مطلقہ عورت کو فائدہ دینے کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ اگر ہم چاہیں دیں ، چاہیں نہ دیں ، اس پر یہ آیت اتری ، اسی آیت سے بعض لوگوں نے ہر طلاق والی کو کچھ نہ کچھ دینا واجب قرار دیا ، اور بعض دوسرے بزرگوں نے اسے ان عورتوں کے ساتھ مخصوص مانا ہے جن کا بیان پہلے گزر چکا ہے یعنی جن عورتوں سے صحبت نہ ہوئی اور مہر بھی نہ مقرر ہوا ہو اور طلاق دے دی جائے لیکن پہلی جماعت کا جواب یہ ہے کہ عام میں سے ایک خاص صورت کا ذِکر کرنا اسی صورت کے ساتھ اس حکم کو مخصوص نہیں کرتا جیسا کہ مشہور اور منصوص مذہب ہے واللہ اعلم ،
241۔ 1 یہ حکم عام ہے جو ہر متعلقہ عورت کو شامل ہے اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے اس کے بیشمار معاشی فوائد ہیں کاش مسلمان اس نہایت ہی اہم نصیحت پر عمل کریں۔
[٣٣٨] آیت نمبر ٢٣٦ میں طلاق کے وقت کچھ دے دلا کر رخصت کرنے کا حکم صرف ایسی مطلقہ کے لیے ہے جس کا نہ تو حق مہر مقرر ہوا ہو۔ نہ ہی اس کے خاوند نے صحبت کی ہو اور وہ صحبت سے پیشتر ہی فوت ہوجائے۔ اب یہاں ایسا حکم ہر قسم کی مطلقہ کے لیے دیا جا رہا ہے اور اس کی تاکید بھی کردی گئی کہ پرہیزگاروں کا یہ شیوہ نہیں ہوتا کہ وہ طلاق دے کر مطلقہ کو خالی ہاتھ گھر سے نکال باہر کریں۔
سورة بقرہ کی آیت (٢٣٦) میں ان مطلقہ عورتوں کو سامان دینے کا حکم تھا جنھیں نہ خاوند نے ہاتھ لگایا ہو اور نہ مہر مقرر ہوا ہو، جبکہ اس آیت میں تمام مطلقہ عورتوں کو اچھے طریقے سے کچھ سامان، کپڑوں کا جوڑا وغیرہ دے کر رخصت کرنے کا حکم ہے، تاکہ عورت کی کچھ دل جوئی ہوجائے۔ یہ احسان کا تقاضا ہے۔
(٢) وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ مطلقہ عورتوں کو متعہ یعنی فائدہ پہچانا اس سے پہلی آیات میں بھی آچکا ہے مگر وہ صرف دو قسم کی مطلقات کے لئے تھا جن کو صحبت وخلوت سے پہلے طلاق ہوگئی ہو ایک کو فائدہ پہنچانا یہ تھا کہ جوڑا دیا جائے دوسری کو فائدہ پہنچانا یہ تھا کہ آدھا مہر دیا جائے اب وہ طلاق والیاں رہ گئیں جن کو صحبت یا خلوت کے بعد طلاق دی جاوے سو ان میں جس کا مہر مقرر کیا گیا ہو اس کو فائدہ پہنچانا یہ ہے کہ پورا مہر دینا چاہئے اور جس کا مہر مقرر نہ کیا جاوے اس کے لئے بعد دخول کے مہر مثل واجب ہے یہ متاع بمعنی مطلق فائدہ پہنچانا اس تفصیل سے تو واجب ہے اور اگر متاع سے مراد فائدہ خاص یعنی تحفہ یا جوڑا دینا ہی لیا جائے تو ایک مطلقہ کو تو دینا واجب ہے جس کا ذکر ماقبل میں آچکا ہے اور باقی سب اقسام میں مستحب ہے اور اگر متاع سے مراد نفقہ لیا جاوے تو جس طلاق میں عدت ہے اس میں عدت گزر نے تک واجب ہے خواہ طلاق رجعی ہو یا بائن غرض آیت اپنے الفاظ عامہ سے سب صورتوں کو شامل ہے۔
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ٠ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ٢٤١- طلق - أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] - ( ط ل ق ) - ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
