Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سود کا کاروبار برکت سے محروم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کر دیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب ، جیسے ہے آیت قل لا یستوی الخبیث والطیب الخ ، یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے ۔ ارشاد فرمایا آیت ویجعل الخبیث بعضہ علی بعض فیر کم فیجعلہ فی جہنم ۔ الایہ خباثت والی چیزوں کو تہ و بالا کرکے وہ جہنم میں جھونک دے گا اور جگہ ہے آیت ( وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ) 30 ۔ الروم:39 ) یعنی سود دے کر جو مال تم بڑھانا چاہتے ہو وہ دراصل بڑھتا نہیں ، اسی واسطے حضرت عبداللہ بن مسعود والی روایت میں ہے کہ سود سے اگر مال میں اضافہ ہو بھی جائے لیکن انجام کار کمی ہوتی ہے ( مسند احمد ) مسند کی ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق مسجد سے نکلے اور اناج پھیلا ہوا دیکھ کر پوچھا یہ غلہ کہاں سے آیا ؟ لوگوں نے کہا بکنے کیلئے آیا ہے ، آپ نے دعا کی کہ اللہ اس میں برکت دے ، لوگوں نے کہا یہ غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے پہلے ہی جمع کر لیا تھا ، پوچھا کس نے جمع کیا تھا ، لوگوں نے کہا ایک تو فروخ نے جو حضرت عثمان کے مولی ہیں اور دوسرے آپ کے آزاد کردہ غلام نے ، آپ نے دونوں کو بلوایا اور فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا ؟ جواب دیا کہ ہم اپنے مالوں سے خریدتے ہیں اور جب چاہیں بیچیں ، ہمیں اختیار ہے ، آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں میں مہنگا بیچنے کے خیال سے غلہ روک رکھے اسے اللہ مفلس کردے گا ، یہ سن کر حضرت فروخ تو فرمانے لگے کہ میری توبہ ہے میں اللہ سے اور پھر آپ سے عہد کرتا ہوں کہ پھر یہ کام نہ کروں گا لیکن حضرت عمر کے غلام نے پھر بھی یہی کہا کہ ہم اپنے مال سے خریدتے ہیں اور نفع اٹھا کر بیچتے ہیں ، اس میں کیا حرج ہے؟ راوی حدیث حضرت ابو یحییٰ فرماتے ہیں میں نے پھر دیکھا کہ اسے جذام ہو گیا اور جذامی ( کوڑھ ) بنا پھرتا تھا ، ابن ماجہ میں ہے جو شخص مسلمانوں کا غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے روک رکھے اللہ تعالیٰ اسے مفلس کر دے گا یا جذامی ۔ پھر فرماتا ہے وہ صدقہ کو بڑھاتا ہے ۔ یربی کی دوسری قرأت یربی بھی ہے ، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور بھی خیرات کرے اسے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی داہنے ہاتھ لیتا ہے پھر اسے پال کر بڑا کرتا ہے ( جس طرح تم لوگ اپنے بچھڑوں کو پالتے ہو ) اور اس کا ثواب پہاڑ کے برابر بنا دیتا ہے اور پاک چیز کے سوا وہ ناپاک چیز کو قبول نہیں فرماتا ، ایک اور روایت میں ہے کہ ایک کھجور کا ثواب حد پہاڑ کے برابر ملتا ہے ، اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ مثل احد کے ہو کر ملتا ہے ، پس تم صدقہ خیرات کیا کرو ، پھر فرمایا ناپسندیدہ کافروں ، نافرمان زبان زور اور نافرمان فعل والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صدقہ خیرات نہ کریں اور اللہ کی طرف سے صدقہ خیرات کے سبب مال میں اضافہ کے وعدہ کی پرواہ کئے بغیر دنیا کا مال دینار جمع کرتے پھریں اور بدترین اور خلاف شرع طریقوں سے کمائیاں کریں لوگوں کے مال باطل اور ناحق طریقوں سے کھا جائیں ، یہ اللہ کے دشمن ہیں ان ناشکروں اور گنہگاروں سے اللہ کا پیار ممکن نہیں ۔ پھر ان بندوں کی تعریف ہو رہی ہے جو اپنے رب کے احکام کی بجا آوری کریں ، مخلوق کے ساتھ سلوک و احسان قائم کریں ، نمازیں قائم کریں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، یہ قیامت کے دن تمام دکھ درد سے امن میں رہیں گے کوئی کھٹکا بھی ان کے دل پر نہ گزرے گا بلکہ رب العالمین اپنے انعام و اکرام سے انہیں سرفراز فرمائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

