Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بیوگان کے قیام کا مسئلہ: اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس سے پہلے کی آیت اس سے پہلے کی آیت یعنی چار مہینے دس رات کی عدت والی آیت کی منسوخ ہو چکی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن زبیر نے حضرت عثمان سے کہا کہ جب یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے تو پھر آپ اسے قرآن کریم میں کیوں لکھوا رہے ہیں ، آپ نے فرمایا بھتیجے جس طرح اگلے قرآن میں یہ موجود ہے یہاں بھی موجود ہی رہے گی ، ہم کوئی تغیر و تبدیل نہیں کر سکتے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں پہلے تو یہی حکم تھا کہ سال بھر تک نان نفقہ اس بیوہ عورت کو میت کے مال سے دیا جائے اور اسی کے مکان میں یہ رہے ، پھر آیت میراث نے اسے منسوخ کر دیا اور خاوند کو اولاد ہونے کی صورت میں مال متروکہ کا آٹھواں حصہ اور اولاد نہ ہونے کے وقت چوتھائی مال ورثہ کا مقرر کیا گیا اور عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوئی ۔ اکثر صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے ، سعید بن مسیب کہتے ہیں سورۃ احزاب کی آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:49 ) نے اسے منسوخ کر دیا ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں سات مہینے بیس دن جو اصلی عدت چار مہینے دس دن کے سوا کے ہیں اس آیت میں اس مدت کا حکم ہو رہا ہے ، عدت تو واجب ہے لیکن یہ زیادتی کی مدت کا عورت کو اختیار ہے خواہ وہیں بیٹھ کر یہ زمانہ گزار دے خواہ نہ گزارے اور چلی جائے ، میراث کی آیت نے رہنے سہنے کے مکان کو بھی منسوخ کر دیا ، وہ جہاں چاہ عدت گزارے مکان کا خرچ خاوند کے ذمہ ہیں ، پس ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت نے سال بھر تک کی عدت کو واجب ہی نہیں کیا پھر منسوخ ہونے کے کیا معنی؟ یہ تو صرف خاوند کی وصیت ہے اور اسے بھی عورت پورا کرنا چاہے تو کرے ورنہ اس پر جبر نہیں ، وصیتہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وصیت کرتا ہے جیسے آیت ( يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 4 ۔ النسآء:11 ) اس کا نصب فلتو صوالھن کو محذوف مان کر ہے ۔ وصیتہ کی قرأت یہی ہے یعنی آیت ( کتب علیکم وصیتہ ) پس اگر عورتیں سال بھر تک اپنے فوت شدہ خاوندوں کے مکانوں میں رہیں تو انہیں نہ نکالا جائے اور اگر وہ عدت گزار کر جانا چاہیں تو ان پر کوئی جبر نہیں ، امام ابن تیمیہ بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور بھی بہت سے لوگ اسی کو اختیار کرتے ہیں اور باقی کی جماعت اسے منسوخ بتاتی ہے ، پس اگر ان کا ارادہ اصلی عدت کے بعد کے زمانہ کے منسوخ ہونے کا ہے تو خیر ورنہ اس بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے ، وہ کہتے ہیں خاوند کے گھر میں عدت گزارنی ضروری ہے اور اس کی دلیل موطا مالک کی حدیث ہے کہ حضرت ابو سعید خدری کی ہمشیرہ صاحبہ فریعہ بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا ہمارے غلام بھاگ گئے تھے جنہیں ڈھونڈنے کیلئے میرے خاوند گئے قدوم میں ان غلاموں سے ملاقات ہوئی لیکن انہوں نے آپ کو قتل کر دیا ان کا کوئی مکان نہیں جس میں عدت گزاروں اور نہ کچھ کھانے پینے کو ہے اگر آپ اجازت دیں تو اپنے میکے چلی جاؤں اور وہیں عدت پوری کروں ، آپ نے فرمایا اجازت ہے ، میں لوٹی ابھی تو میں حجرے میں ہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا خود بلایا اور فرمایا تم نے کیا کہا ، میں نے پھر قصہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی گھر میں ہی ٹھہری رہو یہاں تک کہ عدت گزر جائے ، چنانچہ میں نے وہیں عدت کا زمانہ پورا کیا یعنی چار مہینے دس دن ۔ حضرت عثمان کے زمانہ میں آپ نے مجھے بلوایا اور مجھ سے یہی مسئلہ پوچھا ، میں نے اپنا یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سمیت سنایا ، حضرت عثمان نے بھی اسی کی پیروی کی اور یہی فیصلہ دیا ، اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

240۔ 1 یہ آیت گو ترتیب میں موخر ہے مگر منسوخ ہے ناسخ آیت پہلے گزر چکی ہے جس میں عدت وفات چار مہینے دس دن بتلائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقرر کردیا ہے اس لئے اب خاوند کو عورت کے لئے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی نہ رہائش کی نہ نان و نفقہ کی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣٧] یہ حکم ابتدائے اسلام میں نازل ہوا تھا کہ مرتے وقت مرد اپنی بیویوں کے متعلق ورثاء کو ایسی وصیت کر جائیں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوہ کا حصہ مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے لیے تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ ہی سے ہوگا، اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ۔۔ : بہت سے علماء نے اس آیت کو اس آیت سے منسوخ قرار دیا ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے، جس میں فوت شدہ خاوند کی بیوی کی عدت چار مہینے دس دن بیان کی گئی ہے۔ اس صورت میں یہ آیت تلاوت کی ترتیب کے لحاظ سے بعد میں آنے کے باوجود ترتیب میں پہلے آنے والی آیت کے ساتھ منسوخ ٹھہرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیر تفسیر آیت کی رو سے پہلے اس عورت کی عدت ایک سال تھی، پھر اسی سورت کی آیت (٢٣٤) سے چار ماہ دس دن قرار دی گئی۔ چناچہ عدت ایک سال ہونا منسوخ ہوگیا اور چار ماہ دس دن کے بعد رہائش اور کھانے وغیرہ کا خرچہ آیت میراث (نساء : ١١، ١٢) کے ساتھ منسوخ ہوگیا، کیونکہ اس میں تمام وارثوں کے حصے مقرر کردیے گئے۔ اب وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ حالانکہ دونوں آیات کے الفاظ پر غور کریں تو پہلی آیت میں واضح حکم ہے کہ ایسی عورت چار ماہ دس دن نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ اپنے آپ کو انتظار میں رکھے گی۔ اسے عدت کہتے ہیں، جب کہ دوسری آیت میں ایک سال اپنے آپ کو انتظار میں رکھنے اور نکاح نہ کرنے کا ذکر ہی نہیں، تو اس آیت کی رو سے عدت ایک سال کیسے بن گئی ؟ اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ یہ پہلی آیت سے منسوخ نہیں، نہ ہی ترتیب تلاوت میں کوئی خلل ہے۔ - رہ گیا نان و نفقہ اور رہائش کا منسوخ ہونا تو جو علماء منسوخ بتاتے ہیں وہ سورة نساء کی آیت میراث سے منسوخ بتاتے ہیں، جو سورة بقرہ کے بعد اتری ہے۔ اس لیے زیر تفسیر آیت کسی طرح بھی پہلی آیت کے ساتھ منسوخ نہیں۔ اگر اس کا کچھ حصہ منسوخ ہے بھی تو سورة نساء کے ساتھ منسوخ ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں، اس میں عدت بیان ہی نہیں ہوئی، بلکہ میت کے اولیاء کو وصیت کا ذکر ہے کہ وہ عورت کی دل جوئی کی خاطر اور مرنے والے سے اظہار محبت و اخلاص کے طور پر چار ماہ دس دن کے بعد مزید سات ماہ بیس دن اسے اپنے شوہر کے گھر میں رہنے دیں۔ ہاں اگر عورت چار ماہ دس دن یا وضع حمل کے بعد اپنی مرضی سے اس گھر سے منتقل ہونا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آیت میراث کے باوجود چار ماہ دس دن اس گھر میں رہنے کا لازمی حکم دے سکتا ہے تو سال کے باقی ماندہ دن اختیاری طور پر وہاں رہنے کی اجازت کا حکم بھی دے سکتا ہے اور یہ آیت میراث کے خلاف نہیں۔ یہ رائے امام مجاہد بن جبر، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رض) اور دوسرے کئی اہل علم کی ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے بھی اسے قوی قرار دیا ہے اور اس سے قرآن کی آیات کی ترتیب کا حسن بھی باقی رہتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- حکم نمبر ٣٥ بیوہ عورت کی سکونت اور متاع کی بعض اقسام کا بیان :- وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ (الی قولہ) وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ اور جو لوگ وفات پاجاتے ہیں تم میں سے اور چھوڑ جاتے ہیں بیبیوں کو (ان کے ذمہ لازم ہے کہ) وہ وصیت کرجایا کریں اپنی بیبیوں کے واسطے ایک سال تک (نان ونفقہ اور گھر میں سکونت رکھنے سے) منتفع ہونے کی اس طور پر کہ وہ گھر سے نکالی نہ جاویں ہاں اگر (چار مہینے دس دن کے بعد یا وضع حمل کے بعد عدت گذار کر) خود نکل جاویں تو تم کو کوئی گناہ نہیں، اس قاعدہ کی بات میں جس کو اپنے بارے میں (تجویز) کریں (جیسے نکاح وغیرہ) اور اللہ تعالیٰ زبردست ہیں (ان کے خلاف حکم مت کرو) اور حکمت والے ہیں (کہ تمام احکام میں تمہاری مصلحتیں ملحوظ رکھی ہیں گو تمہاری فہم میں نہ آسکیں) وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ (الیٰ قولہ) لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ اور سب طلاق دی ہوئی عورتوں کے لئے کچھ کچھ فائدہ پہنچانا (کسی درجہ میں مقرر ہے) قاعدہ کے موافق (اور یہ) مقرر ہوا ہے ان پر جو (شرک و کفر سے) پرہیز کرتے ہیں (یعنی مسلمانوں پر خواہ یہ مقرر ہونا وجوب کے درجہ میں ہو یا استحباب کے مرتبہ میں) اسی طرح حق تعالیٰ تمہارے (عمل کرنے کے) لئے اپنے احکام بیان فرماتے ہیں اس توقع پر کہ تم (ان کو) سمجھو (اور عمل کرو) - معارف و مسائل : - (١) وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ (الی قولہ) وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ زمانہ جاہلیت میں وفات زوج کی عدت ایک سال تھی اور اسلام میں بجائے ایک سال کے چار مہینے دس دن مقرر ہوئے جیسا کہ ماقبل میں آیت يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا سے معلوم ہوچکا ہے مگر اس میں عورت کی اتنی رعایت رکھی گئی تھی کہ چونکہ اس وقت تک میراث کا حکم نازل نہ ہوا تھا، اور بیوی کا کوئی حصہ میراث میں مقرر نہ ہوا تھا بلکہ اوروں کے حق کا مدار محض مردے کی وصیت پر تھا جیسا کہ آیت كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ (١٨٠: ٢) کی تفسیر میں معلوم ہوچکا ہے اسلئے یہ حکم ہوگیا تھا کہ اگر عورت اپنی مصلحت سے خاوند کے ترکہ کے گھر میں رہنا چاہے تو سال بھر تک اس کو رہنے کا حق حاصل ہے اور اسی کے ترکہ سے اس مدت میں اس کو نان نفقہ بھی دیا جاوے اس آیت میں اسی کا بیان ہے اور خاوندوں کو حکم ہے کہ اس طرح کی وصیت کرجایا کریں، اور چونکہ یہ حق عورت کا تھا اس کو اس کے وصول کرنے نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا اس لئے وارثوں کو تو گھر سے نکالنا جائز نہ تھا لیکن خود اس کو جائز تھا کہ خود اس کے گھر نہ رہے اور اپنا حق ورثہ کو چھوڑدے بشرطیکہ عدت پوری ہوچکے اور نکاح کرنا وغیرہ سب درست تھا اور یہی مراد ہے قاعدہ کی بات سے۔ البتہ عدت کے اندر نکلنا اور نکاح کرنا وغیرہ سب گناہ تھا عورت کے لئے بھی اور جو منع کرسکے اور نہ روکے اس کے لئے بھی پھر جب آیت میراث کی نازل ہوئی گھر بار سب ترکہ میں سے عورت کا حق مل گیا سو اپنے حصہ میں رہے اور اپنے حصہ سے خرچ کرے یہ آیت منسوخ ہوگئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا۝ ٠ ۚۖ وَّصِيَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ۝ ٠ ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْ مَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ ٢٤٠- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى - ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤٠) اور جو لوگ تم میں سے انتقال کرجاتے ہیں اور مرنے کے بعد بیویوں کو چھوڑ جاتے ہیں تو ان پر وصیت واجب ہے اور اگر اس لفظ کو ھاء کے زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ ان کو وصیت کرنی چاہیے تو اپنے مال میں یہ وصیت کرنا چاہئے کہ ان کے لیے ایک سال تک نان ونفقہ اور رہائش ہے، بغیر اس کے کہ ان کو شوہر کے مکان سے نکالا جائے۔- اور اگر وہ عورتیں خود چلی جائیں یا سال پورا ہونے سے پہلے وہ کسی اور شخص سے شادی کرلیں تو ان کے اپنے خاوند کے گھر سے نکلنے یا کسی اور سے شادی کرنے پر نان ونفقہ اور رہائش کے روک لیتے ہیں تو میت کے وارثوں پر اس چیز میں میں کوئی گناہ نہیں اور نہ ان کاموں میں اولیاء پر کوئی گناہ نہیں بات ہے جو یہ عورتیں اپنی شادی کے لیے (عدت گزرنے کے بعد) بناؤ سنگھار کریں۔- مگر یہ نفقہ (خرچہ) وغیرہ کا حکم آیت میراث سے منسوخ ہوگیا (کیونکہ میراث میں حق تعالیٰ نے خاوند کی ہر ایک چیز میں عورت کا حصہ رکھ دیا) اور جو احکام الہیہ کو ترک کرے اللہ تعالیٰ اس کو پکڑنے پر غالب ہیں اور حکمت والے ہیں کہ میراث کے حکم سے پہلے یہ ایک سال تک نفقہ رہائش کا حکم دیا تھا پھر بعد میں میراث سے اس حکم کو منسوخ کردیا۔- شان نزول : (آیت) ” والذین یتوفون منکم “۔ (الخ)- اسحاق بن راہویہ (رح) نے اپنی تفسیر میں مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص اہل طائف میں سے مدینہ منورہ چلا آیا اور اس کی اولاد اور مرد وعورتیں اور ماں باپ بھی تھے وہ مدینہ منورہ میں انتقال کرگیا، اس چیز کی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی گئی، آپ نے اس کے والدین اور اولاد اور مرد وعورتیں اور ماں باپ بھی تھے وہ مدینہ منورہ میں انتقال کرگیا، اس چیز کی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی گئی، آپ نے ان کے والدین اور اولاد کی دستور کے مطابق مال دے دیا، مگر اس کی بیوی کو کچھ نہ دیا، تاہم اس کے وارثوں کو حکم دیا کہ اس کے خاوند کے مال میں سے ایک سال تک اس کو نفقہ یعنی خرچ دیا جائے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤٠ (وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ج) (وَّصِیَّۃً لِاَّزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ ج) ۔ - مثال کے طور پر ایک شخص فوت ہوا ہے اور اس کی چار بیویاں ہیں ‘ جن میں سے ایک کے ہاں اولاد ہے ‘ جبکہ باقی تین اس اولاد کی سوتیلی مائیں ہیں۔ اب یہ اولاد سگی ماں کو تو اپنی ماں سمجھ کر اس کی خدمت کرے گی اور باقی تین کو خواہ مخواہ کی ذمہّ داری ( ) سمجھے گی۔ تو فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ ان بیواؤں کو فوراً گھر سے نکال دو ‘ کہ جاؤ اپنا راستہ لو ‘ جس سے تمہاری شادی تھی وہ تو فوت ہوگیا ‘ بلکہ ایک سال کے لیے انہیں گھر سے نہ نکالا جائے اور ان کا نان نفقہ دیا جائے۔ ان آیات کے نزول تک قانون وراثت ابھی نہیں آیا تھا ‘ لہٰذا بیواؤں کے بارے میں وصیت کا عبوری حکم دیا گیا ‘ جیسا کہ قبل ازیں آیت ١٨٠ میں والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت کا عبوری حکم دیا گیا۔ سورة النساء میں قانون وراثت نازل ہوا تو اس میں والدین کا حق بھی معینّ کردیا گیا اور شوہر کی وفات کی صورت میں بیوی کے حق کا اور بیوی کی وفات کی صورت میں شوہر کے حق کا بھی تعینّ کردیا گیا اور اب والدین و عزیز و اقارب اور بیوگان کے حق میں وصیت کی ہدایات منسوخ ہوگئیں۔- (فَاِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ ط) ۔ - اگر کوئی عورت عدت گزارنے کے بعد دوسری شادی کر کے کہیں بسنا چاہے تو تم اسے سال بھر کے لیے روک نہیں سکتے۔ وہ اپنے حق میں معروف طریقے پر جو بھی فیصلہ کریں وہ اس کی مجاز ہیں ‘ اس کا کوئی الزام تم پر نہیں آئے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :264 سلسلہ تقریر اوپر ختم ہو چکا تھا ، یہ کلام اس کے تتمے اور ضمیمے کے طور پر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

161: آخر میں طلاق کے جو مسائل چل رہے تھے ان کا ایک تکملہ ضمنی طور پر بیان ہوا ہے جو مطلقہ عورتوں کے حقوق سے متعلق ہے، زمانۂ جاہلیت میں بیوہ عورت کی عدت ایک سال ہوتی تھی ؛ لیکن اسلام نے پیچھے آیت نمبر : ٢٣٤ میں عدت کی مدت گھٹا کر چار مہینے دس دن مقرر کردی، جس وقت زیر نظر آیت نازل ہوئی ہے اس وقت تک میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور جیسا کے اوپر آیت نمبر : ١٨٠ میں گزرا لوگوں پر یہ واجب تھا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے حق میں وصیت کیا کریں کہ ان کے ترکے سے کس کو کتنا دیاجائے، لہذا اس آیت میں اسی اصول کے تحت یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگرچہ بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن ہے، لیکن اس کے شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کے حق میں یہ وصیت کرجائے کہ اسے سال بھر تک اس کے ترکے سے نفقہ بھی دیا جائے اور اس کے گھر میں رہائش بھی فراہم کی جائے، البتہ وہ خود اپنا یہ حق چھوڑدے اور چار مہینے دس دن کے بعد شوہر کے گھر سے چلی جائے تو کچھ حرج نہیں، ہاں چار مہینے دس دن سے پہلے اس کے لئے بھی شوہر کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، اگلے جملے میں جوکہا گیا ہے کہ ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو اپنے حق میں قاعدے کے مطابق وہ جو کچھ بھی کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، اس میں قاعدے سے مراد یہی ہے کہ وہ عدت پوری کرنے کے بعد نکلیں، پہلے نہیں، لیکن یہ سارا حکم میراث کے احکام آنے سے پہلے تھا، جب سورۂ نساء میں میراث کے احکام آگئے اور بیوی کا حصہ ترکے میں مقرر کردیا گیا توسال بھر کے نفقے اور رہائش کا یہ حق ختم ہوگیا۔