Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے سوائے کسی ایسی صورت کے کہ اعلانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لئے ترغیب کا پہلو ہو۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضلیت حاصل کرسکتے ہیں وہ احادیث سے واضح ہے۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ و خیرات کرنا ہی بہتر ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو قیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ صدقے میں اخفا کی افضلیت کو بعض علماء نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکاۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے۔ لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ اور واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨٧] اس آیت سے خفیہ صدقہ کی زیادہ فضیلت ثابت ہوئی، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔- ١۔ حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب اللہ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ نے پہاڑ پیدا کئے اور کہا کہ اسے (زمین کو) تھامے رہو۔ چناچہ وہ ٹھہر گئی۔ تب فرشتوں کو پہاڑوں کی مضبوطی پر تعجب ہوا اور کہنے لگے : پروردگار تیری مخلوق میں سے کوئی چیز پہاڑوں سے بھی سخت ہے ؟ فرمایا ہاں، لوہا ہے۔ فرشتے کہنے لگے، پروردگار کوئی چیز لوہے سے بھی سخت ہے ؟ فرمایا ہاں آگ ہے۔ پھر وہ کہنے لگے : کوئی چیز آگ سے بھی سخت ہے ؟ فرمایا : ہاں پانی ہے۔ وہ کہنے لگے : کوئی چیز پانی سے بھی سخت ہے ؟ فرمایا ہاں ہوا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے : کوئی چیز ہوا سے بھی سخت ہے ؟ فرمایا : ہاں وہ آدمی جو اس طرح صدقہ دے کہ دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں کو خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورة الناس) - ٢۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) سات قسم کے آدمیوں کو اپنے عرش کے سایہ تلے جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کہیں سایہ نہ ہوگا۔ ایک انصاف کرنے والا حاکم۔ دوسرا وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی عبادت میں گزاری، تیسرا وہ شخص جس کا دل مسجد سے لگا رہے۔ چوتھے وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی۔ اللہ کی خاطر ہی مل بیٹھے اور اللہ کی خاطر ہی جدا ہوئے۔ پانچویں وہ مرد جسے کسی مرتبہ والی حسین و جمیل عورت نے (بدکاری کے لیے) بلایا اور اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں یوں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ نے جو صدقہ دیا بائیں ہاتھ کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ساتویں وہ شخص جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں۔ (بخاری، کتاب الاذان باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ) - تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ تو اعلانیہ دینا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور نفلی صدقہ بہرحال خفیہ دینا ہی بہتر ہے اور یہ تو واضح بات ہے کہ چھپا کر نیکی کرنے سے انسان کی اپنی اصلاح نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ : ” صَدَقَۃٌ“ کا لفظ ” صِدْقٌ“ سے نکلا ہے، یعنی وہ مال جو آدمی صدق دل سے خرچ کرتا ہے، عموماً یہ فقط نفل صدقے پر بولا جاتا ہے لیکن بعض اوقات فرض صدقے پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ ۔۔ ) [ التوبۃ : ٦٠ ] ” صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں) ۔ “- فَنِعِمَّا هِىَ ۚ: یہ اصل میں ” نِعْمَ مَا “ ہے جس میں ” مَا “ بمعنی ” شَیْءٌ“ ہے۔ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” تو یہ اچھی بات ہے “ اس میں علانیہ صدقہ کی تعریف کی گئی ہے، بشرطیکہ خالص نیت سے ہو اور ریا سے خالی ہو، کیونکہ اس سے آدمی بخل اور حقوق ادا نہ کرنے کی تہمت سے بچتا ہے اور اس سے دوسرے اہل خیر کو صدقہ کرنے کی ترغیب ہوتی ہے، جیسا کہ جنگ تبوک کے موقع پر عمر (رض) نے اپنا آدھا مال اور ابوبکر (رض) نے اپنا سارا مال لا کر پیش کردیا، اسی طرح دوسرے صحابہ نے بڑھ چڑھ کر صدقہ کیا۔ - وَاِنْ تُخْفُوْھَا : یعنی صدقہ علانیہ دینا بھی گو اچھا ہے مگر پوشیدہ طور پر دینا زیادہ فضیلت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ریا سے بعید ہوتا ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے نفل صدقات مراد ہیں۔ (شوکانی) اس کے برعکس فرض زکوٰۃ کو پوشیدہ طور پر دینا جائز ہے، مگر اسے لوگوں کے سامنے دینا افضل ہے، ورنہ زکوٰۃ نہ دینے کی تہمت لگے گی، جب کہ نماز اور زکوٰۃ ایمان کے بنیادی ارکان ہیں۔ نیز طبری نے اس پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔ ( فتح الباری : ٦؍ ٢٢)- متعدد احادیث میں نفل صدقات کو پوشیدہ طور پر دینے کی فضیلت آئی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سات آدمیوں میں، جن کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا، ایک وہ شخص شمار کیا جس نے دائیں ہاتھ سے صدقہ کیا اور اسے چھپا کر کیا، حتیٰ کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں کہ دائیں نے کیا خرچ کیا۔ [ بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ بالیمین : ١٤٢٣، عن أبی ہریرۃ (رض) ] اس شخص کے واقعہ سے بھی خفیہ صدقے کی فضیلت اور برکت معلوم ہوتی ہے جس نے ایک رات خفیہ صدقہ ایک چور، ایک رات ایک زانیہ اور ایک رات ایک غنی کو دے دیا۔ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب إذا تصدق علی ۔۔ : ١٤٢١، عن أبی ہریرۃ (رض) ] - وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ : چھپا کر فقراء کو دینے میں ان کی پردہ پوشی ہوتی ہے اور ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ - مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ : ” مِّنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” کچھ گناہ “ کیا ہے، یعنی کم یا زیادہ جتنا مال خرچ کرے گا، اس کے لحاظ سے گناہ معاف ہوں گے۔ علاوہ ازیں کچھ گناہ ایسے ہیں جو مال خرچ کرنے سے معاف نہیں ہوتے، بلکہ ان کے لیے توبہ ضروری ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ (الیٰ قولہٖ ) وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ - بظاہر یہ آیت فرض اور نفل سب صدقات کو شامل ہے اور سب میں اخفاء ہی افضل ہے اس میں دینی مصلحت بھی ہے کہ ریاء سے ابعد ہے لینے والا بھی نہیں شرماتا، اور دنیوی مصلحت بھی ہے کہ اپنے مال کی مقدار عام لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتی اور مراد افضلیت اخفاء سے آیت میں افضلیت فی نفسہ ہے، پس اگر کسی مقام پر کسی عارض سے مثلا رفع تہمت یا امید اقتداء وغیرہ سے اظہار کو ترجیح ہوجاوے تو افضلیت فی نفسہ کے منافی نہیں وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ کفارہ سیات کچھ اخفاء کے ساتھ تو خاص نہیں صرف اس بات پر تنبیہ کرنے کے لئے اخفاء کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے کہ اخفاء میں تجھے اگر کوئی ظاہری فائدہ نظر نہ آئے تو منقبض نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ تمہارے گناہ اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے اور یہ تمہارے لئے فائدہ عظیمہ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝ ٠ ۭ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝ ٢٧١- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- فنعما - میں ف جواب شرط کے لئے ہے نعما ہی وہ کیا ہی اچھا ہے۔ اصل میں نعم ما ہی تھا۔ دونوں میموں میں ادغام ہوگیا اور عین پر جوان نون کی وجہ سے کسرہ آگیا۔ ہی ضمیر واحد مؤنث مراد اظہار الصدقہ ہے۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- فقر - الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه :- الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ- [ فاطر 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] .- والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ- [ النور 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] .- الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی.- الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ- [ القصص 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال :- 354-- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه .- ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔- الفقیر - دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔- كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا)- والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] - والتَّكْفِيرُ- : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر - «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی:- كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] .- الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : - التکفیرۃ - اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ان تبدوا الصدقات فنعماھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم، ( ) اگر اپنے صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ بھی اچھا ہے) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت نفلی صدقہ کے بارے میں ہے لیکن صدقہ واجبہ کا اظہار افضل ہے تاکہ عدم ادائیگی کے الزام سے دامن بچا رہے۔- حسن بصری، یزید بن ابی حبیب اور قتادہ کا قول ہے کہ تمام صدقات میں اخفا افضل ہے اللہ تعالیٰ نے صدقہ کے اظہار کی اسی طرح تعریف کی ہے جس طرح صدقہ کے اخفاء کی۔- قول باری ہے (الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار سراً وعلانیۃ فلھم اجرھم عند ربھم، ( ) جو لوگ اپنا مال رات اور دن میں چھپا کر اور علانیہ (اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے نزدیک اجر ہے) ۔- اور یہ جائز ہے کہ قول باری (وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم) ( ) نفلی صدقہ کے متعلق ہو جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ قول باری ان تمام صدقات کے متعلق ہو جن کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرنے والوں پر ہو خواہ وہ نفلی صدقات ہوں یا صدقات واجبہ۔ اور وہ صدقات ان میں داخل نہ ہوں جن کی وصولی امام المسلمین کے ذمہ ہو۔- تاہم آیت کا عموم تمام صدقات کا متقاضی ہے کیونکہ ’ الصدقات ‘ ( ) الف لام جنس کے لئے ہے اس بنا پر یہ صدقہ کی تمام اقسام کو شامل ہے۔ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ تمام صدقات کا مصرف فقراء ہیں اور فقراء صرف فقر کی بنا پر ان کے مستحق ہیں۔ کسی اور وجہ سے نہیں۔- اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (انما الصدقات للفقراء والمساکین) ( ) میں صدقات کے جن مصارف کا ذکر فرمایا ہے ان کا استحقاق بھی فقر کی بنا پر ہے کسی اور وجہ سے نہیں۔ اصناف کا ذکر اس لئے ہوا ہے کہ ان تمام میں جو بات مشترک پائی جاتی ہے وہ فقر ہے۔ اور اسباب فقران سب کو عام ہے۔- البتہ ان مصارف میں سے مولفتہ القلوب اور عالمین زکوٰۃ صدقہ کو بطور صدقہ نہیں لیتے بلکہ امام المسلمین کے ہاتھوں میدں یہ صدقات فقراء کے لئے آتے ہیں پھر ان کو مؤلفتہ القلوب اور عالمین پر صدقہ کی بنا پر خرچ نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے عمل کے عوض کے طور پر خرچ کیا جاتا ہے یا اہل اسلام سے ان کی ایذاء رسانی کو دور رکھنے یا انہیں اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔- اس آیت سے ہمارے مخالفین نے یہ استدلال کیا ہے کہ صدقات کی تمام مدیں فقراء کو دینا جائز ہے۔ امام المسلمین کو ان کی ادائیگی ضروری نہیں، نیز یہ کہ جب لوگ مویشیوں کی زکوٰۃ فقراء کو دے دیں تو پھر امام کا حق باقی نہیں رہتا کہ وہ ان سے اس کی وصولی کرے۔ کیونکہ قول باری ہے (وان تخفوھا وتوتوھا الفقرآء فھو خیرلکم) ( ) یہ آیت تمام صدقات کے لئے عام ہے کیونکہ لفظ ’ الصدقۃ ‘ اسم جنس ہے۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں ہمارے نزدیک کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے جس سے ان مخالفین کا قول ثابت ہوجائے۔ اس لئے کہ آیت میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کرنے والے کے لئے یہ طریقہ بہتر ہے۔ اس سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ وصولی کے سلسلے میں امام کا حق ساقط ہوگیا۔- نیز از خود ادائیگی کا بہتر ہونا وصولی کے سلسلے میں امام کے حق کے منافی نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ از خود ادائیگی کرکے بہتر صورت حال حاصل کرلی جائے اور امام کو دوبارہ ادا کرکے اس خیر کو اور بڑھالیا جائے۔ علاوہ ازیں ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے کہ بعض لوگوں کا قول ہے کہ زیر بحث آیت نفلی صدقہ کے متعلق ہے۔ صدقہ واجبہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔- بعض اہل علم کا یہ قول ہے کہ اس بات پر گویا اجماع ہوگیا ہے کہ صدقہ واجبہ یعنی زکوٰۃ و عشر وغیرہ کی اعلانیہ ادائیگی چھپا کر ادا کرنے سے افضل ہے۔ جیسا کہ فرض نمازوں کے متعلق فقہاء کا قول ہے۔ اسی بنا پر اہل اسلام کو حکم دیا گیا کہ وہ فرض نمازوں کے لئے اذان دیں اقامت کہیں اور اعلانیہ جماعت کی صورت میں اس کی ادائیگی کریں۔ یہی حکم تمام فرض عبادتوں کا ہے تاکہ کسی زکوٰۃ یا نماز کی عدم ادائیگی کا الزام عائد نہ ہوسکے۔- ان حضرات کا قول ہے کہ درج بالا تشریح کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ قول باری (وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم) ( ) کا تعلق نفلی صدقہ کے ساتھ ہو کیونکہ نفلی عبارات کی پس پردہ ادائیگی اعلانیہ ادائیگی سے افضل ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں ریاکاری کا کم سے کم شائبہ ہوتا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے آپ نے فرمایا (سبعۃ یظلھم اللہ فی ظل عرشہ احدھم دجل تصدق بصدقۃ لم تعلم شمالہ ماتصدقت بہ یمینہ، ( ) سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا۔ ان میں سے ایک وہ ہوگا جس نے اللہ کی راہ میں صدقہ دیا ہوگا لیکن اس قدر چھپا کر کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلا ہوگا کہ اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے کیا دیا) یہ صورت صرف نفلی صدقہ کی ہے فرض کی نہیں۔- آیت سے نفلی صدقہ مراد ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنے مویشیوں کی زکوٰۃ نہ نکالی ہو اور اس کے پاس اس کی وصولی کے لئے عامل یعنی سرکاری کارندہ آجائے تو اس صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ زکوٰۃ سرکاری کارندہ کے حوالے کردے۔ اس لئے اس صورت میں زکوٰۃ کی اعلانیہ ادائیگی اس پر فرض ہوجائے گی۔ اس میں یہ دلیل پوشیدہ ہے کہ قول باری (وان تخفوھا وتوتوھا الفرآء) ( ) سے مراد نفلی صدقہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٧١) ظاہر کرکے یا چھپا کر صدقہ و خیرات کرنا ان میں سے کون سا طریقہ زیادہ اچھا ہے، اب اللہ تعالیٰ اس کو بیان فرماتے ہیں، اگر صدقہ واجبہ کو ظاہر کرکے ادا کرو تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر صدقات نفلیہ کو پوشیدہ طریقے پر مثلا اصحاب صفہ کو دے دو تو یہ ظاہر کرنے سے بہتر ہے اور دونوں طریقے اللہ کے ہاں مقبول ہیں اور تمہارے صدقات کو اچھی طرح جانتا ہے۔- اب اللہ تعالیٰ اہل کتاب اور مشرکین پر نفلی صدقات وغیرہ خرچ کرنے کی اجازت دیتا ہے اور سبب یہ ہوا کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) یا بنت ابوالنضر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہمارے لیے اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو جنہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا، صدقات دینا جائز ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧١ (اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّاہِیَ ج) ۔- خاص طور پر زکوٰۃ کا معاملہ تو علانیہ ہی ہے۔ تو اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی ٹھیک ہے۔ اس لیے کہ کم سے کم فقراء کا حق تو ادا ہوگیا ‘ کسی کی ضرورت تو پوری ہوگئی۔ - (وَاِنْ تُخْفُوْہَا وَتُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ط) ۔ - یاد رہے کہ یہ بات صدقات نافلہ کے لیے ہے۔ لیکن جو صدقات واجبہ ہیں ‘ جو لازماً دینے ہیں ‘ مثلاً زکوٰۃ اور عشر ‘ ان کے لیے اخفاء نہیں ہے۔ یہ دین کی حکمت ہے ‘ اس کو ذہن میں رکھیے کہ فرض عبادات علانیہ ادا کی جائیں گی۔ یہ وسوسہ بھی شیطان بہت سوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے کہ کیا پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھنے سے لوگوں پر اپنے تقویٰ کا رعب ڈالنا چاہتے ہو ؟ گھر میں پڑھ لیا کرو یا داڑھی اس لیے رکھو گے کہ لوگ تمہیں سمجھیں کہ بڑا متقی ہے ؟ ایسے وساوس شیطانی کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے اور جو چیز فرض و واجب ہے ‘ وہ علی الاعلان کرنی چاہیے ‘ اس کے اظہار میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ ہاں جو نفلی عبادات ہیں ‘ صدقات نافلہ ہیں یا نفل نماز ہے اسے چھپا کر کرنا چاہیے۔ نفل عبادت کا اظہار بہت بڑا فتنہ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ اگر تم اپنے صدقات چھپا کر چپکے سے ضرورت مندوں کو دے دو تو وہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :311 جو صدقہ فرض ہو ، اس کو علانیہ دینا افضل ہے ، اور جو صدقہ فرض کے ماسوا ہو ، اس کا اخفا زیادہ بہتر ہے ۔ یہی اصول تمام اعمال کے لیے ہے کہ فرائض کا علانیہ انجام دینا افضلیت رکھتا ہے اور نوافل کو چھپا کر کرنا اولیٰ ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :312 یعنی چھپا کر نیکیاں کرنے سے آدمی کے نفس و اخلاق کی مسلسل اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے ، اس کے اوصاف حمیدہ خوب نشونما پاتے ہیں ، اس کی بری صفات رفتہ رفتہ مٹ جاتی ہیں ، اور یہی چیز اس کو اللہ کے ہاں اتنا مقبول بنا دیتی ہے کہ جو تھوڑے بہت گناہ اس کے نامہ اعمال میں ہوتے بھی ہیں انہیں اس کی خوبیوں پر نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani