا قول باری یسئلونک عن الخمر والمیسد قل فیھما اثم کبیر۔ میں المیسر سے مراد جوا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص جوا کھیلتے ہوئے اہل و عیال اور اپنے مال کو دائو پر لگا دیتا تھا۔ پھر فرمایا قول باری لاتقوبوا الصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون کی صورت یہ ہے کہ ابتداء میں مسلمان نماز کے قریب شراب نہیں پیتے تھے جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو پی کر سو جاتے، پھر ایسا ہوا کہ کچھ مسلمانوں نے شراب پی کر دنگا فساد کیا اور زبان سے ایسے کلمات کہے جو اللہ کو پسند نہیں۔- اس پر یہ آیت نازل ہوئی انما الخمدوالمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ آپ نے فرمایا المیسر جوا ہے، انصاب بت ہیں اور الازلام وہ پانسے ہیں جن کے ذریعے وہ آپس میں کسی چیز کے حصوں کی تقسیم کا عمل کرتے تھے۔ جعفر بن محمد نے کہا کہ ہمیں ابوعبید نے، انہیں عبدالرحمن بنمہدی نے سفیان سے، انہوں نے ابواسحاق سے، انہوں نے ابومیسرہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک دفعہ یہ دعا مانگی کہ اے اللہ ہمارے لئے شراب کا حکم واضح کر دے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لاتقربوا الصلوۃ و انتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون۔ حضرت عمر (رض) نے دوبارہ یہی دعا مانگی جس پر یہ آیت اتری قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس پھر آپ نے دعا مانگی تو یہ آیت اتری انما الخمروالمیسر تا قول باری فھل انتم متتھون۔ حضرت عمر (رض) نے یہ آیت سن کر فرمایا :” ہم باز آئے، یہ شراب تو ہمارا مال بھی ضائع کردیتی ہے اور ہماری عقل بھی مار دیتی ہے۔ جعفر بن محمد کہتے ہیں کہ ہمیں ابوعبید نے، انہیں ہشیم نے، انہیں مغیرہ نے ابورزین سے، بیان کیا کہ سورة بقرہ اور سورة نساء کی آیتوں کے نزول کے بعد بھی شراب خوری جاری رہی۔ لوگ شراب پیتے رہتے حتی کہ نمازکا وقت ہوجاتا، اس وقت ہاتھ روک لیتے پھر سورة المائدہ کی آیت کے ذریعے اس کی تحریم ہوگئی جس میں قول باری ہے فھل انتم منتھون۔ لوگ اس سے باز آگئے اور پھر کبھی انہوں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قول باری قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس۔ تحریم پر دلالت نہیں کرتی۔ اگر تحریم پر اس کی دلالت ہوتی تو لوگ پھر پیتے کیوں۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں کیوں ایسا کرنے دیتے اور حضرت عمر (رض) اس کی وضاحت کے لئے کیوں سوال کرتے ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ لوگوں نے و منافع للناس کا مطلب یہ لیا ہو کہ اس کے منافع کو مباح سمجھنا جائز ہے۔ اس لئے کہ گناہ کو بعض خاص حالتوں میں محصور کردیا گیا تھا۔ اس طرح جو لوگ اس آیت کے نزول کے بعد بھی شراب پیتے رہے انہوں نے آیت سے تاویل کی بنا پر روگردانی کی تھی۔ رہ گیا یہ کہنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں ایسا کیوں کرنے دیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی روایت میں یہ بات نہیں بیان کی گئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم تھا یا یہ کہ علم ہوجانے کے بعد آپ نے انہیں ایسا کرنے دیا ہو۔ اس آیت کے نزول کے بعد جہاں تک حضرت عمر (رض) کی طرف سے وضاحت حاصل کرنے کی غرض سے سوال کرنے کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے چونکہ اس کے حکم میں تاویل کی گنجائش تھی حضرت عمر (رض) کو اس آیت کی تحریم پر دلالت کی وجہ کا بھی شعور تھا لیکن آپ نے وضاحت اس لئے چاہی تاکہ اس کے ذریعے تاویل کا احتمال ختم ہوجائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انما الخمروالمیسر تا قول باری فھل انتم منتھون نازل فرمائی۔ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شراب ابتداء اسلام میں مباح تھی اور مسلمان مدینے آنے کے بعد بھی پیتے تھے اور اس کی خرید و فروخت بھی کرتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم تھا اور آپ نے انہیں ایسا کرنے سے روکا نہیں حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حرمت کا حکم صادر فرما دیا بعض لوگوں کا خیال ہے کہا س کی علی الاطلاق تحریم آیت انما الخمروالمیسر تا قول باری فھل انتم منتھون میں نازل ہوئی۔ اس سے پہلے یہ صرف بعض حالات میں حرام تھی مثلاً اوقات صلوۃ میں جس کے لئے اس آیت میں ممانعت کا حکم تھا لاتقربوا الصلواۃ وانتم سکاری۔ اس وقت اس کے بعض منافع مباح تھے اور بعض ممنوع جس کے لئے یہ آیت تھی قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس۔ یہاں تک کہ اس کی تحریم کی تکمیل فھل انتم منتھون کے ذریعے ہوگئی ہم نے سابقہ سطور میں حکم تحریم کے متعلق ہر ایک آیت کے ظاہر کے متقضیٰ کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔- خمر کسے کہتے ہیں ؟- اسم خمر کن کن مشروبات کو شامل ہے ؟ اس میں اختلاف ہے۔ فقہاء کی اکثریت نے کہا ہے کہ حقیقت میں اسم خمرکا اطلاق انگور کے کچے رس پر ہوتا ہے جس میں جوش یا جھاگ پیدا ہوگئی ہو۔ اہل مدینہ کے ایک گروہ، امام مالک اور امام شافعی کا یہ خیال ہے کہ ہر ایسا مشروب جس کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کر دے وہ خمر ہے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ خمر نام ہے انگور کے کچے رس کا جس میں جھاگ پیدا ہوجائے کسی اور چیز کو خمر نہیں کہتے۔ اگر کسی اور چیز پر خمر کے نام کا اطلاق ہوا ہو تو وہ صرف اس وجہ سے ہوگا کہ اس چیز کو انگور کے رس پر محمول کیا گیا ہے اور مجازا اسے اس کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص لایا گیا جو نشہ کی حالت میں تھا۔ آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ آیا تو نے شراب تو نہیں پی ؟ اس نے کہا میں نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا جب سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حرام قرار دے دیا ہے۔ اس پر آپ نے پوچھا، پھر تم نے کیا پی رکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا ” خلیطین “ دو چیزوں کو ملا کر بنایا جانے والا مشروب۔ اس کی کئی شکلیں ہوتی تھیں جن میں سے بعض نشہ آور تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلیطین کو حرام قرار دیدیا۔ اس شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس مشروب سے اسم خمر کی نفی کردی لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کچھ نہیں کہا۔ اگر نعت یا شریعت کے لحاظ سے اس پر خمر کا اطلاق ہوسکتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو ایسا کہنے کی ہرگز اجازت نہ دیتے اس لئے کہ جس نام کے ساتھ حکم کا تعلق ہو اس کی نفی گویا حکم کی نفی ہوتی ہے۔ اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی مباح چیز کی ممانعت یا کسی ممنوع چیز کی اباحت کو کبھی باقی رہنے نہیں دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ تمام مشروبات سے اسم خمر کی نفی ہوگئی ہے صرف انگور کے کچے، تیز اور جھاگ دینے والے رس پر یہ بولا جاتا ہے۔ اس لئے کہ جب خلیطین پر خمر کے اسم کا اطلاق نہیں ہوتا حالانکہ اس میں سکرپیدا کرنے کی قوت ہوتی ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اسم خمر صرف اسی چیز کے لئے ہے جو ہم نے بیان کیا۔ اس پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی روایت ہمیں عبدالباقی بن قانع نے، انہیں محمد بن زکریا العلائی نے، انہیں العباس بن بکارنے، انہیں عبدالرحمن بن بشیرالغطفانی نے حارث سے، انہوں نے حضرت علی (رض) سے، آپ نے فرمایا حرام الخمر بعینھا والسکرمن کل شراب خمر بعینہ حرام ہے اور ہر مشروب سے پیدا ہونے والا نشہ بھی حرام ہے۔ عبدالباتی نے کہا ہمیں محمد بن زکریا العلائی نے روایت کی، انہیں شعیب بن واقد نے، انہیں قیس بن قطن سے، انہوں نے منذر سے، انہوں نے محمد بن الحنفیہ سے، انہوں نے حضرت علی (رض) سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی۔- ایک اور روایت ہمیں عبدالباتی نے کی۔ انہیں حسین بن اسحاق نے، انہیں عیاش بن ابوالولید نے، انہیں علی بن عباس نے، انہیں سعید بن عمار نے، انہیں الحارث بن النعمان نے کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ الخمر بعینھا حرام والسکرمن کل شواب خمر بعینہ حرام ہے اور ہر مشروب سے پیدا ہونے والا نشہ بھی حرام ہے۔ عبداللہ بن شداد نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی قسم کی روایت نقل کی ہے۔ انہوں نے یہ حدیث مرفوعاً بھی روایت کی ہے۔ یہ روایت بہت سے معانی پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ اسم خمر شراب کے ساتھ مخصوص ہے کسی اور مشروب کو شراب کا نام نہیں دیا جاتا۔ خمرانگور کے رس کو کہتے ہیں۔ انگور کے رس پر خمر کے اطلاق پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دیگر مشروبات پر اس اسم کا اطلاق نہیں ہوتا اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا والسکومن کل شواب، ہر مشروب سے پیدا ہونے والا نشہ حرام ہے۔ اس حدیث کی اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ بقیہ تمام مشروبات میں وہ مقدار حرام ہے جو سکر یعنی نشہ پیدا کرے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ان مشروبات میں سکر پیدا کرنے والی صورت پر حرمت کا حکم محدود نہ دیا جاتا اور تحریم کے لحاظ سے ان میں اور خمر میں فرق نہ رکھا جاتا۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ تحریم خمر کا حکم خمر تک محدود ہے۔- دوسرے مشروبات تک یہ حکم متعدی نہیں ہے۔ نہ ازروئے قیاس اور نہ ازروئے استدلال اس لئے کہ تحریم کے حکم کو عین خمر کے ساتھ متعلق کیا گیا ہے اور اس کی کسی صفت کا خیال نہیں کیا گیا ہے۔ یہ چیز قیاس کے جواز کی نفی کرتی ہے کیونکہ ہر وہ اصل جس میں قیاس کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس منصوص حکم کا تعلق بعینہ اس اصل کی ذات سے نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے اندر محدود ہوتا ہے بلکہ اس کے کسی وصف سے ہوتا ہے جو اس اصل کے فروغ میں پایا جاتا ہے اور جس کی بنیاد پر وہ حکم اس وصف کے تابع ہو کر اس کے موضوعات یا معلومات میں جاری ہوجاتا ہے۔ اس بات پر کہ تمام نشہ آور مشروبات کو اسم خمر شامل نہیں ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث دلیل ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الخمر من ھاتین الشجرتین لعنبۃ والخلۃ ۔ شراب ان دو درختوں یعنی انگور کی بیلوں اور کھجور کے درخت سے پیدا ہوتی ہے۔ اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد میں لفظ الخمر اسم جنس ہے کیونکہ اس پر الف لام داخل ہے اس لئے یہ لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے جس پر اسم کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اب کوئی ایسا مشروب باقی نہیں رہا جس پر اس نام کا اطلاق ہوتا ہو اور جو اس کے مدلول سے باہر ہو۔ اس کلیے سے اس کی نفی ہوگئی کہ ان دو درختوں سے حاصل ہونے والے مشروب کے سوا کسی اور مشروب کو خمر کے نام سے پکاراجائے۔ پھر ہم نے اس پر غور کیا کہ آیا ان دونوں درختوں سے نکلنے والی ہر شے کو خمر کہا جاتا ہے یا نہیں ؟ جب سب کو اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں سے نکلنے والی ہر شے کو خمر نہیں کہا جاتا، کیونکہ شیرہ، سرکہ اور پکا ہوا گاڑھا شیرہ وغیرہ بھی ان ہی دو درختوں کے ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی خمر نہیں کہا جاتا۔ تو ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سے مراد ان درختوں سے نکلنے والی بعض اشیاء ہیں لیکن حدیث میں ان بعض اشیاء کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں اس بات کی ضرورت پیش آگئی کہ اس حدیث کے معنی مراد پر استدلال کے لئے کسی اور حدیث کا سہارا لیں تاکہ ان دونوں درختوں میں سے نکلنے والی بعض اشیاء پر اسم خمر کے اطلاق کو ثابت کیا جاسکے۔- اس صورتحال کے پیش نظر ان دونوں درختوں سے نکلنے والی تمام اشیاء کی تحریم اور ان پر اسم خمر کے اطلاق کے لئے اس حدیث سے استدلال ساقط ہوگیا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ مراد یہ ہو کہ ان دونوں میں سے ایک درخت میں شراب ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے یخرج منھما اللولووالمرجان۔ ان دونوں میں سے موتی اور مرجان یعنی مونگے نکلتے ہیں) یا جس طرح کہ یہ قول باری ہے یا معشوالجن والانس الم یا تکم رسل منکم۔ اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پاس تم میں سے پیغمبر نہیں آئے ؟ ) دونوں آیتوں میں مراد احدھما یعنی مذکورہ دو چیزوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح یہاں بھی یہ جائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول میں دونوں درختوں میں سے ایک مراد ہو۔ اگر دونوں ہی مراد ہوں تو ظاہر لفظ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو چیز خمر کا مسمی ہے وہ پہلا مشروب ہے جو ان دونوں سے تیار کیا جائے اس لئے کہ جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے من ھاتین الشجرتین فرما کر ان دونوں میں سے ہر ایک کے بعض مشروبات مراد نہیں لئے کیونکہ ان میں سے بعض کا خمر ہونا محال ہے۔ یہ تو اس بات کی دلیل ہوگئی کہ اس سے مراد ان دونوں سے نکلنے والا پہلا مشروب ہے اس لئے کہ حرف من لغت میں کئی معانی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ تبعیض کے لئے ہوتا ہے اور یہ ابتداء کے معنی بھی دیتا ہے۔ مثلا آپ کہتے ہیں خرجت من الکوفہ (میں کوفہ سے نکلا) یا ھذا کتاب من فلان، (یہ فلاں کی طرف سے خط ہے) یا اسی طرح کے اور جملے۔ اس لئے حدیث میں آنے والا لفظ من۔ ان دونوں درختوں سے ابتدائی طور پر نکلنے والی اشیاء کا معنی دے گا اور یہ صرف جھاگ والے شیرے، اور کھجور کے بہنے والے شیرے کو جب اس میں جھاگ آجائے پر محمول ہوگا۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص نے یہ قسم کھائی کہ میں اس کھجور کے درخت سے نہیں کھائوں گا تو اس کی قسم کو اس سے پیدا ہونے والی تر کھجور، خرما اور شیرے پر محمول کیا جائے گا اس لئے کہ انہوں نے من کو ابتداء کے معنوں میں لیا ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ درج بالا سطور میں جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس مشروب کے سوا جس کی خاصیت ہم نے بیان کردی ہے یعنی انگور کا تیز کچا جھاگ دار رس، بقیہ تمام مشروبات سے اسم خمر کا انتفاء ہوگیا ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ جس دن شراب حرام ہوئی اس دن مدینے میں شراب نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ حضرت ابن عمر (رض) کی مادری زبان عربی تھی اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ تحریم خمر کے نزول کے وقت مدینے میں نشہ آور مشروبات اور خرما سے بنائی جانے والی دیگر مشروبات بھی تھیں، اس لئے کہ اہل مدینہ کی مشروبات اسی طرح کی تھیں۔- اسی بنا پر حضرت جابر بن عبداللہ نے فرمایا ” تحریم خمر کا حکم جب نازل ہوا تو اس وقت لوگ خشک کھجور اور بشر یعنی گدر کھجور سے بنی ہوئی مشروبات کے سوا اور کوئی مشروب استعمال نہیں کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں : جب تحریم خمر کی آیت اتری تو اس وقت میں اپنے ماموں کے خاندان کے افراد کو مشروب پلانے کا کام میرے ذمہ تھا، اس وقت وہ لوگ فضیح یعنی سرخ یا زرد کھجور سے بنی ہوئی مشروبات استعمال کرتے تھے۔ جب انہوں نے تحریم خمر کا اعلان بنا تو جس قدر بھی مشروبات تھیں انہوں نے سب کو بہا دیا۔ حضرت ابن عمر (رض) نے جب تمام مشروبات سے اسم خمر کی نفی کردی تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ آپ کے نزدیک شراب صرف انگور کا تیز جھاگ دار کچا رس تھی اور اس کے سوا کوئی مشروب بھی شراب نہیں کہلاتا تھا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ عرب کے لوگ شراب کو سبیئۃ (پینے کے لئے خریدی ہوئی شراب بھی کہتے تھے لیکن کھجور سے بنی ہوئی تمام مشروبات پر اس نام کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ غیر ممالک سے اسے درآمد کیا جاتا تھا۔ اعشیٰ کا شعر ہے)- وسبیئۃ مما یعتق ببابل کدم المذبیح سلب تھا جریالھا۔۔۔ ایسی شراب جو بابل میں تیار ہوئی تھی جس کا رنگ اس ذبح شدہ جانور کے خون کی طرح تھا۔ جس کی کھال تم نے اتار لی ہو۔ جب آپ شراب پئیں تو آپ کہیں گے سبئات الخمر (میں نے شراب پی) اس اسم کا اطلاق تو پہلے خمر پر اس لئے ہوتا تھا کہ اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا پھر کلام میں اتساع کی بنیاد پر جو عربوں کی عادت تھی اس اسم کا اطلاق خریدی ہوئی شراب پر ہونے لگا۔ ابوالاسودالدولی کے یہ دو شعر بھی ہمارے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں : دع الخموتشربھا الغواۃ فاننی رایت اخاھا مغنیب المکانھا۔۔ فان لاتکنہ اویکنھا فانہ ۔ اخوبھا غذتہ امہ بلبانھا۔۔ الف۔ شراب کو بےراہ رو لوگوں کے لئے رہنے دو کہ وہی اسے پیتے پلاتے رہیں کیونکہ میں نے اس کے بھائی (دوسری مشروبات) کو اس کی ضرورت سے بےپروا کردینے والا پایا ہے۔ ب۔ اگر شراب ہوبہو اپنے بھائی جیسی نہیں یا بھائی ہوبہو شراب جیسا نہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہرحال یہ اس کا بھائی ہے جسے اس کی ماں نے اپنا دودھ پلا کر اس کی پرورش کی ہے۔ شاعر نے دوسری مشروبات کو شراب کا بھائی قرار دیا اور ظاہر ہے کہ دوسری مشروبات پر اگر خمر کا اطلاق ہوتا تو شاعر انہیں اس کا بھائی قرار نہ دیتا۔ پھر شاعر نے اپنے قول کی یہ کہہ کر تاکید کردی کہ چاہے شراب اور دیگر مشروبات ہو بہو ایک جیسی نہیں ہیں تاہم دیگر مشروبات بہرصورت اس کے بھائی ہیں جنہیں اس کی ماں نے اپنا دودھ پلا کر پالا ہے۔ اس طرح شاعر نے یہ بتادیا کہ شراب یعنی خمر علیحدہ چیز ہے اور دیگر مشروبات علیحدہ چیز ہیں۔- اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی احادیث، اقوال صحابہ اور اہل لغت کی توضیحات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خمر کے اسم کا اطلاق صرف اس مشروب پر ہوتا ہے جو ہم نے بیان کیا یعنی انگور کا جھاگ دار کچا رس کسی اور مشروب پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ خشک اور گدر کھجور سے بنی ہوئی مشروبات کا استعمال اہل مدینہ میں شراب کے استعمال سے زیادہ عام تھا چونکہ اہل مدینہ کے ہاں شراب کی قلت تھی اس لئے اس کا استعمال بھی بہت کم تھا۔ اب جبکہ تمام صحابہ کرام انگور کے کچے جھاگ دار رس کی تحریم پر متفق تھے لیکن دوسرے مشروبات کے متعلق وہ مختلف الرائے تھے اور جلیل القدر صحابہ مثلاً حضرت عمر (رض) حضرت عبداللہ (رض) ، حضرت ابوذر (رض) وغیرہ ہم سے گاڑھے نبیذ کا استعمال منقول ہے۔ اسی طرح تمام تابعین اور ان کی جگہ لینے والے فقہائے اہل عراق بھی ان مشروبات کی حرمت کے قائل نہیں اور نہ ہی ان پر خمر کے اسم کا اطلاق کرتے ہیں بلکہ اس کی نفی کرتے ہیں تو اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ اول یہ کہ دیگر مشروبات پر لفظ خمر کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس کے ذیل میں آتی ہیں اس لئے کہ تمام لوگ شراب پینے والے کی مذمت پر متفق ہیں اور شراب ممنوع اور حرام ہے۔ دوم یہ کہ نبیذ حرام نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سب لوگ اس کی حرمت سے اسی طرح واقف ہوتے جس طرح وہ شراب یعنی خمر کی حرمت سے واقف تھے کیونکہ اہل مدینہ میں شراب کے مقابلے میں دوسری مشروبات کا زیادہ رواج تھا اس بنا پر شراب کی حرمت کے مقابلے میں دوسری مشروبات کی حرمت سے باخبر ہونے کی انہیں زیادہ ضرورت تھی۔ اور قاعدہ ہے کہ عموم بلویٰ (ایسی بات جس میں عامۃ الناس مبتلا ہوں) کی ذیل میں آنے والے احکام کے ثبوت کیا یک ہی صورت ہوتی ہے کہ تواتر کے ساتھ وہ منقول ہوں کہ اس تواتر کی وجہ سے علم بھی حاصل ہوجائے اور عمل بھی واجب ہوجائے۔ اس بنا پر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں نے تحریم خمر کے حکم سے ان مشروبات کی تحریم نہیں سمجھی اور نہ ہی ان مشروبات کو خمر کا نام دیا گیا۔ جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایسی مشروبات جن کی کثیر مقدار نشہ آور ہو وہ سب کی سب خمر ہیں۔ ان کی دلیل ذیل کی روایات ہیں۔ اول حضرت ابن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا (کل مسکوخمر ہر نشہ آور چیز خمر ہے)- شراب کن اشیاء سے بنتی ہے ؟۔۔۔۔ دوم شعبی نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ الخ مومن خمسۃ اشیاء التمروالغب و الشعیروالحنطۃ والعل۔ شراب پانچ چیزوں سے کشید ہوتی ہے، کھجور، انگور، گندم، جو اور شہد سے) حضرت عمر (رض) سے بھی اسی طرح کا قول مروی ہے۔ سوم حضرت عمر (رض) سے منقول ہے آپ نے فرمایا : خمر اسے کہتے ہیں جو عقل میں خمار پیدا کر دے “ یعنی عقل کام کرنے سے عاجز رہ جائے۔ چہارم طائوس نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کل مخمرخمروکل مسکوحرام۔ ہر وہ چیز جو عقل پر پردہ ڈال دے خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ پنجم حضرت انس (رض) سے مروی ہے آپ نے فرمایا : جب شراب کی حرمت کا اعلان ہوا تو میں اس وقت ابوطلحہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ اس زمانے میں ہماری شراب سرخ اور زردرنگ کی کھجوروں کی کشید ہوتی تھی۔ جیسے ہی شراب کی حرمت کی آواز کان میں پڑی ان سب نے برتنوں سے شراب انڈیل دی اور برتن توڑ دیئے ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تمام مشروبات کو شراب کا نام دیا ہے۔ اسی طرح حضرت عمر (رض) ، حضرت انس (رض) اور حضرات انصار (رض) رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تحریم خمر سے فضیح یعنی گدر کھجور سے کشید کی ہوئی شراب کی تحریم بھی سمجھ لی چناچہ انہوں نے اسے بہا دیا اور برتن توڑ ڈالے، ان مشروبات پر شراب کے نام کا اطلاق یا تو لغت کے لحاظ سے ہوا ہوگا یا شریعت کی طرف سے۔ تاہم جس طرف سے بھی یہ اطلاق ہوجائے اس سے دلیل کا ثبوت ہوجائے گا اور ان مشروبات کو شراب کا نام دینا درست ہوگا غرض اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایسی تمام مشروبات جن کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو وہ خمر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے انکی حرمت کا ثبوت لفظ خمر کی بنا پر موجود ہے۔ اس اعتراض کا اللہ کی توفیق سے جواب درج ذیل ہے۔ جتنے اسم ہیں ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم تو وہ ہے جس میں ایک اسم کا اطلاق اپنے مسمی پر حقیقی طور پر ہوتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں ایک اسم کا اطلاق اپنے مسمی پر مجازی طور پر ہوتا ہے۔ پہلی قسم کا حکم ہے کہ وہ جہاں بھی ملے اسے اس کے حقیقی معنی میں استعمال کرنا واجب ہوتا ہے دوسری قسم کا حکم یہ ہے کہ اس کا استعمال اسی وقت واجب ہوتا ہے جب کوئی دلیل موجود ہو۔ پہلی قسم کی مثال یہ قول باری ہے یرید اللہ لیبین لکم اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم پر واضح کر دے) نیز واللہ یریدان یتوب علیکم اور اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے) یہاں لفظ ارادہ کا اطلاق اس کے حقیقی معنی پر ہوا ہے۔ دوسری قسم کی مثال یہ قول باری ہے فوجدافیھا جداًرایرید ان ینقض ان دونوں یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے بستی میں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی) اس مقام پر لفظ ارادہ کا اطلاق مجازاً ہوا ہے، حقیقتاً نہیں۔ قول باری انما الخمروالمیسو۔ میں لفظ خمر کا اطلاق حقیقی طور پر ہوا ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے انی ارانی اعصر خمراً ۔ میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے ہوئے پا رہا ہوں) یہاں لفظ خمر کا اطلاق مجازاً ہوا ہے اس لئے کہ انگور نچوڑے جاتے ہیں شراب نہیں نچوڑی جاتی۔ اسی طرح قول باری ہے ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا۔- اے ہمارے پروردگار ہمیں اس گائوں سے نکال جس کے رہنے والے بڑے ظالم ہیں) یہاں قریہ کا نام اپنے حقیقی معنیوں میں استعمال ہو رہا ہے اور اس سے مراد گائوں کی عمارات ہیں۔ پھر قول باری ہے واسئل القریۃ التی کنا فیھا۔ جس گائوں میں ہم لوگ ٹھہرے ہوئے تھے اس سے پوچھ لو) یہاں قریہ کا لفظ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے اور مجاز مرسل کے طور پر مراد اہل قریہ ہیں۔ حقیقت مجاز سے اس لحاظ سے جدا ہوتی ہے کہ جو معنی اس کے مسمی کو لازم ہوجائے اور وہ کسی حالت میں بھی اس سے منتفی نہ ہو۔ وہ معنی اس مسمی کے لئے حقیقت ہوتا ہے اور اگر اس معنی کا اس مسمی سے منتفی ہونا جائز ہو تو وہ اس کے لئے مجاز ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر آپ یہ کہیں کہ دیوار کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا تو آپ کی بات سچی ہوگی لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ نہیں کرتا “ یا ” انسان عاقل کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا “ تو اس کی یہ بات غلط ہوگی۔ اسی طرح آپ کا یہ کہنا تو درست ہوگا کہ ” شیرہ شراب نہیں ہے “ لیکن یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ” انگور کا کچا رس جس میں تیزی اور جھاگ آجائے وہ خمر نہیں ہے۔ لغت اور شریعت میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ایسے اسمائے شرعیہ جو معنی میں اسمائے مجاز ہوں ان کے استعمال کے سلسلے میں ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ جن مواقع پر ان کا اطلاق ہوا ہے ان سے آگے بڑھ کر کسی اور موضع میں بھی ہم انہیں استعمال کرلیں۔- جب ہم نے یہ دیکھا کہ لفظ خمر کا اطلاق دیگر تمام مشروبات سے منتفی ہے تو یہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ یہ مشروبات شراب کے ذیل میں نہیں آتی ہیں، لفظ خمر کا اطلاق صرف انگور کے اس کچے رس پر ہوتا ہے جس میں تیزی اور جھاگ پیدا ہوجائے۔ حضرت ابوسعید (رض) خدری کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا۔ اس وقت وہ نشے میں مست تھا۔ آپ نے پوچھا کہ تونے شراب پی رکھی ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ بخدا میں نے اس دن سے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا جس دن سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ حضور نے پھر اس سے پوچھا کہ آخرتم نے کیا چیز پی ہے جس سے تم کو نشہ ہوگیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے خلیطین پی رکھی ہے (اس سے مراد وہ مشروب ہے جو دو چیزوں کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے) یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلیطین کو بھی حرام قرار دیدیا۔ یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے خلیطین سے اسم خمر کا انتفاء کردیا لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کچھ نہیں کہا۔ اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ خلیطین شراب نہیں ہے۔ نیز حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ جس وقت شراب حرام ہوئی ہے اس وقت مدینہ منورہ میں شراب نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ حضرت ابن عمر (رض) نے کھجور سے بنی ہوئی تمام مشروبات سے شراب کے نام کی نفی کردی جبکہ یہ مشروبات تحریم خمر کے وقت ان کے پاس موجود تھیں۔ نیز اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ الخ مومن ھاتین الشجرتین شراب ان دودرختوں سے بنتی ہے) اس روایت کی سند اس روایت کی سند سے زیادہ صحیح ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول مندرج ہے کہ الخمرمن خمسۃ اشیاء شراب پانچ چیزوں سے تیار ہوتی ہے) ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث کے ذریعہ ان دونوں درختوں کے سوا کسی اور چیز سے نکلنے والے مشروب سے شراب ہونے کی نفی کردی) اس لئے کہ آپ کا یہ قول الخ مومن ھاتین الشجرتین) اسم جنس سے ہے جو اس اسم یعنی خمر کے ذیل میں آنے والی تمام مسمیات کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یہ روایت اس روایت کی معارض ہے جس میں یہ مذکورہ ہے کہ شراب پانچ اشیاء سے بنتی ہے یہ روایت سند کے لحاظ سے اس روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اتفاق ہے کہ خمر کو حلال سمجھنے والا کافر ہے جبکہ ان مشروبات کو حلال سمجھنے والے پر فسق کا دھبہ بھی نہیں لگ سکتا چہ جائیکہ اسے کافر کہا جائے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ مشروبات حقیقت میں خمر نہیں ہیں۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ ان مشروبات سے بنا ہوا سرکہ خمر کا سرکہ نہیں کہلاتا ہے بلکہ خمر کا سرکہ وہ ہوتا ہے جو انگور کے کچے اور تیز رس سے بنایا جاتا ہے جو جھاگ دار ہوتا ہے۔ ہمارے مذکورہ بالا بیان سے جب ان مشروبات پر خمر کے اسم کے اطلاق کی نفی ہوگئی تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حقیقت میں خمر ان مشروبات کے لئے اسم ہی نہیں ہے اور اگر کسی وجہ سے ان مشروبات کو خمر کا نام دیا بھی جاتا ہے تو وہ تشبیہ کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ ان مشروبات میں سکر بھی پایا جائے۔- اس لئے ان مشروبات پر تحریم خمر کا اطلاق جائز نہیں ہوگا کیونکہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ حقیقی معنوں میں استعمال ہونے والے اسماء کے تحت اسمائے مجاز کا دخول درست نہیں ہوتا۔ اس بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول الخمرمن خمسۃ اشیاء) کو اس حال پر محمول کرنا چاہیے جس میں سکر یعنی نشہ پیدا ہوجائے اسے خمر کا نام اس لئے دیا گیا کہ اس میں وہی عمل ہوا جو خمر کا ہے یعنی نشہ پیدا کرنا اور سزا میں حد کے اجرا کا مستحق ہونا۔ اگر دیگر مشروبات نشہ پیدا کردیں تو اس حالت میں وہ خمر کہلانے کی مستحق ہوجاتی ہیں۔ اس پر حضرت عمر (رض) کا یہ قول دلالت کرتا ہے کہ ” خمر وہ ہے جو عقل پر پردہ ڈال دے “۔ نبیذ کی قلیل مقدار عقل پر پردہ نہیں ڈالتی ہے۔ اس لئے کہ ماخا مدالعقل کے معنی ہیں وہ چیز جو عقل کو پوری طرح ڈھانپ لے، یہ بات ان مشروبات کی قلیل مقدار میں موجود نہیں بلکہ کثیر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ جب ہمارے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان مشروبات پر اسم خمر کا اطلاق بطور مجاز ہوتا ہے تو اب اس اسم کا استعمال صرف اسی مقام میں ہوگا جہاں اس کے استعمال کے لئے دلالت موجود ہوگی۔- اس لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ تحریم خمر کے اطلاق کے تحت ان مشروبات کو بھی مندرج کردیا جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک دفعہ جب مدینہ منورہ میں ایک ہراس کی کیفیت پیدا ہوگئی تو اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوطلحہ (رض) کے گھوڑے پر سوار ہو کر صورت حال معلوم کرنے کے لئے شہر کا چکر لگایا۔ واپس آکر آپ نے فرمایا کہ وجدناہ بحرا۔ ہم نے اس گھوڑے کو سمندر پایا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑے کی تیز رفتاری اور لمبے لمبے ڈگ بھرنے کی وجہ سے اسے سمندر کا نام دیا لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ سمندر کے لفظ کے اطلاق سے تیز رفتار گھوڑے کا معنی سمجھ میں آئے۔ نابغہ ذبیانی نے نعمان بن المنذر کی قصیدہ خوانی کرتے ہوئے یہ شعر کہا ہے۔ فانک شمس والملوک کواکب۔۔ اذا طلعت لم یبد منھن کوکب۔ اے نعمان تو سورج ہے اور تیرے مقابلے میں باقی تمام بادشاہ ستارے ہیں جب سورج طلوع ہوجاتا ہے تو کوئی ستارہ نظر نہیں آتا۔ نہ تو نعمان کا نام سورج تھا اور نہ ہی دوسرے بادشاہوں کے نام ستارے تھے۔ غرض ہمارے بیان سے یہ بات درست ہوگئی کہ خمر کا اسم ان مشروبات کے لئے نہیں بولا جاتا۔ اس کا حقیقی استعمال انگور کے تیز اور جھاگ دار کچے رس کے لئے مخصوص ہے۔ دوسری مشروبات پر اس کا اطلاق مجازاً ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔- جوئے کی حرمت - ارشاد باری ہے یسئلونک عن الخمروالمیسر قل فیھما اثم کبیر۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس ارشاد باری کی جوئے کی حرمت پر دلالت خمر کی حرمت پر دلالت کی طرح ہے جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ لغت کے لحاظ سے میسر کا اسم تجزیہ یعنی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے معنی ادا کرتا ہے۔ محاورے میں جس چیز کے آپ ٹکڑے ٹکڑے کریں اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ یسرتہ (میں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے) ۔ اسی طرح اونٹ کو ذبح کر کے اس کے ٹکڑے کرنے والے (جازر) کو یا سو کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ اونٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے خود اونٹ کو بھی میسر کہا جاتا ہے جب کہ اس کے ٹکڑے کردیئے جائیں۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا طریقہ تھا کہ وہ اونٹ ذبح کر کے اس کے ٹکڑے کردیتے اور ان ٹکڑوں پر جوئے کے تیروں کے ذریعے پانسے ڈالتے جس کا پانسہ نکلتا اس پر لگے ہوئے نشان کو دیکھتے۔ پھر اسی نشان کے حساب سے انہیں حصے ملتے۔ اس بنا پر جوئے کی تمام شکلوں پر لفظ میسر کا اطلاق کیا گیا۔ حضرت ابن عباس (رض) ، قتادہ، معاویہ بن صالح، عطاء، طائوس اور مجاہد کا قول ہے کہ المیسر سے مراد قمار یعنی جوا ہے۔ عطاء، طائوس، اور مجاہد کا یہ بھی قول ہے کہ اس کا اطلاق اس کھیل پر بھی ہوگا جو بچے اخروٹ اور نرد کے مہروں کے ذریعے کھیلتے ہیں۔ علی بن زید سے یہ روایت ہے جو انہوں نے قاسم سے، انہوں نے ابوامامہ سے انہوں نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا اجتنبواھذہ الکعاب الموسومۃ التی یزجربھا زجراً فانھا من المیسر نرد کے ان نشان زدہ مہروں سے بچو جن سے شگون لیا جاتا ہے کیونکہ یہ بھی جوئے کی ایک صورت ہے) ۔- سعید بن ابی ہند نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لعب بالنردفقد عصی اللہ ورسولہ۔ جو شخص نرد کے مہروں سے کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی) ۔ حماد بن سلمہ نے قتادہ سے، انہوں نے کلاس سے یہ روایت کی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم اتنے انڈے کھالو گے تو تمہیں فلاں چیز دے دوں گا۔ جب یہ معاملہ حضرت علی (رض) کے پاس پہنچا تو آپ نے اسے قمار قرار دے کر اس سے روک دیا۔ اہل علم کے درمیان جوئے کی حرمت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے نیز یہ کہ شرط لگانا بھی جوا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ شرط لگانا جوا ہے۔ پہلے شرط لگانا جائز تھا پھر حرام ٹھہرا۔۔۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنا مال اور اپنی یبوی تک کی شرط لگا دیتے تھے۔ یہ بات ان کے ہاں درست تھی حتی کہ اس کی حرمت نازل ہوگئی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے مشرکین سے شرط لگائی تھی جب یہ آیت نازل ہوئی الم غلبت الروم۔ رومی مغلوب ہوگئے) اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا تھا کہ شرط میں اضافہ کر دو اور مدت بڑھا دو ۔ پھر آپ نے شرط لگانے کی ممانعت کردی اور جوئے کی حرمت کے ساتھ شرط لگانے کی اباحت منسوخ ہوگئی۔ اس کی ممانعت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یکطرفہ شرط جائز ہے۔۔۔ البتہ اونٹوں، گھوڑوں کی دوڑ اور تیراندازی کے مقابلے میں شرط لگانے کی اجازت ہے۔ جب اس کی صورت یہ ہو کہ جیتنے کی صورت میں لینے والا ایک ہو لیکن اگر دوسرا جیت جائے تو وہ کچھ بھی نہ لے۔ اگر دونوں نے یہ شرط لگائی کہ جو جیت جائے گا وہ لے لے گا اور جو ہار جائے گا وہ دے دے گا تو یہ شرط باطل ہوگی۔- اگر ان دونوں نے اپنے درمیان ایک تیسرے شخص کو اس شرط پر داخل کرلیا کہ اگر وہ جیت جائے گا تو مستحق ہوجائے گا اور اگر نہیں جیتے گا تو اسے کچھ نہیں ملے گا تو یہ شرط جائز ہوگی۔ اس تیسرے شخص کا نام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محلل یعنی حلال کردینے والا رکھا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا لاسبق الافی خف اوحافراونصل مسابقت صرف اونٹوں یا گھوڑوں یا تیروں میں ہوسکتی ہے) ۔ حضرت ابن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے گھوڑوں میں مسابقت کرائی تھی۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے ذریعے گھوڑوں کو دوڑنے کی مشق ہوتی ہے اور انہیں دوڑ کی عادت ہوجاتی ہے۔ نیز اس کے ذریعے دشمن کے خلاف اپنی قوت اور طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ قول باری ہے واعدوالھم مااستعطعتم من قوۃ دشمنوں کے مقابلے کے لئے جہاں تک تم سے وہ سکے طاقت اور قوت تیار کرو) روایت میں ہے کہ اس سے مراد تیراندازی ہے نیز ومن رباط الخیل۔ اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے) اس قول باری کا اقتضا یہ ہے کہ گھڑ دوڑ کے مقابلے جائز ہوں کیونکہ دشمن کے خلاف اس کے ذریعے طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے۔ یہی کیفیت تیراندازی کی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جوئے کی حرمت کا جو ذکر فرمایا ہے وہ غلاموں میں قرعہ اندازی کی تحریم کا بھی موجب ہے جبکہ انہیں آزاد کرنے والا شخص بیمار ہو اور پھر وہ مرجائے۔ اس لئے کہ اس میں جوئے کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی کسی کو کامیاب بنادینا اور کسی کو ناکام۔- البتہ تقسیم میں قرعہ اندازی جائز ہے کیونکہ اس صورت میں ہر شخص کو اس کا پورا پورا حصہ مل جاتا ہے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے صرف اس کی تعیین ہوتی ہے۔ اس میں کسی ایک کے غالب آجانے کا امکان نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔
(٢١٩) اگلی آیت حضرت عمر فاروق (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ یا الہ العالمین، شراب کے بارے میں کوئی صاف حکم بیان فرمادے، اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجیے کہ ان میں حرمت کے بعد بہت بڑا گناہ ہے اور حرمت سے پہلے کے لیے تجارت وغیرہ کے معمولی سے فوائد ہیں مگر تحریم سے پہلے جو اس میں نفع ہے اس سے بہت زیادہ حرمت کے بعد ان میں گناہ ہے پھر اس کے بعد دونوں صورتوں میں شراب حرام کردی گئی ،- یہ آیت حضرت عمرو بن جموع (رض) کے بارے میں اتری ہے انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ ہم اپنے مال سے کیا صدقہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ہم اپنے مال میں سے کیا صدقہ کریں، آپ کہہ دیں کہ جو اپنے کھانے اور بچوں کی پرورش سے بچ جائے، پھر اس کے بعد یہ حکم آیت زکوٰۃ سے منسوخ ہوگیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ اوامرو نواہی اور دنیا کی ذلت کو بیان فرماتا ہے تاکہ تم جان لو کہ دنیا فنا ہونے والی ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔- شان نزول : (آیت) ” یسئلونک ماذا ینفقون “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے سعید یا عکرمہ (رح) کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا حکم دیا گیا تو صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ کس قسم کے نفقہ کا ہمارے اموال میں حکم دیا گیا ہے سو ہم کیا خرچ کریں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” یسئلونک ماذا ینفقون “۔ اور ابن ابی حاتم (رح) نے یحییٰ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان تک بات پہنچی ہے کہ حضرت معاذ (رض) اور ثعلبہ (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس غلام بھی ہیں اور گھر والے بھی ہیں تو ہم اپنے اموال میں سے کیا خرچ کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتاری۔