276۔ 1 یہ سود کے معنوی اور روحانی نقصان اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩٥] اگرچہ بنظر ظاہر سود لینے سے مال بڑھتا اور صدقہ دینے سے گھٹتا نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور مال حرام بود بجائے حرام رفت، والی بات بن جاتی ہے اور صدقات دینے سے اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے جس کا اسے خود بھی وہم و گمان نہیں ہوتا اور یہ ایسی حقیقت ہے جو بارہا کئی لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے تاہم اسے عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت کو علم معیشت کی رو سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے جس معاشرہ میں صدقات کا نظام رائج ہوتا ہے۔ اس میں غریب طبقہ (جو عموماً ہر معاشرہ میں زیادہ ہوتا ہے) کی قوت خرید بڑھتی ہے اور دولت کی گردش کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے اور جس معاشرہ میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقہ کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور جس امیر طبقہ کی طرف دولت کو سود کھینچ کھینچ کرلے جارہا ہوتا ہے۔ اس کی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے دولت کی گردش کی رفتار نہایت سست ہوجاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، امیر اور غریب میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر امیروں کو لوٹنا اور مارنا شروع کردیتا ہے آقا و مزدور میں، امیر اور غریب میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے جس سے کئی قسم کے مہلک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔- [٣٩٦] یہاں ناشکرے سے مراد وہ سود خور ہے جس کی پاس اپنی ضروریات سے زائد رقم موجود ہے۔ جیسے وہ اپنے کسی محتاج بھائی کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، نہ اسے صدقہ دینا چاہتا ہے نہ قرض حسنہ دیتا ہے بلکہ الٹا اس سے اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی سود کے ذریعہ کھینچنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ زائد روپیہ اس پر محض اللہ کا فضل تھا اور صدقہ یا قرض دے کر اسے اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا۔ مگر اس نے زائد رقم کو سود پر چڑھا کر اللہ کے فضل کی انتہائی ناشکری کی۔ لہذا اس سے بڑھ کر بدعملی اور گناہ کی بات اور کیا ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا : یعنی سود کا مال بظاہر جتنا بھی بڑھ جائے حقیقت میں نہیں بڑھتا، فرمایا : (وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ ) [ الروم : ٣٩ ] ” اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سود خواہ کتنا ہی بڑھ جائے انجام اس کا قلت ہی ہوگا۔ “ [ أحمد : ١؍٤٢٤، ح : ٤٠٢٥، عن ابن مسعود و صححہ محققہ و وافقہ الألبانی فی صحیح ابن ماجہ ] - وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سودی مال میں خیر و برکت عطا نہیں فرماتا، چناچہ سود خور پر دنیا بھی لعنت بھیجتی ہے اور آخرت میں بھی اسے وہ سزا ملے گی جو کسی دوسرے مجرم کو نہیں ملے گی۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتا ہے اور ان میں خیر و برکت ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاک مال ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح پالتا پوستا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ صدقہ (بڑھ کر) پہاڑ کی طرح ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب : ١٤١٠۔ مسلم : ١٠١٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ]- كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ : یعنی مال دار ہو کر محتاج کو قرض بھی مفت نہ دے جب تک سود نہ رکھ لے، یہ نعمت کی سخت ناشکری ہے۔ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں، یہاں سود کے ساتھ صدقات کا ذکر ایک خاص مناسبت سے لایا گیا ہے کہ سود اور صدقہ دونوں کی حقیقت میں بھی تضاد ہے، اور ان کے نتائج بھی متضاد ہیں، اور عموماً ان دونوں کاموں کے کرنے والوں کی غرض ونیت بھی متضاد ہوتی ہے۔- حقیقت کا تضاد تو یہ ہے کہ صدقہ میں تو بغیر کسی معاوضہ کے اپنا مال دوسروں کو دیا جاتا ہے، اور سود میں بغیر کسی معاوضہ کے دوسرے کا مال لیا جاتا ہے، ان دونوں کاموں کے کرنے والوں کی نیت اور غرض اس لئے متضاد ہے کہ صدقہ کرنے والا محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور ثواب آخرت کے لئے اپنے مال کو کم یا ختم کردینے کا فیصلہ کرتا ہے، اور سود لینے والا اپنے موجودہ مال پر ناجائز زیادتی کا خواہشمند ہے اور نتائج کا متضاد ہونا قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ سود سے حاصل شدہ مال کو یا اس کی برکت کو مٹا دیتے ہیں، اور صدقہ کرنے والے کے مال یا اس کی برکت کو بڑھاتے ہیں، جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ مال کی ہوس کرنیوالے کا مقصد پورا نہیں ہوتا، اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والا جو اپنے مال کی کمی پر راضی تھا اس کے مال میں برکت ہو کر اس کا مال یا اس کے ثمرات وافوائد بڑھ جاتے ہیں۔- یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آیت میں سود کو مٹانے اور صدقات کو بڑھانے کا کیا مطلب ہے ؟ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ مٹانا اور بڑھانا آخرت کے متعلق ہے کہ سود خور والوں کا مال آخرت میں کچھ کام نہ آئے گا بلکہ اس پر وبال بن جائے گا، اور صدقہ خیرات کرنے والوں کا مال آخرت میں ان کے لئے ابدی نعمتوں اور راحتوں کا ذریعہ بنے گا اور یہ بالکل ظاہر ہے جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور عامہ مفسرین نے فرمایا ہے کہ سود کا مٹانا اور صدقہ کا بڑھانا آخرت کے لئے تو ہے ہی، مگر اس کے کچھ آثار دنیا میں بھی مشاہدہ میں آجاتے ہیں۔- سود جس مال میں شامل ہوجاتا ہے، بعض اوقات وہ مال خود ہلاک و برباد ہوجاتا ہے، اور پچھلے مال کو بھی ساتھ لے جاتا ہے، جسے کہ ربوٰ اور سٹہ کے بازاروں میں اس کا ہمیشہ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ بڑے بڑے کروڑ پتی اور سرمایہ دار دیکھتے دیکھتے دیوالیہ اور فقیر بن جاتے ہیں، بےسود کی تجارتوں میں بھی نفع و نقصان کے احتمالات رہتے ہیں اور بہت سے تاجروں کو نقصان بھی کسی تجارت میں ہوجاتا ہے، لیکن ایسا نقصان کہ کل کروڑ پتی تھا اور آج ایک ایک پیسہ کو بھی محتاج ہے، یہ صرف سود اور سٹہ کے بازاروں میں ہی ہوتا ہے، اور اہل تجربہ کے بیشمار بیانات اس بارے میں مشہور و معروف ہیں کہ سود کا مال فوری طور پر کتنا ہی بڑھ جائے لیکن وہ عموماً پائیدار اور باقی نہیں رہتا، جس کا فائدہ اولاد اور نسلوں میں چلے، اکثر کوئی نہ کوئی آفت پیش آکر اس کو برباد کردیتی ہے، حضرت معمر نے فرمایا کہ ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ سود خور پر چالیس سال گذرنے نہیں پاتے کہ اس کے مال پر محاق (یعنی گھاٹا) آجاتا ہے۔- اور اگر ظاہری طور پر مال ضائع و برباد بھی نہ ہو تو اس کے فوائد و برکات وثمرات سے محرومی تو یقینی اور لازمی ہے، کیونکہ یہ بات کچھ مخفی نہیں کہ سونا چاندی خود تو نہ مقصود ہے نہ کارآمد، نہ اس سے کسی کی بھوک مٹ سکتی ہے، نہ پیاس نہ سردی، نہ گرمی سے بچنے کے لئے اوڑھا بچھایا جاسکتا ہے، نہ وہ کپڑوں برتنوں کا کام دے سکتا ہے، پھر اس کو حاصل کرنے اور محفوظ کرنے میں ہزاروں مشقتیں اٹھانے کا منشاء ایک عقلمند انسان کے نزدیک اس کے سوا نہیں ہوسکتا کہ سونا چاندی ذریعہ ہیں ایسی چیزوں کے حاصل کرنے کا کہ جن سے انسان کی زندگی خوشگوار بن سکے، اور وہ راحت و عزت کی زندگی گزار سکے، اور انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ یہ راحت وعزت جس طرح اسے حاصل ہوئی اس کی اولاد اور متعلقین کو بھی حاصل ہو۔ - یہی وہ چیزیں ہیں جو مال و دولت کے فوائد وثمرات کہلا سکتے ہیں، اس کے نتیجہ میں یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ جس شخص کو یہ ثمرات و فوائد حاصل ہوئے اس کا مال ایک حیثیت سے بڑھ گیا اگرچہ دیکھنے میں کم نظر آئے اور جس کو یہ فوائد وثمرات کم حاصل ہوئے اس کا مال ایک حیثیت سے گھٹ گیا اگرچہ دیکھنے میں زیادہ نظر آئے۔- اس بات کو سمجھ لینے کے بعد سود کا کاروبار اور صدقہ و خیرات کے اعمال کا جائزہ لیجئے تو یہ بات مشاہدہ میں آجائے گی کہ سود خور کا مال اگرچہ بڑھتا ہوا نظر آتا ہے مگر وہ بڑھنا ایسا ہے کہ جیسے کسی انسان کا بدن ورم وغیرہ سے بڑھ جائے ورم کی زیادتی بھی تو بدن ہی کی زیادتی ہے، مگر کوئی سمجھدار انسان اس زیادتی کو پسند نہیں کرسکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ زیادتی ہے موت کا پیغام ہے اسی طرح سود خور کا مال کتنا ہی بڑھ جائے مگر مال کے فوائد وثمرات یعنی راحت وعزت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔- یہاں شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ آج تو سودخوروں کو بڑی سے بڑی راحت وعزت حاصل ہے وہ کوٹھیوں بنگلوں کے مالک ہیں عیش و آرام کے سارے سامان مہیا ہیں کھانے پینے پہننے اور رہنے سہنے کی ضرورت بلکہ فضولیات بھی سب ان کو حاصل ہیں نوکر چاکر اور شان و شوکت کے تمام سامان ہیں لیکن غور کیا جائے تو ہر شخص سمجھ لے گا کہ سامان راحت اور راحت میں بڑا فرق ہے سامان راحت تو فیکٹریوں اور کارخانوں میں بنتا اور بازاروں میں بکتا ہے وہ سونے چاندی کے عوض حاصل ہوسکتا ہے لیکن جس کا نام راحت ہے وہ نہ کسی فیکٹری میں بنتی ہے نہ کسی منڈی میں بکتی ہے، وہ ایک ایسی رحمت ہے جو براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے وہ بعض اوقات ہزاروں سامان کے باوجود حاصل نہیں ہوسکتی، ایک نیند کی راحت کو دیکھ لیجئے کہ اس کے حاصل کرنے کے لئے یہ تو کرسکتے ہیں کہ سونے کے لئے مکان کو بہتر سے بہتر بنائیں، ہوا اور روشنی کا پورا اعتدال ہو، مکان کا فرنیچر دیدہ زیب دل خوش کن ہو، چارپائی اور گدے اور تکئے حسب منشا ہوں، لیکن کیا نیند کا آجانا ان سامانوں کے مہیا ہونے پر لازمی ہے ؟ اگر آپ کو کبھی اتفاق نہ ہوا ہو تو ہزاروں وہ انسان اس کا جواب نفی میں دیں گے جن کو کسی عارضہ سے نیند نہیں آتی۔ اب امریکہ جیسے مال دار متمدن ملک کے متعلق بعض رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ وہاں پچھتر فیصد آدمی خواب آور گولیوں کے بغیر سو ہی نہیں سکتے اور بعض اوقات خواب آور دوائیں بھی جواب دیدیتی ہیں نیند کے سامان تو آپ بازار سے خرید لائے مگر نیند آپ کسی بازار سے کسی قیمت پر نہیں لاسکتے، اسی طرح دوسری راحتوں اور لذتوں کا حال ہے کہ ان کے سامان تو روپیہ پیسے کے ذریعہ حاصل ہو سکتے ہیں مگر راحت ولذت کا حاصل ہونا ضروری نہیں۔- یہ بات سمجھ لینے کے بعد سود خوروں کے حالات کا جائزہ لیجئے تو ان کے پاس آپ کو سب کچھ ملے گا مگر راحت کا نام نہ پائیں گے وہ اپنے کروڑ کو ڈیڑھ کروڑ اور ڈیڑھ کروڑ کو دو کروڑ بنانے میں ایسے مست نظر آئیں گے کہ نہ ان کو اپنے کھانے پہننے کا ہوش ہے نہ اپنی بیوی بچوں کا، کئی کئی مل چل رہے ہیں، دوسرے ملکوں سے جہاز آرہے ہیں ان کی ادھیڑ بن ہی میں صبح سے شام اور شام سے صبح ہوجاتی ہے، افسوس ہے کہ ان دیوانوں نے سامان راحت ہی کا نام راحت سمجھ لیا ہے اور حقیقت میں راحت سے کوسوں دور ہیں۔- یہ حال تو ان کی راحت کا ہے اب عزت کو دیکھ لیجئے یہ لوگ چونکہ سخت دل اور بےرحم ہوجاتے ہیں ان کا پیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ مفسلوں کی مفلسی سے یا کم مایہ لوگوں کی کم مائگی سے فائدہ اٹھائیں ان کا خون چوس کر اپنے بدن کو پالیں اس لئے ممکن نہیں کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی کوئی عزت و وقار ہو اپنے ملک کے بنیوں اور ملک شام کے یہودیوں کی تاریخ پڑھ جائیے، ان کے حالات کو دیکھ لیجئے ان کی تجوریاں کتنے ہی سونے چاندی اور جواہرات سے بھری ہوں لیکن دنیا کے کسی گوشہ میں انسانوں کے کسی طبقہ میں ان کی کوئی عزت نہیں بلکہ ان کے اس عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب مفلس لوگوں کے دلوں میں ان کی طرف سے بغض ونفرت پیدا ہوتی ہے اور آجکل تو دنیا کی ساری جنگیں اسی بغض ونفرت کی مظاہر ہیں، محنت وسرمایہ کی جنگ نے ہی دنیا میں اشتراکیت اور اشتمالیت کے نظرئیے پیدا کئے کمیونزم کی تخریبی سرگرمیاں اسی بغض ونفرت کا نتیجہ ہیں جن سے پوری دنیا قتل و قتال اور جنگ وجدال کا جہنم بن کر رہ گئی ہے، یہ حال تو اپنی راحت وعزت کا ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ سود کا مال سود خور کی آنے والی نسلوں کی زندگی کو بھی کبھی خوشگوار نہیں بناتا یا ضائع ہوجاتا ہے یا اس کی نحوست سے وہ بھی مال و دولت کے حقیقی ثمرات سے محروم و ذلیل رہتے ہیں لوگ یورپ کے سود خوروں کی مثال سے شاید فریب میں آئیں کہ وہ لوگ تو سب کے سب خوش حال ہیں اور ان کی نسلیں بھی پھولتی پھلتی ہیں لیکن اول تو ان کی خوش حالی کا اجمالی خاکہ عرض کرچکا ہوں۔- دوسرے ان کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی مردم خور دوسرے انسانوں کا خون چوس کر اپنا بدن پالتا ہو اور ایسے کچھ انسانوں کا جتھہ ایک محلہ میں آباد ہوجائے آپ کسی کو اس محلہ میں لے جاکر مشاہدہ کرائیں کہ یہ سب کے سب بڑے صحت مند اور سرسبز و شاداب ہیں لیکن ایک عقل مند آدمی کو جو انسانیت کی فلاح کا خواہشمند ہے صرف اس محلہ کا دیکھنا نہیں بلکہ اس کے مقابل ان بستیوں کو بھی دیکھنا ہے جن کا خون چوس کر ان کو ادھ موا کردیا گیا ہے اس محلہ اور ان بستیوں کے مجموعہ پر نظر ڈالنے والا کبھی اس محلہ کے فربہ ہونے پر خوش نہیں ہوسکتا اور مجموعی حیثیت سے ان کے عمل کو انسانی ترقی کا ذریعہ نہیں بتاسکتا بلکہ اس کو انسان کی ہلاکت و بربادی ہی کہنے پر مجبور ہوگا۔- اس کے بالمقابل صدقہ خیرات کرنے والوں کو دیکھئے کہ ان کو کبھی اس طرح مال کے پیچھے حیران و سرگردان نہ پائیں گے ان کو راحت کے سامان اگرچہ کم حاصل ہوں مگر سامان والوں سے زیادہ اطمینان اور سکون قلب جو اصلی راحت ہے ان کو حاصل ہوگی، دنیا میں ہر انسان ان کو عزت کی نظر سے دیکھے گا۔- يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ- خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقہ کو بڑھاتا ہے یہ مضمون آخرت کے اعتبار سے تو بالکل صاف ہے ہی، دنیا کے اعتبار سے بھی اگر ذرا حقیقت سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بالکل کھلا ہوا ہے، یہی ہے مطلب اس حدیث کا جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ان الربوٰا وان کثر فان عاقبتہ تصیر الیٰ قل۔ یعنی سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہوجائے مگر انجام کار نتیجہ اس کا قلت ہے۔- آیت کے آخر میں ارشاد ہے۔ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ یعنی اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو کسی گناہ کا کام کرنے والے کو، اس میں اشارہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ سود کو حرام ہی نہ سمجھیں وہ کفر میں مبتلا ہیں اور جو حرام سمجھنے کے باوجود عملاً اس میں مبتلا ہیں وہ گنہگار فاسق ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ۝ ٢٧٦- محق - المَحْقُ : النّقصان، ومنه : المِحَاقُ ، لآخر الشهر إذا انْمَحَقَ الهلال، وامْتَحَقَ ، وانْمَحَقَ ، يقال : مَحَقَهُ : إذا نقصه وأذهب بركته . قال اللہ تعالی: يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ- [ البقرة 276] ، وقال : وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران 141] .- ( م ح ق ) المحق کے معنی گھٹنے اور کم ہونے کے ہیں اور اسی سے المحاق قمری مہینہ کی ان آخری راتوں کو کہتے ہیں جن میں چاند نمودار نہیں ہوتا ۔ انمحق وامتحق کے معنی کم ہونا اور مٹ جانا ہیں اور محقہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے اور اس سے برکت کو ختم کردینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] خدا سود کرنا بود ( یعنی بےبرکت کرتا ) اور خیرات ( کی برکت ) کو بڑھاتا ہے ۔ وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران 141] اور کافروں کو نابود کردے ۔- رِّبَا :- الزیادة علی رأس المال، لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دون وجه، وباعتبار الزیادة قال تعالی: وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم 39] ، ونبّه بقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] ، أنّ الزیادة المعقولة المعبّر عنها بالبرکة مرتفعة عن الرّبا، ولذلک قال في مقابلته : وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ [ الروم 39] الربا ( سود ) راس المال یعنی اصل سرمایہ پر جو بڑھوتی لی جائے وہ ربو کہلاتی ہے ۔ لیکن شریعت میں خاص قسم کی بڑھوتی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ زیادہ ہونے کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم 39] اور تم کو جو چیز ( عطیہ ) زیادہ لینے کے لئے دو تاکہ لوگوں کے اموال میں بڑھوتی ہو وہ اللہ کے یہاں نہیں بڑھے گی ۔ اور آیت : ۔ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] اللہ سود کو بےبرکت کرتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے ۔ میں محق کا لفظ لا کر اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ ربا ، ، یعنی سود میں برکت نہیں ہوتی اس کے مقابلہ میں زکوۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ [ الروم 39] اور تم ( محض ) خدا کی رضا جوئی کے ارادے سے زکوہ دیتے ہو تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی اپنے دیئے ہوئے کو خدا کے ہاں بڑھا رہے ہیں ۔- صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧٦ (یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط) - ہمارے زمانے میں شیخ محمود احمد (مرحوم) نے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے کہ تین چیزیں سود کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جتنا سود بڑھے گا اسی قدر بےروزگاری بڑھے گی ‘ افراطِ زر ( ) میں اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں شرح سود ( ) بڑھے گا۔ شرح سود کے بڑھنے سے بےروزگاری مزید بڑھے گی اور افراطِ زر میں اور زیادہ اضافہ ہوگا۔ یہ ایک دائرۂ خبیثہ ( )- ہے اور اس کے نتیجے میں کسی ملک کی معیشت بالکل تباہ ہوجاتی ہے۔ یہ تباہی ایک وقت تک پوشیدہ رہتی ہے ‘ لیکن پھر یک دم اس کا ظہور بڑے بڑے بینکوں کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ ابھی جو کو ریا کا حشر ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے روس کا جو حشر ہوچکا ہے وہ پوری دنیا کے لیے باعث عبرت ہے۔ سودی معیشت کا معاملہ تو گویا شیش محل کی طرح ہے ‘ اس میں تو ایک پتھر آکر لگے گا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس معاملہ صدقات کا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ پالتا ہے ‘ بڑھاتا ہے ‘ جیسا کہ سورة الروم کی آیت ٣٩ میں ارشاد ہوا۔ - (وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ ) - اللہ تعالیٰ کو وہ سب لوگ ہرگز پسند نہیں ہیں جو ناشکرے اور گناہگار ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :320 ”اس آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئ ہے ، جو اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی و تمدنی حیثیت سے بھی ۔ اگرچہ بظاہر سود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ خدا کا قانون فطرت یہی ہے کہ سود اخلاقی و روحانی اور معاشی و تمدنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزل کا ذریعہ بنتا ہے ۔ اور اس کے برعکس صدقات سے ( جن میں قرض حسن بھی شامل ہے ) اخلاق و روحانیت اور تمدن و معیشت ہر چیز کو نشونما نصیب ہوتا ہے ۔ اخلاقی و روحانی حیثیت سے دیکھیے ، تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سود دراصل خود غرضی ، بخل ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ انہی صفات کو انسان میں نشونما بھی دیتا ہے ۔ اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں فیاضی ، ہمدردی ، فراخ دلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا ، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں ۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعے کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو؟ تمدنی حیثیت سے دیکھیے ، تو بادنٰی تامل یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائیٹی میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں ، کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے ، ایک آدمی کی حاجت مندی کو دوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اٹھائے ، اور مالدار طبقوں کا مفاد عامة الناس کے مفاد کی ضد ہو جائے ، ایسی سوسا ئیٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی ۔ اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بے دردی و بے تعلقی نشو نما پائے گی ۔ اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے ۔ اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورت حال کے لیے مددگار ہو جائیں ، تو ایسی سوسائیٹی کے اجزا کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے ۔ اس کے برعکس جس سوسائیٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو ، جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں ، جس میں ہر شخص دوسرے کی حاجت کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے ، اور جس میں با وسیلہ لوگ بے وسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں ، ایسی سوسائیٹی میں آپس کی محبت ، خیر خواہی اور دلچسپی نشونما پائے گی ۔ اس کے اجزا ایک دوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دوسرے کے پشتیبان ہوں گے ۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا ۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائیٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی ۔ اب معاشی حیثیت سے دیکھیے ۔ معاشیات کے نقطہ نظر سے سودی قرض کی دو قسمیں ہیں׃ ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر نے کے لیے مجبور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں ۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت و صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں ۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دنیا جانتی ہے کہ اس پر سود وصول کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کن ہے ۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں مہاجن افراد اور مہاجنی ادارے اس ذریعے سے غریب مزدوروں کا ، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چوس رہے ہوں ۔ سود کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل ، بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جا تا ہے ۔ پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں ۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا سود دے چکنے پر بھی اصل رقم جوں کی توں باقی رہتی ہے ۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا پیشتر حصہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا ۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کر دیتی ہے ۔ کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دوسرا لے اڑے تو وہ کبھی دل لگا کر محنت نہیں کر سکتے ۔ پھر سودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھلا دیتی ہے ، اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہو جاتا ہے ، کہ ان کی صحتیں کبھی درست نہیں رہ سکتیں ۔ اس طرح سودی قرض کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چوس چوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں ، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائش دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت گھٹ جاتی ہے ، اور مآل کار میں خود وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کی بدولت مال دار لوگوں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اٹھتا اور گھٹتا رہتا ہے ، اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے ۔ رہا دوسری قسم کا قرض جو کاروبار میں لگانے کے لیے لیا جاتا ہے ، تو اس پر ایک مقرر شرح سود کے عائد ہونے سے جو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں ان میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں : ( ١ ) جو کام رائج الوقت شرح سود کے برابر نفع نہ لا سکتے ہوں ، چاہے ملک اور قوم کے لیے کتنے ہی ضروری اور مفید ہوں ، ان پر لگانے کے لیے روپیہ نہیں ملتا اور ملک کے تمام مالی وسائل کا بہاؤ ایسے کاموں کی طرف ہو جاتا ہے ، جو بازار کی شرح سود کے برابر یا اس سے زیادہ نفع لاسکتے ہوں ، چاہے اجتماعی حیثیت سے ان کی ضرورت اور ان کا فائدہ بہت کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو ۔ ( ۲ ) جن کاموں کے لیے سود پر سرمایہ ملتا ہے ، خواہ وہ تجارتی کام ہوں یا صنعتی یا زراعتی ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جس میں اس امر کی ضمانت موجود ہو کہ ہمیشہ تمام حالات میں اس کا منافع ایک مقرر معیاد ، مثلاً پانچ ، چھ یا دس فیصدی تک یا اس سے اوپر اوپر ہی رہے گا اور کبھی اس سے نیچے نہیں گرے گا ۔ اس کی ضمانت ہونا تو درکنار ، کسی کاروبار میں سرے سے اسی بات کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اس میں ضرور منافع ہی ہو گا ، نقصان کبھی نہ ہوگا ۔ لہٰذا کسی کاروبار میں ایسے سرمایے کا لگنا جس پر سرمایہ دار کو ایک مقرر شرح کے مطابق منافع دینے کی ضمانت دی گئی ہو ، نقصان اور خطرے کے پہلوؤں سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا ۔ ( ۳ ) چونکہ سرمایہ دینے والا کاروبار کے نفع و نقصان میں شریک نہیں ہوتا بلکہ صرف منافع اور وہ بھی ایک مقرر شرح منافع کی ضمانت پر روپیہ دیتا ہے ، اس وجہ سے کاروبار کی بھلائی اور برائی سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ وہ انتہائی خود غرضی کے ساتھ صرف اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے ، اور جب کبھی اسے ذرا سا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ منڈی پر کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے ، تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے ۔ اس طرح کبھی تو محض اس کے خود غرضانہ اندیشوں ہی کی بدولت دنیا پر کساد بازاری کا واقعی حملہ ہو جاتا ہے ، اور کبھی اگر دوسرے اسباب سے کساد بازاری آگئی ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر انتہائی تباہ کن حد تک پہنچا دیتی ہے ۔ سود کے یہ تین نقصانات تو ایسے صریح ہیں کہ کوئی شخص جو علم المعیشت سے تھوڑا سا مس بھی رکھتا ہو ان کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اس کے بعد یہ مانے بغیر کیا چارہ ہے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے قانون فطرت کی رو سے سود معاشی دولت کو بڑھاتا نہیں بلکہ گھٹاتا ہے ۔ اب ایک نظر صدقات کے معاشی اثرات و نتائج کو بھی دیکھ لیجیے ۔ اگر سوسائیٹی کے خوشحال افراد کا طریق کار یہ ہو کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق پوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں ، پھر جو روپیہ ان کے پاس ان کی ضروریات سے زیادہ بچے اسے غریبوں میں بانٹ دیں تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں ، پھر اس پر بھی جو روپیہ بچ جائے اسے یا تو کاروباری لوگوں کو بلا سود قرض دیں ، یا شرکت کے اصول پر ان کے ساتھ نفع و نقصان میں حصہ دار بن جائیں ، یا حکومت کے پاس جمع کردیں کہ وہ اجتماعی خدمات کے لیے ان کو استعمال کرے ، تو ہر شخص تھوڑے سے غور و فکر ہی سے اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسی سوسائیٹی میں تجارت اور صنعت اور زراعت ، ہر چیز کو بے انتہا فروغ حاصل ہوگا ۔ اس کے عام افراد کی خوشحالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بحیثیت مجموعی دولت کی پیداوار اس سوسائیٹی کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہوگی جس کے اندر سود کا رواج ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :321 ظاہر ہے کہ سود پر روپیہ وہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصہ ملا ہو ۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصہ ، جو ایک شخص کو ملتا ہے ، قرآن کے نقطہ نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے ۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے ، اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دوسرے بندوں پر فضل کرے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصہ پارہے ہیں ، ان کے قلیل حصے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے ، تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم ، جفا کار اور بد عمل بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani