Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مزید وضاحت: اس آیت میں صاف دلالت ہے اس امر پر کہ پہلی آیت میں جن عورتوں کیلئے متعہ مقرر کیا گیا تھا وہ صرف وہی عورتیں ہیں جن کا ذِکر اس آیت میں تھا کیونکہ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ دخول سے پہلے جبکہ طلاق دے دی گئی ہو اور مہر مقرر ہو چکا ہو تو آدھا مہر دینا پڑے گا ۔ اگر یہاں بھی اس کے سوا کوئی اور متعہ واجب ہوتا تو وہ ضرور ذِکر کیا جاتا کیونکہ دونوں آیتوں کی دونوں صورتوں میں ایک کے بعد ایک بیان ہو رہی ہیں واللہ اعلم ، اس صورت میں جو یہاں بیان ہو رہی ہے آدھے مہر پر علماء کا اجماع ہے ، لیکن تین کے نزدیک پورا مہر اس وقت واجب ہو جاتا ہے جبکہ خلوت ہو گئی یعنی میاں بیوی تنہائی کی حالت میں کسی مکان میں جمع ہو گئے ، گو ہم بستری نہ ہوئی ہو ۔ امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے اور خلفائے راشدین کا فیصلہ بھی یہی ہے ، لیکن امام شافعی کی روایت سے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس صورت میں بھی صرف نصف مہر مقررہ ہی دینا پڑے گا ، امام شافعی فرماتے ہیں میں بھی یہی کہتا ہوں اور ظاہر الفاظ کتاب اللہ کے بھی یہی کہتے ہیں ۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس روایت کے ایک راوی لیث بن ابی سلیم اگرچہ سند پکڑے جانے کے قابل نہیں لیکن ابن ابی طلحہ سے ابن عباس کی یہ روایت مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا فرمان یہی ہے ، پھر فرماتا ہے کہ اگر عورتیں خود ایسی حالت میں اپنا آدھا مہر بھی خاوند کو معاف کر دیں تو یہ اور بات ہے اس صورت میں خاوند کو سب معاف ہو جائے گا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ثیبہ عورت اگر اپنا حق چھوڑ دے تو اسے اختیار ہے ۔ بہت سے مفسرین تابعین کا یہی قول ہے ، محمد بن کعب قرظی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورتوں کا معاف کرنا نہیں بلکہ مردوں کا معاف کرنا ہے ۔ یعنی مرد اپنا آدھا حصہ چھوڑ دے اور پورا مہر دے دے لیکن یہ قول شاذ ہے کوئی اور اس قول کا قائل نہیں ، پھر فرماتا ہے کہ وہ معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ۔ ایک حدیث میں ہے اس سے مراد خاوند ہے ۔ حضرت علی سے سوال ہوا کہ اس سے مراد کیا عورت کے اولیاء ہیں ، فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد خاوند ہے ۔ اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے ۔ امام شافعی کا جدید قول بھی یہی ہے ۔ امام ابو حنیفہ وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے ، اس لئے کہ حقیقتاً نکاح کو باقی رکھنا توڑ دینا وغیرہ یہ سب خاوند کے ہی اختیار میں ہے اور جس طرح ولی کو اس کی طرف سے جس کا ولی ہے ، اس کے مال کا دے دینا جائز نہیں اسی طرح اس کے مہر کے معاف کر دینے کا بھی اختیار نہیں ۔ دوسرا قول اس بارے میں یہ ہے کہ اس سے مراد عورت کے باپ بھائی اور وہ لوگ ہیں جن کی اجازت بغیر عورت نکاح نہیں کر سکتی ۔ ابن عباس ، علقمہ ، حسن ، عطاء ، طاؤس ، زہری ، ربیعہ ، زید بن اسلم ، ابراہیم نخعی ، عکرمہ ، محمد بن سیرین سے بھی یہی مروی ہے کہ ان دونوں بزرگوں کا بھی ایک قول یہی ہے ۔ امام مالک کا اور امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ ولی نے ہی اس حق کا حقدار اسے کیا تھا تو اس میں تصرف کرنے کا بھی اسے اختیار ہے ، گو اور مال میں ہیر پھیر کرنے کا اختیار نہ ہو ، عکرمہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دینے کی رخصت عورت کو دی اور اگر وہ بخیلی اور تنگ دِلی کرے تو اس کا ولی بھی معاف کر سکتا ہے ۔ گو وہ عورت سمجھدار ہو ، حضرت شریح بھی یہی فرماتے ہیں لیکن جب شعبی نے انکار کیا تو آپ نے اس سے رجوع کر لیا اور فرمانے لگے کہ اس سے مراد خاوند ہی ہے بلکہ وہ اس بات پر مباہلہ کو تیار رہتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے تمہارا خون معاف کرنا ہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے ، اس سے مراد عورتیں دونوں ہی ہیں یعنی دونوں میں سے اچھا وہی ہے جو اپنا حق چھوڑ دے ، یعنی عورت یا تو اپنا آدھا حصہ بھی اپنے خاوند کو معاف کر دے یا خاوند ہی اسے بجائے آدھے کے پورا مہر دے دے ۔ آپس کی فضیلت یعنی احسان کو نہ بھولو ، اسے بیکار نہ چھوڑو بلکہ اسے کام میں لاؤ ۔ ابن مردویہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں پر ایک کاٹ کھانے والا زمانہ آئے گا ، مومن بھی اپنے ہاتھوں کی چیز کو دانتوں سے پکڑ لے گا اور فضیلت و بزرگی کو بھول جائے گا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اپنے آپس کے فضل کو نہ بھولو ، برے ہیں وہ لوگ جو ایک مسلمان کی بےکسی اور تنگ دستی کے وقت اس سے سستے داموں اس کی چیز خریدتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع سے منع فرما دیا ہے ۔ اگر تیرے پاس بھلائی ہو تو اپنے بھائی کو بھی وہ بھلائی پہنچا اس کی ہلاکت میں حصہ نہ لے ۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اسے رنج و غم پہنچے نہ اسے بھلائیوں سے محروم رکھے ، حضرت عون حدیثیں بیان کرتے جاتے ہیں روتے جاتے یہاں تک کہ داڑھی سے ٹپکتے رہتے اور فرماتے میں مالداروں کی صحبت میں بیٹھا اور دیکھا کہ ہر وقت دِل ملول رہتا ہے کیونکہ جدھر نظر اٹھتی ہر ایک کو اپنے سے اچھے کپڑوں میں اچھی خوشبوؤں میں اور اچھی سواریوں میں دیکھتا ، ہاں مسکینوں کی محفل میں میں نے بڑی راحت پائی ، رب العالم یہی فرماتا ہے ایک دوسرے کی فضیلت فراموش نہ کرو ، کسی کے پاس جب بھی کوئی سائل آئے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ اس کیلئے دُعائے خیر ہی کر دے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے ، اس پر تمہارے کام اور تمہارا حال بالکل روشن ہے اور عنقریب وہ ہر ایک عامل کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

237۔ 1 یہ دوسری صورت ہے کہ خلوت صحیحہ سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا اس صورت میں خاوند کے لئے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے اور اگر عورت اپنا حق معاف کر دے اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ 237۔ 2 اس سے مراد خاوند ہے کیونکہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نصف حق مہر معاف کر دے یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کر دے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل اور احسان کو نہ بھلا نے کی تاکید کر کے حق مہر میں بھی اسی فضل اور احسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣١] عورت یا اس کے ولی کی طرف سے یہی فیاضی کافی ہے کہ وہ خاوند کو وہ آدھا حق مہر بھی معاف کردیں جو اسے ادا کرنا بروئے حکم الٰہی لازم تھا اور خاوند کی طرف سے فیاضی یہ ہے کہ آدھے کی بجائے پورا ہی حق مہر ادا کر دے یا اگر ادا کرچکا ہے تو اس سے کچھ واپس نہ لے اور یہ تاکید اس لیے کی کہ اجتماعی زندگی میں خوشگواری پیدا کرنے کے لیے ایسا فیاضانہ برتاؤ ضروری ہے اگر ہر شخص اپنے قانونی حق پر ہی اڑا رہے تو اجتماعی زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہوسکتی۔- اب دیکھئے مطلقہ عورت کے حق مہر کی ادائیگی کے سلسلہ میں شرعی احکام کی رو سے ممکنہ صورتیں چار ہیں : (١) نہ مہر مقرر ہو اور نہ صحبت ہوئی ہو (٢) مہر مقرر ہوچکا ہو مگر صحبت نہ ہوئی ہو۔ ان دونوں صورتوں کا حکم ان دو آیات میں مذکور ہوچکا ہے (٣) مہر بھی مقرر ہو اور صحبت بھی ہوچکی ہو اور یہ سب سے عام صورت ہے۔ اس صورت میں مہر پورا دینا ہوگا۔ (٤) مہر مقرر نہ ہوا تھا مگر صحبت ہوچکی۔ اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ یعنی اتنا مہر جو اس عورت کے قبیلہ میں عام رواج ہے۔- اور بیوہ کے لیے بھی یہی چاروں صورتیں ممکن ہیں مگر اس کے احکام میں اختلاف ہے، جو یہ ہے کہ مہر مقرر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور مرنے والے خاوند نے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو، عورت کو بہرحال پورا مہر ملے گا۔ اگر مہر مقرر تھا تو اتنا ملے گا اور اگر مقرر نہیں ہوا تھا تو مہر مثل ملے گا، اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔- حضرت علقمہ (رض) کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا۔ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا نہ حق مہر مقرر ہوا اور نہ ہی صحبت کرسکا کہ اس کی وفات ہوگئی۔ ابن مسعود نے اسے جواب دیا کہ اسے اس کے خاندان کی عورتوں کے مثل مہر دیا جائے، نہ کم نہ زیادہ، اور اس پر عدت بھی ہے اور میراث سے اسے حصہ بھی ملے گا (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ کیا تھا یہ سن کر ابن مسعود (رض) خوش ہوگئے۔ (ترمذی، ابو اب النکاح باب فی الرجل یتزوج المرأۃ فیموت عنھا قبلأن یفرض لھا) نیز ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فیمن تزوج ولم یسم صداقا حتی مات)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہ دوسری صورت ہے کہ مہر مقرر کیا جا چکا ہو اور شوہر نے ہاتھ لگانے (جماع یا خلوت صحیحہ) سے پہلے طلاق دے دی تو اس صورت میں عورت نصف مہر کی حق دار ہوگی۔ ہاں اگر وہ عورت خود معاف کر دے تو دوسری بات ہے، یا خاوند جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، معاف کر دے، یعنی وہ پورا مہر دے چکا ہے تو نصف واپس نہ لے، یا اپنی خوشی سے پورا مہر دے دے۔ پھر (وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ للتَّقْوٰى ۭ‘) فرما کر شوہر کو ترغیب دی ہے کہ پورا مہر دے دینا ہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ اس میں مخاطب مرد ہیں۔ - مسئلہ : اگر شوہر ہاتھ لگانے سے قبل وفات پا جائے تو بیوی پورے مہر کی حق دار ہوگی، اسے ورثہ بھی ملے گا اور اس پر عدت بھی واجب ہوگی، جیسا کہ بروع بنت واشق کی حدیث میں اوپر گزر چکا ہے۔ واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی دو قسمیں ہیں : 1 مہر مقرر ہوچکا تھا اور خاوند نے صحبت کے بعد طلاق دے دی۔ (دیکھیے بقرہ : ٢٢٩) 2 عقد کے وقت مہر مقرر نہ تھا، مگر صحبت کے بعد طلاق دے دی۔ اس صورت میں عورت مہر مثل کی حق دار ہوگی، یعنی جتنا مہر عموماً اس کے خاندان کی عورتوں کا مقرر ہوتا ہے، اس کے مطابق اسے مہر دلوایا جائے گا، جیسا کہ سورة نساء کی آیت (٢٤) میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ (شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اور دوسری صورت کا حکم یہ ہے کہ جس عورت کا مہر نکاح کے وقت مقرر ہوا ہو، اور اس کو قبل صحبت وخلوت صحیحہ کے طلاق دے دیہو تو مقرر کئے ہوئے مہر کا نصف مرد کے ذمے واجب ہوگا البتہ اگر عورت معاف کردے یا مرد پورا دیدے تو اختیاری بات ہے جیسا کہ آیت اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ سے معلوم ہوتا ہے۔- (١) مرد کے پورا مہر دینے کو بھی معاف کرنے کے لفظ سے شاید اس لئے تعبیر کیا کہ عام عادت عرب کی یہ تھی کہ مہر کی رقم شادی کے ساتھ ہی دے دیجاتی تھی تو طلاق قبل از خلوت کی صورت میں وہ نصف واپس لینے کا حق دار ہوگیا اب اگر وہ رعایت کرکے اپنا نصف واپس نہ لے تو یہ بھی معاف ہی کرنا ہے اور معاف کرنے کو افضل اور اقرب للتقوٰی قرار دیا کیونکہ یہ معافی علامت اس کی ہے کہ تعلق نکاح کا قطع کرنا بھی احسان اور حسن سلوک کے ساتھ ہوا جو مقصد شریعت اور موجب ثواب عظیم ہے خواہ معافی عورت کی طرف سے ہو یا مرد کی طرف سے۔- (٢) الَّذِيْ بِيَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ کی تفسیر خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ولی عقدۃ النکاح الزوج یعنی عقدہ نکاح کا مالک شوہر ہے یہ حدیث دار قطنی میں بروایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ منقول ہے، اور حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے بھی (قرطبی) اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ نکاح مکمل ہوجانے کے بعد نکاح کو قائم رکھنے یا ختم کرنے کا مالک شوہر ہے طلاق وہی دے سکتا ہے عورت کا طلاق میں کوئی اختیار نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِيْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ يَّعْفُوْنَ اَوْ يَعْفُوَا الَّذِيْ بِيَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّكَاحِ۝ ٠ ۭ وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝ ٠ ۭ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ ٢٣٧- عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - عُقْدَةُ- والعُقْدَةُ : اسم لما يعقد من نکاح أو يمين أو غيرهما، قال : وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] ، وعُقِدَ لسانه : احتبس، وبلسانه عقدة، أي : في کلامه حبسة، قال : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] ، النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق 4] ، جمع عقدة، وهي ما تعقده الساحرة، وأصله من العزیمة،- العقد ۃ نکاح عہدو پیمان وغیرہ جو پختہ کیا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔۔۔ عقد لسانہ اس کی زبان پر گرہ لگ گئی فی لسانہ عقدۃ اس کی زبان میں لکنت ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق 4] اور گرہوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کی برائی سے میں عقدۃ عقدۃ کی جمع ہے یعنی وہ گر ہیں جو جادو گر عورتیں لگاتی ہیں دراصل اس کے معنی عزیمۃ کے ہیں اس لئے اس پر عقدۃ اور عزیمۃ دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور جادو گر کو معقدۃ بھی کہا جاتا ہے ۔- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم، اور اگر تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو جبکہ تم نے ان کے لئے مہر مقرر کردیئے ہوں تو مقررہ مہر کا نصف انہیں دے دو ) فرض کا لغوی معنی ہے تیروں میں علامت اور شناخت و امتیاز کے لئے سوراخ کرنا۔ فرضہ اس علامت کو کہتے ہیں جو پانی کے حصے کے سلسلے میں کسی لکڑی یا پتھر یا چونے پر بنادی جاتی ہے تاکہ ہر حصے دار پانی میں اپنی باری کی پہچان کرسکے دریا یا سمندر کے کنارے کو جہاں کشتیاں لنگر انداز ہوتی ہیں فرضہ کہا جاتا ہے کیونکہ کشتی میں آنے جانے سے وہاں نشان بن جاتا ہے۔ پھر شرع میں فرض کے اسم کا اطلاق مقدار پر اور ان واجبات پر ہونے لگا جو ایجاب کے اعلیٰ مراتب پر ہیں۔- قول باری (ان الذی فرض علیک القرآن، جس ذات نے آپ پر قرآن فرض کیا…) کے معنی یہ ہیں کہ جس ذات نے قرآن نازل کیا اور آپ پر اس کے احکام اور اس کی تبلیغ واجب کردی۔ اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (فریضۃ من اللہ) اس میں دونوں معنی موجود ہیں یعنی ان حصوں کے مقداروں کا ایجاب جو اللہ تعالیٰ نے میراث میں حصہ پانے والوں کے لئے بیان کردیئے ہیں۔ قول باری (و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ) میں فرض سے مراد مہر کی مقدار اور عقد نکاح کے وقت اس کا تعین ہے۔ اسی سے ’ فرائض الا بل ‘ ہے جس سے مراد وہ مقداریں ہیں جو اونٹوں کی تعداد اور ان کی عمروں کے لحاظ سے واجب ہوتی ہیں مقدار کو فرض کہا گیا۔ دراصل اسے تیروں میں کئے گئے ان شگافوں سے تشبیہ دی گئی ہے جن کے ذریعے ان کی شناخت کی جاتی ہے اور یہ ایک دوسرے سے متمیز ہوتے ہیں۔ اسی طرح جس چیز کی مقدار بیان کردی جائے وہ دوسری تمام چیزوں سے متمیز اور جدا ہوجاتی ہے۔ قول باری (وقد فرضتم لھن فریضۃ) سے مراد عقد نکاح میں مہر کی مقدار کا تعین ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے اس مطلقہ کا ذکر کیا گیا جس کی مہر کی مقدار متعین نہیں کی گئی۔ قول باری ہے (لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن و تفرضوا لھن فریضۃ) پھر اس کے بعد اس عورت کا ذکر کیا گیا جس کے لئے مہر مقرر کردیا گیا تھا لیکن دخول سے قبل اسے طلاق ہوگئی تھی۔ پہلی آیت مہر کے تعین کی نفی پر دلالت کر رہی تھی دوسری آیت اس کے اثبات پر دلالت کر رہی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے غیر مدخول بہاء کے لئے مقرر شدہ مہر کا نصف فرض کردیا۔ اگر کسی عورت سے عقد کے بعد اس کے لئے مہر مقرر کیا جائے اور پھر دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی جائے تو اس کے حکم کے متعلق فقاء میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اسے مہر مثل ملے گا۔ یہی امام محمد کا قول ہے۔ امام ابو یوسف پہلے اس کے قائل تھے کہ اسے مقرر شدہ مہر کا نصف ملے گا لیکن پھر انہوں نے امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے قول کی طرف رجوع کرلیا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اسے مقرر شدہ مہر کا نصف ملے گا۔ مہر مثل دیے جانے کی دلیل یہ ہے کہ اس عقد کا موجب مہر مثل ہے۔ عقد نکاح کی وجہ سے مہر مثل کے وجوب کا تقاضا یہ تھا کہ دخول سے پہلے طلاق ہوجانے پر متعہ واجب ہوجائے۔ پھر عقد نکاح کے بعد جب طرفین مہر کی ایک مقدار مقرر کرنے ر رضامند ہوگئے تو اس سے عقد کا موجب یعنی متعہ منتفی نہیں ہوگا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مہر کی یہ مقدار عقد نکاح میں مقرر نہیں کی گئی تھی جس طرح کہ مہر مثل بھی مقرر نہیں ہوا تھا اگرچہ مہر مثل واجب ہوگیا تھا۔ اب جبکہ دخول سے پہلے طلاق کا وقوع مہر مثل کو اس کے وجوب کے بعد ساقط کردیتا ہے کیونکہ وہ عقد نکاح میں مقرر نہیں ہوا تھا۔ تو اب یہ واجب ہوگیا کہ عقد نکاح کے بعد متعین کئے جانے والے مہر کا بھی یہی حکم ہو کیونکہ وہ بھی عقد نکاح میں مقرر نہیں ہوا تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ عقد نکاح مہر مثل کو واجب نہیں کرتا بلکہ مہر مثل دخول کی بنا پر واجب ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہب ات غلط ہے اس لئے کہ بضع کو بدل کے لئے اپنے لئے مباح کرلینا جائز نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر مرد نے عقد نکاح میں مہر نہ دینے کی شرط رکھی تو پھر بھی مہر واجب وہ جائے گا۔- اب جبکہ مہر بضع کو اپنے لئے مباح کرنے کا بدل ہے اور شرط کے ذریعے اس کی نفی کا کوئی جواز نہیں تو یہ ضروری ہوگیا ہے کہ بضع کو اپنے لئے مباح کرنے کے پہلو سے ہی اس پر مہر لازم ہوجائے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عقد نکاح درست ہوجانے کے بعد ہمبستری اپنی مملوکہ چیز میں تصرف کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ انسان کا انی مملوکہ چیز میں تصرف اس پر کسی بدل کو لازم نہیں کرتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ خریدار اگر خریدی ہوئی چیز میں کوئی تصرف کرے تو اس سے اس پر کوئی بدل لازم نہیں آتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عقد نکاح کے ساتھ ہی عورت مہر مثل کی مستحق ہوگئی تھی۔ اس پر سب کا یہ اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ عورت کو اس کا حق ہے کہ وہ جب تک مہر مثل وصول نہ کرلے اس وقت تک مرد کو تصرف کی اجازت نہ دے۔ اگر عقد نکاح کی وجہ سے وہ اس کی مستحق نہ ہوجاتی تو اس کے لئے یہ کیسے جائز ہوجاتا کہ جو چیز ابھی واجب ہی نہیں ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ مرد کو اپنے پاس آنے نہ دے۔- اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اسے مہر مثل کے مطالبے کا حق حاصل ہے اور اگر وہ یہ جھگڑا قاضی کی عدالت میں لے جاتی تو یقینا قاضی اس کے حق میں یفیصلہ دے دیتا۔ جبکہ قاضی ایسے مہر کے ایجاب کے لئے کوئی قدم اٹھا نہیں سکتا ہے جس کی عورت مستحق ہی نہ ہو جس طرح کہ دیون کی تمام دسویر صورتوں میں بھی قاضی یکطرفہ طور پر انہیں کسی کے ذمے لازم نہیں کرسکتا ہے۔ جب تک وہ کسی کا حق نہ ہوں یہ تمام باتیں اس کی دلیل ہیں کہ جس عورت کے لئے عقد نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا ہو وہ مہر مثل کی مستحق ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مہر مثل اگر عقد کے ساتھ واجب ہوجاتا تو دخول سے پہلے طلاق کی وجہ سے وہ سارے کا سارا ساقط نہ ہوتا جس طرح کہ مقرر شدہ مہر ایسی صورت میں پورے کا پورا ساقط نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مہر مثل پورے کا پورا ساقط نہیں ہوا کیونکہ اس صورت میں عور تکو جو متعہ ملے گا وہ مہر مثل کا ایک حصہ ہوگا جیسا کہ پچھلے صفحات میں ہم اس نکتے کی وضاحت کر آئے ہیں اور یہی متعہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں مقرر شدہ مہر کے نصف کے بالمقابل ہوتا ہے۔- اسماعیل بن اسحاق کا خیال ہے کہ مہر مثل عقد نکاح کے ساتھ واجب نہیں ہوتا خواہ مرد بضع کو اپنے لئے مباح ہی کیوں نہ کرلے۔ ان کے خیال میں شوہر بیوی کے بالمقابل اسی حیثیت کا مالک ہے جو فروخت شدہ چیز کے بالمقابل ثمن کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر اسماعیل کا یہ استدلال درست ہے تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دخول کی بنا پر بھی مہر واجب نہ ہو۔ اس لئے کہ عورت کے حق کے طور پر شوہر کے ذمہ اس سے ہمبستری کرنا اسی طرح لازم تھا جس طرح شوہر کے حق کے طور پر اپنے آپ کو اس کے حوالے کردینا عورت کے ذمے لازم تھا۔ اس طرح طرفین میں سے ہر ایک نے دوسرے فریق کی جو چیز مباح کرلی وہ پہلے فریق کی مباح شدہ چیز کے بالمقابل آ گئی۔ اب اس صورت حال میں ہمبستری کرنے کی بنا پر خاص کر شوہر کو کس طرح مہر کا ذمہ دار گردانا جائے گا اور ایسی صورت میں مناسب یہ ہوگا کہ عورت مہر کے بدلے اپنی ذات پر مرد کو تصرف کے حق سے نہ روکے کیونکہ عورت تو عقد نکاح کے ساتھ مہر کی مستحق ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی ضروری ہوگا کہ مہر کا تعین درست نہ ہو اس لئے کہ مرد کی طرف سے جس شرط یا چیز پر عقد نکاح ہوگا وہ اسی طرح درست قرار پائے گی جس طرح عورت کی جانب سے درست قرار پائے گی اس لئے مرد پر مہر لازم نہیں آئے گا اور دوسری طرف عورت پر بھی مرد کے سلسلے میں کوئی چیز لازم نہیں آئے گی۔- اس قول پر یہ لازم آئے گا کہ ہمبستری اور شبہ کی بنا پر وطی کی وجہ سے بضع کے بدل کے طور پر کوئی چیز واجب نہ ہو اور اس بدل کا لینا درست بھی نہ ہو اس لئے کہ ملک بضع سے مرد کا حق ساقط ہوچکا ہے جبکہ امت نے اس معاملے میں یہ سمجھ رکھا ہے کہ شوہر پر بیوی کے بضع کو اپنیلئے مباح کرنے کی بناء پر مہر کی رقم واجب ہوتی ہے جو اس بضع کا بدل بن جاتی ہے۔ امت کا یہ فہم قائل کے اس قول کو ساقط کردیتا ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی جو حضرت سہل بن سعد الساعدی کی روایت میں منقول ہے کہ ایک عورت نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اپنی ذات ہبہ کردی تو آپ نے اس کی طرف سے ایک شخص کو پیغام نکاح دیتے ہوئے اس شخص سے فرمایا (قد ملک تھا بما معک من القرآن، تمہیں قرآن کی جو آیات یاد ہیں ان کے بدلے میں نے اس عورت کو تمہاری ملکیت میں دے دیا) آپ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ شوہر دراصل ایک طرح سے اس کے بضع کا مالک ہوتا ہے۔ اس بات کی دلیل کہ عقد نکاح کے بعد مقرر ہونے والے مہر کو دخول سے پہلے دی جانے والی طلاق ساقط کردیتی ہے یہ ہے کہ مقرر ہونے والا مہر دراصل مہر مثل کے قائم مقام ہوتا ہے کیونکہ مہر مثل کے ساتھ اسے بھی واجب کردینا درست نہیں ہوتا اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اب ضروری ہوگیا کہ دخول سے پہلے دی جانے والی طلاق جس طرح مہر مثل کو ساقط کردیتی ہے اسی طرح اسے بھی ساقط کر دے۔- ایک اور جہت سے اسے دیکھئے کہ مقرر ہونے والا مہر عقد نکاح کے ساتھ لاحق کردیا گیا تھا اور عقد نکاح میں موجود نہیں تھا۔ اب جس جہت سے عقد باطل ہوگا اسی جہت سے عقد کے ساتھ لاحق ہونے والی چیز بھی باطل ہوجائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ عقد نکاح میں مقرر کیا وا مہر عقد کی وجہ سے ثابت ہوا تھا، اس لئے عقد ک یبطلان سے وہ باطل نہیں ہوگا تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہمارے شیخ ابوالحسن (رح) کہا کرتے تھے کہ مقرر شدہ مہر تو باطل ہوگیا ہے اور اب متعہ کے وجوب کے لحاظ سے نصف مہر واجب ہوگا۔ اسی طرح ابراہیم نحفی فرماتے تھے کہ نصف مہر ہی اس کا متعہ ہے۔ کچھ لوگوں نے اس آیت سے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ بعض دفعہ مہر دس درہم سے ہوسکتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (و ان طلقتموھن من قبلان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم) اگر کسی نے مہر کی رقم دو درہم مقرر کی تو آیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ طلاق کے بعد ایک درہم سے زائد رقم کی مستحق نہیں ہوگی۔ ہمارے نزدیک ایٓت سے ان کے قول پر دلالت نہیں ہوتی۔- یہ اس لئے کہ ہمارے نزدیک دو درہم کا تعین دس درہم کا تعین ہے کیونکہ عقد میں دس کے ہند سے کی تبعیض نہیں ہوتی یعنی دس کا ایک حصہ متعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے دس کے ایک حصے کا تعین پورے دس کا تعین ہے جس طرح کسی طلاق کی تبعیض نہیں ہوتی اس لئے اگر کسی نے بیوی کو آدھی طلاق دی تو یہ پوری ایک طلاق شمار ہوگی۔ اس بناء پر جس شخص نے مہر کی رقم دس سے کم مقرر کی ہمارے نزدیک اس نے داصل دس مقرر کی۔ اس لئے طلاق کے بعد اس کا نصف اسے ادا کرنا ہوگا۔ نیز یہ پہلو بھی ہے کہ آیت جس چیز کا تقاضا کرتی ہے وہ مقرر شدہ مہر کا نصف ہے اور ہم بھی یہی نصف واجب کرتے ہیں پھر اس پر کسی اور دلالت کی بنا پر اس قدر اضافہ کرت ہیں کہ مجوعہ پانچ درہم بن جائے۔ واللہ اعلم - خلوت کے بعد طلاق دینے کے متعلق اہل علم کے اختلاف کا بیان - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اہل علم کا قول باری (و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضلم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم) کے معنی میں یہ اختلاف ہے کہ آیت میں مذکورہ مسیس یعنی ہاتھ لگانے سے کیا مرد ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت زید (رض) بن ثابت سے مروی ہے کہ جب شوہر بیوی کو لے کر دروازہ بند کرلے اور پردہ لٹکا دے اور پھر اس کے بعد بیوی کو طلاق دے دے تو اسے مہر کی پوری رقم ملے گی۔ سفیان ثوری نے لیث سے انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اسے پورا مہر ملے گا۔ علی بن الحسین اور ابراہیم نخعی نیز دیگر تابعین کا یہی قول ہے۔ فراس نے شعبی کے واسطے سے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ اسے نصف مہر ملے گا۔ اگرچہ وہ اپنی بیوی کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ بھی گیا ہو (لیکن وطی نہ کی ہو)- قاضی شریح سے بھی حضرت ابن مسعود کے قول کی طرح ایک روایت منقول ہے۔ سفیان ثوری نے عمر سے انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جس شخص نے ہاتھ لگانے سے پہلے مہر مقرر کردیا ہو تو اس صورت میں طلاق ہوجانے پر اسے متعہ کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔ - حضرت ابن عباس (رض) کے اس قول سے بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ اس مسئلے میں حضرت ابن عباس (رض) کا قول بھی حضرت ابن مسعود (رض) کے قول کی طرح ہے حالانکہ بات یہ نہیں ہے اس لئے حضرت ابن عباس (رض) کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر نے پہلے مہر مقرر نہ کیا ہو اور ہاتھ لگانے سے پہلے سے مراد یہ ہے کہ اس کے ساتھ خلوت کرنے سے پہلے مہر مقرر کیا ہو۔ کیونکہ حضرت ابن عباس (رض) نے طائو وس کی روایت کے بموجب ہاتھ لگانے سے مراد خلوت لی ہے اور خلوت سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں اس پر متعدد واجب کردیا ہے۔ خلوت کے مسئلے میں فقہائے امصار کا بھی اختلاف ہے امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کا یہ قول ہے کہ خلوت صحیحہ ہوجانے پر طلاق کی صورت میں مہر کا کوئی حصہ بھی ساقط نہیں ہوگا خواہ اس نے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو۔ خلوت صحیحہ یہ ہے کہ طرفین میں سے کوئی حالت احرام یا بیماری کی حالت میں نہ ہو یا عورت حائضہ نہ ہو یا رمضان کی روزہ دار نہ ہو یا اندام نہانی جڑا ہوا اور بند نہ ہو۔- اگر ان میں سے کوئی بھی صورت ہو اور شوہر اسے طلاق دے دے تو وہ نصف مہر کی مستحق ہوگی بشرطیکہ اس نے اس کے ساتھ وطی نہ کی ہو لیکن ان تمام صورتوں میں عدت واجب ہوگی۔ اگر شوہر نے اسے طلاق دے دی تو اس پر عدت واجب وہ جائے گی۔ سفیان ثوری کا قول ہے ک اگر شوہر نے بیوی کے ساتھ جب خلوت میسر آ جائے اور بوس و کنار بھی کرلے نیز کپڑوں کی رکاوٹ بھی رکاوٹ بھی دور کر دے تو اگر اس سارے عمل کی مدت بہت قلیل ہو تو بیوی کو نصف مہر ملے گا لیکن اگر اس عمل میں وہ کافی وقت گزار دے تو اسے پورا مہر ملے گا۔ البتہ اگر بیوی مہر کا کوئی حصہ چھوڑ دے تو شوہر کو اتنا حصہ ادا کرنا نہیں پڑے گا اوزاعی کا قول ہے کہ جب ایک شخص کسی عورت سے نکاح کرلے اور عورت کے خاندان کے اندر رہتے ہوئے اسے خلوت میسر آ جائے اور بوس و کنار بھی ہوجائے پھر وہ اسے طلاق دے دے اور ہمبستری نہ کرے یا شوہر نے خلوت میں پردہ لٹکا دیا یا دروازہ بند کرلیا تو ان تمام صورتوں میں بیوی کو پورا مہر ملے گا۔- حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب خلوت ہوجائے تو اسے نصف مہر ملے گا بشرطیکہ اس نے ہمبستری نہ کی ہو۔ اگر عورت ہمبستری کا دعویٰ کرے تو خلوت کے بعد اس کا ہی قول معتبر ہوگا۔ لیث بن سعد کا ق ول ہے کہ مرد جب پردہ لٹکا دے تو اس پر پورے مہر کی ادائیگی واجب ہوجائے گی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب مرد عورت کے ساتھ خلوت کرلے اور ہمبستری کئے بغیر اسے طلاق دے دے تو اسے نصف مہر ملے گا اور عورت عدت نہیں گزارے گی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس معاملے میں کتاب اللہ سے استدلال کے لئے یہ قول باری ہے۔ (واتو النساء صدقاتھن نحلہ، اور تم ان عورتوں کو ان کا مہر خوشدلی کے ساتھ فرض سمجھ کر ادا کرو) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے مہر کی پوری رقم ادا کرنا واجب کردیا۔ اس لئے کسی دلیل کے بغیر اس کا کچھ حصہ ساقط کردینا جائز نہیں ہوگا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (و ان اردتم استبدال زوج مکان زوج و اتیتم احداھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا اتاخذونہ بھتانا و اثما مبینا و کیف تاخذونہ و قد افضی بعضکم الی بعض، اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ کر ہی لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے اور آخر تم اسے کس طرح واپس لے لو گے جبکہ تم اپنی بیویوں سے لطف اندوز ہوچکے ہو۔- اس آیت میں دو وجوہ سے دلالت ہو رہی ہے۔ ایک تو آیت کے یہ الفاظ ہیں (فلا تاخذوا منہ شیئا) اور دوسرے یہ الفاظ (و کیف تاخذونہ و قد افضی بعضکم الی بعض) فراء کا قول ہے کہ افضاء خلوت کو کہتے ہیں۔ خواہ ہمبستری ہو یا نہ ہو۔ فراء کی حیثیت لغت کے سمائل میں حجت کی ہے اور اس نے یہ بتایا ہے کہ افضاء خلوت کے لئے اسم ہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے خلوت حاصل ہوجانے کے بعد بیوی سے کچھ لے لینے کی ممانعت کردی ہے۔ اس میں یہ دلالت ہے کہ خلوت سے مراد خلوت صحیحہ ہے جس میں شوہر کو بیوی سے لطف اندوز ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ افضاء لفظ فضا سے ماخوذ ہے اور فضا زمین کی اس کھلی جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی عمارت نہ ہو اور نہ کوئی ایسی آڑ ہو جو کسی کو اپنا مقصد حاصل کرنے سے روک سکے۔ اس طرح اس لفظ سے یہ مفہوم حاصل ہوگیا کہ ایک صورت میں خلوت ہوجانے پر عورت کو پورے مہر کا استحقاق حاصل ہوجاتا ہے اور وہ خاص صورت یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو اور شوہر کو لطف اندوزی اور عورت کو سپردگی سے کوئی چیز مانع نہ ہو۔ کیونکہ لفظ افضاء کا تقاضا یہی ہے۔- اس پر قول باری بھی دلالت کرتا ہے (فاکحوھن باذ اھلھن و اتوھن اجورھن بالمعروف، ان کیس اتھ تم ان کے اہل خاندان کی اجازت سے نکاح کرو اور انہیں ان کا مہر معروف طریقے سے ادا کرو) ۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضۃ، پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھائو اس کے بدلے ان کے مہر بطور فرض کے ادا کر دو ) یعنی ان کے مہر ادا کر دو ۔ ظاہر آیت تمام احوال میں ادائیگی کے وجوب کا مقتضی ہے۔ البتہ جن صورتوں کے استثناء کی دلیل قائم ہوجائے وہ اس حکم سے خارج ہوں گی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سنت سے بھی اس پر دلالت قائم ہو رہی ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت سنائی، انہیں محمد بن شاذان نے، انہیں معلیٰ بن منصور نے، انہیں ابن الھیعہ نے، انہیں ابو الاسود نے محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من کشف خمارا مراۃ و نظر الیھا و جب الصداق دخل بھا اولم یدخل، جس شخص نے نکاح کے بعد عورت کا دوپٹہ اتار دیا اوار اسے نظر بھر کر دیکھ لیا اس پر مہر واجب ہوگیا خواہ دخول ہو یا نہ ہو) ۔