- (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢١٩ (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ط) - ان احکام سے شریعت کا ابتدائی خاکہ ( ) تیار ہونا شروع ہوگیا ہے ‘ کچھ احکام پہلے آ چکے ہیں اور کچھ اب آ رہے ہیں۔ شراب اور جوئے کے بارے میں یہاں ابتدائی حکم بیان ہوا ہے اور اس پر محض اظہار ناراضگی فرمایا گیا ہے۔- (قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ) (وَمَنَافِعُ للنَّاسِز) (وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ط) ۔ - یعنی اشارہ کردیا گیا کہ ان کو چھوڑ دو ۔ اب معاملہ تمہاری عقل سلیم کے حوالے ہے ‘ حقیقت تم پر کھول دی گئی ہے۔ یہ ابتدائی حکم ہے ‘ لیکن حکم کے پیرائے میں نہیں۔ بس واضح کردیا گیا کہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ‘ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ بقول غالب : - مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ؟- اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے - اور : - میں میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گیا - ورنہ سفر حیات کا بیحد طویل تھا - یہ حکمت سمجھ لیجیے کہ شراب اور جوئے میں کیا چیز مشترک ہے کہ یہاں دونوں کو جمع کیا گیا ؟ شراب کے نشے میں بھی انسان اپنے آپ کو حقائق سے منقطع کرتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے۔ وہ زندگی کے تلخ حقائق کا مواجہہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ع اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے ۔۔ اور جوئے کی بنیاد بھی محنت کی نفی پر ہے۔ ایکّ رویہ تو یہ ہے کہ محنت سے ایک آدمی کما رہا ہے ‘ مشقت کر رہا ہے ‘ کوئی کھوکھا ‘ چھابڑی یا ریڑھی لگا کر کچھ کمائی کر رہا ہے ‘ جبکہ ایک ہے چانس اور داؤ کی بنیاد پر پیسے کمانا۔ یہ محنت کی نفی ہے۔ چناچہ شراب اور جوئے کے اندر اصل میں علت ایک ہی ہے۔ - (وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط) - آیت ١٩٥ میں انفاق کا حکم بایں الفاظ آچکا ہے : (وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ج) اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ جھونکو۔ تو سوال کیا گیا کہ کتنا خرچ کریں ؟ ہمیں کچھ مقدار بھی بتادی جائے۔ فرمایا :- (قُلِ الْعَفْوَ ط) جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔ - اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ تم اپنی ضرورتوں کو پیچھے ڈال دو ‘ بلکہ تم پہلے اپنی ضرورتیں پوری کرو ‘ پھر جو تمہارے پاس بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو ۔ کمیونزم کے فلسفہ میں ایک اصطلاح قدر زائد ( ) استعمال ہوتی ہے۔ یہ ہے اَلْعَفْوَ ۔ جو بھی تمہاری ضروریات سے زائد ہے یہ ہے ‘ اسے اللہ کی راہ میں دے دو ۔ اس کو بچا کر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ پر بےاعتمادی کا اظہار کرر ہے ہیں کہ اللہ نے آج تو دے دیا ہے ‘ کل نہیں دے گا۔ لیکن یہ کہ انسان کی ضرورتیں کیا ہیں ‘ کتنی ہیں ‘ اس کا اللہ نے کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا۔ اس کا تعلق باطنی روح سے ہے۔ ایک مسلمان کے اندر اللہ کی محبت اور آخرت پر ایمان جوں جوں بڑھتا جائے گا اتنا ہی وہ اپنی ضرورتیں کم کرے گا ‘ اپنے معیارِزندگی کو پست کرے گا اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے گا۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص یہ دیکھے کہ جو میری ضرورت سے زائد ہے اسے میں بچا بچا کر نہ رکھوں ‘ بلکہ اللہ کی راہ میں دے دوں۔ انفاق فی سبیل اللہ پر اس سورة مبارکہ میں پورے دو رکوع آگے آنے والے ہیں۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :235 ( یہ شراب اور جوے کے متعلق پہلا حکم ہے ، جس میں صرف اظہار ناپسندیدگی کر کے چھوڑ دیا گیا ہے ، تاکہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ بعد میں شراب پی کر نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ۔ پھر شراب اور جوے اور اس نوعیت کی تمام چیزوں کو قطعی حرام کر دیا گیا ۔ ( ملاحظہ ہو سُورہ نساء ، آیت ٤۳ و سُورہ مائدہ ، آیت ۹۰ )
142: چونکہ اہل عرب صدیوں سے شراب کے عادی تھے، اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس کی حرمت کے اعلان میں تدریج سے کام لیا۔ پہلے سورۂ نحل (۶۱: ۷۶) میں ایک لطیف اشارہ دیا کہ نشہ لانے والی شراب اچھی چیز نہیں ہے۔ پھر سور البقر کی اس آیت میں قدرے وضاحت سے فرمایا کہ شراب پینے کے نتیجے میں انسان سے بہت سی ایسی حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں جو گناہ ہیں، اور اگرچہ اس میں کچھ فائدے بھی ہیں، مگر گناہ کے امکانات زیادہ ہیں۔ پھر سورۂ نسا (۴: ۳۴) میں یہ حکم آیا کے نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھو بالاآخر سورہ مائدہ (۵: ۰۹۔ ۱۹) میں شراب کو ناپاک اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے مکمل پرہیز کرنے کا صاف صاف حکم دے دیا گیا۔ 143: بعض صحابہ سے منقول ہے کہ انہوں نے صدقہ کا ثواب سن کر اپنی ساری پونجی صدقہ کردی یہاں تک کہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے کچھ نہ چھوڑا، اور گھر والے بھوکے رہ گئے، اس آیت نے بتلایا کہ صدقہ وہی درست ہے جو اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضرورت پوری کرنے کے بعد کیا جائے، چنانچہ آنحضرتﷺ نے متعدد احادیث میں اس پر زور دیا ہے کہ صدقہ اتنا ہونا چاہئے کہ گھر والے محتاج نہ ہوجائیں۔