انسان کے ضمیر سے خطاب یعنی آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ چھوٹی بڑی چھپی یا کھلی ہر بات کو وہ جانتا ہے ۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر عمل کا وہ حساب لینے والا ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ يَعْلَمْهُ اللّٰهُ ) 3 ۔ آل عمران:29 ) کہہ دے کہ تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا بخوبی علم ہے ، وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور فرمایا وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے ، مزید اس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں ، یہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ اس پر حساب لے گا ، جب یہ آیت اتری تو صحابہ بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہو گا ، اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور کہنے لگے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز ، روزہ ، جہاد ، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا ، وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتی المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا ، تمہیں چاہئے کہ یوں کہو ہم نے سنا اور مانا ، اے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں ۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ چنانچہ صحابہ کرام نے اسے تسلیم کرلیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہوگئے تو آیت ( اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:285 ) اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کر دیا اور آیت لایکلف اللہ نازل ہوئی ( مسند احمد ) صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو ہٹا کر آیت لایکلف اللہ الخ ، اتاری اور جب مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ ہماری بھول چوک اور ہماری خطا پر ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نعم ، یعنی میں یہی کروں گا ۔ انہوں نے کہا آیت ربنا ولا تحمل علینا الخ ، اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے اگلوں پر ڈالا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی قبول ، پھر کہا ربنا ولاتحملنا اے اللہ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال ، اسے بھی قبول کیا گیا ۔ پھر دعا مانگی اے اللہ ہمیں معاف فرمادے ، ہمارے گناہ بخش اور کافروں پر ہماری مدد کر ، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا ، یہ حدیث اور بھی بہت سے انداز سے مروی ہے ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت مجاہد کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس کے پاس جا کر واقعہ بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اس آیت وان تبدوا کی تلاوت فرمائی اور بہت روئے ، آپ نے فرمایا اس آیت کے اترتے یہی حال صحابہ کا ہوا تھا ، وہ سخت غمگین ہو گئے اور کہا دِلوں کے مالک تو ہم نہیں ۔ دِل کے خیالات پر بھی پکڑے گئے تو یہ تو بڑی مشکل ہے ۔ آپ نے فرمایا سمعنا واطعنا کہو ، چنانچہ صحابہ نے کہا اور بعد والی آیتیں اتریں اور عمل پر تو پکڑ طے ہوئی لیکن دِل کے خطرات اور نفس کے وسوسے سے پکڑ منسوخ ہو گئی ، دوسرے طریق سے یہ روایت ابن مرجانہ سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ تم اپنے نیک و بد اعمال پر پکڑے جاؤ گے خواہ زبانی ہوں خواہ دوسرے اعضاء کے گناہ ہوں ، لیکن دِلی وسو اس معاف ہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کا منسوخ ہونا مروی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دِلی خیالات سے درگزر فرما لیا ، گرفت اسی پر ہوگی جو کہیں یا کریں ، بخاری مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو جب تک اس سے برائی سرزد ہو ، اگر کر گزرے تو ایک برائی لکھو اور جب نیکی کا اراد کرے تو صرف ارادہ سے ہی نیکی لکھ لو اور اگر نیکی کر بھی لے تو ایک کے بدلے دس نیکیاں لکھو ( مسلم ) اور روایت میں ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ساتھ سو تک لکھی جاتی ہیں ، اور روایت میں ہے کہ جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رُکے رہو جب تک کر نہ لے ، اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر لکھو گے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا ہے اور برائی نہیں بڑھتی ، اور روایت میں ہے کہ سات سو سے بھی کبھی کبھی نیکی بڑھا دی جاتی ہے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بڑا بردبار ہونے والا وہ ہے جو باوجود اس رحم و کرم کے بھی برباد ہو ، ایک مرتبہ اصحاب نے آکر عرض کیا حضرت کبھی کبھی تو ہمارے دِل میں ایس وسوسے اٹھتے ہیں کہ زبان سے ان کا بیان کرنا بھی ہم پر گراں گزرتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ایسا ہونے لگا ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں آپ نے فرمایا یہ صریح ایمان ہے ( مسلم وغیرہ ) حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن جب تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دِلوں کے ایسے بھید بتاتا ہوں جس سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہیں ، مومنوں کو تو بتانے کے بعد پھر معاف فرما دیا جائے گا لیکن منافق اور شک و شبہ کرنے والے لوگوں کو ان کے کفر کی درپردہ اطلاع دے کر بھی ان کی پکڑ ہوگی ۔ ارشاد ہے ( آیت ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے دِلوں کی کمائی پر ضرور پکڑے گا یعنی دِلی شک اور دِلی نفاق کی بنا پر ، حسن بصری بھی اسے منسوخ نہیں کہتے ، امام ابن جریر بھی اسی روایت سے متفق ہیں اور فرماتے ہیں کہ حساب اور چیز ہے عذاب اور چیز ہے ۔ حساب لئے جانے اور عذاب کیا جانا لازم نہیں ، ممکن ہے حساب کے بعد معاف کر دیا جائے اور ممکن ہے سزا ہو ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم طواف کر رہے تھے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا کہ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کے متعلق کیا سنا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان والے کو اپنے پاس بلائے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا پھر اس سے کہے گا بتا تو نے فلاں فلاں گناہ کیا ؟ فلاں فلاں گناہ کیا ؟ وہ غریب اقرار کرتا جائے گا ، جب بہت سے گناہ ہونے کا اقرار کر لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا سُن دنیا میں بھی میں نے تیرے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی ، اور اب آج کے دن بھی میں ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہوں ، اب اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ، ہاں البتہ کفار و منافق کو تمام مجمع کے سامنے رسوا کیا جائے گا اور ان کے گناہ ظاہر کئے جائیں گے اور پکارا جائے گا کہ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر تہمت لگائی ، ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ حضرت زید نے ایک مرتبہ اس آیت کے بارے میں حضرت عائشہ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا جب سے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا ہے تب سے لے کر آج تک مجھ سے کسی شخص نے نہیں پوچھا ، مگر آج تو نے پوچھا تو سُن اس سے مراد بندے کو دنیاوی تکلیفیں مثلاً بخار وغیرہ تکلیفیں پہنچانا ہے ، یہاں تک کہ مثلاً ایک جیب میں نقدی رکھی اور بھول گیا ، تھوڑی پریشانی ہوئی مگر دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا وہاں سے نقدی مل گی ، اس پر بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ مرنے کے وقت وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح خالص سرخ سونا ہو ۔ ترمذی وغیرہ ، یہ حدیث غریب ہے ۔
284۔ 1 احایث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ نماز، روزہ، زکوٰۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم بجا لاتے ہیں کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں وہ تو انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرمایا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے جذبہ سمع وطاعت کو دیکھتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو منسوخ فرما دیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کردیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کردیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا۔ صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم و ارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں۔
[٤١٣] اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کا ذکر ہوا ہے۔ ( ) ملک، یعنی وہ ہر چیز کا مالک ہے، ( ) علم، یعنی اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ دلوں کے راز تک جانتا ہے، ( ) قدرت، یعنی اسے سزا دینے اور معاف کردینے کے کلی اختیارات حاصل ہیں اور یہی تین صفات ذرا تفصیل کے ساتھ آیت الکرسی میں بیان کی گئی ہیں جس سے مقصود یہ ہے کہ عبادات اور معاملات سے متعلق جو بیشمار احکام دیئے گئے ہیں۔ مسلمان کو اس کی تعمیل میں نہ حیلوں بہانوں سے کام لینا چاہئے اور نہ سینہ زوری اور ظلم و زیادتی سے۔ بلکہ اللہ سے ڈر کر اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی ظاہری یا پوشیدہ امر میں انسان اس کی نافرمانی کرکے نجات نہیں پاسکتا۔- حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے ہمیں غمزدہ بنادیا ہم نے خیال کیا کہ اگر کسی کے دل میں گناہ کا خیال بھی آئے تو اس کا بھی حساب ہوگا کہ پھر معلوم نہیں کہ اس کی معافی ہو یا نہ ہو، اور یہ بات انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) نے آپ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا : کہو ہم نے (اللہ کا ارشاد) سنا اور ہم اطاعت کرتے ہیں۔ صحابہ کرام (رض) نے ایسا ہی کہا تو پھر ( اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ باللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ ٢٨٥۔ ) 2 ۔ البقرة :285) سے لے کر اگلی دو آیات نازل ہوئیں اور (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۭ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۭرَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۚ وَاعْفُ عَنَّا ۪ وَاغْفِرْ لَنَا ۪ وَارْحَمْنَا ۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْــصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ) نے اس آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر۔۔ ) یعنی دل میں پیدا ہونے والے خیالات پر گرفت معاف کردی گئی
لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ: یہ پچھلی آیت میں موجود (ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ) کی علت ہے، یعنی جب آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک اللہ ہے تو خوب سمجھ لو کہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔ - يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ : اس سے معلوم ہوا کہ دل کے فعل پر بھی محاسبہ ہوگا، مگر اس سے مراد دل کے وہ اعمال ہیں جن پر انسان کو اختیار ہو اور جن کا وہ پختہ ارادہ کرلے، مثلاً ایمان، کفر، کسی نیکی یا بدی کا عزم اور پختہ ارادہ، مثلاً ایک شخص دل میں کفر رکھتا ہے، یا چوری اور زنا کا عزم رکھتا ہے، مگر اسے کفر کے اظہار کا یا چوری اور زنا پر عمل کا موقع نہیں ملتا تو اس پر محاسبہ ضرور ہوگا۔ رہے وہ خیالات جو انسان کی طاقت اور اختیار سے باہر ہیں، خود بخود آتے جاتے رہتے ہیں، اگر آدمی ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے تو ان پر محاسبہ نہیں ہوگا، جیسا کہ اس سورت کی آخری آیت (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ) میں ہے۔ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب آیت (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۔۔ ) نازل ہوئی تو صحابہ پر گراں گزری، انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم نماز، روزہ وغیرہ اعمال تو بجا لا رہے ہیں، مگر اس آیت (دل کی باتوں پر محاسبہ) کے مطابق تو بڑی مشکل پڑے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا تم بھی اہل کتاب کی طرح ” سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا “ کہنا چاہتے ہو، بلکہ تم یوں کہو : ( سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا، غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ) ” ہم نے سن لیا اور اطاعت کی، اے ہمارے رب ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “ جب صحابہ کرام (رض) نے اس کا اقرار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت : (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ ) نازل فرمائی اور آیت (اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ ) کو منسوخ کردیا اور جب اگلی آیت : (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ) نازل فرمائی تو اس کے ہر دعائیہ جملہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( قَدْ فَعَلْتُ ) ” میں نے ایسا کردیا۔ “ [ مسند أحمد : ٢؍٤١٣، ح : ٩٣٦٣۔ مسلم، الإیمان، باب بیان تجاوز اللہ ۔۔ : ١٢٥ ]- واضح رہے کہ یہاں دوسری آیت سے پہلی کے منسوخ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پہلی آیت میں جو ابہام تھا اس کی وضاحت فرما دی۔ حافظ ابن قیم (رض) لکھتے ہیں : ” صحابہ کرام (رض) نسخ کا لفظ وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرتے تھے۔ “ ابوہریرہ (رض) سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے لیے میری امت کے لوگوں کے وہ خیالات اور وساوس معاف کردیے گئے ہیں جو ان کے دلوں میں آئیں، تاوقتیکہ ان کو زبان پر نہ لائیں، یا ان پر عمل نہ کریں۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب تجاوز اللہ عن ۔۔ : ١٢٧۔ بخاری : ٥٢٦٩ ] (ابن کثیر، شوکانی) - لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ: یعنی ایسا نہیں کہ ہم بعض انبیاء کو مانتے ہوں اور بعض کا انکار کرتے ہوں، بلکہ ہم تمام انبیاء کو مانتے ہیں۔
خلاصہ تفسیر :- اللہ ہی کی ملک میں ہیں سب (مخلوقات) جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں (جیسے خود زمین و آسمان بھی اسی کی ملک میں ہیں) اور (جب وہ مالک ہیں تو ان کو اپنی مملوکہ اشیاء میں ہر طرح قانون بنانے کا حق ہے اس میں مجال کلام نہ ہونی چاہئے جیسا کہ ایک قانون یہ ہے کہ) جو باتیں (عقائد فاسدہ یا اخلاق مذمومہ یا گناہوں پر پختہ عزم و ارادہ کی) تمہارے نفسوں میں ہیں ان کو اگر تم (زبان وجوارح سے) ظاہر کرو گے (مثلا زبان سے کلمہ کفر کہہ دیا یا اپنے تکبر حسد وغیرہ کا خود اظہار کردیا یا کسی گناہ جس کا قصد تھا اسی کو کر ہی ڈالا) یا کہ (دل ہی میں) پوشیدہ رکھو گے (دونوں حالتوں میں) حق تعالیٰ تم سے (مثل دوسرے معاصی کے ان کا) حساب لیں گے پھر (حساب لینے کے بعد بجز کفر و شرک کے) جس کے لئے (بخشنا) منظور ہوگا بخش دیں گے اور جس کو (سزا دینا) منظور ہوگا سزا دیں گے اور اللہ تعالیٰ ہر شے پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں۔- معارف و مسائل :- پہلی آیت میں شہادت کے اظہار کا حکم اور چھپانے کی ممانعت مذکور تھی یہ آیت بھی اسی مضمون کا تکملہ ہے اس میں انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ شہادت کا چھپانا حرام ہے اگر تم نے معاملہ کو جانتے ہوئے چھپایا تو رب علیم وخبیر تم سے اس کا حساب لے گا۔ حضرت ابن عباس، عکرمہ، شعبی، اور مجاہد سے یہی تفسیر منقول ہے (قرطبی) - اور عموم الفاظ کے اعتبار سے عام ہے اور تمام اعتقادات، عبادات اور معاملات کو شامل ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا مشہور قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوق کے تمام اعمال کا محاسبہ فرمائیں گے وہ عمل بھی جس کو وہ کر گذرے ہیں اور وہ بھی جن کا دل سے پختہ ارادہ کرلیا اور اس کو دل میں چھپا کر رکھا مگر عمل کی نوبت نہیں آئی جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں بروایت حضرت ابن عمر منقول ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ مومن قیامت کے روز اپنے رب عزوجل وعلیٰ سے قریب کیا جائے گا یہاں تک کہ حق تعالیٰ اس کے ایک ایک گناہ کو یاد دلائیں گے، اور سوال کریں گے کہ تو جانتا ہے کہ تو نے نہ یہ گناہ کیا تھا، بندہ مومن اقرار کرے گا، حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے دنیا میں بھی تیری پردہ پوشی کی اور تیرا گناہ لوگوں میں ظاہر نہیں ہونے دیا اور میں آج اس کو معاف کرتا ہوں اور حسنات کا اعمالنامہ اس کو دے دیا جائے گا لیکن کفار اور منافقین کے گناہوں کو مجمع عام میں بیان کیا جائے گا۔- اور ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے جس میں پوشیدہ چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا اور دلوں کے پوشیدہ راز کھولے جائیں گے اور یہ کہ میرے کاتب اعمال فرشتوں نے تو تمہارے صرف وہ اعمال لکھے ہیں جو ظاہر تھے اور میں ان چیزوں کو بھی جانتا ہوں جن پر فرشتوں کو اطلاع نہیں اور نہ انہوں نے وہ چیزیں تمہارے نامہ اعمال میں لکھی ہیں اور اب وہ سب تمہیں بتلاتا ہوں اور ان پر محاسبہ کرتا ہوں پھر جس کو چاہوں گا بخش دوں گا اور جس کا چاہوں گا عذاب دوں گا پھر مؤمنین کو معاف کردیا جائے گا اور کفار کو عذاب دیا جائے گا (قرطبی) - یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے :- ان اللہ تجاوز عن امتی عما حدثت انفسہا مالم یتکلموا او یعملوا بہ (قرطبی) اللہ تعالیٰ نے میری امت کو معاف کردیا ہے وہ جو ان کے دل میں خیال آیا جب تک اس کو زبان سے نہ کہا یا عمل نہ کیا ہو۔ - اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کے ارادہ پر کوئی عذاب و عتاب نہیں ہے۔ امام قرطبی نے فرمایا کہ حدیث احکام دنیا کے متعلق ہے، طلاق، عتاق، بیع، ہبہ، وغیرہ محض دل میں ارادہ کرلینے سے منعقد نہیں ہوجاتے جب تک ان کو زبان سے یا عمل سے نہ کیا جائے اور آیت میں جو کچھ مذکور ہے وہ احکام آخرت سے متعلق ہے اس لئے کوئی تعارض نہیں اور دوسرے حضرات علماء نے اس شبہ کا جواب یہ دیا ہے کہ جس حدیث میں دل کی چھپی ہوئی چیزوں کی معافی مذکور ہے اس سے مراد وہ وساوس اور غیر اختیاری خیالات ہیں جو انسان کے دل میں بغیر قصد اور ارادہ کے آجاتے ہیں بلکہ ان کے خلاف کا ارادہ کرنے پر بھی وہ آتے رہتے ہیں ایسے غیر اختیاری خیالات اور وساوس کو اس امت کے لئے حق تعالیٰ نے معاف کردیا ہے اور آیت مذکور میں جس محاسبہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ ارادے اور نیتیں ہیں جو انسان اپنے قصد اور اختیار سے اپنے دل میں جماتا ہے اور اس کے عمل میں لانے کی کوشش بھی کرتا ہے پھر اتفاق سے کچھ موانع پیش آجانے کی بناء پر ان پر عمل نہیں کرسکتا قیامت کے دن ان کا محاسبہ ہوگا پھر حق تعالیٰ جس کو چاہیں اپنے فضل وکرم سے بخش دیں جس کو چاہیں عذاب دیں جیسا کہ مذکورہ حدیث بخاری ومسلم میں گذر چکا ہے۔ اور چونکہ آیت مذکورہ کے ظاہری الفاظ میں دونوں قسم کے خیالات داخل ہیں خواہ اختیاری ہوں یا غیر اختیاری، اس لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام کو سخت فکر وغم لاحق ہوگیا کہ اگر غیر اختیاری خیالات و وساوس پر بھی مواخذہ ہونے لگا تو کون نجات پائے گا۔ صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس فکر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تو آپ نے سب کو یہ تلقین فرمائی کہ جو کچھ حکم ربانی نازل ہوا اس کی تعمیل و اطاعت کا پختہ قصد کرو اور کہو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا یعنی ہم نے حکم سن لیا اور تعمیل کی صحابہ کرام (رض) اجمعین نے اس کے مطابق کیا اور اس پر یہ جملہ قرآن کا نازل ہوا لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی قدرت سے زائد تکلیف نہیں دیتا۔- جس کا حاصل یہ ہے کہ غیر اختیاری وساوس اور خیالات پر مواخذہ نہیں ہوگا اس پر صحابہ کرام (رض) اجمعین کا اطمینان ہوگیا۔ یہ حدیث صحیح مسلم میں بروایت ابن عباس نقل کی گئی ہے (قرطبی) یہ پوری آیت آگے آرہی ہے۔- اور تفسیر مظہری میں ہے کہ انسان پر جو اعمال اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کئے گئے ہیں یا حرام کئے گئے ہیں وہ کچھ تو ظاہری اعضاء وجوارح سے متعلق ہیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور تمام معاملات اسی قسم میں داخل ہیں اور کچھ اعمال و احکام وہ بھی ہیں جو انسان کے قلب اور باطن سے تعلق رکھتے ہیں ایمان و اعتقاد کے تمام مسائل تو اسی میں داخل ہیں اور کفر و شرک جو سب سے زیادہ حرام و ناجائز ہیں ان کا تعلق بھی انسان کے قلب سے ہی ہے اخلاق صالحہ تواضع، صبر، قناعت سخاوت وغیرہ اسی طرح اخلاق رذیلہ کبر، حسد، بغض، حب دنیا حرص وغیرہ یہ سب چیزیں ایک درجہ میں حرام قطعی ہیں ان سب کا تعلق بھی انسان کے اعضاء وجوارح سے نہیں بلکہ دل سے اور باطن سے ہے۔- اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح اعمال ظاہرہ کا حساب قیامت میں لیا جائے گا اسی طرح اعمال باطنہ کا بھی حساب ہوگا، اور خطا پر بھی مواخذہ ہوگا، یہ آیت سورة بقرہ کے اخیر میں لائی گئی اس میں بڑی حکمت ہے کیونکہ سورة بقرہ قرآن کریم کی ایسی بڑی اور مہم سورة جس میں احکام الہیہ کا بہت بڑا آگیا ہے اس سورة میں اصولی اور فروغی معاش ومعاد کے متعلق اہم ہدایات، نماز، زکوٰۃ، روزہ قصاص، حج، جہاد، طہارت، طلاق، عدت، خلع، رضاعت، حرمت شراب، ربا اور قرض، لین دین کے جائز و ناجائز طریقوں کا تفصیلی بیان آگیا ہے اسی لئے حدیث میں اس سورت کا نام سنام القرآن بھی آیا ہے یعنی قرآن کا سب سے بلند حصہ اور تمام احکام کی تعمیل میں سب کی روح اخلاص ہے یعنی کسی کام کو کرنا یا اس سے بچنا دونوں خالص اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے ہوں ان میں نام و نمود یا دوسری نفسانی اغراض شامل ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ اخلاص کا تعلق انسان کے باطن اور قلب سے ہے سب کی درستی اسی پر موقوف ہے اس لئے سورت کے آخر میں اس آیت کے ذریعہ انسان کو تنبیہ کردی گئی کہ فرائض کی ادائیگی یا محرمات سے پرہیز کے معاملہ میں مخلوق کے سامنے تو حیلہ جوئی کے ذریعہ بھی راہ فرار اختیار کی جاسکتی ہے مگر حق تعالیٰ علیم وخبیر ہے اس سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں اس لئے جو کچھ کرے یہ سمجھ کر کرے کہ رقیب وحفیظ میرے سب ظاہری اور باطنی حالات کو لکھ رہا ہے اور سب کا حساب قیامت کے روز دینا ہے یہی وہ روح ہے جو قرآن کریم انسانوں میں پیدا کرتا ہے کہ ہر قانون کے اول یا آخر میں خوف خدا اور فکر آخرت کا ایسا محافظ ان کے قلوب پر بٹھاتا ہے کہ وہ رات کی اندہیری میں اور خلوتوں میں کسی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہوا ڈرتا ہے۔
لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ٠ ۭ وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللہُ ٠ ۭ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ ٠ ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٢٨٤- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
(آیت 282 کی بقیہ تفسیر)- اللہ تعالیٰ نے مقبول گواہوں کو دو صفات سے متصف کیا ہے۔ ایک صفت عدالت چناچہ ارشاد باری ہے اثنان ذو ا عدلی منکم تم میں سے دو گواہ جو عال ہوں ۔ نیز ارشاد ہے واشھدوا ذوی عدل منکم اور اپنوں میں سے دعادل آدمیوں کو گواہ بنا لو دوسری صفت ان کا پسندیدہ ہونا ہے چناچہ ارشاد ہے ممن ترضون من الشھدا ان لوگوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو۔ پسندیدہ لوگوں میں عدالت کی صفت کا ہونا ضروری ہے اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص صفت عدالت سے متصف ہوتا ہے لیکن گواہی کے معاملے میں وہ نا پسندید ہ ہوتا ہے ۔ مثلاً وہ شخص باوجود اپنی نیکی اور تقویٰ کے ، نا تجربہ کار ، سادہ لوح اور بیخبر ہو کہ جسے بہت آسانی سے دام تز ویر میں پھنسایا جاسکتا ہو اور جسے ملمع کاری کے ذریعے دھوکا دیا جاسکتا ہو۔- اس لیے قول باری ممن ترضون من الشھداء دو باتوں پر مشتمل ہے اول عدالت و بیدار مغزی ، دوم ذہانت وقوت حفظ ۔ اللہ تعالیٰ نے زناکے سلسلے میں گواہی کو مطلق رکھا ہے اور اسے عدالت کے ذکر کے ساتھ مقید نہیں کیا حالانکہ عدالت اور پسندیدگی دونوں ہی گواہی کی شرطیں ہیں۔ وہ اس لیے ارشاد باری ہے اذا جاء کم فاسق بنبا فتبینوا جب تمہارا فاسق انسان کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔- آیت میں فاسق و فاجر لوگوں کی دی ہوئی خبروں کے متعلق تحقیق کرلیا کرو۔- آیت میں فاسق و فاجر لوگوں کی دی ہوئی خبروں کے متعلق تحقیق کے ایجاب کا عمومی حکم ہے اور گواہی بھی ایک خبر ہے۔ اس لیے اگر گواہ فاسق ہو تو اس کی گواہی کی چھان بین کرلینا واجب ہے جب اللہ تعالیٰ نے فاسق کی خبر کی تحقیق کرنے کا نصعا ً حکم دے دیا اور پسندیدہ قسم کے عادل گواہوں کی گواہی قبول کرلینا ہم پر واجب کردیا جبکہ کسی شخص کے فسق کے متعلق یقینی علم حاصل ہوسکتا لیکن عدالت کے متعلق ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ صرف ظاہری حالت پر انحصار کرنا ہوتا ہے تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس کی بنیاد ظن غالب اور گواہ کے ظاہری صلاح و تقویٰ ، دیانت و امانت اور صداقت لسانی پر رکھی گئی ہے۔ اس چیز کی بنیاد اگرچہ ظن غالب پر ہے۔- تا ہم یہ بھی علم کی ایک قسم ہے جس طرح کہ ہجرت کر کے آنے والی خواتین کے متعلق ارشاد باری ہے فان علمتوھن مومنان فلا تر جعوھن الا الکفار اگر تمہیں ان کے متعلق یہ علم ہوجائے کہ وہ ایمان والیاں ہیں تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو اس علم کا تعلق ظاہری طور پر حاصل ہونے والے علم سے ہے۔ حقیقی طور پر حاصل ہونے والے علم سے نہیں ہے۔ اسی طرح کسی گواہ کی عدالت کے متعلق حکم لگانے کا ذریعہ ظاہری طور پر حاصل ہونے والا علم ہے۔ اس کا تعلق اس کے اندرونی حالات سے تعلق رکھنے والے علم سے نہیں ہے کیونکہ یہ غیب ہے جس کا علم صرف اللہ کا ذات کو حاصل ہے ۔ یہ چیز نئے پیدا ہونے والے حالات کے احکام معلوم کرنے کی غرض سے اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لینے کے قائلین کے قول کی صحت کے لیے ایک بڑے اصل اور بنیاد کا کام دیتی ہے۔- کیونکہ گواہیاں دین اور دنیا دونوں کے امور کی نشانیوں میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان گواہیوں کے ساتھ بندوں کے مصالح کو پیوستہ کردیا ہے جن کا تعلق و ثائق یعنی دستاویزوں ، حقوق اور اثاثوں کے اثبات نیز نسب ، خونبہا وغیرہ کے ثبوت اور نکاح کی بنا پر جنسی تعلق کی حلت کا اثبات وغیرہ سے ہے اور یہ گواہیاں ظن غالب اور رائے کے رجحان اور جھکائو پر مبنی ہوتی ہیں ۔ اس لیے کہ کسی شخص کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ یقینی علم کی بنا پر کسی گواہ کی گواہی پر صحت اور دوستی کا حکم لگا دے۔- یہ چیز ہر زمانے میں ایک امام معصوم کے وجود کے نظریے کی تردید کرتی ہے نیز جن لوگوں کا یہ استدلال ہے کہ تمام دینی امور کا تعلق اس صورت کے ساتھ ہونا چاہیے جو علم حقیقی کو واجب کرتی ہو ۔ ظن غالب اور رائے کے جھکائو پر نہیں ہونا چاہیے اس لیے اگر اما م معصوم نہیں ہوگا تو دینی امور میں غلطیاں سر زد ہوں گی، کیونکہ رائے درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی ۔ ہماری درج بالا وضاحت سے یہ استدلا ل بھی باطل ہوجاتا ہے اس لیے کہ اگر یہ بات اس طرح ہوتی جس طرح ان لوگوں کا گمان ہے تو اس سے یہ لازم کہ گواہوں کی گواہیاں صرف اس وقت قبول کی جائیں جب وہ معصوم ہوں اور غلطی اور لغزش سے محفوظ ہوں ۔ جب اللہ تعالیٰ نے گواہوں کی گواہیاں ایسی صورت میں قبول کرنے کا حکم دے دیا جب وہ اپنی ظاہری حالت کے لحاظ سے پسندیدہ ہوں اور اس کی بنیاد ان کی پوشیدہ حالت کے متعلق حقیقی علم پر نہیں کیا ، ساتھ ساتھ اس میں جھوٹ اور غلطی کے امکان کی بھی گنجائش رکھی تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مذکورہ بالا لوگوں نے جس اصل پر نص قرآنی کی بنیاد رکھی ہے وہ باطل ہے۔- ہم نے یہ ذکر کیا کہ آیت زیر بحث میں مذکورہ حکم الٰہی کے پیروی کرتے ہوئے گواہوں کی عدالت اور صلاح و تقویٰ کے متعلق ان کے احوال کے اعتبار کی بنیاد ظن غالب پر رکھی گئی ہے۔ اس میں ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت موجود ہے جو ان احکام میں قیاس اور اجتہاد کی نفی کرتے ہیں جو منصوص نہیں اور نہ ہی ان پر اجماع موجود ہے۔ اس لیے کہ خو نبہا ، حلت فرج ، اموال و انساب کا تعلق ان امور سے ہے جن کے ساتھ دین اور دنیا دونوں کے مصالح کو پیوستہ کردیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان امور میں ان گواہوں کی گواہیاں قبول کرلینے کا حکم دیا ہے جن کے پوشیدہ امور کا ہمیں علم نہیں۔- انکی گواہی کے متعلق ہم ظن غالب اور ظاہری حالت کی بنا پر حکم لگاتے ہیں ساتھ ساتھ اسمیں جھوٹ سہو، غلطی اور لغزش کے امکان کی گنجائش کو بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ اس سے ان احکام میں اجتہاد کا جواز اور رائے سے کام لینے کی گنجائش کا ثبوت مل جاتا ہے جو منصوص نہیں ہیں اور نہ ہی ان پر اتفاق امت موجود ہے۔ درج بالا وضاحت میں ایسی احادیث و روایات کو قبول کرلینے کے جواز پر دلالت موجود ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں لیکن اپنے مدلول کے متعلق علم یقینی مہیا کرنے سے قاصر ہیں ۔ ا س دلالت کی صورت یہ ہے کہ گواہوں کی گواہیاں مشھودبہ جس چیز کی گواہی دی گئی ہو کی صحت کے متعلق ہمیں یقین علم مہیا نہیں کرتی ہیں لیکن ہمیں ان گواہیوں پر فیصلہ کردینے کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ اصل حقیقت اس کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔- اسی طرح جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کی خبر یا روایت کو قبول کرنا جائز نہیں جس کی یہ روایت امور دین میں علم یقینی کو واجب نہ کرتی ہو ، ان کا یہ قول باطل ہوگیا ۔ ہماری درج بالا وضاحت ان لوگوں کے قول کے بطلان پر بھی دلالت کرتی ہے جو اخبار آحاد کو رد کرنے کے لیے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر ہم اخبار آحاد کو قبول کرلیں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ گویا ہم نے خبر دینے والے کا درجہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجے سے بڑھا دیا ہے۔ کیونکہ بنیادی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دی ہوئی خبر کو قبول کرنا اس وقت تک واجب نہیں ہوا جب تک آپ کی ذات با برکات سے ایسے معجزات کا ظہور نہیں ہوگیا جو آپ کی صداقت پر دلالت کرتے تھے۔- اس استدلا ل کے بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے گواہوں کی گواہیاں قبول کرنے کا حکم دیا ہے جو اپنی ظاہری حالت کے اعتبار سے عدالت کے صفت سے متصف ہوں اگرچہ ان کی گواہی کے ساتھ کسی ایسے معجزے کا علم نہ بھی ہو جو ان کی صداقت پر دلالت کرتاہو۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ گواہی سے تہمت کی نفی کا بھی اعتبار کیا جائے گا اگرچہ گواہ عادل ہی کیوں نہ ہو تو اس کی بعض صورتوں کے متعلق فقہاء کا اتفاق ہے اور بعض کے متعلق اختلا ف ہے ، جن صورتوں کے متعلق فقہاء امصار کا اتفاق ہے ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص کی اپنی اولاد یا اپنے والد کے حق میں گواہی باطل ہے۔- البتہ عثما ن البنی سے یہ قول نقل کیا جاتا ہے کہ اولاد کی اپنے والدین ، باپ کی اپنے بیٹے اور بہو کے حق میں گواہی جائز ہے بشرطیکہ گواہی دینے والے عادل اور شائستہ و سنجیدہ ہوں اور شرف و فضل کے اعتبار سے معروف و مشہور ہوں ۔ انہوں نے اس معاملے میں تمام لوگوں کو یکساں نہیں رکھا ہے بلکہ ایک شخص کی اپنے باپ کے حق میں گواہی اور ایک اجنبی کے حق میں گواہی میں گواہی کے درمیان فرق رکھا ہے۔ ہمارے اصحاب ، اما م مالک ، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ باپ اور بیٹے میں سے کسی کی دوسرے کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے۔ ہمیں عبد الرحمن بن سیما نے روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں وکیع نے سفیان سے ، انہوں نے جابر سے ، انہوں نے شبعی سے اور انہوں نے قاضی شریح سے کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں ، شوہر کی گواہی بیوی کے حق میں اور بیوی کی گواہی شوہر کے حق میں جائز نہیں ہے۔- ایاس بن معاویہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی کو جائز قرار دیا ۔ ہمیں عبد الرحمن بن سیما نے ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں عفان نے ، انہیں حماد بن زید نے، انہیں خالد الخداء نے ایاس بن معاویہ سے یہ روایت بیان کی ۔ باپ کی بیٹے میں گواہی کے بطلان پر قول باری لیس علیکم جناح ان تاکلوا من بیوتکماو بیوت اباکم تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے آباء کے گھروں سے کھانا کھالو ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے بیٹوں کے گھروں سے کا ذکر نہیں کیا اس لیے کہ قول باری من بیوتکم بیٹوں کے گھروں کو بھی شامل ہے کیونکہ بیٹوں کے گھر بھی آباء کی طرف منسوب ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کے گھروں کے ذکر پر اکتفا کیا گیا اور بیٹوں کے گھروں کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔- نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اراشد ہے انت وما لک لا بیک تو اور تیرا سارا مال تیرے باپ کا ہے آپ نے ملکیت کی نسبت باپ کی طرف کردی ، آپ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ان الطیب ما اکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ فکلومن کسب اولاد کم انسان کے لیے پاکیزہ ترین خوراک وہ ہے جو اس کی اپنی کمائی سے حاصل ہو ، انسان کا بیٹا بھی اس کی کمائی کا ایک حصہ ہے ۔ اس لیے تم اپنی اولاد کی کمائی کھائو۔- جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹے کی ملکیت کی نسبت باپ کی طرف کردی اور اس کی کمائی کھانے کی اجازت دے دی بلکہ بیٹے کو اس کی کمائی کا ایک حصہ قراردیا تو پھر جو شخص اپنی گواہی سے اپنے بیٹے کے لیے کوئی حق ثابت کرے گا وہ گویا اپنی گواہی سے اپنی ذات کے لیے حق ثابت کرنے والا بن جائے گا اور ظاہ رہے کہ ایک شخص کی اپنی ذات کے حق میں گواہی باطل ہے۔ اسی طرح اپنے بیٹے کے حق میں بھی باطل ہوگی۔ جب بیٹے کے حق میں اس کا بطلان ثابت ہوگیا تو یہی حکم باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کا بھی ہوگا ۔ اس لیے کہ کسی نے بھی ان دونوں قسم کی گواہیوں کے درمیان فرق نہیں کیا ۔- اگر یہ کہا جائے کہ گواہ کے عادل ہونے کی صورت میں مذکورہ بالا رشتہ داروں کے حق میں اس کی گواہی قبول کرنا واجب ہوگا جس طرح کی اجنبی کے حق میں قبول کرنا واجب ہوتا ہے۔ اگر تہمت کی بنا پر ان رشتہ داروں کے حق میں اس کی قابل قبو ل نہیں تو اجنبی کے حق میں بھی قابل قبول نہیں ہوتی چاہیے اس لیے کہ جس شخص پر یہ تہمت ہو کہ اس نے اپنے بیٹے کے حق میں گواہی دے کر اسے ناجائز طریقے سے ایک حق دلا دیا تو اجنبی کے حق میں گواہی کی صورت میں بھی اس پر اس قسم کی تہمت لگ سکتی ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ گواہ کی اپنے باپ یا بیٹے کے حق میں گواہی کی اس وجہ سے ممانعت نہیں ہے کہ اس پر فسق یا کذب کی تہمت لگ جاتی ہے بلکہ تہمت اس وجہ سے لگتی ہے کہ ایسی گواہی کی صورت میں گویا وہ اپنی ذات کے لیے مدعی بن جاتا ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی ذات کے لیے جس چیز کا دعویٰ کر رہا ہے اس کی تصدیق بھی خود کرلیے خواہ اس کی ذہانت ، امانت اور عدالت کے سب معترف ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہ عدم جواز اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ اسے کاذب قرار دیا جاتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنی ذات کے لیے کسی چیز کا دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ ثبوت کے بغیر ثابت نہیں ہوسکتا ۔ اس بنا پر اپنے بیٹے کے حق میں گواہی دینے والا انسان گویا اپنی ذات کے لیے مدعی ہوتا ہے جس پر ہم پہلے بھی روشنی ڈال آئے ہیں۔- اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ہر وہ گواہ جو اپنی گواہی کے ذریعے اپنی ذات کے لیے کوئی مفاد اٹھا لے یا اپنی ذات سے کسی ہونے والے نقصان کا دفعیہ کر دے ایسے شخص کی گواہی ناقابل قبول ہے کیونکہ ایسی صورت میں اس کی حیثیت ایک مدعی کی ہوجائے گی اور جو شخص اپنی ذات کے لیے کسی حق کا دعویٰ کرے وہ اس میں گواہ نہیں بن سکتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کوئی شخص صادق نہیں ہوسکتا کیونکہ معجزہ نما نشانیاں اس پر دلالت کرتی تھیں کہ آپ ؐ کی زبان مبارک سے حق اور سچ کے سوا کچھ نہیں نکلتا اور آپ کی طرف جھوٹ کی نسبت بھی جائز نہیں ہے۔ ساتھ ساتھ ہمیں آپ کی نجی زندگی کے حالات کا علم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کا ظاہر اور باطن ایک ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جب آپ نے ایک شخص پر دعویٰ کیا تو مدعی علیہ کے مطالبے پر اپنے دعوے کے حق گواہی مہیا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ یہ خزیمہ بن ثابت کا واقعہ ہے ۔ ہمیں اس کی روایت عبد الرحمن بن سیما نے کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں ابو الیمان نے ، انہیں شعیب نے زہری سے ، انہوں نے عمارہ بن خزیمہ انصاری سے ، انہوں نے اپنے چچا سے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ہدو سے ایک گھوڑا خریدا ۔ پھر انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔- جب بات بڑھی تو بدو نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ گواہ پیش کریں کہ میں نے یہ سودا کیا ہے۔ اس پر حضرت خزیمہ (رض) نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے گھوڑا فروخت کیا ہے۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خزیمہ (رض) کی طرف مڑے اور پوچھا کہ تم یہ گواہی کس بنیاد پردے رہے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ کے رسول آپ کی تصدیق کی بنا پر آپ نے حضرت خزیمہ کی ایک گواہی کو دو شخصوں کی گواہی کے قائم مقام قرار دیا اور اپنے دعوے میں وہ طریقہ اختیار کرنے میں کوتاہی نہیں کی جس کے ذریعہ دلائل اور نشانیوں کی بنا پر یہ بات ثابت اور واضح ہوچکی تھی کہ آپ کی زبان مبارک سے حق کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔- آپ نے بدو کی طرف سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ پر اس سے یہ نہیں فرمایا کہ میرے خلاف کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا جاسکتا یا میرے خلاف کسی کی گواہی نہیں ہوسکتی ۔ یہی حکم تمام لوگوں کا ہے۔ جو کسی مقدمے میں مدعی ہوں ان کے ذمہ ایسی گواہی قائم کرنا واجب ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ذات کے لیے کوئی مفاد حاصل نہ کرے اور نہ ہی اپنی ذات سے کسی نقصان یا ضرر کا دفیعہ کرے۔ باپ کا اپنے بیٹے کے حق میں گواہی دینا اپنی ذات کے لیے سب سے مفاد اٹھانے کے مترادف ہے جس طرح کہ اپنی ذات کے حق میں گواہی دے کر مفاد اٹھایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔- زوجین کا ایک دوسرے کے حق میں گواہی دینا بھی اسی باب سے ہے - زوجین کا ایک دوسرے کے حق میں گواہی دینا ایک اختلافی مسئلہ ہے ، امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف محمد ، زفر ، امام ، اوزاعی اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے حق میں گواہی نہیں دے سکتے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے حق میں گواہی سکتا ہے۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ عورت اپنے شوہر کے حق میں گواہی نہیں دے سکتی ۔ جبکہ امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ زوجین ایک دوسرے کے حق میں گواہی دے سکتے ہیں۔- ابوجصاص کہتے ہیں زوجین کی ایک دوسرے کے حق میں گواہی بیٹے کے حق میں باپ کی اور باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کی طرح ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں ۔ اول ۔ یہ ایک عام عادت ہے کہ زوجین میں سے ہر ایک دوسرے کے مال میں سے خرچ کرلیتے ہیں اور اس کے لیے انہیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اس کی حیثیت ایک مباح چیز کی سی ہوتی ہے۔ اس لیے شوہر اپنی بیوی کے حق میں گواہی دے کر جو چیز اسے دلائے گا وہ گویا اپنی ذات کو دلانے کے مترادف ہوگا، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو بھی یہی حکم ہوگا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عام عادت کے مطابق میاں بیوی کا ایک دوسرے کے مال میں سے خرچ کرلینا بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنے باپ یا بیٹے کے مال میں سے خرچ کرلے۔ اس صورت حال کے پیش نظر اگر ایک شخص کی اپنے باپ یا بیٹے کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے تو زوجین میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے نیز بیوی کے حق میں شوہر کی کسی مال کے معاملے میں گواہی بضع کی قیمت میں اضافے کی موجب ہے جس کا وہ مالک ہے اس لیے کہ بیوی کے مال میں اضافے سے اس کے مہر مثل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح شوہربیوی کے حق میں گواہی دے کر گویا اپنے حق میں اس چیز کی قیمت کے اضافے کی گواہی دے گا ۔ جس کا وہ مالک ہے ۔ حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے عبد اللہ بن عمرو بن الحضرمی سے یہ فرمایا جب موخر الذکر نے آپ سے یہ شکایت کی کہ ان کے ایک غلام نے ان کی بیوی کی چوری کی ہے کہ تمہارے غلام نے تمہارا مال چرایا ہے اس لیے چوری کی سزا میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا ۔- اس طرح آپ نے میاں بیوی دونوں میں سے ہر ایک کے مال کی زوجیت کے تعلق کی بنا پر ہر ایک کی طرف نسبت کردی ۔ اس طرح ان دونوں میں سے جو بھی دوسرے کے لیے کوئی حق ثابت کرے گا وہ گویا اپنی ذات کے لیے ثابت کر دے گا ۔ ایک اور پہلو سے اس پر نظر ڈالیے ، شوہر کے مال میں جس قدر اضافہ ہوتا جائے گا ۔ بیوی کے نان و نفقہ میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتاجائے گا اس طرح بیوی شوہر کے حق میں گواہی دے کر گویا اپنے حق میں گواہی دینے والی بن جائے گی اس لیے کہ خوشحالی اور تنگدستی دونوں صورتوں میں وہ حق زوجیت کی بنا پر شوہر کے مال میں نان و نفقہ کی مستحق قرار دی جاتی ہے۔- اگر کوئی یہ کہے کہ بہن مفلس ہو یا بھائی اپاہج ہو تو یہ دونوں اپنے خوشحال بھائی کے مال میں نان و نفقہ کے مستحق قرار پاتے ہیں لیکن یہ بات انہیں اپنے بھائی کے حق میں گواہی دینے سے مانع نہیں ہوتی ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اخوۃ یعنی بھائی ہونے کا رشتہ نان و نفقہ کے استحقاق کا موجب نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایک خوشحال بھائی اپنے دوسرے بھائی کے مال میں نسبتی تعلق کے باوجود نان و نفقہ کا مستحق نہیں ہوتا اور فقیر بھائی پر خوشحالی بھائی کا نان و نفقہ بھائی چارے کے باوجود واجب نہیں ہوتا جبکہ زوجیت بیوی کے لیے نان و نفقہ کے استحقاق کا سبب ہوتی ہے ، شوہر خواہ خوشحال ہو یا فقیر۔ اس لیے بیوی اپنے شوہر کے حق میں گواہی دے کر گویا اپنے ذات کے لیے اس نان و نفقہ میں اضافے کا باعث بنے گی جو زوجیت کی بنا پر اس کے لیے شوہر پر واجب ہے لیکن نسب کی وجہ سے پیدا ہونے والے تعلق کی یہ کیفیت نہیں ہے۔ اس لیے کہ دو شخصوں کے درمیان نسبی تعلق ایک دوسرے کے لیے نان و نفقہ کا موجب نہیں بنتا۔ اس بنا پر زوجیت اور نسب دونوں میں فرق ہوگیا۔- اجیر یعنی اجرت پر رکھے ہوئے شخص کی گواہی بھی اسی باب سے تعلق رکھتی ہے - طحاوی نے محمد بن سنان سے ، انہوں نے عیسیٰ سے ، انہوں نے امام محمد سے ، انہوں نے امام ابو یوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ اجیر کی اپنے مستاجر یعنی اجرت پر رکھنے والے کے حق میں ہر قسم کی گواہی ناجائز ہے ۔ خواہ اجیر عادل ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ استحسانا ً ہے ، یعنی قیاس خفی کی بنا پر اس حکم کو پسند کیا گیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہشام اور ابن رستم نے امام محمد سے نقل کیا ہے کہ اجیر خاص ایسا مزدور جو صرف ایک آدمی کا کام کرے کی اپنے مستاجر کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر مزدور مشترک ہو تو اس کی گواہی جائز ہے۔ روایت کے اندر اس مسئلے میں کسی کے اختلاف کا ذکر نہیں ہے۔ یہی عبد اللہ بن الحسن کا بھی قول ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ اجیر کی اپنے مستاجر کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے البتہ اگر اجیر صفت عدالت سے نمایاں طور پر متصف ہو تو وہ گواہی دے سکتا ہے۔ اگر اجیر مستاجر کے عیال کا ایک فرد ہو تو اس کی گواہی جائز نہیں ہوگی ۔ اوزاعی کا قول ہے اجیر کی مستاجر کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے ۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اجیر کی گواہی اس صورت میں جائز ہوگی جبکہ اس گواہی میں اس کا اپنا کوئی مفاد نہ ہو۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت کی ، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے ، انہیں ابو عمر الحوضی نے ، انہیں محمد بن راشد نے سلیمان بن موسیٰ سے انہوں نے عمرو بن شعیب سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خائن مرد اور خائن عورت کی گواہی رد کردی تھی ۔ اسی طرح آپ نے کینہ پر در انسان کی اپنے بھائی کے خلاف گواہی بھی رد کردی تھی ۔ نیز آپ نے کسی خاندان میں رہ کر گزارہ کرنے والے انسان کی اس خاندان والوں کے حق میں گواہی بھی قبول نہیں کی تھی جبکہ ان کے علاوہ دوسروں کے متعلق اس کی گواہی کو جائز قرار دیا تھا۔- ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے ، انہیں حفص بن عمر نے ، انہیں محمد بن راشد نے اپنی سند سے اسی قسم کی روایت بیان کی تا ہم انہوں نے یہ کہا کہ آپ نے کسی خاندان میں رہ کر گزارہ کرنے والے کی اس خاندان کے حق میں گواہی رد کردی یعنی مذکورہ بالا روایت کا آخری فقرہ اپنی روایت میں بیان نہیں کیا۔ ابوبکر جصاص کہنے میں کہ کسی خاندان میں رہ کر گزارہ کرنے والے کے مفہوم میں اجیر خاص بھی داخل ہے ۔ اس لیے کہ خاندان میں رہ کر گزرنے کرنے کا معنی اس خاندان کا تابع ہونا ہے۔ اجیر خاص کی بھی یہی صفت ہوتی ہے تا ہم اجیر مشترک اور باقی ماندہ دوسرے لوگ مستاجر کے مال کی نسبت سے ایک ہی درجے پر ہوتے ہیں ۔ اس لیے اجیر مشترک کی گواہی کے جواز کو کوئی چیز مانع نہیں ۔ اس طرح دو آدمیوں کی مخصوص مال میں شراکت ہو جسے شرکۃ العنان کہتے ہیں تو ہر شریک شراکت کے مال کے علاوہ دور سے امور میں اپنے امور میں شریک کے حق میں گواہی دے سکتا ہے اور اس کی یہ گواہی جائز ہے۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ہر ایسی گواہی جو کسی تہمت کی بنا پر ایک دفعہ رد ہوگئی ہو آئندہ کبھی قابل قبول نہیں ہوگی ۔ مثلاً ایک فاسق کی فسق کی تہمت کی بنا پر گواہی رد ہوجائے پھر وہ فاسق توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلے اور سلامت روی اختیار کرلے۔ اس کے بعد پھر وہی گواہی دوبارہ آ کر دے تو اس کی یہ گواہی قبول نہیں کی جائے گی ۔ اسی طرح زوجین کی ایک دوسرے کے حق میں گواہی اگر رد کردی جائے پھر ان دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق ختم ہوجائے پھر ان میں سے کوئی دوسرے کے حق میں سابقہ گواہی دوبارہ آ کر دے تو یہ گواہی کبھی کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔- ان کا قول ہے کہ اگر غلام یا کافر یا بچے نے کوئی گواہی دی اور وہ گواہی ان گواہوں کے اندر پائی جانے والی منافی وجوہات کی بنا پر رد کردی گئی ، پھر کافر مسلمان ہوگیا ۔ غلام آزاد ہوگیا اور بچہ بڑا ہوگیا اور اس کے بعد انہوں نے وہی گواہی دوبارہ آ کردی تو ان کی یہ گواہی قبول کرلی جائے گی۔ امام مالک کا قول ہے بچہ یا غلام کوئی گواہی دیں اور وہ گواہی رد کردی جائے پھر بچہ بڑا ہوجائے اور غلام آزاد ہوجائے اور دوبارہ وہی گواہی پھر دیں تو ان کی یہ گواہی قبول نہیں کی جائے گی ۔ البتہ اگر یہ گواہی پہلے رد نہ ہوتی تو اب قبول کرلی جاتی اور جائز ہوتی ۔ حضرت عثمان (رض) بن عفان سے امام مالک کے قول کے مطابق روایت منقول ہے۔- ہمارے اصحاب کا یہ کہنا کہ تہمت کی بنا پر روشدہ گواہی دوبارہ کبھی قبول نہیں کی جائے گی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حاکم وقت نے اس کے ابطال کا فیصلہ دے دیا تھا اور حاکم کا حکم بغیر کسی اور حکم کے منسوخ نہیں ہوسکتا اور ایسی چیز کی بنا پر اس کا فسخ درست نہیں ہوتا جو کسی حکم کے ذریعے ثابت نہ ہوجائے۔ اب جبکہ ا س تہمت کے دور ہوجانے کے متعلق حکم صادر کرنا درست نہیں جس کی بنا پر گواہی رد کردی گئی تھی تو اس گواہی کے ابطلال کے متعلق حاکم کا حکم نافذ العمل رہے گا اور اسکا فسخ کسی صورت میں کبھی بھی جائز نہیں ہوگا۔- رہ گئی غلامی ، کفر اور عدم بلوغت کی بات جن کی بنا پر گواہی رد کردی گئی تھی اور حاکم نے اس کے ابطلال کا حکم صادر کردیا تھا تو ان وجوہات کے دور ہونے کی بنا پر حاکم کے پہلے حکم پر ایک اور حکم نافذ ہوگا ۔ اس لیے کہ آزادی ، اسلام اور بلوغت میں سے ہر بات کے متعلق حاکم حکم صادر کرے گا اور اس طرح پہلے حکم پر اس دوسرے حکم کا نفاذ ہوجائے گا ۔ اب جبکہ ان وجوہات کے زوال کے متعلق جن کی بنا پر گواہی رد کردی گئی تھی حاکم کا حکم درست ہوجائے گا تو پھر گواہی قبو ل کرنا واجب ہوجائے گا ۔ دوسری طرف تہمت کے دور ہونے کے متعلق حاکم کا حکم درست نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ یہ ایسی بات ہے جس کے متعلق کوئی ثبوت مہیا نہیں کرسکتا ۔ اس بنا پر ایسی گواہی کے ابطال کے متعلق حاکم کا حکم نافذ العمل رہے گا اس لیے کہ جو بات کسی حکم کے ذریعے ثابت ہوجائے تو وہ کسی اور حکم کے ذریعے ہی کالعدم ہوسکتی ہے۔- یہ تین باتیں جو ہم نے ذکر کی ہیں یعنی عدالت ، نفی تہمت اور قلت غفلت ، یہ گواہی کی شرائط میں شمار ہوتی ہیں ۔ قول باری ممن ترضون من الشھداء ان تینوں باتوں پر مشتمل ہے۔ اب ذرا اس قول باری کے ضمن میں موجود معانی اور فوائد کی کثرت اور اس میں مذکور احکام پر دلالتوں کی وسعت پر غور کیجئے اور ساتھ ساتھ اس کے حرفوں کی قلت ، الفاظ کی بلاغت و ندرت اور اس کے فوائد کے عمق اور وسعت اور ان الفاظ کے معانی کے متعلق ہمارے بیان کردہ سلف اور خلف کے اقوال ۔- ان کے مضمون سے ان حضرات کے استنباط اور ان کی موافقت کے سلسلے میں ان حضرات کی تلاش و جستجو ساتھ ساتھ ان الفاظ میں انتمام معانی کے احتمال پر نظر ڈالیے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ یقینا اللہ کا کلام ہے اور اس کا ورود باری تعالیٰ کی ذات اقدس سے ہوا ہے، اس لیے کہ مخلوق میں سے کسی کی یہ طاقت اور مجال ہی نہیں ہے کہ اس قدر مختصر اور تھوڑے سے حرفوں والا کوئی فقرہ بنائے جس میں اس قدر معانی ، فوائد ، احکام اور دلالتیں موجود ہوں جو اس قول باری میں موجود ہیں ۔ جبکہ یہ ممکن ہے کہ اس کے جن معانی کا ہمارا محدود علم احاطہ نہیں کرسکا اگر وہ معلوم ہوجائیں اور انہیں ضبط تحریر میں لے آیا جائے تو دامن تحریر اور پھیل کر وسیع ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ سے ہم اس کے احکام اور اس کی مقدس کتاب کے دلائل معلوم کرنے کی توفیق کے سوالی ہیں اور دست بدعا ہیں کہ وہ ہماری اس کوشش کی خالص اپنی رضا کا وسیلہ بنادے ۔ آمین۔ قول باری ہے ان تضل احدا ھما فتذکر احداھما الاخری تا کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے۔ قول باری فتذکر کی ایک قرأت لفظ کاف کی تشدید کے ساتھ ہے اور دوسری قرأت تخفیف کے ساتھ ہے۔ اس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ان دونوںں کے معنی ایک ہیں جس طرح ذکرتہ اور ذکرتہ میں نے اسے یاد دلایا کے معانی ایک ہیں ۔ ربیع بن انس ، سدی اور ضحاک سے یہی مروی ہے۔- ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں ابو عبید مومل صیرفی نے ، انہیں ابو یعلی بصری نے ، انہیں اصمعی نے ابو عمرو سے کہ جس نے تخفیف کے ساتھ اس لفظ کی قرأت کی ہے اس نے یہ مراد لی ہے کہ ان دونوں عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے بمنزلہ قرا ر دی جائے اور جس نے اس لفظ کی تشدید کے ساتھ قرأت کی ہے اس نے اس سے تذکیر یعنی یاد دلانے کا مفہوم مراد لیا ہے۔ سفیان بن عینیہ سے یہی مروی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب لفظ میں ان دونوں قرأتوں کا احتمال ہے تو یہ ضروری ہے کہ ہر قرأت کو ایک الگ اور نئے معنی اور فائدے سے پر محمول کیا جائے ۔ اس بنا پر تخفیف والی قرأت کا مفہوم یہ ہوگا کہ گواہی کے اتفاق حفظ اور ضبط کے لحاظ سے تم ان دونوں عورتوں کو ایک مرد کے بمنزلہ قراردو گے اور تشدید والی قرأت کی صورت میں یہ لفظ تذکیر سے مآخوذ ہوگا جس کا مطلب بھول جانے پر یاد دلا دینا ہے۔ - ان دونوں قرأتوں میں سے ہر ایک قرأت کو ان دونوں کی دلالت کے بموجب استعمال کرنا ان دونوں کی صرف ایک کی دلالت کے بموجب استعمال کرنے سے بہتر اور اولیٰ ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے۔ فرمایا ما رایت نا قصات عقل و دین اغلب بعقول ذوی الالباب منھن میں نے عقل کے دین کے لحاظ سے کسی ناقص کو نہیں دیکھا جو ان عورتوں سے بڑھ کر عقل مندوں کے ہوش وخرد پر غلبہ پالینے والا ہو عرض کیا گیا کہ حضور انکی عقل ناقص ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ارشاد ہو جعل شھادۃ امراتین بشھادۃ رجل دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ان حضرات کے قول سے مطابقت رکھتا ہے جنہوں نے قول باری فتذکر احداھما الاخری کی یہ تفسیر کی ہے یہ دونوں عورتیں گواہی کے حفظ اور ضبط کے لحاظ سے ایک مرد کے برابر ہیں۔ اس آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ کسی شخص کے لیے صرف اسی صورت میں گواہی دینا جائز ہے ، خواہ اس کی یادداشت کس قدر مشہورہی کیوں ہوں ، جب یہ گواہی اس کی قوت حافظہ میں محفوظ ہو اور اسے اس کی یادداشت ہو۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا ذکر کتاب اور اشتہار یعنی تحریر کرلینے اور گواہ بنا لینے کے ذکر کے بعد کیا ہے پھر فرمایا ان تضل احد ھما فتذکر احدا ھما الاخری اللہ تعالیٰ نے صرف اسی پر اقتصار نہیں کیا کہ تحریر لکھ لی جائے اور حرفوں میں اسے محفوظ کرلیا جائے بلکہ گواہی کا بھی ذکر کیا ہے۔- اسی طرح یہ قول باری ہے ذلکم اقسط عند اللہ واقو م للشھادۃ واذنی الا ترتابو یہ بابت اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف ہے اور گواہی کے لیے زیادہ پائیدار ہے اور اس میں زیادہ امکان ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو جائو۔ یہ قول باری اس پر دلالت کرتا ہے کہ تحریر کا صرف اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے گواہی کی کیفیت کی یادداشت رکھی جائے اور یہ کہ گواہی اسی وقت دی جائے جب اس کی پوری یادداشتہو اور پختہ طریقے سے ذہن نشین ہو ۔ - اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اگر گواہ پہلے یہ کہہ بیٹھے کہ میرے پاس اس حق کے متعلق کوئی گواہی نہیں اور پھر کہے کہ میرے پاس اس کی گواہی موجود ہے تو اس کی یہ گواہی قبول کرلی جائے گی ۔ اس لیے کہ قول باری ہے ان تضل احد اھما فتذکر احداھما الاخری اللہ تعالیٰ نے ایسی گواہی کو جائز قرار دیا ہے جسے گواہ بھول جانے کے بعد یاد کرلے۔ ابن رستم نے امام محمد سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کی ایسے معاملے میں گواہی طلب کی گئی جوا سے معلوم تھا ۔ اس نے کہہ دیا کہ میرے پاس کوئی گواہی نہیں ہے ، پھر اس نے قاضی کی عدالت میں جا کر اس معاملے کے متعلق گواہی دے دی تو امام صاحب نے فرمایا کہ اس کی یہ گواہی قبول کرلی جائے گی ، بشرطیکہ وہ عادل ہو ۔ اس لیے کہ اس نے پہلے انکار کر کے اور پھر گواہی دے کر گویا یہ کہا کہ میں اس گواہی کو بھول گیا ہوں پھر مجھے یہ یاد آ گئی۔- دوسری وجہ یہ کہ اس مقدمے میں متنازعہ فیہ حق کا تعلق گواہ سے نہیں ہے اس لیے اسکے خلاف اس کا قول درست ہوگا اور چونکہ حق کا تعلق کسی دوسرے شخص سے ہے اس لیے اس حق کے متعلق کی گواہی قبول کرلی جائے گی ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس بات کی طرح نہیں کہ مثلاً مدعی یہ کہے کہ مدعی علیہ کے پاس میرا کوئی حق نہیں ہے پھر اس حق کا دعویٰ کردے تو ایسی صورت میں اس حق کے لیے اس کا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اس لیے کہ اس نے حق نہ ہونے کا اقرار کرکے گویا مدعی علیہ کو بری الذمہ قرار دیا تھا اور اپنی ذات پر اقرار کیا تھا اس لیے اپنی ذات پر اس حق کے سلسلے میں اس کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہوگا اس لیے کہ اس نے اقرار کر کے اپنے دعویٰ کو باطل کردیا تھا۔ رہ گئی گواہی تو دراصل یہ ایک غیر کا حق ہے اس لیے گواہ کا یہ قول کہ میرے پاس کوئی گواہی نہیں ہے اسے باطل ہیں کرے گا ۔ قول باری ان تصل احدھما فتذکر احداھما الاخری ہمارے اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔- تحریر شدہ چیز کی گواہی - لکھی ہوئی تحریر کو دیکھ کر گواہی دینے کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کا قول ہے کہ صرف تحریر کی بنا پر گواہی نہیں دے سکتا ۔ جب تک یہ گواہی اسے یاد نہ آ جائے۔ احناف کا یہی مشہور قول ہے ۔ ابن رستم کا کہنا ہے کہ میں نے امام محمد سے پوچھا کہ ایک شخص کسی واقعہ کا گواہ بن جاتا ہے اور پھر اس واقعہ کو اپنی تحریر میں محفوظ کرلینا ہے پھر ا س پر مہر ثبت کرتا ہے یا نہیں کرتا لیکن وہ اپنی لھکائی پہچانتا ہے تو آیا اس کی یہ گواہی قابل قبول ہوگی۔- امام محمد نے جواب دیا کہ اگر وہ اپنی لکھائی پہچانتا ہو تو اس کے لیے اس کی بنا پر گواہی دینے کی گنجائش ہے خواہ اس نے اس پر مہر ثبت کی ہو یا نہ کی ہو ۔ ابن رستم کہتے ہیں کہ اگر وہ ان پڑھ ہو اور کوئی دوسرا شخص اسے یہ واقعہ لکھ کر دے دے تو امام محمد نے فرمایا کہ جب وہ اس واقعہ کو یاد نہ کرے اور اسے یاد نہ رکھے اس وقت تک وہ گواہی نہیں دے سکتا ۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ قاضی اپنے رجسٹر میں لکھی ہوئی تحریر کی بنا پر کسی مقدمے کا فیصلہ نہ کرے جب تک اسے اس کے متعلق یا د نہ آ جائے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اگر رجسٹر اس کی اپنی الماری میں ہو اور اس پر اس کی مہر لگی ہوئی ہو تو اس میں درج شدہ تحریر کی بنا پر وہ فیصلہ دے سکتا ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ فیصلہ نہیں کرے گا تو اس سے لوگ پریشان ہوں گے۔ یہی امام محمد کا قول ہے۔ ان تینوں ائمہ کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر رجسٹر اس کے اپنے قبضے میں نہ ہو تو وہ اس میں درج شدہ کسی تحریر پر اپنے دستخط نہیں کرے گا ۔ اسی طرح دوسرے قاضیوں کی تحریر پر بھی دستخط نہیں کرے گا الایہ کہ اس سے پہلے حاکم کے حکم کے متعلق گواہوں کی گواہی مل جائے اور اس طرح اس تحریر کی تصدیق ہوجائے۔- رجسٹر میں مندرجہ تحریر کے سلسلے میں قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول امام ابو یوسف کے قول کے مطابق ہے۔ امام ابویوسف نے بھی ابن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص قاضی کی عدالت میں اپنی مخالف کے حق میں اقرار کرلے لیکن اسے اپنے رجسٹر میں درج نہ کرے اور نہ ہی اقرار کرنے والے کے خلاف فیصلہ نہیں دے گا ۔- اما ابو حنفیہ اور امام ابویوسف کے قول کے مطابق اگر قاضی کو سارا واقعہ یاد آ جائے تو وہ اس کے حق میں یعنی اقرار کرنے والے کیخلاف فیصلہ دے سکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ جو شخص اپنی تحریر پہچانتا ہو لیکن اسے واقعہ یاد نہ ہو تو وہ تحریر کی بنا پر گواہی نہیں دے گا البتہ تحریر سے جو بات اس کے علم میں آئی ہو اسے حاکم تک پہنچا دے گا ۔ حاکم کے لیے ضروری نہیں ہوگا کہ وہ اسے جائز بھی قراردے۔ اگر وہ شخص جس پر حق آتا ہو یعنی مقروض یامدعی علیہ وغیرہ اپنے خلاف دی جانے والی گواہی کو اپنے ہاتھوں سے لکھ لے اور اگر اتفاق سے گواہ مرجائیں اور یہ شخص انکار کر بیٹھے پھر دو شخص اس بات کی گوہی دیں کہ اس نے یہ تحریر اپنے ہاتھوں سے لکھی ہے تو اس صورت میں قاضی اس کے خلاف فیصلہ دے گا یعنی مال فریق مخالف کو دلا دے گا نیز رب المال یعنی حقیقت میں جس کا مال ہے اس سے حلف بھی نہیں لے گا۔- اشہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنا خط پہچان لے لیکن اسے گواہی کو یاد نہ آئے تو یہ گواہی سلطان یعنی حاکم وقت تک پہنچا دے گا اور اسے اس سے آگاہ کردے گا تاکہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق اسکے متعلق کوئی قدم اٹھا سکے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر کسی کو یہ یاد آ جائے کہ وہ فلاں سودے یا ادھار لین دین کا عینی گواہ ہے لیکن اسے رقم یعنی درہموں کی تعداد یا نہ آئے تو وہ یہ گواہی نہ دے۔ اگر اس نے یہ گواہی اپنے پاس لکھ رکھی ہو لیکن اسے یہ یاد نہ آرہی ہو لیکن وہ اپنی تحریر پہچانتا ہو تو اس صورت میں جب اسے یہ یاد آ جائے کہ اس نے واقعہ دیکھا تھا اور اس نے اسے اپنے ہاتھوں سے لکھ بھی لیا تھا تو امام مالک کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسے تحریر کی بنا پر گواہی دے دینی چاہیے۔- لیث بن سعد کا قول ہے کہ جب وہ اپنے ہاتھوں کی تحریر پہچان لے اور اس کی شہرت یہ ہو کہ وہ ہمیشہ حق کی گواہی دیتا ہوں تو پھر اس تحریر کی بنا پر گواہی دے دے ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب قاضی کو اقرار کنندہ کا اقرار یاد آ جائے تو وہ اسی اقرار کی بنا پر اس کے خلاف فیصلہ کر دے خواہ اس نے اپنے رجسٹرڈ میں درج کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اس لیے کہ رجسٹرڈ یادداشت کے لیے ہوتا ہے۔ امام شافعی نے مزنی کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ جب تک گواہی کو واقعہ یاد نہ آ جائے اس وقت تک وہ گواہی نہ دے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں ہم نے پچھلی سطور میں قول باری ان تضل احداھما فتذکر احداھما الاخری نیز تحریر کے ذکر کے بعد قول باری ذلکم اقسط عند اللہ واقوم للشھادۃ وادنی الا ترتابوا کی اس چیز پر دلالتکا ذکر کیا تھا کہ گواہی دینے کے جواز کی ایک شرط یہ ہے کہ گواہی کو یہ گواہی یاد بھی ہو اور صرف تحریر پر انحصار کرنا جائز نہیں ۔- اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے الا من شھد بالحق وھم یعلمون سوائے ان لوگوں کے جو حق کی گواہی دیں اور انہیں اس کا علم بھی ہو اگر کسی کو اپنی گواہی یاد نہ ہو تو وہ اس کا علم رکھنے والا کہلا نہیں سکتا ۔ اسی طرح قول باری ولا تقف مالیس لک بہ علم اور جس چیزکا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو بھی اس پر دلالت کرتا ہے نیز اس پر حضرت ابن عباس (رض) کی وہ روایت دلالت کرتی ہے جو آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے۔ آپ نے فرمای اذا رایت مثل الشمس فاشھد والافدع اگر تونے اس واقعے کو اس طرح دیکھا ہے جس طرح تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو اس کی گواہی دے ورنہ چھوڑ دے۔ اس روایت کی سند کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ جہاں تک لکھائی کا تعلق ہے تو اس میں جعل سازی کی جاسکتی ہے اور کبھی خود گواہ پر یہ معاملہ مشتبہ ہوسکتا ہے اور وہ یہ گمان کرسکتا ہے کہ یہ اس کی اپنی تحریر ہے حالانکہ وہ اسکی اپنی تحریر نہیں ہوتی۔- چونکہ گواہی کا مفہوم یہ ہے کہ کسی واقعہ یا چیز کا بچشم خود مشاہدہ کیا جائے اور اس کے متعلق حقیقی علم حاصل کیا جائے اس لیے جسے گواہی یاد ہی نہ ہو اس کے اندر مذکورہ بالا مفہوم کے خلاف کیفیت پائی جائے گی ۔ اس بنا پر اس کے لیے یہ جائز ہوگا کہ وہ اس واقعہ کی گواہی دے۔ گواہی کے معاملے کو تو اس طرح مؤکد کیا گیا ہے کہ صریح الفاظ کے سوا وہ قابل قبول نہیں ہوتی بلکہ صریح الفاظ کا مفہوم ادا کرنے والے الفاظ بھی قابل قبول نہیں تو پھر تحریر کی بنا پر اس کی کہاں گنجائش ہوسکتی ہے جبکہ تحریر میں جعلسازی اور تبدیلی کی پوری گنجائش ہوتی ہے۔- ابو معاویہ نخعی نے شعبی سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص اپنی تحریر اور اپنی لگائی ہوئی مہر پہچان لیتا ہے لیکن اسے گواہی یاد نہیں آتی تو وہ گواہی نہیں دے گا جب تک کہ اسے یاد نہ آ جائے قول باری ان تضضل احدھما کا معنی یہ ہے کہ وہ اسے بھول جائے۔ اس لیے کہ ضلال کا مفہوم کسی چیز سے دور ہوجانا ہے۔ چونکہ بھول جانے والا بھولی ہوئی چیز سے دور چلا جاتا ہے تو اس کے متعلق یہ کہنا جائز ہے کہ ضل عنہ یعنی وہ اس بات سے دور چلا گیا یعنی اسے بھول گیا۔ محاورہ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ضلت عنہ الشھادۃ یا ل عنھا گواہی اس سے دورہو گئی یا وہ گواہی سے دورہو گیا ۔ یعنی بھول گیا دونوں فقروں کا مفہوم یکساں ہے۔ واللہ اعلم - شاہد اور یمین - اگر کسی مقدمہ میں گواہ صرف ایک ہو اور اس کے ساتھ طالب یعنی مدعی کی قسم ہو تو اس مقدمے کے حکم اور فیصلے کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنفیہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد زفر اور ابن شبرمہ کا قول ہے کہ دو گواہوں کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں سنایا جائے گا اور ایک گواہ اور قسم ایک مقدمے میں کسی طرح قابل قبول نہیں ۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ صرف مالی مقدمات میں ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کردیا جائے گا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری واستشھدوا شھیدین من رجالکم فان لم یکوتا رجلین فوجل وامراتا ن ممن ترضون من الشھداء اپنے مردوں میں سے دو گواہوں کی گواہی قائم کرو اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنائو ۔ ان گواہوں میں سے جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہوں ۔- یہ قول باری ایک گواہ اور قسم کے قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے ۔ وہ اس طرح کہ قول باری واستشھدوا ادھار لین دین کے عقو د گواہیان قائم کرنے کے معنی کو متضمن ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے خطاب کی ابتداء ان عقود کے ذکر سے کی تھی ۔ یہ قول باری حاکم کے سامنے گواہی دینے اور حاکم پر اس گواہی کو اختیار کرنے کے لزوم کو بھی متمضن ہے۔ اس لیے کہ لفظ میں دونوں حالتوں کا احتمال ہے۔ نیز اس لیے کہ عقد پر گواہی قائم کرنے سے غرض یہ ہے کہ طرفین کے درمیان اس عقد کے انکار کی صورت پیدا ہونے پر اس کا اثبات کیا جائے۔ اس لیے یہ قول باری اس معنی کو متمضن ہے کہ حاکم کے سامنے عقد پر دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی پیش کی جائے اور حاکم پر اس گواہی کی بنیاد بنا کر فیصلہ سنانا لازم کردیا جائے۔ جب بات اس طرح ہے کہ تو پھر ظاہر لفظ ایجاب کا مقتضی ہے اس لیے کہ یہ امر کا صیغہ ہے اور اللہ کے اوامر وجوب پر محمول ہوتے ہیں اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے گواہوں کی مذکورہ تعداد کی بنیاد پر حاکم پر فیصلہ سنا دینا لازم کردیا جس طرح کہ یہ قول باری ہے فاجلد وھم ثما نین جلدۃ انہیں اسی کوڑے لگائو یا فاجلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگائو۔- ان دونوں مثالوں میں مذکورہ عدد سے کم پر اقتصار کرنا بھی جائز نہیں ہے اسی طرح گواہی کے مسئلے میں گواہی کی مذکورہ تعداد سے کم پر اقتصار کرنا بھی جائز نہیں ۔ مقررہ تعداد سے کم کی گواہی کو جائز قرار دینا دراصل کتاب اللہ کی مخالفت کرنا ہے جس طرح کہ کوئی شخص حد قذف میں ستر کوڑوں یا حد زنا میں اسی کوڑوں کے جواز کا قائل ہوجائے۔ ایسا شخص آیت کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جائے گا ۔ نیز گواہی سے متعلقہ آیت گواہوں کی دو باتوں کو متضمن ہے ایک تعداد اور دوسری صفت جس سے مراد یہ ہے کہ گواہ آزاد اور پسندیدہ ہوں ۔ اس لیے کہ قول باری ہے من رجالکم اور ممن ترضون من الشھداء اب جبکہ گواہوں کی اس صفت کو ساقط کردینا جائز نہیں جو گواہی کے لیے بطور شرط مذکورہ ہوئی ہے اس صفت سے کم پر اقتصار کی گنجائش نہیں ہے تو تعداد کا اسقاط بھی جائز نہیں ۔ اس لیے کہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ گواہی کی بنا پر حکم کے نفاذ کے لیے دونوں باتوں تعداد نیز عدالت اور پسندید گی کا پور ی طرح پایا جانا ضروری ہے۔ اس لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کو ساقط کرنا م جائز نہیں ہوگا ۔ اگر دیکھا جائے تو عدالت اور پسندیدگی کے مقابلے میں تعداد کے اعتبار کی ضرورت اولیٰ اور بڑھ کر ہے اس لیے کہ تعداد یقینی طور پر معلوم ہے جبکہ عدالت کا اثبات ظاہری حالت کے ذریعے ہوتا ہے حقیقت اور یقین کے لحاظ سے نہیں نیز اللہ تعالیٰ نے جب عورتوں کی گواہی میں احتیاط کی خاطردو عورتوں کی گواہی واجب کردی اور فرمایا ان تضل احداھما ھذکرا حدھما الاخری پھر فرمایا ذلکم اقسط عند اللہ واقوم للشھادۃ وادنی الاترتابوا تو اس کے ذریعے تہمت شک و شبہ اور نسیان کے اسباب کی نفی کردی ۔ اس پورے حکم کے مضمون میں وہ بات موجود ہے جو طالب یعنی مدعی کی قسم کو قبول کرلینے اور ایک گواہ کی بنا پر اس کے حق میں فیصلہ کرنے کی نفی کرتی ہے ۔ اس لیے کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احتیاط و تیقن اور شک و شبہ کی نفی کا جو حکم دیا تھا اس کے خلاف چلتے ہوئے فیصلہ کردیا گیا بلکہ مدعی کی قسم قبول کر کے زبردست شک و شبہ اور تہمت کا سامان مہیا کردیا گیا اور یہ چیز سراسر آیت کے مقتضی کے خلاف ہے۔ ایک گواہ اور قسم کے بطلان پر یہ قول باری ممن ترضون من الشھدا بھی دلالت کرتا ہے۔ میں یہ معلوم ہے کہ صرف ایک گواہ ناقابل قبول ہے اور نہ ہی آیت میں یہ مراد ہے ۔ رہ گئی طالب یعنی مدعی کی قسم تو اس پر نہ تو شاید کے اسم کا اطلاق جائز ہے اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے اس کے کئے ہوئے دعوے کے سلسلے میں اس پر پسندیدگی کا اطلاق درست ہے ۔ ان وجوہ کی بنا پر ایک گواہ اور قسم کی بات آیت کے سراسر مخالف ہے اور گواہی کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ احتیا ط اور توثیق کا خاتمہ کردینے والی ہے ، نہ صرف یہ بلکہ اس سے ان معانی اور فوائد کی بھی نفی ہوجاتی جو آیت میں مقصود ہیں ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعی علیہ ثبوت یا گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے اور قسم اٹھانے کی ذمہ داری مدعی علیہ پر ہے آپ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے یمین بمعنی یعنی قسم اور بینہ یعنی گواہ کے درمیان فرق کردیا ۔ اس لیے قسم کو ینیہ یعنی گواہ کا نام دینا جائز نہیں اس لیے کہ اگر یہ جائز ہوتا تو آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوتا کہ بینہ یعنی گواہی پیش کرنے کی ذمہ داری پر مدعی پر ہے اور گواہی پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی علیہ پر ہے۔- آپ کے ارشاد میں البینۃ کا لفظ اسم جنس ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ چیزجو البینۃ کا مدلول بن سکتی ہے وہ اس لفظ کے تحت آگئی یعنی البینۃ کے تحت آنے والے ہر گواہی اور ہر ثبوت پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے۔ اس صورت کے تحت اس پر قسم اٹھانے کی ذمہ داری ڈالنا جائز نہیں ہوگا ۔ نیز البینۃ ایک مجمل لفظ ہے جس کا اطلاق مختلف معانی اور صورتوں پر ہوتا ہے لیکن سب اس پر اتفاق ہے کہ حدیث میں اس سے دو مرد گواہ یا ایک مرد گواہ اور رو و مؤنث گواہ مراد ہیں اور البینۃ کے اسم کا اطلاق ان پر ہی ہوتا ہے تو گویا یا حدیث کا مفہوم دوسرے الفاظ میں یہ ہوگیا کہ دو مرد گواہ یا ایک مرد گواہ اور دو مونث گواہ پیش کرنا مدعی کا کام ہے ۔ اس لیے ان سے کم پر اقتصارنا جاء ہوگا ۔ یہ حدیث اگرچہ خبر واحد کے طور پر مروی ہے لیکن امت نے اسے قبولیت کا درجہ دے کر اس پر عمل بھی کیا ہے۔ اس بنا پر اس حدیث کا درجہ خبر متواتر جیسا ہوگیا ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ لواعطی الناس بدعواھم لادعی قوم وماء قوم واموالھم اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوئوں کی بنا پر حق دے دیا جاتا تو پھر ایک قوم دوسری قوم کے خون بہا کی تمام رقموں اور ان کے اموال کی دعویدار بن جاتی۔ اس روایت میں دو طرح سے ایک گواہ اور قسم کے قول کے بطلان پر دلالت موجود ہے ایک تو یہ کہ اس کی قسم اس کا دعویٰ بن جاتی اس لیے کہ قسم اٹھانے والا اور مدعی کا دعویٰ پیش کرنے والا شخص واحد ہے۔ اس لیے اگر قسم اٹھا لینے پر وہ حق حاصل کرنے والا قرار دیا جاسکتا تو وہ مجرو دعویٰ کے ذریعے بھی یہ حق حاصل کرسکتا تھا حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرما دیا۔- دوسری یہ کہ جب اسکا قول اس کا دعویٰ ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف دعویٰ کی بنا پر کسی چیز کے حق دار بننے سے لوگوں کو روک دیا ہے تو پھر مدعی اپنی قسم کے ذریعے بھی کسی حق کا مستحق نہبں بن سکتا اس لیے کہ اس کی قسم بھی اس کا قول ہے ۔ اس پر علقمہ بن وائل (رض) بن حجر کی روایت کردہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے اپنے والد حضرت وائل (رض) بن حجر سے حضرت موت کے ایک شخص کے متعلق روایت کی ہے جس کی بنو کندہ کے ایک شخص کے ساتھ ایک قطہ اراضی پر تنازعہ ہوگیا تھا اور جس کے متعلق اس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ زمین اس کے قبضے میں سے لیکن کندی نے اس کا یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس پر آپ نے حضرمی سے یہ فرمایا تھا کہ شاھداک اویمینہ لیس لک الا ذلک یا تو تم دو گواہ پیش کرو یا وہ قسم اٹھائے اس کے سوا تمہارے لیے اور کچھ نہیں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو گواہوں کے بغیر کسی چیز کے استحقاق کی نفی کردی اور یہ بتائو کہ اس کے بغیر اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا حدیث کی وجہ سے اس چیز کی نفی نہیں ہوئی کہ اگر مدعی علیہ اقرار کرلے تو اس کے اقرار کی بنا پر مدعی حاصل کرے گا اسی طرح ایک گواہ اور قسم کی بنا پر مدعی کے استحقاق کی نفی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ درج بالا حدیث میں مدعی علیہ مدعی کے دعویٰ کو تسلیم کرنے سے انکار کررہا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واضح کردیا کہ وہ کون سی چیز ہے جو مدعی علیہ کے انکار پر مدعی کے دعوے کی صحت کو واجب کردیتی ہے ۔ رہ گئی مدعی علیہ کے اقرار کی صورت تو حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے یہ تو دلالت پر موقوف ہے نیز ظاہر حدیث اس بات کا مقتضی ہے کہ مدعی صرف اسی چیز کا مستحق ہوگا جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے جبکہ اقرار کی بنا پر استحقاق کا وجوب ثابت ہوجاتا ہے جس پر سب کا اجماع ہے۔ اس لیے ہم نے اس کے مطابق حکم لگادیا لیکن ایک گواہ اور قسم کا مسئلہ مختلف فیہ ہے چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد شاھد اک اویمینہ لیس لک الاذلک نے اس کے بطلان کا فیصلہ کردیا ۔ ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کردینے کے قائلین نے ایسی روایات سے استدلال کیا ہے جو اپنے مفہوم کے لاظ سے مبہم ہیں جن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اب میں ان روایات اور ان کے متعلق جائزے کا ذکر کرتا ہوں۔- ایک روایت تو وہ ہے جو ہمیں عبد الرحمان ابن سیما نے بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں ابو سعید نے ، انہیں سلیمان نے ، انہیں ربیعہ بن ابی عبد الرحمن نے سہل بن ابی صالح سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ کے ساتھ قسم اٹھانے پر مقدمے کا فیصلہ کردیا ۔ عثمان بن الحکم نے زہیر بن محمد سے ، انہوں نے سہیل بن ابی صالح سے انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ایک اور روایت ہے جو میں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں عثمان بن ابی شیبہ اور حسن بن علی نے کہ زید بن حباب نے انہیں بیان کیا کہ انہیں سیف یعنی ابن سلیمان مکی نے قیس بن سعد سے ، انہوں نے عمرو بن دینار سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم پر مقدمے کا فیصلہ کردیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن یحییٰ اور سلمہ سن شبیب نے ، انہیں عبد الرزاق نے ، انہیں محمد بن مسلم نے عمرو بن دینار سے اپنے اسناد کے ذریعے اسی قسم کی روایت کی ۔ ہمیں عبد الرحمان بن سیمانے ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں عبد اللہ بن الحرث نے ، انہیں سیف بن سلیمان نے قیس بن سعد سے ، انہوں نے عمرو بن دینار سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گواہ کے ساتھ قسم پر مقدمے کا فیصلہ کردیا ۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ گواہ کے ساتھ قسم اٹھانے پر فیصلے کا تعلق صرف مالی مقدمات سے تھا۔ ہمیں بعد الرحمان بن سیما نے روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں خلد بن ابی کریمہ نے ابو جعفر سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حقوق میں سے تعلق رکھنے والے مقدمات ایک شخص کی گواہی کے ساتھ مدعی کی قسم کو جائز قرار دیا۔ امام مالک اور سفیان نے جعفر بن محمد سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ آپ نے ایک شخص کی گواہی کے ساتھ قسم پر مقدمے کا فیصلہ کردیا ۔ ان روایات پر ابوبکر جصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان روایات کو قبول کرنے اور ان کی بنا پر ایک گواہ اور قسم کے ذریعے مقدمے کا فیصلہ کردینے کی ضرورت کا حکم لگانے سے کئی باتیں مانع ہیں۔- اول ان روایات کے طریق یعنی اسناد میں فساد اور خرابی دوم ۔ ان روایات کا ان لوگوں کی جانب سے انکار جن سے یہ مروی ہیں ۔ سوم نص قرآن کے ذریعے ان روایات کی تردید ، چہارم اگر یہ روایت طعن اور فساد سے بچ بھی جائیں پھر بھی یہ ہمارے مخالف کے قول پر دلالت نہ کرتیں ۔ پنجم ان میں کتاب اللہ کی موافقت کے احتمال کی موجودگی ۔ اب ہم ان وجوہ پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔ نقل کے اعتبار سے ان روایات کے فساد کے سلسلے میں یہ کہا جاتا ہے کہ سیف بن سلیمان کی روایت کردہ حدیث سیف کے ضعف کی بنا پر ثابت نہیں ہے۔ دوسری بات اس میں یہ ہے کہ عمرو بن دینار کا حضرت ابن عباس (رض) سے سماع ثابت نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے مخالف کے لیے اس سے استدلال کرنا درست نہیں ہوگا ۔ - میں عبد الرحمن بن سیما نے روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں ابو سلمہ خزاعی نے ، انہیں سلیمان بن بلال نے ربیعہ بن ابی عبد الرحمن سے ، انہوں نے اسماعیل بن عمرو بن قیس بن سعد بن عبادہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ انہوں نے اسماعیل بن عمرو بن قیس بن سعد بن عبادہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ انہوں نے سعد بن عبادہ (رض) کی تحریر میں یہ لکھا ہوا پایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم کی بنا پر مقدمے کا فیصلہ کردیا تھا۔ اگر ان لوگوں کے نزدیک حضرت ابن عباس (رض) سے عمرو بن دینار کی روایت درست ہوتی تو وہ اس کا ذکر ضرور کرتے اور انہیں تحریر میں ثبت شدہ چیز کی حاجت نہ ہوتی ۔ رہ گئی سہل کی روایت کردہ حدیث تو ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں احمد بن ابی بکر نے ، انہیں الدر اور دی نے ، ربیعہ بن ابی عبد الرحمن سے ، انہوں نے سہیل بن ابی صالح سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم کی بنا پر مقدمے کا فیصلہ کردیا ۔ ابو دائود کہتے ہیں کہ ربیع بن سلیمان بن مؤذن نے اس حدیث میں سے روایت بیان کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا ہے کہ ہمیں شافعی (رح) نے عبد العزیز سے روایت بیان کی ۔ میں نے کہ سہیل کو کوئی دماغی عارضہ لا حق ہوگیا تھا جس کی بنا پر ان کی عقل ٹھکانے نہیں رہی تھی ۔ اور اپنی روایت کردہ حدیث کے ایک حصے کو بھول گئے تھے ۔ اس کے بعد سہیل کا طریقہ کا ر یہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنی روایت اس طرح کرتے عن ربیعۃ عنہ ابیہ یعنی سہیل نے یہ روایت ربیعہ سے بیان کی ، ربیعہ نے سہیل سے اور سہیل نے اپنے والد سے ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہوں نے ابو دائود نے ، انہیں زیاد بن یونس نے ، انہیں سلیمان بن بلال نے ربیعہ سے ابو مصعب کے اسناد اور اس کی روایت کردہ حدیث کی ہم معنی حدیث کی صورت میں ۔- سلیمان کہتے ہیں کہ میں سہیل سے ملا اور ان سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا وہ کہنے لگے کہ مجھے اس حدیث کا کوئی علم نہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ ربیعہ نے مجھ سے یہ حدیث آپ کے واسطے سے روایت کی ہے ، کہنے لگے کہ اگر ربیعہ نے میرے واسطے سے آپ کو یہ روایت بیان کی ہے تو آپ آگے اس کی روایت ربیعہ کے واسطے سے مجھ سے کریں ، اس جیسی حدیث سے شریعت کے کسی مسئلے کا ثبوت مل سکتا جبکہ اسے اس شخص نے تسلیم کرنے اور پہچان لینے سے انکار کردیا جس سے یہ حدیث روایت کی گئی ۔ اگر ہماری بات پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہوسکتا ہے کہ سہیل نے پہلے حدیث روایت کی ہو اور پھر اسے بھول گئے تو اس کے جواب میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں شروع ہی سے اس حدیث کے متعلق وہم ہوگیا اور انہوں نے شیخ سے اس کی سماع کیے بغیر اس کے آگے روایت کردی ہو جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس حدیث کے معاملے میں ان کا آخری مؤقف انکار کا موقف تھا اور وہ اسے پہچاننے سے بھی انکاری تھی اس بنا پر اس حدیث کے متلق ان کا یہ قول اولیٰ ہے۔ رہ گئی جعفر بن محمد کی روایت کردہ حدیث تو وہ مرسل ہے ۔ عبد الوہاب نے اسے متصل بنادیا ہے اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس میں انہیں غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس کی سند میں جابرکا ذکر کیا ہے حالانکہ یہ ابو جعفر محمد بن علی سے اور ان کے واسطے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ جن امور کا ہم نے درج بالا سطور میں ذکر کیا ہے وہ ان علل میں سے ایک ہیں جو ان روایات کو قبول کرنے اور ان کے ذریعے احکام کے اثبات سے مانع ہیں ۔ ایک اور پہلو بھی ہے جس کی روایت ہمیں عبد الرحمن بن سیما نے کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں اسماعیل نے سوار بن عبد اللہ سے جو کہتے ہیں کہ میں نے ربیعۃ الرای سے پوچھا کہ آپ کے اس قول کہ ایک گواہ کی گواہی اور حق کا دعویٰ کرنے والے کی قسم سے مقدمے کا فیصلہ کردیا جائے کی بنیاد کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے سعد بن عبادہ (رض) کی تحریر میں ایسا ہی پایا ہے۔ اگر ربیعہ کے نزدیک سہیل کی روایت درست ہوتی تو وہ اس کا ضرور ذکر کرتے اور سعد کی تحریر پر اعتماد نہ کرتے۔ ہمیں عبد الرحمن بن سیما نے ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے انہیں عبد الرزاق نے ، انہیں معمر نے زہری سے گواہ کے ساتھ قسم کے متعلق روایت بیان کی اور کہا کہ میں لوگوں سے یہ روایت کرتا تو ہوں مگر میرا نظریہ یہ نہیں بلکہ دو گواہوں کا ہے۔ ہمیں حماد بن خالد الخیاط نے بیان کیا کہ میں نے ابن ابی سے پوچھا کہ ایک گواہ کے ساتھ قسم کے متعلق زہری کیا کہتے تھے ، انہوں نے جواب دیا کہ زہری اسے بدعت کہتے تھے اور سب سے پہلے جنہوں نے اسے جائز قرار دیا وہ حضرت معاویہ (رض) تھے۔ محمد بن الحسن نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا ہے کہ میں نے زہری سے ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس کے متعلق میں نہیں جانتا کہ یہ بدعت ہے اور سب سے پہلے جس نے اس کی بنا پر فیصلہ دیا تھا وہ حضرت معاویہ (رض) تھے۔ - اب ظاہر ہے کہ زہری اپنے وقت میں اہل مدینہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔ اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو زہری سے یہ کس طرح مخفی رہ جاتی جبکہ یہ روایت احکام کے ایک بڑے اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اور دوسری طرف زہری کو یہ تو معلوم تھا کہ حضر ت معاویہ (رض) نے سب سے پہلے اسی بنیاد کی بنا پر فیصلہ دیا تھا نیز یہ بدعت ہے۔ حضرت معاویہ (رض) کے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے مالی مقدمے میں صرف ایک عورت کی گواہی پر فیصلہ سنا دیا تھا اور طالب یعنی مدعی سے قسم لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی ۔ ہمیں عبد الرحمن بن سیما نے یہ روایت کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہیں عبد الرزاق ، روح اور محمد بن بکر نے ، انہیں ابن جریج نے ، انہیں عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے ، انہیں علقمہ بن ابی وقاص نے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) نے محمد بن عبد اللہ بن زہیر اور ان کے بھائیوں کے حق میں یہ گواہی دی کہ ربیعہ بن ابی امیہ نے اپنے بھائی زہیر بن ابی امیہ کو جائیداد میں سے اپناچو تھا حصہ دے دیا تھا۔ - حضرت ام سلمہ (رض) کے سوا اس مقدمے میں اور کوئی گواہ نہیں تھا۔ حضرت معاویہ (رض) نے ان کی اس تنہاء گواہی کو جائز قرار دیا اور فیصلے کے وقت علقمہ بھی موجود تھے ۔ اگر ایک گواہ اور قسم کی بنا پر حضرت معاویہ (رض) کا فیصلہ درست ہے تو چاہیے کہ صرف ایک گواہ کی گواہی کی بنیاد پر بھی ان کا فیصلہ درست مان لیا جائے جس میں طالب یعنی مدعی کی قسم کی بھی ضرورت نہ ہو ۔ اس لیے ہم اپنے مخالفین سے کہیں گے کہ تم حضرت معاویہ (رض) کے مؤخر الذکر فیصلے کے مطابق فیصلے کرو اور کتاب و سنت کے حکم کو باطل قرار دے دو ۔- ہمیں عبد الرحمن بن سیما نے روایت بیان کی ، انہیں عبد اللہ بن احمد نے انہیں ان کے والد نے ، انہیں عبد الرزاق نے ، انہیں ابن جریج نے ، کہ عطاء بن ابی رباح کہا کرتے تھے کہ دین یعنی قرض اور غیر دین میں دو گواہوں کے بغیر کوئی گواہی جائز نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ جب عبد الملک بن مروان کا دور آیا تو انہوں نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم کو ملا کر مقدمات کے فیصلے کئے۔ - اہل یمن کے قاضی مطرف بن مازن نے ابن جریج سے اور انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ میں نے اس شہر یعنی مکہ مکرمہ کو اس حالت میں پایا تھا کہ یہاں حقوق کے متعلق دو گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے تھے ۔ یہاں تک کہ عبد الملک بن مروان نے ایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر فیصلے کرنے شرو ع کردیئے۔ لیث بن سعد نے رزیق بن حکیم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت عمربن عبد العزیز کو جن کی طرف سے یہ عامل یعنی حاکم تھے ، لکھا کہ آپ جب مدینہ منورہ میں عامل کے عہدے پر فائز تھے تو ایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر مقدمات کے فیصلے کرتے تھے ، اس کے جواب میں حضرت عمرو بن عبد العزیز نے انہیں لکھا کہ ہم اسی طرح فیصلے کرتے تھے لیکن ہم نے لوگوں کو اس کے بر خلاف پایا ۔ اس لیے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کے بغیر کسی مقدمے کا فیصلہ نہ کرنا۔- سلف سے تعلق رکھنے والے ان حضرات نے یہ بتادیا کہ ایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا حضرت معاویہ (رض) اور عبد الملک بن مروان کا طریقہ تھا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت نہیں تھی ۔ اگر اس طریق کار کی روایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوتی تو طبقہ تابعین سے تعلق رکھنے والے اہل علم حضرات کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہتی ۔ یہاں تک ہم نے ایک گواہ اور قسم سے تعلق رکھنے والی روایات کو قبول نہ کرنے کی دو وجہیں بیان کی ہیں۔ اول ان کی سند کا اضطراب اور اس کا فنی نقص ۔ دوم ، سہیل کا اس روایت سے انکار جبکہ وہ اس روایت میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ، نیز ربیعہ کا یہ بتانا کہ اسکی اصل وہ ہے جو سعد کی تحریر میں ملی ہے پھر تابعین کے طبقے سے تعلق رکھنے والے علماء کا اس روایت کے متعلق انکار اور ان کی طرف سے یہ وضاحت کہ یہ بدعت ہے اور حضرت معاویہ (رض) اور عبد الملک بن مروان نے سب سے پہلے اس کی ابتداء کی ۔ ان روایات کو قبول نہ کرنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر یہ درست اسناد کے ذریعے منقول ہوئیں جس میں اخبار آحبار آحاد قابل قبول ہوتے ہیں اور ان کے راوی سلف کی جرح و تنقید سے بچتے رہتے اور ان روایات وارد طریق کار کو بدعت کا نام نہ دیا جاتا تو پھر بھی ان کے ذریعے نص قرآنی پر اعتراض نہیں ہوسکتا تھا اس لیے کہ اخبار آحاد کے ذریعے قرآن کے حکم کو منسوخ کرنا کسی طرح جائز نہیں۔- نسخ کی وجہ یہ بن جاتی ہے کہ متعلقہ آیت کو سننے والے اہل زبان میں سے کسی کو اس بارے میں کوئی شک نہیں ہوسکتا کہ اس آیت میں دو مردوں یا ایک مرد اور عورتوں سے کم کی گواہی کی ممانعت ہے لیکن ان روایات پر عمل کرنے کی صورت میں آیت کے موجب کو ترک کرنا پڑے گا اور آیت میں مذکورہ تعداد سے کم پر اقتصار کرنا ہوگا اس لیے کہ آیت میں مذکورہ تعداد کے تحت ایک گواہ اور قسم مراد لینا کسی صورت میں جائز نہیں ۔ جس طرح کہ قول باری فاحلدوھم ثما تین جلدۃ اور قول باری فاجلدوا کل واجد منھما مائۃ جلدۃ کا مفہوم یہی ہے کہ دونوں آیتوں میں مذکورہ تعداد سے کم پر اقتصار کی ممانعت ہے اور ان کی تعداد کی تکمیل پر ہی یہ کوڑے حد کی شکل اختیار کریں گے۔ اس لیے اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ حد قذف اسی کوڑوں اور حد زنا سو کوڑوں سے کم ہے تو وہ آیت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا ۔- اسی طرح جو شخص صرف ایک مرد کی گواہی قبول کرے گا وہ قرآنی حکم یعنی دو گواہوں کے استشہاد کی مخالفت کر کے آیت کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جائے گا ۔ اسی طرح ایک اور وجہ سے بھی یہی بات لازم آتی ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ذلکم اقسط عند اللہ واقوم للشھادۃ وادنی الا ترتابوا اور ممن ترضون من الشھداء ان تضل احدا ھما فذکرا احداھما الاخری کے ذریعے دستاویز کی تحریری اور دو گواہوں کی گواہی کے قیام کا اقمصد جو بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ان ذرائع سے حق والے کے حق کے متعلق پوری طرح احتیاط کی جائے اور اس کی توثیق ہوجائے نیزدستاویزی ثبوت اور گواہوں کی موجودگی سے ایک طرف شک و شبہ دور ہوجائے اور دوسری طرف گواہوں سے ممکنہتہمت کا ازالہ بھی ہوجائے۔ اس لیے فرمایا ممکن ترضون من الشھداء اور اگر ایک گواہ اور قسم کا نظریہ تسلیم کر لیاجائے تو اس سے مذکورہ بالا تمام معانی کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور وہ بالکلیہ نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ - اس لیے ہمارے درج بالا بیان سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس نظریے کو تسلیم کرنا خلاف آیت سے یہ وہ دو وجوہ ہیں جنکی بنا پر شاہد اور یمین کے نظریے کو تسلیم کرنے پر آیت کی مخالفت لازم آتی ہے۔ نیز قرآن کے بیان کردہ حکم یعنی دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی پر مسلسل عمل ہو رہا ہے اور یہ حکم ثابت ہے منسوخ نہیں ہوا ۔ جبکہ ایک گواہ اور قسم کو ثابت کرنے والی روایات کے متعلق اختلاف ہے جس پر ہم پہلے روشنی ڈال آئے ہیں تو ضروری ہوگیا کہ مؤخر الذکر حکم قرآنی حکم کی وجہ سے منسوخ ہوجائے اس لیے اگر یہ حکم ثابت اور غیر منسوخ ہوتا تو اس پر عمل کرنے کے لحاظ سے امت کا اسی طرح اتفاق ہوتا جس طرح قرآنی حکم پر عمل کرنے میں ہے۔- شاہد و یمین کو ثابت کرنے والی روایات کو قبول نہ کرنے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ روایات قرآنی حکم کے معارضہ سے محفوظ رہتیں اور ان کے طرق بھی فنی لحاظ سے درست ہوتے تو پھر بھی ایک گواہ اور طالب یعنی مدعی کی قسم کی بنا پر استحقاق ثابت کرنے کے لیے ان سے استدلال کرنا درست نہ ہوتا ۔ وہ اس طرح کہ ان روایت میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر مقدمے کا فیصلہ کردیا ۔ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک فیصلے کی حکایت ہے اور ایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر فیصلہ لازمی کرنے کے متعلق اس میں لفظی عموم موجود نہیں ہے کہ پھر دوسرے مقدمات میں بھی اس سے استدلال کیا جاسکے ۔ پھر روایت میں ہمارے سامنے اس گواہی کی کیفیت نہیں بیان کی گئی ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کردہ حضرت حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گواہی کے ساتھ قسم کی بنا پر مقدمے کا فیصلہ کردیا ۔ اب اس میں یہ احتمال ہے کہ ایک گواہ کی موجودگی مدعی علیہ سے حلف لینے میں مانع نہیں ہے یعنی اگر ایک گواہ کی گواہی کے ساتھ اس سے حلف اٹھوایا جائے تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں اس لیے اس روایت سے جو بات معلوم ہوئی وہ یہی کہ ایک گواہ کی گواہی مدعی علیہ سے حلف اٹھوانے میں مانع نہیں ہے اور ایک گواہ کا وجود اور عدم دونوں برابر ہیں۔- کوئی شخص یہ گمان کرسکتا تھا کہ اگر مدعی کے پاس سرے سے کوئی گواہ نہیں ہوگا تو قسم صرف مدعی علیہ پر ہی واجب ہوگی ۔ راوی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فیصلے کو نقل کر کے گمان کرنے والے کے گمان کو باطل کردیا ۔ یہ بات بھی ہے کہ لفظ شاہد کبھی اسم جنس بھی ہوتا ہے۔ اس لی یہ جائز ہے کہ راوی کی اس روایت سے مراد یہ ہو کہ آپ نے ایک صورت میں قسم کی بنا پر فیصلہ کردیا اس لیے ایک گواہ کی بات اس سلسلے میں مفید مطلب نہیں ہوگی کہ ایک گواہ کی بنیاد پر کسی مقدمے کا فیصلہ کردیا جائے۔- یہ صورت اس قول باری والسارق والسارقۃ فاقطعا ایدیھا چور مرد اور چور عورت ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کی طرح ہے ۔ السارق چونکہ اسم جنس ہے تو اس سے ایک چورمراد نہیں ہے اس لیے یہ جائز ہے کہ آپ نے ایک گواہ کی گواہی پر جھگڑے کا فیصلہ کردیا ہو۔ یہ گواہ حضرت خزیمہ بن الثابت تھے جن کی گواہی کو آپ نے دو مردوں کی گواہی کے مساوی قرار دیا اور پھر اس کے ساتھ طالب یعنی مدعی سے حلف لیا کیونکہ مطلوب یعنی مدعی علیہ نے برأت کا دعویٰ کیا ۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ ان روایات میں ہمارے مسلک کے ساتھ موافقت کا احتمال موجود ہے وہ اس طرح کہ شاید و یمین کی بنا پر فیصلے کا تعلق ایک ایسے شخص کے مقدمے سے ہے جس نے ایک لونڈی خریدی تھی اور پھر اس لونڈی کے جسم کے ایسے حصے میں کسی نقص اور عیب کا دعویٰ کردیا جس پر نظر ڈالنا عذر کے سوا جائز نہیں ۔ اس صورت میں عیب کی موجودگی کے متعلق ایک گواہ کی گواہی قبول کرلی اور اس کے ساتھ خریدار سے یہ حلف لیا کہ بخدا میں نے اس حصے کو چکنا چور نہیں کیا ہے۔ تو گویا آپ نے ایک گواہ کی گواہی کے ساتھ طالب یعنی خریدار سے حلف لے کر لونڈی کو فروخت کنندہ کی طرف لوٹا دینے کا فیصلہ سنا دیا۔- اب جبکہ یمین و شاہد کی روایت میں ہماری بیان کر وہ وجہ کا احتمال موجود ہے تو اس روایت کو اس پر ہی محمول کرنا واجب ہے اور یہ کہ اس روایت کی وجہ سے نص قرآنی سے ثابت حکم ختم نہیں ہوگا اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ ما اتاکم عنی فاعرضوہ علی کتاب اللہ فما وافق کتاب اللہ فھو منی وما خالفہ فلیس منی میری طرف سے جو بات تمہیں پہنچے اسے کتاب اللہ پر جانچو، جو بات کتاب اللہ کے موافق ہوگی وہ میری ہوگی اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہوگی وہ میری نہیں ہوگی ۔ نیز شاید و یمین کی بنا پر فیصلے کی جو روایت ہے اس میں یہ ذکر موجود نہیں کہ اس جھگڑے کا تعلق اموال سے تھا یا غیر اموال سے ۔ دوسری طرف فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر اموال و الے مقدمات میں یمین و شاہد کے اصول پر فیصلہ کرنا باطل ہے اس لیے مالی مقدمات میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔- اگر یہ کہا جائے کہ عمرو بن دینار کا قول ہے کہ اس قسم کا فیصلہ اموال میں ہوتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ عمرو بن دینار کا اپنا قول اور ان کا اپنا مسلک ہے۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اموال میں یہ فیصلہ سنایا تھا جب یہ جائز ہوگیا کہ غیر اموال میں بھی ایسا نہ کیا جائے باوجود یکہ روایت میں مذکور فیصلہ مبہم تھا اس میں اموال یا غیر اموال کے ذکر کے سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں ہے تو اس طرح اموال میں بھی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے کیونکہ روایت میں مذکورہ فیصلے کی کیفیت بیان نہیں ہوئی ، نیز اموال میں ایسا فیصلہ غیر اموال میں اس سم کے فیصلے سے اولیٰ نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یمین و شاہد کی بنیاد پر ان مقدمات میں فیصلہ کیا جاتا ہے جن میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قبول کرلی جاتی ہے یعنی مالی مقدمات ۔ اس لیے مدعی کی قسم ایک گواہ کے قائم مقام ہوجائے گی اور دوسرے گواہ کے ساتھ مقدمے کا فیصلہ کر دیاجاے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دعویٰ بےدلیل ہے لیکن اس کے باوجود یہ پوچھا جائے سکتا ہے کہ مدعی کی قسم دوسرے گواہ کی قائم مقام کس طرح بن جائے گی ایک عورت کے قائم مقام کیوں نہیں بنے گی ۔ پھر معترض سے یہ پوچھا جائے گا کہ اس صورت کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے اگر مدعی صورت ہو تو کیا اس کی قسم ایک گواہ کے قائم مقام ہو سکے گی ۔- اگر معترض اثبات میں جواب میں تو اس سے کہا جائے گا کہ پھر تو قسم گواہی سے زیادہ مؤکد ہوگئی اس لیے کہ معترض سے تعلق رکھنے والے مقدمات میں ایک عورت کو قبول نہیں کرتا اور اس کی قسم کو قبول کرلیتا ہے اور اسے ایک مرد کی گواہی کے قائم مقام کردیتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے گواہوں کی گواہی قبول کرنے کا حکم دیا ہے جو پسندیدہ ہوں ۔ اگر عورت گواہ ہو یا اس کی قسم ایک مرد کی گواہی کے قائم مقام بن جائے تو اس سے قرآن کی مخالفت لازم آئے گی اس لیے کہ کوئی شخص اپنی ذات کے حق میں کسی چیز کے دعوے میں پسندیدہ نہیں ہوسکتا ۔- ان لوگوں کے قول کے تناقض پر ایک یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ ادھار لین دین کے عقود میں مسلمان پر کافر کی گواہی کے ناقابل قبول ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح فاسق کی گواہی بھی ناقابل قبول ہے، پھر اگر مدعی کافر یا فاسق ہو ۔ اس کے ساتھ ایک گواہ کی گواہی ہو تو ہمارے مخالفین اس کا فریافاسق سے حلف لیں گے اور وہ اپنے اس حلف کی بنا پر اپنا دعویٰ حاصل کرنے کا مستحق ہوجائے گا ۔ جبکہ اگر یہی شخص کسی دوسرے کے حق میں اسی قسم کی گواہی دیتا اور پچاس قسمیں بھی کھا لیتا تو اس کی گواہی قبول نہ کی جاتی لیکن جب اپنی ذات کے لیے کسی چیز کا دعویٰ کرتا اور حلف اٹھا لیتا تو اس چیز کا مستحق قرار دیا جاتا وجوی کہ وہ پسندید بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی گواہی قابل اعتماد ہے اور نہ ہی اس کی قسم اس بات میں ہمارے مخالفین کے قول کا بطلان اور ان کے مسلک کا تضاد او تناقض موجود ہے۔- قول بار ی ہے ولا یاب الشھداء اذا مادعوا اور جب گواہوں کو گواہی دینے یا گواہ بننے کے لیے بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں سعید بن جبیر ، عطا ، مجاہد ، شعبی اور طائوس سے مروی ہے کہ جب انہیں اقامت شہادت یعنی گواہی دینے کے لیے بلایا جائے۔ قتادہ اور ربیع بن انس سے مروی ہے کہ جب انہیں دستاویز میں گواہی ثبت کرنے کے لیے بلایا جائے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حسن بصری کا قول ہے کہ آیت دونوں باتوں پر محمول ہے یعنی دستاویز میں گواہی ثبت کرنا اور پھر حاکم کے روبرو اس گواہی کو پیش کرتا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عموم لفظ کی بنا پر اسے دونوں معنوں پر محمول کیا جائے گا اور مفہوم یہ ہوگا کہ ابتداء میں یہ گواہی ثبت کرنے کے لئے ہے۔ گویا کہ یوں فرمایا جب گواہوں کو دستاویزات میں ان کی گواہیاں ثبت کرنے کے لیے بلایا جائے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ گواہوں پر متعاقدین یعنی سودے کے طرفین کے پاس جانا لازم نہیں ہے بلکہ متعاقدین پر گواہوں کے پاس جانا لازم ہے۔ جب متعاقدین گواہوں کے پاس جا کر ان سے دستاویز یا تحریر میں گواہی ثبت کرنے کے لئے کہیں تو یہ وہ صورت حال ہے جو اس قول باری میں مراد ہے (اذا مادعوا) یعنی انہیں گواہی ثبت کرنے کے لئے بلایا اجئے۔- لیکن اگر انہوں نے گواہی ثبت کردی اور پھر انہیں حاکم کے سامنے یہی گواہی دینے کے لئے بلایا گیا تو یہ بلاوا حاکم کے سامنے ان دونوں کے پیش ہونے کی طرح ہوگا اس لئے کہ حاکم گواہوں کے پاس ان کی گواہی لینے کے لئے چل کر نہیں جائے گا بلکہ گواہوں پر حاکم کی عدالت میں حاضر ہونا لازم ہوگا۔ اس لئے بلاوا دستاویز میں گواہی ثبت کرنے کے لئے ہے اور دوسرا بلاوا حاکم کی عدالت میں حاضری اور گواہی دینے کے لئے ہے۔- قول باری ہے (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) اس میں یہ جائز ہے کہ اسے درج بالا دونوں امور پر محمول کیا جائے یعنی ابتدائے شہادت جس کا مفہوم دستاویز میں اپنی گواہی ثبت کرنا ہے اور حاکم کے سامنے اس کی گواہی دینا۔- اور قول باری (ان تضل احداھما فتذکر الاحد اھما الاخری) اس پر دلالت نہیں کرتا کہ اس سے مراد ابتدائے شہادت ہے۔ اس لئے کہ لفظ جن باتوں پر مشتمل ہے ان میں سے بعض کا ذکر ہوا ہے۔ اس لئے اس میں کوئی دلالت نہیں ہے کہ خاص کر ابتدائے شہادت مراد ہے۔ کوئی اور بات مراد نہیں ہے۔ - اگر کوئی یہ کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے (ولا یاب الشھداء اذا مادعوا) فرما کر انہیں گواہوں کے نام سے موسوم کردیا تو یہ اس بات کی دلیل بن گئی کہ اس سے حاکم کے سامنے گواہی دینے کی حالت مراد ہے۔ اس لئے کہ دستاویز میں گواہی ثبت کرنے سے پہلے انہیں گواہوں کا نام نہیں دیا جاسکتا۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) ان دونوں کو گواہوں کے نام سے موسوم کر کے انہیں گواہ بنانے کا حکم دیا۔ حالانکہ ابھی انہوں نے گواہی نہیں دی تھی۔ اس لئے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس لفظ سے ابتدائے شہادت کی حالت مراد ہے۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (فلا تحل لہ حتی تنلح زوجاً غیرہ) اللہ تعالیٰ نے ہونے والے شوہر کو نکاح کرنے سے پہلے ہی شوہر کے نام سے موسوم کردیا۔ گواہ پر شروع میں گواہی ثبت کرنے اور بعد میں لازمی طور پر گواہی دینے کا حکم اس وقت لازم ہوگا جب اس کے سوا کوئی گواہی دینے والا نہ ملے۔ یہ فرض کفایہ ہے جس طرح جہاد، جنازے کی نماز، مردے کو غسل دینا اور اس کی تدفین فرض کفایہ ہے۔- اس فرض کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ جب کچھ لوگ اسے ادا کردیں تو باقی ماندہ لوگوں سے ساقط ہوجاتا ہے ۔ گواہی کے تحمل یعنی کسی واقعہ کے گواہ بننے اور گواہی ادا کرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ گواہی کے فرض کفایہ ہونے پر یہ بات دلاکت کرتی ہے کہ اگر تمام لوگ کسی واقعہ میں گواہ بننے سے باز رہیں تو ان کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر ہر کسی کے لئے تحمل شہادت سے باز رہنا جائز ہوجاتا تو دستاویزات اپنا مفہوم کھو بیٹھتیں اور ناکارہ ہوجاتیں اور اس طرح لوگوں کے حقوق ضائع ہوجاتے۔- اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے دستاویز اور گواہی کے ذریعے کسی معاملے کو پختہ کرنے کا جو انتظام کیا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے وہ بےکار ہوجاتی ہے۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ گواہی ثبت کرنا فی الجملہ فرض ہے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ہر شخص پر تحمل شہادت یعنی گواہ بننا لازم نہیں ہے۔ یہ اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ ہر شخص پر یہ اس کی ذات کے لحاظ سے معین فرض نہیں ہے۔- اس پر قول باری (ولا یضار کاتب ولا شھید) پر دلالت کرتا ہے جب تحمل شہادت فرض کفایہ کے طور پر ثابت ہوگیا تو حاکم کے روبرو گواہی دینے کا بھی یہی حکم ہوگا کہ جب کچھ لوگ یہ فریضہ سر انجام دے دیں گے تو باقی ماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔- لیکن جب دستاویز میں گواہی ثبت کرنے کے لئے صرف دو ہی آدمی ہوں گے تو پھر گواہی دینے کے لئے بلائے جانے پر گواہی دینا ان دونوں پر فرض ہوگا جس کی دلیل یہ قول باری ہے (ولا یاب الشھدآء اذا مادعوا) نیز یہ بھی فرمایا (ولا تکتموا الشھادۃ و من یکتمھا فانہ اثم قلبہ، اور گواہی نہ چھپائو۔ جو شخص گواہی چھپائے گا اس کا دل گنہگار ہوگا) نیز فرمایا۔ (واقیموا الشھادۃ للہ، اللہ کے لئے گواہی قائم کرو) یعنی گواہی دو ۔- اسی طرح یہ قول باری ہے (یا یھا الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شھدآء للہ ولو علی انفسکم ، اے ایمان والو انصاف کے علمبردار بن جائو اور اللہ کے لئے گواہی دو خواہ یہ تمہاری اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ان دونوں کے سوا دوسروں کی گواہی کی بنا پر ان کے لئے گواہی نہ دینے کی گنجائش پیدا ہوجائے تو پھر ان دونوں سے گواہی کی فرضیت ساقط ہوجائے گی جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔- قول باری ہے (ولا تسآ موا ان تکتبوہ صغیراً اوکبیراً الی اجلہ، معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعیین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھنے میں تساہل نہ کرو) یعنی … واللہ اعلم … معاملہ خواہ چھوٹا ہو جس میں عادۃً لوگ میعاد مقرر کردیتے ہیں یا بڑا جس میں تحریر اور گواہی مستحسن سمجھتی جاتی ہے۔- (آیت 282 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت میں ملاحظہ فرمائیں)
(٢٨٤) تمام مخلوقات اور تمام چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں، اپنے بندوں کو جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے، اور اگر تم اپنے دلوں کی باتوں کو ظاہر کرو، یہ ظہور سے پہلے وسوسہ کے بعد کا درجہ ہے یا اس کو چھپاؤ تمہیں ان سب کا بدلہ دیا جائے گا، اسی طرح یاد کے بعد بھولنا اور درستگی کے بعد غلطی کرجانا، اور جہاد کے بعد زبردستی کرنا جو ان تمام گناہوں سے توبہ کرے ہیں، جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو مسلمانوں کو اس کے مضمون میں بہت پریشانی اور بےہر اسی ہوئی، جب آپ کو معراج ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہوئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیتیں نازل فرمائیں۔- شان نزول : وان تبدوا ما فی انفسکم “ (الخ)- حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب یہ آیت (یعنی اگر تم نے اپنے دل کی باتوں کو ظاہر کرو یا اسے پوشیدہ رکھو سب پر مواخذہ ہوگا) نازل ہوئی، تو صحابہ کرام (رض) کے لیے یہ چیز سخت حیرانی اور پریشانی کا باعث ہوئی چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر گھٹنوں کے بل گرگئے اور عرض کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی ہے اور ہم اس حکم کی کہاں طاقت رکھتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اسی طرح کہنا چاہتے ہو جیسا کہ یہود و نصاری نے تم سے پہلے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی، بلکہ یہ کہو ہم نے سنا اور اطاعت کی پروردگار ہم آپ سے اپنے گناہوں کی معافی کے طلبگار ہیں اور آپ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، چناچہ جب صحابہ کرام (رض) نے یہ جملہ دہرایا اور اس سے ان کی زبانیں تر ہوگئیں، تو حق تعالیٰ نے اس کے بعد (آیت) ” امن الرسول “ یہ آیت نازل فرمائی، جب اس پر سب نے گواہی دے دی تو اللہ تعالیٰ نے پہلے حکم کو منسوخ کرکے یہ آیت ”۔ لا یکلف اللہ نفسا “۔ نازل فرمائی، یعنی اللہ تعالیٰ ہر ایک انسان کو اس کی طاقت کے بقدر مکلف بناتا ہے، نیز امام مسلم وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سورة البقرۃ کے آخری رکوع پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ عظیم الشان رکوع تین آیات پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں ہم اسی طرح کا ایک عظیم رکوع پڑھ آئے ہیں جس کی چار آیات ہیں اور اس میں آیت الکرسی بھی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں رکوع اپنی عظمت اور اپنے مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم پلہّ ہیں۔ آیت الکرسی توحید کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین آیت ہے ‘ اور اس رکوع کی آخری آیت جامع ترین دعا پر مشتمل ہے۔- آیت ٢٨٤ (لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط) ۔ - آپ دیکھیں گے کہ اکثر و بیشتر اس طرح کے الفاظ سورتوں کے اختتام پر آتے ہیں۔- (وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ط) ۔ - تمہاری نیتیں اس کے علم میں ہیں۔ ایک حدیث میں الفاظ آتے ہیں : (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ (٣٦) یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو اور تمہارے مال و دولت کو نہیں دیکھتا ‘ بلکہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ تو تمہارے دل میں جو کچھ ہے خواہ اسے کتنا ہی چھپالو اللہ کے محاسبے سے نہیں بچ سکو گے۔- (فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط) ۔ - اختیار مطلق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے ہاں اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر لازم نہیں ہے کہ نیکوکار کو اس کی جزا ضرور دے اور بدکار کو اس کی سزا ضرور دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ ایسا کرے گا ‘ لیکن اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے کہ اس پر کسی شے کو لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ (فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ) (البروج) کی شان کا حامل ہے۔ سورة الحج میں الفاظ آئے ہیں : (اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ ) یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اہل تشیع کا موقف یہ ہے کہ اللہ پر عدل واجب ہے۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ عدل کرے گا ‘ جزاء و سزا میں عدل ہوگا ‘ لیکن عدل کرنا اس پر واجب نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ نے جو شے اپنے اوپر واجب کی ہے وہ رحمت ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط) (الانعام : ١٢) اور : (کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَلا) (الانعام : ٥٤) تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کرلیا ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :333 یہ خاتمہ کلام ہے ۔ اس لیے جس طرح سورت کا آغاز دین کی بنیادی تعلیمات سے کیا گیا تھا ، اسی طرح سورت کو ختم کرتے ہوئے بھی ان تمام اصولی امور کو بیان کر دیا گیا ہے جن پر دین اسلام کی اساس قائم ہے ۔ تقابل کے لیے اس سورہ کے پہلے رکوع کو سامنے رکھ لیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :334 یہ دین کی اولین بنیاد ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا مالک زمین و آسمان ہونا اور ان تمام چیزوں کا جو آسمان و زمین میں ہیں ، اللہ ہی کی ملک ہونا ، در اصل یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس کی بنا پر انسان کے لیے کوئی دوسرا طرز عمل اس کے سوا جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :335 اس فقرے میں مزید دو باتیں ارشاد ہوئیں ۔ ایک یہ کہ ہر انسان فرداً فرداً اللہ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ جس پادشاہ زمین و آسمان کے سامنے انسان جواب دہ ہے ، وہ غیب و شہادت کا علم رکھنے والا ہے ، حتٰی کہ دلوں کے چھپے ہوئے ارادے اور خیالات تک اس سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :336 یہ اللہ کے اختیار مطلق کا بیان ہے ۔ اس کو کسی قانون نے باندھ نہیں رکھا ہے کہ اس کے مطابق عمل کرنے پر وہ مجبور ہو ، بلکہ وہ مالک مختار ہے ۔ سزا دینے اور معاف کرنے کے کلی اختیارات اس کو حاصل ہیں ۔
188: آگے آیت نمبر 286 کے پہلے جملے نے واضح کردیا کہ انسان کے اختیار کے بغیر جو خیالات اس کے دل میں آجاتے ہیں، ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ لہذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر جو غلط عقیدے دل میں رکھے، یا کسی گناہ کا سوچ سمجھ کر بالکل پکا ارادہ کرلے تو اس کا حساب ہوگا۔