(٢٤١۔ ٢٤٢) ان عورتوں کو کچھ فائدہ پہنچانا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا مقرر ہوا ہے، واجب نہیں کیوں کہ یہ بطور احسان کے حق مہر کے علاوہ ہے، اسی طرح حق تعالیٰ احکام الہی کو بیان کرتا ہے، جیسا کہ ان چیزوں کو بیان کیا ہے تاکہ تم اللہ کے حکموں کو سمجھو۔- شان نزول : (آیت) ” وللمطلقت متاع بالمعروف “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے ابن زید (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ ”۔ ومتعوھن علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ “۔ نازل ہوئی تو اس پر ایک شخص کہنے لگا کہ اگر اس نے بھلائی کی تو میں بھی ایسا کروں گا اور اگر اس نے بھلائی دیکھنے میں نہ آئی تو میں یہ سلوک نہیں کروں گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ سب طلاق دی ہوئی عورتوں کے لیے کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچانا مقرر ہوا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢٤١ (وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌم بالْمَعْرُوْفِ ط) (حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ) ۔ - واضح رہے کہ یہ ہدایت عدت کے وقت تک کے لیے ہے ‘ اس کے بعد نہیں۔ اسی معاملے میں کلکتہ ہائی کو رٹ نے شاہ بانو کیس میں جو ایک فیصلہ دیا تھا اس پر ہندوستان میں شدید احتجاج ہوا تھا۔ اس نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ کوئی مسلمان اگر اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ بیوی اگر تو دوسری شادی کرلے تب تو بات دوسری ہے ‘ ورنہ جب تک وہ زندہ رہے گی اس کا نان نفقہ طلاق دینے والے کے ذمے ّ رہے گا۔ اس پر بھارت کے مسلمانوں نے کہا کہ یہ ہماری شریعت میں دخل اندازی ہے ‘ شریعت نے مطلقہ کے لیے صرف عدت تک نان نفقہ کا حق رکھا ہے۔ چناچہ مسلمانوں نے اس مسئلے پر احتجاجی تحریک چلائی ‘ جس میں بہت سے لوگوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آخر کار راجیو گاندھی کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور پھر وہاں یہ قانون بنا دیا گیا کہ ہندوستان کی کوئی عدالت بشمول سپریم کو رٹ مسلمانوں کے عائلی قوانین میں دخل نہیں دے سکتی۔ اس پر میں مسلمانان بھارت کی عظمت کو سلام پیش کیا کرتا ہوں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ ہوا کہ ایک فوجی آمر نے عائلی قوانین بنائے جن کے بارے میں سنی ‘ شیعہ ‘ اہل حدیث ‘ دیوبندی ‘ بریلوی تمام علماء اور جماعت اسلامی کی چوٹی کی قیادت سب نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ یہ قوانین خلاف اسلام ہیں ‘ مگر وہ آج تک چل رہے ہیں۔ ایک اور فوجی آمر گیارہ برس تک یہاں پر کو سِ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ بجاتا رہا اور اسلام اسلام کا راگ بھی الاپتارہا ‘ لیکن اس نے بھی ان قوانین کو جوں کا توں برقرار رکھا۔ اسی بنیاد پر میں نے اس کی شوریٰ سے استعفا دیا تھا۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں نے وہاں پر یہ بات نہیں ہونے دی۔
162: مطلقہ عورتوں کو فائدہ پہنچانے کا لفظ بڑا عام ہے۔ اس میں عدت کے دوران کا نفقہ بھی داخل ہے اور اگر ابھی مہر نہ دیا گیا ہو تو وہ بھی داخل ہے، نیز اوپر آیت نمبر : ۶۳۲ میں جس تحفے کا ذکر ہے وہ بھی اس میں شامل ہے۔ یہ تحفہ اس صورت میں تو واجب ہے جب کوئی مہر مقرر نہ ہوا ہو، اور خلوت سے پہلے طلاق واقع ہوگئی ہو، لیکن جب مہر مقرر ہوا ہو تو اس صورت میں بھی مستحب ہے کہ مطلقہ عورت کو مہر کے علاوہ یہ تحفہ بھی دیا جائے ان تمام احکام سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اول تو طلاق کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اقدام اسی وقت کرنا چاہئے جب کوئی اور صورت باقی نہ رہی ہو، دوسرے جب یہ اقدام کیا جائے تونکاح کے تعلق کا اختتام بھی شرافت، فراخ دلی اور احترام سے خوشگوار ماحول میں ہونا چاہئے، دُشمنی کے ماحول میں نہیں۔