Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

273۔ 1 اس سے مراد مہاجرین ہیں جو مکہ سے مدینہ آئے اور اللہ کے راستے میں ہر چیز سے کٹ گئے دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء اور علماء بھی اس کی ذیل میں آسکتے ہیں۔ 273۔ 2 گویا اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ فقرو غربت کے باوجود (سوال سے بچنا) اختیار کرتے اور چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض نے الحاف کے معنی کئے ہیں بلکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلی صفت عفت بیان کی گئی ہے۔ (فتح القدیر) اور بعض نے کہا کہ وہ سوال میں آہو زاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے۔ اس لئے الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے اس لئے پیشہ ور گداگروں کے بجائے، مہاجرین، دین کے طلباء اور سفید پوش ضرورت مندوں کا پتہ لگا کر ان کی امداد کرنی چاہیے جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خوداری کے خلاف ہے۔ اور بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ ہمیشہ لوگوں سے سوال کرنے والے کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا۔ (بحوالہ مشکوۃ کتاب الزکاۃ باب من لا تحل لہ المسئلۃ ومن تحل لہ)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٨٩] یعنی جن لوگوں نے اپنے آپ کو دین کے علم کے لیے خواہ وہ سیکھ رہے ہوں یا سکھلا رہے ہوں یا دوسرے امور کے لیے وقف کر رکھا ہے اور وہ محتاج ہیں، جیسے دور نبوی میں اصحاب صفہ تھے یا وہ لوگ جو جہاد میں مصروف ہیں یا ان کے بال بچوں کی نگہداشت پر اور ایسے ہی دوسرے لوگوں پر صدقات خرچ کئے جائیں۔- [٣٩٠] ضمناً اس آیت سے سوال نہ کرنے کی فضیلت معلوم ہوئی۔ اس سلسلہ میں چند احادیث نبوی ملاحظہ ہوں :۔- ١۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص سوال سے بچے اللہ بھی اسے بچائے گا اور جو کوئی (دنیا سے) بےپروائی کرے گا۔ اللہ اسے بےپروا کر دے گا اور جو کوئی کوشش سے صبر کرے گا اللہ اسے صبر دے گا اور صبر سے بہتر اور کشادہ تر کسی کو کوئی نعمت نہیں ملی۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ، باب الاستعفاف عن المسئلہ) - ٢۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً ) - ٣۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب من سال الناس تکثرا) - ٤۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب ما تجوز فیہ المسئلہ) - ٥۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کرلے (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب النھی عن المسئلہ) - ٦۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپ کے پاس آ کر سوال کیا۔ آپ نے اسے پوچھا تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ وہ کہنے لگا۔ ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔ وہ لے آیا تو آپ نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا : میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے ؟ اور آپ نے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا : میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں۔- اب آپ نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا : اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خرید اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایا : جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا۔ - پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے۔ چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہوگیا پندرہ دن بعد آپ نے فرمایا : یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو۔ (نسائی کتاب الزکوٰۃ) باب فضل من لایسئل الناس شیأا) - اب دیکھئے کہ جس شخص کے گھر کا اثاثہ ایک ٹاٹ اور پیالہ ہو کیا اس کے محتاج ہونے میں کچھ شک رہ جاتا ہے ؟ لیکن چونکہ وہ معذور نہیں بلکہ قوی اور کمانے کے قابل تھا۔ لہذا آپ نے اسے کچھ دینے کے بجائے دوسری راہ تجویز فرمائی، پھر اسے عزت نفس کا سبق دے کر کسب حلال اور محنت کی عظمت و اہمیت بتلائی۔ جس سے وہ چند دنوں میں آسودہ حال ہوگیا، یہ تھا آپ کا انداز تربیت و تزکیہ نفس۔- ٧۔ حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کون ہے جو مجھے یہ ضمانت دے کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرے گا تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ثوبان کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں چناچہ اس کے بعد انہوں نے کبھی کسی سے سوال نہ کیا۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل من لا یسئل الناس شیأا) - ٨۔ عرفہ کے دن ایک شخص لوگوں سے مانگ رہا تھا۔ حضرت علی (رض) نے سنا تو اسے کہنے لگے آج کے دن اور اس جگہ تو اللہ کے سوا دوسروں سے مانگتا ہے ؟ پھر اسے درے سے پیٹا۔ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ فصل ثالث) - ٩۔ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں صدقہ کا مال تقسیم فرما رہے تھے دو آدمی آپ کے پاس آئے اور آپ سے صدقہ کا سوال کیا۔ وہ خود کہتے ہیں آپ نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا، پھر نگاہ نیچی کی آپ نے ہمیں قوی اور طاقتور دیکھ کر فرمایا : اگر تم چاہو تو تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ کے مال میں مالدار اور قوی کا کوئی حصہ نہیں جو کما سکتا ہو۔ (ابو داؤد، نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب مسئلہ القوی المکتسب) - ١٠۔ ایک دفعہ آپ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر صدقہ کا سوال کیا تو آپ نے اسے فرمایا : صدقات کی تقسیم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نبی یا کسی دوسرے کے حکم پر راضی نہیں ہوا بلکہ خود ہی اس کو آٹھ مدات پر تقسیم کردیا ہے۔ اب اگر تو بھی ان میں شمار ہوتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں۔ (حوالہ ایضاً ) - ١١۔ حضرت قبیصہ بن مخارق کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے پاس صدقہ آئے۔ پھر ہم تیرے لیے کچھ کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے فرمایا : قبیصہ تین شخصوں کے علاوہ کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑجائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر رک جائے۔ دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے کہ اس کا سارا مال تباہ کردے وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آگئی ہو۔ یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین معتبر شخص اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے اسے سوال کرنا جائز ہے تاآنکہ اس کی محتاجی دور ہوجائے۔ پھر فرمایا : اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کر کے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ) - ١٢۔ عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم سات آٹھ آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ پانچ نمازیں ادا کرو اور اللہ کی فرمانبرداری کرو اور ایک بات چپکے سے کہی کہ لوگوں سے کچھ نہ مانگنا۔ پھر میں نے ان میں بعض افراد کو دیکھا کہ اگر اونٹ سے ان کا کوڑا گرپڑتا تو کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں پکڑا دے (کتاب الزکوٰۃ باب النہی عن المسئلہ) - ١٣۔ حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ پھر ایک دفعہ مانگا تو آپ نے دیا۔ پھر فرمایا : اے حکیم یہ دنیا کا مال دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں میٹھا ہے لیکن جو اسے سیر چشمی سے لے اس کو تو برکت ہوگی اور جو جان لڑا کر حرص کے ساتھ لے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نچلے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہوتا ہے۔ حکیم کہنے لگے : یا رسول اللہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ میں آج کے بعد مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔ (پھر آپ کا یہ حال رہا کہ) حضرت ابوبکر صدیق (رض) آپ کو سالانہ وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ حضرت عمر (رض) نے بھی اپنے دور خلافت میں انہیں وظیفہ دینے کے لیے بلایا تو انہوں نے انکار کردیا۔ حضرت عمر (رض) حاضرین سے کہنے لگے : لوگو تم گواہ رہنا میں حکیم کو اس کا حق جو غنائم کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں اور نہیں لیتا۔ غرض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئے ہوئے عہد کا اتنا پاس تھا کہ انہوں نے تاحین حیات سوال تو درکنار کسی سے کوئی بھی چیز قبول نہیں کی۔ (بخاری، کتاب الوصایا، باب تاویل قول اللہ تعالیٰ من بعد وصیہ توصون بھا اودین)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب کے بعد اب خاص طور پر کچھ لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے، جو سب سے زیادہ مدد اور مالی تعاون کے حق دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی چھ صفات بیان فرمائی ہیں اور یہ ساری صفات اصحاب صفہ میں پائی جاتی تھیں، اس لیے اس آیت کے سب سے پہلے مصداق وہی ہیں، پھر قیامت تک جو لوگ بھی ان صفات کے حامل ہوں گے وہ سب سے زیادہ مالی تعاون کے حق دار ہوں گے، اب آپ وہ صفات ملاحظہ فرمائیں : - 1 ” لِلْفُقَرَاۗءِ “ یہاں ان کے فقر کا سبب بیان نہیں فرمایا، سورة حشر میں بیان فرمایا ہے : (لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ ) [ الحشر : ٨ ] ”(یہ مال) ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال باہر کیے گئے۔ “ اب وہ خالی ہاتھ تھے، نہ ان کے پاس مال تھا نہ گھر۔ ان کے لیے مسجد نبوی میں ایک صفہ بنادیا گیا۔ ان کی تعداد چار سو تھی جو غزوات اور مہموں پر بھیجنے کی وجہ سے کم زیادہ ہوتی رہتی تھی۔ - 2 ” الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ احصار لغت میں یہ ہے کہ آدمی جو کام کرنا چاہتا ہے اس کے کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش آجائے، مثلاً کوئی بیماری، بڑھاپا، خرچ نہ ہونا، یا کوئی دشمن وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں روکے گئے ہیں، یعنی جہاد اور طلب علم نے انھیں کمائی کرنے سے روک دیا ہے، وہ منتظر بیٹھے ہیں کہ کب حکم ہو اور وہ جہاد کے لیے نکلیں۔ یہ لوگ اللہ کی خاطر گھر سے نکلے، اللہ کی خاطر مال مویشی چھوڑ کر فقر اختیار کیا اور اب اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں وقف کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی جو مجاہد یا دین کے طالب علم کاروبار یا ملازمت کے بجائے اپنے آپ کو جہاد اور دینی علوم کے حصول کے لیے روکے ہوئے ہیں ان پر خرچ کرنا اولین فریضہ ہے۔- (3 )” لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ ۡ“ یعنی جہاد اور طلب علم کی وجہ سے وہ سفر نہیں کرسکتے۔ - 4 ” يَحْسَبُھُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ“ یعنی ان کی بےنیازی، عزت نفس اور سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ وہ غنی ہیں۔ بندہ (عبد السلام) عرض کرتا ہے کہ میرے والد حافظ محمد ابوالقاسم (رض) نے مجھے اپنے طالب علمی کے زمانے کا واقعہ سنایا کہ وہ ان دنوں فیروز پور کے ایک گاؤں ” لکھوکی “ میں پڑھتے تھے، والد فوت ہوچکے تھے، گھر میں غربت تھی اور سردی کے موسم میں قمیص بھی نہیں تھی۔ فرماتے تھے کہ میں نے وہ چھ ماہ قمیص کے بغیر دوہر (دوہرا کھیس) لپیٹ کر گزار دیے، کسی کو پتا تک نہیں چلنے دیا کہ میرے پاس قمیص نہیں، پھر والدہ نے روئی وغیرہ کی چنائی سے حاصل ہونے والی کچھ رقم بھیجی تو انھوں نے قمیص بنائی۔ [ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہُ وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِی الْمَھْدِیِّیْنَ ]- 5 ” تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ “ تو انھیں ان کی علامت سے پہچان لے گا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ بھوک کی وجہ سے کمزوری اور چہرے کی زردی سے تم ان کا فقر پہچان لو گے، مگر یہ معنی ہو تو یہ تو ناواقف بھی پہچان لیتا ہے، اس لیے اس کا مطلب چہرے کا نور اور وہ رونق ہے جو ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ان کے چہرے پر نمایاں تھی، جیسا کہ فرمایا : (سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ) [ الفتح : ٢٩ ] ” ان کی شناخت ان کے چہروں میں ( موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ “ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چہرے کی ایک خاص رونق سے پہچانے جاتے تھے۔ دیکھیے سورة فتح کی آخری آیت کی تفسیر۔- 6 ” لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا “ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ بظاہر اس کا معنی یہ ہے کہ وہ سوال تو کرتے ہیں مگر لوگوں سے لپٹ کر نہیں، مگر یہ معنی درست نہیں، کیونکہ اگر یہ معنی ہو تو پچھلے دونوں جملے بےمقصد ٹھہرتے ہیں، کیونکہ جب سوال کرلیا تو تعفف (سوال سے بچنا) کہاں رہا اور پھر پہچان کے لیے چہرے کی علامت پر غور کی کیا ضرورت ہے، فقر کا اظہار تو ان کے سوال ہی سے ہوگیا، اس لیے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ نہ وہ لوگوں سے سوال کرتے ہیں نہ لپٹتے ہیں۔ یہاں ” لا “ صرف ” يَسْــَٔـلُوْنَ “ پر نہیں بلکہ ” اِلْحَافًا “ پر بھی ہے۔ دراصل یہ بھکاریوں کی عادت کی مذمت ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں، مگر ہمارے یہ فقراء ایسا نہیں کرتے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے میرا باپ نامی گرامی چور نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چور تو تھا مگر نامی گرامی نہیں، بلکہ وہ دوسرے آدمی کو تعریض کر رہا ہے کہ تمہارا باپ ایسا تھا۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بالطَّعَّانِ وَلا اللَّعَّانِ ) ” مومن بہت طعن کرنے والا اور بہت لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔ “ [ ترمذی، البروالصلۃ، باب ما جاء فی اللعنۃ : ١٩٧٧، عن عبداللہ (رض) و صححہ الألبانی ] اس کا معنی یہ نہیں کہ وہ تھوڑا طعن اور تھوڑی لعنت کرلیتا ہے، نہیں بلکہ تعریض ہے کہ کافر ایسا ہوتا ہے مومن نہیں۔ اس کی دلیل ایک اور حدیث سے ملاحظہ فرمائیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسکین وہ نہیں جو لوگوں پر چکر لگاتا رہتا ہے، اسے ایک لقمہ یا دو لقمے اور ایک کھجور یا دو کھجوریں دے دی جاتی ہیں تو آگے چل پڑتا ہے، لیکن مسکین وہ ہے جو نہ تو اتنا مال رکھتا ہے جو اسے غنی کر دے اور نہ اس کا پتا چلتا ہے کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب قول اللہ عزوجل : ( للفقراء الذین - احصروا ۔۔ ) : ١٤٧٩، عن أبی ہریرۃ (رض) ]- گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے - کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کی بہت مذمت فرمائی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ “ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب - من سأل الناس تکثرًا : ١٤٧٤، عن ابن عمر ] عوف بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض صحابہ سے خاص طور پر اس بات کی بیعت لی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے اور پانچ نمازیں پڑھیں گے اور اطاعت کریں گے اور ایک خفیہ بات چھپا کر کہی کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال مت کرنا۔ عوف (رض) فرماتے ہیں : ” پھر میں نے ان آدمیوں میں سے بعض کو دیکھا کہ اس کا کوڑا گرپڑتا تو وہ کسی سے سوال نہ کرتا کہ اسے پکڑا دے۔ “ [ مسلم، الزکٰوۃ، باب کراھۃ مسئلۃ الناس : ١٠٤٣ ] البتہ مجبوری کی بات الگ ہے کہ مجبوری میں تو خنزیر کھانے کی بھی اجازت ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین آدمیوں کے لیے سوال کی اجازت دی ہے، ایک وہ جس نے (کسی دیت کی ادائیگی یا کسی کا تاوان اٹھانے کی) کوئی ضمانت اٹھائی ہو، دوسرا وہ آدمی جسے فاقہ پہنچے اور اس کی قوم کے تین عقل مند آدمی اسے فاقہ پہنچنے کی شہادت دیں، تیسرا وہ آدمی جسے کوئی آفت پہنچے جو اس کا سارا مال برباد کر دے۔ ان تینوں کو ضرورت پوری ہونے تک سوال کی اجازت ہے، ضرورت پوری ہوجائے تو مانگنا چھوڑ دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے قبیصہ ان کے سوا جو سوال بھی ہے حرام ہے، سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔ “ [ مسلم، الزکاۃ، باب من تحل لہ المسئلۃ : ١٠٤٤، عن قبیصۃ بن مخارق (رض) ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ (الی قولہ) فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ یہاں فقراء سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو دینی مشغولیت کی وجہ سے دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتے۔- يَحْسَبُھُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی فقیر قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہو تو اس کی وجہ سے اس کو غنی کہا جائے گا اور ایسے آدمی کو زکوٰۃ دینا بھی صحیح ہوگا (قرطبی) - تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ سے معلوم ہوا کہ علامات کو دیکھ کر حکم لگانا صحیح ہے، چناچہ اگر کوئی مردہ اس قسم کا پایا جائے کہ اس پر زنا رہے اور اس کا ختنہ بھی نہیں کیا ہوا ہو تو اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا (قرطبی) - لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا اس آیت سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وہ لپٹ کر نہیں مانگتے لیکن بغیر لپٹ کر مانگنے کی نفی نہیں ہے، چناچہ بعض حضرات کا یہی قول ہے لیکن جمہور کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سوال بالکل ہی نہیں کرتے، لانہم متعففون عن المسألۃ عفۃ تامۃ (قرطبی )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۡيَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۝ ٠ ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۝ ٠ ۚ لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۝ ٠ ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝ ٢٧٣ ۧ- حصر - الحَصْر : التضييق، قال عزّ وجلّ : وَاحْصُرُوهُمْ [ التوبة 5] ، أي : ضيقوا عليهم، وقال عزّ وجل : وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء 8] ، أي : حابسا . قال الحسن : معناه : مهادا «5» ، كأنه جعله الحصیر المرمول کقوله : لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ [ الأعراف 41] فحصیر في الأول بمعنی الحاصر، وفي الثاني بمعنی المحصور، فإنّ الحصیر سمّي بذلک لحصر بعض طاقاته علی بعض، - ( ح ص ر ) الحصر - ( ن ) کے معنی تضییق یعنی تنگ کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا :۔ اور گھیر لو یعنی انہیں تنگ کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء 8] اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنا رکھا ہے ۔ میں حصیر کے معنی روکنے والا کے ہیں ۔ حسن نے کہا ہے کہ حصیر کے معنی مھاد یعنی بچھونے کے ہیں گویا ان کے نزدیک اس سے حصیر مرموں یعنی چنائی مراد ہے اور چٹائی کو حصیر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ریشے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - ضَّرْبُ ( چلنا)- والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273]- ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - ( تعفّف)- ، مصدر قياسيّ من فعل تعفّف، وزنه تفعّل بضم العین المشدّدة- تعفف۔ مصدر ہے ( باب تفعل) عفت سے جس سے مراد ہے قناعت کی وجہ سے سوال کو ترک کردینا۔ العفۃ کے اصل معنی ہیں تھوڑی سی چیز پر قناعت کرنا جو بمنزل عفافۃ یا عفۃ یعنی بچی کھچی چیز کے ہو۔- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- وسم - الوَسْمُ : التأثير، والسِّمَةُ : الأثرُ. يقال : وَسَمْتُ الشیءَ وَسْماً : إذا أثّرت فيه بِسِمَةٍ ، قال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح 29] ، وقال : تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة 273] ، وقوله : إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر 75] ، أي : للمعتبرین العارفین المتّعظین، وهذا التَّوَسُّمُ هو الذي سمّاه قوم الزَّكانةَ ، وقوم الفراسة، وقوم الفطنة . قال عليه الصلاة والسلام : «اتّقوا فراسة المؤمن فإنّه ينظر بنور الله» وقال تعالی: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ، أي : نعلّمه بعلامة يعرف بها کقوله : تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] ، والوَسْمِيُّ : ما يَسِمُ من المطر الأوّل بالنّبات .- ( وس م )- الوسم ( ض ) کے معنی نشان اور داغ لگانے کے ہیں اور سمۃ علامت اور نشان کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ وسمت الشئی وسما میں نے اس پر نشان لگایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم 16] ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے ؛ یعنی اس کی ناک پر ایسا نشان لگائیں گے جس سے اس کی پہچان ہو سکے گی ۔ جیسا کہ مو منین کے متعلق فرمایا : ۔ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لوگے ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح 29] کثرت سجود گے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة 273] اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لوگے ۔ التوسم کے معنی آثار وقرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کر نا کے ہیں اور اسے علم ذکانت فراصت اور فطانت بھی کہا جاتا ہے حدیث میں یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ خدا تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر 75] بیشک اس ( قصے ) میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں ۔ یعیہ ان کے قصہ میں عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سے نشا نات ہیں الوسمی ۔ موسم بہار کی ابتدائی بارش کو کہتے ہیں - لحف - قال تعالی: لا يَسْئَلُونَ النَّاسَ إِلْحافاً [ البقرة 273] ، أي : إلحاحا، ومنه استعیر :- أَلْحَفَ شاربه : إذا بالغ في تناوله وجزّه . وأصله من اللِّحَافِ ، وهو ما يتغطّى به، يقال : أَلْحَفْتُهُ فَالْتَحَفَ. ( ل ح ف ) الالحاف کے معنی الحاح یعنی چمٹ کر مانگنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا يَسْئَلُونَ النَّاسَ إِلْحافاً [ البقرة 273] اور شرم کے سبب ) لوگوں سے منہ پھوڑ کر ( اور ) لپٹ کر نہیں مانگ سکتے ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر الحف شاریۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی مونچھیں جڑ سے کاٹ دینے کے ہیں اور یہ دراصل لحاف سے ہے اور لحاف کے معنی اوڑھنے کا کپڑا ہیں الحفتہ فا لتحف میں نے اسے لحاف میں ڈ ھا نپ دیا چناچہ وہ اس میں لپٹ گیا ۔- خير ( مال)- وقال بعض العلماء : لا يقال للمال خير حتی يكون کثيرا، ومن مکان طيّب، كما روي أنّ عليّا رضي اللہ عنه دخل علی مولی له فقال : ألا أوصي يا أمير المؤمنین ؟ قال : لا، لأنّ اللہ تعالیٰ قال : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ، ولیس لک مال کثير وعلی هذا قوله : وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] ، أي : المال الکثير وقال بعض العلماء : إنما سمّي المال هاهنا خيرا تنبيها علی معنی لطیف، وهو أنّ الذي يحسن الوصية به ما کان مجموعا من المال من وجه محمود، وعلی هذا قوله : قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ [ البقرة 215] ، - ( خ ی ر ) الخیر ۔ مال پر خیر کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب وہ مال کثیر ہو اور حلال طریق سے جمع کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت علی اپنے ایک غلام کے پاس گئے تو اس نے دریافت کیا اے امیرالمومنین : میں کچھ وصیت نہ ک - ر جاؤں تو حضرت علی نے فرمایا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وصیت کیلئے فرمایا ہے ۔ اور خیر مال کثیر کو کہا جاتا ہے ، ، چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] وہ تو مال کی سخت محبت کرنے والا ہے ۔ میں بھی خیر کے معنی مال کثیر کے ہیں ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ آیت کریمہ میں مال کو خیر کہنے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وصیت صرف اس مال میں بہتر ہے جو محمود طریق سے جمع کیا گیا ہو اس معنی میں فرمایا : ۔ قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ [ البقرة 215] کہدو ( جو چاہو ہو خرچ کرو لیکن ) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ دو درجہ بدرجہ اہل استحقاق میں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (للفقراء الٓین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضرباً فی الارض یحسبھم الجاہل اغنیآء من التعفف تعرفھم بسیماھم لا یسئلون الناس الحافاً ۔ وما تنفقوا من خسیر فان اللہ بہ علیم۔ ( ) خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کروگے وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں رہے گا) یعنی اللہ کو اس نفقہ کی خبر ہے جس کا ذکر شروع میں کیا گیا ہے اور اس سے مراد صدقہ ہے۔ محاہد اور سدی سے مروی ہے کہ اس سے فقراء مہاجرین مراد ہیں۔- قول باری (احصروا فی سبیل اللہ) ( ) کے متعلق ایک قول ہے کہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو دشمن کفار کے خوف سے تجارت کرنے سے روکے رکھا ہے۔ قتادہ سے یہی روایت ہے کیونکہ احصار کا معنی اپنے آپ کو مرض یا ضرورت یا خوف کی بنا پر تصرف کرنے اور چلنے پھرنے سے روکے رکھنا ہے۔ اگر دشمن رکاوٹ بن جائے تو اس موقع پر کہا جاتا ہے ” احصرہ “ یعنی اس نے اسے روکے رکھا۔- قول باری (یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف) ( ) کا معنی ۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔ وہ شخص ہے جو ان کی حالت سے ناواقف ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان لوگوں کی ظاہری ہیئت اور لباس مال داروں کی حالت کے مشابہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ناواقف انہیں مالدار گمان نہ کرتا کیونکہ فقر اور تنگ دستی کی نشاندہی دو باتوں سے ہوتی ہے۔- ایک تو ظاہری خستگی اور بدحالی اور دوسری اپنے آپ کو فقیرکہہ کر دست سوال دراز کرنا ناواقف انہیں مالدار اس لئے خیال کرتا ہے کہ اسے ان کی ظاہری ہیئت اور لباس کی عمدگی نظر آتی ہے جو عام طور پر خوش حالی کی علامت ہوتی ہے۔ آیت میں اس پر دلالت ہورہی ہے کہ جس شخص کے جسم پر اچھے اور قیمتی کپڑے ہوں اسے زکوٰۃ دے دینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے شخص کو بھی زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے جس کی ظاہری حالت مالداروں کی حالت کے مشابہ ہو۔- آیت کی اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ ایک صحت مند اور تندرست انسان کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو زکوٰۃ کی رقم دینے کا حکم دیا تھا۔ یہ لوگ مہاجرین میں سے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشرکین کے خلاف جنگوں میں بھی حصہ لیتے تھے، یہ لوگ نہ تو بیمار تھے اور نہ ہی بینائی سے معذور۔- قول باری ہے (تعرفھم بسیماھم ) ’ السیما ‘ ( ) علامت کو کہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد تخشع یعنی عاجزی ہے۔ سدی اور ربیع بن انس کا قول ہے کہ اس سے مراد تنگ دستی کی علامت ہے۔ قول باری ہے (سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود۔ ( ) ان کی نشانی ان کے چہروں پر ہے جو سجدے کا نشان ہے) یعنی ان کی علامت۔ اس لئے جائز ہے کہ وہ علامت جس کا ذکر قول باری (تعرفھم بسیماھم) ( ) میں ہے، اس سے مراد انسان کے چہرے پر نمایاں ہونے والی بدحالی اور دل کی پریشانی ہو اگرچہ ایسے انسانوں کا لباس اور ظاہری ہیئت عمدہ اور اچھی کیوں نہ ہو۔- یہ بھی جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ایس نشان بتادیا ہو جسے آپ ان کے اندر دیکھ کر ان کی تنگ دستی کا پتہ چلا لیتے تھے۔ اگرچہ ہمیں ان کی یہ تنگ دستی ان کے سوال اور ان کی خستہ حالی کو دیکھ کر ہی معلوم ہوسکتی ہے۔ یہ اس دلالت کرتا ہے کہ ایک شخص کی ظاہری حالت اور علامت کو اس کی اندرونی حالت کا اندازہ لگانے میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔- ہمارے اصحاب نے اس کا اعتبار کیا ہے جبکہ دارالسلام یا دارالحرب میں کوئی ایسی لاش ملے جس کے کفر یا اسلام کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو تو لاش کی ظاہری علامتوں کو دیکھا جائے اگر اس کے جسم پر اہل کفر کی علامتیں ہوں مثلاً اس نے زنار پہن رکھے ہوں یا وہ غیر محققن ہو یا عیسائی راہبوں کی طرح اس نے بال بڑھا رکھے ہوں تو اس پر کافر ہونے کا حکم لگاکر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی اس کا جنازہ پڑھا جائے گا۔- اگر اس میں اہل اسلام کی علامتیں ہوں تو نماز جنازہ اور تدفین کے سلسلے میں اس پر مسلمان ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ اگر کسی قسم کی کوئی علامت نہ پائی جائے اور اس کی لاش اہل اسلام کے کسی شہر میں ملی ہو تو اسے مسلمان قرار دیا جائے گا اور اگر لاش دارالحرب میں ملی ہو تو اس پر کافر ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔- ہمار اصحاب نے علامتوں کی موجودگی میں جائے وقوعہ کے مقابلے میں ان علامتوں کا اعتبار کیا ہے اور علامتیں نہ ہونے کی صورت میں جائے وقوعہ میں بسنے والوں کا اعتبار کیا ہے۔ ہمارے اصحاب نے لقیط (گراپڑ) بچہ جو کسی کے ہاتھ آجائے) کے معاملے میں بھی یہی طریق استدلال اختیار کیا ہے۔- اس کی بھی نظیر یہ قول باری ہے (ان کان قمیصہ قدمن قبل فصدقت وھو من الکاذبین وان کان قمیصہ قد من دبر فکذبت وھو من الصادقین ( ) اگر اس کی (یوسف (علیہ السلام) کی) قمیص آگے سے پھٹی ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف (علیہ السلام) جھوٹوں میں سے ہیں اور اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یوسف (علیہ السلام) سچوں میں سے ہیں) یہاں نشان اور علامت کا اعتبار کیا گیا۔- اسی طرح یہ قول باری ہے (ولتعرفنھم فی لحن القول ( ) اور تم ضرور انہیں ان کے مضمون کلام سے پہچان لو گے) اسی طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے ان کی قمیص کو خون میں لت پت کرکے اسے اپنی سچائی کی علامت بنالی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وجاء و ا علی قمیصہ بدم کذب ( ) وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹا خون لگاکر لے آئے)- قول باری ہے (لا یسئلون الناس الحاف) ( ) یعنی ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ پیچھے پڑ کر مانگنا کیونکہ الالحاف فی المسئلۃ ( ) کا معنی اصرار سے مانگنا ہے۔ آیت اصرار سے مانگنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے (لایسئلون الناس الحافاً ) ( ) میں ان لوگوں سے اس کی نفی کردی ہے کہ وہ پیچھے پڑ کر اور اصرار کرکے نہیں مانگتے لیکن ان سے اس کی نفی نہیں کی کہ وہ مطلقاً کسی سے مانگتے ہی نہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کے مضمون اور خطاب کے مفہوم میں ایسی بات موجود ہے جو سوال کرنے کی بھی مطلقاً نفی کرتی ہے۔- وہ یہ قول باری ہے (یحسبھم الجاھل اغنیآء من التعفف) ( ) اگر یہ لوگ دست سوال دراز کرتے اگرچہ اصرار سے نہ بھی مانگتے تو کوئی شخص انہیں مالدار خیال نہ کرتا۔ اسی طرح قول باری (من التعفف) ( ) کی بھی اس پر دلالت ہورہی ہے اس لئے کہ تعفف کا معنی قناعت اور ترک سوال ہے۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ سرے سے کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔- تعفف ( ) ترک سوال کو کہتے ہیں اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے۔ (من استغنی اغناہ اللہ ومن استعف اعفہ اللہ، ( ) جو شخص لوگوں سے مستغنی رہے اللہ اسے مستغنی رکھے گا اور جو شخص دست سوال دراز کرنے سے بچے اللہ اسے بچالے گا) ۔- جب پچھلی سطور میں ہماری بیان کردہ آیات کی دلالت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تن بدن کے کپڑے زکوٰۃ لینے سے مانع نہیں ہوتے خواہ وہ کپڑے عمدہ ہی کیوں نہ ہوں تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ مکان، سازو سامان، گھوڑا اور نوکر کا بھی یہی حکم ہو کیونکہ عام طور پر ایک انسان کو لباس کی طرح ان کی ضرورت رہتی ہے۔ جب ایک انسان کو ان چیزوں کی لازمی طور پر ضرورت ہوتی ہے تو وہ ان چیزوں کی وجہ سے مال دار نہیں کہلائے گا کیونکہ مال داری ضرورت سے زائد چیز کو کہتے ہیں۔- فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ مال کی وہ کون سی مقدار ہے جس کی بنا پر ایک شخص مالدار ہوجاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جب ایک شخص کے پاس اس کے گھر، سازو سامان، لباس، نوکر اور گھوڑے وغیرہ سے زائد دو سو درہم کی مقدار مال آجائے تو اسے زکوٰۃ دینا حلال نہیں ہوگا۔ اگر یہ مقدار دو سو درہم سے کم ہو تو اسے زکوٰۃ دینا حلال ہوگا۔- ابن القاسم کی روایت میں امام مالک کا قول ہے کہ جب ایک شخص کے پاس چالیس درہم ہوں تو اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ دوسری روایت میں یہ قول ہے کہ چالیس درہم والے شخص کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ جس شخص کے پاس پچاس درہم ہوں اس کے لئے زکوٰۃ لینا حلال نہیں ہے۔- عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ جس شخص کے پاس اس قدر مال نہ ہو جس سے سال بھر کے لئے اس کے روٹی کپڑے کا بندوبست ہوسکے اسے صدقہ دیا جاسکتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی انسان کو بقدر حاجت اتنی زکوٰۃ دے دی جائے جو اسے فقر کی حد سے نکال کر دولتمندی کی حد تک پہنچا دے تو ایسا کرنا درست ہوگا خواہ اس وجہ سے اس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے یا نہ ہو۔- تاہم اس بارے میں میں یعنی امام شافعی کوئی حد مقرر نہیں کرتا۔ المزنی اور الربیع نے یہ بات امام شافعی سے نقل کی ہے۔ ان سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ جو شخص تندرست و توانا اور کسب معاش پر قادر ہو اسے زکوٰۃ دینا حلال نہیں ہے خواہ وہ فقیر ہی کیوں نہ ہو۔- ہم نے جو بات کہی ہے کہ کسی انسان کے پاس اگر اس کی ضروریات سے زائد دو سودرہم ہوں تو وہ غنی شمار ہوگا۔ اس کی صحت کی دلیل وہ حدیث ہے جسے عبدالحمید بن جعفر نے اپنے والد سے انہوں نے قبیلہ مرنیہ کے ایک شخص سے روایت کی ہے کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطبے میں یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا کہ من استغنی اغناہ اللہ ومن استعف اعفہ اللہ ومن سئال الناس ولہ عدل خمس اواق سئال الحافاً ۔ ( ) جو شخص لوگوں سے مستغنی رہے اللہ تعالیٰ اسے مستغنی رکھے گا جو شخص سوال کرنے سے بچے اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو شخص پانچ اوقیہ یعنی دو سو درہم کی مقدار مال ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے تو اللہ کے نزدیک وہ پیچھے پڑ کر مانگنے والا قرار پائے گا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے اس مقدار کا بیان ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ وہی مقدار جس کی موجودگی میں وہ فقر کی حد سے نکل کر غنا کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے لئے سوال کرنا حرام ہوجاتا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ (امرت ان آخذ الصدقۃ من اغنیاء کم فاردھا عیل فقراء ( ) کم ، مجھے حکم ملا ہے کہ تمہارے مالداروں سے صدقہ لے کر تمہارے فقراء پر لوٹادوں)- پھر آپ نے فرمایا (فی مائتی درھم خمسۃ دراھم ولیس فیما دونھا شیء ( ) دو سو درہم پر پانچ درہم زکوٰۃ ہے اور اس سے کم پر کوئی زکوٰۃ نہیں) آپ نے مالداروں کی حد دو سو درہم مقرر کردی اس لئے اس کا ہی اعتبار واجب ہوگیا کسی اور مقدار کا نہیں۔- اس کی دلالت اس پر بھی ہورہی ہے کہ جو شخص اس مقدار کا مالک نہیں ہوگا اسے زکوٰۃ دی جاسکے گی۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دو گروہ بنا دیئے۔ مال دار اور تنگ دست۔ مال دار اسے قرار دیا جو اسی مقدار کا مالک ہو اور اس سے زکوٰۃ کی وصولی کا حکم دیا اور فقیر اس شخص کو قرار دیا جو اس مقدار کا مالک نہ ہو اور اس پر زکوٰۃ لوٹانے کا حکم دیا۔- ابو کبشہ سلولی نے سہل بن الحنظلیہ سے روایت کی ہے کہ ” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (من سئال الناس عن ظھر غنی فما یستکثر جمر جھنم ( ) جو شخص مال داری کی پشت پناہی کے باوجود لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا وہ صرف جہنم کے انگارے جمع کرے گا) ۔- میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مالداری کی پشت پناہی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا (ان یعلم ان عند اھلہ ما یغدیھم ویعشیھم ( ) وہ یہ ہے کہ اس شخص کو یہ معلوم ہو کہ اس کے خاندان کے پاس اتنا مال ہے جس کے ذریعے وہ انہیں صبح اور کا کھانا مہیا کرسکتا ہے)- زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے بنو اسد کے ایک شخص سے روای کی ہے کہ ” میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو ایک شخص سے یہ فرماتے ہوئے سنا (من سائل منکم وعندہ اوقیۃ اوعدلھا فقد سئال الحافاً ۔ ( ) تم میں سے جس شخص نے دست سوال دراز کیا جبکہ اس کے پاس ایک اوقیہ یا اس کے برابر مال ہو تو وہ عند اللہ پیچھے لگ کر مانگنے والا قرار پائے گا) اس وقت ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا تھا۔- محمد بن عبدالرحمن بن یزید نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا یسئل عبدمسالۃ ولہ مایغنیہ الاجاء ت شیئاً اوکدوحا اوخدوشا فی وجھہ، ( ) جو شخص بھی دست سوال دراز کرے گا جبکہ اس کے پاس اس قدر زخموں یا خراشوں کی صورت اختیار کرلے گا)- آپ سے پوچھا گیا کہ وہ کون سی مقدار ہے جس سے اسی کا کام چل سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا : ” پچاس درہم یا اس کے برابر سونا۔ “ یہ روایت سوال کرنے کی کراہت کے بارے میں وارد ہوئی ہے اس میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ ایسے شخص کو صدقہ دینا حرام ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کے لئے ترک سوال کو مستحب اور پسندیدہ سمجھتے تھے جو اس قدر مال کا مالک ہو جس سے اس کے لئے صبح و شام کے کھانے کا انتظام ہوسکتا ہو۔ کیونکہ اس وقت ایسے بھی فقراء مسلمین اور اصحاب صفہ موجود تھے جن کے پاس نہ صبح کے کھانے کا انتظام ہوتا اور نہ ہی شام کے۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص نے اس شخص کے لئے یہ پسند کیا جو اس مقدار کا مالک ہوتا کہ اتنی مقدار پر بھی اقصار کرے اور ترک سوال کے ذریعے اپنا دامن پاک رکھے تاکہ یہی مال ان لوگوں تک پہنچ سکے جو اس سے زیادہ ضرورت مند ہوں۔- ترک سوال کی یہ ترغیب اس بنا پر نہیں تھی کہ ایسے شخص کے لئے سوال کرنا حرام تھا۔ جب تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ کو کس کے لئے مباح کردینے کی صورت ہے وہ ضرورت کے مردار کھا لینے کی صورت سے مختلف ہے کیونکہ مردار اسی وقت حلال ہوتا ہے جب کسی کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوجائے جبکہ صدقہ کے متعلق امت کا اجماع ہے کہ ضرورت مند کے لئے حلال ہوتا ہے۔- اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق تو نہیں ہوتا لیکن وہ تہی دست ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے فقہ کو صدقہ کی اباحت کا سبب قرار دیا جائے۔ نیز ان تمام روایات میں ان کے حکموں پر عمل کے لحاظ سے اختلاف ہے۔ پھر یہ روایتیں بھی آپس میں ایک دوسری سے مختلف ہیں اور دوسری طرف سب کا اس روایت پر عمل پیرا ہونے پر اتفاق ہے جو ہم نے بیان کیا ہے اور جس کی غنی کی حد دو سو درہم بیان کی گئی ہے۔- اس لئے ضروری ہے کہ ہماری بیان کردہ روایت کا حکم ثابت رہے اور باقی ماندہ دوسری روایتوں کو اس پر محمول کیا جائے کہ یا تو یہ سوال کی کراہت کے بیان کے لئے ہیں اور یا یہ ہماری بیان کردہ روایت کی وجہ سے منسوخ ہوچکی ہیں۔ اگر ان سے مراد تحریم صدقہ ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٧٣) اور صدقات کے حقیقی مستحق تو صرف وہ حضرات ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے اپنے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد تک محدود کیا ہوا ہے (اصحاب صفہ) اور وہ معاشی سرگرمیوں کے لیے کہیں جا بھی نہیں سکتے، ان کے سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف ان کو ان کے وقار کے سبب کھاتا پیتا سمجھتے ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو ان کی شکل سے پہچان سکتے ہو، وہ کسی سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔- اور اصحاب صفہ پر جو مال بھی تم خرچ کرو، اللہ تعالیٰ کو اس مال اور تمہاری نیتوں کی اچھی طرح خبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧٣ (لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) - جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اصحاب صفہ تھے کہ مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آکر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا وقت تلاش معاش میں صرف نہیں کر رہے ‘ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علم سیکھ رہے ہیں اور جہاں جہاں سے مطالبہ آرہا ہے کہ معلمین اور مبلغینّ کی ضرورت ہے وہاں ان کو بھیجا جا رہا ہے۔ اگر وہ معاش کیّ جدوجہد کرتے تو یہ تعلیم کیسے حاصل کرتے ؟ اسی طرح دین کی کسی خدمت کے لیے کچھ لوگ اپنے آپ کو وقف کردیتے ہیں تو وہ اس کا مصداق ہوں گے۔ آپ نے دین کی دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے کوئی تحریک اٹھائی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ ہمہ وقتی کارکن درکار ہوں گے۔ ان کارکنوں کی معاش کا مسئلہ ہوگا۔ وہ آٹھ آٹھ گھنٹے دفتروں میں جا کر کام کریں اور وہاں افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سنیں ‘ آنے جانے میں بھی دو دو گھنٹے لگائیں تو اب وہ دین کے کام کے لیے کون سا وقت نکالیں گے اور کیا کام کریں گے ؟ لہٰذا کچھ لوگ تو ہونے چاہئیں جو اس کام میں ہمہ وقت لگ جائیں۔ لیکن پیٹ تو ان کے ساتھ بھی ہیں ‘ اولاد تو ان کی بھی ہوگی۔ - (لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ز) ۔ - زمین کے اندر گھوم پھر کر تجارت کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ - (یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ج ) ۔ - یہ اس طرح کے فقیر تو ہیں نہیں جو لپٹ کر مانگتے ہوں۔ ان کی خود داری کی وجہ سے عام طور پر جو ناواقف شخص ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ غنی ہیں ‘ خوشحال ہیں ‘ انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں ‘ انہوں نے کبھی مانگا ہی نہیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے سوالی نہیں ہیں ‘ وہ فقیر نہیں ہیں ‘ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو لگا دیا ہے۔ یہ تمہارا کام ہے کہ انہیں تلاش کرو اور ان کی ضروریات پوری کرو۔ - (تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ ج ) ۔ - ظاہربات ہے کہ فقر و احتیاج کا اثر چہرے پر تو آجاتا ہے۔ اگر کسی کو صحیح غذا نہیں مل رہی ہے تو چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوگا۔ - (لاَ یَسْءَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ط) ۔ - وہ ان سائلوں کی طرح نہیں ہیں جو اصل میں اپنی محنت کا صلہ وصول کرتے ہیں کہ آپ کے سر ہو کر آپ سے زبردستی کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اقامت دین کیّ جدوجہد میں جو لوگ ہمہ وقت لگ جائیں ‘ آخر ان کے لیے ذریعۂ معاش کیا ہو ؟ اس وقت اس پر تفصیل سے گفتگو ممکن نہیں۔ بہرحال یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دو رکوع انفاق کے موضوع پر قرآن حکیم کا نقطۂ عروج ہیں اور یہ آخری آیت ان میں اہم ترین ہے۔ - (وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ) ۔ - یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا انفاق اللہ کے علم میں نہیں ہے۔ تم خاموشی کے ساتھ ‘ اخفا کے ساتھ لوگوں کے ساتھ تعاون کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بھرپور بدلہ دے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :314 اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے دین کی خدمت میں اپنے آپ کو ہمہ تن وقف کر دیتے ہیں اور سارا وقت دینی خدمات میں صرف کر دینے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی معاش پیدا کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کر سکیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس قسم کے رضا کاروں کا مستقل گروہ تھا ، جو تاریخ میں اصحاب صُفّہ کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ تین چار سو آدمی تھے ، جو اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے آگئے تھے ۔ ہمہ وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے ۔ ہر خدمت کے لیے ہر وقت حاضر تھے ۔ حضور جس مہم پر چاہتے انہیں بھیج دیتے تھے ، اور جب مدینے سے باہر کوئی کام نہ ہوتا ، اس وقت یہ مدینے ہی میں رہ کر دین کا علم حاصل کرتے اور دوسرے بندگان خدا کو اس کی تعلیم دیتے رہتے تھے ۔ چونکہ یہ لوگ پورا وقت دینے والے کارکن تھے اور اپنی ضروریات فراہم کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل نہ رکھتے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ خاص طور پر ان کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین مصرف ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

183: حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی علمِ دین حاصل کرنے کے لئے وقف کردی تھی، اور آنحضرتﷺ کے پاس مسجدِ نبوی سے متصل ایک چبوترے پر آپڑے تھے، طلبِ علم کی وجہ سے وہ کوئی معاشی مشغلہ اختیار نہیں کرسکتے تھے مگر مفلسی کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے، کسی سے مانگنے کا سوال نہیں تھا۔ اس آیت نے بتایا کہ ایسے لوگ امداد کے زیادہ مستحق ہیں جو ایک نیک مقصد سے پوری امت کے فائدے کے لئے مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور سختیاں جھیلنے کے باوجود اپنی ضرورت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ آیت نمبر 261 سے 274 تک صدقات کی فضیلت اور اس کے اَحکام بیان ہوئے تھے۔ آگے آیت نمبر 280 تک اس کی ضد یعنی سود کا بیان ہے۔ صدقات انسان کے جذبۂ سخاوت کی نشانی ہیں، اور سود بخل اور مال کی محبت کی علامت ہے۔