- ہمارے نزدیک صدر اول کا اس پر اتفاق ہے۔ اس لئے کہ فراس کی بواسطہ شعبی حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کو بہت سے محدثین ثابت تسلیم نہیں کرتے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں ہودہ بن خلیفہ نے، انہیں وف نے زرارہ بن اوفی سے کہ خلفائے راشدین کا یہ فیصلہ ہے کہ جس شخص نے دروازہ بند کردیا اور پردہ لٹکا دیا اس پر مہر واجب ہوگیا اور عورت پر عدت بھی واجب ہوگئی۔ اس روایت میں یہ بتایا گیا کہ خلفائے راشدین کا یہ فیصلہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وستم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشد بن من بعدی و عضوا علیھا بالنواجذ، تم پر میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے اسے اپنے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو) ۔- عقلی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ عورت کی جانب سے جس بات پر عقد نکاح ہوا ہے وہ یا تو وطی ہے یا عورت کی طرف اپنی ذات کی حوالگی ہے۔ اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ محبوب جس کا عضو تناسل کٹا ہوتا ہے وہ بھی نکاح کرسکتا ہے حالانکہ اس میں وطی کی قدرت نہیں ہوتی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عقد نکاح کی صحت کا وطی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اگر یہ بات ہوتی تو محبوب کی صورت میں عقد نکاح درست نہ ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عقد نکاح یک صحت کا تعلق جب تسلیم یعنی سپردگی کی صحت کے ساتھ ہوگیا تو محرم عورتیں جن میں تسلیم کی صحت نہیں پائی جاتی ان کے ساتھ عقد نکاح بھی درست قرار نہیں پایا اب جبکہ عقد نکاح کی صحت کا تعلق عورت کی جانب سے تسلیم کی صحت کے ساتھ ہوگیا تو یہ ضروری ہوگیا کہ عورت کی طرف سے اپنی ذات کی سپردگی کی بناء پر وہ پورے مہر کی مستحق قرار پائے جبکہ وہ تمامب اتیں حاصل ہوچکی ہوں جن کے ساتھ مرد کے لئے عقد نکاح درست قرار پائے۔ نیز ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عقد نکاح کے بعد عورت کے ذمے جو چیز ہے وہ اپنی ذات کو شوہر کے حوالے کرنا ہے۔ اب رہا وطی کا معاملہ تو اس کی ذمہ داری مرد پر ہے جس سے وہ عاجز رہا۔ لیکن اس کا وطی سے باز رہنا عورت کے لئے استحقاق مہر کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔- اسی بنا پر حضرت عمر (رض) نے یہ فرمایا تھا کہ جس عورت کیس اتھ خلوت ہوجائے اسے پورا مہر ملے گا۔ اگر وطی کرنے سے تم عاجز رہے تو اس میں ان بیچاریوں کا کیا قصور۔ “ نیز اگر کسی شخص نے کوئی گھر کرایہ پر لے لیا اور مالک مکان نے مکان خالی کر کے اس کے حوالے کردیا تو سپردگی کی بنا پر وہ کرائے کا مستحق ہوجائے گا یہی صورت نکاح کے بعد خلوت کی ہے۔ البتہ فقاء نے جو یہ کہا ہے کہ اگر عورت احرام کی حالت میں ہو یا بیمار یا حائضہ ہو وہ پورے مہر کی مستحق نہیں ہوگی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت ایک بار پھر جبکہ وہ ان عوارض سے باہر نکل آئے اپنے آپ کو درست طریقے سے شوہر کے حوالے کرے گی تو پورے مہر کی مستحق ہوگی کیونکہ ان عوارض کے ساتھ اس کی سپردگی صحیح سپردگی نہیں ہے اس لئے وہ پورے مہر کی مستحق نہیں ہوگی۔ جن لوگوں نے اس قول کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے ظاہر آیت (وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم سے استدلال کیا ہے۔ نیز اس سلسلے کی ایک اور آیت بھی ہے (اذا نکحتم المومنات ثم طرقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعدونھا۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پورے استحقاق اور عدت کے وجوب کو مسیس کے ساتھ متعلق کردیا ہے۔ اب مسیس سے مراد وطی ہے کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ اس سے ہاتھ سے چھونا مراد نہیں لیا گیا ہے۔- اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ قول باری (من قبل ان تمسوھن) کے معنی میں صحابہ کرام کے اندر اختلاف ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) نے اس سے خلوت مراد لی ہے۔ ان حضرات نے اس سے یہ معنی یا تو لغت کے لحاظ سے لیا ہے یا اس لحاظ سے کہ شرع میں لفظ مسیس خلوت کے لئے اسم ہے کیونکہ یہ بات درست نہیں ہے کہ کسی لفظ کے وہ معنی لئے جائیں کہ نہ تو شرع میں اور نہ ہی لغت میں وہ لفظ اس معنی کے لئے اسم ہو۔ اگر یہ لفظ ان حضرات کے نزدیک لغت کے لحاظ سے اس معنی کے لئے اسم ہے تو ان کی بات درست ہوگی کیونکہ وہ لغت میں حجت کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں بعد میں آنے والوں کے مقابلے میں لغت کا زیادہ علم ہے۔ اگر یہ لفظ شرعی لحاظ سے اس معنی کے لئے اسم ہے تو شریعت میں استعمال ہونے والے اسماء صرف توقیف یعنی شریعت کی رہنما کے تحت ہی قابل اخذ ہوتے ہیں اب اگر لفظ مسیس خلوت کے لئے اسم مان لیا جائے تو آیت کی عبارت اس طرح ہوگی۔ ” و ان طلقتموھن من قبل الخلوۃ فنصف ما فرضتم “۔- نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مس بالید (ہاتھ سے چھونے) کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے بلکہ بعض نے اس کا معنی جماع کیا ہے اور بعض نے خلوت اور جب یہ جماع کے لئے اسم ہوگا تو یہ جماع کے لئے کنایہ ہوگا اور یہ جائز ہوگا کہ اس کا حکم بھی اسی طرح ہو جب اس سے مراد خلوت ہوگی تو سا صورت میں ظاہر لفظ کا اعتبار ساقط ہوجائے گا۔ کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس سے حقیقی معنی مراد نہیں ہے جو مس بالید ہے۔ اس صورت میں حکم ثابت کرنے کے لئے اس لفظ کے سوا کسی اور لفظ سے دلیل طلب کرنا واجب ہوگا۔ ہم نے گزشتہ سطور میں جو دلالت بیان کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے خلوت مراد لی جائے، جماع نہ لیا جائے۔ اس کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ ہم نے جن ظواہر آیات و سنت کا ذکر کیا ہے وہ جماع کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ نیز اگر ہم لفظ کے حقیقی معنی کا ارادہ کریں تو اس کا تقاضا یہ ہوگا کہ اگر مرد نے عورت کے ساتھ خلوت اختیار کی اور اپنے ہاتھ سے چھو لیا تو عورت پورے مہر کی مستحق ہوجائے کیونکہ حقیقت مس پائی گئی اور اگر اس نے عورت کے ساتھ خلوت نہ کی اور اسے ہاتھ لگا دیا تو ہم اجماع کی بناء پر اس صورت کی تخصیص کردیں گے۔ نیز اگر اس لفظ سے جماع مراد ہو تو اس میں کوئی امتناع نہیں کہ وہ چیز جماع کے قائم مقام بن جائے جو جماع کی طرح ہو اور اس کے حکم میں ہو یعنی عورت کا درست طریقے سے اپنے آپ کو مرد کے سپرد کردینا جیسا کہ قول باری ہے (و ان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا) اسی طرح جو چیز علیحدگی کے قائم مقام ہو اس کا حکم بھی اس اعتبار سے علیحدگی کے حکم جیسا ہوجائے گا کہ اس سے عور پہلے شوہر کے لئے مباح ہوجائے۔- امام شافعی سے منقول ہے کہ محبوب اگر اپنی بیوی سے ہمبستری کرلے تو اگر اس نے وطی کے بغیر ہی عورت کو طلاق دے دی تو اس پر پورے مہر کی ادائیگی لازم ہوگی۔ اس پورے بیان سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کمال مہر کے حکم کچا تعلق وطی کے وجود کیس اتھ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صحت تسلیم کے ساتھ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تسلیم یعنی عورت کا اپنی ذات کو مرد کے حوالے کردینا وطی کے قائم مقام ہے تو پھر یہ واجب ہے کہطلاق مغلظہ کی صورت میں یہ تسلیم مطلقہ کو پہلے شوہر کے لء اسی طرح حلال کر دے جس طرح جماع حلال کردیتا ہے۔ اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ تسلیم پورے مہر کے استحقاق کی علت ہے۔ پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کی علت نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شوہر دخول سے پہلے مرجائے تو اس صورت میں وہ پورے مہر کی مستحق ہوتی ہے۔ موت کو بمنزلہ دخول قرار دیا جاتا ہے لیکن موت پہلے شوہر کے لئے اسے حلال نہیں کرسکتی۔- قول باری ہے (الا ان یعفون او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح، مگر یہ کہ عورتیں خود نریم سے کام لیں اور مہر نہ لیں یا وہ شخص نرمی سے کام لے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور پورا مہر دے دے) میں (الا ان یعفون) سے مراد بیویاں ہیں کیونکہ اس سے مراد اگر شوہر ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے۔ ” الا ان یعفوا “ یعنی جمع مذکر کا صیغہ ہوتا۔ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور سلف کی ایک جماعت سے بھی مروی ہے کہ عورت کی طرف سے نرمی کرنے کا معنی یہ ہے کہ وہ باقی مہر چھوڑ دے اور یہ مہر کا نصف حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے طلاق کے بعد اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ قول باری ہے۔ (ضعف ما فرضتم) اگر یہ کہا جائے کہ بعض دفعہ مہر ساز و سامان اور زمین کی شکل میں ہوتا ہے جس میں معاف کرنا درست نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس مقام پر عفو کا معنی وہ نہیں ہے جو آپ ” قد عفوت “ (میں نے معاف کردیا) کہہ کر مراد لیتے ہیں بلکہ یہاں اس سے تسہیل یعنی نرمی کرنا یا چھوڑ دینا مراد ہے اور معنی یہ ہوگا کہ عورت شوہر کے حق میں اس طریقے سے مہر کی رقم چھوڑ دے جو عقود تملیک میں جائز ہوتا ہے۔ اس بنا پر آیت کی عبارت اس طرح ہوگی۔ ” ان تملکہ ایاہو تتر کہ لہ تملیکا بغیر عوض تاخذہ منہ “ (عور تاس مہر کو شوہر کی ملکیت میں دے دے اور کوئی معاوضہ لئے بغیر اس کی ملکیت میں رہنے دے) ۔- اگر کوئی شخص درج بالا تشریح کی بنا پر یہ کہے کہ اس تشریح میں یہ دلالت موجود ہے کہ قابل تقسیم مشترک چیز کا ہبہ جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ مباح کردیا ہے کہ وہ طلاق کے بعد مقررہ مہر کا نصف مرد کی ملکیت میں دے دے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے عین یعنی متعین چیز اور دین یعنی قرض کے درمیان کوئی فرض نہیں کیا۔ اسی طرح قابل تقسیم اور ناقابل تقسیم چیز کے درمیان بھی فرق نہیں کیا ہے۔ اس لئے آیت کے اقتضاء کی رو سے مشترک چیز کا ہبہ جائز ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں جس طرح کہ قائل نے سمجھا ہے کیونکہ آیت میں عفو کا معنی وہ نہیں ہے جو اس جملے میں ہے کہ ” قد عفوت “ ص میں نے معاف کردیا ہے) کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے یہ کہے ” قد عوت لک عن داری ھذہ “ (میں نے تمہیں اپنے اس گھر سے معاف کردیا ہے) یا ” فدا براتک من داری ھذہ “ ص میں نے تمہیں اپنے اس گھر سے بری کردیا ہے تو اس کا یہ فقرہ نہ تو تملیک کو واجب کرتا ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے عقد ہبہ درست ہوتا ہے۔ جب یہ معاملہ اس طرح ہے اور دوسری طرف آیت میں جو عفو منصوص ہے وہ عقود تملیک کے جواز کا موجب بھی نہیں ہے تو اس سے یہ معلوم وہا کہ مراد اس سے عورت کی طرف سے اس طریقے کی تملیک ہے جس سے ہبہ اور تملیک کے عقود جائز ہوتے ہیں کیونکہ وہ لفظ جس کے ذریے تملیک درست ہوتی ہے وہ یہاں مذکور نہیں ہے۔ اس لئے اس کا حکم دلالت پر موقوف ہوگا۔ اس بنا پر ہبہ کی مختلف صورتوں کے عقود میں جو بات درست ہوگی وہ یہاں بھی درست ہوگی اور جو بات وہاں درست نہیں ہوگی وہ یہاں بھی درست نہیں ہوگی۔- اس تشریح کے باوجود اگر سوال اٹھانے والا شخص شوافع میں سے ہے تو اس پر اس ہبہ کا جواز بھی لازم آئے گا جس پر اس شخص کی طرف سے قبضہ نہ وہا ہو جس کے لئے ہبہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی طرف سے قبضہ میں لئے ہوئے اور قبضہ میں نہلئے ہوئے مہر کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ جب عورت مہر پر قبضہ کرنے کے بعد معاف کر دے تو یہ واجب ہوگا کہ شوہر کو مہر سپرد کئے بغیر ہی یہ جائز ہوجائے۔ اب جبکہ شوافع کے نزدیک یہ صورت جائز نہیں ہے بلکہ اس تملیک کو ہبہ کی صورتوں کی شرطوں پر محمول کیا جائے گا تو مشاع یعنی مشترک چیز کے ہبہ کا بھی یہی حکم ہوگا۔ اگر معترض امام مالک کے مسلک کا حامی ہے اور اس نے ہماری تشریح کو مشترک چیز کے ہبہ کے جواز نیز قبضہ سے قبل اس کے جواز کی دلیل بنا لی ہے تو اس کے جواب میں ہماری وہ بحث ہے جو ہم پہلے کر آئے ہیں۔- قول باری ہے (او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح) اس کی تفسیر میں سلف کا اختلاف ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت جبیر بن مطعم (رض) ، نافع بن جبیر، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، محمد بن کعب، قتادہ ا اور نافع کا تول ہے کہ اس سے مراد شوہر ہے، امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد ا اور زفر کا بھی یہی قول ہے، نیز ابن شبرمہ، اوزاعی، ثوری اور امام شافعی اسی کے قائل ہیں۔ ان سب کے نزدیک شوہر کے عفو سے مراد یہ ہے کہ دخول سے پہلے طلاق دے دینے کی صورت میں وہ اسے پورا مہر دے دے، ان کے نزدیک قول باری (الا ان یعفون) میں باکرہ اور ثیبہ دونوں شامل ہیں۔ اس کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) سے دو روایتیں ہیں۔ ایک کی روایت حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے، انہوں نے عمار بن ابی عمار سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کی ہے کہ اس سے مراد شوہر ہے۔ ابن جریح نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں تو عفو یعنی نرمی کا قائل ہوں اور اسی کا حکم دیتا ہوں۔ اگر عورت معاف کر دے تو اس کی معافی کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ اگر عورت بخل کرے اور اس کا ولی معاف کر دے تو یہ جائز ہوگا خواہ عورت انکار ہی کرتی رہے۔ علقمہ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، عطاء بن ابی رباح، عکرمہ اور ابوالزناد نے کہا ہے کہ اس سے مراد ولی ہے۔- امام مالک کا قول ہے کہ اگر شوہر دخول سے پہلے اسے طلاق دے دے اور وہ خود باکرہ ہو تو اس صورت میں اس کا باپ نصف مہر معاف کرسکتا ہے اور قول باری (الا ان یعفون) سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کے ساتھ دخول ہوگیا ہے۔ امام مالک کا یہ بھی قول ہے کہ باپ کے سوا کسی کو مہر کا کوئی حصہ معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے، نہ وصی کو اور نہ کسی اور کو۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ باکرہ کے باپ کو عقد نکاح کے وقت مہر کی رقم میں کمی کردینے کا اختیار ہے۔ اس وقت لڑکی کی مرضی کے خلاف بھی باپ ایسا کرسکتا ہے لیکن عقد نکاح کے بعد باپ کو اس کے مہر میں کمی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح مہر کی رقم میں کسی حصے کی معافی بھی اس کے لئے جائز نہیں ہے جبکہ دخول سے پہلے طلاق ہوگئی ہو۔ باپ کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ بیٹی کو داماد سے علیحدہ کر دے اگرچہ بیٹی کو یہ بات ناپسند وہ بشرطیکہ باپ کو اسی میں اپنی بیٹی کی مصلحت نظر آرہی ہو لیکن جس طرح نکاح کے بعد باپ کو مہر کی رقم میں کمی کردینے کا اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح نکاح کے بعد اسے مہر کا نصف حصہ معاف کردینے کا بھی اختیار نہیں ہے ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ باپ کیلئے جائز ہے کہ وہ بیٹی کی مرضی کے خلاف اسے داماد سے علیحدہ کر دے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (اویعفوا الذی بیدہ عقدۃ النکاح) متشابہ آیت ہے کیونکہ اس میں وہ دونوں احتمال موجود ہیں جن کا ذکر سلف نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کیا ہے۔ اس لئے اس آیت کو محکم آیت کی طرف لوٹانا واجب ہے اور یہ محکم آیت یہ قول باری ہے (و اتوالنساء صدقاتھن نحلۃ فان طین لکم عن شی منہ نفسا فکلوہ ھنیئا مریئا، اور عورتوں کے مہر خوش دلی کس اتھ فرض جانتے ہوئے ادا کرو البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے مزے سے کھا سکتے ہو) ۔- دوسرا قول باری یہ ہے (وان اردتم استبدال زوج مکان زوج و اتیتم احداھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا، اور اگر ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کر ہی لو اور تم نے اسے ڈھیروں مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو) ایک اور قول باری ہے (ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا ان لا یقیما حدود اللہ، اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم اس میں سے کوئی چیز واپس لے لو جو تم نے انہیں دیا ہے الا یہ کہ میاں بیوی دونوں کو اس کا اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے) ۔ یہ محکم آیات ہیں جن میں اس معنی کے سوا کسی اور معنی کا احتمال نہیں ہے جس کے یہ متقاضی ہیں اس لئے متشابہ آیت (او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح) کو ان محکمہ آیات کی طرف لوٹانا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نہ صرف یہ حکم دیا ہے کہ وہ متشابہ کو محکم کی طرف لوٹائیں بلکہ ان لوگوں کی مذمت بھی کی ہے جو متشابہ کو محکم پر محمول کئے بغیر اس کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ ارشاد باری (فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ) لیکن وہ لوگ جن کے دلوں میں کچی ہے وہ فتنے یک طلب میں ان آیات کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں) ۔- نیز جب لفظ میں کئی معانی کا احتمال ہو تو اسے اس معنی میں محمول کرنا واجب ہوتا ہے جو اصول کے موافق ہوتا ہے۔ اب جبکہ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ باپ کے لئے اپنی بیٹی کے مال میں سے داماد یا کسی اور کو کوئی چیز ہبہ کرنا جائز نہیں ہے تو مہر کا حکم بھی یہی ہوگا۔ کیونکہ وہ بیٹی کا مال ہے۔- جن لوگوں نے آیت (او یعفوا الذی بیدہ عقدۃ النکاح) کو ولی پر محمول کیا ہے ان کا یہ قول خارج عن الاصول ہے۔ اس لئے کہ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کے مال کے ہبہ کے سلسلے میں اس کا ولی بن جائے۔ اب جبکہ اس قول کے قائلین کا یہ مسلک اصول کے خلاف اور اس سے خارج ہے تو آیت کو اس معنی پر محمول کرنا واجب ہے جو اصول کے موافق ہو۔ کیونکہ یہ خود ایک اصل نہیں ہے اس لئے کہ اس میں کئی معانی کا احتمال ہے ور جو چیز خود اصل نہ ہو اسے اس کے سوا دوسرے اصول کی طرف لوٹانا اور ان اصول کی روشنی میں اس کا اعتبار کرنا واجب ہوتا ہے۔ نیز اگر دونوں معنی احتمال کے دائرے میں ہوتے اور اصول میں ان دونوں کے لئے گنجائش موجود ہوتی تو لفظ کے متقضی میں ایسی بات پائی جاتی جو یہ واجب کردیتی کہ ظاہر لفظ کے لحاظ سے شوہر ولی سے اولیٰ ہے۔ وہ اس طرح کہ قول باری (او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح) میں اس بات کی کسی طرح گنجائش نہیں ہے کہ وہ ولی کو بھی شامل ہوجائے۔ نہ تو حقیقتاً اور نہ ہی مجازاً اس لئے کہ قول باری (الذی بیدہ عقدۃ النکاح) اس بات کا متقاضی ہے کہ نکاح کی گرہ موجود ہو اور یہ گرہ اس شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں بیوی ہوتی ہے یعنی شوہر لیکن اگر عقدہ یعنی نکاح کی گروہ موجود نہ ہو تو پھر اس پر اس لفظ کا اطلاق اس معنی میں درست نہیں ہے کہ یہ گرہ کس کے ہاتھ میں ہے۔ اب جبکہ ولی کے ہاتھ میں عقد نکاح سے اور اس کے بعد بھی عقدہ نکاح موجود نہیں تھا اور شوہر کے ہاتھ میں طلاق سے پہلے پہلے موجود تھا تو آیت کا لفظ کسی نہ کسی صورت میں شوہر کو شامل ہوگیا۔ اس بناء پر یہ واجب ہوگیا کہ اسے شوہر پر محمول کرنا ولی پر محمول کرنے کی بہ نسبت اولیٰ ہو۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مہر کی معافی کا یہ حکم وقوع طلاق کے بعد دیا ہے اور ظاہر ہے کہ نکاح کی گرہ طلاق کے بعد شوہر کے ہاتھ میں بھی نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ میں یہ احتمال ہے کہ اس سے وہ شخص مراد لیا جائے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ تھی اور ولی کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ نہ پہلے تھی اور نہ ہی فی الحال ہے۔ اس لئے آیت کے مدلول کے طور پر ولی کے مقابلے میں شوہر اولیٰ تھا۔ ترتیب تلاوت میں یہ قول باری (ولا تنسوا الفضل بینکم، اور آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو) بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے فیاضی اور نرمی کی ترغیب دی اور فرمایا (و ان تعفوا اقرب للتقویٰ ، اور تمہارا معاف کرنا یعنی نرمی سے کام لینا تقویٰ اور پرہیز گاری سے زیادہ قریب ہے) اب ظاہر ہے کہ ولی کا غیر کے مال میں سے کسی کو ہبہ کردینا اس پر فضل اور مہربانی کرنا نہیں کہلاتا ہے۔ دوسری طرف عورت کی جانب سے فضل اور مہربانی کی کوئی بات نہیں ہوئی۔- اس طرح (او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح) میں ولی ک عفو کے معنی کی گنجائش پیدا کرنا دراصل آیت میں مذکور فضل کے معنی کو ساقط کردینا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس فضل کو جو نرمی کی صورت میں کیا جائے تقویٰ سے زیادہ قریب قرار دیا۔ حالانکہ غیر کے مال میں ہبہ کر کے ولی کو کوئی تقویٰ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جبکہ اس غیر نے عفو اور نرمی کا کوئی ارادہ نہیں کیا۔ اس بناء پر ولی تقویٰ کے نشان کا مستحق نہیں ہوسکتا۔- نیز اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شوہر کو اس کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کا نرمی کرنا اور اس نرمی کے تحت عورت کو مکمل مہر ادا کرنا اس کے لئے جائز ہے۔ اس لئے یہ واجب ہے کہ وہی آیت میں مراد ہو اور جب شوہر مراد ہوگا تو ولی کا مراد ہونا منتفی ہوجائے گا۔ اس لئے کہ سلف نے اس آیت کی تاویل دو میں سے ایک معنی میں کی ہے یا تو شوہر یا ولی، اب جبکہ ہم نے دلائل سے ثابت کردیا کہ اس سے مراد شوہر ہے تو اب ولی مراد لینے کچا امتناع واجب ہوگیا۔- آیت میں مذکور فضل اور نرمی کی ترغیب اور تقویٰ سے زیادہ قریب کی تشریح کے سلسلے میں ہم نے جو کچھ کہا ہے اگر اس پر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ اس میں خطاب اگرچہ مالک کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ شخص مخاطب نہیں ہے جو غیر کے مال میں ہبہ کرتا ہے۔ تاہم بنیادی طور پر اس میں کوئی امتناع نہیں کہی ہ طخاب ولی کو بھی لاحق ہوجائے۔ اگرچہ ولی فضل اور نرمی کا یہ کام دوسرے کے مال میں کرتا ہے جس کا وہ سرپرست ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ولی اپنی سرپرستی میں پرورش پانے والے نابالغ کے مال سے اس کا صدقہ فطر ادا کر کے نیز قربانی کا جانور ذبح کر کے اور اس کا ختنہ کرا کے ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ گزشتہ بیان کے تحت ہمارا استدلال معترض کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ وہ اس طرح کہ ہم نے کہا تھا کہ غیر کے مال میں ولی تبرع یعنی نیکی کا عمل مثلاً ہبہ وغیرہ کر کے ثواب کا مستحق نہیں بن سکتا۔ معترض نے ہماری اس بات کا ایسے شخص کی مثال دے کر معارضہ کردیا جس پر ایک حق واجب ہوا تھا جس کا تعلق اس کے مال سے تھا۔ اب ولی نے جو کہ باپ ہے۔ اس کی طرف سے اس حق کی ادائیگی کردی۔ ہم تو وصی اور غیر وصی سب کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ اس قسم کے حقوق کی ادائیگی کرسکتے ہیں لیکن ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی کی طرف سے اس کا حق معاف کردیں۔- اس بنا پر اضحیہ صدقہ فطر اور حقوق واجبہ کس طرح تبرع کی طرح ہوسکتے ہیں اور ان کے اخراج کا حکم کیسے اس چیز کے اخراج کے حکم کی طرح ہوسکتا ہے جو عورت کی ملکیت کے تحت کسی شی کو لازم نہیں ہوتا (اس سے ثابت ہوا کہ ولی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ عورت کے مہر کا حصہ یا پورا مہر معاف کر دے) ۔ امام مالک کی طرف سے استدلال کرتے ہوئے بعض نے یہ کہا ہے کہ اگر زیربحث آیت میں زوج مراد ہوتا ہے تو قول باری اس طرح ہوتا ” الا ان یعفون او یعفو “ (مگر یہ کہ عورتیں نرمی برتیں یا شوہر نرمی برتے) کیونکہ زوجین کا ذکر پہلے ہ وچکا ہے۔ اس صورت میں اس آیت کا رجوع ان دونوں کی طرف ہوجاتا لیکن جب اس طریقے سے ہٹ کر ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جس کی معرفت صرف صفت اور بیان کی بنا پر ہوسکتی ہے تو اس سے معلوم ہوگیا کہ شوہر مراد نہیں ہے۔ - ابوبکر جصاص اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ ایک بےمعنی اور کھوکھلی بات ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ احکام کے ایجاب کا ذکر کبھی تو منصوص طریقے سے کرتے ہیں اور کبھی نص کے بغیر معنی مراد پر دلالت کے ذریعے کرتے ہیں اور کبھی ایسے لفظ کے ذریعے جس میں کئی معنی کا احتمال ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں معنی مراد اظہر اور اولیٰ ہوتا ہے اور کبھی ایسے مشترک لفظ کے ذریعے ایجاب کا ذکر ہوتا ہے جس میں مختلف معانی ہوتے ہیں اور معافی مراد تک پہنچنے کے لئے استدلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں احکام کے ایجاب کے لئے بیان کی یہ تمام صورتیں موجود ہیں۔ رہ گیا معترض کا یہ قول کہ اگر زوج مراد ہوتا تو کلام باری میں یہ الفاظ ہوتے ” او یعفوا لزوج “ تاکہ کلام کا رجو صرف شوہر کی طرف ہوتا کسی اور کی طرف نہ ہوتا لیکن جب اس طریقے سے ہٹ کر دوسرا طریقہ اختیار کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ یہاں زوج مراد نہیں ہے۔ معترض کی یہ بات دراصل بےمعنی ہے اور ہر جگہ چلنے والی نہیں ہے۔ اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر زیر بحث آیت میں ولی مراد ہوتا تو قول باری اس طرح ہوتا ” او یعفوالولی “ اور ایسا لفظ نہ لانا جس میں ولی اور غیرولی سب مشترک ہوتے اس قائل نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت میں العافی (معاف کرنے والا اور نرمی برتنے والا) وہ شخص ہے جو اپنا حق چھوڑ دے اگر عورت اپنا نصف مہر جو اس کے لئے شوہر پر واجب ہے چھوڑ دے تو وہ عافیہ کہلائے گی یہی صورت ولی کی ہے۔- باقی رہا شوہر تو وہ اگر بیوی کو اپنی طرف سے کوئی چیز دے بھی دے جو اس کے لئے شوہر پر واجب نہیں ہے تو وہ اس کیلئے عافی نہیں کلہائے گا بلکہ اسے واہب یعنی ہبہ کرنے والا کہا جائے گا۔ لیکن قائل کا یہ استدلال بھی بہت کمزور ہے۔ اس لئے کہ جن حضرات نے آیت (او یعفوالذی بیدہ عقدۃ النکاح) سے شور مراد لیا ہے تو انہوں نے یہ کہا ہے کہ شوہر کی نرمی اور عفویہ ہے کہ وہ مہر کی پوری رقم عورت کو ادا کر دے۔ اس تاویل کے قائل حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام ہیں۔ انہیں اس قائل سے کہیں زیادہ لغت اور الفاظ کے معانی محتملہ کا علم تھا۔ نیز زیربحث آیت میں مذکور عفو اس معنی میں نہیں ہے جس معنی میں یہ فقرہ ہے۔ ’ دقد عفوت “ (میں نے معاف کردیا) بلکہ یہاں عفو سے نرمی اور مہربانی مراد ہے جس کے تحت شوہر پورا مہر ادا کر دے یا طلاق کے بعد عورت باقی ماندہ نصف مہر کو شوہر کی ملکیت میں دے دے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ مہر اگر ایک متعین غلام کی صوتر میں ہوتا تو پھر بھی آیت کا حکم قابل عمل ہوتا اور آیت میں مذکور ترغیب غلام کی صورت میں بھی قائم رہتی۔ اب عورت کی طرف سے نرمی اور عفو کی یہ صورت ہوگی کہ طلاق کے بعد مہر کا باقی نصف حصہ شوہر کی ملکیت میں دے دے، یہ کہہ کر نہیں کہ ” قد عفوت “ بلکہ اس طریقے سے جس کے تحت عقود تحلیک کی تمام صورتیں جائز ہوتی ہیں۔ اسی طرح شوہر کی طرف سے نرمی اور عفو یہ نہیں ہے کہ وہ یوں کہے ’ دقد عفوت “ بلکہ اس طریقے سے تملیک کر کے جس کے تحت تملیک کی تمام صورتیں جائز ہوتی ہیں اسی طرح اگر عورت نے مہر قبضے میں لے لیا اور اسے صرف بھی کردیا ہو تو اس صورت میں شوہر کی طرف سے عفو کی یہ شکل ہوگی کہ عورت کے ذمے مہر کا جو حصہ واجب ہو اس سے اسے بری الذمہ قرار دے۔ اگر مہر شوہر کے ذمے دین کی صور ت میں ہو تو عورت کے عفو کی صورت یہ ہوگی کہ وہ اسے باقی ماندہ مہر کی ادائیگی سے بری الذمہ قرار دے دے۔ اس لئے جس عفو اور نرمی کی نسبت عورت کی طرف ہوسکتی ہے ادائیگی سے بری الذمہ قرار دے دے۔ اس لئے جب عفو اور نرمی کی نسبت عورت کی طرف ہوسکتی ہے تو اس جیسے عفو اور نرمی کی نسبت مرد کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ یہاں پر معترض سے یہ پچھا جاسکتا ہے کہ آخر ولی کے عفو کی کیا صورت رہ جاتی ہے۔ تاکہ ہم زوج کے عفو کو اس کی طرح کردیں۔- ولی کے لئے اس کے ثبوت کی کوشش بےفائدہ کوشش ہوگی کیونکہ بحث لفظ عفو میں اور اس سے عدول کرنے کے متعلق چل رہی ہے اور اس کے باوجود معترض کا قول خود اس کے مسلک کی تردید کرتا ہے۔ تاہم میں نے مخالفین کے قول کے اختلال اور اس کی کمزوری کو واضح کردیا ہے۔ اس قول نے انہیں بحث کو اس طرح خوشنما انداز میں پیش کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس میں ان کے دعوے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔- قول باری (الا ان یعفون) ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ باکرہ اگر طلاق کے بعد نصف مہر معاف کر دے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔ یہ امام مالک کا قول ہے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں باکرہ اور ثیبہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ پھر جب ابتدائے خطاب میں یہ قول باری (و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم) باکرہ اور اور ثیبہ دونوں قسم کی عورتوں کے لئے عام تھا تو ضروری ہوگیا کہ اس پر عطف ہونے والا قول باری (الا ان یعفون) بھی ان دونوں قسموں کی عورتوں کو عام ہو اس لئے جواز عفو کو ثیبہ کے لئے خاص کردینا ایک بےدلیل بات ہے۔ قول باری (فنصف ما فرضتم) یہ واجب کرتا ہے کہ اگر کسی نے ایک ہزار درہم مہر پر کسی سے نکاح کرلیا اور اسے یہ رقم ادا کردی پھر دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی اس دوران عورٹ نے اس رقم سے کوئی جنس یا سامان کی خریداری کرلی تو اس صورت میں عورت کو ہزار کا نصف ملے گا اور باقی آدھا یعنی پانچ سو کی رقم وہ شوہر کو بھر دے گی۔- امام مالک کا قول ہے کہ عورت نے جو سامان وغیرہ خریدا ہے شوہر اس کا نصف لے لے گا جبکہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو مقرر شدہ مہر کا نصف دیا ہے اور یہی حکم عورت کا بھیے۔ اب یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ عورت سے وہ چیز لی جائے جو مفروض یعنی مقرر شدہ نہ ہو اور نہ اس کی قیمت ہو۔ یہ بات اصول فقہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ اگر کسی شخص نے ایک ہزار درہم میں غلام خریدا ہو اور فروخت کنندہ نے ہزار پر قبضہ کر کے اس رقم سے چیزیں خرید لی ہوں پھر خریدار کو غلام میں کوئی عیب نظر آ جائے جس کی بنا پر وہ اسے واپس کر دے تو اس صورت میں خریدار کو فروخت کنندہ کی خریدی ہوئی چیزوں میں کوئی دست رسی نہیں ہوگی یہ چیزیں فروخت کنندہ کی ہوں گی اور اس پر ہزار درہم کا لوٹانا واجب ہوگا۔ نکاح یک بھی یہی صورت ہے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ عقد نکاح بھی اسی طرح متاع یعنی ساز و سامان پر نہیں ہوا تھا جس طرح عقد بیع ساز و سامان پر نہیں ہوا تھا بلکہ ہزار پر ہوا تھا۔ واللہ اعلم

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣٧ (وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً ) - (فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ ) - اس صورت میں مقرر شدہ مہر کا آدھا تو تمہیں دینا ہی دینا ہے۔- (اِلَّآ اَنْ یَّعْفُوْنَ ) - یعنی کوئی عورت خود کہے کہ مجھے آدھا بھی نہیں چاہیے یا کوئی کہے کہ مجھے چوتھائی دے دیجیے۔- (اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ط) ۔ - اور یہ گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے ‘ وہ اسے کھول سکتا ہے۔ عورت از خود طلاق دے نہیں سکتی۔ لہٰذا مردوں کے لیے ترغیب ہے کہ وہ اس معاملے میں فراخ دلی سے کام لیں۔- (وَاَنْ تَعْفُوْآ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ط) (وَلاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط) - اس کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے : اور تمہارے درمیان ایک کو دوسرے پر جو فضیلت ہے اس کو مت بھولو۔ یعنی اللہ نے جو فضیلت تم مردوں کو عورتوں پر دی ہے اس کو مت بھولو۔ چناچہ تمہارا طرز عمل بھی ایسا ہونا چاہیے کہ تم اپنے بڑے ہونے کے حساب سے ان کے ساتھ نرمی کرو اور ان کو زیادہ دو ۔ تم نے ان کا جتنا بھی مہر مقرر کیا تھا وہ نصف کے بجائے پورا دے دو اور انہیں معروف طریقے سے عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :261 یعنی انسانی تعلقات کی بہتری و خوشگواری کے لیے لوگوں کا باہم فیاضانہ برتاؤ کرنا ضروری ہے ۔ اگر ہر ایک شخص ٹھیک ٹھیک اپنے قانونی حق ہی پر اڑا رہے ، تو اجتماعی زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani