Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جبر اور دعوت اسلام یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ کسی کو جبراً اسلام میں داخل نہ کر ، اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہو چکی اس کے دلائل و براہین بیان ہو چکے ہیں پھر کسی اور جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جسے اللہ رب العزت ہدایت دے گا ، جس کا سینہ کھلا ہوا دِل روشن اور آنکھیں بینا ہوں گی وہ تو خود بخود اس کا والہ و شیدا ہو جائے گا ، ہاں اندھے دِل والے بہرے کانوں والے پھوٹی آنکھوں والے اس سے دور رہیں گے پھر انہیں اگر جبراً اسلام میں داخل بھی کیا تو کیا فائدہ؟ کسی پر اسلام کے قبول کرانے کیلئے جبر اور زبردستی نہ کرو ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں جب انہیں اولاد نہ ہوتی تھی تو نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہود بنا دیں گے ، یہودیوں کے سپرد کر دیں گے ، اسی طرح ان کے بہت سے بچے یہودیوں کے پاس تھے ، جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور اللہ کے دین انصار بنے ، یہودیوں سے جنگ ہوئی اور ان کی اندرونی سازشوں اور فریب کاریوں سے نجات پانے کیلئے سرور رسل علیہ السلام نے یہ حکم جاری فرمایا کہ بنی نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا جائے ، اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو ان کے پاس تھے ان سے طلب کئے تاکہ انہیں اپنے اثر سے مسلمان بنالیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جبر اور زبردستی نہ کرو ، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کے قبیلے بنوسالم بن عوف کا ایک شخص حصینی نامی تھا جس کے دو لڑکے نصرانی تھے اور خود مسلمان تھا ، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بار عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنا لوں ، ویسے تو وہ عیسائیت سے ہٹتے نہیں ، اس پر یہ آیت اتری اور ممانعت کر دی ، اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ نصرانیوں کا ایک قافلہ ملک شام سے تجارت کیلئے کشمش لے کر آیا تھا جن کے ہاتھوں پر دونوں لڑکے نصرانی ہوگئے تھے جب وہ قافلہ جانے لگا تو یہ بھی جانے پر تیار ہوگئے ، ان کے باپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذِکر کیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں انہیں اسلام لانے کیلئے کچھ تکلیف دوں اور جبراً مسلمان بنالوں ، ورنہ پھر آپ کو انہیں واپس لانے کیلئے اپنے آدمی بھیجنے پڑیں گے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، حضرت عمر کا غلام اسبق نصرانی تھا ، آپ اس پر اسلام پیش کرتے وہ انکار کرتا ، آپ کہہ دیتے کہ خیر تیری مرضی اسلام جبر سے روکتا ہے ، علماء کی ایک بڑی جماعت کا یہ خیال ہے کہ یہ آیت ان اہل کتاب کے حق میں ہے جو فسخ و تبدیل توراۃ و انجیل کے پہلے دین مسیحی اختیار کر چکے تھے اور اب وہ جزیہ پر رضامند ہو جائیں ، بعض اور کہتے ہیں آیت قتال نے اسے منسوخ کر دیا ، تمام انسانوں کو اس پاک دین کی دعوت دینا ضروری ہے ، اگر کوئی انکار کرے تو بیشک مسلمان اس سے جہاد کریں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ) 48 ۔ الفتح:16 ) عنقریب تمہیں اس قوم کی طرف بلایا جائے گا جو بڑی لڑاکا ہے یا تو تم اس سے لڑو گے یا وہ اسلام لائیں گے ، اور جگہ ہے اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر ، اور جگہ ہے ایماندارو اپنے آس پاس کے کفار سے جہاد کرو ، تم میں وہ گھر جائیں اور یقین رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے ، صحیح حدیث میں ہے ، تیرے رب کو ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں ، یعنی وہ کفار جو میدان جنگ میں قیدی ہو کر طوق و سلاسل پہنا کر یہاں لائے جاتے ہیں پھر وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور ان کا ظاہر باطن اچھا ہو جاتا ہے اور وہ جنت کے لائق بن جاتے ہیں مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مسلمان ہو جاؤ ، اس نے کہا حضرت میرا دِل نہیں مانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گو دِل نہ چاہتا ہو ، یہ حدیث ثلاثی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اس میں تین راوی ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ آپ نے اسے مجبور کیا ، مطلب یہ ہے کہ تو کلمہ پڑھ لے ، پھر ایک دن وہ بھی آئے گا اللہ تیرے دِل کو کھول دے اور تو دِل سے بھی اسلام کا دلدادہ ہو جائے گا ، حسن نیت اور اخلاص عمل تجھے نصیب ہو ، جو شخص بت اور اوثان اور معبودان باطل اور شیطانی کلام کی قبولیت کو چھوڑ دے اللہ کی توحید کا اقراری اور عامل بن جائے وہ سیدھا اور صحیح راہ پر ہے ۔ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں جبت سے مراد جادو ہے اور طاغوت سے مراد شیطان ہے ، دلیری اور ناموری دونوں اونٹ کے دونوں طرف کے برابر بوجھ ہیں جو لوگوں میں ہوتے ہیں ۔ ایک دلیر آدمی تو انجان شخص کی حمایت میں بھی جان دینے پر تل جاتا ہے لیکن ایک بزدل اور ڈرپوک اپنی سگی ماں کی خاطر بھی قدم آگے نہیں بڑھاتا ۔ انسان کا حقیقی کرم اس کا دین ہے ، انسان کا سچا نسب حسن و خلق ہے گو وہ فارسی ہو یا نبطی ، حضرت عمر کا طاغوت کو شیطان کے معنی میں لینا بہت ہی اچھا ہے اس لئے کہ یہ ہر اس برائی کو شامل ہے جو اہل جاہلیت میں تھی ، بت کی پوجا کرنا ، ان کی طرف حاجتیں لے جانا ان سے سختی کے وقت طلب امداد کرنا وغیرہ ۔ پھر فرمایا اس شخص نے مضبوط کڑا تھام لیا ، یعنی دین کے اعلیٰ اور قوی سبب کو لے لیا جو نہ ٹوٹے نہ پھوٹے ، خوب مضبوط مستحکم قوی اور گڑا ہوا ، عروہ وثقف سے مراد ایمان اسلام توحید باری قرآن اور اللہ کی راہ کی محبت اور اسی کیلئے دشمنی کرنا ہے ، یہ کڑا کبھی نہ ٹوٹے گا یعنی اس کے جنت میں پہنچتے تک ، اور جگہ ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ) 13 ۔ الرعد:11 ) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بگاڑتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بگاڑ لے ، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے حضرت قیس بن عبادہ فرماتے ہیں میں مسجد نبوی میں تھا جو ایک شخص آیا جس کا چہرہ اللہ سے خائف تھا نماز کی دو ہلکی رکعتیں اس نے ادا کیں ، لوگ انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ جنتی ہیں ، جب وہ باہر نکلے تو میں بھی ان کے پیچھے گیا ، باتیں کرنے لگا جب وہ متوجہ ہوئے تو میں نے کہا جب آپ تشریف لائے تھے تب لوگوں نے آپ کی نسبت یوں کہا تھا ، کہا سبحان اللہ کسی کو وہ نہ کہنا چاہئے جس کا علم اسے نہ ہو ، ہاں البتہ اتنی بات تو ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ گویا میں ایک لہلہاتے ہوئے سرسبز گلشن میں ہوں اس کے ایک درمیان لوہے کا ستون ہے جو زمین سے آسمان تک چلا گیا ہے اس کی چوٹی پر ایک کڑا ہے مجھ سے کہا گیا اس پر چڑھ جاؤ ، میں نے کہا میں تو نہیں چڑھ سکتا ، چنانچہ ایک شخص نے مجھے تھاما اور میں باآسانی چڑھ گیا اور اس کڑے کو تھام لیا ، اس نے کہا دیکھو مضبوط پکڑے رکھنا ، بس اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی کہ وہ کڑا میرے ہاتھ میں تھا ، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا گلشن باغ اسلام ہے اور ستون دین ہے اور کڑا عروہ وثقی ہے تو میرے دم تک اسلام پر قائم رہے گا ، یہ شخص حضرت عبداللہ بن سلام ہیں ، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں مروی ہے ۔ مسند کی اسی حدیث میں ہے کہ اس وقت آپ بوڑھے تھے اور لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے مسجد نبوی میں آئے تھے اور ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھی تھی اور سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جنت اللہ کی چیز ہے جسے چاہے اسں میں لے جائے ، خواب کے ذِکر میں فرمایا کہ ایک شخص آیا مجھے لے کر چلا گیا جب ہم ایک لمبے چوڑے صاف شفاف میدان میں پہنچے تو میں نے بائیں طرف جانا چاہا تو اس نے کہا تو ایسا نہیں ۔ میں دائیں جانب چلنے لگا تو اچانک ایک پھسلتا پہاڑ نظر آیا اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اوپر چڑھا لیا اور میں اس کی چوٹی تک پہنچ گیا ، وہاں میں نے ایک اونچا ستون لوہے کا دیکھا جس کے سرے پر ایک سونے کا کڑا تھا مجھے اس نے اس ستون پر چڑھا دیا یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو تھام لیا اس نے پوچھا خوب مضبوط معلوم تھام لیا ہے ، میں نے کہاں ہاں ، اس نے زور سے ستون پر اپنا پاؤں مارا ، وہ نکل گیا اور کڑا میرے ہاتھ میں رہ گیا ، جب یہ خواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے سنایا تو آپ نے فرمایا بہت نیک خواب ہے ، میدان محشر ہے ، بائیں طرف کا راستہ جہنم کا راستہ ہے تو لوگوں میں نہیں ، دائیں جانب کا راستہ جنتیوں کی راہ ہے ، پھسلتا پہاڑ شہداء کی منزل ہے ، کڑا اسلام کا کڑا ہے مرتے دم تک اسے مضبوط تھام رکھو ، اس کے بعد حضرت عبداللہ نے فرمایا امید تو مجھے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

256۔ 1 اس کے شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی اور عیسائی ہوگئے تھے پھر جب یہ انصار مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو عیسائی ہوگئے تھے زبردستی مسلمان بنانا چاہا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول اس عتبار سے بعض مفسرین نے اس کو اہل کتاب کے لئے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے تاہم کفر و شرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لئے جہاد ایک الگ جبر واکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباو ختم کرتا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہو تاکہ ہر شخص اپنی مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہوجائے چونکہ رکاوٹ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لیے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی جیسا کہ حدیث میں ہے الجہاد ماض الی یوم القیمۃ جہاد قیامت تک جاری رہے گا خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا۔ الحدیث۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب فان تابوا واقاموا الصلوۃ۔ ) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرلیں اسی طرح سزائے ارتداد قتل سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکروا نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں کیونکہ ارتداد کی سزا قتل سے مقصود جبر واکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بیشک دی جاسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہوجائے تو پھر اس سے بغاوت و انحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہذا وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام لائے کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہوسکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی اس لیے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر قتل چوری زنا ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جاسکتی اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی یہ جبرو اکراہ نہیں ہے بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل و غارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے ایک کا مقصد ملک کا نظریانی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شر و فساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد ایک مملکت کے لیے ناگزیر ہیں آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظر انداز کر کے جن الجھنوں دشواریوں اور پریشانیوں سے دو چار ہیں محتاج وضاحت نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦٤] انسان کو جو قوت ارادہ دی گئی ہے کہ وہ چاہے تو اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دے۔ ایسی ہی اطاعت کا نام دین ہے اور یہی ہدایت ہے اور دین کے عقائد اس آیۃ الکرسی میں وضاحت سے بیان ہوگئے ہیں اور چاہے تو اپنی اس قوت ارادہ کا آزادانہ استعمال کرے اور اسی کا نام کفر بھی ہے اور گمراہی بھی اور ان دونوں باتوں کی پوری وضاحت کردی گئی ہے۔ اب ہر انسان دین اسلام کو اختیار کرنے کی حد تک تو آزاد ہے چاہے تو قبول کرے چاہے تو رد کر دے۔ مگر اسلام کو قبول کرلینے کے بعد اسے اختیار نہیں رہتا کہ وہ دین کے احکام و ہدایات کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دے اور جو اسے معقول نظر آئے اسے تسلیم کرلے اور باقی کا انکار کر دے یا احکام میں سے کچھ پر عمل کرے اور جو اس کی طبیعت پر گراں گزریں یا ناپسند ہوں انہیں چھوڑ دے۔ یہ بھی گمراہی ہے اور نہ ہی اسے دین اسلام کو چھوڑنے کا اختیار باقی رہتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک تحریک ہے روائتی قسم کا مذہب نہیں۔ لہذا دین سے ارتداد پوری امت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ (تفصیل کے لیے سورة توبہ کا حاشیہ نمبر ٣٨ دیکھئے) - [٣٦٥] طاغوت ہر وہ باطل قوت ہے جو اللہ کے مقابلہ میں اپنا حکم دوسرے سے منوائے یا لوگ اللہ کے مقابلہ میں اس کے احکام تسلیم کرنے لگیں خواہ وہ کوئی مخصوص شخص ہو یا ادارہ ہو اور ظاہر ہے یہ مقتدر قسم کے لوگ ہی ہوسکتے ہیں۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں۔ مثال کے طور پر آج کل جتنی قومی، لسانی یا علاقائی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہ سب اسلام کی رو سے ناجائز ہیں اب جو شخص یا ادارہ ایسی تحریکوں کو چلائے گا وہ طاغوت ہے۔ اسی طرح شیطان بھی طاغوت ہے اور ایسے پیر فقیر بھی جو خود بھی معصیت کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسی ہی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر انسان کا اپنا نفس بھی طاغوت ہوسکتا ہے۔ جبکہ وہ اللہ کی فرمانبرداری سے انحراف کر رہا ہو۔ - [٣٦٦] مضبوط حلقہ سے مراد پوری شریعت اور اس کا نظام ہے اور یہی حلقہ ہے جو انسان کو ہر طرح کی گمراہی سے بچا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے چمٹا رہے اور ادھر ادھر جانے والی پگڈنڈیوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ ایسا شخص یقینا کامیاب ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ : ابن عباس (رض) نے فرمایا : ”(جاہلیت میں) اگر کسی عورت کے بچے زندہ نہ رہتے تو وہ یہ نذر مان لیتی تھی کہ اگر بچہ زندہ رہا تو وہ اسے یہودی بنا دے گی، پھر جب بنونضیر کو جلاوطن کیا گیا تو ان میں انصار کے کئی لڑکے تھے، انصار نے کہا : ” ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے “ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ “ [ أبوداوٗد، الجہاد، باب فی - الأسیر یکرہ علی الإسلام : ٢٦٨٢، وصححہ الألبانی ]- یعنی زبردستی کسی کو مسلمان بنانا جائز نہیں، جو مسلمان ہونا چاہے سوچ سمجھ کر مسلمان ہو۔ زبردستی ہوگی تو دل میں ایمان نہیں آئے گا، اس کا کیا فائدہ ؟ البتہ اسلام مسلمانوں کو کفر کا محکوم بننے کے بجائے جہاد کے ذریعے سے تمام کفار کو اسلام کا محکوم بنانے کا حکم دیتا ہے، جس میں کفار پر مسلمان ہونے کے لیے زبردستی نہیں کی جاتی، وہ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں مگر غلبۂ اسلام کی علامت کے طور پر ان سے معمولی رقم بطورجزیہ لی جاتی ہے۔ اگر زبردستی مسلمان بنانا جائز ہوتا تو آج ہندوستان میں غیر مسلموں کا نام و نشان بھی نہ ہوتا، جیسا کہ اندلس میں نصرانیوں نے مسلمانوں پر زبردستی کرکے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا ڈالا۔ - بِالطَّاغُوْتِ : یہ ” طَغٰی یَطْغٰی طُغْیَانًا “ سے صیغہ مبالغہ ” فَعَلُوْتٌ“ کے وزن پر ہے، جیسے جبروت اور ملکوت ہے۔ ” فَعَلُوْتٌ“ کے وزن پر ” طَغَیُوْتٌ“ تھا، پھر تخفیف کے لیے اس میں قلب کیا گیا، یاء کو پہلے اور غین کو بعد میں کردیا گیا ” طَیَغُوْتٌ“ ہوگیا، پھر یائے متحرکہ کا ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے یاء کو الف سے بدل دیا گیا تو ” طَاغُوْتٌ“ بن گیا، جس کا وزن ” فَلْعُوْتٌ“ ہے۔ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، جس کا معنی ہے کسی چیز کا اپنی حد سے آگے بڑھ جانا۔ طاغوت میں ” واؤ “ اور ” تاء “ مبالغہ کے لیے ہیں، یعنی جو اپنی حد سے بہت زیادہ آگے بڑھ جائے۔ تمام باطل معبود طاغوت ہیں، کیونکہ انھیں حد سے بڑھا کر اللہ تعالیٰ کے برابر کردیا گیا ہے۔ شیطان کو بھی اسی لیے طاغوت کہتے ہیں۔ جو شخص لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی بندگی اور اطاعت کرواتا ہے وہ بھی طاغوت ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- دین (اسلام کے قبول کرنے) میں زبردستی (کا فِی نَفسِہ کوئی موقع) نہیں (کیونکہ) ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے (یعنی اسلام کا حق ہونا دلائل سے واضح ہوچکا ہے تو اس میں اکراہ کا موقع ہی کیا ہے، اکراہ تو غیر پسندیدہ چیز پر مجبور کرنے سے ہوتا ہے اور جب اسلام کی خوبی یقیناً ثابت ہے) تو جو شخص شیطان سے بداعتقاد ہو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ خوش اعتقاد (یعنی اسلام قبول کرلے) تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا جو کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والے ہیں (اقوال ظاہری کے) اور خوب جاننے والے ہیں (احوال باطنی کے) - معارف و مسائل :- اسلام کو مضبوط پکڑنے والا چونکہ ہلاکت اور محرومی سے محفوظ رہتا ہے اس لئے اس کو ایسے شخص سے تشبیہ دی جو کسی مضبوط رسی کا حلقہ ہاتھ میں مضبوط تھام کر گرنے سے مامون رہتا ہے اور جس اسلام میں کسی قسم کی ہلاکت اور خسران نہیں ہے اور خود کوئی اسلام کو ہی چھوڑ دے تو اور بات ہے (بیان القرآن) - اس آیت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں ہے حالانکہ اسلام میں جہاد اور قتال کی تعلیم اس کے معارض ہے۔- اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اعتراض صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اسلام میں جہاد اور قتال کی تعلیم لوگوں کو قبول ایمان پر مجبور کرنے کے لیے نہیں ہے ورنہ جزیہ لے کر کفار کو اپنی ذمہ داری میں رکھنے اور ان کی جان ومال وآبرو کی حفاظت کرنے کے اسلامی احکام کیسے جاری ہوتے بلکہ دفع فساد کے لئے ہے کیونکہ فساد اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے جس کے درپے کافر رہتے ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :- وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ (٦٤: ٥) یہ لوگ زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔- اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد اور قتال کے ذریعے سے ان لوگوں کے فساد کو دور کرنے کا حکم دیا ہے پس ان لوگوں کا قتل ایسا ہی ہے جیسے سانپ، بچھو اور دیگر موذی جانوروں کا قتل۔- اسلام نے عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور اپاہج وغیرہ کے قتل کو عین میدان جہاد میں بھی سختی سے روکا ہے کیونکہ وہ فساد کرنے پر قادر نہیں ہوتے ایسے ہی ان لوگوں کے بھی قتل کرنے کو روکا ہے جو جزیہ ادا کرنے کا وعدہ کرکے قانون کے پابند ہوگئے ہوں۔- اسلام کے اس طرز عمل سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ جہاد اور قتال سے لوگوں کو ایمان قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ اس سے وہ دنیا میں ظلم وستم کو مٹا کر عدل و انصاف اور امن وامان قائم رکھنا چاہتا ہے، حضرت عمر نے ایک نصرانی بڑھیا کو اسلام کی دعوت دی تو اس کے جواب میں اس نے کہا اَنَا عَجُوزٌ کبَیرۃ والمَوت الی قریبٌ، یعنی میں ایک قریب المرگ بڑہیا ہوں آخری وقت میں اپنا مذہب کیوں چھوڑوں ؟ حضرت عمر نے یہ سن کر اس کو ایمان پر مجبور نہیں کیا بلکہ یہی آیت تلاوت فرمائی لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ یعنی دین میں زبردستی نہیں ہے۔- درحقیقت ایمان کے قبول پر جبر واکراہ ممکن بھی نہیں ہے اس لئے کہ ایمان کا تعلق ظاہری اعضاء سے نہیں ہے بلکہ قلب کے ساتھ ہے اور جبرو اکراہ کا تعلق صرف ظاہری اعضاء سے ہوتا ہے اور جہاد و قتال سے صرف ظاہری اعضاء ہی متأثر ہوسکتے ہیں لہذا اس کے ذریعہ سے ایمان کے قبول کرنے پر جبر ممکن ہی نہیں ہے اس سے ثابت ہوا کہ آیات جہاد و قتال آیت لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ کے معارض نہیں ہیں (مظہری، قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝ ٠ ۣ ۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝ ٠ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝ ٠ ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝ ٠ ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ٢٥٦- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- ( ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔ - غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] - ( غ و ی ) الغی - ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلط اعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- طَّاغُوتُ- والطَّاغُوتُ عبارةٌ عن کلِّ متعدٍّ ، وكلِّ معبود من دون الله، ويستعمل في الواحد والجمع . قال تعالی: فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة 256] ، وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] ، أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة 257] ، يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] ، فعبارة عن کلّ متعدّ ، ولما تقدّم سمّي السّاحر، والکاهن، والمارد من الجنّ ، والصارف عن طریق الخیر طاغوتا، ووزنه فيما قيل : فعلوت، نحو : جبروت وملکوت، وقیل : أصله : طَغَوُوتُ ، ولکن قلب لام الفعل نحو صاعقة وصاقعة، ثم قلب الواو ألفا لتحرّكه وانفتاح ما قبله .- الطاغوت : سے مراد ہر وہ شخص ہے جو حدود شکن ہوا اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے اسے طاغوت کہاجاتا ہے اور یہ واحد جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة 256] جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے ۔ وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] اور جنہوں نے بتوں کی پوجا۔۔ اجتناب کیا ۔ أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة 257] ان کے دوست شیطان ہیں ۔ اور آیت کریمہ : يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں ۔ میں طاغوت سے حدود شکن مراد ہے اور نافرمانی میں حد سے تجاوز کی بنا پر ساحر، کا ہن ، سرکش جن اور ہر وہ چیز طریق حق سے پھیرنے والی ہوا سے طاغوت کہاجاتا ہے بعض کے نزدیکی فعلوت کے وزن پر ہے جیسے جبروت ومنکوت اور بعض کے نزدیک اس کی اصل طاغوت ہے ۔ پھر صاعقۃ اور صاقعۃ کی طرح پہلے لام کلمہ میں قلب کیا گیا اور پھر واؤ کے متحرک اور ماقبل کے مفتوح ہونے کہ وجہ سے الف سے تبدیل کیا گیا ۔- اسْتَمْسِكْ- واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال : هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - عُرْوَةُ- والعُرْوَةُ : ما يتعلّق به من عُرَاهُ. أي : ناحیته . قال تعالی: فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى- [ البقرة 256] ، وذلک علی سبیل التّمثیل .- والعُرْوَةُ أيضا : شجرةٌ يتعلّق بها الإبل، ويقال لها : عُرْوَةٌ وعَلْقَةٌ. والعَرِيُّ والعَرِيَّةُ : ما يَعْرُو من الرّيح الباردة، والنّخلةُ العَرِيَّةُ : ما يُعْرَى عن البیع ويعزل، وقیل : هي التي يُعْرِيهَا صاحبها محتاجا، فجعل ثمرتها له ورخّص أن يبتاع بتمر لموضع الحاجة، وقیل : هي النّخلة للرّجل وسط نخیل کثيرة لغیره، فيتأذّى به صاحب الکثير فرخّص له أن يبتاع ثمرته بتمر، والجمیع العَرَايَا . «ورخّص رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم في بيع العَرَايَا» .- العروۃ ۔ ہر وہ چیز جسے پکڑ کر کوئی لٹک جائے اور آیت کریمہ : فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى[ البقرة 256] تو اس نے مضبوط حلقہ ہاتھ میں پکڑا ۔ میں ( ایمان باللہ کو ) بطور تمثیل کے ، ، مضبوط حلقہ ، ، ، سے تعبیر فرمایا ہے ۔ نیز عروۃ یا علقہ ایک قسم ( کی ) خار دار جھاڑی یا پیلو کی قسم ) کے درخت کو بھی کہتے ہیں جو اونٹوں کے لئے آخری سہارا ہوتا ہے العری والعریۃ سرد ہوا انسان کو لگ جاتی ہے ۔ نیز العریۃ کھجور کا وہ درخت جو بیع سے مستثنیٰ کیا گیا ہو ۔ بعض کہتے ہیں کہ عریۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جس کا پھل اس کے مالک نے کسی محتاج کو ہبہ کردیا ہو شرعا اس درخت کے پھل کو خشک کھجوروں کے عوض بیچنا جائز ہے بعض کہتے ہیں کہ عربیۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو کسی آدمی کے باغ میں دوسرے کی ملکیت ہو اور اس کے آنے جانے سے باغ کے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو شریعت نے خشک کھجوروں کے عوض ا س کا پھل خریدنے کی اجازت دی ہے ۔ اس کی جمع عرایا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع عرایا کی رخصت دی ہے ۔- وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- ( انفصام)- ، مصدر انفصم، خماسيّ مبدوء بهمزة وصل يأتي مصدره علی وزن ماضيه بکسر الحرف الثالث وإضافة ألف قبل الأخير، وزنه انفعال .

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی، ( ) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط بات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے) ۔ ضحاک، سدی اور سلیمان بن موسیٰ سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے اور اس کی ناسخ یہ آیت ہے (یآیھا النبی جاھد الکفار والمنافقین، ( ) اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو) ۔- نیز یہ قول باری ہے (فاقتلوا المشرکین، ( ) مشرکین کو قتل کرو) حسن بصری اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ آیت اہل کتاب کے ساتھ خاص ہے جنہوں نے جزیہ ادا کرنا قبول کرلیا تھا۔ مشرکین عرب کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے کیونکہ ان کے حق میں جزیہ قابل قبول نہیں ہے۔ ان کے لئے صرف ایک ہی راستہ تھا اسلام یا تلوار۔ ایک قول ہے کہ یہ آیت انصار کے ان بعض اولاد کے متعلق نازل ہوئی تھی جنہیں ان کے والدین نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) اور سعید بن جبیر سے یہی روایت ہے۔- اس کی تشریح میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ” جو شخص جنگ کے بعد اسلام لے آیا ہو اسے یہ نہ کہو کہ وہ زبردستی مسلمان ہوگیا ہے، اس لئے کہ جب وہ اسلام لانے پر رضامند ہوگیا اور درست طریقے سے اسلام لے آیا تو اب زبردستی کی صورت باقی نہ رہی۔- ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ قول باری (لا اکراہ فی الدین) ( ) کی خیر کی صورت میں امر ہے۔ اس میں اس کی گنجائش ہے کہ مشرکین کے ساتھ قتال کے حکم سے پہلے اس آیت کا نزول ہوا ہو۔ اس لئے اس کا حکم تمام کفار کو عام ہو۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے (اد فع بالتیھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم، ( ) آپ نیکی سے بدی کو ٹال دیا کیجئے تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص میں اور آپ میں عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے۔ - اسی طرح یہ قول باری ہے (ادفع بالتیھی احسن السیئۃ، ( ) آپ نیکی سے بدی کو ٹال دیا کیجئے) نیز قول باری ہے (وجادلھم بالتیھی احسن، ( ) آپ ان کا مقابلہ نیکی سے کیجئے) اسی طرح قول باری ہے (واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاماً ۔ ( ) اور جب ان سے جہالت والے لوگ بات چیت کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں خیر) ۔- ابتدائے اسلام میں قتال کی ممانعت تھی حتیٰ کہ مخالفین کے سامنے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی حجت قائم ہوگئی لیکن جب حجت تام ہونے اور معاملہ واضح ہوجانے کے بعد بھی مخالفین نے معاندانہ رویہ اپنائے رکھا تو مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کا حکم ملا گیا۔ اس لئے زیر بحث آیت میں مندرج حکم مشرکین عرب کے حق میں قول باری (واقلتوا المشرکین حیث وجدتموھم، ( ) اور مشرکین کو تم جہاں کہیں بھی پائو قتل کردو) کی بنا پر منسوخ ہوگیا۔- البتہ اہل کتاب کے حق میں آیت کا حکم باقی رہا۔ بشرطیکہ وہ جزیہ کی ادائیگی تسلیم کرلیں اور اہل اسلام کے حکم اور ان کی ذمہ داری میں داخل ہوجائیں۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین عرب سے اسلام یا تلوار کے سوا اور کوئی بات قبول نہیں کی۔ اس آیت میں یہ بھی جائز ہے کہ اس کا حکم فی الحال تمام کافروں کے لئے ثابت ہو۔ اس لئے کہ اگر کوئی بھی مشرک یہودی یا عیسائی ہوجائے تو اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا بلکہ ہم اسے جزیہ کے بدلے اس کے دین پر باقی رہنے دیں گے۔- اب اگر آیت کا حکم ان تمام مشرکین کے لئے ثابت ہے جنہوں نے اہل کتاب کا دین اختیار کرلیا ہو تو پھر آیت امام شافعی کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ ان کا قول ہے مجوس یا نصاریٰ میں سے جو شخص یہودیت اختیار کرے گا اسے اپنے دین کی طرف لوٹ جانے یا اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ آیت بہرحال اس قول کے بطلان پر دلالت کررہی ہے کیونکہ اس میں یہ حکم ہے کہ ہم کسی کو دین کے معاملے میں مجبور نہ کریں۔ اس حکم میں جو عموم ہے اسے تمام کفار کے حق میں اس طرح استعمال کرنا ممکن ہے جو ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔- اگر کوئی شخص یہ سوال اٹھائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین عرب کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا اور ان سے اسلام یا تلوار کے سوا اور کوئی صورت قبول نہ کرنے کا امر ہوا اس طرح گویا انہیں دین کے معاملے میں مجبور کردیا گیا اور یہ بات تو واضح ہے کہ جو شخص زبردستی دین اسلام میں داخل ہوگاوہ مسلمان نہیں ہوگا۔ آخر اسلام پر انہیں مجبور کرنے کی کیا وجہ ہے ؟- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ انہیں اسلام کے اظہار پر مجبور کیا گیا تھا۔ اسلام کے اعتقاد پر مجبور نہیں کیا گیا تھا کیونکہ اعتقاد پر مجبور کرنا ہمارے نزدیک درست نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوا لا الٰہ الا اللہ فاذا قالوھا عصموا منی دماء ھم واموالھم الابحقھا دحسابھم علی اللہ، ( ) میں تو اس پر مامور ہوں کہ لوگوں سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ، ( ) یعنی کلمہ توحید کا اقرار کرلیں۔- جب وہ ایسا کرلیں گے تو وہ میرے ہاتھوں سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیں گے اور ان پر صرف اسی وقت ہاتھ ڈالا جائے گا جب کسی کا حق ان پر لازم ہوجائے گا اور ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمے ہوگا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں یہ بتادیا کہ مشرکین سے قتال صرف اظہار اسلام کی خاطر ہوتا ہے۔- رہ گئے ان کے اعتقادات تو وہ اللہ کے سپرد ہیں نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کی صحت پر دلیل و برہان اور حجت قائم کئے بغیر ان مشرکین سے قتال نہیں کیا۔ گویا نبوت کی صحت کے دلائل اعتقاد اور اظہار اسلام دونوں کے لئے قائم کئے گئے تھے۔ کیونکہ ان دلائل کی وجہ سے جہاں مشرکین پر اسلام لانا اور اسلام کے متعلق اعتقاد پیدا کرنا لازم ہوجاتا وہاں یہ دلائل ان سے اظہار اسلام کے بھی متقاضی ہوتے اور جنگ اظہار اسلام کے لئے ہوتی تھی۔- اس میں بڑے بڑے مصالح پوشیدہ تھے ایک تو یہ کہ جب ایک مشرک اسلام کا اظہار کردیتا اگرچہ عقیدۃً وہ اسے تسلیم نہ کرتا۔ تو اس صورت میں مسلمانوں کے ساتھ اس کی مجالست، قرآنی آیات کی سماعت، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل کے مشاہدات اور ان کا پے درپے وقوع اسے اسلام کی طرف بلانے اور اس کے اپن عقیدئہ شرک کے فساد کی وضاحت کا باعث بنتے۔- ایک اور مصلحت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان لوگوں کی نسل میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو عقیدئہ توحید کے پرستار بنیں گے اس لئے انہیں قتل کرنا درست نہیں تھا جبکہ یہ علم بھی ہو کہ ان کی اولاد میں موحدین اور اہل ایمان پیدا ہوں گے۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اہل کتاب میں سے اگر کسی کو اسلام پر مجبور کرکے مسلمان بنالیا جائے تو وہ ظاہری طور پر مسلمان شمار ہوگا اور اسے اپنے دین کی طرف لوٹ جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ البتہ اگر وہ اپنے سابقہ دین کی طرف لوٹ جائے گا تو اس کی گردن نہیں ماری جائے گی اور اسے دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کیا جائے گا کیونکہ جب ایک شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے تو اکراہ یا جبر کی وجہ سے اسلام کا حکم زائل نہیں ہوتا اگرچہ اس کا بالجبر اسلام میں دخول اس بات دال ہوتا ہے کہ اس کے دل میں اسلام کے عقیدے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔- جیسا کہ ہم ان مشرکین کے اسلام کا حال بیان کر آئے ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتال کی وجہ سے مسلمان ہوگئے تھے۔ درج بالا حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الٰہ الا اللہ فاذا قالوھا عصموا منی دماء ھم واموالھم الابحقھا) ( ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے قتال کے موقع پر اظہار اسلام کو اسلام کے حکم میں داخل کرلیا۔ اس لئے اہل ذمہ میں سے جو شخص زبردستی اسلام میں داخل ہوا ہو اسے بھی اسلام کے حکم میں داخل کرنا ضروری ہوگیا۔ انہیں شک کا فائدہ دے کر قتل نہیں کیا گیا۔- ہمیں اس مسئلے میں فقہاء کے کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر اہل اسلام سے برسر جنگ کسی قوم کا کوئی جنگی قیدی سزائے موت پانے کے لئے لایا جائے اور وہ اس وقت کلمہ اسلام پڑھ لے تو وہ مسلمان شمار ہوگا۔ قتل کے خوف سے اس کا اسلام لانا اور اس سے اسلام کا حکم زائل نہیں کرسکے گا اسی طرح ذمی کا بھی مسئلہ ہے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ قول باری (لا اکراہ فی الدین) ( ) ذمی کو اسلام میں زبردستی داخل کرنے کی ممانعت کررہا ہے اور جب اس طرح کا اکراہ ممنوع ہے تو ضروری ہے کہ ایسا شخص اسلام کے حکم میں شمار نہ کیا جائے اور نہ ہی اسلام کا کوئی حکم اس سے متعلق ہو۔ نیز اس معاملے میں ذمی کا حکم حربی کے حکم کی طرح نہ ہو کیونکہ حربی کی طرف سے مسلمانوں کے ذمے میں آنے سے انکار اسلام میں اسے زبردستی داخل کرنے کے جواز کا باعث بن سکتا ہے لیکن جو شخص مسلمانوں کے ذمے میں آکر ذمی بن گیا اسے اسلام پر مجبورکرنا درست نہیں ہوگا۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ جن لوگوں کو اسلام پر مجبور کرنا جائز ہے ان کے حق میں زبردستی اور خوش دلی کے لحاظ سے اسلام کے حکم میں کوئی فرق اور اختلاف نہیں ہوتا اس بنا پر اس کی مشابہت عتق، طلاق اور ایسے تمام عقود کے ساتھ ہوگئی جن میں جد اور ہزل (سنجیدگی سے کوئی بات کہنا یا کام کرنا جد کہلاتا ہے اور مذاق اور لا ابالی انداز سے ایسا کرنا ہزل کہلاتا ہے) دونوں کے حکم میں یکسانیت ہوتی ہے اور اختلاف نہیں ہوتا۔- پھر اس کے بعد اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اکراہ کا حکم دیا گیا تھا یا اس کی اجازت دی گئی تھی جس طرح کہ اس لحاظ سے عتق اور طلاق کے حکم میں فرق نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اگر کسی شخص نے کسی کو طلاق یا عتاق پر مجبور کردیا تو ان دونوں کا حکم اس پر ثابت ہوجائے گا۔ اگرچہ مجبور کرنے والا اس لحاظ سے ظالم قرار دیا جائے گا کہ اسے ایسا کرنے سے روکا گیا تھا لیکن اسے ایسا کرنے سے روک دیا جانا ہمارے نزدیک عتاق اور طلاق کے حکم کو باطل نہیں کرے گا۔ یہی صوت حال اسلام پر مجبور کرنے کی بھی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥٦) عرب کے اسلام قبول کرنے کے اہل کتاب اور مجوسیوں میں سے کسی شخص کو توحید پر مجبور نہیں کیا جائے گا، ایمان کفر سے اور حق باطل سے ممتاز ہوچکا ہے اور یہ آیات منذر بن سادی تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔- اور جو شخص شیطان کی باتوں، خیالات اور بتوں کی عبادت اور تعظیم سے انکار کرے اور جو باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن میں آئی ہیں ان پر ایمان لائے تو اس نے مضبوطی کے ساتھ حلقہ ” لاالہ الا اللہ “۔ تھام لیا ہے۔ جس کو کسی طرح زوال اور ہلاکت نہیں ہوسکتی اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ اس مضبوط حلقہ کے تھامنے والے سے جس کی نعمتیں ختم اور زائل نہیں ہوں گی اور نہ یہ ہمیشہ دوزخ میں رہ کر ہلاک وبرباد ہوگا اللہ تعالیٰ ان باتوں کو سننے والے ہیں اور اس کی نعمتوں اور ثواب کا علم رکھتے ہیں۔- شان نزول : لااکراہ فی الدین “ (الخ)- امام ابوداؤد (رح) ، نسائی (رح) اور ابن حبان (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، ایک عورت کے ہاں پیدا ہونے والا لڑکا زندہ نہیں رہتا تھا تو اس نے یہ منت (نذر) مانی کہ اگر اس کا لڑکا زندہ رہا تو وہ اسے یہودی بنادے گی جب یہودیوں کا قبیلہ بنو نصیر جلاوطن کیا گیا تو وہ بچہ بھی انصار کی اولاد میں سے ان کے ساتھ جارہا تھا، انصار بولے ہم تو اپنی اولاد کو نہیں چھوڑیں گے (یعنی یہود کے ساتھ جانے نہیں دیں گے بلکہ اس کو اپنی جماعت میں شامل کریں گے) اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ دین میں زبردستی نہیں۔- اور ابن جریر (رح) نے سعید (رح) یا عکرمہ (رض) کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ (آیت) ” لااکرہ فی الدین “۔ انصار میں سے ایک شخص حسین نامی سالم بن عوف کی اولاد کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، ان کے دو لڑکے نصرانی تھے اور یہ مسلمان تھے، انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اگر وہ دونوں نصرانیت کے علاوہ اور کسی دین کو قبول نہیں کرتے تو ان کو اسلام لانے پر مجبور کروں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥٦ ( لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف) - اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اسلام میں کسی فرد کو جبراً مسلمان بنانا حرام ہے۔ لیکن اس آیت کا یہ مطلب نکال لینا کہ نظام باطل کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی طاقت استعمال نہیں ہوسکتی ‘ پرلے َ درجے کی حماقت ہے۔ نظام باطل ظلم پر مبنی ہے اور یہ لوگوں کا استحاصل کر رہا ہے۔ یہ اللہ اور بندوں کے درمیان حجاب اور آڑ بن گیا ہے۔ لہٰذا نظام باطل کو طاقت کے ساتھ ختم کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ اگر طاقت موجود نہیں ہے تو طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ‘ لیکن جس مسلمان کا دل نظام باطل کو ختم کرنے کی آرزو اور ارادے سے خالی ہے اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔ طاقت اور جبر نظام باطل کو ختم کرنے پر صرف کیا جائے گا ‘ کسی فرد کو مجبوراً مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔ یہ ہے اصل میں اس آیت کا مفہوم۔- (قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج ) ۔ - جتنی بھی کجیاں ہیں ‘ غلط راستے ہیں ‘ شیطانی پگڈنڈیاں ہیں صراط مستقیم کو ان سے بالکل مبرہن کردیا گیا ہے۔- (فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ ) - دیکھئے ‘ اللہ پر ایمان لانے سے پہلے طاغوت کا انکار ضروری ہے۔ جیسے کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ میں پہلے ہر اِلٰہ کی نفی ہے اور پھر اللہ کا اثبات ہے۔ طاغوت طَغٰی سے ہے ‘ یعنی سرکش۔ تو جس نے اپنی حاکمیت کا اعلان کیا وہ طاغوت ہے ‘ جس نے غیر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا وہ بھی طاغوت ہے اور غیر اللہ کی حاکمیت کے تحت بننے والے سارے ادارے طاغوت ہیں ‘ خواہ وہ کتنے ہی خوشنما ادارے ہوں۔ عدلیہ کے نام سے ایک ادارہ اگر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کر رہا ‘ کچھ اور لوگوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کر رہا ہے تو وہ طاغوت ہے۔ مقننہ کا ادارہ اگر اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق قانون سازی نہیں کر رہا تو وہ بھی طاغوت ہے۔ جو کوئی بھی اللہ کے حدود بندگی سے تجاوز کرتا ہے وہ طاغوت ہے۔ دریا جب اپنی حدوں سے باہر نکلتا ہے تو یہ طغیانی ہے : ؂- دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام - کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے - طغٰی اور بغٰی دونوں بڑے قریب کے الفاظ ہیں ‘ جن کا مفہوم طغیانی اور بغاوت ہے۔ فرمایا کہ جو کوئی کفر کرے طاغوت کے ساتھ۔- (وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ ) - طاغوت سے دوستی اور اللہ پر ایمان دونوں چیزیں یکجا نہیں ہوسکتیں۔ اللہ کے دشمنوں سے بھی یارا نہ ہو اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا دعویٰ بھی ہو یہی تو منافقت ہے۔ جبکہ اسلام تو (حَنِیْفًا مُّسْلِمًا) کے مصداق کامل یکسوئی کے ساتھ اطاعت شعاری کا مطالبہ کرتا ہے۔- (فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ج) ۔ - جس شخص نے یہ کام کرلیا کہ طاغوت کی نفی کی اور اللہ پر ایمان لایا اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا۔ یوں سمجھئے اگر کوئی شخص سمندری جہاز کے عرشے سے سمندر میں گرجائے ‘ اسے تیرنا بھی نہ آتا ہو اور کسی طرح ہاتھ پیر مار کر وہ جہاز کے کسی کنڈے کو تھام لے تو اب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی اسی سے وابستہ ہے ‘ اب میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ وہ کنڈا اگر کمزور ہے تو اس کا سہارا نہیں بن سکے گا اور اس کے وزن سے ہی اکھڑ جائے گا یا ٹوٹ جائے گا ‘ لیکن اگر وہ کنڈا مضبوط ہے تو وہ اس کی زندگی کا ضامن بن جائے گا۔ یہاں فرمایا کہ طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لانے والے شخص نے بہت مضبوط کنڈے پر ہاتھ ڈال دیا ہے۔- (لاَ انْفِصَامَ لَہَا ط) ۔ - کبھی علیحدہ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ بہت مضبوط سہارا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک خطبہ میں یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں : (وَاَوْثَقُ الْعُرٰی کَلِمَۃُ التَّقْوٰی ) (٣٣) یعنی تمام کنڈوں میں سب سے مضبوط کنڈا تقویٰ کا کنڈا ہے۔ لہٰذا اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ضرورت ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :285 یہاں” دین“ سے مراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے ، اور وہ پورا نظام زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ”اسلام“ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پر زبر دستی نہیں ٹھونسا جا سکتا ۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا سکے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :286 ”طاغوت“ لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا ، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو ۔ قران کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے ، جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے ۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں ۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے ، مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے ۔ اس کا نام فسق ہے ۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اصولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے ۔ یہ کفر ہے ۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے ۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے ، اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani