Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے لوگ ضروری بات چیت بھی نماز میں کر لیا کرتے تھے ، جب یہ آیت اتری تو چپ رہنے کا حکم دے دیا گیا ، لیکن اس حدیث میں ایک اشکال یہ ہے کہ علماء کرام کی ایک جماعت کے نزدیک نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ شریف کی ہجرت سے پہلے ہی مکہ شریف میں نازل ہو چکی تھی چنانچہ صحیح مسلم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حبشہ کی ہجرت سے پہلے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے آپ نما میں ہوتے پھر بھی جواب دیتے ، جب حبشہ سے ہم واپس آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے آپ کی نماز کی حالت میں ہی سلام کیا آپ نے جواب نہ دیا ، اب میرے رنج و غم کا کچھ نہ پوچھئے نماز سے فارغ ہو کر آپ نے مجھے فرمایا عبداللہ اور کوئی بات نہیں میں نماز میں تھا اس وجہ سے میں نے جواب نہ دیا ، اللہ جو چاہے نیا حکم اتارے ، اس نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ نماز میں نہ بولا کرو ، پس یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے کا ہے اور یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، اب بعض تو کہتے ہیں کہ زید بن ارقم کے قول کا مطلب جنس کلام سے ہے اور اس کی حرمت پر اس آیت سے استدلال بھی خود ان کا فہم ہے واللہ اعلم ، بعض کہتے ہیں ممکن ہے دو دفعہ حلال ہوا ہو اور دو دفعہ ممانعت ہوئی ہو لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ، حضرت ابن مسعود والی روایت جو ابو یعلی میں ہے اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب نہ دینے سے مجھے یہ خوف ہوا کہ شاید میرے بارے میں کوئی وحی نازل ہوئی ہے ۔ آپ نے مجھ سے فارغ ہو کر حدیث ( وعلیک اسلام ایھا المسلم و رحمتہ اللہ ) نماز میں جب تم ہو تو خاموش رہا کرو ، چونکہ نمازوں کی پوری حفاظت کرنے کا فرمان صادر ہو چکا تھا اس لئے اب اس حالت کو بیان فرمایا جاتا جس میں تمام ادب و آداب کی پوری رعایت عموماً نہیں رہ سکتی ، یعنی میدان جنگ میں جبکہ دشمن سر پر ہو تو فرمایا کہ جس طرح ممکن ہو سوار پیدل قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کر لیا کرو ، ابن عمر اس آیت کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں بلکہ نافع فرماتے ہیں میں تو جانتا ہوں یہ مرفوع ہے ، مسلم شریف میں ہے سخت خوف کے وقت اشارے سے ہی نماز پڑھ لیا کرو ، گو سواری پر سوار ہو ، عبداللہ بن انیس کو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن سفیان کے قتل کیلئے بھیجا تھا تو آپ نے اسی طرح نماز عصر اشارے سے ادا کی تھی ( ابو داؤد ) بپس اس میں جناب باری نے اپنے بندوں پر بہت آسانی کر دی اور بوجھ کو ہلکا کر دیا ، صلوۃ خوف ایک رکعت پڑھنی بھی آئی ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر کی حالت میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر کی حالت میں اور دو اور خوف کی حالت میں ایک ( مسلم ) امام احمد فرماتے ہیں یہ اس وقت ہے جب بہت زیادہ خوف ہو ، جابر بن عبداللہ اور بہت سے اور بزرگ صلوۃ خوف ایک رکعت بتاتے ہیں ، امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ فتوحات قلعہ کے موقع پر اور دشمن کے مڈبھیڑ کے موقع پر نماز ادا کرنا اوزاعی فرماتے ہیں اگر فتح قریب آ گئی ہو اور نماز پڑھنے پر قدرت نہ ہو تو ہر شخص اپنے طور پر اشارے سے نماز پڑھ لے ، اگر اتنا وقت بھی نہ ملے تو تاخیر کریں یہاں تک کہ لڑائی ختم ہو جائے اور چین نصیب ہو تو دو رکعتیں ادا کرلیں ورنہ ایک رکعت کافی ہے لیکن صرف تکبیر کہہ لینا کافی نہیں بلکہ تاخیر کر دیں یہاں تک کہ امن ملے ، مکحول بھی یہی کہتے ہیں حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ تستر قلعہ کی لڑائی میں میں بھی فوج میں تھا ، صبح صادق کے وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ، ہمیں وقت ہی نہ ملا کہ نماز ادا کرتے ، خوب دن چڑھے اس دن ہم نے صبح کی نماز پڑھی ، اگر نماز کیلئے بدلے میں مجھے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے مل جائے تاہم میں خوش نہیں ہوں ، بعد ازاں حضرت امام المحدثین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگ خندق میں سورج غروب ہو جانے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز نہ پڑھ سکے ، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے جب اپنے صحابہ کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تو ان سے فرما دیا تھا کہ تم میں سے کوئی بھی بنی قریظہ سے درے نماز عصر نہ پڑھے ، اب جبکہ نماز عصر کا وقت آ گیا تو بعض نے تو وہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا ، وہیں جا کر نماز پڑھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں نہ ڈانٹا ۔ پس اس سے حضرت امام بخاری یہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں گو جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں سورۃ نساء میں جو نماز خوف کا حکم ہے اور جس نماز کی مشروعیت اور طریقہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ جنگ خندق کے بعد کا ہے جیسا کہ ابو سعید وغیرہ کی روایت میں صراحتاً بیان ہے ، لیکن امام بخاری امام مکحول اور امام اوزاعی رحمھم اللہ کا جواب یہ ہے کہ اس کی مشروعیت بعد میں ہونا اس جواز کیخلاف نہیں ، ہو سکتا ہے کہ یہ بھی جائز ہو اور وہ بھی طریقہ ہو ، کیونکہ ایسی حالت میں شاذو نادر کبھی ہی ہوتی ہے اور خود صحابہ نے حضرت فاروق اعظم کے زمانے میں فتح تستر میں اس پر عمل کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا واللہ اعلم ، پھر فرمان ہے کہ امن کی حالت میں بجاآوری کا پورا خیال رکھو ، جس طرح میں نے تمہیں ایمان کی راہ دکھائی اور جہل کے بعد علم دیا تو تمہیں بھی چاہئے کہ اس کے شکریہ میں ذکر اللہ باطمینان کیا کرو ، جیسا کہ نماز خوف کا بیان کر کے فرمایا جب اطمینان ہو جائے تو نمازوں کو اچھی طرح قائم کرو ، نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے ، صلوۃ خوف کا پورا بیان سورۃ نساء کی آیت واذا ( کنت فیھم ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

239۔ 1 یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہو پیادہ چلتے ہوئے، سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣٥] حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے جب کوئی پوچھتا کہ ہم نماز خوف کیسے پڑھیں ؟ تو وہ کہتے کہ امام آگے بڑھے، کچھ لوگ اس کے ساتھ نماز ادا کریں، امام انہیں ایک رکعت پڑھائے، باقی لوگ ان کے اور دشمنوں کے درمیان کھڑے رہیں۔ نماز نہ پڑھیں۔ جب یہ لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھ چکیں تو سرک کر پیچھے چلے جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی اب وہ لوگ آجائیں اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں۔ امام تو اپنی نماز (دو رکعت) سے فارغ ہوگیا۔ اب یہ دونوں گروہ باری باری باقی ایک ایک رکعت پوری کرلیں تو ان کی بھی دو رکعت ہوگئیں، اور اگر خوف اس سے زیادہ ہو تو پاؤں پر کھڑے پیدل یا سواری پر رہ کر نماز ادا کرلیں۔ منہ قبلہ رخ ہو یا کسی اور طرف۔ امام مالک کہتے ہیں کہ نافع نے کہا عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) - [٣٣٦] یعنی جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو نماز پوری اور باجماعت ادا کرو، جیسا کہ عام حالات میں پڑھا کرتے ہو۔ (سفر اور خوف کی نمازوں کی تفصیل کے لیے سورة نساء کی آیت نمبر ١٠١ اور ١٠٢ کے حواشی نمبر ١٣٨ اور ١٣٩ ملاحظہ فرمائیے۔ )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس آیت میں نماز کی حفاظت کی مزید تاکید ہے کہ خوف اور ہنگامی حالت میں بھی نماز معاف نہیں ہے، بلکہ پیدل یا سوار، جس حالت میں بھی ممکن ہو، خوف کے وقت نماز ادا کرلو۔ ہاں خوف ختم ہونے کے بعد نماز کو ان پورے شرائط و ارکان اور آداب کے ساتھ ادا کرو جن کی تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے تعلیم دی ہے۔ صلاۃ خوف کے احکام کے لیے دیکھیے سورة نساء (١٠٢) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا۝ ٠ ۚ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللہَ كَـمَا عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝ ٢٣٩- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - رِّجْلُ- : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔- ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حالت خوف میں نماز - قول باری ہے (فان خفتم فوجالا اور کبانا، اگر تمہیں خوف ہو تو پھر پیدل یا سوار کی صورت میں) اول خطاب میں اللہ تعالیٰ نے نماز اور اس کی محافظت کا حکم دیا اور یہ چیز نماز کے تمام فرائض کی انجام دہی کے لزوم اور اس کی حدود کو قائم رکھنے کی ضرورت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ محافظت کا ذکر ان باتوں کا مقتضی ہے۔- پھر صلوۃ وسطی کا الگ ذکر کر کے اس کی تاکید فرمائی۔ ہم نے تاکید کے ذکر کا فائدہ پہلے بیان کردیا ہے پھر اس پر (قومو اللہ قانتین) کو عطف کیا۔ یہ فقرہ سکوت کے لزوم، نماز میں خشوع اور نماز کی حالت میں چلنے پھرنے اور کام کرنے سے باز رہنے کے معانی پر مشتمل ہے جبکہ امن اور اطمینان کی کیفیت ہو۔ پھر اس حالت خوف کو عطف کر کے تمام احوال میں نماز کی ادائیگی کا حکم دیا اور خوف کی بنا پر ترک صلوٰۃ کی رخصت نہیں دی۔ فرمایا (فان خفتم فرجالا اور کبانا) اس میں لفظ (فرجالا) راجل (پیدل چلنے والا) کی جمع ہے۔ اس لئے آپ ” راجل “ اور ” رجال “ اسی طرح کہتے ہیں جس طرح ’ تاجر “ اور ” تجار “ یا ” صاحب “ اور ” صحاب “ یا ” قائم “ اور ” قیام “ کہتے ہیں۔ خوف کی حالت میں پیدل نماز پڑھنے کا حکم دیا اور ترک صلوٰۃ کے سلسلے میں اسے معذور نہیں سمجھا جس طرح کہ بیمار کو یہ حکم دیا کہ وہ بیماری کی حالت میں کھڑے ہو کر، بیٹھ کر، پہلو پر لیٹ کر جس صورت میں بھی نماز ادا کرسکتا ہو کرے۔ اسی طرح خوف کی حالت میں سواری پر سوار صورت میں نماز کا حکم دیا اور اس طرح اشارے سے ارکان صلوۃ کی ادائیگی کی اباحت کردی کیونکہ سوار کے لئے صرف یہی ممکن ہے کہ وہ اشارے سے نماز ادا کرے اس کے لئے قیام، قعود، رکوع اور سجود ممکن نہیں۔ صلوۃ الخوف کے متعلق حضرت ابن عمر سے مروی ہے ک اگر خوف اس سے زیادہ ہو یعنی جنگ کی صورت ہو تو لوگ اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر پیدل نماز ادا کریں گے یا سوار ہو کر خواہ ان کا رخ قبلے کی طرف ہو یا نہ ہو۔ نافع کا کہنا ہے کہ حتر اب عمر (رض) نے یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ آیت میں جس خوف کا ذکر ہے وہ جنگ سے کم درجے کا خوف ہے لیکن اگر جنگ کا خوف ہو اور دشمن مقابلے پر موجود ہو تو پھر درج بالا طریقے سے نماز ادا کرنا جائز ہوگا۔ خوف کی حالت میں جب سواری پر نماز کی ادائیگی مباح کردی گئی اور اس میں فرق نہیں رکھا گیا کہ کس کا رخ قبلے کی طرف ہے اور کس کا نہیں ہے تو آیت اس دلالت پر مشتمل ہوگئی کہ استقبال قبلہ کے بغیر بھی نماز کی ادائیگی جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر حالت میں نماز کی ادائیگی کا حکم دیا اور یہ فرق نہیں رکھا کہ کس کے لئے استقبال قبلہ ممکن ہے اور کس کے لئے نہیں ممکن تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ جس کے لئے قبلے کی طرف رخ کرنا ممکن نہ ہو وہ جس حالت میں بھی ادائیگی ممکن ہو نماز ادا کرسکتا ہے۔ - اس پر ایک اور جہت سیبھی دلات ہو رہی ہے وہ یہ کہ قیام، رکوع اور سجود نماز کے فرائض ہیں اور اللہ تعالیٰ نے سواری پر سوار ہو کر نماز کی ادائیگ کا حکم دے کر ان فرائض کو چھوڑ دینا مباح کردیا تو پھر استقبال قبلہ کے چھوڑ دینے کا جواز اولیٰ ہوگا کیونکہ قیام، رکوع اور سجود استقبال قبلہ سے بڑھ کر موجکد ہیں اور جب ان کا چھوڑنا جائز ہے تو استقبال قبلہ کا چھوڑنا اس سے بڑھ کر جائز ہوگا۔- اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا سطور میں جو کچھ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خوف کی حالت میں بھی ترک صلوۃ کو مباح قرار نہیں دیا اور جس طرح بھی اس کی ادائیگی ممکن ہو اسے ادا کرنے کا حکم دیا لیکن دوسیر طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق کی جنگ میں چار نمازیں نہیں پڑھیں حتیٰ کہ رات آ گئی پھر آپ نے انہیں اسی ترتیب سے قضا کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس عم ل میں یہ دلیل موجود ہے کہ خوف کی حالت میں ترک صلوٰۃ کے جواز کی گنجائش ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں خوف کی حالت میں بھی نماز کی ادائیگی کا حکم ہے جبکہ اس سے پہلے فرض نمازوں کی ادائیگی کی تاکید گزر چکی ہے کیونکہ زیر بحث آیت قول باری (حافظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطیٰ ) پر عطف ہے پھر آپ نے اس قول (وقوموا للہ قانتین) کے ذریعے اس کی اور تاکید کردی۔ اس میں یہ حکم دیا کہ خشوع اور خضوع نیز سکون اور قیام میں ہمیشگی ہو۔ اور یہ پابندی لگا دی کہ نماز کی حالت میں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف انتقال نہ ہو اگر ہو تو صرف ایسے حال یک طرف جو خود نماز کا جزو ہو مثلاً رکوع و سجود وغیرہ۔ اگر صرف اسی قدر بیان پر اکتفا کرلیا جاتا تو پھر کوئی گمان کرنے والا یہ گمان کرسکتا تھا کہ فرض نمازیں ان شرائط کے بغیر درست نہیں ہوتیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے خوف کی حالت میں ان نمازوں کی ادائیگی کی کیفیت بیان فرما دی اور یہ کہا (فان خفتم فرجالا اور رکبانا) اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے خوف یا بدامنی کی حالت میں بھی اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور مکلفین کو اس حالت کی بناء پر معذور سمجھ کر اس کے ترک کی اجازت نہیں دی۔ یہاں جنگ کی حالت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ خوف کی تمام حالتیں جنگ کی حالتیں نہیں ہوتیں اس لئے کہ دشمن کی موجودگی خوف کا سبب بن جاتی ہے اگرچہ فی الواقع جنگ یک صورت نہ بھی ہو۔ اس حالت میں بھی نماز کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور قتال یعنی جنگ کی حالت کا ذکر نہیں کیا ہے غزوہ خندق میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لئے نمازیں ادا نہیں کیں کہ آپ اور آپ کے صحابہ کفار سے جنگ میں مشعول تھے اور جنگ میں مشغولیت نماز سے مانع ہوجاتی ہے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا تھا (ملا اللہ قبور ھود بیوتھم نارا کما شفا نا عن الصلوۃ الوسطی، اللہ تعالین ان مشرکین کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے کیونکہ انہوں نے ہمیں صلوۃ الوسطیٰ کی ادائیگی سے مشغول رکھا) ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ جنگ میں عملی طور پر مشغول ہوجانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ یہ کیوں نہیں تسلیم کرتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق کی جنگ میں اس لئے نماز ادا نہیں کی تھی کہ اس وقت صلوٰۃ الخوف نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ محمد بن اسحاق اور واقدی سب نے یہ ذکر کیا ہے کہ غزوہ ذات الرقاع کا وقوع غزوہ خندق سے پہلے ہوا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غزوہ میں صلوٰۃ الخوف ادا کی تھی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے موقع پر جو نمازیں چھوڑی تھیں وہ جنگ میں مصروفیت کی بناء پر چھوڑی تھیں کیونکہ قتال نماز کی صحت کے لئے مانع اور اس کے منافی ہے۔- اس آیت سے ان لوگوں نے بھی استدلال کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ خائف کے لئے حالت مشی میں نماز کی ادائیگی درست ہے خواہ وہ کسی کا پیچھا کیوں نہ کر رہا ہو کیونکہ قول باری ہے (فان خفتم فرجال اور کبانا) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے کہ آیت میں مشی (قدموں سے چلنا) مذکور نہیں ہے۔- نیز یہ بات ہے کہ جو شخص کسی کا تعاقب کر رہا ہو وہ خائف نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر اسے کسی قسم کا خوف لاحق بھی ہوجائے تو تعاقب چھوڑ کر جب واپس ہوجائے گا تو اس کا خوف جاتا رہے گا جب کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں خائف کے لئے اس طرح نماز کی ادائیگی کو مباح کیا ہے اور جب کسی شخص کا تعاقب کیا جا رہا ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ خوف کی صورت میں وہ پیدل یا سوار نماز ادا کرے۔ قول باری ہے (فاذا امنتم فاذکرواللہ کما علمکم ما لم تکونوا تعلمون، پھر جب تمہیں امن ہوجائے تو اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں وہ باتیں سکھائیں جو تم نہیں جانتے تھے) جب اللہ تعالیٰ نے حالت خوف کا ذکر فرما کر اس میں سوار یا پیدل ہر ممکن طریقے سے نماز کی ادائیگی کا حکم دیا تو اس پر امن کی حالت کو عطف کر کے فرمایا (فاذا امنتھ فاذکوا اللہ) اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حالت خوف میں جس بات کا بیان گزر چکا ہے اس سے مراد نماز ہے۔ نیز اس کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کے اندر ذکر اللہ واجب ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (والذکرو اللہ قیاما و قعودا، قیام و قعود کی حالتوں میں اللہ کو یاد کرو) اس کی نظیر یہ آیت بھی ہے (وذکراسم ربہ فصلی، اس نے اللہ کے نام کو یاد کر کے پھر نماز پڑھی) ۔ اسی طرح یہ آیت ہے (وقران الفجر ان قران الفجر کان مشہودا، اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے یعنی خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے ہیں) اللہ تعالیٰ نے (حافظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی) جس سے خطاب کی ابتدا کی ہے وہ نماز کی ادائیگی، اس کے فرائض اور شرائط کی تکمیل اور اس کی حدود کی فاظت کے حکم پر مشتمل ہے اور قول باری (وقومو اللہ قانتین) نماز میں قیام کے ایجاب کو متضمن ہے۔ پھر لفظ قنوت ایسا اسم ہے جس کا اطلاق طاعت پر ہوتا ہے اس سے آیت اس بات کی مقتضی ہوگئی کہ نماز کے تمام افعال طاعت کے تحت آتے ہوں اور طاعت کے سوا کسی اور علم کی اس میں مداخلت نہ ہو کیونکہ قنوت کا مفہوم کسی کام پر ہمیشگی ہے۔ اس سے یہ بات خودبخود معلوم ہوگئی کہ نماز میں گفتگو کی ممانعت ہے۔ اسی طرح چلنے اور لیٹنے کی بھی ممانعت ہے۔- نیز کھانے پینے اور ہر ایسے عمل کی ممانعت ہے جو طاعت کے ضمن میں نہ آتا ہو۔ کیونکہ لفظ جس معانی کو متضمن ہے وہ یہ ہے کہ طاعت کے ان افعال پر دوام کا حکم ہے جو نماز کے افعال ہیں اور ان کے سوا اور افعال میں مشغول ہو کر ان کے ترک کی نہی ہے۔ اس لئے کہ ان افعال کے ترک سے ترک قنوت لازم آئے گا جس کا مفہوم طاعت کے ان افعال پر دوام ہے۔ یہ لفظ اس کا بھی متقاضی ہے کہ خشوع اور خضوع نیز سکون میں بھی دوام ہو کیونکہ یہ فظ بہرحال اپنے ضمن میں یہ مفہوم لئے ہوئے ہے اور اس کا متقاضی بھی ہے۔ اس طرح یہ لفظ اپنے حروف کی قلت کے باوجود نماز کے تمام افعال، اذکار، فرائض اور سنن پر مشتمل ہے نیز ہر ایسے فعل کی ممانعت کا بھی متقاضی ہے جو نماز کی حالت میں طاعت کے ضمن میں نہیں آتا، واللہ الموفق۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣٩) اور اگر نماز کے قیام میں کسی دشمن کا خوف ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر چڑھے چڑھے جس طرح ممکن ہو خواہ اشارتا ہو یا قبلہ کی طرف منہ بھی نہ ہوسکے تو نماز پڑھ لیاکرو۔- اور جب دشمن وغیرہ سے بالکل اطمینان ہوجائے تو پھر خاص اللہ تعالیٰ کے لیے رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھو، اس کے مطابق جس کا تمہیں قرآن کریم کے اندر حکم دیا گیا ہے کہ مسافر (چار رکعتوں والی نماز میں) دو رکعتیں پڑھے اور مقیم چار پڑھے، نزول قرآن کریم کے نازل ہونے سے پہلے تم اس سے بیخبر تھے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣٩ (فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً اَوْ رُکْبَانًا ج) ۔ - دشمن اگر پیچھا کر رہا ہے اور آپ رک کر تمام شرائط و آداب کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردیں گے تو وہ آپ کے سر پر پہنچ جائے گا۔ یا آپ نے کہیں جا کر فوری طور پر حملہ کرنا ہے اور آپ نماز کے لیے رک جائیں گے تو مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کرسکیں گے۔ چناچہ دشمن سے خطرے کی حالت میں پیدل یا سوار جس حال میں بھی ہوں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ - (فَاِذَآ اَمِنْتُمْ ) - خطرہ دور ہوجائے اور امن کی حالت ہو۔- (فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ )- اُمت کو نماز کا طریقہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھایا ہے اور حکم دیا ہے : (صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ ) (٣١) نماز پڑھو جیسے کہ تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ نماز کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا ہے۔ روایات سے ثابت ہے کہ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے آکرٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو دن نماز پڑھائی ہے۔ ایک دن پانچوں نمازیں اوّل وقت میں اور دوسرے دن پانچوں نمازیں آخری وقت میں پڑھائیں اور بتادیا کہ ان نمازوں کا وقت ان اوقات کے درمیان ہے۔ چناچہ نماز کے معاملے میں آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معلم حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری امت کے لیے معلم ہیں۔ - اب بیوہ عورتوں کے بارے میں مزید ہدایات آرہی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

160: جنگ کی حالت میں جب باقاعدہ نماز پڑھنے کا موقع نہ ہو اس بات کی اجازت ہے کہ انسان کھڑے کھڑے اشارے سے نماز پڑھ لے البتہ چلتے ہوئے پڑھنا جائز نہیں اگر کھڑا ہونے کا بھی موقع نہ ہو تو نماز قضا کرنا بھی جائز ہے۔