Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تجارت اور سود کو ہم معنی کہنے والے کج بحث لوگ چونکہ پہلے ان لوگوں کا ذِکر ہوا ہے جو نیک کا ( صدقہ خیرات کرنے والے زکوتیں دینے والے حاجت مندوں اور رشتہ داروں کی مدد کرنے والے غرض ہر حال میں اور ہر وقت دوسروں کے کام آنے والے تھے تو ان کا بیان ہو رہا ہے جو کسی کو دینا تو ایک طرف رہا دوسروں سے چھیننے ظلم کرنے اور ناحق اپنے پرایوں کا مال ہضم کرنے والے ہیں ، تو فرمایا کہ یہ سودخور لوگ اپنی قبروں سے ان کے بارے میں دیوانوں اور پاگلوں خبطیوں اور بیہوشوں کی طرح اُٹھیں گے ، پاگل ہوں گے ، کھڑے بھی نہ ہو سکتے ہوں گے ، ایک قرأت میں من المس کے بعد یوم القیامۃ کا لفظ بھی ہے ، ان سے کہا جائے گا کہ لو اب ہتھیار تھام لو اور اپنے رب سے لڑنے کیلئے آمادہ ہو جاؤ ، شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں کی مانند تھے ، پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا سود اور بیاج لینے والے ہیں ، اور روایت میں ہے کہ ان کے پیٹوں میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو ڈستے رہتے تھے اور ایک مطول حدیث میں ہے کہ ہم جب ایک سرخ رنگ نہر پر پہنچے جس کا پانی مثل خون کے سرخ تھا تو میں نے دیکھا اسں میں کچھ لوگ بمشکل تمام کنارے پر آتے ہیں تو ایک فرشتہ بہت سے پتھر لئے بیٹھا ہے ، وہ ان کا منہ پھاڑ کر ایک پتھر ان کے منہ میں اتار دیتا ہے ، وہ پھر بھاگتے ہیں پھر یہی ہوتا ہے ، پوچھا تو معلوم ہوا یہ سو خوروں کا گروہ ہے ، ان پر یہ وبال اس باعث ہے کہ یہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی ہے ان کا یہ اعتراض شریعت اور احکام الٰہی پر تھا وہ سود کو تجارت کی طرح حلال جانتے تھے ، جبکہ بیع پر سود کا قیاس کرنا ہی غلط ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرکین تو تجارت کا شرعاً جائز ہونے کے قائل نہیں ورنہ یوں کہتے کہ سود مثل بیع ہے ، ان کا کہنا یہ تھا کہ تجارت اور سود دونوں ایک جیسی چیزیں ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک کو حلال کہا جائے اور دوسری کو حرام؟ پھر انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حلت و حرمت اللہ کے حکم کی بنا پر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ بھی کافروں کا قول ہی ہو ، تو بھی انتہائی اچھے انداز سے جواباً کہا گیا اس میں مصلحت الہیہ کہ ایک کو اللہ نے حرام ٹھہرایا اور دوسرے کو حلال پھر اعتراض کیسا ؟ علیم و حکیم اللہ کے حکموں پر اعتراض کرنے والے تم کون؟ کس کی ہستی ہے؟ اس سے بازپرس کرنے کی ، تمام کاموں کی حقیقت کو ماننے والا تو وہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ میرے بندوں کا حقیقی نفع کس چیز میں اور فی الواقع نقصان کس چیز میں ہے ، تو نفع الی چیزیں حلال کرتا ہے اور نقصان پہنچانے والی چیزیں حرام کرتا ہے ، کوئی ماں اپنے دودھ پیتے بچے پر اتنی مہربان نہ ہوگی جتنا اللہ اپنے بندوں پر ہے ، وہ روکتا ہے تو بھی مصلحت سے اور حکم دیتا ہے تو مصلحت سے ، اپنے رب کی نصیحت سن کر جو باز آجائے اس کے پہلے کئے ہوئے تمام گناہ معاف ہیں ، جیسا فرمایا عفا اللہ عما سلف اور جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا تھا جاہلیت کے تمام سود آج میرے ان قدموں تلے دفن کر دئیے گئے ہیں ، چنانچہ سب سے پہلا سود جس سے میں دست بردار ہوتا ہوں وہ عباس کا سود ہے ، پس جاہلیت میں جو سود لے چکے تھے ان کو لوٹانے کا حکم نہیں ہوا ، ایک روایت میں ہے کہ ام بحنہ حضرت زید بن ارقم کی ام ولد تھیں ، حضرت عائشہ کے پاس آئیں اور کہا کہ میں نے ایک غلام حضرت زید کے ہاتھوں آٹھ سو کا اس شرط پر بیچا کہ جب ان کے پاس رقم آئے تو وہ ادا کر دیں ، اس کے بعد انہیں نقدی کی ضرورت پڑی تو وقت سے پہلے ہی وہ اسے فروخت کرنے کو تیار ہوگئے ، میں نے چھ سو کا خرید لیا ، حضرت صدیقہ نے فرمایا تو نے بھی اور اس نے بھی بالکل خلاف شرع کیا ، بہت برا کیا ، جاؤ زید سے کہہ دو اگر وہ توبہ نہ کرے گا تو اس کا جہاد بھی غارت جائے گا جو اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہے ، میں نے کہا اگر وہ دو سو جو مجھے اس سے لینے ہیں چھوڑ دوں اور صرف چھ سو وصول کرلوں تاکہ مجھے میری پوری رقم آٹھ سو کی مل جائے ، آپ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ، پھر آپ نے ( فمن جاء موعظۃ والی آیت پڑھ کر سنائی ( ابن ابی حاتم ) یہ اثر بھی مشہور ہے اور ان لوگوں کی دلیل ہے جو عینہ کے مسئلے کو حرام بتاتے ہیں اس کی تفصیل کتاب الاحکام میں ہے اور احادیث بھی ہیں ، والحمداللہ ۔ پھر فرمایا کہ حرمت کا مسئلہ کانوں میں پڑنے کے بعد بھی سود لے تو وہ سزا کا مستحق ہے ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا جو مخابرہ کو اب بھی نہ چھوڑے وہ اللہ کے رسول سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائے ( ابو داؤد ) مخابرہ اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص دوسروں کی زمین میں کھیتی بوئے اور اس سے یہ طے ہو کہ زمین کے اس محدود ٹکڑے سے جتنا اناج نکلے وہ میرا باقی تیرا اور مزابنہ اسے کہتے ہیں کہ درخت میں جو کھجوریں ہیں وہ میری ہیں اور میں اس کے بدلے اپنے پاس سے تجھے اتنی اتنی کھجوریں تیار دیتا ہوں ، اور محاقلہ اسے کہتے ہیں کہ کھیت میں جو اناج خوشوں میں ہے اسے اپنے پاس سے کچھ اناج دے کر خریدنا ، ان تمام صورتوں کو شریعت نے حرام قرار دیا تاکہ سود کی جڑیں کٹ جائیں ، اس لئے کہ ان صورتوں میں صحیح طور پر کیفیت تبادلہ کا اندازہ نہیں ہوسکتا ، پس بعض علماء نے اس کی کچھ علت نکالی ، بعض نے کچھ ، ایک جماعت نے اسی قیاس پر ایسے تمام کاروبار کو منع کیا ، دوسری جماعت نے برعکس کیا ، لیکن دوسری علت کی بنا پر ، حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ذرا مشکل ہے ۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فرماتے ہیں افسوس کہ تین مسئلے پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آئے دادا کی میراث کا کلالہ اور سود کی صورتوں کا یعنی بعض کاروبار کی ایسی صورتیں جن پر سود کا شبہ ہوتا ہے ، اور وہ ذرائع جو سود کی مماثلت تک لے جاتے ہوں جب یہ حرام ہیں تو وہ بھی حرام ہی ٹھہریں گے ، جیسا کہ وہ چیز واجب ہو جاتی ہے جس کے بغیر کوئی واجب پورا نہ ہوتا ہو ، بخاوی و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جس طرح حلال ظاہر ہے ، اسی طرح حرام بھی ظاہر ہے لیکن کچھ کام درمیانی شبہ والے بھی ہیں ، ان شبہات والے کاموں سے بچنے والے نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا اور جو ان مشتبہ چیزوں میں پڑا وہ حرام میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے ۔ اس چرواہے کی طرح جو کسی کی چراگاہ کے آس پاس اپنے جانور چراتا ہو ، تو ممکن ہے کوئی جانور اس چراگاہ میں بھی منہ مار لے ، سنن میں حدیث ہے کہ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور اسے لے لو جو شک شبہ سے پاک ہے ، دوسری حدیث میں ہے گناہ وہ ہے جو دِل میں کھٹکے طبیعت میں تردد ہو اور اس کے بارے میں لوگوں کا واقف ہونا اسے برا لگتا ہو ، ایک اور روایت میں ہے اپنے دِل سے فتویٰ پوچھ لو لوگ چاہے کچھ بھی فتویٰ دیتے ہوں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سود کی حرمت سب سے آخر میں نازل ہوئی ( بخاری ) حضرت عمر یہ فرما کر کہتے ہیں افسوس کہ اس کی پوری تفسیر بھی مجھ تک نہ پہنچ سکی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ۔ لوگو سود کو بھی چھوڑو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا بھی شائبہ ہو ( مسند احمد ) حضرت عمر نے ایک خطبہ میں فرمایا شاید میں تمہیں بعض ان چیزوں سے روک دوں جو تمہارے لئے نفع والی ہوں اور ممکن ہے میں تمہیں کچھ ایسے احکام بھی دوں جو تمہاری مصلحت کیخلاف ہوں ، سنو قرآن میں سب سے آخر سود کی حرمت کی آیت اتری ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا اور افسوس کہ اسے کھول کر ہمارے سامنے بیان نہ فرمایا پس تم ہر اس چیز کو چھوڑو جو تمہیں شک میں ڈالتی ہو ( ابن ماجہ ) ایک حدیث میں ہے کہ سود کے تہتر گناہ ہیں جن میں سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے بدکاری کرے ، سب سے بڑا سود مسلمان کی ہتک عزت کرنا ہے ( مستدرک حاکم ) فرماتے ہیں ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ سود کھائیں گے ، صحابہ نے پوچھا کیا سب کے سب؟ فرمایا جو نہ کھائے گا اسے بھی غبار تو پہنچے گا ہی ، ( مسند احمد ) پس غبار سے بچنے کیلئے ان اسباب کے پاس بھی نہ پھٹکنا چاہئے جو ان حرام کاموں کی طرف پہنچانے والے ہوں ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب سورۃ بقرہ کی آخری آیت حرمت سود میں نازل ہوئی تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آکر اس کی تلاوت کی اور سودی کاروبار اور سودی تجارت کو حرام قرار دیا ، بعض ائمہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح شراب اور اس طرح کی تمام خرید و فروخت وغیرہ وہ وسائل ( ذرائع ) ہیں جو اس تک پہنچانے والے ہیں سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کئے ہیں ، صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر لعنت اس لئے کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے حیلہ سازی کرکے حلال بنانے کی کوشش کی چنانچہ یہ کوشش کرنا بھی حرام ہے اور موجب لعنت ہے ، اسی طرح پہلے وہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص دوسرے کی تین طلاق والی عورت سے اس لئے نکاح کرے کہ پہلے خاوند کیلئے حلال ہو جائے اس پر اور اس خاوند پر اللہ کی پھٹکار اور اس کی لعنت ہے ، آیت حتی تنکح زوجا غیرہ کی تفسیر میں دیکھ لیجئے ، حدیث شریف میں ہے سود کھانے والے پر کھلانے والے پر شہادت دینے والوں پر گواہ بننے والوں پر لکھنے والے پر سب اللہ کی لعنت ہے ، ظاہر ہے کاتب و شاہد کو کیا ضرورت پڑی ہے جو وہ خواہ مخواہ اللہ کی لعنت اپنے اوپر لے ، اسی طرح بظاہر عقد شرعی کی صورت کا اظہار اور نیت میں فساد رکھنے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہے ۔ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں بلکہ تمہارے دِلوں اور نیتوں کو دیکھتے ہیں ۔ حضرت علامہ امام ابن تیمیہ نے ان حیلوں حوالوں کے رَد میں ایک مستقل کتاب ابطال التحلیل لکھی ہے جو اس موضوع میں بہترین کتاب ہے اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان سے خوش ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

275۔ 1 رِبَوا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں اور شریعت میں اس کا اطلاق رِبَا الفَضْلِ اور ربا النسیئۃ پر ہوتا ہے۔ ربا الفضل اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد و ادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے) مثلا گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو۔ دوسرے ہاتھوں ہاتھ ہو۔ اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کے بجائے ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں تب بھی سود ہے) ربا النسیئۃ کا مطلب ہے کسی کو (مثلا) چھ مہینے کے لیے اس شرط پر سو روپے دینا کہ واپسی 125 روپے ہوگی۔ 25 روپے چھ مہینے کی مہلت کے لیے دیے جائیں۔ حضرت علی (رض) کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے " کل قرض جر منفعۃ فھو ربا " (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج 5، ص 28) (قرض پر لیا گیا نفع سود ہے) ۔ یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لیے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لئے دونوں قسم کے قرضوں پر سود حرام ہے۔ اور زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقا حرام قرار دیا ہے اس لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے اس پر اضافہ سود نہیں ہے اس لیے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے ؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلا قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے بلکہ منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چا ہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار ہو) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے ؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیاوی غرض و منفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس سے معاشرے میں اخوت بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت و محبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند، بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بےروزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت و سنگدلی کو کس طرح پسند کرسکتی ہے ؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لیے لیے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر۔ 275۔ 2 سود خور کی یہ کیفیت قبر سے اٹھتے وقت یا میدان محشر میں ہوگی۔ 275۔ 3 حالانکہ تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے دوسرے اس میں نفع نقصان کا امکان رہتا ہے جب کہ سود میں دونوں چیزیں نہیں ہیں علاوہ ازیں بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے پھر یہ دونوں ایک کس طرح ہوسکتے ہیں۔ 275۔ 4 قبول ایمان یا توبہ کے بعد پچھلے سود پر گرفت نہیں ہوگی۔ 275۔ 5 کہ وہ توبہ پر ثابت قدم رہتا ہے یا سوء عمل اور فسادات کی وجہ سے اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے اس کے بعد دوبارہ سود لینے والے کے لئے سزا کی دھمکی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩٢] یہ دراصل سود خور یہودیوں کا قول ہے اور آج کل بہت سے مسلمان بھی اسی نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سودی قرضے دراصل دو طرح کے ہوتے ہیں ( : ١) ذاتی قرضے یا مہاجنی قرضے یعنی وہ قرضے جو کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یا بنک سے لیتا ہے اور دوسرے تجارتی قرضے جو تاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے بنکوں سے سود پر لیتے ہیں۔ اب جو مسلمان سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام کیا ہے وہ ذاتی یا مہاجنی قرضے ہیں جن کی شرح سود بڑی ظالمانہ ہوتی ہے اور جو تجارتی سود ہے وہ حرام نہیں۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہ تھا۔ نیز ایسے قرضے چونکہ رضا مندی سے لئے دیئے جاتے ہیں اور ان کی شرح سود بھی گوارا اور مناسب ہوتی ہے اور فریقین میں سے کسی پر ظلم بھی نہیں ہوتا، لہذا یہ تجارتی سود اس سود سے مستثنیٰ ہے جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔- یہاں ہم مجوزین تجارتی سود کے تمام دلائل بیان کرنے اور ان کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔ (جس کو تفصیلات درکار ہوں وہ میری تصنیف تجارت اور لین دین کے مسائل و احکام میں سود سے متعلق دو ابو اب ملاحظہ کرسکتا ہے) لہذا چند مختصر دلائل پر ہی اکتفا کریں گے :- ١۔ دور نبوی میں تجارتی سود موجود تھے اور سود کی حرمت سے پیشتر صحابہ (رض) میں سے حضرت عباس اور خالد بن ولید ایسے ہی تجارتی سود کا کاروبار کرتے تھے۔ اس دور میں عرب اور بالخصوص مکہ اور مدینہ میں لاکھوں کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں ہمسایہ ممالک میں تجارتی سود کا رواج عام تھا۔- ٢۔ قرآن میں ربوا کا لفظ علی الاطلاق استعمال ہوا ہے جو ذاتی اور تجارتی دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔ لہذا تجارتی سود کو اس علی الاطلاق حرمت سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔- ٣۔ قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے۔ (وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ٢٧٥۔ ) 2 ۔ البقرة :275) اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام جبکہ ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا ( يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ٢٧٦۔ ) 2 ۔ البقرة :276) اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے سود کے خاتمہ کے لئے ذاتی قرضوں کا حل صدقات تجویز فرمایا ہے اور تجارتی قرضوں کے لئے شراکت اور مضاربت کی راہ دکھلائی ہے جو حلال اور جائز ہے۔- ٤۔ جہاں تک کم یا مناسب شرح سود کا تعلق ہے تو یہ بات آج تک طے نہیں ہوسکی کہ مناسب شرح سود کیا ہے ؟ کبھی تو ٢ فیصد بھی نامناسب شرح سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے لگ بھگ زمانے میں ریزوبنک آف انڈیا ڈسکاؤنٹ ریٹ مقرر ہوا اور کبھی ٢٩ فیصد شرح سود بھی مناسب اور معقول سمجھی جاتی ہے (دیکھئے : اشتہار انوسٹمنٹ بنک مشتہرہ نوائے وقت مورخہ ١٩٧٧ ئ۔ ٨-١١) شرح سود کی مناسب تعیین نہ ہوسکنے کی غالباً وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد ہی متزلزل اور کمزور ہے۔ مناسب اور معقول شرح سود کی تعیین تو صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والا اس سے کتنا یقینی فائدہ حاصل کرے گا اور اس میں سے قرض دینے والے کا معقول حصہ کتنا ہونا چاہئے۔ مگر ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والے کو اس مقرر مدت میں کتنا فائدہ ہوگا، یا کچھ فائدہ ہوگا بھی یا نہیں۔ بلکہ الٹا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ ثانیاً ایک ہی ملک اور ایک ہی وقت میں مختلف بنکوں کی شرح سود میں انتہائی تفاوت پایا جاتا ہے اور اگر سب کچھ مناسب ہے تو پھر نامناسب کیا بات ہے ؟ ثالثاً اگر شرح سود انتہائی کم بھی ہو تو بھی یہ سود کو حلال نہیں بنا سکتی۔ کیونکہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ حرام چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہی ہوتی ہے۔ شراب تھوڑی بھی ایسے ہی حرام ہے جیسے زیادہ مقدار میں (ترمذی، ابو اب الاشربہ، باب ما سکر کثیرۃ فقلیلہ حرام) - ٥۔ جہاں تک باہمی رضا مندی کا تعلق ہے تو یہ شرط صرف حلال معاملات میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال اور جائز معاملات میں بھی اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو وہ معاملہ حرام اور ناجائز ہوگا۔ جیسے تجارت میں مال بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی رضا مندی ضروری ہے ورنہ بیع فاسد اور ناجائز ہوگی۔ اسی طرح نکاح میں بھی فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔ لیکن یہ رضا مندی حرام کاموں کو حلال نہیں بناسکتی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت باہمی رضا مندی سے زنا کریں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہمی رضا مندی سے جوا جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سود بھی باہمی رضا مندی سے حلال اور جائز نہیں بن سکتا۔- علاوہ ازیں سود لینے والا کبھی سود دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ خواہ شرح سود کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے کہیں سے قرض حسنہ مل جائے تو وہ کبھی سود پر رقم لینے کو تیار نہ تھا۔- ٦۔ رہی یہ بات کہ تجارتی سود میں کسی فریق پر ظلم نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات سود کی حرمت کی علت یا بنیادی سبب ظلم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصور ہی غلط ہے۔ آیت کے سیاق وسباق سے واضح ہے کہ یہ الفاظ سودی معاملات اور معاہدات کو ختم کرنے کی ایک احسن صورت پیش کرتے ہیں یعنی نہ تو مقروض قرض خواہ کی اصل رقم بھی دبا کر اس پر ظلم کرے اور نہ قرض خواہ مقروض پر اصل کے علاوہ سود کا بوجھ بھی لاد دے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہمارے ہاں اس وقت ہوگا جب ہم اپنے معاشرہ کو سود سے کلیتاً پاک کرنا چاہیں گے، یا نجی طور پر قرضہ کے فریقین سود کی لعنت سے اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہوں گے۔ سود کی حرمت کا بنیادی سبب ظلم نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے اپنے مال میں اضافہ کی وہ ہوس ہے جس سے ایک سرمایہ دار اپنی فاضل دولت میں طے شدہ منافع کی ضمانت سے یقینی اضافہ چاہتا ہے اور جس سے زر پرستی، سنگ دلی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ جنم لیتے ہیں۔- [٣٩٣] اب ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہئے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کردیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق اور ان کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم جو لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ اللہ نے انہیں انتہائی بدھو اور مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ جنہیں کسی جن نے آسیب زدہ بنادیا ہو اور وہ اپنی خود غرضی اور زر پرستی کی ہوس میں خبطی ہوگئے ہوں کہ انہیں تجارت اور سود کا فرق نظر ہی نہیں آرہا، چونکہ وہ اس زندگی میں باؤلے ہو رہے ہیں۔ لہذا وہ قیامت کے دن بھی اسی حالت میں اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔ اب ہم ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے سود اور تجارت کا فرق بتلاتے ہیں :- ١۔ سود ایک طے شدہ شرح کے مطابق یقینی منافع ہوتا ہے۔ جبکہ تجارت میں منافع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے۔ خواہ کوئی شخص اپنے ذاتی سرمایہ سے تجارت کرے یا یہ مضاربت یا شراکت کی شکل ہو۔ - ٢۔ مضاربت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور مل جل کر کاروبار چلانے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا مفاد مشترک ہوتا ہے اور اس کا قومی پیداوار پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ جبکہ تجارتی سود کی صورت میں سود خوار کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ ایسے نازک وقت میں سرمایہ کی واپسی کا تقاضا کرتا اور مزید فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے جبکہ کاروبار کو سرمایہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح سود خوار تو اپنا سرمایہ بمعہ سود نکال دیتا ہے مگر مقروض کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور قومی معیشت بھی سخت متاثر ہوتی ہے۔- ٣۔ مضاربت اور سود میں تیسرا فرق یہ ہے کہ مضاربت سے اخلاق حسنہ پرورش پاتے ہیں۔ جس سے معاشرہ میں اخوت اور خیر و برکت پیدا ہوتی ہے اور طبقاتی تقسیم مٹتی ہے۔ جبکہ سود سے اخلاق رذیلہ مثلاً خود غرضی، مفاد پرستی، بخل اور سنگدلی پیدا ہوتے ہیں۔ سود کی حرمت کی علت یہی اخلاق رذیلہ اور ہوس زر پرستی ہے۔ سودی نظام معیشت نے صرف ایک ہی شائی لاک (ایک سنگ دل یہودی کا مثالی کردار جس نے بروقت ادائیگی نہ ہونے کی بنا پر اپنے مقروض کی ران سے بےدریغ گوشت کا ٹکڑا کاٹ لیا تھا) پیدا نہیں کیا بلکہ ہر دور میں ہزاروں شائی لاک پیدا ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔- [٣٩٤] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سود کھاچکا وہ معاف ہے بلکہ یوں فرمایا کہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو بخش دے، چاہے تو سزا دے۔ لہذا محتاط صورت یہی ہے کہ وہ سود کی حرام کمائی خود استعمال نہ کرے بلکہ جس سے سود لیا تھا اسے ہی واپس کردے تو یہ سب سے بہتر بات ہے ورنہ محتاجوں کو دے دے یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کر دے۔ اس طرح وہ سود کے گناہ سے تو شاید بچ جائے مگر ثواب نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال کا صدقہ قبول نہیں کرتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا۔۔ : یعنی سود خور قیامت کے دن مخبوط الحواس اور پاگل ہو کر اٹھیں گے۔ دنیا میں بھی بےپناہ حرص کی وجہ سے ان کی یہی حالت ہوتی ہے۔ - ” الرِّبٰوا “ کا لفظی معنی بڑھنا، زیادہ ہونا ہے، جیسے فرمایا : (فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ) [ الحج : ٥ ] ” پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے۔ “ شریعت کی اصطلاح میں قرض دے کر اصل مال سے جو زیادہ لیا جاتا ہے اسے ربا کہتے ہیں۔ (راغب) یعنی کسی قرض پر بغیر کسی مالی معاوضہ کے محض مہلت بڑھا دینے کی بنا پر زیادہ حاصل کیا جائے۔ (ابن العربی : ١؍٢٩٠) - موجودہ بینکنگ کا نظام بھی واضح سود پر مبنی ہے۔ سیونگ اکاؤنٹ اور پی ایل ایس تو واضح سود ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ میں اگرچہ سود نہیں دیا جاتا مگر بنک وہ رقم آگے سود پر چلاتا ہے، آج کل اسلامی بینکنگ کا بہت شور ہے مگر علماء نے، جن میں حنفی علماء بھی شامل ہیں، اسے سودی حیلہ پر مبنی قرار دیا ہے۔ بیمہ (انشورنس) بھی سود اور جوئے کا مرکب ہے۔ اسی طرح انعامی بانڈ بھی سود اور جوئے کا مرکب ہے۔ سود کی ایک صورت نقد اور ادھار کی قیمتوں کا فرق ہے، قسطوں کا کاروبار اسی طرح چل رہا ہے، حالانکہ یہ رقم سود ہے، مثلاً ایک شخص کہے کہ میں تمہیں ایک ہزار روپے ادھار قرض دیتا ہوں مگر میں تم سے گیارہ سو روپے لوں گا، اس کے سود ہونے میں کیا شبہ ہے۔ اسی طرح ایک چیز جس کی قیمت سب جانتے ہیں کہ ایک ہزار ہے، بیچنے والے اور لینے والے کو بھی علم ہے، پھر وہ اسے قسطوں پر گیارہ سو میں دیتا ہے، تو یہ کیوں سود نہیں ؟ سود خواہ کوئی ذاتی ضرورت کے لیے لے یا تجارت کے لیے جب اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا تو ہر طرح کا سود حرام ہے۔ اگر کوئی بچنا چاہے تو اسے واضح سود کے ساتھ سود کے حیلے اور سود کے شک والے معاملات سے بھی بچنا ہوگا۔ مزید دیکھیے آل عمران (١٣٠) ۔- ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا : یعنی ان کی یہ حالت اس لیے ہوگی کہ انھوں نے بیع، یعنی فروخت کو بھی سود جیسا قرار دیا اور سود کو اتنا حلال قرار دیا کہ بیع کی حلت کا سبب بھی سود کے ساتھ مشابہت کو قرار دیا، بقول زمخشری : ” انھوں نے بیع کو سود کے مشابہ سود کی حلت میں مبالغہ کے لیے قرار دیا۔ “ ان ظالموں کے نزدیک بیع اور سود میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں میں نفع آتا ہے۔ آج کل کفار کی تہذیب سے متاثر نیا روشن خیال تاریک دل طبقہ بھی سود کو ایک کاروبار سمجھتا ہے، حالانکہ دونوں میں واضح کئی فرق ہیں جن میں سے بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، دونوں برابر کیسے ہوگئے ؟ علاوہ ازیں ایک فرق یہ ہے کہ تجارت میں نفع بھی ہوتا ہے نقصان بھی جب کہ سودی قرض لینے والے کو نفع ہو یا نقصان سود خور نے (خواہ ایک شخص ہو یا بنک) ہر حال میں پوری رقم مع سود وصول کرنی ہے جو آئندہ بڑھتی ہی جائے گی۔ اس لیے سود ظلم اور مفت خوری کی بدترین شکل ہے۔ - يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ : شیطان کا آدمی کو نقصان پہنچانا، خصوصاً اس کے دماغ پر حملہ آور ہونا کئی آیات و احادیث سے ثابت ہے، مثلاً چوکے مارنا اور غصہ دلانا، فرمایا : ( َ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْن) [ المؤمنون : ٩٧ ] ” شیطانوں کی اکساہٹوں سے۔ “ بہکا کر حیران چھوڑ دینا، فرمایا : (كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيٰطِيْنُ فِي الْاَرْضِ حَيْرَانَ ۠) [ الأنعام : ٧١ ] ” اس شخص کی طرح جسے شیطانوں نے زمین میں بہکا دیا، اس حال میں کہ حیران ہے۔ “ تکلیف یا بیماری میں مبتلا کردینا، فرمایا : (اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ) [ ص : ٤١ ] ” بیشک شیطان نے مجھے بڑا دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔ “ بھلا دینا، فرمایا : (وَمَآ اَنْسٰنِيْهُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ ۚ ) [ الکہف : ٦٣ ] ” اور مجھے وہ (بات) نہیں بھلائی مگر شیطان نے کہ میں اس کا ذکر کروں۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” شیطان انسان میں خون کی گردش کی طرح گردش کرتا ہے۔ “ [ بخاری، الاعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ ۔۔ : ٢٠٣٨ ] الغرض شیطان کے انسان کو چھو کر خبطی بنا دینے سے انکار قرآن و حدیث سے انکار ہے۔ البتہ مجھے آج تک کوئی ایسی حدیث یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کا کوئی واقعہ نہیں ملا جس میں ذکر ہو کہ شیطان یا جن نے کسی آدمی کے جسم میں داخل ہو کر اس کی زبان پر گفتگو کی ہو، صرف مشاہدہ اس کی ناکافی دلیل ہے، کیونکہ ” اَلْجَنُوْنُ فُنُوْنٌ“ یعنی جنون کی بہت سی شکلیں ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم - فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ : یعنی سود کی حرمت کا حکم آنے کے بعد جو سود سے باز آجائے وہ پہلے جو سود لے چکا ہے اس کا مطالبہ اس سے نہیں کیا جائے گا، البتہ معاملہ اس کا اللہ کے سپرد ہے وہ اس کے آئندہ طرز عمل، ندامت، توبہ کو دیکھ کر فیصلہ فرمائے گا۔ یاد رہے یہ اس وقت کی بات ہے جب سود کی حرمت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اب سود کی حرمت کو جانتے ہوئے کوئی شخص ساری عمر سود کھا کر آخر میں چھوڑ دے تو وہ مال اس کا نہیں ہوجائے گا بلکہ اسے حتی الامکان اس کے مالکوں کو لوٹانا ہوگا اور جو نہ لوٹا سکے اس پر توبہ اور استغفار کرنا ہوگا۔ - وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ: یہ سود خوروں کے لیے سخت وعید ہے۔ جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر، سود دینے والے پر، سود لکھنے والے پر اور سودی لین دین کے گواہوں پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔ “ [ مسلم، المساقاۃ، باب لعن أکل الربا و موکلہ : ١٥٩٨ ] بعض نے ” وَمَنْ عَادَ “ کے یہ معنی کیے ہیں کہ حرام قرار دیے جانے کے بعد بھی اگر کوئی بیع اور سود کو برابر قرار دے گا اور سود کو حلال سمجھ کر کھائے گا تو ایسا شخص چونکہ کافر ہے، اس لیے اسے ہمیشہ کے لیے دوزخی قرار دیا ہے۔ ( شوکانی )

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- جو لوگ سود کھاتے ہیں (یعنی لیتے ہیں) نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت میں قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان نے خبطی بنادیا ہو لپٹ کر (یعنی حیران مدہوش) یہ سزا اس لئے ہوگی کہ ان (سود خوار) لوگوں نے (سود کے حلال ہونے پر استدلال کرنے کے لئے) کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے (کیونکہ اس میں بھی مقصود نفع حاصل کرنا ہوتا ہے، اور بیع یقیناً حلال ہے پھر سود بھی جو کہ اس کا مثل ہے حلال ہونا چاہئے) حالانکہ (دونوں میں کھلا فرق ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے (جو کہ مالک ہیں احکام کے) بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے (اس سے زیادہ اور کیا فرق ہوگا) پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے (اس بارہ میں) نصیحت پہنچی اور وہ (اس سود کے فعل اور اس کفر کے قول سے یعنی حلال کہنے سے) باز آگیا (یعنی حرام سمجھنے لگا اور لینا بھی چھوڑ دیا) تو جو کچھ (اس حکم کے آنے سے) پہلے (لینا) ہوچکا ہے وہ اس کا رہا (یعنی ظاہر شرع کے نزدیک اس کی یہ توبہ قبول ہوگئی اور لیا ہوا مال اسی کی ملک ہے) اور (باطنی) معاملہ اس کا (کہ وہ دل سے باز آیا ہے یا منافقانہ توبہ کرلی ہے یہ) خدا کے حوالے رہا (اگر دل سے توبہ کی ہوگی عنداللہ نافع ہوگی ورنہ کالعدم ہوگی تم کو بدگمانی کا کوئی حق نہیں) اور جو شخص (نصیحت مذکور سن کر بھی اسی قول اور اسی فعل کی طرف) پھر عود کرے تو (بوجہ اس کے کہ ان کا یہ فعل خود گناہ کبیرہ ہے) یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے (اور بوجہ اس کے کہ ان کا یہ قول کفر ہے اس لئے) وہ اس (دوزخ) میں ہمیشہ رہیں گے (اور سود لینے سے فی الحال مال بڑہتا نظر آتا ہے لیکن مآل کار) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں (کبھی تو دنیا ہی میں سب برباد ہوجاتا ہے ورنہ آخرت میں تو یقینی برباد ہے کیونکہ وہاں اس پر عذاب ہوگا) اور (برخلاف اس کے صدقہ دینے میں گو فی الحال مال گھٹتا معلوم ہوتا ہے لیکن مآل کار اللہ تعالیٰ ) صدقات کو بڑھاتے ہیں (کبھی تو دنیا میں بھی ورنہ آخرت میں تو یقیناً بڑہتا ہے کیونکہ وہاں اس پر بہت سا ثواب ملے گا جیسا اوپر آیات میں مذکور ہوا) اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا (بلکہ مبغوض رکھتے ہیں) کسی کفر کرنے والے کو (جو کہ قول مذکور کے مثل کلمات کفر منہ سے بکے اور اسی طرح پسند نہیں کرتے) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو (جو کہ فعل مذکور یعنی سود کے مثل کبائر کا مرتکب ہو) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے اور (بالخصوص) نماز کی پابندی کی اور زکوٰۃ دی ان کے لئے ان کا ثواب ہوگا ان کے پروردگار کے نزدیک اور (آخرت میں) ان پر کوئی خطرہ (واقع ہونے والا) نہیں ہوگا اور نہ وہ (کسی مقصود کے فوت ہونے سے) مغموم ہوں گے،- اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو (کیونکہ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ کی اطاعت کی جائے) پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے (یعنی تمہارے خلاف جہاد ہوگا) اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جاویں گے (اس قانون کے بعد) نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے (کہ تم اصل مال سے زیادہ لینے لگو) اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پاوے گا (کہ تمہارا اصل مال بھی نہ دلایا جاوے) اور اگر (قرضدار) تنگ دست ہو ( اور اس لئے میعاد پر نہ دے سکے) تو (اس کو) مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک (یعنی جب اس کے پاس ادا کی گنجائش ہو) اور یہ (بات) کہ (بالکل) معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم کو (اس کے ثواب کی) خبر ہو۔ - اور (مسلمانو) اس دن سے ڈرو جس میں تم (سب) اللہ تعالیٰ کی پیشی میں لائے جاؤ گے پھر ہر شخص کو اس کا کیا ہوا (یعنی اس کا بدلہ) پورا پورا ملے گا اور ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا، تو تم پیشی کے لئے اپنی کارگزاری درست رکھو اور کسی قسم کی خلاف ورزی مت کرو۔ - معارف و مسائل :- ان آیات میں رباء یعنی سود کی حرمت اور اس کے احکام کا بیان شروع ہوا ہے، یہ مسئلہ کئی حیثیتوں سے بہت اہم ہے، ایک طرف سود وربوٰ پر قرآن وسنت کی شدید وعیدیں اور دوسری طرف دنیا کی اقتصادیات میں اس کا جزء لازم بن جانا اور اس سے نجات کی مشکلات کا مسئلہ طویل الذیل ہے اور کئی حیثیتوں سے اس پر غور کرنا ہے۔- اول اس بارے میں قرآن کی آیات کی صحیح تفسیر اور احادیث صحیحہ کے ارشادات میں غور کرکے یہ متعین کرنا کہ قرآن وسنت کی اصطلاح میں ربوٰ کیا چیز ہے اور کن کن معاملات کو شامل ہے اور اس کی حرمت کس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس میں کس قسم کی مضرتیں ہیں، دوسری حیثیت اس کی عقلی اور معاشی ہے کہ کیا فی الواقع سود و ربوٰ ایسی چیز ہے جو دنیا کی اقتصادی ترقی کی ضامن ہوسکے اور جس کو نظر انداز کرنے کا لازمی نتیجہ تجارت اور عام اقتصادیات کی تباہی ہو یا سارا چکر نہ صرف مشکلات کا حل بلکہ دنیا میں اقتصادی امن و اطمینان سود کے چھوڑنے پر موقوف ہے اور یہ کہ دنیا کے اقتصادی مصائب کا سب سے بڑا سبب سود ورباء ہے یہ دوسری بحث ایک معاشی اور اقتصادی مسئلہ ہے جس کے تحت میں بہت سی اصولی اور فروعی طویل بحثیں ہیں جن کا تعلق تفسیر قرآن سے نہیں اس لئے اس جگہ پہلی ہی بحث پر اکتفاء کیا جاتا ہے وہ بھی خاصی طویل ہے۔- یہ چھ آیتیں ہیں جن میں سود کی حرمت اور احکام کا بیان ہے ان میں سے پہلی آیت کے پہلے جملہ میں سود خوروں کے انجام بد اور محشر میں ان کی رسوائی اور گمراہی کا ذکر ہے ارشاد ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں کھڑے ہوتے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے وہ آدمی جس کو کسی شیطان جن نے لپٹ کر خبطی بنادیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ کھڑے ہونے سے مراد محشر میں قبر سے اٹھنا ہے کہ سود خور جب قبر سے اٹھے گا تو اس پاگل ومجنون کی طرح اٹھے گا جس کو کسی شیطان جن نے خبطی بنادیا ہو۔ - اس جملہ سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جنات و شیاطین کے اثر سے انسان بیہوش یا مجنون ہوسکتا ہے اور اہل تجربہ کے متواتر مشاہدات اس پر شاہد ہیں اور حافظ ابن قیم جوزی نے لکھا ہے کہ اطباء اور فلاسفہ نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے کہ صرع بیہوشی، یا جنون مختلف اسباب سے ہوا کرتا ہے ان میں بعض اوقات جنات و شیاطین کا اثر بھی اس کا سبب ہوتا ہے جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے ان کے پاس بجر ظاہری استبعاد کے کوئی دلیل نہیں۔- دوسری بات یہ غور طلب ہے کہ قرآن نے یہ نہیں فرمایا کہ سود خور محشر میں پاگل یا مجنون ہو کر اٹھیں گے بلکہ دیوانہ پن یا بےہوشی کی ایک خاص صورت کا ذکر کیا ہے کہ جیسے کسی کو شیطان نے لپٹ کر خبطی بنادیا ہو اس میں شاید یہ اشارہ ہے کہ بیہوش ومجنون تو بعض اوقات چپ چاپ پڑا بھی رہتا ہے ان کا یہ حال نہ ہوگا بلکہ شیطان کے خبطی بنائے ہوؤں کی طرح بکواس اور ہذیان اور دوسری مجنونانہ حرکتوں کی وجہ سے پہچانے جائیں گے۔- اور شاید اس طرف بھی اشارہ ہو کہ بیماری سے بیہوش یا مجنون ہوجانے کے بعد چونکہ احساس بالکل باطل ہوجاتا ہے اس کو تکلیف یا عذاب کا بھی احساس نہیں رہتا ان کا یہ حال نہ ہوگا بلکہ آسیب زدہ کی طرح تکلیف و عذاب کو پوری طرح محسوس کرے گا۔- اب یہاں یہ دیکھنا ہے کہ جرم وسزا میں کوئی مناسبت ہونی چاہئے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سزا کسی شخص یا جماعت کے کسی جرم کے مقابلہ میں دی جاتی ہے وہ یقیناً اس جرم کے مناسب ہوتی ہے اس لئے سود خوروں کو خبطی بنا کر محشر میں اٹھانا شاید اس کا اظہار ہے کہ سودخور روپے پیسہ کی حرص میں اس قدر مدہوش ہوتا ہے کہ اس کو نہ کسی غریب پر رحم آتا ہے نہ کسی کی شرم مانع ہوتی ہے وہ چونکہ اپنی زندگی میں درحقیقت بیہوش تھا اس لئے محشر میں بھی اسی حالت میں اٹھایا گیا یا یہ سزا اس لئے دی گئی کہ دنیا میں اس نے عقلی رنگ میں اپنی بےعقلی کو ظاہر کیا کہ بیع مثل سود قرار دیا اس لئے اس کو بےعقل کرکے اٹھا دیا گیا۔- یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آیت میں سود کھانے کا ذکر ہے اور مراد مطلقاً سود لینا اور اس کا استعمال کرنا ہے خواہ کھانے میں استعمال کرے یا لباس میں یا مکان اور اس کے فرنیچر میں لیکن اس کو کھانے کے لفظ سے اس لئے تعبیر کیا کہ جو چیز کھائی جائے اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں رہتا بخلاف دوسری ضرورتوں کے استعمال کے کہ اس چیز کو واپس لیا دیا جاسکتا ہے، اس لئے مکمل قبضہ اور تصرف کو کھا جانے کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور نہ صرف عربی زبان میں بلکہ اردو فارسی وغیرہ اکثر زبانوں کا یہی محاورہ ہے۔- اس کے بعد دوسرے جملہ میں سود خوروں کی اس سزا کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ان لوگوں نے دو جرم کئے ایک تو بذریعہ سود کے حرام مال کھایا دوسرے اس کو حلال سمجھا اور حرام کہنے والوں کے جواب میں یہ کہا بیع وشراء بھی تو ربوٰ ہی کی مثل ہے جس طرح ربوٰ کے ذریعہ نفع حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح بیع وشعراء کے ذریعہ نفع مقصود ہے اگر سود حرام ہے تو بیع بھی حرام ہونی چاہئے حالانکہ اس کے حرام ہونے کا کوئی قائل نہیں، اس جگہ بظاہر مقتضائے مقام یہ تھا کہ لوگ یوں کہتے کہ ربوٰ بھی تو مثل بیع کے ہے جب بیع حلال ہے تو ربوٰ بھی حلال ہونا چاہئے مگر انہوں نے طرز بیان بدل کر حرام کہنے والوں پر ایک قسم کا استہزا کیا کہ تم ربوٰ کو حرام کہتے ہو تو بیع کو بھی حرام کہو۔ - تیسرے جملے میں ان لوگوں کے اس قول کا جواب حق تعالیٰ نے یہ دیا کہ یہ لوگ بیع کو ربوٰ کی مثل اور برابر قرار دیتے ہیں حالانکہ بحکم خداوندی ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو حلال قرار دیا اور دوسرے کو حرام پھر دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں۔- اس جواب میں یہ بات قابل غور ہے کہ ان لوگوں کا اعتراض تو عقلی طور پر تھا کہ جب دونوں معاملوں کا مقصد نفع کمانا ہے تو دونوں کا حکم ایک ہی ہونا چاہئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے عقلی شبہ کا جواب عقلی طور پر فرق بیان کرکے نہیں دیا بلکہ حاکمانہ انداز میں یہ جواب دیا کہ مالک والملکوت اللہ جل شانہ ہے وہ ہی ہر چیز کے نفع وضرر اور بھلے برے کو پوری طرح جانتا ہے جب اس نے ایک کو حلال اور دوسرے کو حرام قرار دے دیاتو سمجھ لو کہ جس چیز کو حرام کیا ہے اس میں ضرور کوئی نقصان وضرر اور کوئی خباثت ہے خواہ عام انسان اس کو محسوس کرے یا نہ کرے کیونکہ مجموعہ نظام عالم کی پوری حقیقت اور اس کے نفع وضرر کا احاطہ نہیں کرسکتے بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ کسی شخص یا جماعت کے حق میں مفید نظر آتی ہیں مگر پوری قوم یا پورے ملک کے لئے اس میں مضرت ہوتی ہے۔- اس کے بعد تیسرے جملہ میں یہ ارشاد ہے کہ سود حرام ہونے سے پہلے جس شخص نے کوئی رقم جمع کرلی تھی لیکن جب سود کو حرام قرار دے دیا گیا تو اگر آئندہ کے لئے اس نے توبہ کرلی اور باز آگیا تو اس سے پہلے جمع شدہ رقم ظاہر شرع کے حکم سے اسی کی ہوگئی اور باطنی معاملہ اس کا کہ وہ دل سے باز آگیا تو اس سے پہلے جمع شدہ رقم ظاہر شرع کے حکم سے اسی کی ہوگئی اور باطنی معاملہ اس کا کہ وہ کل سے باز آیا یا منافقانہ توبہ کرلی اس کا یہ معاملہ خدا کے حوالہ رہا۔- اگر دل سے توبہ کی ہے تو عنداللہ نافع ہوگی ورنہ کالعدم ہوگی عام لوگوں کو بدگمانی کرنے کا حق نہیں ہے اور جو شخص نصیحت سن کر بھی اسی قول وفعل کی طرف پھر عود کرے چونکہ یہ فعل سود خوری گناہ ہے یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے اور چونکہ ان کا قول کہ سود مثل بیع کے کفر ہے اس لئے وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔- مسئلہ سود وربا کی کچھ مزید تشریح و تفصیل :- آجکل ربا چونکہ عام نظام تجارت کا رکن اعظم اور عمود بن گیا ہے اس لئے جب کتاب وسنت کی آیات وروایات میں اس کی حرمت و ممانعت سامنے آتی ہے تو عام طبائع اس کی حقیقت کو سمجھنے سمجھانے کے وقت اس کی حرمت سے ہچکچاتی ہیں اور حیلہ جوئی کی طرف مائل ہوتی ہیں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ بحث کا تجزیہ کرکے اس کے ہر پہلو پر علیحدہ علیحدہ غور و فکر کرنا چاہئے خلط ملط کرنے کا نتیجہ بحث کے الجھنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا یہاں بحث کے تین حصے ہیں۔- اول یہ کہ قرآن وسنت میں رباء کی کیا حقیقت ہے اور کن کن صورتوں پر حاوی ہے ؟- دوسرے یہ کہ اس رباء کی حرمت و ممانعت کس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے ؟- تیسرے یہ کہ سود و ربا کتنا ہی برا سہی لیکن آج کل کی دنیا میں وہ نظام معاشیات و تجارت کا رکن اعظم بن چکا ہے اگر قرآنی احکام کے ماتحت اس کو چھوڑ دیا جائے تو نظام بنک و تجارت کیسے چلے گا ؟- اصل ربا کی تعریف میں کبھی کوئی ابہام نہیں رہا ایک مغالطہ کا جواب :- اب سنئے کہ لفظ ربواٰ عربی زبان کا معروف لفظ ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نزول قرآن سے قبل جاہلیت عرب میں بھی یہ لفظ متعارف تھا اور نہ صرف متعارف بلکہ رباء کا لین دین عام طور پر جاری تھا بلکہ سورة نسآء کی آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رباء کا لفظ اور اس کے معاملات زمانہ تورات میں بھی معروف تھے اور تورات میں بھی اس کو حرام قرار دیا گیا تھا۔- ظاہر ہے کہ ایسا لفظ جو زمانہ قدیم سے عرب اور اس کے قرب و جوار میں معروف چلا آتا ہے اور اس پر لین دین کا رواج چل رہا ہے اور قرآن اس کی حرمت و ممانعت بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی خبر دیتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی امت پر بھی سود و رباء حرام کیا گیا تھا اس لفظ کی حقیقت کوئی ایسی مبہم چیز نہیں ہوسکتی جس کے سمجھنے سمجھانے میں دشواریاں پیش آئیں، یہی وجہ ہے کہ جب ٨ ہجری میں سورة بقرہ کی آیات رباء کی حرمت کے متعلق نازل ہوئیں تو صحابہ کرام سے کہیں منقول نہیں کہ ان کو لفظ رباء کی حقیقت سمجھنے میں کوئی اشتباہ پیش آیا ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوسرے معاملات کی طرح اس کی تحقیق کی نوبت آئی ہو بلکہ جس طرح شراب کی حرمت نازل ہوتے ہی صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس پر عمل کیا اسی طرح رباء کی حرمت نازل ہوتے ہی رباء کے سب معاملات ترک کردیئے پچھلے زمانہ کے معاملات میں مسلمانوں کا جو رباء غیر مسلموں کے ذمہ واجب الاداء تھا وہ بھی مسلمانوں نے چھوڑ دیا اور جو غیر مسلموں کا مسلمانوں کے ذمہ واجب الاداء تھا اور مسلمانوں پر نزول ممانعت کے بعد اس کو دینا نہیں چاہتے تھے اس کا جھگڑا امیر مکہ کی عدالت میں پیش ہوا انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو اس کا فیصلہ سورة بقرہ کی آیات میں آسمان سے نازل ہوا کہ پچھلے زمانہ کے بقایا رباء کا لین دین بھی اب جائز نہیں۔- اور اس میں چونکہ غیر مسلموں کو یہ شکایت کا موقع مل سکتا تھا کہ ایک اسلامی حکم شرعی کی وجہ سے ہمارا روپیہ کیوں مارا جائے تو اس کے ازالہ کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں یہ واضح کردیا کہ اس حکم شرعی کا اثر صرف غیر مسلموں پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر بھی یکساں ہے اور سب سے پہلے جو سود کی رقم چھوڑی گئی وہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم حضرت عباس کی کثیر التعداد رقم تھی۔- الغرض رباء کی ممانعت ہونے کے وقت رباء کا مفہوم کچھ مخفی نہ تھا عام طور پر معروف تھا وہی رباء جس کو عرب رباء کہتے تھے اور اس کا لین دین کرتے تھے قرآن نے حرام کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو صرف اخلاقی انداز میں نہیں بلکہ قانون ملک کی حیثیت سے نافذ فرمایا البتہ بعض ایسی صورتوں کو بھی آپ نے رباء میں شامل قرار دیا جس کو عام طور پر رباء نہیں سمجھا جاتا تھا انھیں صورتوں کی تعیین میں حضرت فاروق اعظم کو اشکال پیش آیا اور انہی میں ائمہ مجتہدین کے نظریات میں اختلاف ہو اور نہ اصل رباء جس کو عرب رباء کہتے تھے نہ اس میں کسی کو اشتباہ کا موقع تھا نہ اس میں کسی کا اختلاف ہوا۔- اب سنئے عرب کا مروجہ ربا کیا تھا ؟ امام تفسیر ابن جریر نے حضرت مجاہد سے نقل کیا ہے کہ جو رباء جاہلیت میں جاری تھا اور قرآن نے اسے منع کیا وہ یہ تھا کہ کسی کو ایک میعاد معین کے لئے قرض دے کر اس پر اصل راس المال سے زائد مقررہ زیادتی لیتے تھے اور اگر میعاد مقررہ پر وہ قرض ادا نہ کرسکا تو مزید میعاد اس شرط پر بڑھا دیتے تھے کہ سود میں اضافہ کیا جائے یہی مضمون حضرت قتادہ اور دوسرے حضرات ائمہ تفسیر سے نقل کیا ہے (تفسیر ابن جریرص ٦٢: ٣) - اندلس کے مشہور امام تفسیر ابوحیان عزناطی کی تفسیر بحر محیط میں بھی جاہلیت کے رباء کی یہی صورت لکھی ہے کہ ادھار دے کر اس پر نفع لیتے اور جتنی مدت ادھار کی بڑھ جائے اتنا ہی سود اس پر بڑھا دینے کا نام ربا تھا اسی جاہلیت عرب کے لوگ یہ کہتے تھے کہ جیسے بیع وشراء میں نفع لینا جائز ہے اسی طرح اپنا روپیہ ادھار پر دے کر نفع لینا بھی جائز ہونا چاہئے قرآن کریم نے اس کو حرام قرار دیا اور بیع ورباء کے احکام کا مختلف ہونا واضح فرمایا۔- یہی مضمون تمام مستند کتب تفسیر ابن کثیر، تفسیر کبیر، اور روح المعانی وغیرہ میں معتبر روایات کے ساتھ منقول ہے۔- ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا، الربوٰا فی اللغۃ الرباوۃ والمراد بہ فی الایۃ کل زیادۃ لا یقابلہا عوض (ص ١٠١ ج ١) یعنی رباء کے معنی اصل لغت میں زیادتی کے ہیں اور آیت میں اس سے مراد وہ زیادتی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی مال نہ ہو بلکہ محض ادھار اور اس کی میعاد ہو . امام رازی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ رباء کی دو قسمیں ہیں ایک معاملات بیع وشراء کے اندر رباء ، دوسرے ادھار کا رباء اور جاہلیت عرب میں دوسری قسم ہی رائج اور معروف تھی کہ وہ اپنا مال کسی کو معین میعاد کے لئے دیتے تھے اور ہر مہینہ اس کا نفع لیتے تھے اور اگر میعاد معین پر ادائیگی نہ کرسکا تو میعاد اور بڑھا دی جاتی تھی بشرطیکہ وہ سود کی رقم اور بڑھا دیتے یہی جاہلیت کا رباء تھا جس کو قرآن نے حرام کیا .- امام جصاص نے احکام القرآن میں رباء کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں :- ھو القرض المشروط فیہ الاجل وزیادۃ مال علی المسقرض، یعنی وہ قرض ہے جس میں کسی میعاد کے لئے اس شرط پر قرض دیا جائے کہ قرضدار اس کو اصل مال سے زائد کچھ رقم ادا کرے گا،- حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رباء کی تعریف یہ فرمائی ہے : کل قرض جر نفعا فھو ربا۔ یعنی جو قرض نفع حاصل کرے وہ ربا ہے۔- یہ حدیث جامع صغیر میں ہے اور عزیزی نے اس کو حسن کہا ہے۔- خلاصہ : یہ ہے کہ ادھار دے کر اس پر نفع لینے کا نام ربا ہے جو جاہلیت عرب کے زمانہ میں رائج اور معروف تھا جس کو قرآن کریم کی آیت مذکورہ نے صراحۃ حرام قرار دیا اور ان آیات کے نازل ہوتے ہی صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس کو چھوڑ دیا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قانونی خصومات میں اس کو نافذ فرمایا اس میں نہ کوئی ابہام تھا نہ اجمال نہ اس میں کسی کو کوئی اشتباہ واشکال پیش آیا۔- البتہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ربا کے مفہوم میں بیع وشراء کی چند صورتوں کو بھی داخل فرمایا جن کو عرب رباء نہ سمجھتے تھے مثلا چھ چیزوں کی بیع وشراء میں یہ حکم دیا کہ اگر ان کا تبادلہ کیا جائے تو برابر ہونا چاہئے اور نقد دست بدست ہونا چاہئے اس میں کمی بیشی کی گئی یا ادھار کیا گیا تو وہ بھی ربا ہے یہ چھ چیزیں سونا، چاندی، گیہوں جو، کھجور اور انگور ہیں۔- اسی اصول کے ماتحت عرب میں معاملات کی جو چند صورتیں مزابنہ اور محاقلہ کے نام سے رائج تھیں آیات رباء نازل ہونے کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رباء میں شامل قرار دے کر منع فرمایا (ابن کثیر بحوالہ مستدرک حاکم ص ٣٢٧: ج ١) - اس میں یہ بات قابل غور تھی کہ ان چھ چیزوں کی خصوصیت ہے یا ان کے علاوہ اور بھی کچھ چیزیں ان کے حکم میں ہیں اور اگر ہیں تو ان کا ضابطہ کیا ہے کس کس صورت کو داخل رباء سمجھا جائے یہی اشکال حضرت فاروق اعظم کو پیش آیا جس کی بناء پر فرمایا،- ان آیۃ الربوا من اخر ما نزل من القران و ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبض قبل ان یبینہ لنا فدعوا الربواٰ والریبۃ (احکام القرآن جصاص ص ٥٥١، تفسیر ابن کثیر بحوالہ ابن ناحہ ص ٣٢٨ ج ١) - یعنی آیت ربا قرآن کی آخری آیتوں میں ہے اس کی پوری تفصیلات بیان فرمانے سے پہلے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اس لئے اب احتیاط لازم ہے رباء کو تو چھوڑنا ہی ہے جس صورت میں ربا کا شبہ بھی ہو اس کو بھی چھوڑ دینا چاہئے۔- فاروق اعظم کی مراد معاملات بیع وشراء کی وہ صورتیں اور ان کی تفصیلات ہیں جو جاہلیت عرب میں رباء نہیں سمجھی جاتی تھیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رباء میں داخل قرار دے کر حرام فرمایا باقی اصل رباء جو تمام عرب میں معروف و مشہور تھا اور صحابہ کرام نے اس کو چھوڑا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا قانون نافذ فرمایا اور حجۃ الوداع کے خطبہ میں اس کا اعلان کیا اس میں فاروق اعظم کو کوئی اشکال یا اشتباہ ہونے کا کوئی امکان نہیں پھر جب فاروق اعظم کو رباء کی جن خاص صورتوں میں اشتباہ پیش آیا تو اس کا حل یہ تجویز فرمایا کہ جن صورتوں میں رباء کا شبہ بھی ہو ان کو بھی چھوڑ دیا جائے۔- مگر حیرت ہے کہ آج بعض وہ لوگ جو یورپ کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور دولت مندی اور موجودہ نظام تجارت وغیرہ میں سود کے رکن بن جانے سے مرعوب ہیں انہوں نے فاروق اعظم کے اس ارشاد کا یہ نتیجہ نکالا کہ ربا کا مفہوم ہی مجمل رہ گیا تھا اس لئے اس میں رائے کی گنجائش ہے جس کے غلط ہونے کا کافی مواد سامنے آچکا ہے احکام القرآن میں ابن عربی نے ان لوگوں پر سخت انکار کیا ہے جنہوں نے اس فاروقی ارشاد کی بناء پر آیات رباء کو مجمل کہا تھا۔- ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا :- ان من زعم ان ھذہ الایۃٰ مجملۃ فلم یفہم مقاطع الشریعۃ فان اللہ تعالیٰ ارسل رسولہ الیٰ قوم ھو منہم بلغتہم وانزل علیہ کتابہ تیسیرا منہ بلسانہ ولسانہم والربا فی اللغۃ الرباوۃ والمراد بہ فی الایۃ کل زیادۃ لا یقابلہا عوض، یعنی جس نے یہ کہا کہ یہ آیت مجمل ہے اس نے شریعت کی تصریحات کو نہیں سمجھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ایسی قوم کی طرف بھیجا کہ وہ خود اسی قوم میں سے تھے انہی کی زبان میں بھیجا ان پر اپنی کتاب آسانی کے لئے انہی کی زبان میں نازل فرمائی اور لفظ ربا کے معنی ان کی زبان میں زیادتی کے ہیں اور مراد آیت میں وہ زیادتی ہے جس کے مقابلہ میں مال نہیں بلکہ میعاد ہے۔- اور امام رازی نے تفسیر کبیر میں فرمایا کہ ربا کی دو قسمیں ہیں ایک ادھار کا ربا دوسرے نقد بیع میں زیادہ لینے کا ربا پہلی قسم وہ ہے جو زمانہ جاہلیت میں مشہور و معروف تھی اور اہل جاہلیت اس کا لین دین کرتے تھے اور دوسری قسم وہ ہے جو حدیث نے بیان کی کہ فلاں چیزوں کی بیع وشراء میں کمی زیادتی ربا میں داخل ہے۔- اور احکام القرآن جصاص میں ہے کہ ربا کی دو قسمیں ہیں ایک بیع وشراء کے اندر دوسری بغیر بیع وشراء کے اور زمانہ جاہلیت کا ربوا یہی دوسری قسم کا تھا اور اس کی تعریف یہ ہے کہ وہ قرض جس میں بحساب میعاد کوئی نفع لیا جائے، اور یہی مضمون ابن رشد نے بدایۃ المجتہد میں لکھا ہے اور قرض ادھار پر نفع لینے کے ربا کا حرام ہونا قرآن، سنت اور اجماع امت سے ثابت کیا ہے۔- امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں اس موضوع پر بڑی تفصیل سے کلام کرتے ہوئے یہ بتلایا ہے کہ قرآن میں جو ربا مذکور ہے اس سے جلی اور واضح طور پر وہ ربا مراد ہے جو قرض ادھار پر لیا دیا جاتا تھا اور اسی کو زمانہ جاہلیت میں ربا کہا جاتا تھا اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان اور آپ کی سنت سے دوسری قسم کا رباء کا علم ہوا جو خاص خاص اقسام بیع وشراء میں کمی زیادتی یا ادھار کرنے کا نام ہے اور اس ربا کی تفصیلات پوری واضح نہ ہونے کے سبب اس میں بعض صحابہ کرام (رض) اجمعین کو اشکال پیش آیا اور فقہاء کے اختلافات ہوئے (معانی الآثارص ٢٣٢ ج ٢) - اور حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں فرمایا ہے کہ ربا ایک حقیقی ہے اور ایک وہ جو بحکم ربا ہے حقیقی ربا قرض ادھار پر زیادتی لینے کا نام ہے اور بحکم رباء وہ ہے جس کا بیان حدیث میں آیا کہ بعض خاص چیزوں کی بیع میں زیادتی لینے کو ربا کہا گیا ہے اور ایک حدیث میں آیا ہے لا ربا الا فی النسیۃ (رواہ البخاری) یعنی ربا صرف ادھار میں ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ حقیقی اور اصلی ربا جس کو عام طور پر ربا سمجھا اور کہا جاتا ہے وہ ادھار پر نفع لینے کا نام ہے اس کے سوا جتنی اقسام اس کے ساتھ ملحق کی گئی ہیں وہ سب حکما ربوٰ میں داخل ہیں۔- اس تفصیل سے چند چیزیں واضح ہوگئیں :- اول یہ کہ نزول قرآن سے پہلے ربا ایک متعارف چیز تھی قرض ادھار پر بحساب میعاد زیادتی لینے کو ربا کہا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ قرآن میں حرمت ربا نازل ہوتے ہی سب صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس ربا کو ترک کردیا اس کے معنے سمجھنے سمجھانے میں کسی کو نہ اشکال پیش آیا نہ اشتباہ۔- تیسرے یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھ چیزوں کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ ان کی باہمی بیع وشراء میں برابری شرط ہے کمی بیشی ربا میں داخل ہے اور ان میں ادھار کرنا بھی رباء میں داخل ہے، یہ چھ چیزیں سونا، چاندی، گیہوں، جو، کھجور، انگور ہیں اور اسی قانون کے تحت عرب میں مروجہ اقسام بیع مزابنہ، محاقلہ وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد میں چھ چیزوں کی بیع وشراء میں کمی بیشی اور ادھار کو تو صراحۃ ربا میں داخل کرکے قرار دے دیا تھا لیکن اس میں یہ بات محل تفقہ و اجتہاد تھی کہ یہ حکم ان چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے یا دوسری اشیاء میں بھی ہے اور اس کا ضابطہ کیا ہے ؟ اس ضابطہ میں فقہاء نے اپنے اپنے غور وفکر اور اجتہاد سے مختلف صورتیں تجویز کیں اور چونکہ یہ ضابطہ خود رسول اللہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان نہ فرمایا تھا اس میں اشتباہ رہنے کے سبب حضرت فاروق اعظم نے اس پر اظہار افسوس کیا کہ کاش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی اس کا کوئی ضابطہ بیان فرما دیتے تو مشتبہ حالات میں اطمینان پیدا ہوجاتا اور پھر یہ ارشاد فرمایا کہ جہاں ربا کا شبہ بھی ہو اس سے بچنا چاہئے۔- چوتھے یہ معلوم ہوا کہ اصلی اور حقیقی رباء جس کو فقہاء نے ربوالقرآن ربوالقرض کے نام سے موسوم کیا ہے وہی ہے جو عرب میں متعارف تھا یعنی قرض ادھار پر بحساب میعاد نفع لینا، دوسری قسم کے ربا جو حدیث میں بتلائے گئے وہ سب اسی ربا کے ساتھ ملحق اور اسی کے حکم میں ہیں اور جو کچھ خلاف واختلاف امت میں ہو وہ سب اسی دوسری قسم کے معاملات ربا میں ہوا پہلی قسم کا رباالقرآن کہلاتا ہے اس کے حرام ہونے میں پوری امت محمدیہ میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا،- اور آجکل جو ربا انسانی معاشیات کا مدار سمجھا جاتا ہے اور مسئلہ سود میں جو زیر بحث ہے وہ یہی ربا ہے جس کی حرمت قرآن کی سات آیات اور چالیس سے زیادہ احادیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔- ربا کی دوسری قسم جو بیع وشراء کے ضمن میں ہوتی ہے نہ اس کا رواج عام ہے نہ اس میں کوئی بحث کرنے کی ضرورت ہے، یہاں تک یہ بات واضح ہوگئی، کہ قرآن وسنت میں ربا کی حقیقت کیا ہے جو مسئلہ سود کی پہلی بات ہے۔- حرمت سود کی حکمت و مصلحت :- اس کے بعد دوسری بحث اس کی ہے کہ ربا کی حرمت و ممانعت کس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اور اس میں وہ کونسی روحانی یا معاشی مضرتیں ہیں جن کی وجہ سے اسلام نے اس کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے۔- اس جگہ پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دنیا کی ساری مخلوقات اور ان کے معاملات میں ایسی کوئی چیز نہیں جس میں کوئی بھلائی یا فائدہ نہ ہو، سانپ، بچھو، بھیڑیا، شیر اور سنکھیا جیسے زہر قاتل میں بھی انسان کے لئے ہزاروں فوائد ہیں۔- کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں - چوری، ڈاکہ، بدکاری، رشوت، ان میں کوئی ایسی چیز نہیں جس میں کچھ نہ کچھ فائدہ نہ ہو، مگر ہر مذہب وملت اور ہر مکتب فکر میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس چیز کے منافع زیادہ اور مضرتیں کم ہیں ان کو نافع ومفید کہا جاتا ہے اور جن کے مفاسد ومضرات زیادہ اور منافع کم ہیں ان کو مضر اور بیکار سمجھا جاتا ہے، قرآن کریم نے بھی شراب اور قمار کو حرام قرار دیتے ہوئے اس کا اعلان فرمایا کہ ان میں بڑے گناہ بھی ہیں اور لوگوں کے کچھ منافع بھی، ان کے گناہ کا وبال منافع کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے اس لئے ان چیزوں کو اچھا یا مفید نہیں کہا جاسکتا بلکہ ان کو نہایت مضر اور تباہ کن سمجھ کر ان سے اجتناب لازم ہے۔- رباء یعنی سود کا بھی یہی حال ہے اس میں سود خور کے لئے کچھ وقتی نفع ضرور نظر آتا ہے لیکن اس کا دنیوی اور اخروی وبال اس نفع کے مقابلہ میں نہایت شدید ہے۔- ہر چیز کے نفع و نقصان یا مفاسد ومصالح کا موازنہ کرنے میں یہ بات بھی ہر عقلمند کے نزدیک قابل نظر ہوتی ہے کہ اگر کسی چیز میں نفع محض وقتی اور ہنگامی ہو اور نقصان اس کا دیرپا یا دائمی ہو تو اس کو کوئی عقلمند مفید اشیاء کی فہرست میں شمار نہیں کرسکتا اسی طرح اگر کسی چیز کا نفع شخصی اور انفرادی ہو اور اس کا نقصان پوری ملت اور جماعت کو پہنچتا ہو تو اس کو بھی کوئی ہوشمند انسان مفید نہیں کہہ سکتا چوری اور ڈاکہ میں چور ڈاکو کا تو نفع کھلا ہوا ہے مگر وہ پوری ملت کے لئے مضر اور ان کے امن و سکون کو برباد کرنے والا ہے، اسی لئے کوئی انسان چوری اور ڈاکہ کو اچھا نہیں کہتا۔- اس تمہید کے بعد مسئلہ سود پر نظر ڈالئے تو اس میں ذرا سا غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اس میں سود خور کے وقتی اور ہنگامی نفع کے مقابلہ میں اس کا روحانی اور اخلاقی نقصان اتنا شدید ہے کہ وہ اس کو انسانیت سے نکال دیتا ہے اور یہ کہ اس کا جو وقتی نفع ہے وہ بھی صرف اس کی ذات کا نفع ہے اس کے مقابلہ میں پوری ملت کو نقصان عظیم اور معاشی بحران کا شکار ہونا پڑتا ہے لیکن دنیا کا حال یہ ہے کہ جب اس میں کوئی چیز رواج پاجاتی ہے تو اس کی خرابیاں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور صرف اس کے فوائد سامنے رہ جاتے ہیں اگرچہ وہ فوائد کتنے ہی حقیر و ذلیل اور ہنگامی ہوں اس کے نقصانات کی طرف دھیان نہیں جاتا اگرچہ وہ کتنے ہی شدید اور عام ہوں۔- رسم و رواج طبائع انسانی کے لئے ایک کلوروفارم ہے جو اس کو بےحس بنا دیتا ہے، بہت کم افراد ہوتے ہیں جو چلے ہوئے رسم و رواج پر تحقیقی نظر ڈال کر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس میں فائدے کتنے ہیں اور نقصان کتنا بلکہ اگر کسی کے متنبہ کرنے سے اس کے نقصانات سامنے بھی آجائیں تو پابندی رسم و رواج اس کو صحیح راستہ پر نہیں آنے دیتی۔- سود ورباء اس زمانہ میں ایک وبائی مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اس کا رواج ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اس نے انسانی فطرت کا ذائقہ بدل دیا ہے کہ کڑوے کو میٹھا سمجھنے لگی اور جو چیز پوری انسانیت کے لئے معاشی بربادی کا سبب ہے اس کو معاشی مسئلہ کا حل سمجھا جانے لگا آج اگر کوئی مفکر محقق اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اس کو دیوانہ سمجھا جاتا ہے۔- یہ سب کچھ ہے لیکن وہ ڈاکٹر ڈاکٹر نہیں بلکہ انسانیت کا ڈاکو ہے جو کسی ملک میں وباء پھیل جانے کو اور علاج کے غیر مؤ ثر ہونے کا مشاہدہ کرنے کی بناء پر اب یہ طے کرے کہ لوگوں کو یہ سمجھائے کہ یہ مرض مرض ہی نہیں بلکہ عین شفا اور عین راحت ہے ماہر ڈاکٹر کا کام ایسے وقت میں بھی یہی ہے کہ لوگوں کو اس مرض اور اس کی مضرت سے آگاہ کرتا رہے اور علاج کی تدبیریں بتاتا رہے۔- انبیاء (علیہم السلام) اصلاح خلق کے ذمہ دار ہو کر آتے ہیں وہ کبھی اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ کوئی ان کی بات سنے گا یا نہیں وہ اگر لوگوں کے سننے اور ماننے کا انتظار کیا کرتے تو ساری دنیا کفرو شرک ہی سے آباد ہوتی، کلمہ لا الہ الا اللہ کا ماننے والا اس وقت کون تھا جب کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی تبلیغ وتعلیم کا حکم منجانب اللہ ملا تھا ؟- سود و رباء کو اگرچہ آج کی معاشیات میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے لگا ہے لیکن حقیقت وہ ہے جو آج بھی بعض حکمائے یورپ نے تسلیم کی کہ وہ معاشیات کے لئے ریڑھ کی ہڈی نہیں بلکہ ریڑھ کی ہڈی میں پیدا ہوجانے والا ایک کیڑا جو اس کو کھا رہا ہے۔- مگر افسوس ہے کہ آجکل کے اہل علم وفن بھی کبھی رسم و رواج کے تنگ دائرہ سے آزاد ہو کر اس طرف نظر نہیں کرتے اور سیکڑوں برس کے تجربے بھی ان کو اس طرف متوجہ نہیں کرتے کہ سود ور با کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عام خلق خدا اور تمام ملت فقر وفاقہ اور معاشی بحران کا شکار ہو اور وہ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جائیں اور چند سرمایہ دار پوری ملت کے مال سے فائدہ اٹھا کر یا یوں کہئے کہ ملت کا خون چوس کر اپنا بدن بڑھاتے اور پالتے چلے جائیں اور حیرت ہے کہ جب کبھی ان حضرات کے سامنے اس حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے تو اس کے جھٹلانے کے لئے ہمیں امریکہ، اور انگلینڈ کے بازاروں میں لے جاکر سود کی برکات کا مشاہدہ کرانا چاہتے ہیں اور یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ یہ لوگ سود ور باء کی بدولت کیسے پھلے اور پھولے ہیں لیکن اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی مردم خوروں کی کسی قوم اور ان کے عمل کی برکات کا مشاہدہ کرانے کے لئے آپ کو مردم خوروں کے محلہ میں لے جاکر یہ دکھلائے کہ یہ کتنے موٹے تازے اور تندرست ہیں اور اس سے یہ ثابت کرے کہ ان کا یہ عمل بہترین عمل ہے۔- لیکن اس کو کسی سمجھ دار آدمی سے سابقہ پڑے تو وہ کہے گا کہ تم مردم خوروں کے عمل کی برکات مردم خوروں کے محلہ میں نہیں دوسرے محلوں میں جاکر دیکھو جہاں سینکڑوں ہزاروں مردے پڑے ہوئے ہیں جن کا خون اور گوشت کھا کر یہ درندے پلے ہیں اسلام اور اسلامی شریعت کبھی ایسے عمل کو درست اور مفید نہیں مان سکتی جس کے نتیجہ میں پوری انسانیت اور ملت تباہی کا شکار ہو اور کچھ افراد یا ان کے جتھے پھولتے پھلتے چلے جائیں۔- سود وربا کی معاشی خرابیاں :- سود و ربا میں اگر کوئی دوسرا عیب بھی اس کے سوا نہ ہوتا کہ اس کے نتیجہ میں چند افراد کا نفع اور پوری انسانیت کا نقصان ہے تو یہی اس کی ممانعت اور قابل نفرت ہونے کے لئے کافی تھا حالانکہ اس میں اس کے علاوہ اور بھی معاشی خرابیاں اور روحانی تباہ کاریاں پائی جاتی ہیں۔- پہلے اس کو سمجھئے کہ سود کے ذریعہ ملت کی تباہی اور خاص افراد کا نفع کیونکر ہے سود و ربا کے مہاجنی اور فرسودہ طریقہ میں تو ایسا بھونڈا پن تھا کہ عام ملت کا ضرر اور کسی خاص فرد کا نفع ہر موٹی عقل والے کو بھی سمجھ میں آجاتا تھا مگر آج کل کی نئی روشنی جس کو نئی اندھیری کہنا زیادہ موزوں ہے اس نے جس طرح شراب کو مشینوں میں صاف کرکے چوری اور ڈاکہ کی نئی نئی صورتیں ایجاد کرکے بدکاری وبے حیائی کے نئے نئے ڈھنگ نکال کر کے سب کو ایسا مہذب بنا لیا ہے کہ سطحی نظر والوں کو اس کی اندرونی خرابیاں نظر نہ آئیں اسی طرح ربا اور سود کے لئے بجائے شخصی دکانوں کے مشترک کمپنیاں بنالی ہیں جن کو بینک کہا جاتا ہے اور اب دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لئے یہ بتلایا جاتا ہے کہ ربا کے اس جدید طریقہ سے پوری ملت کا فائدہ ہے۔- کیونکہ عوام جو اپنے روپے سے تجارت کرنا نہیں جانتے یا قلت سرمایہ کی بنا پر نہیں کرسکتے ان سب کا روپیہ بینکوں میں جمع ہو کر ان میں سے ہر ایک کو گو قلیل ہی سہی کچھ نہ کچھ نفع سود کے نام سے مل جاتا ہے اور بڑے تاجروں کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ بینکوں سے سودی قرض لے کر بڑی تجارت کرکے فائدہ اٹھاتے ہیں اس طرح سود ایسی مبارک چیز بن گئی کہ ساری ملت کے افراد کو اس سے نفع پہنچ رہا ہے۔- لیکن ذرا انصاف سے کام لیا جائے تو یہ وہ ابلہ فریبی ہے جو شراب کی گندی بھٹیوں کو صاف ستھرے ہوٹلوں میں اور عصمت فروشی کے اڈوں کو سینماؤں اور شبینہ کلبوں میں تبدیل کرکے زہر کو تریاق اور مضر کو مفید بنا کر دکھلانے کے لئے عمل میں لائی گئی ہے اور جس طرح اہل بصیرت پر یہ بات روشن ہے کہ اخلاق سوز جرائم کو جدید غلاف پہنانے کا نتیجہ اس کے سوا نہیں کہ یہ جرائم پہلے سے زیادہ ہوگئے اور ان کا زہر پہلے سے زیادہ تیز ہوگیا اسی طرح سود و ربا کی اس نئی شکل نے سود کے چند آنے فی سیکڑہ عوام کے منہ کو لگا کر ایک طرف ان کو اپنے جرم کا شریک کرلیا اور دوسری طرف اپنے لئے اس جرم کے ارتکاب کا غیر محدود میدان فراہم کرلیا۔- کون نہیں جانتا کہ یہ چند آنے فی سیکڑہ کا سودجو سیونگ بینکوں اور ڈاکخانہ جات سے لوگوں کو ملتا ہے یہ کسی طرح ان کے معاش کی کفالت نہیں کرسکتا اس لئے وہ مجبور ہیں کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے مزدوری یا ملازمت تلاش کریں تجارت کی طرف اول تو ان کی نظر خود نہیں جاتی اور اگر کسی کو اس طرف توجہ بھی ہوجائے تو پوری ملت کا سرمایہ بینکوں میں جمع ہو کر جو صورت تجارت کی بن گئی ہے اس میں کسی چھوٹے سرمایہ والے کو داخل ہونا خود اپنی موت کو دعوت دینے سے کم نہیں کیونکہ بینک کوئی بڑا سرمایہ قرض پر صرف اسی کو دے سکتے ہیں جس کی بازار میں اپنی ساکھ ہو اور بڑا کاروبار ہو دس لاکھ کے مالک کو ایک کروڑ قرض مل سکتا ہے وہ اپنے ذاتی روپے کی نسبت سے دس گنا زیادہ کی تجارت چلا سکتا ہے اور تھوڑے سرمایہ والے کی نہ کوئی ساکھ ہوتی ہے نہ بینک اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ ان کو دس گنا زیادہ قرض دیدیں ایک ہزار کی مالیت والے کو دس ہزار تو کیا ایک ہزار ملنا بھی مشکل ہے اور جب کہ ایک شخص جو ایک لاکھ کی ملکیت رکھنے والاہو نو لاکھ بنک کا سرمایہ لگا کر دس لاکھ کی تجارت کرتا ہے اور فرض کرلیجئے کہ اس کو ایک روپیہ فی صد نفع ہوتا ہے تو گویا اس کو اپنے ایک لاکھ پر دس فی صد نفع ہوا اس کے بالمقابل اگر کوئی شخص صرف اپنے ذاتی روپے سے ایک لاکھ کی تجارت کرتا ہے اس کو ایک لاکھ پر صرف ایک ہی فی صد کا نفع ہوگا جو اس کے ضروری اخراجات کے لئے بھی کافی نہ ہوں گے ادھر مارکیٹ میں بڑے سرمایہ والے کو خام سامان جس نرخ اور والا مفلوج اور محتاج ہو کر رہ جاتا ہے اور اگر اس کی شامت آئی اور اس نے بھی کسی ایسی تجارت میں ہاتھ ڈال دیا تو بڑے سرمایہ والا اس کو اپنی خدائی کا شریک سمجھ کر کچھ اپنی گرہ سے نقصان اٹھا کر بھی بازار کو ایسا ڈاؤن کردیتا ہے کہ چھوٹے سرمایہ والا اصل اور نفع سب سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تجارت صرف ان چند افراد میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے جو بڑے سرمایہ دار ہیں۔- (١) یہ ملت پر کتنا بڑا ظلم ہے کہ ساری ملت اصلی تجارت سے محروم ہو کر صرف بڑے سرمایہ داروں کی دست نگر بن جائے ان کو وہ جتنا نفع دینا چاہیں بخشش کے طور پر دیدیں۔- (٢) اور دوسرا اس سے بڑا نقصان جس کی زد میں پورا ملک آجاتا ہے یہ ہے کہ ایسی صورت میں اشیاء کے نرخ پر ان بڑے سرمایہ دارروں کا قبضہ ہوجاتا ہے وہ گراں سے گراں فروخت کرکے اپنی گرہ مضبوط کرلیتے اور پوری ملت کی گرہیں کھلوا لیتے ہیں اور قیمت بڑھانے کے لئے جب چاہیں مال کی فروخت بند کردیتے ہیں اگر ساری ملت کا سرمایہ بنکوں کے ذریعہ کھینچ کر ان خود غرض لوگوں کی پرورش نہ کی جاتی اور یہ مجبور ہوتے کہ صرف اپنے ذاتی سرمایہ سے تجارت کریں تو نہ چھوٹے سرمایہ والوں کو یہ مصیبت پیش آتی اور نہ یہ خود غرض درندے پوری تجارت کریں تو نہ چھوٹے سرمایہ والوں کو یہ مصیبت پیش آتی اور نہ یہ خود غرض درندے پوری تجارت کے ناخدا بنتے، چھوٹے سرمایہ والوں کی تجارت کے منافع سامنے آتے تو دوسروں کا حوصلہ بڑہتا، تجارت کا کاروبار عام ہوتا جس سے ہر ایک کا اسٹاف علیحدہ ہوتا جس سے ہزاروں حاجت مندوں کی روزی پیدا ہوتی اور تجارتی نفع بھی عام ہوتا اور اشیاء کی ارزانی پر بھی یقینی اثر پڑتا کیونکہ باہمی مقابلہ (کمپٹیشن) ہی ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ کوئی آدمی اس پر تیار ہوتا ہے کہ اپنا نفع کم کرلے، اس عیارانہ طریق کار نے پوری قوم کو ایک مہلک بیماری لگا دی اور دوسرے اس کی ذہنیت خراب کردی کہ اس بیماری ہی کو شفا سمجھے۔- (٣) بنکوں کے سود سے ملت کا ایک تیسرا معاشی نقصان اور دیکھئے کہ جس شخص کا سرمایہ دس ہزار ہے اور وہ بنک سے سودی قرض لے کر ایک لاکھ کا بیوپار کرتا ہے اگر کہیں اس کا سرمایہ ڈوب گیا اور تجارت میں اس کو نقصان پہنچ گیا اور وہ دیوالیہ ہوگیا تو غور کیجئے کہ نقصان صرف دس فی صد تو اس پر پڑا باقی نوّے فی صد نقصان پوری ملت کا ہوا جن کا سرمایہ بنک سے لے کر اس نے لگایا تھا اگر بنک نے دیوالیہ کے نقصان کو سردست خود ہی برداشت کرلیا تو یہ ظاہر ہے کہ بنک تو قوم کی جیب ہے اس کا نقصان انجام کار قوم پر عائد ہوگا جس کا حاصل یہ ہوا کہ سرمایہ دار کو جب تک نفع ہوتا رہا تو نفع کا وہ تنہا مالک تھا اس میں ملت کے لئے کچھ نہ تھا یا برائے نام تھا اور جب نقصان آیا تو نوّے فی صد نقصان پوری ملت پر پڑگیا۔- (٤) سود سے ایک معاشی نقصان یہ بھی ہے کہ سودخور جب گھاٹے میں آجائے تو پھر وہ پنپنے کے قابل نہیں رہتا کیونکہ اتنا سرمایہ تو تھا نہیں جس کے نقصان کو یہ برداشت کرسکے، نقصان کے وقت اس پر دوہری مصیبت ہوتی ہے ایک تو اپنا نفع اور سرمایہ گیا اور اوپر سے بنک کے قرض میں دب گیا جس کی ادائیگی کے لئے اس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں اور بےسود کی تجارت میں اگر سارا سرمایہ بھی کسی وقت چلا جائے تو فقیر ہی ہوگا مقروض نہ ہوگا۔- ١٩٥٤ ء میں پاکستان میں روئی کے بیوپار پر قرآنی ارشاد کے مطابق محاق کی آفت آئی اور حکومت نے کروڑوں روپے کا نقصان اٹھا کر تاجروں کو سنبھالا مگر کسی نے اس پر غور نہیں کیا کہ وہ سب سود کی نحوست تھی کیونکہ کاٹن کے تاجروں نے اس کاروبار میں بیشتر سرمایہ بنکوں کا لگایا ہوا تھا اپنا سرمایہ برائے نام تھا بقضائے خداوندی روئی کا بازار اتنا گرگیا کہ اس کا دام ایک سو پچیس سے گر کر دس پر آگئے، تاجر اس قابل نہ رہے کہ بینکوں میں مارجن پوری کرنے کے لئے روپیہ واپس دیں مجبور ہو کر مارکیٹ بند کردی گئی اور حکومت سے فریاد کی حکومت نے دس کے بجائے نوّے کے دام لگا کر خود مال خریدا اور کروڑوں روپیہ کا نقصان برداشت کرکے ان تاجروں کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا حکومت کا روپیہ کس کا تھا وہی بیچاری غریب ملت وقوم کا غرض بینکوں کے کاروبار کا کھلا ہوا نتیجہ یہ ہے کہ پوری ملت کے سرمایہ سے چند افراد نفع اٹھاتے ہیں اور جہاں نقصان ہوجائے تو وہ پوری قوم وملت پر پڑے۔- اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ معارف القرآن جلد سے پڑہ لیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَايَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَـمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا۝ ٠ ۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۝ ٠ ۭ فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْــتَہٰى فَلَہٗ مَا سَلَـفَ۝ ٠ ۭ وَاَمْرُہٗٓ اِلَى اللہِ۝ ٠ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝ ٠ ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝ ٢٧٥- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- رِّبَا :- الزیادة علی رأس المال، لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دون وجه، وباعتبار الزیادة قال تعالی: وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم 39] ، ونبّه بقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] ، أنّ الزیادة المعقولة المعبّر عنها بالبرکة مرتفعة عن الرّبا، ولذلک قال في مقابلته : وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ [ الروم 39] الربا ( سود ) راس المال یعنی اصل سرمایہ پر جو بڑھوتی لی جائے وہ ربو کہلاتی ہے ۔ لیکن شریعت میں خاص قسم کی بڑھوتی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ زیادہ ہونے کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم 39] اور تم کو جو چیز ( عطیہ ) زیادہ لینے کے لئے دو تاکہ لوگوں کے اموال میں بڑھوتی ہو وہ اللہ کے یہاں نہیں بڑھے گی ۔ اور آیت : ۔ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] اللہ سود کو بےبرکت کرتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے ۔ میں محق کا لفظ لا کر اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ ربا ، ، یعنی سود میں برکت نہیں ہوتی اس کے مقابلہ میں زکوۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ [ الروم 39] اور تم ( محض ) خدا کی رضا جوئی کے ارادے سے زکوہ دیتے ہو تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی اپنے دیئے ہوئے کو خدا کے ہاں بڑھا رہے ہیں ۔- خبط - الخَبْط : الضّرب علی غير استواء، کخبط البعیر الأرض بيده، والرّجل الشّجر بعصاه، ويقال للمخبوط : خَبَطٌ كما يقال للمضروب : ضرب، واستعیر لعسف السّلطان فقیل : سلطان خَبُوط، واختباط المعروف : طلبه بعسف تشبيها بخبط الورق، وقوله تعالی:- يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطانُ مِنَ الْمَسِ [ البقرة ] ، فيصحّ أن يكون من خبط الشّجر، وأن يكون من الاختباط الذي هو طلب المعروف، يروی عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «اللهمّ إنّي أعوذ بك أن يتخبّطني الشّيطان من المسّ» ( خ ب ط ) الخبط ( ض ) کے معنی کسی چیز کسی چیز کو اند دھند بدون استواری کے مارنے کے ہیں ۔ جیسے اونٹ کا زمین پر اگلا پاؤں مارنا یا آدمی کا لاٹھی کے ساتھ درخت سے پتے سے جھاڑ نا ۔ اور درخت سے جھاڑے ہوئے پتوں کو بھی خبط کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ مضروب پر ضرب کا لفظ بول لیتے ہیں ۔ پھر استعارہ کے طور پر بادشاہ کے ظلم پر بھی خبط کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ ظالم بادشاہ کو خطوط کہا جاتا ہے ۔ اختباط المعروف کے معنی ہیں کسی سی زبر دستی احسان کا مطالبہ کرنا یہ محاورہ حبط الورق ( درخت سے پتے جھاڑنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے اور آیت : ۔ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطانُ مِنَ الْمَسِ [ البقرة جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوار نہ بنا دیا ہو ۔ میں یتخبط کے معنی خبط الشجرۃ سے بھی لئے جاسکتے ہیں ۔ اور اختباط سے بھی ۔ جس نے معنی احسان کا مطالبہ کے ہیں ایک روایت میں ہو ۔ اے میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے لپٹ کر دیوار نہ بنادے ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - بيع - البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء :- إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع :- الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل :- وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه .- وأَبَعْتُ الشیء : عرضته، نحو قول الشاعر :- فرسا فلیس جو ادنا بمباع والمبَايَعَة والمشارة تقالان فيهما، قال اللہ تعالی: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] ، وقال : وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] ، وقال عزّ وجل : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] ، لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، وبَايَعَ السلطان : إذا تضمّن بذل الطاعة له بما رضخ له، ويقال لذلک : بَيْعَة ومُبَايَعَة . وقوله عزّ وجل : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] ، إشارة إلى بيعة الرضوان المذکورة في قوله تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وإلى ما ذکر في قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] ، وأمّا الباع فمن الواو بدلالة قولهم : باع في السیر يبوع : إذا مدّ باعه .- ( ب ی ع )- البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں ؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔ ابعت الشئی کسی چیز کو بیع کے لئے پیش کرنا ۔ شاعر نے کہا ہے یعنی ہم عمدہ گھوڑی فروخت کے لئے پیش نہیں کریں گے ۔ المبایعۃ والمشارۃ خریدو فروخت کرنا ۔ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] اور خرید فروخت ترک کردو ) لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا نہ دوستی ( کام آئے گی ) بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرار یبعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو ۔ میں بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] میں پایا جاتا ہے ۔ الباع ( دونوں بازوں کے پھیلانے کی مقدار جو تقریبا 2 فٹ ہوتی ہے ) یہ مادہ وادی سے ہے کیونکہ باع فی السیر یبوع کہا جاتا ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے کے لمبے لمبے قدم رکھنا کے ہیں ۔- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی - حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- انتهَاءُ- والانتهَاءُ : الانزجار عمّا نهى عنه، قال تعالی: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38] الانتھاء کسی ممنوع کام سے رک جانا ۔ قرآن پاک میں ہے : قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38]( اے پیغمبر ) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیاجائے گا ۔- سلف - السَّلَفُ : المتقدّم، قال تعالی: فَجَعَلْناهُمْ سَلَفاً وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ [ الزخرف 56] ، أي : معتبرا متقدّما، وقال تعالی: فَلَهُ ما سَلَفَ [ البقرة 275] ، أي : يتجافی عمّا تقدّم من ذنبه، وکذا قوله : وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ [ النساء 23] ، أي : ما تقدّم من فعلکم، فذلک متجافی عنه، فالاستثناء عن الإثم لا عن جواز الفعل، ولفلان سَلَفٌ كريم، أي :- آباء متقدّمون، جمعه أَسْلَافٌ ، وسُلُوفٌ. والسَّالِفَةُ صفحة العنق، والسَّلَفُ : ما قدّم من الثّمن علی المبیع، والسَّالِفَةُ والسُّلَافُ : المتقدّمون في حرب، أو سفر، وسُلَافَةُ الخمر :- ما بقي من العصیر، والسُّلْفَةُ : ما يقدّم من الطعام علی القری، يقال : سَلِّفُوا ضيفكم ولهّنوه - ( س ل ف ) السلف کے معنی متقدم یعنی پہلے گزر جانے والا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ فَجَعَلْناهُمْ سَلَفاً وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ [ الزخرف 56] ان کو گئے گزرے کردیا اور پچھلوں کے لئے عبرت بنا دیا ۔ فَلَهُ ما سَلَفَ [ البقرة 275] تو جو پہلے ہوچکا وہ اسکا ۔ یعنی اس کے پہلے گناہ کو معاف کردیا جائے گا ۔ اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی ۔ اس طرح آیت إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ [ النساء 23] مگر ( جاہلیت میں ) جو ہوچکا ( سو ہوچکا ) میں ما سلف سے مراد یہ ہے کہ جو گناہ اس سے قبل ہوچکے ہیں وہ معاف کردیے جائیں گے ۔ تو یہاں استثناء جواز فعل سے نہیں ہے کہ جو نکاح پہلے ہوچکے ہیں وہ جائز اور مباح ہیں بلکہ یہاں استثناء گناہ سے ہے یعنی اس سے قبل جو نکاح ہوچکے ہیں ان کا گناہ معاف کردیا جائیگا اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اور لفلان سلف کریم کے معنی ہیں اس کے آباؤ اجداد کریم تھے ۔ سلف کی جمع اسلاف اور سلوف آتی ہے ۔ اور کسی چیز کی پیشگی قیمت ادا کرنے کو بھی سلف کہا جاتا ہے ۔ السالفۃ گردن کے کنارے کو کہتے ہیں اور لڑائی میں ہراول دستہ یا سفر میں قافلہ سے آگے جانے والے لوگوں کو سالفۃ اور سلاف کہا جاتا ہے ۔ سلافۃ الخمر باقی ماندہ عصیرہ ۔ السلفۃ ( ناشتہ ) یعنی وہ طعام جو مہمانی سے پہلے مہمان کو پیش کیا جائے ۔ محاورہ ہے ۔ سَلِّفُوا ضيفكم ولهّنوه : اپنے مہمان کو نکل کھلاؤ ۔ ( س ل ق ) السلق قہر و غلبہ کے ساتھ دست یا زبان درازی کرنا کے ہیں اور اسی سے تسلق علی الحائط ہے جس کے معنی دیوار پھاندنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں گے ۔ محاورہ ہے : سَلَقَ امرأته : اپنی عورت کو زبردستی لٹا کر اس کے ساتھ جماع کیا ۔ (235) ( وإن شئت سلقناک ... وإن شئت علی أربع ) چاہو تو چت لیٹ جاؤ اور چاہو تو پٹ لیٹو ۔ اور سلق کے معنی شلیتے کے ایک حلقے کو دوسرے میں داخل کرنے کے ہیں اور میدہ کی روٹی کو سلیقۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع سلائق آتی ہے اور سلیقۃ بمعنی طبیعت بھی آتا ہے اور سلق کے معنی ہموار اور عمدہ زمین کے ہیں ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] - ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ربوٰ کا بیان - قول باری ہے (الذین یاکلون الربوٰا لایقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس۔ ذلک بانھم قالوا انما البیع مثل الربوٰا واحل اللہ البیع وحرم الربوٰا۔ ( ) جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھوڑ کر بائولا کردیا ہو۔ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام)- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ربوا کے معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اسی سے لفظ الرابیۃ ہے جس کے معنی ابھری ہوئی زمین کے ہیں کیونکہ اپنے ارد گرد کی زمین کے مقابلے میں زیادہ ابھری ہوئی ہوتی ہے۔ اسی سے الربوۃ ( ) بھی ہے جس کے معنی ٹیلے کے ہیں۔ اسی سے یہ محاورہ بھی ہے ” اربی فلان علی فلان فی القول او الفعل (فلاں شخص فلاں سے قول یا فعل میں بڑھ گیا)- شرعی لحاظ سے یہ لفظ کئی معانی پر محمول ہوتا ہے جس کے لئے لغت میں یہ اسم موضوع نہیں تھا۔ اس پر حضرت اسامہ بن زید (رض) کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نسا ( ) یعنی ادھار کو ربوٰ قرار دیا۔ آپ کا قول ہے (انما الربوٰ فی النسیۃ ( ) ربو ادھار میں ہوتا ہے) ۔- حضرت عمر (رض) کا قول ہے : ” ربوا کے کئی دروازے یعنی صورتیں ہیں جو پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک صورت جانور کی بیع سلم ہے۔ “ حضرت عمر (رض) کا یہ قول بھی ہے کہ : ” ربوٰ کی آیت قرآن کی ان آیتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل ہوئیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی وضاحت کرنے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوگئے اس لئے ربوٰ اور ریبۃ ( ) یعنی شک والی بات کو ترک کردو۔ “- اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ لفظ ربوٰ ایک اسم شرعی بن گیا ورنہ اگر یہ اپنے اصلی معنی پر برقرار رہتا تو حضرت عمر (رض) سے اس کا معنی مخفی نہ ہوتا۔ جبکہ آپ اہل زبان تھے اور لغوی لحاظ سے اسموں کے معانی سے واقف تھے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اہل عرب سونے کے بدلے سونا اور چاندی کے بدلے چاندی کی ادھار خریدو فروخت کو ربوٰ ( ) نہیں سمجھتے تھے جبکہ شریعت میں یہ چیز ربوٰ ہے۔ ( ) - ہمارے اس بیان سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ربوٰ کا شمار بھی ان اسماء میں ہوگیا جو مجمل تھے اور انہیں بیان کی ضرورت تھی۔ اس قسم کے اسماء وہ ہیں جو لغت سے شرع کی طرف منتقل کئے گئے تھے اور ان کا اطلاق ایسے معانی پر ہوتا تھا جن کے لئے یہ اسماء لغوی لحاظ سے موضوع نہیں تھے۔ مثلاً صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ۔- اس لئے اس لفظ ربوٰ کو بیان کی ضرورت ہے اور عقود کی کسی صورت کی تحریم کے لئے اس لفظ کے عموم سے استدلال درست نہیں ہے۔ صرف ان صورتوں کی تحریم کے لئے اس سے استدلال کیا جاسکتا ہے جہاں یہ دلالت قائم ہوجائے کہ شرع میں یہ صورت اس لفظ کا مسمی اور مدلول بن رہی ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سی آیتوں میں اللہ کی مراد کی نص اور توقیف یعنی الفاظ اور بیان کی صورت میں وضاحت فرمائی ہے اور بعض مقامات پر دلیل کے طور پر بیان کی ہے اس لئے اہل علم توقیف اور استدلال کے ذریعے اللہ کی مراد معلوم کرنے میں ناکام نہیں رہے۔- اہل عرب کے ہاں ربوا کا جو مفہوم تھا اور جس پر وہ آپس کی لین دین میں عمل پیرا ہوتے تھے یہ تھا کہ درہم و دینار قرض لیے جائیں۔ قرض کی ایک مدت ہو اور مدت گزرنے پر لی ہوئی رقم کچھ اضافے کے ساتھ واپس کردی جائے۔ اس اضافے کا فیصلہ باہمی رضامندی سے ہوتا تھا۔- ان کے بیع بالتقد یعنی سونا چاندی کی سونا چاندی کے بدلے اور ایک ہی جنس میں تفاضل یعنی کمی بیشی کی صورت کے ساتھ خریدو فروخت معروف و مروج نہیں تھی۔ ان کے ہاں ربوٰ کی جو صورت معروف و مروج تھی وہ قرض کی لین دین کی شکل میں پائی جاتی تھی۔- اسی لئے ارشاد باری ہے (وما اٰتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربوا عنداللہ، ( ) اور جو چیزتم اس غرض سے دوگے کہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجائے وہ اللہ کے پاس نہیں بڑھتی) اللہ نے یہ بتایا کہ قرض میں جس زیادتی کی شرط لگا دی جاتی ہے وہ اس قرض لئے ہوئے مال میں ربوٰ ہے کیونکہ قرض دینے والے کی طرف سے اس کے مقابلے میں کوئی عوض یا مال نہیں ہوتا۔- ارشاد باری ہے (لاتا کلوا الربوٰا اضعافاً مضاعفۃ ( ) اے ایمان والو یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو )- اس میں اس حالت کی نشاندہی کی گئی ہے جس کے ضمن میں یہ خطاب وارد ہوا یعنی کئی گنا اضافے کی شرط۔ اللہ تعالیٰ نے اس ربوٰ یعنی سود کو باطل قرار دیا جو ان لوگوں کے ہاں مروج و متعارف تھا۔ اس کے ساتھ ہی خریدو فروخت کی اور کئی صورتوں کو بھی باطل قرار دے کر انہیں ربوٰ یعنی سود کا نام دیا۔ اس بنا پر قول باری (وحرم الربوٰ ) ( ) ان تمام صورتوں کی تحریم پر مشتمل ہے کیونکہ شریعت میں ان تمام صورتوں پر لفظ ربوٰ کا اطلاق ہوتا ہے تاہم عربوں کے ہاتھ سودی لین دین کی صرف وہی صورت تھی جس کا ہم نے ذکر کیا ہے یعنی ایک مقررہ مدت تک کسی کو قرض دینا اور اس میں زیادتی اور اضافے کی شرط لگا دینا شریعت میں ربوٰ کے اسم کا اطلاق کئی معانی پر ہوتا ہے۔- اول تو وہ ہے جس پر زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا تعامل تھا۔ دوم مکیل اور موزون کے تحت آنے والی اشیاء میں سے کسی ایک جنس میں تفاضل یعنی کمی بیشی کے ساتھ خریدو فروخت جیسا کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ جنس کی یکسانیت کے ساتھ یہ اعتبار کیا جائے گا کہ وہ چیز اشیائے خوردنی میں سے ہو اور اس کا ذخیرہ کرلیا جاتا ہو۔- امام شافعی جنس کے ساتھ اکل یعنی اشیائے خوردنی ہونے کا اعتبار کرتے ہیں۔ گویا تمام کے نزدیک جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں، تفاضل کی تحریم کے حکم کے سلسلے میں جنس کا اعتبار کیا گیا ہے۔ سوم نساء یعنی ادھار ۔ اس کی کئی صورتیں ہیں۔ اول جنس ایک ہو۔ اس صورت میں ادھار بیع جائز نہیں ہوگی۔ خواہ فروخت ہونے والی چیز اور ثمن کا تعلق مکیل یا موزون یا کسی اور سے ہو۔- اس لئے ہمارے نزدیک مرد کا بنا ہوا کپڑا مرد کے بنے ہوئے کپڑے کے بدلے ادھار فروخت نہیں ہوسکتا کیونکہ جنس کی یکسانیت موجود ہے۔ دوم اس معنی کا وجود جس کے ساتھ تحریم تفاضل کی شرط میں جنس کو بھی ملادیا گیا ہے۔ یہ مکیل اور موزون کے تحت آنے والی اشیاء ہیں جو اثمان یعنی درہم و دینار کے علاوہ ہوتی ہیں۔- اس لئے اگر کسی نے گندم چونے کے بدلے ادھار فروخت کی تو یہ بیع جائز نہیں ہوگی کیونکہ اس میں کیل موجود ہے۔ اگر کسی نے لوہا، پیتل کے بدلے ادھار فروخت کیا تو یہ بیع بھی جائز نہیں ہوگی کیونکہ اس میں وزن موجود ہے۔ واللہ تعالیٰ الموفق۔- جانوروں میں بیع سلم شرعی ربوٰ کی ایک صورت ہے - حضرت عمر (رض) کا قول ہے۔ ” ربوٰ کی کئی صورتیں ہیں جو پوشیدہ نہیں ہیں ان میں سے ایک صورت سن (حیوان میں بیع سلم ہے۔ “ عربوں کے ہاں یہ صورت ربوٰ کی صورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) نے یہ بات توقیفی طور پر کہی ہے یعنی آپ نے شریعت کی طرف سے اس بارے میں رہنمائی کی بنا پر یہ فرمایا ہے۔ کیونکہ شریعت میں ربوٰ کے اسم کا اطلاق جن صورتوں پر کیا جاتا ہے وہ تفاضل اور نساء یعنی ادھار کی صورتیں ہیں جن کی اپنی اپنی شرطیں ہیں جو فقہاء کے ہاں معلوم و مقرر ہیں۔- اس کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہے (الحنطۃ بالحنطۃ مثلا بمثل بداً بیدو الفضل ربا والشعیر بالشعیر مثلا بمثل یداً بید والفضل ربا۔ ( ) گندم کے بدلے گندم برابر برابر ہاتھوں ہاتھ اور زیادتی سود ہے۔ جو کے بدلے جو برابر برابر ہاتھوں ہاتھ۔ اگر زائد ہو تو یہ سود ہوگا) ۔- آپ نے اسی ضمن میں تمرینی خرما، نمک ، سونے اور چاندی کا بھی ذکر فرمایا اور مکیل و موزون سے تعلق رکھنے والی اشیاء کی ایک جنس کے اندر یع و شراء میں زیادتی کو سود قرار دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ بن زید کی حدیث میں جسے عبدالرحمن بن عباس نے ان سے روایت کی ہے فرمایا (انما الربا فی النسیۃ۔ ( ) ادھار میں سود ہوتا ہے) اور بعض روایت میدں یہ الفاظ ہیں (لا ربا الا فی النسیۃ۔ ( ) سود تو صرف ادھار میں ہوتا ہے)- اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ شریعت میں اسم ربوٰ کا اطلاق کبھی تفاضل پر ہوتا ہے اور کبی ادھار پر۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ ” سود صرف ادھار میں ہوتا ہے “ آپ سونے کے بدلے سونے اور چاندی کے بدلے چاندی کی متفاضل بیع کو جائز قرار دیتے تھے اور اس بارے میں حضرت اسامہ بن زید کی حدیث کو اپنا مسلک قرار دیتے تھے۔- لیکن جب تواتر کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چھ اصناف میں متفاضل بیع کی تحریم کی روایتیں آپ تک پہنچیں تو آپ نے اپنے درج بالا قول سے رجوع کرلیا۔ جابر بن زید کا قول ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بیع صرف یعنی سونا چاندی کی بیع اور متعہ کے بارے میں اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔- حضرت اسامہ بن زید کی روایت کردہ حدیث کا مفہوم تو صرف یہ ہے کہ ادھار دو جنسوں میں ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عبادہ بن الصامت (رض) اور کچھ دوسرے صحابہ کرام نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یداید) ( ) پھر آپ نے چھ اصناف کا ذکر کیا اور فرمایا (بیعوا الحنطۃ بالشعیر کیف شئتم یداً بیداً ۔ ( ) جو کے بدلے گندم فروخت کرو جس طرح چاہو لیکن ہاتھوں ہاتھ ہو)- بعض روایت میں یہ الفاظ ہیں (واذا اختلف النوعان نبی عوا کیف شئتم یداً بید ( ) جب نوع مختلف ہو تو پھر جس طرح چاہو ہاتھوں ہاتھ فروخت کرو) آپ نے مکیل اور موزون کی دو جن سو میں ادھار کی ممانعت کردی اور تفاضل کو مبارح کردیا۔ حضرت اسامہ (رض) کی حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔- آیت میں جو سود مراد ہے اس کی ایک صورت ایک ایسی چیز کی خریداری ہے جسے پہلے فروخت کردیا گیا ہو اور قیمت وصول کرنے سے پہلے اسے قیمت فروخت سے کم قیمت پر خرید لیا جائے اس قسم کے سودے کے سود ہونے کی دلیل وہ روایت ہے جسے یونس بن اسحاق نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابو العالیہ سے نقل کیا ہے۔- ابو العالیہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس تھا، ایک عورت نے ان سے کہا کہ میں نے اپنی ایک لونڈی آٹھ سو درہم میں زید بن ارقم (رض) کو فروخت کردی اور قیمت کی وصولی کی مدت انہیں بیت المال سے ملنے والے وظیفہ تک مقرر کردی۔ زید (رض) نے یہ لونڈی فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے اس سے یہ لونڈی چھ سو درہم میں خریدلی، یہ سن کر حضرت عائشہ (رض) نے اس عورت سے کہا کہ تم نے بہت بری خریدو فروخت کی۔- میری طرف سے زید بن ارقم (رض) کو یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ان کا سارا جہاد فی سبیل اللہ باطل ہوجائے گا۔ یہ سن کر عورت کہنے لگی ام المومنین، آپ کا کیا خیال ہے اگر میں صرف میں اپنا راس المال لے لوں، اس پر حضرت عائشہ (رض) نے یہ آیت پڑھی (فمن جاء ہ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ما سلف وامرہ الی اللہ۔ ( ) پس جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لئے وہ سود خواری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا سو کھاچکا اس کا معاملہ اب اللہ کے حوالے ہے) ۔- اس عورت کی بات سن کر حضرت عائشہ (رض) کا سود کی یہ آیت تلاوت کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہسودا سودا تھا۔ اسے سود قرار دینا توقیف کے سوا اور کسی ذریعے سے نہیں ہوسکتا تھا۔ عبداللہ بن المبارک نے حکیم بن زریق سے اور انہوں سے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ میں نے سعید بن المسیب سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ پوچھا جس نے ایک شخص کے ہاتھوں کوئی خوردنی شے فروخت کی اور قیمت کی وصولی کے لئے ایک مدت مقرر کردی۔ خریدار نے وہی خوردنی شے اسی فروخت کنندہ کے ہاتھوں نقد قیمت کے بدلے فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، آیا یہ درست ہے یا نہیں۔- سعید بن المسیب نے فرمایا کہ یہ سود ہے۔ اس سودے میں یہ بات تو ظاہر ہے کہ خریدار نے وہ چیز قیمت فروخت سے کم قیمت پر فروخت کرنا چاہا ہوگا ورنہ اگر وہ قیمت فروخت یا اس سے زائد قیمت پر اسے فروخت کرنا چاہتا تو اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہ ہوتا۔- غرض سعید بن المسیب نے اس سودے کو سود قرار دے دیا۔ ایسے سودے کی ممانعت حضرت ابن عباس (رض) ، قاسم بن محمد، مجاہد، ابراہیم نخعی اور شعبی سے بھی مروی ہے، حسن بصری، ابن یسرین اور کچھ دوسرے تابعین سے مروی ہے کہ اگر وہ شخص اس چیز کو نقد قیمت پر فروخت کردے تو اس کے لئے اسے خرید لینا جائز ہے۔ لیکن اگر اس نے ادھار فروخت کی ہو تو وہ اسے قیمت فروخت سے کم قیمت پر اس وقت تک نہیں خرید سکتا جب تک کہ قیمت کی ادائیگی کا وقت نہ آجائے۔- حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک چیز فروخت کردے اور پھر قیمت فروخت سے کم قیمت پر اسے خریدلے تو یہ جائز ہوگا۔ لیکن اس روایت میں قیمت کی وصولی کا ذکر نہیں ہے اس لئے یہ جائز ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کی مراد یہ ہو کہ وہ اس وقت ایسا کرسکتا ہے جب وہ ثمن یعنی فروخت شدہ چیز کی قیمت وصول کرچکا ہو۔- بہرحال حضرت عائشہ (رض) اور سعید بن المسیب کے قول سے ایسے سودے کا سود ہونا ثابت ہوتا ہے اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ ان دونوں نے اس سودے کو صرف توقیف کے ذریعے ہی سود قرار دیا کیونکہ لغوی لحاظ سے اس سودے پر سود کا اطلاق غیر معروف ہے۔ اس لئے اسے سود کا نام دینا صرف شرعی طریقے سے ممکن ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ شریعت میں استعمال ہونے والے اسماء سب کے سب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے توقیفی ہوتے ہیں۔ والہ اعلم بالصواب۔- دین کے بدلے دین بھی سود کی ایک صورت ہے - موسیٰ بن عبیدہ نے عبداللہ بن دینار سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ادھار کے بدلے ادھار سے منع فرمایا ہے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے دین کے بدلے دین سے منع فرمایا۔ دونوں کا معنی ایک ہے۔ اسامہ بن زید کی حدیث میں آپ کے الفاظ یہ ہیں (انما الربوا فی النسیۃ۔ ( ) سود تو ادھار میں ہوتا ہے) البتہ اسے دین کے بدلے دین والے عقد پر منطبق کیا جاتا ہے اور یہ کہ جب تک سودے کی مجلس باقی ہے اس وقت تک طرفین کو چھوٹ ہے۔- کیونکہ مجلس ختم ہونے تک اس کی گنجائش ہے کہ سودے میں اگرچہ نہ فروخت ہونے والی چیز موجود ہے اور نہ اس کی قیمت یعنی ادھار ہیں تاہم سودا کرنے والا مثلاً ایک کر (ایک پیمانہ جس سے گندم ماپ کردی جاتی ہے) گندم کی قیمت کے طور پر فروخت کنندہ کو دراہم ادا کردے۔ لیکن اگر یہ دونوں مجلس ختم کردیں اور فروخت کنندہ نے قیمت نہ وصول کی ہو تو یہ سودا باطل ہوجائے گا۔- اسی طرح ادھار کی صورت میں دینار کے بدلے درہم فروخت کرنا جائز ہے لیکن اگر طرفین قیمت اور مبیع کی وصولی سے پہلے علیحدہ ہوجائیں تو یہ سودا باطل ہوجائے گا۔- سود کی چند صورتیں جن کی تحریم پر آیت مشتمل ہے - ایک شخص پر ہزار درہم قرض ہوتا ہے جس کی ادائیگی کے لئے مدت مقرر ہوتی ہے پھر وہ شخص قرض خواہ کے ساتھ فوری ادائیگی کی بنیاد پر پانچ سو پر تصفیہ کرلیتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔ سفیان نے حمید سے، انہوں نے میسرہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ فرض کریں کسی کے ذمہ میرا قرض ہو اور ادائیگی کی مدت مقرر ہو۔ پھر میں اس سے کہوں کہ اگر تم مجھے فوری ادائیگی کردوگے تو میں رقم میں کمی کردوں گا آیا یہ درست ہے یا نہیں ؟- حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا یہ سود ہے۔ حضرت زید بن ثابت (رض) سے بھی اس کی ممانعت منقول ہے۔ سعید بن جبیر، شعبی اور حکم کا بھی یہی قول ہے اور یہی ہمارے اصحاب او عام فقہاء کا مسلک ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔- اس قول کے بطلان پر دو باتیں دلالت کرتی ہیں۔ اول یہ کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اس صورت کو سود کا نام دیا اور ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ شریعت میں استعمال ہونے والے اسماء توقیفی ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ یہ بات واضح ہے کہ زمانہ جاہلیت کا سود موجل قرض ہوتا تھا جس میں زیادتی کی شرط لگادی جاتی تھی اور یہ زیادتی اس دی ہوئی مدت کے بدلے میں ہوتی تھی۔- اللہ تعالیٰ نے اسے باطل کرکے حرام قرار دے دیا اور فرمایا (وان تبتم فلکم رئو وس اموالکم ( ) اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں تمہارا راس المال یعنی اصل زرمل جائے گا) نیز فرمایا (وذروا ما بقی من الربوٰ ۔ ( ) جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو )- اس آیت میں مدت کے بدلے میں عوض لینے کی ممانعت ہے۔ اب اگر ایک شخص پر ہزار درہم موجل قرض کے طور پر ہیں اور قرض خواہ فوری ادائیگی کی بنیاد پر اس رقم میں کمی کردیتا ہے تو وہ حقیقت میں یہ کمی مدت کی کمی کے مقابلہ میں کرتا ہے اور یہی سود کا معنی ہے جس کی تحریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصوص ہے۔- اسی لئے اس صورت کے عدم جواز میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی پر ایک ہزار درہم قرض ہوں اور ادائیگی بھی معجل یعنی فوری ہو پھر وہ شخص قرض خواہ سے کہے کہ مجھے مہلت دے دو میں ایک سو زائد درہم تمہیں واپس کردوں گا کیونکہ یہ زائد سو درہم مدت اور مہلت کے عوض میں ہیں۔ اسی طرح قرض کی رقم میں کمی بھی زیادتی کے معنی میں ہے کیونکہ اس کمی کو اجل یعنی مدت کا معاوضہ بنایا گیا ہے یہ ہے وہ بنیاد جس کی بنا پر آجال کے ابدال کا لینا ممنوع ہے یعنی اجل اور مدت کے عوض اور بدل کے طور پر کوئی رقم لے لی جائے یا چھوڑ دی جائے۔- اسی لئے امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر کسی نے درزی کو قمیض سینے کے لئے دیتے ہوئے کہا کہ اگر تو اسے آج سی دے تو تجھے ایک درہم ملے گا اور اگر کل سی دے گا تو آدھا درہم ملے گا اس کی دوسری شرط باطل ہوگی۔ اگر وہ کل سی کر دے گا تو اسے ایک ہی درہم ملے گا۔- یہ شرط اس لئے باطل ہے کہ اس نے اجرت میں کمی مدت کے مقابلے میں کی ہے۔ جبکہ ان دونوں وقتوں میں خیاطی کا یہ کام ایک ہی انداز اور صفت سے ہوتا اس لئے یہ شرط جائز نہیدں ہوگی کیونکہ یہ وہ صورت ہے جو مدت کی بنا پر سودے میں اختیار کی جاتی تھی جس کے عدم جواز پر ہم سابقہ سطور میں پوری وضاحت کر آئے ہیں۔- سلف میں سے جن حضرات نے اس صورت کے جواز کا قول اختیار کیا ہے کہ تو مجھے فوری ادائیگی کردے میں قرض کی رقم میں کمی کردوں گا تو ہوسکتا ہے کہ ان کے ہاں یہ جواز اس وقت ہوگا جب قرض خواہ قرض دیتے وقت اسے شرط نہ بنائے۔ اور وہ اس طرح کہ قرض کی رقم میں بلاشرط کمی کردے اور قرضدار بلاشرط باقی رقم کی فوری ادائیگی کردے۔- ہم نے دلیل کے ساتھ پہلے ذکر کردیا ہے کہ تفاضل کبھی سود ہوتا ہے جس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چھ اصناف یعنی اجناس کے متعلق مروی ہے اور ادھار کبھی بیع میں سود بن جاتا ہے۔- اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (واذا اختلف التوعان فبیعوا شئتم یداً بید۔ ( ) اور جب نوع مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو انہیں دست بدست فروخت کرو) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے (انما الربا فی النسیۃ۔ ( ) سود تو ادھار میں ہوتا ہے) حیوان میں بیع سلم بھی کبھی سود ہوجاتا ہے۔- اس کی بنیاد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درج بالا دونوں حدیثیں ہیں نیز حضرت عمر (رض) نے حیوان میں بیع سلم کو سود کا نام دیا۔ اسی طرح ایک فروخت شدہ چیز کی قیمت کی وصولی سے پہلے قیمت فروخت سے کم قیمت پر خرید لینا بھی سود ہے۔ اسی طرح فوری ادائیگی کی شرط پر قرض کی رقم میں کمی کردینا بھی سود ہے ان کی وجوہات ہم درج بالا سطور میں بیان کر آئے ہیں۔- فقہاء کا ان چھ اصناف میں تفاضل کی تحریم پر اتفاق ہے جن کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی طرق سے احادیث منقول ہیں۔ ان کے راویوں کی کثرت اور فقہاء کا ان پر عمل پیرا ہونے کی بناء پر ہمارے نزدیک ان احادیث کو درجہ تواتر حاصل ہے۔- فقہاء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ ان چھ اصناف کے متعلق نص کے مضمون میں وہ علت موجود ہے جس کے ساتھ تحریم کے حکم کا تعلق ہے اور جس کا دوسری اشیاء میں بھی اعتبار کرنا واجب ہے جنس کی یکسانیت کو بطور علت ماننے میں فقہاء اتفاق کرتے ہیں لیکن پھر ان میں جو اختلاف رائے ہے اس پر ہم نے اس باب کے گزشتہ سطور میں روشنی ڈالی ہے اور اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ تفاضل کی تحریم کا حکم صرف ان چھ اصناف میں منحصر نہیں ہے۔- کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ تفاضل کی تحریم کا حکم صرف ان چھ اصناف میں منحصر ہے جن کے متعلق شریعت کی طرف سے ہدایات دی گئی ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کا یہ اختلافی قول قابل اعتناء نہیں ہے کیونکہ یہ معدودے چند لوگ ہیں۔ ہمارے اصحاب نے کیل اور وزن کا جو اعتبار کیا ہے اس کے لئے ان کے پاس روایات کی صورت میں دلائل موجود ہیں۔ نیز عقلی دلائل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ہم نے کئی مواقع پر ان دلائل کا تذکرہ کیا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث کے مضمون سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے آپ کا ارشاد ہے (الذھب بالذھب مثلا بمثل وزنابوزن۔ والحنطۃ بالحنطۃ مثلا بمثل کیلا بکیل ( ) سونے کے بدلے سونا برابر برابر ہم وزن، گندم کے بدلے گندم برابر برابر ہم کیل) اس حدیث نے موزونات میں وزن میں مماثلت اور مکیلات میں کیل میں مماثلت واجب کردی اس لئے یہ حدیث اس پر دال ہوگئی کہ تحریک کے حکم میں جنس کے ساتھ وزن اور کیل کا اعتبار کیا جائے گا۔- جو لوگ ہم سے اختلاف کرتے ہوئے اکل یعنی شے کے خوردنی ہونے کا اعتبار کرتے ہیں وہ اس قول باری (الذین یا کلون الربولا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس۔ ( ) جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بائولا کردیا ہو) سے استدلال کرتے ہیں نیز ان کا استدلال اس قول باری (لاتا کلوا الربوٰ ( ) سود مت کھائو) سے بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ماکول یعنی خوردنی اشیاء پر سود کا اطلاق کیا۔- اس بنا پر ان حضرات کا یہ قول ہے کہ ماکولات میں سود کے اثبات کے لئے ان آیات میں عموم ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ آیات ان کے دعویٰ پر دلالت نہیں کرتی ہیں اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اول وہ وجہ ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ شرع میں لفظ ربوٰ ایک مجمل لفظ ہے جسے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اس بنا پر اس کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔- بلکہ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ فلاں چیز سود کے ضمن میں آتی ہے کسی اور دلالت کی ضرورت ہے حتیٰ کہ آیت کی بنا پر اسے حرام قرار دیا جائے اور اس کے کھانے سے پرہیز کیا جائے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت سے زیادہ سے زیادہ کسی ایک ماکول میں سود ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ تمام ماکولات میں سود کا وجود ہوتا ہے۔ ہم نے بھی تو بہت سی ماکولات میں سود ثابت کردیا ہے اور اتنا کرکے ہم گویا آیت کے مضمون اور حکم سے عہدہ برا ہوگئے ہیں۔- دوسری طرف جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے سود کے متعلق توقیف کا ثبوت ہوگیا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ گیارہ سو کے عوض ایک ہزار کی بیع کی تحریم پر سب کا اتفاق ہے۔ جس طرح کہ یہ معلوم ہوگیا ہے کہ ایک ہزار مؤجل کے عوض ایک ہزار کی بیع بھی باطل ہے اور اس طرح وہ اجل یعنی مدت جس کی شرط لگائی گئی ہے مال میں کمی کی قائم مقام بن کر اسی طرح ہوگئی ہے جس طرح گیارہ سو کے عوض ایک ہزار کی بیع ہے۔- اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ قرض میں اجل یعنی مدت درست نہ ہو جس طرح گیارہ سو کے بدلے ہزار کا قرض درست نہیں ہے کیونکہ مدت میں کمی وزن میں کمی کی طرح ہے اور سود کبھی تو وزن میں کمی کی بنا پر ہوت ہے اور کبھی اجل میں کمی کی بنا پر اس لئے ضروری ہے کہ قرض کی بھی صورت حال یہی ہو۔- اگر یہ کہا جائے کہ اس معاملے میں قرض بیع کی طرح نہیں ہے کیونکہ قرض میں تو بدل کو قبضہ میں لینے سے پہلے جدا ہوجانا درست ہے لیکن ہزار کے عوض ہزار کی بیع میں ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ عدت میں کمی اس وقت پیش آتی ہے جب یہ مشروط ہو لیکن اگر مشروط نہ ہو تو قبضہ نہ کرنا دونوں مالی یعنی مبیع اور ثمن میں سے کسی کے نقص اور کمی کا سبب نہیں بنتا۔ البتہ ایسی بیع کا بطلان کسی اور وجہ سے ہوتا ہے جو اس سبب کے علاوہ ہوتا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ مجلس عقد بیع میں مبیع اور ثمن کو طرفین سے اپنے اپنے قبضہ میں لینے کے وجوب کے لحاظ سے دو اصناف اور ایک صنف میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یعنی چاندی کے بدلے سونا اور ساتھ ساتھ ان دونوں میں تفاضل کا جواز بھی ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان دونوں کو طرفین یعنی بائع کی مشتری کی جانب سے اپنے اپنے قبضے میں لینے کا موجب اس جہت سے نہیں ہے کہ ترک قبض غیر مقبوض میں نقصان کا موجب ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص نے کسی کے ہاتھ کوئی غلام ایک ہزار درہم میں فروخت کردیا ہو اور اس کے ثمن یا قیمت کو کئی سالوں تک اپنے قبضے میں نہ لیا ہو تو خریدار کے لئے جائز ہے کہ فی الحال ایک ہزار کے ساتھ منافع لے کر اسے فروخت کردے لیکن اگر وہی شخص اس غلام کو ایک ماہ کی مہلت کی شرط کے ساتھ ایک ہزار پر فروخت کردیتا پھر مدت بھی ختم ہوجاتی تو خریدار کے لئے یہ گنجائش نہ ہوتی کہ وہ فی الحال ایک ہزار کے ساتھ منافع لے کر اسے فروخت کردے جب تک کہ وہ یہ بیان نہ کردے کہ اس نے یہ غلام موجل قیمت پر خریدا ہے۔- اس سے اس پر دلالت ہوگئی کہ عقد بیع میدں اجل مشروط ثمن میں کمی کا سبب بنتی ہے اور حکم میں یہ وزن میں کمی کی طرح ہوتی ہے جب یہ بات اس طرح ہے تو قرض اور بیع کے درمیان ہماری بیان کردہ صورت کے لحاظ سے تشبیہ درست ہے اور اس پر معترض کا مذکورہ بالا اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ قرض میں مدت مقرر کرنے کے بطلان پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول دلالت کرتا ہے۔- آپ نے فرمایا (انما الربوا فی النسیۃ۔ ( ) سود تو ادھار میں ہوتا ہے) آپ نے بیع اور قرض کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اس لئے یہ قول تمام صورتوں پر محمول ہوگا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ قرض چونکہ ایک قسم کا تبرع یعنی نیکی ہے جو اسی وقت درست ہوتا ہے جب اسے اپنے قبضے میں لے لیا جائے اس لئے یہ ہبہ کے مشابہ ہوگیا اس لئے اس میں تاجیل اسی طرح درست نہیں جس طرح ہبہ میں درست نہیں ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہبہ میں تاجیل کو یہ فرما کر باطل کردیا تھا کہ (من) عمر عمری فھی لہ ولورثتہ من بعدہ ( ) جس شخص نے کسی زمین کو آباد کیا وہ زمین اس کی ہوگئی او اس کے بعد اس کے ورثاء کو مل جائے گی) عمریٰ ، ( ) اس جگہ یا زمین کو کہتے ہیں جسے زندگی بھر کے لئے دے دیا جائے۔ آپ نے ملکیت کے لئے مشروط تاجیل کو باطل کردیا۔ نیز دراہم کو بطور قرض دینا گویا بطور رعایت دینا ہے اور انہیں بطور عاریت دینا گویا انہیں بطور قرض دینا ہے کیونکہ اس میں منافع کی تملیک ہوتی ہے اور دراہم لینے والے شخص کو منافع کی تملیک اسی وقت حاصل ہوگی جب وہ ان دراہم کو صرف کردے گا۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو عاریۃً کچھ دراہم دے دے تو یہ قرض ہوگا اس بنا پر ہمارے اصحاب نے دراہم کرائے کے طور پر لینے کو درست قرار نہیں دیا کیونکہ یہ قرض ہوگا اور گویا اس نے دراہم اس شرط پر قرض لئے کہ اس سے زائد واپس کرے گا اب جبکہ عاریت میں د اجل درست نہیں ہے تو قرض میں بھی درست نہیں۔- دراہم قرض دینا عاریت ہے اس پر ابراہیم الہجری کی حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے ابو الاحوص سے روایت کی۔ انہوں نے عبید (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (تدرون ای الصدقۃ خیر، قالوا اللہ ورسولہ اعلم، قال خیر الصدقۃ المختران تمنح اخاک الدرراھم او ظھرا الدایۃ ولین الشاۃ۔ ( ) کیا تم جانتے ہو کہ کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کی خبر تو اللہ اور اس کے رسول کو ہے۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہترین صدقہ منحہ یعنی عطیہ ہے مثلاً تم اپنے بھائی کو دراہم کا یا سواری کی پشت کا یا بکری کے دودھ کا عطیہ دے دو ) اور منحہ عاریت ہوتی ہے۔ آپ نے دراہم کو بطور قرض دینا اسے عاریت کے طور پر دینا قرار دیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک دوسری حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ (المنحۃ مردودۃ۔ ( ) منحہ یعنی عطیہ قابل واپسی ہے) اب جبکہ عاریت میں تاجیل درست نہیں ہے اسی طرح قرض میں بھی درست نہیں ہے۔ امام شافعی نے قرض میں تاجیل کو جائز قرار دیا ہے۔ وباللہ التوفیق۔ ( ) - بیع کا بیان - قول باری ہے (واحل اللہ البیع۔ ( ) اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کردیا) یہ حکم تمام اقسام کی بیع کے لئے عام ہے کیونکہ لفظ بیع ایسے معنی کے لئے موضوع ہے جو لغوی لحاظ سے پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے اور وہ ہے طرفین یعنی بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی اور ایجاب و قبول کے ذریعے مال کے بدلے مال کی تملیک۔ لغت کے مفہوم کے مطابق یہی بیع کی حقیقت ہے۔ پھر بیع کی بعض صورتیں جائز ہیں اور بعض فاسد لیکن یہ بات کسی بیع کے جواز یا فساد میں اختلاف کی صورت کے اندر لفظ کے عموم کے اعتبار سے مانع نہیں ہے۔- اہل علم کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس آیت کے انداز بیان میں اگرچہ عموم پایاجاتا ہے لیکن اس سے مراد خصوص ہے۔ کیونکہ تمام اہل علم بیع کی بہت سی صورتوں کی ممانعت پر متفق ہیں۔ مثلاً ایسی چیز کی بیع جو فروخت کنندہ کے قبضے میں ابھی نہ آئی ہو یا ایسی چیز کی بیع جس کا انسان کے پاس وجود ہی نہ ہو یا ایسی بیع جس میں دھوکے کا پہلو موجود ہو یا نامعلوم اشیاء کی بیع یا شرعی لحاظ سے حرام اشیاء کی بیع وغیرہ۔- آیت کا لفظ بیع کی ان تمام صورتوں کے جواز کا متقاضی ہے لیکن دوسرے دلائل کی بنا پر ان صورتوں کی تخصیص کردی گئی ہے۔ پھر بھی تخصیص ان صورتوں میں جہاں تخصیص کے دلائل موجود نہ ہوں آیت کے لفظ کے عموم کے اعتبار سے مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ لفظ کے عموم سے بیع موقوف کے جواز پر استدلال کیا جائے کیونکہ قول باری ہے (واحل اللہ البیع) ( ) لفظ بیع ایجاب اور قبول کے لئے اسم ہے۔ اس کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ اس کے ذریعے بیع کرنے والے کو ملکیت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ بائع یا مشری یا دونوں کی طرف سے اختیار کی شرط پر کی جانے والی بیع، جسے بیع خیام کہتے ہیں۔ ایسی ہوتی ہے جو ملکیت کو واجب نہیں کرتی۔ حالانکہ وہ بیع ہوتی ہے۔ اسی طرح بائع اور مشتری کے نمائندے یا وکیل بیع کرتے ہیں لیکن وہ کسی چیز کے مالک نہیں بنتے۔- قول باری ہے (وحرم الربوٰ ۔ ( ) اللہ نے سود کو حرام کردیا) ربوٰ کے متعلق گزشتہ سطر میں ہم بیان کر آئے ہیں کہ یہ ایک مجمل لفظ ہے جسے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اور اس کا شرعی مفہوم توقیفی ہے یعنی صاحب شرع کی طرف سے کی جانے والی وضاحت پر موقوف ہے۔ ربوٰ کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو بیع ہیں اور بعض صورتیں بیع نہیں ہیں۔ یہ اہل جاہلیت کا سود ہے یعنی وہ قرض جس میں مدت کی شرط لگادی گئی ہو نیز قرض لینے والے پر قرض کی رقم سے زائد رقم بھی لازم کردی گئی ہو۔- قول باری (واحل اللہ البیع) ( ) کے عموم سے بیع کی وہ صورتیں جو سود تھیں آیت کے سیاق میں وہ مفہوم موجود ہے جو اس عموم سے ان صورتوں کی تخصیص کو واجب کردیتا ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ لفظ ربوٰ کا اجمال لفظ بیع کے اجمال کو واجب کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے۔ کیونکہ بیع کی وہ صورتیں جن پر ربوٰ کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا ان میں لفظ کے عموم کا حکم جاری ہے۔- صرف بیع کی ان صورتوں میں توقف ہوتا ہے جن کے متعلق ہمیں شک ہوتا ہے کہ آیا سود ہیں یا نہیں۔ لیکن جن صورتوں کے متعلق ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ سود نہیں ہیں تو ان پر تحریم ربوٰ کی آیت کے ذریعے اعتراض کرنا درست نہیں ہے۔ ہم نے یہ بات اصول فقہ میں بیان کردی ہے۔- قول باری ہے (وحرم الربوٰ ۔ ( ) اللہ نے سود کو حرام کردیا) ربوٰ کے متعلق گزشتہ سطر میں ہم بیان کر آئے ہیں کہ یہ ایک مجمل لفظ ہے جسے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اور اس کا شرعی مفہوم توقیفی ہے یعنی صاحب شرع کی طرف سے کی جانے والی وضاحت پر موقوف ہے۔ ربوٰ کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو سبع ہیں اور بعض صورتیں بیع نہیں ہیں۔ یہ اہل جاہلیت کا سود ہے یعنی وہ قرض جس میں مدت کی شرط لگادی گئی ہو نیز قرض لینے والے پر قرض کی رقم سے زائد رقم بھی لازم کردی گئی ہو۔- قول باری (واحل اللہ البیع) ( ) کے عموم سے بیع کی وہ صورتیں جو سود تھیں آیت کے سیاق میں وہ مفہوم موجود ہے جو اس عموم سے ان صورتوں کی تخصیص کو واجب کردیتا ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ لفظ ربوٰ کا اجمال لفظ بیع کے اجمال کو واجب کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ بیع کی وہ صورتیں جن پر ربوٰ کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا ان میں لفظ کے عموم کا حکم جاری ہے۔- صرف بیع کی ان صورتوں میں توقف ہوتا ہے جن کے متعلق ہمیں شک ہوتا ہے کہ آیا سود ہیں یا نہیں۔ لیکن جن صورتوں کے متعلق ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ سود نہیں ہیں تو ان پر تحریم ربوٰ کی آیت کے ذریعے اعتراض کرنا درست نہیں ہے۔ ہم نے یہ بات اصول فقہ میں بیان کردی ہے۔- قول باری ہے (ذلک بانھم قالوا انما البیع مثل الربوٰ ۔ ( ) یہ اس لئے کہ انہوں نے یہ کہا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہے) اس میں ان منکرین کے خیال کی ترجمانی ہے جو سود کی اباحت کے قائل تھے ان کا گمان تھا کہ سود کی بنا پر حاصل شدہ زیادتی اور بیع کی مختلف صورتوں میں حاصل شدہ منافع کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔- لیکن ان لوگوں نے دنیا اور آخرت کے ان مصالح کو نظرانداز کردیا جن کی خاطر اللہ تعالیٰ نے نظام شریعت نازل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس جہالت کی مذمت کرتے ہوئے قیامت میں ان پر پیش آنے والی حالت اور لازم ہونے والی سزا کی اطلاع دی۔- قول باری ہے (واحل اللہ البیع) ( ) اس سے ایسی چیز کی بیع کے جواز کے لئے استدلال کیا گیا ہے جسے مشتری نے نہ دیکھا ہو۔ نیز بیع کی اس صورت کے جواز کے لئے بھی استدلال کیا گیا ہے جس میں گندم کے بدلے مساوی مقدار میں بعینہ وہی گندم خریدی گئی ہو اور قبضہ سے پہلے سودے کی مجلس ختم ہوگئی ہو، اسی طرح طرفین کی علیحدگی سے بیع باطل نہیں ہوتی۔- وجہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ لفظ کے ورود سے بیع کے تمام لزوم اور اس کے حقوق یعنی قبضے میں لینا، تصرف کرنا اور ملکیت وغیرہ کا علم ہوجاتا ہے جس کا تقاضا ہے کہ طرفین کی طرف سے مبیع اور ثمن پر قبضہ نہ کرنے کے باوجود بھی یہ احکام باقی رہیں۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (حرمت علیکم امھاتکم ( ) تم پر تمہاری مائیں حرام کردی گئی ہیں) اس سے مراد ان سے جنسی تلذذ کے حصول کی حرمت ہے۔ اس مسئلے کے لئے قول باری (ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم۔ ( ) اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائو الا ( ) یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت کی شکل ہو) سے بھی دو طریقوں سے استدلال کیا گیا ہے۔- اول یہ کہ آیت کا تقاضا ہے کہ بائع اور مشتری کی علیحدگی سے قبل اور علیحدگی کے بعد قبضہ کے بغیر کھانے کی اباحت ہے۔ دوم یہ کہ مشتری کے لئے علیحدگی کے بعد بائع کے ثمن پر قبضہ کرنے سے پہلے کھانے کی اباحت ہے۔- قول باری ہے (فمن جآئہ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ما سلف وامرہ الی اللہ ( ) پس جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے اور وہ آئندہ کے لئے سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا سو کھاچکا اس کا معاملہ اب اللہ کے حوالے ہے) ۔- آیت کا مفہوم یہ کہ جو شخص سود کی نہی کے بعد سود خوری سے باز آجائے تو اس کے لئے سود کی وہ رقمیں حلال ہیں جو سود کی تحریم کے نزول سے پہلے اس کے قبضے میں آگئی تھیں لیکن جو رقمیں ابھی قبضے میں نہیں آئیں وہ یہاں مراد نہیں ہیں کیونکہ آیت کے نسق و تسلسل میں قبضے میں نہ آئی ہوئی رقموں کی ممانعت اور ان کے ابطال کا ذکر آگیا ہے۔- چنانچہ قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا تقوا اللہ وذروا مابقی من الربوٰۃ ان کنتم مومنین ( ) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تمہارا اللہ پر ایمان ہے) اللہ تعالیٰ نے وہ تمام سودی رقمیں باطل کردیں جو ابھی قبضے میں نہیں آتی تھیں اگرچہ تحریم کے نزول سے قبل یہ سودی سودے پکے ہوچکے تھے لیکن ان سودوں کے نسخ کا حکم دیا جن کی رقمیں قبضے میں آچکی تھیں اس کے لئے یہ قول باری ہے (فمن جاء ہ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ماسلف) ( ) - سدی اور دیگر مفسرین سے یہی تفسیر مروی ہے قول باری ہے (وذروا مابقی من الربوٰا ان کنتم مؤمنین) ( ) اس کے ذریعے وہ سودی سودے باطل کردیے جو باقی رہ گئے تھے اور جن کی رقموں پر ابھی قبضہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن قبضے میں آئے ہوئے سود کو باطل نہیں کیا۔ پھر فرمایا (وان تبتم فلکم رئو وس اموالکم ( ) اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں تمہارا راس المال یعنی اصل زر مل جائے گا) اس میں قبضے میں نہ آئے ہوئے سودی سودوں کے ابطال کی تاکید ہے اور اپنا راس المال لے لینے کا حکم ہے جس میں نہ کوئی سود ہوتا ہے اور نہ کوئی زیادتی۔- حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت جابر (رض) کے واسطحے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے مکہ میں فرمایا اور حضرت جابر (رض) کے قول کے مطابق عرفات میں فرمایا (ان کل ربا کان فی الجاھلیۃ موضوع واول رباً اضعہ ربا العباس بن المطلب۔ ( ) وہ تمام سود جو زمانہ جاہلیت میں تھا آج منسوخ کیا جاتا ہے اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کی سودی رقموں کو منسوخ کرتا ہوں) ۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فعل آیت کے معنی کے مطابق تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے قبضے میں نہ آئی ہوئی رقموں کو باطل کردیا تھا اور قبضے میں آئی ہوئی رقموں کو برقرار رکھا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خطبہ بہت سے احکامات پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ عقد بیع میں قبضہ سے پہلے اگر ایسی بات پیدا ہوجائے جو اس عقد کی تحریم کی موجب ہو تو یوں سمجھا جائے گا کہ یہ بات عقد بیع کے وقوع کے وقت بھی موجود تھی دوسرے الفاظ میں یہ بیع فاسد ہوجائے گی۔- اگر قبضہ کے بعد تحریم کو واجب کرنے والی بات پیدا ہوجائے تو وہ بیع کو نسخ نہیں کرے گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ عیسائی اگر شراب کے بدلے میں کسی غلام کا سودا کریں تو ہمارے نزدیک ان کی یہ بیع درست ہوگی لیکن شراب پر قبضہ کرنے سے پہلے اگر کوئی ایک مسلمان ہوگیا تو بیع فاسد ہوجائے گی۔- اسی طرح اگر کسی مسلمان نے کوئی شکار خریدلیا اور پھر بائع یا مشتری نے احرام باندھ لیا تو عقد باطل ہوجائے گا کیونکہ اس پر قبضے سے پہلے ایسی حالت طاری ہوگئی جو اس کی تحریم کو واجب کرتی ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان سودی رقموں کو باطل کردیا جو ابھی قبضے میں نہیں گئی تھیں۔ کیونکہ ان پر وہ حالت طاری ہوگئی جو قبضے سے پہلے ان کی تحریم کو واجب کرنے والی تھی۔- اگر اوپر کی مثالوں میں شراب اپنے قبضے میں لی جاچکی ہوتی پھر دونوں یا ایک مسلمان ہوجاتا یا شکار پر قبضہ کے بعد جانبین یا ایک احرام باندھ لیتا تو دونوں سودے باطل نہ ہوتے جس طرح کہ قبضے میں لی ہوئی سودی رقموں کو اللہ تعالیٰ نے باطل قرار نہیں دیا جس وقت تحریم کی آیت نازل کی۔ ان مسائل کی نظائر میں اس اصول کے مطابق عمل جائز ہے۔ اس اصول سے یہ لازم نہیں آتا کہ اگر کسی شخص نے کوئی غلام خریدا ہوا اور اس پر قبضہ کرنے سے پہلے وہ غلام قتل ہوجائے گا اور اسی کو مبیع سمجھا جائے گا نیز مشتری کو اب اختیار ہوگا غلام کی جگہ اس کی قیمت رکھ لے یا بیع فسخ کرکے فروخت کنندہ سے اپنی رقم واپس لے لے۔ اس میں اس پر بھی دلالت ہے کہ بائع کے ہاتھ میں مبیع کی ہلاکت اور اس پر اس کے قبضے کا خاتمہ عقد کو باطل کردیتا ہے۔- ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ بیع باطل نہیں ہوتی اور مشتری کے لئے ثمن لازم ہوتا ہے جبکہ بائع مبیع کو اس کے حوالے کرتے میں مانع نہ ہوا ہو۔ آیت کی دلالت یہ ظاہر کرتی ہے کہ مبیع یعنی فروخت شدہ چیز پر قبضے سے دراصل عقد بیع کی تکمیل ہوتی ہے اور قبضہ اٹھ جانا بیع کو باطل کردیتا ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے سود پر قبضے کو ساقط کردیا تو طرفین کے لئے ہوئے عقد کو باطل کردیا اور صرف راس المال پر انحصار کا حکم دے دیا۔- یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فروخت شدہ چیز کو اپنے قبضے میں لے لینا سودے کی صحت کے شرائط میں سے ہے اور جب سودے پر کوئی ایسی حالت طاری ہوجائے جو اس سودے کو ساقط کرنے والی ہو تو وہ سودے کے بطلان کو واجب کردیتی ہے۔ اس میں اس پر بھی دلالت ہے کہ دارالحرب میں کیے جانے والے سودے اگرچہ فاسد بنیادوں پر کئے گئے ہوں دارالحرب پر امام المسلمین کے غلبے کی وجہ سے فسخ نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بات تو معلوم ہے کہ تحریم ربوٰ کی آیت کے نزول اور مکہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہ اور قبضے میں نہ لی گئی سودی رقوم کی منسوخی کے درمیان مکہ میں فتح مکہ سے قبل بہت سے سودی سودے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان سودوں کے فسخ کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی نزول آیت سے قبل اور نزول آیت کے بعد کے سودوں میں کوئی فرق کیا۔- اس سے یہ دلالت ہوئی کہ دارالحرب میں کافروں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے سودے دارالحرب پر امام المسلمین کے غلبہ کی وجہ سے فتخ نہیں ہوں گے بشرطیکہ ان سودوں میں فروخت شدہ چیزوں پر قبضے کا عمل مکمل ہوچکا ہو۔- قول باری (فمن جاء ہک موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ما سلف) ( ) بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ اس لئے کہ اسلام سے پہلے جن سودی رقموں پر قبضہ ہوگیا تھا وہ قبضہ کرنے والوں کے لئے حلال کردی گئیں۔ ایک قول یہ ہے کہ (فلہ ما سلف) ( ) کا مطلب نزول آیت سے قبل سود کھانے کے گناہوں کی معافی ہے۔- یعنی اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کردے گا لیکن یہ تفسیر درست نہیں ہے اس لئے کہ قول باری ہے (وامرہ الی اللہ) ( ) یعنی ثواب اور عقاب کے استحقاق کے لحاظ سے اس کا معاملہ اب اللہ کے سپرد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں ایسے شخص کے متعلق حکم کی ہمیں اطلاع نہیں دی۔- ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر قائل کی بیان کردہ تفسیر ہی آیت کی مراد ہو تو اس سے ہماری بیان کردہ بات کی نفی نہیں ہوتی۔ اس طرح آیت دونوں باتوں پر محمول ہوگی اس لئے کہ اس میں ان دونوں باتوں کا احتمال موجود ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردے گا اور اسلام سے پہلے اس کی لی ہوئی سودی رقمیں اس کی ہوں گی۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اہل حرب کے تمام سودے ان کے مسلمان ہوجانے کے بعد باقی رکھے جائیں گے بشرطیکہ اسلام لانے سے پہلے طرفین میں مبیع اور ثمن کو قبضے میں لینے کا عمل مکمل ہوچکا ہو۔ کیونکہ قول باری ہے (فلہ ما سلف وامرہ الی اللہ) ( )

