صلوۃ وسطی کون سی ہے؟ : اللہ تعالیٰ کا حکم ہو رہا ہے کہ نمازوں کے وقت کی حفاظت کرو اس کی حدود کی نگرانی رکھو اور اول وقت ادا کرتے رہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عبداللہ بن مسعود سوال کرتے ہیں کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو وقت پر پڑھنا ، پھر پوچھا کون سا ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ، پھر کونسا ؟ ماں باپ سے بھلائی کرنا ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں اگر میں کچھ اور بھی پوچھتا تو آپ اور بھی جواب دیتے ( بخاری و مسلم ) حضرت ام فردہ جو بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ہیں ، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعمال کا ذِکر فرما رہے تھے ۔ اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کو اول وقت ادا کرنے کی جلدی کرنا ہے ۔ ( مسند احمد ) امام ترمذی اس حدیث کے ایک راوی عمری کو غیر قوی بتاتے ہیں ، پھر صلوۃ وسطی کی مزید تاکید ہو رہی ہے ۔ سلف و خلف کا اس میں اختلاف ہے کہ صلوۃ وسطی کس نماز کا نام ہے ، حضرت علی ، حضرت ابن عباس وغیرہ کا قول ہے کہ اس سے مراد صبح کی نماز ہے ۔ ابن عباس ایک مرتبہ نماز پڑھتے ہیں جس میں ہاتھ اٹھا کر قنوت بھی پڑھتے ہیں ، پھر فرماتے ہیں یہی وہ نماز وسطی ہے جس میں قنوت کا حکم ہوا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ بصرے کی مسجد کا ہے اور قنوت اپنے رکوع سے پہلے پڑھی تھی ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں بصرے میں میں نے حضرت عبداللہ بن قیس کے پیچھے صبح کی نماز ادا کی پھر میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ صلوۃ وسطی کون سی ہے ، آپ نے فرمایا یہی صبح کی نماز ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ بہت سے اصحاب اس مجمع میں تھے اور سب نے یہی جواب دیا ۔ جابر بن عبداللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے صحابہ تابعین کا یہی مسلک ہے ۔ امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں اس لئے کہ ان کے نزدیک صبح کی نماز میں ہی قنوت ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مغرب کی نماز ہے اس لئے کہ اس سے پہلے بھی چار رکعت والی نماز ہے اور اس کے بعد بھی چار رکعت والی نماز ہے اور سفر میں دونوں قصر کی جاتی ہیں لیکن مغرب پوری ہی رہتی ہے ۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے بعد دو نمازیں رات کی عشاء اور فجر وہ ہیں جن میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے اور دو نمازیں اس سے پہلی دن کی وہ ہیں کہ جن میں آہستہ قرأت پڑھی جاتی ہے یعنی ظہر ، عصر ۔ بعض کہتے ہیں یہ نماز ظہر کی ہے ۔ ایک مرتبہ چند لوگ حضرت زید بن ثابت کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، وہاں یہی مسئلہ چھڑا ، لوگوں نے ایک آدمی بھیج کر حضرت اسامہ سے دریافت کیا ، آپ نے فرمایا یہ ظہر کی نماز ہے جسے حضور علیہ السلام اول وقت پڑھا کرتے تھے ( طیالسی ) زید بن ثابت فرماتے ہیں اس سے زیادہ بھاری نماز صحابہ پر اور کوئی نہ تھی اس لئے یہ آیت نازل ہوئی اور اس سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد دو ہیں ۔ آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ قریشیوں کی ایک جماعت کے بھیجے ہوئے دو شخصوں نے آپ سے یہی سوال کیا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا وہ عصر ہے ، پھر دو اور شخصوں نے پوچھا آپ نے فرمایا وہ ظہر ہے ، پھر ان دونوں نے حضرت اسامہ سے پوچھا ، آپ نے فرمایا یہ ظہر ہے ۔ آپ اسے آفتاب ڈھلتے ہی پڑھا کرتے تھے ، بمشکل ایک دو صف کے لوگ آتے تھے ، کوئی نیند میں ہوتا کوئی کاروبار میں مشغول ہوتا جس پر یہ آیت اتری اور آپ نے فرمایا تو یہ لوگ اس حرکت سے باز آئیں یا میں ان کے گھروں کو جلا دوں گا ، لیکن اس کے راوی زبرقان نے صحابی سے ملاقات نہیں کی لیکن حضرت زید سے اور روایات سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ اس سے مراد ظہر کی نماز ہی بتاتے تھے ، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے کہ حضرت عمر ، حضرت ابو سعید ، حضرت عائشہ وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام ابو حنیفہ سے بھی ایک روایت اسی کی ہے ، بعض کہتے ہیں اس سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ اکثر علماء صحابہ وغیرہ کا یہی قول ہے ، جمہور تابعین کا بھی یہی قول ہے اور اکثر اہل اثر کا بھی ، بلکہ جمہور لوگوں کا ، حافظ ابو محمد عبدالمومن دمیاطی نے اس بارے میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس کا نام کشف الغطاء فی تبیین الصلوۃ الوسطیٰ ہے اس میں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ صلوۃ وسطیٰ عصر کی نماز ہے ۔ حضرت عمر ، حضرت علی ، ابن مسعود ، ابو ایوب ، عبداللہ بن عمرو ، سمرہ بن جندب ، ابو ہریرہ ، ابو سعید ، حفصہ ، ام حبیبہ ، ام سلمہ ، ابن عمر ، ابن عباس ، عائشہ ( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) وغیرہ کا فرمان بھی یہی ہے اور ان حضرات سے یہی مروی ہے اور بہت سے تابعین سے یہ منقول ہے ۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام ابو حنیفہ کا بھی صحیح مذہب یہی ہے ۔ ابو یوسف ، محمد سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابن حبیب مالکی بھی یہی فرماتے ہیں ۔ اس قول کی دلیل سنیئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب میں فرمایا اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے دِلوں کو اور گھر کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ یعنی نماز عصر سے روک دیا ( مسند احمد ) حضرت علی فرماتے ہیں کہ ہم اس سے مراد صبح یا عصر کی نماز لیتے ہیں یہاں تک کہ جنگ احزاب میں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ، اس میں قبروں کو بھی آگ سے بھرنا وارد ہوا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ عصر کی نماز ہے ۔ اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ سے ایک مرتبہ اس بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ہم نے بھی ایک مرتبہ اس میں اختلاف کیا تو ابو ہاشم بن عتبہ مجلس میں سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر گئے ، اجازت مانگ کر اندر داخل ہوئے اور آپ سے معلوم کر کے باہر آ کر ہمیں فرمایا یہ نماز عصر ہے ( ابن جریر ) عبدالعزیز بن مروان کی مجلس میں بھی ایک مرتبہ یہی مسئلہ پیش آیا ، آپ نے فرمایا جاؤ فلاں صحابی سے پوچھ آؤ ، تو ایک شخص نے کہا کہ مجھ سے سنیئے مجھے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے میرے بچپن میں یہی مسئلہ پوچھنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تھا ، آپ نے میری چھنگلیا یعنی سب سے چھوٹی انگلی پکڑ کر فرمایا دیکھ یہ تو ہے فجر کی نماز ، پھر اس کے پاس والی انگلی تھام کر فرمایا یہ ہوئی ظہر کی ، پھر انگوٹھا پکڑ کر فرمایا یہ ہے مغرب کی نماز ، پھر شہادت کی انگلی پکڑ کر فرمایا یہ عشاء کی نماز ، پھر مجھ سے کہا اب تمہاری کون سی نگلی باقی رہی ، میں نے کہا بیچ کی ، فرمایا اور نماز کون سی باقی رہی ، میں نے کہا عصر کی ، فرمایا یہی صلوۃ وسطیٰ ہے ( ابن جریر ) لیکن یہ روایت بہت ہی غریب ہے ، غرض صلوۃ وسطیٰ سے نماز عصر مراد ہونا بہت سی احادیث میں وارد ہے جن میں سے کوئی حسن ہے کوئی صحیح ہے کوئی ضعیف ہے ۔ ترمذی مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیثیں ہیں ، پھر اس نماز کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدیں اور سختی کے ساتھ محافظت بھی ثابت ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے جس سے عصر کی نماز فوت ہو جائے گویا اس کا گھرانہ تباہ ہو گیا اور مال و اسباب برباد ہو گیا اور حدیث میں ہے ابر والے دن نمازِ اول وقت پڑھو ، سنو جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز قبیلہ غفار کی ایک وادی میں جس کا نام حمیص تھا ، ادا کی پھر فرمایا یہی نماز تم سے اگلے لوگوں پر بھی پیش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اسے ضائع کر دیا ، سنو اسے پڑھنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے اس کے بعد کوئی نماز ہیں جب تک کہ تم تارے نہ دیکھ لو ( مسند احمد ) حضرت عائشہ اپنے آزاد کردہ غلام ابو یونس سے فرماتی ہیں کہ میرے لئے ایک قرآن شریف لکھو اور جب اس آیت ( حافظا ) تک پہنچو تو مجھے اطلاع کرنا ، چنانچہ جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ نے آیت ( والصلوۃ الوسطی ) کے بعد آیت ( وصلوۃ العصر ) لکھوایا اور فرمایا میں نے خود اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ( مسند احمد ) ایک روایت میں آیت ( وھی صلوۃ العصر ) کا لفظ بھی ہے ( ابن جریر ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیوی صاحبہ حضرت حفصہ نے عمرو بن رافع کو جب آپ کے قرآن کے کاتب تھے ، اسی طرح یہ آیت لکھوائی ( موطا امام مالک ) اس حدیث کے بھی بہت سے طریقے ہیں اور کئی کتابوں میں مروی ہے کہ ام المومنین نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی الفاظ سنے ہیں ، حضرت نافع فرماتے ہیں میں نے یہ قرآن شریف اپنی آنکھوں سے دیکھا ، یہی عبارت واؤ کے ساتھ تھی ، ابن عباس اور عبید بن عسیر کی قرأت بھی یونہی ہے ، ان روایات کو مدنظر رکھ کر بعض حضرات کہتے ہیں کہ چونکہ واؤ عطف کیلئے ہوتا ہے کہ صلوۃ الوسطیٰ اور ہے اور صلوۃ عصر اور ہے لیکن اس کا جاب یہ ہے کہ اگر اسے بطور حدیث کے مانا جائے تو حضرت علی والی حدیث بہت زیادہ صحیح ہے اور اس میں صراحت موجود ہے ، رہا واؤ ، سو ممکن ہے کہ زائدہ ہو عاطفہ نہ ہو جیسے آیت ( وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ ) 6 ۔ الانعام:55 ) میں اور ( وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ ) 6 ۔ الانعام:75 ) میں یا یہ واؤ عطف صفت کیلئے ہو عطف ذات کیلئے نہ ہو جیسے آیت ( وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ) 33 ۔ الاحزاب:40 ) میں اور جیسے آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى Ǻۙ الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى Ą۽ وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى Ǽ۽ وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى Ć۽ ) 87 ۔ الاعلی:1-4 ) میں ۔ اس کی مثالیں اور بھی بہت سی ہیں ، شاعروں کے شعروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے ۔ سیبویہ جو نحویوں کے امام ہیں ، فرماتے ہیں کہ مررت باخیک وصاحبک کہنا درست ہے حالانکہ صاحب اور اخ سے مراد ایک ہی شخص ہے ، واللہ اعلم اور اگر اس قرأت کے الفاظ کو بطور قرآنی الفاظ کے مانا جائے تو ظاہر ہے کہ اس خبر واحد سے قرأت قرآنی ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ تواتر ثابت نہ ہو ، اسی لئے حضرت عثمان نے اپنے مرتب کردہ قرآن میں اس قرأت کو نہیں لیا ، اور نہ ساتوں قاریوں کی قرأت میں یہ الفاظ ہیں بلکہ نہ کسی اور ایسے معتبر قاری کی یہ قراٹ پائی گئی ہے ، علاوہ ازیں ایک حدیث اور ہے جس سے اس قرأت کا منسوخ ہونا ثابت ہو رہا ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ یہ آیت اتری ( حافظو علی الصلوات والصلوۃ الوسطی وصلوۃ العصر ) ہم ایک مدت تک اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو پڑھتے رہے پھر یہ تلاوت منسوخ ہو گئی اور آیت یوں ہی رہی آیت ( حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ) 2 ۔ البقرۃ:238 ) ایک شخص نے راوی حدیث حضرت شفیق سے کہا کہ پھر کیا یہ نماز عصر کی نماز ہی ہے ، فرمایا میں تو سنا چکا کہ کس طرح آیت اتری اور کس طرح منسوخ ہوئی ، پس اس بنا پر یہ قرأت حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کی روایت والی یا تو لفظاً منسوخ کی جائے گی اور اگر واؤ کو مغائرت کیلئے مانا جائے تو لفظ و معنی دونوں کے اعتبار سے منسوخ کی جائے گی ، بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب کی نماز ہے ۔ ابن عباس سے بھی یہ مروی ہے لیکن اس کی سند میں کلام ہے ، بعض اور حضرات کا قول بھی یہی ہے اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ اور فرض نمازیں یا تو چار رکعت والی ہیں یا دو رکعت والی ، اور اس کی تین رکعتیں ہیں پس یہ درمیانہ نماز ٹھہری ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فرض نمازوں کی یہ وتر ہے اور اس لئے بھی کہ اس کی فضیلت میں بھی بہت کچھ حدیثیں وارد ہوئی ہیں ، بعض لوگ اس سے مراد عشاء کی نماز بھی بتلاتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں پانچ وقتوں میں سے ایک وقت کی نماز ہے لیکن ہم معین نہیں کر سکتے یہ مبہم ہے جس طرح لیلۃ القدر پورے سال میں یا پورے مہینے میں یا پچھلے دس دِنوں میں مبہم ہے ۔ بعض حضرات فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کو مجموعہ مراد ہے اور بعض کہتے ہیں یہ عشاء اور صبح ہے ۔ بعض کا قول ہے یہ جماعت کی نماز ہے بعض کہتے ہیں جمعہ کی نماز ہے ، کوئی کہتا ہے صلوۃ خوف مراد ہے ، کوئی کہتا ہے نمازِ عید مراد ہے ، کوئی کہتا ہے صلوۃ ضحیٰ مراد ہے ، بعض کہتے ہیں ہم توقف کرتے ہیں اور کسی قول کے قائل نہیں بنتے ، اس لئے کہ دلیلیں مختلف ہیں ، وجہ ترجیح معلوم نہیں ، کسی قول پر اجماع ہوا نہیں بلکہ زمانہ صحابہ سے لے کر آج تک جھگڑا جاری رہا ، جس طرح حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام اس بارے میں اس طرح مختلف تھے پھر انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر دکھائیں ، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ پچھلے اقوال سب کے سب ضعیف ہیں ، جھگڑا صرف صبح اور عصر کی نماز میں ہے اور صحیح احادیث سے عصر کی نماز کا صلوۃ وسطیٰ ہونا ثابت ہے پس لازم ہو گیا کہ ہم سب اقوال کو چھوڑ کر یہی عقیدہ رکھیں کہ صلوۃ وسطیٰ نمازِ عصر ہے ۔ امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابو حاتم رازی رحمہم اللہ نے اپنی کتاب فضائل شافعی میں روایت کی ہے کہ حضرت امام صاحب فرمایا کرتے تھے حدیث ( کل ماقلت فکان عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بخلاف قولی مما یصح فحدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم اولی ولا تقلدونی ) یعنی میرے جس کسی قول کیخلاف کوئی حدیث صحیح شریف مروی ہو تو حدیث ہی اولیٰ ہے خبردار میری تقلید نہ کرنا ، امام شافعی کے اس فرمان کو امام ربیع امام زعفرانی اور امام احمد بن حنبل بھی روایت کرتے ہیں ، اور موسیٰ ابو الولید جارود امام شافعی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ( اذا صح الحدیث و قلت قولا فانا راجع عن قولی و قائل بذالک ) یعنی میری جو بات حدیث شریف کیخلاف ہو ، میں اپنی اس بات سے رجوع کرتا ہوں اور صاف کہتا ہوں کہ میرا مذہب وہی ہے جو حدیث میں ہو ، یہ امام صاحب کی امانت اور سرداری ہے اور آپ جیسے ائمہ کرام میں سے بھی ہر ایک نے یہی فرمایا ہے کہ ان کے اقوال کو دین نہ سمجھا جائے ۔ رحمھم اللہ ورضی عنھم اجمعین اسی لئے قاضی ماوردی فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا صلوۃ وسطیٰ کے بارے میں یہی مذہب سمجھنا چاہئے کہ وہ عصر ہے ، گو امام صاحب کا اپنا قول یہ ہے کہ وہ عصر نہیں ہے مگر آپ کے اس فرمان کے مطابق حدیث صحیح کے خلاف اس قول کو پا کر ہم نے چھوڑ دیا ۔ شافعی مذہب کے اور بھی بہت سے محدثین نے یہی فرمایا ہے فالحمدللہ بعض فقہاء شافعی تو کہتے ہیں کہ امام صاحب کا صرف ایک ہی قول ہے کہ وہ صبح کی نماز ہے لیکن یہ سب باتیں طے کرنے کیلئے تفسیر مناسب نہیں ، علیحدہ اس کا بیان میں نے کر دیا ہے فالحمدللہ ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع خضوع ، ذلت اور مسکینی کے ساتھ کھڑے ہوا کرو جس کو یہ لازم ہے کہ انسانی بات چیت نہ ہو اسی لئے حضرت ابن مسعود کے سلام کا جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں نہ دیا اور بعد میں فراغت فرمایا کہ نماز مشغولیت کی چیز ہے اور حضرت معاویہ بن حکم سے جبکہ انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے بات کی تو فرمایا نماز میں انسانی بات چیت نہ کرنی چاہئے یہ تو صرف تسبیح اور ذِکر اللہ ہے ( مسلم )
238۔ 1 درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز جس کو حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعین کردیا ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صلوٰۃ وُسْطٰی قرار دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد)
[٣٣٢] عائلی مسائل کے درمیان نماز کی تاکید سے متعلق جو دو آیات آگئی ہیں تو ان کی غالباً حکمت یہ ہے کہ ایسے معاشرتی مسائل کو بحسن و خوبی سر انجام دینے کے لیے جس تقویٰ کی ضرورت ہوتی ہے نماز اس سلسلہ میں موثر کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے نمازوں کی محافظت کی تاکید کی جا رہی ہے یعنی ہر نماز کو اس کے وقت پر اور پوری شرائط و آداب کے ساتھ ادا کیا جائے۔- [٣٣٣] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق کے دن فرمایا۔ ان کافروں نے مجھے درمیانی نماز نہ پڑھنے دی حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) نیز حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) دونوں سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صلٰوۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کی عصر کی نماز قضا ہوگئی اس کا گھر بار، مال و اسباب سب لٹ گیا۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب إثم من فاتتہ العصر) اور بالخصوص اس نماز کی تاکید اس لیے فرمائی کہ دنیوی مشاغل کے لحاظ سے یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے۔- [٣٣٤] یعنی اللہ کے حضور عاجزی اور ادب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ نیز ایسی کوئی فضول حرکت نہ کی جائے جو ادب کے خلاف ہو یا نماز کو توڑ ڈالنے والی ہو جیسے خواہ مخواہ یا عادتاً ہاتھوں کو حرکت دینا، ہلاتے رہنا یا ہنسنا یا بات چیت کرلینا وغیرہ۔ چناچہ حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ ہم نماز میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) - مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے بعد ہمیں حکم دیا گیا کہ چپ چاپ سکون سے کھڑے ہوں اور باتیں کرنے سے بھی منع کردیا گیا (مسلم، کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلوۃ) - ٢۔ حضرت جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ نماز پڑھتے تو نماز کے آخر میں دائیں بائیں السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارے کرتے ہو۔ جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں اتنا ہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہہ لیا کرو۔ (مسلم : کتاب الصلٰوۃ، باب الامر بالسکون فی الصلوۃ والنھی عن الاشارۃ بالید۔۔ ) - ٣۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تم لوگ نماز میں کوئی حرکت نہ کیا کرو۔ پھر آپ نے ایک دفعہ حلقہ باندھے دیکھ کر فرمایا تم لوگ الگ کیوں ہو ؟ پھر ایک مرتبہ آپ نے فرمایا صفیں اس طرح باندھا کرو۔ جیسے فرشتے بارگاہ الٰہی میں صف بستہ رہتے ہیں۔ سب سے پہلے اگلی صف پوری کیا کرو۔ اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو۔ (مسلم حوالہ ایضاً ) - البتہ کچھ کام ایسے ہیں جو حالت نماز میں بھی سر انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً :- ١۔ اگر امام بھول جائے تو مقتدی سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں اور اگر مقتدی عورت ہو تو وہ تالی بجا سکتی ہے۔ (بخاری۔ تصفیق النسائ) - ٢۔ اگر قراءت کرتے ہوئے امام بھول جائے تو مقتدی بتلا سکتا یعنی لقمہ دے سکتا ہے۔- ٣۔ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں صلح کرانے گئے۔ ظہر کا وقت ہوگیا تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے نماز پڑھانا شروع کردی۔ اتنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پہنچ گئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے۔ صحابہ (رض) نے تالی بجائی جس سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) متوجہ ہوئے اور پیچھے کی طرف دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلی صف میں کھڑے تھے۔ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو نماز پڑھاتے رہنے کا اشارہ کیا۔ لیکن ابوبکر صدیق (رض) نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ پھر نماز کے بعد فرمایا کہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے، مرد سبحان اللہ کہا کریں۔ (بخاری) - ٤۔ اگر گرمی کی وجہ سے زمین تپ رہی ہو تو نمازی اپنے سجدہ کی جگہ پر کپڑا بچھا سکتا ہے۔ (بخاری حوالہ ایضاً ) - ٥۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رات کے وقت جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے اور میں اپنے پاؤں لمبے کئے ہوتی تو سجدہ کے وقت آپ مجھے ہاتھ لگاتے تو میں پاؤں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو میں پاؤں لمبے کرلیتی۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً ) - ٦۔ ایک دفعہ حضرت ابن عباس (رض) اپنی خالہ ام المومنین میمونہ (رض) کے ہاں رات رہے۔ انہی کے ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باری تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدھی رات کو اٹھے، وضو کیا اور نماز میں کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابن عباس (رض) نے بھی وضو کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا کر بائیں طرف کھڑے ہو کر نماز میں شامل ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن عباس (رض) کے سر پر ہاتھ رکھا، پھر دائیں کان کو مروڑا۔ پھر انہیں پکڑ کر پیچھے کی طرف سے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب اذا قام الرجل عن یسار الامام۔۔ الخ) - ٧۔ اگر نفلی نماز کے دوران والدہ یا والد پکارے تو نماز توڑ کر بھی ان کی بات سننا چاہیے (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة انفال کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ) - ٨۔ ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ ہم اہواز میں خارجیوں سے جنگ میں مصروف تھے کہ ایک صحابی ابو برزہ اسلمی اپنی گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں سنبھالے نماز پڑھنے لگے۔ گھوڑا لگام کھینچنے لگا اور ابو برزہ بھی ساتھ ساتھ پیچھے چلتے گئے۔ یہ دیکھ کر ایک خارجی کہنے لگا۔ یا اللہ بوڑھے کا ستیا ناس کر۔ جب ابو برزہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس خارجی سے کہا کہ میں نے تمہاری بات سن لی ہے۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ سات آٹھ جہاد کئے ہیں اور میں نے دیکھا کہ آپ لوگوں پر آسانی کیا کرتے تھے اور مجھے یہ اچھا معلوم ہوا کہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں، نہ کہ اس کو چھوڑ دوں کہ وہ جہاں چلا جائے اور میں مصیبت میں پڑجاؤں۔ (بخاری، حوالہ ایضاً ) - ٩۔ حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے لمبا کروں، پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بچے کے رونے سے ماں کے دل پر کیسی چوٹ پڑتی ہے۔ (بخاری، کتاب الاذان۔ باب من اخف الصلوۃ عند بکاء الصبی) - ١٠۔ حضرت ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس اس حال میں آئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص (حضرت زینب کی بیٹی) کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھنا شروع کی جب رکوع کرتے تو امامہ کو زمین پر بٹھلا دیتے اور جب سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اسے اپنے کندھے پر بٹھا لیتے۔ (بخاری : کتاب الادب، باب رحمہ الولد و تقبیلہ ومعانقتہ) اور ایک دوسری روایت میں رکوع کے علاوہ سجدہ کا لفظ آیا ہے (بخاری : کتاب الصلٰوۃ، باب حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلوۃ)
(حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى): شاہ عبدالقادر (رض) فرماتے ہیں : ” درمیانی نماز عصر ہے کہ دن اور رات کے درمیان میں ہے اور اس کی پابندی پر زیادہ زور دیا اور طلاق کے حکموں میں نماز کا ذکر فرما دیا کہ دنیا کے معاملات میں غرق ہو کر عبادت کو نہ بھول جاؤ۔ عصر کی پابندی کا حکم اس لیے زیادہ ہے کہ اس وقت دنیا کا شغل زیادہ ہوتا ہے۔ “ (موضح)- حفاظت سے مراد وقت کا خیال رکھنا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : ” تمام اعمال میں سے اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل محبوب ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” نماز اپنے وقت پر ادا کرنا۔ “ [ بخاری، الصلاۃ، باب - فضل الصلوۃ لوقتہا : ٥٢٧ ]- وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطی : اس کے متعلق گو اختلاف ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک اس سے عصر کی نماز مراد ہے۔ یہی صحیح اور راجح ہے، متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ بخاری، مسلم اور سنن کی کتابوں میں متعدد صحابہ سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۂ احزاب کے موقع پر فرمایا : ( شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلاَۃِ الْوُسْطٰی صَلاَۃِ الْعَصْرِ مَلَأَ اللّٰہُ بُیُوْتَہُمْ وَ قُبُوْرَہُمْ نَارًا )[ مسلم، المساجد، باب الدلیل لمن ۔۔ : ٢٠٥؍٦٢٧۔ بخاری : ٦٣٩٦ ] ” انھوں نے ہمیں صلاۃ الوسطی یعنی عصر کی نماز سے روک دیا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھرے۔ “ بہت سے صحابہ کے آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ - ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کا اہل و عیال اور مال لوٹ لیا گیا۔ “ [ بخاری، مواقیت الصلوۃ، باب إثم من فاتتہ العصر : ٥٥٢۔ مسلم : ٦٢٦ ]- قٰنِتِيْنَ : فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو، یعنی نماز میں کوئی ایسی حرکت نہ کرو جس سے معلوم ہو کہ آدمی نماز کی حالت میں نہیں ہے، جیسے کھانا پینا اور کسی سے بات کرنا۔ عربی زبان میں قنوت کے کئی معانی آتے ہیں، مگر یہاں مراد سکوت (خاموشی) ہے۔ زید بن ارقم (رض) فرماتے ہیں : ” ہم نماز میں ایک دوسرے سے بات کرلیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے ( جو نماز میں ہوتا) اپنی کسی ضرورت کے لیے بات کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ ) تو ہمیں (نماز میں) خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور باتیں کرنے سے منع کردیا گیا۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب ( و قوموا للہ ۔۔ ) : ٤٥٣٤۔ مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام ۔۔ : ٥٣٩ ]
خلاصہ تفسیر :- حکم نمبر ٣٤ نمازوں کی حفاظت کا بیان :- اس سے آگے پیچھے طلاق وغیرہ کے احکام ہیں درمیان میں نماز کے احکام بیان فرمانا اشارہ اس طرف ہے کہ مقصود اصلی توجہ الی الحق ہے اور معاشرت اور معاملات کے احکام سے علاوہ اور مصلحتوں کے اس توجہ کی حفاظت اور ترقی بھی مقصود ہے، چناچہ جب ان کو خدائی احکام سمجھ کر عمل کیا جاوے گا تو توجہ لازم ہوگی پھر یہ کہ ان احکام میں ادائے حقوق عباد بھی ہے اور حقوق عباد کے اتلاف سے درگاہ الہی سے دوری ہوتی ہے جس کے لوازم میں سے حق وعبد دونوں کی طرف سے بےتوجہی ہے چونکہ نماز میں یہ توجہ زیادہ ظاہر ہے اس لئے اس کے درمیان میں لانے سے اس توجہ کے مقصود ہونے پر زیادہ دلالت ہوگی تاکہ بندہ اس توجہ کو ہر وقت پیش نظر رکھے۔- حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى (الی قولہ) مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ محافظت کرو سب نمازوں کی (عموما) اور درمیان والی نماز (یعنی عصر) کی (خصوصا) اور (نماز) میں کھڑے ہوا کرو اللہ کے سامنے عاجز بنے ہوئے پھر اگر تم کو (باقاعدہ نماز پڑھنے میں کسی دشمن وغیرہ کا) اندیشہ ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر چڑھے چڑھے (جس طرح بن سکے خواہ قبلہ کی طرف بھی منہ ہو یا نہ ہو اور گو رکوع و سجود صرف اشارہ ہی سے ممکن ہو) پڑھ لیا کرو (اس حالت میں بھی اس پر محافظت رکھو اس کو ترک مت کرو) پھر جب تم کو (بالکل) اطمینان ہوجاوے (اور اندیشہ جاتا رہے تو تم اللہ تعالیٰ کی یاد (یعنی اس ادائے نماز) اس طریق سے کرو جو تم کو (اطمینان کی حالت میں) سکھلایا ہے جس کو تم (پہلے سے) نہ جانتے تھے۔- معارف و مسائل :- کثرت سے علماء کا قول بعض احادیث کی دلیل سے یہ ہے کہ بیچ والی نماز سے مراد نماز عصر ہے کیونکہ اس کے ایک طرف دو نمازیں دن کی ہیں فجر اور ظہر اور ایک طرف دو نمازیں رات کی ہیں مغرب اور عشاء، اس کی تاکید خصوصیت کے ساتھ اس لئے کی گئی کہ اکثر لوگوں کو یہ وقت کام کی مصروفیت کا ہوتا ہے اور عاجزی کی تفسیر حدیث میں سکوت کے ساتھ آئی ہے۔- اسی آیت سے نماز میں باتیں کرنے کی ممانعت ہوئی ہے پہلے کلام کرنا درست تھا اور یہ نماز کھڑے کھڑے اشارہ سے جب صحیح ہوگی جب ایک جگہ کھڑا ہوسکے اور اس میں سجدے کا اشارہ ذرا زیادہ پست کرے اور چلنے سے نماز نہیں ہوگی البتہ جب ایسا ممکن نہ ہو مثلا عین لڑائی کا وقت ہے تو نماز کو قضا کردیا جاوے گا دوسرے وقت پڑھ لیں (بیان القرآن )
حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ ٢٣٨- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- وسط - وَسَطُ الشیءِ : ما له طرفان متساویا القدر، ويقال ذلک في الكمّيّة المتّصلة کالجسم الواحد إذا قلت : وَسَطُهُ صلبٌ ، وضربت وَسَطَ رأسِهِ بفتح السین . ووَسْطٌ بالسّكون . يقال في الكمّيّة المنفصلة كشيء يفصل بين جسمین . نحو : وَسْطِ القومِ كذا . والوَسَطُ تارة يقال فيما له طرفان مذمومان . يقال : هذا أَوْسَطُهُمْ حسبا : إذا کان في وَاسِطَةِ قومه، وأرفعهم محلّا، وکالجود الذي هو بين البخل والسّرف، فيستعمل استعمال القصد المصون عن الإفراط والتّفریط، فيمدح به نحو السّواء والعدل والنّصفة، نحو : وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة 143] وعلی ذلک قوله تعالی: قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم 48] وتارة يقال فيما له طرف محمود، وطرف مذموم کالخیر والشّرّ ، ويكنّى به عن الرّذل . نحو قولهم : فلان وَسَطُ من الرجال تنبيها أنه قد خرج من حدّ الخیر . وقوله : حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة 238] ، فمن قال : الظّهر فاعتبارا بالنهار، ومن قال : المغرب «فلکونها بين الرّکعتین وبین الأربع اللّتين بني عليهما عدد الرّکعات، ومن قال : الصّبح فلکونها بين صلاة اللّيل والنهار . قال : ولذلک توعّد النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فقال : «من فاته صلاة العصر فكأنّما وتر أهله وماله»- ( و س ط ) وسط الشئی ہر چیز کی در میانی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے اس کے دونوں اطراف کا فاصلہ مساوی ہو اور اس کا استعمال کمیتہ متصلہ یعنی ایک جسم پر ہوتا ہے جیسے وسطہ صلب اس کا در میان سخت ہے ) ضر بت ہ وسط راسہ لیکن وسط ( بالسکون ) کمیت منفصلہ پر بولا جاتا ہے یعنی دو چیزوں کے در میان فاصل کو وسط کہا جاتا ہے جیسے ۔ وسط القوم کذا کہ وہ لوگوں کے در میان فاصل ہے ۔ نیز الوسط ( بفتح السی) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے در میان واقع ہو یعنی معتدل کو افراط وتفریط کے بالکل در میان ہوتا ہے مثلا جوہ کہ ببخل اور اسراف کے در میانی در جہ کا نام ہے اور معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ عدل نصفۃ سواء کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لئے بولا جاتا ہے مثلا جو شخص اپنی قوم میں لحاظ حسب سب سے بہتر اور اونچے درجہ کا ہو اس کے متعلق ھذا وسطھم حسبا کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی ہیں ( امت مسلمہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة 143] اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ۔ اسی طرح آیت : ۔ قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم 48] ایک جوان جوان میں فر زانہ نہ تھا بولا ۔ میں بھی اوسط کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے اور کبھی وسط اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو نہ زیادہ اچھی ہو اور نہ بریوی بلکہ در میانے در جہ کی ہو ۔ اور کبھی کنایۃ رذیل چیز پر بھی بولا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ۔ فلان وسط من لرجال کہ فلاں کم در جے کا آدمی ہے یعنی در جہ خیر سے گرا ہوا ہے اور آیت کریمہ : ۔ حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة 238] مسلمانوں سب نمازیں خصوصا بیچ کی نماز یعنی عصر ایورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ وسطی سے مراد صلوۃ ظہر ہے کیونکہ وہ دن کے در میانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے اور بعض اس سے صلوۃ مغرب مراد لیتے ہیں کیونکہ وہ تعداد رکعات کے لحاظ سے ثنائی اور رباعی نمازوں کے در میان میں ہے اور بعض نے صلوۃ فجر مراد لی ہے کیونکہ وہ دن اور رات کی نمازوں کے در میان میں ہے جیسا کہ دوسری آیت فرمایا : ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء 78]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ( ظہر عصر مغرب عشا کی ) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو ۔ اور صلوہ وسطیٰ کو خاص کر الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کا وقت سستی اور غفلت کا وقت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت اٹھنے کے لئے نیند کی لذت کو چھوڑ نا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ صبح کی اذان میں کا اضافہ کیا گیا ہے اور جو لوگ اس سے صلوۃ عصر مراد لیتے ہیں جیسا کہ آنحضرت سے ایک حدیث میں بھی مروی ہے تو وہ اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ عصر عوام کے کاروبار کا وقت ہوات ہے اس لئے اس نماز میں سستی ہوجاتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کسے کہ ان کے اول یا آخر میں فر صت کا وقت مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زجرا فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز ضائع کردی گویا اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کو بر باد کردیا ۔- قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه - ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔
صلوٰۃ وسطیٰ اور نماز میں کلام کرنے کا ذکر - قول باری ہے (حافظون علی الصلوت والصلوۃ الوسطی، اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو خصوصاً صلوۃ وسطی کی) اس میں نماز کے عمل کو سرانجام دینے کا حکم ہے اور مخافظت کے ذکر کے ساتھ اس کے وجوب کی تاکید کردی گئی ہے۔ ’ الصلوت ‘ سے دن رات کی پانچوں نمازیں مراد ہیں جچو مخاطبین کے ذہنوں میں متعین ہیں اس لئے کہ اس لفظ پر الف لام داخل ہے جو معہود یعنی معلوم و متعین چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔- اس میں نمازوں کو قائم رکھنے، ان کے فرائض کو پورا کرنے، ان کے حدود کی پاسداری کرنے انہیں وقت پر ادا کرنے اور ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنے کے تمام معانی و مفاہیم داخل ہیں کیونکہ محافظت کا حکم ان تمام باتوں کا مقتضی ہے۔ پھر نمازوں کے ذکر کر کے بعد صلوۃ وسطی کا الگ سے ذکر کر کے اس کی اہمیت کی تاکید کردی صلوۃ وسطیٰ کا الگ سے ذکر دو معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ یو تو یہ تمام نمازوں سے افضل اور اس کی محافظت سب سے اولیٰ ہے۔ اس لئے دوسری نمازوں سے اسے الگ کر کے بیان کیا یا یہ کہ اس نماز کی نگہداشت کا حکم دوسری نمازوں سے بڑھ کر ہے۔- سلف سے اس بارے میں مختلف روایات میں جن میں سے بعض پہلے معنی پر اور بعض دوسرے معنی پر دلالت کرتی ہیں۔ حضرت زید بن ثابت (رض) سے مروی ہے کہ یہ ظہر کی نماز ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کے وقت یہ نماز ادا کرتے تھے اور آپ کے پیچھے مقتدیوں کی صرف ایک یا دو صفیں ہوتیں اور باقی لوگ قیلولہ کر رہے ہوتے یا کاروبار میں مصروف ہوتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ ظہر کی نماز صحابہ کرام کے لئے سب سے زیادہ بھاری نماز تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت زید بن ثابت (رض) نے مزید فرمایا کہ اسے صلاۃ وسطیٰ یعنی درمیانی نماز اس لئے کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے دو نمازیں اور اس کے بعد دو نمازیں ہیں۔ اس لئے یہ درمیانی نماز ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے کہ یہ فجر کی نماز ہے۔ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ (رض) سے مروی ہے کہ ان کے مصحف میں یہ الفاظ تھے۔ (حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی صلوۃ العصر) حضرت براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی (حافظون علی الصلوت و صلوۃ العصر) اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں آیت کی قرأت اسی طرح ہوتی ریہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت (حافظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی) کے ذریعے اسے منسوخ کردیا۔ اس طرح حضرت براء نے یہ بتادیا کہ حضرت عائشہ وغیرھا کے مصحف میں آیت کا اندراج جس طرح ہے وہ اب منسوخ ہوچکا ہے، عاصم بن زر نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جنگ خندق میں کفار ہم سے مسلسل لڑتے رہے یہاں تک کہ ہمیں عصر کی نماز ادا کرنے کا موقع نہیں ملا حتیٰ کہ سورج غروب ہونے لگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر فرمایا (اللھم املا قلوب الذین شغلونا عن الصلوۃ الوسطی تارا، اے اللہ جن لوگوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ کی ادائیگی سے مشغول رکھا ان کے دل جہنم کی آگ سے بھر دے) ۔- حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ہم پہلے یہ سمجھتے تھے کہ صلوۃ وسطیٰ سے مراد فجر کی نماز ہے۔ عکرمہ، سعید بن جبیر اور مقسم نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ یہ عصر کی نماز ہے۔ اس طرح حضتر سمرہ بن جندب (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت علی (رض) سے یہی روایت کی ہے کہ یہ عصر کی نماز ہے۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب (رض) اور حضرت قبیصہ بن ذویب (رض) سے مروی ہے کہ یہ مغرب کی نماز ہے۔ ایک قول میں کہا گیا ہے کہ عصر کی نماز کو صلوۃ وسطیٰ اس لئے کہا گیا کہ دن اور رات کی دو دو نمازوں کے درمیان ہے۔- ایک قول ہے کہ سب سے پہلے فجر کی نماز کا وجوب ہوا اور سب سے آخر میں عشاء کی نماز کا اس بنا پر وجوب کے لحاظ سے عصر کی نماز صلوٰۃ وسطیٰ ہوگئی جو لوگ ظہر کی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ کہتے ہیں ان کے قول کی وجہ یہ ہے کہ ظہر کی نماز دن کی دو نمازوں اور فجر اور عصر کے درمیان آتی ہے جن لوگوں نے فجر کی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ کہا ہے تو حضرت ابن عباس (رض) کے قول میں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نماز رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی کے درمیان ادا کی جاتی ہے۔ اس بنا پر وقت کے لحاظ سے اسے صلوٰۃ وسطیٰ کہا گیا ہے۔ بعض لوگ (والصلوۃ الوسطی) سے وجوب وتر کی نفی پر استدلال کرتے ہیں کیونکہ اگر وتر کی نماز واجب ہوتی تو پھر نمازیں تعداد میں چھ ہوجاتیں اور کوئی نماز صلوٰۃ وسطیٰ نہ بن سکتی۔ اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ اگر صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے تو اسے وسطیٰ کہنے کی وہی وجہ ہے جو بیان ہوگئی کہ وجوب کے لحاظ سے یہ درمیانی نماز ہے اور اگر اس سے مراد نماز ظہر ہے تو یہ وسطیٰ اس واسطے ہے کہ یہ دن کی دو نمازوں فجر اور عصر کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس طرح ان صورتوں میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جو وتر کے وجوب کی نفی پر دلالت کرتی ہو کیونکہ وتر کی نماز رات کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے۔- پھر آیت میں صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد وہ فرض نماز ہے جو بقیہ فرض نمازوں میں درمیانی ہو جبکہ وتر کی نماز فرض نہیں ہے۔ اگرچہ یہ واجب ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر واجب فرض بن جائے اس لئے کہ وہ فرض ہوتا ہے جو وجوب کے سب سے اونچے درجے پر ہوتا ہے۔ نیز اگر یہ کہا جائے کہ وتر کی فرضیت فرض نمازوں کے بعد ایک زائد فرض کے طور پر وارد ہوئی جس کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول دلیل ہے۔ (ان اللہ زادکم الی صلاتکم صلوۃ و ھی الوتر، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فرض نمازوں میں ایک اور نماز کا اضافہ کردیا ہے اور یہ وتر کی نماز ہے) تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ وتر کے وجوب سے قبل ہی صلوٰۃ وسطیٰ والی آیت کا نزول ہوچکا تھا اور اس کا نام صلوٰۃ وسطیٰ پڑچکا تھا۔ قول باری ہے (وقوموا للہ قانتین، اور اللہ کے سامنے فرمانبردار بن کر کھڑے ہو جائو) ایک قول ہے کہ لغوی لحاظ سے قنوت کا معنی کسی چیز پر ثبات ہے۔ قنوت کے معنی کے متعلق سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری، شچبی اور عطاء بن ابی رباح سے منقول ہے کہ (و قوموا للہ قانتین) میں (قانتین) کا معنی مطیعین ہے یعنی فرمانبردار بن کر۔ نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ قنوت کا معنی طول قیام ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے اس کے ساتھ یہ ایٓت تلاوت کی (امن ھو قانت اناء اللیل، آیا وہ شخص جو رات کے اوقات میں قنوت کرتا ہے) یعنی دیر تک قیام میں رہتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (افضل الصلوۃ طول القنوت، بہترین نماز وہ ہے جس میں قنوت طویل ہو) یعنی قیام طویل ہو۔- مجاہلہ کا قول ہے کہ قنوت کا معنی سکوت یعنی خاموشی ہے اور اس کا معنی طاعت یعنی فرمانبرداری بھی ہے اور چونکہ قنوت کا اصل معنی کسی چیز پر دوام اور ثبات ہے اس لئے ہمیشہ فرمانبرداری کرنے والے کو قانت کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص نماز میں دیر تک قیام کرے، قرأت کرے یا دعائیں مانگے یا خشوع و خضوع اور سکوت میں طوالت کرے تو ایسے تمام لوگ قنوت پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے قانتین کہلائیں گے۔ یہ بھی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھتے رہے اور اس میں عرب کے ایک قبیلے کے خلاف بددعائیں کرتے رہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے دعائوں کے لئے دیر تک قیام کیا۔ حارث بن شبل نے ابو عمر و شیبانی (رض) نے سے روایت کی ہے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں نماز کے اندر باتیں کرلیتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (و قوموا للہ وانتین) اس کے ذریعے ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم نماز میں کلام کرنے سے نہی کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں ہوتے تو ہم آپ کو سلام کرتے اور آپ اس کا جواب دیتے۔ ہمارے حبشہ جانے سیپ ہلے ایسا ہی ہوتا رہا۔ جب میں حبشہ سے واپس آیا اور نماز کی حالت میں آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب نہیں دیا میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا جس پر آپ نے یہ فرمایا (ان اللہ یحدث من امر کا مایشاء و انہ قضی ان لا تکلموا فی الصلوۃ، اللہ تعالیٰ جو حکم چاہے بھیج سکتا ہے۔ اب اس نے یہ حکم دیا ہے کہ تم نماز میں باتیں نہ کرو) ۔- عطاء بن یسار نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا تو آپ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جواب دیا۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرلیا تو فرمایا (کنا نرد السلام فی الصلوۃ فنھینا عن ذالک، ہم پہلے نماز کے اندر سلام کا جواب دے دیا کرتے تھے۔ اب ہمیں اس سے روک دیا گیا ہے) ابراہیم الھجری نے ابن عیاض سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگ پہلے نماز کے اندر کلام کرلیا کرتے تھے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (واذا قری القرآن فستمعوا لہ و انصلوا، پس جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائو اور خاموش رہو) معاویہ بن الحکم سلمی کی رویات میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان صلاتنا ھذہ لا یصلح فیھا شیء من کلام الناس انماھی التسبیح والتکبیر و قراء ۃ القرآن، ہماری اس نماز میں کسی قسم کی انسانی گفتگو درست نہیں ہے۔ نماز تو نام ہے تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن کا) ۔ ان روایتا میں نماز کے اندر گفتگو کرنے کی ممانعت ہے۔ راویوں کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پہلے نماز کے اندر گفتگو کرنے کی اجازت تھی یہاں تک کہ اس کی ممانعت آ گئی۔ فقاء بھی اس ممانعت پر متفق ہیں البتہ امام مالک کا قول ہے کہ نماز کی اصلاح کے لئے نماز کے اندر گفتگو ہوسکتی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ بھول کر بات کرل ینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔- ہمارے اصحاب نے اس مسئلے میں کوئی فرق نہیں کیا ہے اور گفتگو کے وجود پر نماز کے فساد کا حکم لگا دیا ہے خواہ یہ گفتگو بھول کر ہوئی ہو یا نماز کی اصلاح کے لئے اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت (وقوموا للہ قانتین) اور اس کے متعلقہ یہ روایت کہ یہ نماز میں گفتگو کی ممانعت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ دونوں میں اس امر کے متعلق کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے کہ آیا گفتگو بھول کر ہوئی ہے یا جان بوجھ کر اور آیا اس سے نماز کی اصلاح کا ارادہ کیا گیا تھا یا ارادہ نہیں کیا گیا تھا۔ دوسری طرف اگر محولہ بالا روایت میں آیت کے نزول کا سبب بیان بھی نہ ہوتا پھر بھی آیت میں نماز کے اندر گفتگو کی ممانعت کا احتمال موجود تھا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں جتنی روایتیں منقول ہویں ان میں اصلاح کے قصد اور عدم قصد نیز سمو اور عمد کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ یہ آیت گفتگو کی تمام صورتوں کے لئے عام ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ نماز میں کلام کرنے کی نہی کا دائرہ کار صرف عامد یعنی جان بوجھ کر کلام کرنے والے تک محدود ہے۔ بھول کر کلام کرنے والا اس یمں داخل نہیں ہے اس لئے کہ ناسی یعنی بھول جانے والے کو نہی کرنا محال ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نہی کے حکم میں اس بات کا جواز ہوتا ہے کہ وہ ناسی کو بھی لاحق ہو جس طرح کہ یہ عامد کو لاحق ہوتا ہے۔ البتہ گناہ لازم آنے اور وعید کے استحقاق کے لحاظ سے عامد اور ناسی کی صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ لیکن نماز کے فساد اور وجوب قضاء کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ نماز میں بھول کر کھا لینے والے، وضو توڑ دینے والے اور ہمبستری کرلینے والے کا حکم نماز کے فاسد ہوجانے اور قضاء لازم آنے کے لحاظ سے وہی ہوتا ہے جو جان بوجھ کر ان افعال کے مرتکب کا ہے۔ البتہ گناہ کمانے اور وعید کے سزاوار ہونے کے لحاظ سے ان دونوں کی حالتیں مختلف ہوتی ہیں۔ اس وضاحت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایجاب قضاء کی صورتوں میں نہی کا حکم ناسی کو بھی اسی طرح لاحق ہوتا ہے جس طرح عامد کو اگرچہ گناہ کمانے اور وعید کے سزاوار ہونے کے لحاظ سے دونوں ایک دو سے سے مختلف ہوتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی یہ احادیث ان لوگوں کے قول کے فساد پر دلالت کرتی ہیں جو بقصد اصلاح نماز میں گفتگو کے جواز کے قائل ہیں اور جو بھول کر بات کرنے والے اور جان بوجھ کر بات کرنے والے کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے جسے معاویہ بن الحکم (رض) نے بیان کیا ہے کہ (ان صلاتنا ھذہ لا یصلح فیھا شیء من کلام الناس، ہماری اس نماز میں کلام الناس کی کوئی گنجائش نہیں ہے) اس قول کی حقیقت خبر ہے اس لئے اسے خبر پر ہی محمول کیا جائے گا۔ جس کی بنا پر اس تول کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے اس بات کی اطلاع دی گئی ہے کہ نماز میں کلام الناس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ - اب اگر ایک شخص گفتگو کرلینے کے بعد بھی نمازی رہ سکتا تو پھر نماز میں کسی نہ کسی صورت میں کلام الناس کی گنجائش ہوتی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس نماز میں کلام الناس کی کوئی بھی صورت واقع ہوجائے گی وہ نماز نماز نہیں ہوگی۔ تاکہ حدیث میں خبر کی صورت میں جس بات کی اطلاع دی گئی ہے وہ نماز کی تمام شکلوں میں پائی جاسکے۔ ایک اور پہلو یہ واضح ہے کہ صلاح فساد کی ضد ہے۔ صلاح کا تقاضا ہے کہ اس کے مقابلے میں ہمیشہ فساد کا مفہوم پایا جائے۔ اب جب نماز میں کلام الناس کی گنجائش نہیں تو اس کے وجود کی صورت میں نماز فاسد ہوگی کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوگا پھر نماز میں فساد کے بغیر کلام کی گنجائش پیدا ہوجائے گی اور یہ بات خبر کے متقضی کے خلاف ہے۔ اوپر ہم نے جن دو گروہوں کا قول نقل کیا ہے انہوں نے ذوالیدین کے واقعہ کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی روایت سے استدلال کیا ہے۔ یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دن کے دوسرے حصے کی یاک نماز شاید ظہر یا عصر پڑھائی پھر آپ اٹھے اور مسجد کے آگ کی طرف موجود ایک لکڑی کے پاس جا کر اس پر اپنے دونوں ہاتھ اوپر نیچے رکھ کر کھڑے ہوگئے۔- آپ کے چہرہ مبارک پر غضب کے آثار تھے۔ جلد باز قسم ک لوگ مسجد سے نکل کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے آیا نماز کی رکعتوں میں تخفیف ہوگئی ہے۔ لوگوں میں حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر (رض) بھی موجود تھے لیکن انہیں بھی آپ سے استفسار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اسی دوران ایک شخص اٹھا جس کے دونوں ہاتھ بہت طویل تھے اور جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذوالیدین (لمبے ہاتھوں والا) کہہ کر پکارتے تھے۔ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول آیا آپ بھول گئے یا نماز میں تخفیف ہوگئی ؟ “- آپ نے یہ سن کر فرمایا (لم انس ولم تقصر الصلوۃ، نہ بھولا ہوں اور نہ ہی نماز میں تخفیف ہوئی ہے) اس پر ذوالیدین نے عرض کیا کہ آپ بھول گئے ہیں۔ یہ سن کر آپ لوگوں یک طرف مڑے اور پوچھا کہ آیا ذوالیدین درست کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا اس پر آپ نے ہمیں باقیماندہ دور رکعتیں پڑھائیں اور سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے بھی کئے، ان حضرات نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے سارا واقعہ بیان کردیا جس میں گفتگو بھی شامل ہے لیکن اس گفتگو سے نماز کی بنا یعنی باقیماندہ حصہ کی ادائیگی میں کوئی امتناع پیدا نہیں ہوا۔ دوسری طرف حضرت ابوہریرہ (رض) اسلام لانے والوں میں زمانے کے لحاظ سے متاخرین میں شمار ہوتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ اس مسئلے میں یہ روایت منسوخ نہیں ہوئی۔ یحییٰ بن سعید القطان نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے یہ روایت کی ہے قیس کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عروض کیا کہ ہمیں حدیث سنایئے۔ حضرت ابوہریرہ فرمانے لگے کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تین برسوں تک رہا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ مدینے آئے تو اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر میں تھے۔ آپ بھی ادھر ہو لئے اور جب وہاں پہنچے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر فتح کرچکے تھے۔- ان حضرات نے استدلال میں یہ کہا کہ جب ذوالیدین کا واقعہ حضرت ابوہریرہ (رض) کے اسلام کے بعد پیش آیا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ نماز میں گفتگو کی ممانعت مکہ میں ہوگئی تھی جس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا کہنا ہے کہ جب وہ حبشہ سے واپس آئے تو نماز میں اس کی ممانعت ہو چیک تھی یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کی حالت میں سلام کیا تھا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا تھا اور گفتگو کی ممانعت کی اطلاع دی تھی۔ اس لئے اس پورے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذوالیدین کی حدیث میں جو واقعہ پیش آیا تھا وہ نماز میں گفتگو کی ممانعت کے بعد کا واقعہ ہے۔ امام مالک کے اصحاب کا اس سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ اس واقعے میں گفتگو کی وہ سے نماز اس لئے فاسد نہیں ہوئی کہ یہ ساری گفتگو نماز کی اصلاح کی خاطر ہوئی تھی۔ امام شافعی کا استدلال یہ ہے کہ اس واقعے میں نماز اس لئے فاسد نہیں ہوئی کہ یہ گفتگو بھول کر ہوئی۔ ان حضرات کے اس استدلال کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر ذوالیدین کی حدیث نماز میں کلام کی ممانعت کے بعد کی ہوتی تو یہ نماز میں کلام کو مباح کردیتی اور ماقبل کی ممانعت کے حکم کو ختم کردیتی کیونکہ اس حدیث میں ذوالیدین نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ نماز میں گفتگو کا یہ جواز کسی ایک حالت کے ساتھ مخصوص ہے دوسری حالتوں کے ساتھ نہیں۔ سفیان بن عیینہ نے ابو حازم سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من نابہ فی صلاتہ شیء فلیقل سبحان اللہ انما التصفیق للنساء والتسبیح للرجال، جس شخص کو نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو وہ سبحان اللہ کہے۔ تالی بجانا عورتوں کے لئے ہے۔ مردوں کے لئے تو سبحان اللہ کہنا ہے۔- سفیان نے زہری سے، انہوں نے ابو سلمہ سے۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں (التسبیح للرجال والصفیق للنساء مردوں کے لئے سبحان اللہ کہنا ہے اور عورتوں کے لئے تالی بجانا ہے) اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں گفتگو کرنے سے منع فرما کر کسی صورت حال کے پیش آنے یک شکل میں سبحان اللہ کہنے کا حکم دیا۔ اب جبکہ ذوالیدین کے واقعہ میں صحابہ کرام نے سبحان اللہ نہیں کہا اور نہ ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ترک تسبیح پر انہیں کچھ کہا تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ذوالیدین کا واقعہ صحابہ کرام کو تسبیح دینے سے قبل کا ہے۔ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے موقع کے لئے انہیں تسبیح کی تعلیم دی ہو اور وہ تسبیح چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کریں۔ اور اگر صحابہ کرام اس موقع پر تسبیح کا وہ طریقہ چھوڑ دیتے جس کا انہیں حکم دیتا تو تسبیح کے مامور طریقے کو چھوڑ کر گفتگو کے ممنوع طریقے کو اختیار کرنے پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ان پر ضرور تنقید ہوتی۔- اس میں یہ اس بات کی دلیل موجود ہے کہ ذوالیدین کا واقعہ دو میں سے ایک صورت میں وقوع پذیر ہوا ہے یا تو یہ نماز میں گفتگو کی ممانعت کے حکم سے پہلے وقوع پذیر ہوا یا یہ اس صورت کے بعد وقوع پذیر وا جبکہ نماز میں ابتدائی طور پر کلام کی ممانعت کردی گئی تھی پھر اجازت ہوگئی تھی اور پھر اس قول سے اس کی ممانعت ہوگئی کہ (التسبیح للرجال والتصفیق للنساء) ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نماز کے اندر گفتگو کی ممانعت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو معمر نے زہری سے، انہوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے، انوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کی ہے کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی۔ “ آگے انہوں نے باقی ماندہ حدیث بھی بیان کردی زہری نے اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ بدر سے پہلے کا ہے پھر اس کے بعد معاملات مستحکم ہوتے گئے۔- حضرت زید بن ارقم کا قول ہے کہ ہم نماز کی حالت میں گفتگو کرلیتے تھے حتیٰ کہ آیت (فقوموا للہ قانتین) نازل ہوئی اور ہمیں خاموش رہنے کا حکم ملا۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) کا قول ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کی حالت میں سلام کیا۔ آپ نے اشارے سے اس کا جواب دیا پھر فراغت کے بعد فرمایا (کنانود اسلام فی الصلاۃ فنھینا عن ذالک، ہم پہلے نماز کی حالت میں جواب دے دیا کرتے تھے پھر ہمیں اس سے روک دیا گیا) ۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) کم سن صحابہ میں سے تھے ان کی کم سنی پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہشام نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تھا کہ ” ابو سعید خدری اور انس بن مالک کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کا کیا پتہ، یہ دونوں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں چھوٹے لڑکے تھے۔ “- دوسری طرف حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) حبشہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آمد مدینہ میں ہوئی تھی۔ زہر ینے سعید بن المسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن اور عروہ بن الزبیر سے یہ روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) اور آپ کے رفقاء حبشہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ آئے۔ اہل سیر نے روایت کی ہے جنگ بدر میں ابوجہل کو جب عفراء کے دونوں بیٹوں نے زخمی کردیا تھا تو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اسے قتل کیا تھا۔- اگر بات اسی طرح ہے تو حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے حبشہ سے واپسی پر نماز میں گفتگو کی ممانعت کی خبر دی ہے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معرکہ بدر کے لئے جانے پر تیار بیٹھے تھے۔ دوسری طرف عبداللہ بن وھب نے عبداللہ بن العمری سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر نے ذوالیدین کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ابوہریرہ (رض) نے ذوالیدین کے جس واقعہ کی رویات کی ہے وہ ان کے مسلمان ہونے سے پہلے کی روایت ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) فتح خیبر کے سال مسلمان ہوئے تھے۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی کہ حضرت ابوہریرہ نے اگرچہ اس واقعہ کی رویات کی ہے لیکن وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے۔ جیسا کہ حضرت براء بن عازب (رض) کا قول ہے کہ ” ہم جو باتیں تمہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سناتے ہیں وہ سب کی سب ہم نے آپ سے نہیں سنی ہیں لیکن یہ باتیں ہمارے اصحاب نے ہم سے بیان کی ہیں “۔ حماد بن سلمہ نے حمید سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ” بخدا جو باتیں ہم تمہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سناتے ہیں وہ سب کی سب ہم نے آپ سے نہیں سنی ہیں بلکہ ہم یعنی صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے کو سناتے تھے اور ہم کبھی ایک دوسرے پر غلط بیان کی تہمت نہیں لگاتے “۔ ابن جریج نے عمرو سے، انہوں نے یحییٰ بن جندہ سے، انہوں نے عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” رب کعبہ کی قسم میں نے یہ نہیں دیکھا کہ جو شخص صبح کے وقت جنبی ہو تو وہ روزہ نہ رکھے، بلکہ رب کعبہ کی قسم یہ بات محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے “۔ پھر جب حضرت ابوہریرہ (رض) کو حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام سلمہ (رض) کی یہ روایت سنائی گئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کے وقت جنابت کی حالت میں ہوتے اور جنابت بھی احتلام کی بنا پر نہ ہوتی اور پھر آپ اس دن کا روزہ رکھ لیتے تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے سن کر کہا کہ ” مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ - جو بات میں نے کہی ہے اس یک خبر مجھے فضل بن العباس (رض) نے دی تھی “۔ اب یہاں بھی ذوالیدین کے واقعہ کے سلسلے میں حضرت ابوہریرہ کی روایت میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ حضرت ابوہریرہ (رض) اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کے بعض طرق میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے الفاظ مروی ہیں کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز پڑھائی “۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی اس سے مراد یہ ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو نماز پڑھائی اور حضرت ابوہریرہ بھی مسلمانوں میں سے ایک فرد ہیں۔ جس طرح کہ مسعر بن کذدام نے عبدالمالک بن میسرہ سے اور انہوں نے النزال بن سہرہ سے روایت کی ہے کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اتاوایاکم کناندعی بسنی عبد مناف فانتم الیوم بنو عبداللہ و نحن بنو عبداللہ، ہم اور تم بنو عبد مناف میں سے ہونے کے دعویدار تھے لیکن آج تم بنو عبداللہ ہو اور ہم بھی بنو عبداللہ ہیں ض النزال بن سیرہ کی اس روایت سے مراد یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی قوم سے فرمایا تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ نماز میں گفتگو کی ممانعت کا حکم اگر غزوہ بدر سے قبل دیا گیا ہوتا تو حضرت زید بن ارقم (رض) اس حکم کی گواہی نہ دیتے کیونکہ وہ بہت کم عمر تھے جس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن رواحہ نے جنگ موتہ (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری دور کی جنگ) میں شرکت کی تو اس وقت زید بن ارقم (رض) ایک یتیم کی حیثیت سے ان کی کفالت میں پرورش پا رہے تھے اور ظاہر ہے غزوہ بدر سے قبل پیش آنے والے واقعہ کا حضرت زید بن ارقم جیسے کم سن انسان کو ادراک نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں کا جائے گا کہ اگر حضرت زید بن ارقم (رض) نے نماز میں گفتگو کی اباحت کا مشاہدہ کیا تھا تو یہ جائز ہے کہ ممانعت کے بعد اباحت کا حکم دیا گیا ہو اور پھر ممانعت کردی گئی ہو اور یہی حکم اس سلسلے کا آخری حکم ہو۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بھی ممانعت کے بعد اباحت کلام کا مشاہدہ کیا ہو اور اس کے بعد پھر ممانعت کا حکم دے دیا گیا ہو۔- البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ذوالیدین کے واقعے کے متعلق ان کی روایت لامحالہ مشاہدہ کی بناء پر نہیں ہے کیونکہ وہ اس واقعہ کے بعد مسلمان وئے تھے۔ اس کی بھی گنجائش ہے کہ حضرت زید بن ارقم (رض) نے قول باری (وقوموا للہ قانتین) کے نزول تک نماز میں صحابہ کرام کی گفتگو کی کیفیت کی اطلاع دی ہے اور ان کے اس قول کا کہ ” ہم نماز میں گفتو کرلیا کرتے تھے “۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان نماز میں گفتگو کرلیا کرتے تھے۔ انہوں نے یہ الفاظ اس لئے استعمال کئے تھے کہ وہ بھی مسلمانوں ہی کے ایک فرد تھے جس طرح النزال بن سبرہ کے الفاظ ” ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا “ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ان کی قوم سے خطاب کیا تھا اور انہوں نے اس کی نسبت اپنی طرف اس لئے کی کہ وہ بھی اپنی قوم کے ایک فرد تھے۔ یا جس طرح حسن بصری کا قول ہے کہ ” ہمیں حضرت ابن عباس (رض) نے بصرہ میں خطبہ دیا تھا “ حالانکہ حسن اس وقت وہاں نہیں تھے اور بصرہ میں ان کی آمد اس واقعہ کے بعد ہوئی تھی۔- ذوالیدین کا واقعہ اس زمانے میں پیش آیا تھا جب نماز میں گفتگو کی اباحث تھی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس واقعہ میں یہ مذککور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر مسجد میں گڑھے ہوئے ایک تنے کا سہارا لے کر کھڑے ہوگئے۔ ادھر جلد باز قسم کے لوگ مسجد سے باہر آ گئے اور پھر پوچھنے لگے کہ آیا نماز میں تخفیف ہوگئی ہے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی طرف رخ کر کے استفسار کیا کہ آیا ذوالیدین درست کہہ رہے ہیں لوگوں نے ان کے قول کی تصدیق کی۔ اب ظاہر ہے کہ اس دوران جو گفتو ہوئی اس کا بعض حصہ تو عمداً تھا اور بعض حصہ اصلاح صلوۃ کے لئے نہیں تھا بلکہ کسی اور مقصد کے لئے تھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذوالیدین کا واقعہ اس زمانے میں پیش آیا جب نماز میں گفتگو کی اباحت تھی۔- اس لئے اس بارے میں خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اگر یہ اباحت ابتدا میں تھی اور اس کے بعد ممانعت وارد ہوئی تو پھر ہمارے مخالف کے لئے اس واقعہ سے استدلال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگر یہ واقعہ ممانعت کے بعد پیش آیا تو پھر بھی اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ ممانعت کے بعد اباحت ہوگئی ہو اور پھر ممانعت کردی گئی ہو اور اس طرح آخری حکم ممانعت کا ہو اور اس حکم کے ذریعے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں موجود اباحت کا حکم منسوخ ہوگیا ہو۔ ہم نے یہ پہلے بیان کردیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ مردوں کے لئے تسبیح اور عورتوں کے لئے تصفیق یعنی تالی بجانا ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے بعد کا ارشاد ہے کیونکہ اگر یہ پہلے کا ہوتا تو اس واقعے میں نماز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نسیان پر لوگوں کی طرف سے مامور بہ یعنی تسبیح کو ترک کر کے کلام کرنے پر آپ ضرور تنقید کرتے کیونکہ لوگوں کو یہ علم تھا کہ موقع پر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے۔- اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ تسبیح کا حکم اباحت کلام کا ناسخ ہے اور اس کا ورود اس کے بعد ہوا ہے۔ اب یہ ضروری ہوگیا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں جو حکم ہے وہ عملی طور پر مختلف فیہ ہوجائے اور ممانعت کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات اس کے نسخ کا فیصلہ کردیں۔ اس لئے کہ ہمارا یہ قاعدہ ہے کہ اگر دو روایتیں ایسی آ جائیں جن میں سے ایک خاص ہو اور دوسری عام پھر عام پر عمل پیرا ہونے پر سب کا اتفاق ہو اور خاص پر اختلاف ہو تو ایسی صورت میں پہلی روایت دوسری روایت کو ختم کر دے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے ساہی اور عامد کے حدث کے درمیان فرق کیا ہے تو پھر سہواً اور عمداً کلام کرنے کے درمیان کیوں نہیں فرق کیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بڑا کھوکھلا سا اعتراض ہے جو کسی جواب کے لائق بھی نہیں جواب میں تو صرف یہی پہلو مدنظر ہوتا ہے کہ ایک کے مقابلے میں دوسرے مسئلے یا موقف کے دلائل واضح ہوجائیں۔- بہرحال ہمارے نزدیک افساد صلوۃ کے لحاظ سے ساہی اور عامد ک حدث میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بشرطیکہ اس حدث میں اس کے اپنے فعل کا دخل ہو۔ ہمارے نزدیک فرق ان صورتوں میں پڑتا ہے جبکہ حدث کا یہ فعل خود اس کا اپنا ہو یا ایسا نہ ہو بلکہ بےاختیار لاحق ہوگیا ہو۔ اگر صوتر یہ ہو کہ اس نے بھول کر زخم کو چھیڑ دیا ہو اور اس سے خون نکل آیا ہو یا اسے قے ہوگئی تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی خواہ اس نے بھول کر ایسا کیوں نہ کیا ہو۔- اگر یہ کہا جائے ک آپ نے بھول کر اور جان بوجھ کر سلام کرنے والے کے دریمان فرق کیا ہے حالانکہ سلام کرنا بھی نماز میں کلام کرنے کے تمرادف ہے۔ اس لئے یہی حکم دوسرے تمام کلام کا بھی ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سلام ذکر کی ایک قسم ہے اور اس تمام کلام کا بھی ہونا چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سلام ذکر کی ایک قسم ہے۔ اور اس کے ذریعے نماز سے باہر آنا مسنون ہے۔ اگر نمازی جان بوجھ کر سلام کا قصد کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی جس طرح کہ عمداً سلام کا لفظ کہہ کر نماز کے آخر میں اس سے باہر آ جاتا ہے۔ اگر اس نے بھول کر ایسا کیا تو اسے ایک قسم کا ذکر شمار کرلیا جائے گا اور اس کے ذریعے وہ نماز سے باہر نہیں آسکے گا۔ ہم نے اسے ذکر اس لئے قرار دیا کہ اس لفظ سے فرشتوں اور اس جگہ موجود نمازیوں کو سلام کیا گیا ہے اور نمازی ” السلام علی ملائکۃ اللہ و جبریل و میکال “ (اللہ کے فرشتوں اور جبریل اور میکائیل پر سلام) یا ” اسلام علی نبی اللہ “ (اللہ کے نبی پر سلام) کہے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔- اب چونکہ یہ ذکر کی قسم ہے اس لئے یہ کہہ کر وہ نماز سے باہر نہیں آسکے گا الا یہ کہ وہ جان بوجھ کر یہ کہے تو اس صورت میں نماز سے باہر ہوجائے گا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ نماز میں اس جیسا ذکر موجود ہے اور نماز اس سے فائد نہیں ہوتی اور وہ ہے ” السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین “ اگر نماز میں بھول کر اسی قسم کا ذکر نمازی کی جانب سے ہوجائے اور نہ ہی ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کلام کو شامل ہوگا۔ اگر نمازی جان بوجھ کر سلام کرے تو اس صورت میں ہم نے اس کے فساد کا حکم لگا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ نمازی نے کلام الناس کے ممنوع عمل کا ارتکاب کیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا یہ عمل نماز سے خارج ہوجانے کا مسنون طریقہ ہے۔ اب جبکہ اس نے عمداً یہ عمل کیا تو اس نے گویا نماز سے نکلنے کے مسنون طریقے کا ارادہ کرلیا اور اس طرح اس نے اپین نماز قطع کرلی۔ نیز یہ پہلو بھی ہے کہ شرعی نماز کی شرط یہ ہے کہ اس میں کلام نہ کیا جائے۔ اب جب اس نے جان بوجھ کر کلام کرلیا اور اس کا ارادہ اصلاح صلوٰۃ نہ ہو تو سب کے نزدیک یہ نماز شرعی نماز نہیں ہوئی۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ نماز میں گفتگو کا وجود اس نماز شرعی نماز کے دائرے سے خارج کر دے۔ جس طرح کہ طہارت کی کیفیت ہے چونکہ یہ نماز کی شرط ہے اس بنا پر بھول کر یا جان بوجھ کر ترک طہارت کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا یعنی دونوں صورتوں میں نماز نہیں ہوتی، اسی طرح ترک قرأت، ترک رکوع سجود اور نماز کے بقیہ تمام فرائض کی کیفیت ہے کہ ان میں سہواً یا عمداً ترک سے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔- اس لئے صلوۃ ایک شرعی اسم ہے اور اس کی صحت کا تعلق مختلف شرکاء کے ساتھ ہے جب یہ شرائط نہیں پائی جائیں گی تو اس عمل سے صلوۃ کا شرعی اسم زائل ہوجائے گا اور چونکہ اس کی ایک شرط ترک کلام بھی ہے۔ اس لئے جب کلام کا وجود ہوگا تو اس عمل سے صلوۃ کا شرعی اسم چھن جائے گا اور ایسا شخص فاعل صلوٰۃ نہیں کہلائے گا۔ اس لئے ایسی نماز ہمارے نزدیک درست نہیں ہوگی۔ ہمار اس استدلال پر اگر معترضین ہم پر روزے کی صورت بھی لازم کردیں کہ اس میں ترک اکل شرط ہے اور روزے کے شرعی اسم کا اس کے ساتھ تعلق ہے لیکن اس میں بھول کر اور جان بوجھ کر کھا لینے کے حکم میں اختلاف ہے کہ پہلی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا جبکہ دوسری صورت میں ٹوٹ جاتا ہے تو اس اعتراض کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ دونوں صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے۔ اس بناء پر ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ اگر روایت موجود نہ ہوتی تو یہ ضروری ہوتا کہ بھول کر اور جان بوجھ کر کھا لینے کے حکم میں کوئی فرق نہ ہو اور جب ہمارے اصحاب نے قیاس کو تسلیم کرلیا تو حکم کی علت تمام صورتوں میں جاری رہے گی اور اس کا یہ عمل درست رہے گا۔
(٢٣٨) اب اللہ تعالیٰ پانچوں نمازوں کی جو کہ مقصود حقیقی ہیں تاکید کرتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کے وضو، رکوع، سجود، اور جو چیزیں ان میں واجب ہیں ان کا اور ان کے اوقات کا خاص طور پر اہتمام کرو اور خاص طور پر عصر کی نماز کا بہت ہی اہتمام کرو، اللہ تعالیٰ ہی کے لیے نماز پڑھو کہ قیام و رکوع وسجود کو پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرو اور یہ بھی تفسیر بیان کی گئی ہے کہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز اور فرمانبردار بنے ہوئے کھڑے ہو، کسی کام وغیرہ سے اس کی نافرمانی نہ ظاہر ہو۔- شان نزول : (آیت) ” حافظوا علی الصلوت “۔ (الخ)- امام احمد (رح) اور بخاری (رح) نے اپنی تاریخ میں اور ابو داؤد (رح) ، بیہقی (رح) اور ابن جریر (رح) نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظہر کی نماز شدت گرمی کے وقت پڑھا کرتے تھے یہ نماز صحابہ کرام (رض) پر سب نمازوں سے زیادہ مشکل ہوتی تھی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ پانچوں نمازوں خصوصیت کے ساتھ درمیانی نماز یعنی ظہر کا اہتمام کرو۔ امام احمد، (رح) نسائی (رح) ، اور ابن جریر (رح) نے زید بن ثابت (رض) ہی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھیک دوپہر کے وقت ظہر کی نماز پڑھا کرتے تھے اور آپ کے پیچھے صرف ایک دو صفیں ہوتی تھیں، اور لوگ اس وقت قیلولہ (دوپہر کا آرام) اور اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے تھے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔- اور آئمہ ستہ وغیرہ نے زید بن ارقم (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں نماز میں کلام کرلیا کرتے تھے حتی کہ ہم میں سے کوئی بھی جو اس کے پاس کھڑا ہوتا تھا نماز میں اس سے گفتگو کرلیا کرتا تھا جب تک کہ یہ آیت نازل نہ ہوئی (آیت) ” وقوموللہ “ (الخ) یعنی اللہ کے سامنے عاجز بنے ہوئے کھڑے رہو، اس کے بعد ہمیں خاموشی کا حکم دیا گیا اور کلام کرنے سے روک دیا گئے اور ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) نماز میں بات چیت کرلیا کرتے تھے حتی کہ کوئی شخص اپنے بھائی کو کسی ضرورت کے بارے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ” وقومو للہ قنتین “۔ اتاری۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢٣٨ (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ق) - یہ جو بار بار آ رہا ہے کہ جان لو اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے ‘ جان رکھو کہ اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے ‘ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کی نگاہ میں ہے ‘ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے ‘ تو اس سب کو قلب و ذہن میں مستحضر رکھنے کے لیے تمہیں پنج وقتہ نماز دی گئی ہے کہ اس کی نگہداشت کرو۔ دنیا کے کاروبار سے نکلو اور اللہ کے حضور حاضر ہو کر اس سے کیا ہوا عہد تازہ کرو۔ حفیظ کا ایک شعر ہے : - سرکشی نے کردیے دھندلے نقوش بندگی - آؤ سجدے میں گریں لوح جبیں تازہ کریں - صلوٰۃ وسطیٰ (بیچ والی نماز) کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں ‘ لیکن عام طور پر اس سے مراد عصر کی نماز لی جاتی ہے۔ اس لیے کہ دن میں دو نمازیں فجر اور ظہر اس سے پہلے ہیں اور دو ہی نمازیں مغرب اور عشاء اس کے بعد میں ہیں۔- (وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ) ۔ - قیام ‘ رکوع اور سجدہ فرائضِ نماز میں سے ہیں۔ رکوع میں بندہ اپنے رب کے حضور عاجزی سے جھک جاتا ہے ‘ سجدہ اس جھکنے کی انتہا ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ قیام بھی قنوت ‘ عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہو ‘ معلوم ہو کہ ایک بندہ اپنے آقا کے سامنے باادب کھڑا ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :262 قوانین تمدن و معاشرت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس تقریر کو نماز کی تاکید پر ختم فرماتا ہے ، کیونکہ نماز ہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر خدا کا خوف ، نیکی و پاکیزگی کے جذبات اور احکام الہٰی کی اطاعت کا مادہ پیدا کرتی ہے اور اسے راستی پر قائم رکھتی ہے ۔ یہ چیز نہ ہو تو انسان کبھی الہٰی قوانین کی پابندی پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا اور آخر کار اسی نافرمانی کی رو میں بہہ نکلتا ہے جس پر یہودی بہہ نکلے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :263 “اصل میں لفظ” صَلوٰۃ الْوُسْطیٰ“استعمال ہوا ہے ۔ اس سے مراد بعض مفسرین نے صبح کی نماز لی ہے ، بعض نے ظہر ، بعض نے مغرب اور بعض نے عشاء ۔ لیکن ان میں سے کوئی قول بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے ۔ صرف اہل تاویل کا استنباط ہے ۔ سب سے زیادہ اقوال نماز عصر کے حق میں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ قرار دیا ہے ۔ لیکن جس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جنگ احزاب کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے حملے نے اس درجہ مشغول رکھا کہ سورج ڈوبنے کو آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر نہ پڑھ سکے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”خدا ان لوگوں کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے ، انہوں نے ہماری صلوٰۃ وسطیٰ فوت کرا دی ۔ “ اس سے یہ سمجھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کو صلوٰۃ وسطیٰ فرمایا ہے ، حالانکہ اس کا یہ مطلب ہمارے نزدیک زیادہ قرین صواب ہے کہ اس مشغولیت نے اعلیٰ درجے کی نماز ہم سے فوت کرادی ، ناوقت پڑھنی پڑے گی ، جلدی جلدی ادا کرنی ہوگی ، خشوع و خضوع اور اطمینان و سکون کے ساتھ نہ پڑھ سکیں گے ۔ وسطیٰ کے معنی بیچ والی چیز کے بھی ہیں اور ایسی چیز کے بھی جو اعلیٰ اور اشرف ہو ۔ صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد بیچ کی نماز بھی ہو سکتی ہے اور ایسی نماز بھی جو صحیح وقت پر پورے خشوع اور توجہ الی اللہ کے ساتھ پڑھی جائے ، اور جس میں نماز کی تمام خوبیاں موجود ہوں ۔ بعد کا فقرہ کہ”اللہ کے آگے فرمانبردار بندوں کی طرح کھڑے ہو“ ، خود اس کی تفسیر کر رہا ہے ۔
159: آیت نمبر : ١٥٣ سے اسلامی عقائد اور احکام کا جوبیان شروع ہوا تھا وہ اب ختم ہورہا ہے، آیت نمبر : ١٥٣ میں یہ بیان نماز کی تاکید سے شروع ہوا تھا اب آخر میں دوبارہ نماز کی یہ اہمیت بیان کی جارہی ہے کہ جنگ کے شدید حالات میں بھی امکان کی آخری حد تک اس کا خیال رکھنا ضروری ہے، بیچ کی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے، اس کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور سے اس وقت لوگ اپنا کاروبار سمیٹنے میں مشغول ہوتے ہیں اور اس مشغولیت میں بے پروائی ہونے کا امکان زیادہ ہے۔