سود خور قابل گردن زنی ہیں اور قرض کے مسائل ان آیات میں اللہ تعالیٰ ایماندار بندوں کو تقوے کا حکم دے رہا ہے اور ایسے کاموں سے روک رہا ہے جن سے وہ ناراض ہو اور لوگ اس کی قربت سے محروم ہو جائیں تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا لحاظ کرو اور اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور تمہارا سود جن مسلمانوں پر باقی ہے خبردار اس سے اب نہ لو جبکہ وہ حرام ہو گیا ، یہ آیت قبیلہ ثقیف بن عمرو بن عمیر اور بنو مخزوم کے قبیلے بنو مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، جاہلیت کے زمانہ میں ان کا سودی کاروبار تھا ، اسلام کے بعد بنو عمرہ نے بنو مغیرہ سے اپنا سود طلب کیا اور انہوں نے کہا کہ اب ہم اسے اسلام لانے کے بعد ادا نہ کریں گے آخر جھگڑا بڑھا حضرت عتاب بن اسید جو مکہ شریف کے نائب تھے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ لکھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لکھوا کر بھیج دی اور انہیں قابلِ وصول سود لینا حرام قرا دیا چنانچہ وہ تائب ہوئے اور اپنا سود بالکل چھوڑ دیا ، اس آیت میں ہے ان لوگوں پر جو سود کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود بھی اس پر جمے رہیں ، زبردست وعید ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سودخور سے قیامت کے دن کہا جائے گا ، لے اپنے ہتھیار لے لے اور اللہ سے لڑنے کیلئے آمادہ ہو جا ، آپ فرماتے ہیں امام وقت پر فرض ہے کہ سودخور لوگ جو اسے نہ چھوڑیں ان سے توبہ کرائے اور اگر نہ کریں تو ان کی گردن مار دے ، حسن اور ابن سیرین کا فرمان بھی یہی ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں دیکھو اللہ نے انہیں ہلاکت کی دھمکی دی انہیں ذلیل کئے جانے کے قابل ٹھہرایا ، خبردار سود سے اور سودی لین دین سے بچتے رہو حلال چیزوں اور حلال خریدو فروخت بہت کچھ ہے ، فاقے گزرتے ہوں تاہم اللہ کی معصیت سے رکو ، وہ روایت بھی یاد ہو گی جو پہلے گزر چکی کہ حضرت عائشہ نے ایک ایسے معاملہ کی نسبت جس میں سود تھا ، حضرت زید بن ارقم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ان کا جہاد بھی برباد ہوگیا اس لئے کہ جہاد اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کا نام ہے اور سود خوری خود اللہ سے مقابلہ کرنا ہے لیکن اس کی اسناد کمزور ہے ، پھر ارشاد ہوتا ہے اگر توبہ کرلو تو اصل مال جو کسی پر فرض ہے بیشک لے لو ۔ نہ تم تول میں زیادہ لے کر اس پر ظلم کرو نہ کم دے کر یا نہ دے کر وہ تم پر ظلم کرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا جاہلیت کا تمام سود میں برباد کرتا ہوں ۔ اصلی رقم لے لو ، سود لے کر نہ کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تمہارا مال مار کر تم پر زیادتی کرے ، حضرت عباس بن عبدالمطلب کا تمام سود میں ختم کرتا ہوں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تنگی والا شخص اور اس کے پاس تمہارے قرض کی ادائیگی کے قابل مال نہ ہو تو اسے مہلت دو کہ کچھ اور مدت کے بعد ادا کردے یہ نہ کرو کہ سود در سود لگائے چلے جاؤ کہ مدت گزر گئی ، اب اتنا اتنا سود لیں گے ، بلکہ بہتر تو یہ بات ہے کہ ایسے غرباء کو اپنا قرض معاف کردو ، طبرانی کی حدیث میں ہے کہ جو شخص قیامت کے دن اللہ کے عرش کا سایہ چاہتا ہے وہ یا تو ایسے تنگی والے شخص کو مہلت دے یا معاف کردے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص مفلس آدمی پر اپنا قرض وصول کرنے میں نرمی کرے اور اسے ڈھیل دے اس کو جتنے دن وہ قرض کی رقم ادا نہ کر سکے اتنے دِنوں تک ہر دن اتنی رقم خیرات کرنے کا ثواب ملتا ہے ، اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ہر دن اس سے دگنی رقم کے صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا ، یہ سن کر حضرت بریدہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تو آپ نے ہر دن اس کے مثل ثواب ملنے کا فرمایا تھا آج دو مثل فرماتے ہیں ، فرمایا ہاں جب تک معیاد ختم نہیں ہوئی مثل کا ثواب اور معیاد گزرنے کے بعد دو مثل کا ، حضرت ابو قتادہ کا قرض ایک شخص کے ذمہ تھا وہ تقاضا کرنے کو آتے لیکن یہ چھپ رہتے اور نہ ملتے ، ایک دن آئے گھر سے ایک بچہ نکلا ، آپ نے اس سے پوچھا اس نے کہا ہاں گھر میں موجود ہیں کھانا کھا رہے ہیں ، اب حضرت ابو قتادہ نے اونچی آواز سے انہیں پکارا اور فرمایا مجھے معلوم ہوگیا کہ تم گھر میں موجود ہو ، آؤ باہر آؤ ، جواب دو ۔ وہ بیچارے باہر نہیں نکلے آپ نے کہا کیوں چھپ رہے ہو؟ کہا حضرت بات یہ ہے کہ میں مفلس ہوں اس وقت میرے پاس رقم نہیں بوجہ شرمندگی کے آپ سے نہیں ملتا ، آپ نے کہا قسم کھاؤ ، اس نے قسم کھا لی ، آپ روئے اور فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص نادار قرضدار کو ڈھیل دے یا اپنا قرضہ معاف کردے وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوگا ( صحیح مسلم ) ابو لیلیٰ نے ایک حدیث روایت کی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک بندہ اللہ کے سامنے لایا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ بتا میرے لئے تو نے کیا نیکی ہے؟ وہ کہے گا اے اللہ ایک ذرے کے برابر بھی کوئی ایسی نیکی مجھ سے نہیں ہوئی جو آج میں اس کی جزا طلب کر سکوں ، اللہ اس سے پھر پوچھے گا وہ پھر یہی جواب دے گا پھر پوچھے گا پھر یہی کہے گا ، پروردگار ایک چھوٹی سی بات البتہ یاد پڑتی ہے کہ تو نے اپنے فضل سے کچھ مال بھی مجھے دے رکھا تھا میں تجارت پیشہ شخص تھا ، لوگ ادھار سدھار لے جاتے تھے ، میں اگر دیکھتا کہ یہ غریب شخص ہے اور وعدہ پر قرض نہ ادا کرسکا تو میں اسے اور کچھ مدت کی مہلت دے دیتا ، عیال داروں پر سختی نہ کرتا ، زیادہ تنگی والا اگر کسی کو پاتا تو معاف بھی کر دیتا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر میں تجھ پر آسانی کیوں نہ کروں ، میں تو سب سے زیادہ آسانی کرنے والا ہوں ، جا میں نے تجھے بخشا جنت میں داخل ہو جا ، مستدرک حاکم میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کی مدد کرے یا قرض دار بےمال کی اعانت کرے یا غلام جس نے لکھ کر دیا ہو کہ اتنی رقم دے دوں تو آزاد ہوں ، اس کی مدد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس دن سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعائیں قبول کی جائیں اور اس کی تکلیف و مصیبت دور ہو جائے اسے چاہئے کہ تنگی والوں پر کشادگی کرے ، عباد بن ولید فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد طلب علم میں نکلے اور ہم نے کہا کہ انصاریوں سے حدیثیں پڑھیں ، سب سے پہلے ہماری ملاقات حضرت ابو الیسر سے ہوئی ، ان کے ساتھ ان کے غلام تھے جن کے ہاتھ میں ایک دفتر تھا اور غلام وآقا کا ایک ہی لباس تھا ، میرے باپ نے کہا چچا آپ تو اس وقت غصہ میں نظر آتے ہیں ، فرمایا ہاں سنو فلاں شخص پر میرا کچھ قرض تھا ، مدت ختم ہو چکی تھی ، میں قرض مانگنے گیا ، سلام کیا اور پوچھا کہ کیا وہ مکان پر ہیں ، گھر میں سے جواب ملا کہ نہیں ، اتفاقاً ایک چھوٹا بچہ باہر آیا میں نے اس سے پوچھا تمہارے والد کہاں ہیں؟ اس نے کہا آپ کی آواز سن کر چارپائی تلے جا چھپے ہیں ، میں نے پھر آواز دی اور کہا تمہارا اندر ہونا مجھے معلوم ہو گیا ہے اب چھپو نہیں باہر آؤ جواب دو ، وہ آئے میں نے کہا کیوں چھپ رہے ہو ، کہا محض اس لئے کہ میرے پاس روپیہ تو اس وقت ہے نہیں ، آپ سے ملوں گا تو کوئی جھوٹا عذر حیلہ بیان کرں گا یا غلط وعدہ کروں گا ، اس لئے سامنے ہونے سے جھجھکتا تھا ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ، آپ سے جھوٹ کیا کہوں؟ میں نے کہا سچ کہتے ہو ، اللہ کی قسم تمہارے پاس روپیہ نہیں ، اس نے کہا ہاں سچ کہتا ہوں اللہ کی قسم کچھ نہیں ، تین مرتبہ میں نے قسم کھلائی اور انہوں نے کھائی ، میں نے اپنے دفتر میں سے ان کا نام کاٹ دیا اور رقم جمع کر لی اور کہہ دیا کہ جاؤ میں نے تمہارے نام سے یہ رقم کاٹ دی ہے ، اب اگر تمہیں مل جائے تو دے دینا ورنہ معاف ۔ سنو میری دونوں آنکھوں نے دیکھا اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دِل نے اسے خوب یاد رکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی سختی والے کو ڈھیل دے یا معاف کردے ، اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا ، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد آتے ہوئے زمین کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جو شخص کسی نادار پر آسانی کردے یا اسے معاف کردے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی گرمی سے بچا لے گا ، سنو جنت کے کام مشقت والے ہیں اور خواہش کیخلاف ہیں ، اور جہنم کے کام آسانی والے اور خواہشِ نفس کے مطابق ہیں ، نیک بخت وہ لوگ ہیں جو فتنوں سے بچ جائیں ، وہ انسان جو غصے کا گھونٹ پی لے اس کو اللہ تعالیٰ ایمان سے نوازتا ہے ، طبرانی میں ہے جو شخص کسی مفلس شخص پر رحم کرکے اپنے قرض کی وصولی میں اس پر سختی نہ کرے اللہ بھی اس کے گناہوں پر اس کو نہیں پکڑتا یہاں تک کہ وہ توبہ کرے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نصیحت کرتا ہے ، انہیں دنیا کے زوال ، مال کے فنا ، آخرت کا آنا ، اللہ کی طرف لوٹنا ، اللہ کو اپنے اعمال کا حساب دینا اور ان تمام اعمال پر جزا و سزا کا ملنا یاد دلاتا ہے اور اپنے عذابوں سے ڈراتا ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ قرآن کریم کی سب سے آخری آیت یہی ہے ، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو راتوں تک زندہ رہے اور ربیع الاول کی دوسری تاریخ کو پیر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ۔ ابن عباس سے ایک روایت میں اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اکتیس دن کی بھی مروی ہے ، ابن جریح فرماتے ہیں کہ سلف کا قول ہے کہ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نو رات زندہ رہے ہفتہ کے دن سے ابتدا ہوئی اور پیر والے دن انتقال ہوا ۔ الغرض قرآن کریم میں سب سے آخر یہی آیت نازل ہوئی ہے ۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ ۔۔ : اس آیت میں واضح حکم دیا گیا کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارا جو سود لوگوں کے ذمے ہے چھوڑ دو ۔ معلوم ہوا کہ سود اور ایمان دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ تمام سود باطل قرار دے دیے جو قریش، ثقیف اور دوسرے عرب قبائل میں سے بعض تاجروں کے اپنے قرض داروں کے ذمے باقی تھے، حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا : ” جاہلیت کے زمانے کے تمام سود میرے قدموں کے نیچے پامال کردیے گئے ہیں اور سب سے پہلا سود جو میں باطل قرار دیتا ہوں وہ ہمارے سودوں میں سے عباس بن عبد المطلب کا سود ہے، وہ پورے کا پورا چھوڑ دیا گیا ہے۔ “ [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨، عن جابر (رض) ]
چوتھی آیت يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ کا خلاصہ یہ ہے کہ سود و ربوٰ کی حرمت نازل ہونے کے بعد جو سود کی بقایا رقمیں کسی کے ذمہ باقی تھیں ان کا لینا دینا بھی حرام کردیا گیا۔- تشریح اس کی یہ ہے کہ سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عام عرب میں سود کا رواج پھیلا ہوا تھا، آیات متذکرہ سے پہلی آیتوں میں اس کی ممانعت آئی تو حسب عادت تمام مسلمانوں نے سود کے معاملات ترک کردیئے لیکن کچھ لوگوں کے مطالبات سود کی بقایا رقموں کے دوسرے لوگوں پر تھے اسی میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنی ثقیف اور بنی مخزوم کے آپس میں سودی معاملات کا سلسلہ تھا اور بنو ثقیف کے لوگوں کا کچھ مطالبہ بنی مخزوم کی طرف تھا بنو مخزوم مسلمان ہوگئے تو اسلام لانے کے بعد انہوں نے سود کی رقم ادا کرنا جائز نہ سمجھا ادھر بنوثقیف کے لوگوں نے مطالبہ شروع کیا کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر مسلمانوں سے مصالحت کرلی تھی بنومخزوم کے لوگوں نے کہا کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہم اپنی اسلامی کمائی کو سود کی ادائیگی میں خرچ نہ کریں گے،- یہ جھگڑا مکہ مکرمہ میں پیش آیا اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مکہ کے امیر حضرت معاذ اور دوسری روایت میں عتاب بن اسید تھے انہوں نے اس جھگڑے کا قضیہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بغرض دریافت حکم لکھ بھیجا، اس پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سود کے سابقہ معاملات ختم کردئیے جائیں پچھلا سود بھی وصول نہ کیا جائے۔- یہ اسلامی قانون رائج کیا گیا تو مسلمان تو اس کے پابند تھے ہی جو غیر مسلم قبائل بطور صلح و معاہدہ اسلامی قانون کو قبول کرچکے تھے وہ بھی اس کے پابند ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود جب حجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قانون کا اعلان کیا تو اس کا اظہار فرمایا کہ یہ قانون کسی خاص شخص یا قوم یا مسلمانوں کے مالی مفاد کے پیش نظر نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تعمیر اور صلاح و فلاح کے لئے جاری کیا گیا ہے اسی لئے ہم سب سے پہلے مسلمانوں کی بہت بڑی رقم سود جو غیر مسلموں کے ذمہ تھی اس کو چھوڑتے ہیں، تو اب ان کو بھی اپنے بقایا سود کی رقم چھوڑنے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہئے۔ چناچہ اس خطبہ میں ارشاد فرمایا :- (الا ان کل ربا کان فی الجاھلیۃ موضوع عنکم کلہ لکم رؤس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون واول ربا موضوع ربا العباس ابن عبد المطلب کلہ) - یعنی زمانہ جاہلیت میں جو سودی معامعلات کئے گئے سب کو سود چھوڑ دیا گیا اب ہر شخص کو اصل رقم ملے گی سود کی زائد رقم نہ ملے گی نہ تم زیادتی وصول کرکے کسی پر ظلم کرسکو گے اور نہ کوئی اصل رأس المال میں کمی کرکے تم پر ظلم کرسکے گا اور سب سے پہلے جو سود چھوڑا تھا وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے، جس کی بہت بھاری رقمیں غیر مسلموں کے ذمہ بطور سود کے عائد ہوتی تھیں، قرآن مجید کی آیت متذکرہ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ اور بقایا سود چھوڑنے کا حکم مذکور ہے۔- اس آیت کو شروع اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں کو خطاب کرکے اول اِتَّقُوا اللّٰهَ کا حکم سنایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے بعد اصل مسئلہ کا حکم بتلایا گیا یہ قرآن حکیم کا وہ خاص طرز ہے جس میں وہ دنیا بھر کے قانون کی کتابوں سے ممتاز ہے کہ جب کوئی ایسا قانون بنایا جاتا ہے جس پر عمل کرنے میں لوگوں کو کچھ دشواری معلوم ہو تو اس کے آگے پیچھے خدا تعالیٰ کے سامنے پیشی اعمال کے حساب اور آخرت کے عذاب وثواب کا ذکر کرکے مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں کو اس پر عمل کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے اس کے بعد حکم سنایا جاتا ہے یہاں بھی پیچھے عائد شدہ سود کی رقم کا چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر بار ہوسکتا تھا اس لئے پہلے اِتَّقُوا اللّٰهَ فرمایا، اس کے بعد حکم دیا، وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا یعنی چھوڑ دو بقایا سود کو۔ آیت کے آخر میں فرمایا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ یعنی اگر تم ایمان والے ہو اس میں اشارہ کردیا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حکم خداوندی کی اطاعت کی جائے اس کی خلاف ورزی ایمان کے منافی ہے یہ حکم طبائع پر بھاری تھا، اس لئے حکم سے پہلے اِتَّقُوا اللّٰهَ اور حکم کے بعد اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ کے ارشادات ملا دئیے گئے۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء، وقد بَقِيَ بَقَاءً ، وقیل : بَقَي في الماضي موضع بقي، وفي الحدیث : «بقینا رسول الله» أي : انتظرناه وترصّدنا له مدة كثيرة، والباقي ضربان : باق بنفسه لا إلى مدّة وهو الباري تعالی، ولا يصحّ عليه الفناء، وباق بغیره وهو ما عداه ويصح عليه الفناء .- والباقي بالله ضربان :- باق بشخصه إلى أن يشاء اللہ أن يفنيه، کبقاء الأجرام السماوية .- وباق بنوعه وجنسه دون شخصه وجزئه، كالإنسان والحیوان .- وكذا في الآخرة باق بشخصه كأهل الجنة، فإنهم يبقون علی التأبيد لا إلى مدّة، كما قال عزّ وجل : خالِدِينَ فِيها [ البقرة 162] .- والآخر بنوعه وجنسه، كما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «أنّ ثمار أهل الجنة يقطفها أهلها ويأکلونها ثم تخلف مکانها مثلها» «1» ، ولکون ما في الآخرة دائما، قال اللہ عز وجل : وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص 60] ، وقوله تعالی: وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف 46] ، أي : ما يبقی ثوابه للإنسان من الأعمال، وقد فسّر بأنها الصلوات الخمس، وقیل : سبحان اللہ والحمد لله والصحیح أنها كلّ عبادة يقصد بها وجه اللہ تعالیٰ وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ- [هود 86] ، وأضافها إلى اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة 8] . أي : جماعة باقية، أو : فعلة لهم باقية . وقیل : معناه : بقية . قال : وقد جاء من المصادر ما هو علی فاعل وما هو علی بناء مفعول والأوّل أصح .- ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اس کا باب بقی ( ض ) بقیا بھی آتا ہے چناچہ حدیث میں ہے یعنی ہم آنحضرت کے منتظر رہے اور کافی عرصہ تک آپ کی نگہبانی میں بیٹھے رہے ۔ الباقی ( صفت ) دو قسم پر ہے ایک الباقی بنفسہ جو ہمیشہ ایک حالت پر قائم رہے اور اس پر گھبی فنا طاری نہ ہو اس معنی میں یہ حق تعالیٰ کی صفت ہے ۔ دوم الباقی بغیرہ اس میں سب ماسوی اللہ داخل ہیں کہ ان پر فناء اور تغیر کا طاری ہونا صحیح ہے ۔ الباقی باللہ بھی دو قسم پر ہے ۔ ایک وہ جو بذاتہ جب تک اللہ کی مشیت ہو باقی جیسے اجرام سماویہ ۔ دوم وہ جس کے افراد و اجزاء تو تغیر پذیر ہوں مگر اس کی نوع یا جنس میں کسی قسم کا تغیر نہ ہو ۔ جیسے انسان وحیوان ۔ اسی طرح آخرت میں بھی بعض اشیاء بشخصہ باقی رہیں گی ۔ جیسے اہل جنت کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گے ۔ جیسے فرمایا : ۔ خالِدِينَ فِيها [ البقرة 162] خالدین ( 4 ) جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اور بعض چیزیں صرف جنس ونوع کے اعتبار سے باقی رہیں گی ۔ جیسا کہ آنحضرت سے مروی ہے ان اثمار اھل الجنۃ یقطفھا اھلھا ویاء کلونھا ثم تخلف مکانھا مثلھا : کہ ثمار ( جنت کو اہل جنت چن کر کھاتے رہنیگے اور ان کی جگہ نئے پھل پیدا ہوتے رہیں گے چونکہ آخرت کی تمام اشیاء دائمی ہیں اس لئے فرمایا : ۔ وَما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقى [ القصص 60] اور جو خدا کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ [ الكهف 46] میں وہ تمام اذکار و اعمال صالحہ داخل ہیں جن کا ثواب انسان کے لئے باقی رہے ا ۔ بعض نے ان سے پانچ نمازیں مراد لی ہیں ۔ اور بعض نے اس سے یعنی تسبیح وتحمید مراد لی ہے ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ ان میں ہر وہ عبادت داخل ہے جس سے رضائے الہی مقصود ہو یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَهَلْ تَرى لَهُمْ مِنْ باقِيَةٍ [ الحاقة 8] بھلا تو ان میں سے کسی بھی باقی دیکھتا ہے میں باقیۃ کا موصوف جماعۃ یا فعلۃ محزوف ہے یعنی باقی رہنے والی جماعت یا ان کا کوئی فعل جو باقی رہا ہو ۔ اور بعض کے نزدیک باقیۃ بمعنی بقیۃ ہے ان کا قول ہے کہ بعض مصادر فاعل کے وزن پر آتے ہیں اور بعض مفعول کے وزن پر لیکن پہلا قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
قول باری ہے (یآیھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وذروا مابقی من الربوٰ ان کنتم مؤمنین ۔ فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ۔ ( ) اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ۔ اگر واقعی تم ایمان لائے ہو لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے)- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ آیت میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک معنی یہ ہے کہ ” اگر تم اللہ کے حکم کو قبول نہ کرو اور اس کے آگے جھک نہ جائو۔ “ اور دوسرا معنی یہ ہے کہ سود ترک کردینے کے حکم کے نزول کے بعد بھی لوگوں کے ذمہ اپنا باقی رہ جانے والا سود نہ چھوڑو تو سود کی تحریم کا اعتقاد رکھتے ہوئے بھی آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، قتادہ اور ربیع بن انس سے مروی ہے کہ جو شخص سود کھاتا ہو تو امام اس سے توبہ کا مطالبہ کرے اگر وہ سود خوری سے توبہ کرلے تو فیہا ورنہ اسے قتل کردے گا۔- یہ قول اس پر محمول ہے کہ وہ شخص سود کو حلال سمجھ کر اسے کھاتا ہو کیونکہ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص سود کی تحریم کا اعتقاد رکھتے ہوئے سود خوری کرے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔- قول باری (فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) ( ) ایسے لوگوں کو کافر قرار دینے کے وجوب کا تقاضا نہیں کرتا کیونکہ اس فقرے کا کفر سے کم درجے کی معصیتوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ زید بن اسلم نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت معاذ (رض) کو روتے دیکھا۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی تو حضرت معاذ (رض) نے فرمایا :- میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے کہ (الیسیر من الریاء شرک ومن عاد اولیاء اللہ فقد بارز اللہ بالمحاربۃ ( ) تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے۔ اور جو شخص اللہ کے دوستوں سے دشمنی رکھے گا وہ اللہ کو جنگ کی دعوت دے گا)- حدیث معاذ (رض) نے اس پر لفظ محاربت کا اطلاق کیا اگرچہ اس نے کفر نہ بھی کیا ہو۔ اسباط نے سدی سے، انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) کے آزاد کردہ غلام صبیح سے ، انہوں نے زید بن ارقم (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) ، حضرت فاطمہ (رض) ، حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) سے فرمایا (انا حرب لمن حاربتم وسلم لمن سالمتم ( ) جس کے ساتھ تمہاری جنگ ہے میری بھی اس کے ساتھ صلح ہے)- قول باری ہے (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فساداً ( ) ۔۔۔ ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں بس یہ ہے ۔۔۔ )- فقہاء اس پر متفق ہیں کہ یہ حکم الہ ملت یعنی مسلمانوں پر جاری ہوتا ہے اور یہ نشان ان مسلمانوں کو لگ جاتا ہے جو کہ ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم کردیں۔ لیکن آیت کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کا اطلاق ان لوگوں پر ہوسکتا ہے جن کے گناہ عظیم ہوں اور کھلم کھلا معصیت والے افعال کے مرتکب ہورہے ہوں اگرچہ یہ افعال کفر سے کم درجے کے ہوں۔- قول باری (فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) ( ) درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف معصیت کی بڑائی اور سنگینی کی اطلاع ہے۔ اور یہ کہ ایسی معصیت کا مرتکب اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ کردیا جائے اگرچہ وہ کافر نہ ہو لیکن امام المسلمین کا باغی اور اطاعت نہ قبول کرنے والا ہو۔- اگر وہ بغاوت اور سرکشی کا مظاہرہ نہ کرنے والا ہو تو امام المسلمین اسے حسب ضرورت تعزیری سزا دے گا یہی حکم ان تمام معاصی کا ہونا چاہیے جن پر اللہ تعالیٰ نے سزا کی دھمکی دی ہے جبکہ کوئی شخص ان پر اصرار کرے اور کھلم کھلا ان کا مرتکب ہو اور اگر وہ شخص سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے اور طاقت پکڑلے تو اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف جنگ کی جائے گی یہاں تک کہ وہ سرکشی سے باز آجائیں اور ان کی طرف سے سرکشی اور بغاوت کا اظہار نہ ہو تو امام حسب ضرورت انہیں سزائیں دے گا۔- جگا ٹیکس لینا اور کسی کی جگہ پر قبضہ جمانا منع ہے - یہی حکم ان لوگوں کا ہے جو مسلمانوں کے کسی علاقے پر زبردستی تسلط جماکر ظلم و ستم کا بازار گرم کردیں اور لوگوں سے ان کا مال چھیننا اور ٹیکس وصول کنا شروع کردیں۔ تمام مسلمانوں پر ان کے خلاف جنگ کرنا اور انہیں تہ تیغ کرنا واجب ہے اگر یہ سرکشی اور بغاوت پر کمر بستہ ہوں۔- ان لوگوں کا جرم سود خوروں کے جرم سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ ایسے لوگ بغاوت اور سرکشی سے نہی کی حرمت اور مسلمانوں کی جان و مال کی حرمت کی بےحرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ سود خور سود لے کر صرف اللہ کی حرمت کی بےحرمتی کا ارتکاب کرتا ہے اور سود دینے والے کی کسی حرمت کی بےحرمتی کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ سود دینے والا اپنی خوشی سے سود کی یہ رقم اس کے حوالے کرتا ہے۔ ٹیکس وصول کرنے والے دراصل ڈاکو اور لٹیرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نہی اور مسلمانوں کی بےحرمتی کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ایسے لوگ مسلمانوں سے جبر اور دبائو کے تحت ٹیکس وصول کرتے ہیں جن میں نہ تو کسی تاویل کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی کسی شبہ کی۔- اس لئے مسلمانوں میں سے جنھیں بھی ایسے لوگوں کے ظلم و ستم اور لوٹ کھسوٹ کی اطلاع ملے ان کے لئے ان لوگوں کو جس طرح بھی ہوسکے قتل کرنا جائز ہے نہ صرف انہیں بلکہ ان کے پیروکاروں اور مددگاروں کو بھی جن کے سہارے یہ لوگوں کا مال بطور ٹیکس وصول کرنے کی قدرت حاصل کرتے ہیں۔- حضرت ابوبکر (رض) نے مانعین زکوٰۃ سے اس لئے جنگ کی تھی کہ صحابہ کرام (رض) ان کے خلاف دو باتوں پر متفق ہوگئے تھے۔ ایک ان کے کفر پر اور دوسری ان کی زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار پر۔ وہ اس طرح کہ ان لوگوں نے زکوٰۃ کی فرضیت اور اس کی ادائیگی کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس بنا پر وہ دو جرموں کے مرتکب ہوگئے تھے ایک تو یہ کہ انہوں نے اللہ کے حکم کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ چیز کفر ہے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے امام المسلمین کو اپنے اموال میں واجب ہونے والے صدقات کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا۔- حضرت ابوبکر (رض) نے ان دونوں جرموں کی بنا پر ان سے قتال کیا۔ اور اسی بنا پر آپ نے فرمایا تھا کہ ” اگر یہ لوگ ایک رسی یا ایک روایت کے مطابق بکری کا ایک بچہ بھی دینے سے انکار کردیں جسے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور زکوٰۃ ادا کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے جنگ کروں گا۔ “- ہم نے جو یہ کہا کہ یہ لوگ کافر تھے اور زکوٰۃ کی فرضیت کو قبول کنے سے انکاری تھے۔ وہ اس لئے کہ صحابہ کرام (رض) نے انہیں اہل الردہ یعنی مرتدین کا نام دیا تھا۔ اور آج تک ان پر اسی نام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صحابہ کرام (رض) نے جنگ کے بعد ان لوگوں کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرکے جنگی قیدی بنا لیا تھا اگر یہ لوگ مرتد نہ ہوتے تو حضرت ابوبکر (رض) کبھی بھی ان کے بارے میں حکمت عملی اختیار نہ کرتے۔- اس کے بارے میں صدر اول اور بعد کے مسلمانوں میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہوا یعنی اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہوا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے جن لوگوں سے قتال کیا تھا وہ مرتدین تھے۔ اگر سود خور سود کو حلال سمجھتے ہوئے اس پر ڈٹا رہتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر وہ کسی گروہ کے سہارے طاقت پکڑ کر سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے تو امام المسلمین اس کے خلاف وہی حکمت عملی اختیار کرے گا جو وہ مرتدین کے خلاف اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ اور اس کا گروہ اس سے پہلے ملت اسلامیہ کا جز بنے رہے ہوں۔ اگر ایسے لوگ سود کی حرمت پر ایمان رکھتے ہوں اور سود کو حلال نہ سمجھتے ہوئے سودخوری کی لعنت میں گرفتار ہوں تو اگر انہوں نے گروہ بندی کرکے طاقت حاصل کرلی ہو تو امام المسلمین ان کے خلاف جنگی کارروائیاں کرے گا حتیٰ کہ وہ توبہ کرلیں۔- اگر انہوں نے ابھی زور پکڑا نہ ہو تو امام المسلمین انہیں جسمانی سزا دے کر اور قید میں رکھ کر ان کی سرزنش کرے گا حتیٰ کہ وہ اس عادت قبیحہ سے باز آجائیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ آپ نے اہل نجران کو خط لکھا تھا، یہ لوگ عیسائی ذمی تھے۔ خط میں ان سے سودی لین دین ترک کرنے کو کہا گیا تھا بصورت دیگر اللہ اور رسول کی طرف سے ان کے خلاف جنگ کی دھمکی دی گئی تھی۔- ابو عبید القاسم ابن سلام نے کہا ہے کہ مجھے ایوب الدمشقی نے یہ روایت کی۔ انہیں سعد ان بن یحییٰ نے عبداللہ بن ابی حمید سے، انہوں نے ابو ملیح الہذلی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران سے صلح کرنے کے بعد انھیں ایک خط لکھا تھا جس کے آخر میں یہ تھا کہ ” تم سود نہ کھائو، تم میں سے جو شخص سود کھائے گا میں اسی سے بری الذمہ ہوں گا۔ “- اس لئے اس ارشاد باری (یآیاھا الذین اٰمنوا التقوا اللہ وذروا ما بقیٓ من الربوٰ ( ) کے بعد یہ قول باری (فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) ( ) ان دونوں باتوں کی طرف عائد ہے یعنی سود خوری کی لعنت کو پھر سے پہلی حالت کی طرف لوٹا دینا اور تحریم کا حکم قبول کرکے سود خوری پر قائم رہنا۔- اس لئے جو شخص لعنت کی پہلی حالت کی طرف لوٹائے گا اس کے خلاف ارتداد کی بنا پر جنگ کی جائے گی اور جو شخص سود کی حرمت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے گا تو وہ مرتد قرار نہیں دیا جائے گا لیکن اللہ کے حکم کی نافرمانی پر ڈٹے رہنے اور قوت پکڑنے کی بنا پر اس کے خلاف جنگی کارروائی کی جائے گی اور اگر اس نے طاقت نہ پکڑی ہو اور مقابلے پر نہ اترا ہو تو اسے گرفتار کرلیا جائے گا اور امام المسلمین اپنی صوابدید کے مطابق اسے پٹائی کی صورت میں یا قید میں ڈال کر تعزیری سزا دے گا۔- قول باری (فاذنوا بکرب من اللہ ورسولہ) ( ) درحقیقت اس بات کا اعلان ہے کہ اگر لوگ اس آیت میں جاری کردہ حکم کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے والے شمار کئے جائیں گے۔ اس کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا یہ جرم کتنا عظیم اور سنگین ہے اور انہوں نے یہ جرم کرکے اپنے لئے ایک نشان منتخب کرلیا ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسرپیکار ہونے کانشان۔ اس نشان کے دو پہلو ہیں۔ ایک کفر کا پہلو، اگر یہ سود کو حلال سمجھتے ہوں اور دوسرا سود کی حرمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے سود خوری پر ڈٹے رہنے کا پہلو۔ جیسا کہ مہ اس کی تشریح پچھلے سطور میں کر آئے ہیں۔- بعض لوگوں نے آیت کو اس معنی پر محمول کیا ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ اس کے رسول اور مسلمانوں کو ان کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے اور یہ ایک طرح سے ان کے خلاف اعلان جنگ ہے تاکہ انہیں اس بات کے علم سے پہلے اچانک حملے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔- جس طرح کہ یہ قول باری ہے (واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ علیھم علی سوآء ان اللہ لایحب الخائنین۔ ( ) اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو ، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا)- اگر آیت کو اس معنی پر محمول کیا جائے تو خطاب کا رخ اس کی طرف ہوگا اگر وہ طاقت و قوت کے مالک ہوں گے اور اگر ہم آیت کو پہلے معنی پر محمول کریں گے تو ہر وہ شخص اس خطاب میں داخل ہوگا جو سود خوری کے فعل قبیح کا مرتکب ہوگا اور آیت میں مذکور حکم اسے شامل ہوگا۔ اس بنا پر پہلی تاویل اولیٰ ہے۔
(٢٧٨) ثقیف اور مسعود، حبیب عبد یا لیل اور ربیعہ سود کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور بنی مخزوم پر تمہارے سودی کاروبار میں سے جو کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ، اگر تم سود کی حرمت پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اس سود کو نہیں چھوڑتے تو آخرت میں اللہ کی جانب دوزخ کے عذاب کے لیے اور دنیا میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تلوار کے ساتھ لڑائی کے لیے تیار ہوجاؤ۔- شان نزول : (آیت) ” یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا “ (الخ)- ابو یعلی (رح) نے اپنی مسند میں اور ابن مندہ (رح) نے کلبی کے طریق سے بواسطہ ابوصالح حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے، فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت قبیلہ ثقیف میں سے بنی عمر و بن عوف اور بنی مغیرہ کے بارے میں اتری ہے۔- بنی مغیرہ ثقیف کو سود پر مال دیا کرتے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے مکہ مکرمہ فتح کردیا اور اس دن تمام سودی کاروباروں کا خاتمہ کردیا گیا تو بنی عمرو اور بنی مغیرہ عتاب بن اسید کے پاس آئے بنی مغیرہ نے آکر کہا کہ اس سود کی وجہ سے ہم تمام لوگوں سے بدتر ہوگئے اور ہمارے علاوہ اور لوگوں نے سود کا خاتمہ کردیا تو بنی عمرو بولے کہ آپس میں ہم اس شرط پر صلح کرلیں کہ ہمارے لیے ہمارا سود ہے ان کی یہ بات عتاب بن اسید (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لکھ کر روانہ کی تو اس پر یہ آیت اور اس سے بعد والی آیت نازل ہوئی اور ابن جریر نے عکرمہ (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت قبیلہ ثقیف میں سے مسعود حبیب ربیہ اور عبد یا لیل، بنوعمر اور بنوعمیر کے متعلق اتری ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢٧٨ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبآوا) - آج فیصلہ کرلو کہ جو کچھ بھی تم نے کسی کو قرض دیا تھا اب اس کا سود چھوڑ دینا ہے۔