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٧٥۔ ٢٧٦) اب اللہ تعالیٰ سود خوروں کا انجام کار بیان فرماتے ہیں کہ یہ لوگ قیامت میں اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے جیسا کہ دنیا میں شیطان کسی کو جنون سے خبطی اور دیوانہ بنا دے، آخرت میں یہ خبطی پن اور دیوانگی سود خور کی علامت اور نشانی ہوگی اور یہ عذاب اس وجہ سے ہوگا کہ ان لوگوں نے سود کو حلال سمجھنے کے لیے یہ جواز تراش لیا ہے کہ جب کسی چیز کو ادھار فروخت کیا جائے اور پھر اس کی قیمت پوری ہوجائے تو قرض میں اور اضافہ کرکے مدت بڑھا دینا اسی طرح حلال ہے کہ کسی چیز کے پہلی مرتبہ نقد فروخت کرنے پر نفع لینا جائز اور حلال ہے اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کے فروخت کرتے وقت پہلی مرتبہ نفع لینا حلال قرار دیا ہے اور بعد میں ادھار کی مدت بڑھانے پر اس نفع کو حرام قرار دیا ہے لہٰذا جس شخص کو سود کے بارے میں اس کے پروردگار سے ممانعت پہنچی اور اس نے اس غلط کام سے توبہ کرلی تو حرمت سود سے پہلے جو کچھ اس نے کیا تھا اس پر اب ظاہرا کوئی پکڑ نہیں اور اسکی یہ توبہ بقیہ زندگی کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ چاہے عذاب سے محفوظ رکھے اور چاہے ذلیل ورسوا کرے اور جو اس کی حرمت سن کر پھر بھی سود کا طریقہ اختیار کرے تو وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو (اگر وہ سود کو حلال نہ سمجھتا ہو) اس سے نجات دے اللہ دنیا وآخرت میں سود کو مٹاتے اور صدقات واجبہ اور نفلیہ کو جب کہ وہ خالصتا اللہ تعالیٰ کے لیے ہوں قبول فرماتے ہیں۔- اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کافر اور سود کی حرمت کا انکار کرنے والے اور سود کھا کر اس کے گناہ میں گرفتار ہونے والے کو پسند نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

فرمایا :- آیت ٢٧٥ (اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا) (لاَ یَقُوْمُوْنَ الاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ط) - یہاں عام طور پر یہ سمجھا گیا ہے کہ یہ قیامت کے دن کا نقشہ ہے۔ قیامت کے دن کا یہ نقشہ تو ہوگا ہی ‘ اس دنیا میں بھی سود خوروں کا حال یہی ہوتا ہے ‘ اور ان کا یہ نقشہ کسی سٹاک ایکسچینج میں جا کر بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ معلوم ہوگا گویا دیوانے ہیں ‘ پاگل ہیں ‘ جو چیخ رہے ہیں ‘ دوڑ رہے ہیں ‘ بھاگ رہے ہیں۔ وہ نارمل انسان نظر نہیں آتے ‘ مخبوط الحواس لوگ نظر آتے ہیں جن پر گویا آسیب کا سایہ ہو۔ - (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ٧ ) - کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ میں نے سو روپے کا مال خریدا ‘ ١١٠ روپے میں بیچ دیا ‘ دس روپے بچ گئے ‘ یہ ربح (منافع) ہے ‘ جو جائز ہے ‘ لیکن اگر سو روپے کسی کو دیے اور ١١٠ واپس لیے تو یہ ربا (سود) ہے ‘ یہ حرام کیوں ہوگیا ؟ ایک شخص نے دس لاکھ کا مکان بنایا ‘ چار ہزار روپے ماہانہ کرایے پردے دیا تو جائز ہوگیا ‘ اور دس لاکھ روپے کسی کو قرض دیے اور اس سے چار ہزار روپے مہینہ لینا شروع کیے تو یہ سود ہوگیا ‘ حرام ہوگیا ‘ ایسا کیوں ہے ؟ عقلی طور پر اس طرح کی باتیں سود کے حامیوں کی طرف سے کہی جاتی ہیں۔ (ربح اور ربا کا فرق سورة البقرۃ کی آیت ٢٦ کے ضمن میں بیان ہوچکا ہے۔ ) اس ظاہری مناسبت کی وجہ سے یہ مخبوط الحواس سود خور لوگ ان دونوں کے اندر کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کا عقلی جواب نہیں دیا ‘ بلکہ فرمایا : - (وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ط) - اب تم یہ بات کرو کہ اللہ کو مانتے ہو یا نہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مانتے ہو یا نہیں ؟ قرآن کو مانتے ہو یا نہیں ؟ یا محض اپنی عقل کو مانتے ہو ؟ اگر تم مسلمان ہو ‘ مؤمن ہو تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر سر تسلیم خم کرو : (وَمَا اٰتٰٹکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُق وَمَا نَھٰٹکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْاق) (الحشر : ٧) جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔ یہ تو شریعت کا معاملہ ہے۔ ویسے معاشیات کے اعتبار سے اس میں یہ فرق واقع ہوتا ہے کہ ایک ہے اور ایک ہے ۔ جہاں تک مکان کا معاملہ ہے تو وہ ہے۔ دس لاکھ روپے کے مکان میں جو شخص رہ رہا ہے وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا ؟ وہ اس میں رہائش اختیار کرے گا اور اس کے عوض ماہانہ کرایہ ادا کرے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ نے دس لاکھ روپے کسی کو نقد دے دیے تو وہ انہیں کسی کام میں لگائے گا۔ اس میں یہ بھی امکان ہے کہ دس لاکھ کے بارہ لاکھ یا پندرہ لاکھ بن جائیں اور یہ بھی کہ آٹھ لاکھ رہ جائیں۔ چناچہ اس صورت میں اگر آپ نے پہلے سے طے شدہ ( ) منافع وصول کیا تو یہ حرام ہوجائے گا۔ تو ان دونوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عقلی جواب نہیں دیا۔ جواب دیا کہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا ہے اور ربا کو حرام۔- (فَمَنْ جَآءَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ط) ۔ - وہ اس سے واپس نہیں لیا جائے گا۔ حساب کتاب نہیں کیا جائے گا کہ تم اتنا سود کھاچکے ہو ‘ واپس کرو۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔- (وَاَمْرُہٗ اِلَی اللّٰہِ ط) ۔ - اللہ تعالیٰ چاہے گا تو معاف کر دے گا اور چاہے گا تو پچھلے سود پر بھی سرزنش ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :315 اصل میں لفظ”رِبٰوا“استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں ۔ اصطلاحاً اہل عرب اس لفظ کو اس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وصول کرتا ہے ۔ اسی کو ہماری زبان میں سود کہتے ہیں ۔ نزول قرآن کے وقت سودی معاملات کی اور شکلیں رائج تھیں اور جنہیں اہل عرب ”رِبٰوا“ کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدت مقرر کر دیتا ۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی ، تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا ۔ یا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سے طے کر لیتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہو گی ۔ یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدت کے لیے ایک شرح طے ہو جاتی تھی اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی ، تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی ۔ اسی نوعیت کے معاملات کا حکم یہاں بیان کیا جا رہا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :316 اہل عرب دیوانے آدمی کو”مجنون“ ( یعنی آسیب زدہ ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے ، اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے ، تو یوں کہتے کے اسے جن لگ گیا ہے ۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سود خوار کو اس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبوط الحواس ہو گیا ہو ۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے ، اسی طرح سود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنون میں کچھ پروا نہیں کر تا کہ اس کی سود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت ، اخوت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں ، اجتماعی فلاح و بہبود پر کس قدر تباہ کن اثر پڑ رہا ہے ، اور کتنے لوگوں کی بدحالی سے وہ اپنی خوشحالی کا سامان کر رہا ہے ۔ یہ اس کی دیوانگی کا حال اس دنیا میں ہے ۔ اور چونکہ آخرت میں انسان اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس حالت پر اس نے دنیا میں جان دی ہے ، اس لیے سود خوار آدمی قیامت کے روز ایک باؤلے ، مخبوط الحواس انسان کی صورت میں اٹھے گا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :317 ”یعنی ان کے نظریے کی خرابی یہ ہے کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو منافع لیا جاتا ہے ، اس کی نوعیت اور سود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے ، اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے ، تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہو ۔ اسی طرح کے دلائل موجودہ زمانے کو سود خوار بھی سود کے حق میں پیش کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس روپے سے خود فائدہ اٹھا سکتا تھا ، اسے وہ قرض پر دوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے ۔ وہ دوسرا شخص بھی بہرحال اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قرض دینے والے کے روپے سے جو فائدہ اٹھا رہا ہے ، اس میں سے ایک حصہ وہ قرض دینے والے کو نہ ادا کرے؟ مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دنیا میں جتنے کاروبار ہیں ، خواہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرف کے یا زراعت کے ، اور خواہ انہیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایے اور محنت ہر دو سے ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جس میں آدمی نقصان کا خطرہ ( ) مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک مقرر منافع کی ضمانت ہو ۔ پھر آخر پوری کاروباری دنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی کیوں ہو جو نقصان کے خطرے سے بچ کر ایک مقرر اور لازمی منافع کا حق دار قرار پائے؟ غیر نفع بخش اغراض کے لیے قرض لینے والے کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے ، اور شرح کی کمی بیشی کے مسئلے سے بھی قطع نظر کر لیجیے ۔ معاملہ اسی قرض کا سہی جو نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے لیا جائے ، اور شرح بھی تھوڑی ہی سہی ۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت ، اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں ، اور جن کی سعی اور کوشش کے بل پر ہی اس کاروبار کا بار آور ہونا موقوف ہے ، ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو ، بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل انہی کے سر ہو ، مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انہیں قرض دے دیا ہو وہ بے خطر ایک طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جائے یہ آخر کس عقل ، کس منطق ، کس اصول انصاف اور کس اصول معاشیات کی رو سے درست ہے؟ اور یہ کس بنا پر صحیح ہے کہ ایک شخص ایک کارخانے کو بیس سال کے لیے ایک رقم قرض دے اور آج ہی یہ طے کر لے کہ آئندہ ۲۰ سال تک وہ برابر ۵ فیصدی سالانہ کے حساب سے اپنا منافع لینے کا حق دار ہو گا ، حالانکہ وہ کارخانہ جو مال تیار کرتا ہے اس کے متعلق کسی کو بھی نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کے اندر آئندہ بیس سال میں کتنا اتار چڑھاؤ ہو گا ؟ اور یہ کس طرح درست ہے کہ ایک قوم کے سارے ہی طبقے ایک لڑائی میں خطرات اور نقصانات اور قربانیاں برداشت کریں ، مگر ساری قوم کے اند رسے صرف ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا ہو جو اپنے دیے ہوئے جنگی قرض پر اپنی ہی قوم سے لڑائی کے ایک ایک صدی بعد تک سود وصول کرتا رہے؟ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :318 تجارت اور سود کا اصولی فرق ، جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی ، یہ ہے׃ ( ١ ) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اٹھاتا ہے جو اس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اس محنت ، ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے ، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے ۔ بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ، جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ، جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں ۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے ۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے ۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے ، یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر ۔ ( ۲ ) تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے ، بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے ، ایک ہی بار لیتا ہے ۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو ، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہو گا ۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے ، اس کے لیے کوئی حد نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی ، اس کے تمام وسائل معیشت ، حتّٰی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کر لے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے ۔ ( ۳ ) تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی ۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے ، جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے ، صرف نہیں ہوتی ، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ مالک جائداد کو واپس دے دی جاتی ہے ۔ لیکن سود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے ۔ ( ٤ ) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت ، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے ۔ مگر سودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دوسروں کی کمائی میں شریک غالب بن جاتا ہے ۔ اس کی حیثیت اصطلاحی ” شریک“ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے ، اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے ، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظ تناسب نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے ۔ ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہو جاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے ۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ، خود غرضی ، شقاوت ، بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے ، اور ہمدردی و امداد باہمی کی روح کو فنا کر دیتا ہے ۔ اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :319 یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا ، اسے اللہ معاف کر دے گا ، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”جو کھا چکا سو کھا چکا“ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا ، اسے معاف کر دیا گیا ، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے ۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے ، اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو ۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سودی کاروبار سے سمیٹا ہو ۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطہ نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا ، تو وہ خود اپنی اس دولت کو ، جو حرام ذرائع سے آئی تھی ، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ، جن کا مال اس کے پاس ہے ، اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کر دیا جائے ۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا ۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لطف اٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

184: سود یا ربا ہر اس زیادہ رقم کو کہا جاتا ہے جو کسی قرض پر طے کرکے وصول کی جائے، مشرکین کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم کوئی سامان فروخت کرکے نفع کماتے ہیں اور اس کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے، اسی طرح اگر قرض دے کر کوئی نفع کمائیں تو کیا حرج ہے؟ ان کے اس اعتراض کا جواب تو یہ تھا کہ سامان تجارت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ اسے بیچ کر نفع کمایا جائے، لیکن نقدی اس کام کے لئے نہیں بنائی گئی کہ اسے سامان تجارت بناکر اس سے نفع کمایا جائے، وہ تو ایک تبادلے کا ذریعہ ہے ؛ تاکہ اس کے ذریعہ اشیائے ضرورت خریدی اور بیچی جاسکیں، نقدی کا نقدی سے تبادلہ کرکے اسے بذات خود نفع کمانے کا ذریعہ بنالیا جائے تو اس سے بے شمار مفاسد پیدا ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں بیع اور سود کے درمیان فرق کی تفصیل بیان کرنے کے بجائے ایک حاکمانہ جواب دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دے دیا ہے تو ایک بندے کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حکم کی حکمت اور اس کا فلسفہ پوچھتا پھرے اور گویا عملاً یہ کہے کہ جب تک مجھے اس کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آجائے گا میں اس حکم پر عمل نہیں کروں گا، واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں یقیناً کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے ؛ لیکن ضروری نہیں کہ وہ ہر شخص کی سمجھ میں بھی آجائے، لہذا اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو پہلے اس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرنا چاہئے، اس کے بعد اگر کوئی شخص اپنے مزید اطینان کے لئے حکمت اور فلسفہ سمجھنے کی کوشش کرے تو کوئی حرج نہیں ؛ لیکن اس پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کو موقوف رکھنا ایک مومن کا طرز عمل نہیں۔ 185: مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے لوگوں سے سود وصول کیا ہے، چونکہ اس وقت تک سود کے حرام ہونے کا اعلان نہیں ہوا تھا اس لئے وہ پچھلے معاملات معاف ہیں، اور ان کے ذریعے جو رقمیں وصول کی گئی ہیں وہ واپس کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ حرمت کے اعلان کے وقت جو سود کسی پر واجب الادا ہو وہ لینا جائز نہیں ہوگا ؛ بلکہ اسے چھوڑنا ہوگا جیسا کہ آیت نمبر ٢٧٨ میں حکم دیا گیا ہے۔ 186: یعنی جن لوگوں نے حرمت سودی کو تسلیم نہ کیا اور وہی اعتراض کرتے رہے کہ بیع اور سود میں کوئی فرق نہیں، وہ کافر ہونے کی وجہ سے ابدی عذاب کے مستحق ہوں گے۔ فیصلہ۔