[٣٩١] یہ آیت دراصل صدقات و خیرات کے احکام کا تتمہ ہے۔ یعنی آخر میں ایک دفعہ پھر صدقہ کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اب اس کی عین ضد سود کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ صدقات و خیرات سے جہاں آپس میں ہمدردی، مروت، اخوت، فیاضی پیدا ہوتی ہے وہاں طبقاتی تقسیم بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سود سے شقاوت قلبی، خود غرضی، منافرت، بےمروتی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ پرورش پاتے ہیں اور طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جاتی ہے جو بالآخر کسی نہ کسی عظیم فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اشتراکیت دراصل ایسے ہی فتنہ کی پیداوار ہے۔
یہاں تک چودہ آیات میں صدقے کا بیان تھا، اس کے بعد سود کو حرام قرار دیا۔ جب صدقے کی تاکید فرمائی تو قرض دینا تو بالاولیٰ ضروری ٹھہرا اور قرض پر سود کیوں لیا جائے۔ (موضح)
آٹھویں آیت اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بالَّيْلِ وَالنَّهَار میں ان لوگوں کے اجر عظیم اور فضلیت کا بیان ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے عادی ہیں تمام حالات واوقات میں رات میں اور دن میں خفیہ اور علانیہ ہر طرح فی سبیل اللہ خرچ کرتے رہتے ہیں اس کے ضمن میں یہ بھی بتلا دیا کہ صدقہ و خیرات کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں نہ رات اور دن کی کوئی تعیین ہے اس طرح خفیہ اور علانیہ دونوں طرح سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ثواب ہے بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ خرچ کیا جائے نام ونمود مقصود نہ ہو خفیہ خرچ کرنے کی فضیلت بھی اسی حد تک ہے کہ علانیہ خرچ کرنے کے لئے کوئی ضرورت داعی نہ ہو اور جہاں ایسی ضرورت ہو وہاں علانیہ خرچ کرنا ہی افضل ہے۔- روح المعانی میں بحوالہ ابن عساکر نقل کیا ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے چالیس ہزار دینار اللہ کی راہ میں اسی طرح خرچ کئے کہ دس ہزار دن میں دس ہزار رات میں، دس ہزار خفیہ اور دس ہزار علانیہ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا شان نزول اسی واقعہ صدیق اکبر کو لکھا ہے اسکے شان نزول کے متعلق اور بھی مختلف اقوال ہیں۔
اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ٠ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٤ ؔ - نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- سرر (كتم)- وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس 54] ، أي : کتموها - ( س ر ر ) الاسرار - اور تسارالقوم کے معنی لوگوں کا باہم ایک دوسرے کو بات چھپانے کی وصیت کرنے یا باہم سر گوشی کرنے کے ہیں اور آیت ۔ وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس 54] ( پچھتائیں گے ) اور ندامت کو چھپائیں گے ۔ تو یہاں اسروا کے معنی چھپانے کے ہیں ۔ - علن - العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال :- ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته .- ( ع ل ن ) العلانیہ - ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو
(٢٧٤) جو حضرات پوشیدہ اور دکھا کر صدقہ و خیرات کرتے ہیں، جنت میں ان کو اس کا ثواب ملے گا اور انھیں نہ خوف ہوگا اور نہ غم، یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- شان نزول : (آیت) ” الذین ینفقون اموالھم “۔ (الخ)- طبرانی (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے بزریعہ یزید، عبداللہ (رح) ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے، کہ یہ آیت کریمہ (جہاد کے لیے) گھوڑے رکھنے والوں کے متعلق نازل ہوئی ہے، یزید اور عبداللہ دونوں راوی مجہول ہیں اور عبدالرزاق (رح) اور ابن جریر (رح) ، ابن ابی حاتم (رح) اور طبرانی (رح) نے سند ضعیف کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے ان کے پاس چار درہم تھے، انہوں نے اس میں سے ایک رات کو اور ایک دن کے وقت اور ایک پوشیدہ طور پر اور ایک ظاہر کرکے اللہ کی راہ میں خرچ کیے تھے اور ابن منذر (رح) نے ابن مسیب (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور حضرت عثمان بن عفان (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے، ان حضرات نے سامان جہاد فراہم کیا تھا۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
اب ہم اس سورة مبارکہ کا جو رکوع پڑھ رہے ہیں یہ آج کے حالات میں اہم ترین ہے۔ یہ رکوع سود کی حرمت اور شناعت پر قرآن حکیم کا انتہائی اہم مقام ہے۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی صورت تو غیر اللہ کی حاکمیت کا تصور ہے ‘ جو سب سے بڑا شرک ہے۔ اگرچہ نفسیاتی اور داخلی اعتبار سے سب سے بڑا شرک مادّے پر توکلّ ہے ‘ لیکن خارجی اور واقعاتی دنیا میں اس وقت سب سے بڑا شرک غیر اللہ کی حاکمیت ہے ‘ جو اب عوامی حاکمیت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اس کے بعد اس وقت کے گناہوں اور بدعملی میں سب سے بڑا فتنہ اور فساد سود کی بنیاد پر ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے بڑی شیطنت جو یہودیوں کے ذریعے سے پورے کرۂ ارضی کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بےتاب ہے ‘ وہ یہی سود کا ہتھکنڈا ہے۔ یہاں اس کی حرمت دو ٹوک انداز میں بیان کردی گئی۔ اس مقام پر میرے ذہن میں کبھی کبھی ایک سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس رکوع کی پہلی آیت کا تعلق تو انفاق فی سبیل اللہ سے ہے ‘ لہٰذا اسے پچھلے رکوع کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا ‘ لیکن بعد میں یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی کہ اس آیت کو بڑی حکمت کے ساتھ اس رکوع کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ وہ حکمت میں بعد میں بیان کروں گا - آیت ٢٧٤ (اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بالَّیْلِ وَالنَّہَارِ ) (سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً ) - صدقات واجبہ علانیہ اور صدقات نافلہ خفیہ طور پر دیتے ہیں۔- (فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) - اس کے برعکس معاملہ ان کا ہے جو سود کھاتے ہیں۔ وجہ کیا ہے ؟ اصل مسئلہ ہے قدر زائد ( ) کا آپ کا کوئی شغل ہے ‘ کوئی کاروبار ہے یا ملازمت ہے ‘ آپ کما رہے ہیں ‘ اس سے آپ کا خرچ پورا ہو رہا ہے ‘ کچھ بچت بھی ہو رہی ہے۔ اب اس بچت کا اصل مصرف کیا ہے ؟ آیت ٢١٩ میں ہم پڑھ آئے ہیں : (وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَ ط) لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کتنا خرچ کریں ؟ کہہ دیجیے جو بھی زائد از ضرورت ہو چناچہ اصل راستہ تو یہ ہے کہ اپنی بچت کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دو ۔ یا محتاجوں کو دے دو یا اللہ کے دین کی نشرو اشاعت اور سربلندی میں لگا دو ۔ لیکن سود خورانہ ذہنیت یہ ہے کہ اس بچت کو بھی مزید کمائی کا ذریعہ بناؤ۔ لہٰذا اصل میں سود خوری انفاق فی سبیل اللہ کی ضد ہے۔ یہ عقدہ مجھ پر اس وقت کھلا جب میں نے اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا کے اصول کے تحت سورة الروم کی آیت ٣٩ کا مطالعہ کیا۔ وہاں بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لایا گیا ہے ‘ اللہ کی رضا جوئی کے لیے انفاق اور اس کے مقابلے میں ربا ‘ یعنی سود پر رقم دینا۔ فرمایا : (وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج) اور جو مال تم دیتے ہو سود پر تاکہ لوگوں کے اموال میں (شامل ہو کر) بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ محنت کوئی کر رہا ہے اور آپ اس کی کمائی میں سے اپنے سرمائے کی وجہ سے وصول کر رہے ہیں تو آپ کا مال اس کے مال میں شامل ہو کر اس کی محنت سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اللہ کے ہاں اس کی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ (وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ) اور وہ جو تم زکوٰۃ (اور صدقات) میں دے دیتے ہو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے تو یہی لوگ (اپنے مال اللہ کے ہاں) بڑھا رہے ہیں۔ ان کا مال مسلسل بڑھ رہا ہے ‘ اس کی بڑھوتری ہو رہی ہے۔ چناچہ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات و زکوٰۃ وغیرہ کا معاملہ سود کے بالمقابل اور اس کے برعکس ہے۔ اپنے اس بچت کے مال کو یا تو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا یا پھر سودی منافع حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے گا۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ آج کے بینکنگ کے نظام میں سب سے زیادہ زور بچت ( ) پر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے سیونگ اکاؤنٹ اور بہت سی پرکشش منافع بخش سکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں۔ ان کی طرف سے یہی ترغیب دی جاتی ہے کہ بچت کرو مزید کمانے کے لیے بچت اس لیے نہیں کہ اپنا پیٹ کاٹو اور غرباء کی ضروریات پوری کرو ‘ اپنا معیار زندگی کم کرو اور اللہ کے دین کے لیے خرچ کرو۔ نہیں ‘ بلکہ اس لیے کہ جو کچھ تم بچاؤ وہ ہمیں دو ‘ تاکہ وہ ہم زیادہ شرح سود پر دوسروں کو دیں اور تھوڑی شرح سود تمہیں دے دیں۔ چناچہ انفاق اور سود ایک دوسرے کی ضد ہیں۔