Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کو صرف انہی امور کا علم دیا گیا ہے جن پر وہ مدبرات امر کی حیثیت سے مامور ہیں۔ مثلاً بادلوں اور پانی کا فرشتہ، پانی کے متعلق تو جملہ معلومات رکھتا ہے مگر دوسری تمام اشیاء کے افعال و خواص سے بالکل بیخبر ہے۔ یہی حال دوسرے فرشتوں کا ہے۔ جبکہ انسان کو تمام اشیاء کا سرسری علم دیا گیا تھا۔ پھر وہ تحقیق اور جستجو کے ذریعہ اس میں ازخود اضافہ کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور جس وقت حکم دیا ہم نے سب فرشتوں کو (اور جنوں کو بھی جیسا کہ بعض روایات میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے غرض ان سب کو یہ حکم دیا گیا کہ) سجدہ میں گرجاؤ آدم کے سامنے سو سب سجدہ میں گر پڑے بجز ابلیس کے کہ اس نے کہنا نہ مانا اور غرور میں آگیا اور ہوگیا کافروں میں سے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۝ ٠ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۝ ٣٢- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٢) فرشتوں نے جوابا عرض کیا کہ ہم اپنے قول سے رجوع کرتے ہیں ہمیں جو تو نے بتایا اتنا ہی علم ہے تو ہم سے اور ان سے اور ہماری باتوں اور ان کی باتوں سے زیادہ باخبر ہے

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (قَالُوْا سُبْحٰنَکَ ) - آپ ہر نقص سے ‘ ہر عیب سے ‘ ہر ضعف سے ‘ ہر احتیاج سے مبرا اور منزہ ہیں ‘ اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ ّ - (لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ط) - اس کی یہی تعبیر بہتر معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائناتی حکومت میں ملائکہ کی حیثیت درحقیقت اس کے کارندوں (یا ) کی ہے۔ چناچہ ہر ایک کو صرف اس کے شعبے کے مطابق علم دیا گیا ہے ‘ ان کا علم جامع نہیں ہے اور ان کے پاس تمام چیزوں کا مجموعی علم حاصل کرنے کی استعداد نہیں ہے۔ مثلاً کوئی فرشتہ بارش کے انتظام پر ماموؤ ہے ‘ کوئی پہاڑوں پر مامور ہے ‘ جس کا ذکر سیرت میں آتا ہے کہ جب طائف میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پتھراؤ ہوا تو اس کے بعد ایک فرشتہ حاضر ہوا کہ میں ملک الجبال ہوں ‘ اللہ نے مجھے پہاڑوں پر مامور کیا ہوا ہے ‘ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں تو میں ان دو پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا دوں جن کے درمیان طائف کی یہ وادی واقع ہے اور اس طرح اہل طائف پس کر سرمہ بن جائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف خدمات پر مامور ہیں اور ان کو جو علم دیا گیا ہے وہ صرف ان کے اپنے فرائضِ منصبی اور ان کے اپنے اپنے شعبے سے متعلق دیا گیا ہے ‘ جبکہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو علم کی جامعیتّ بالقوۃ ( ) دے دی گئی ‘ جو بڑھتے بڑھتے اب ایک بہت تناور درخت بن چکا ہے۔ - (اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ) - آپ ہی کی ذات ہے جو کلُ کے کل علم کی مالک ہے اور جس کی حکمت بھی کامل ہے۔ باقی تو مخلوق میں سے ہر ایک کا علم ناقص ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :43 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرشتے اور فرشتوں کی ہر صنف کا علم صرف اسی شعبے تک محدُود ہے جس سے اس کا تعلق ہے ۔ مثلاً ہوا کے انتظام سے جو فرشتے متعلق ہیں ، وہ ہوا کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں ، مگر پانی کے متعلق کچھ نہیں جانتے ۔ یہی حال دُوسرے شعبوں کے فرشتوں کا ہے ۔ انسان کو ان کے برعکس جامع عِلم دیا گیا ہے ۔ ایک ایک شعبے کے متعلق چاہے وہ اس شعبے کے فرشتوں سے کم جانتا ہو ، مگر مجموعی حیثیت سے جو جامعیّت انسان کے علم کو بخشی گئی ہے ، وہ فرشتوں کو میسّر نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30 : بظاہر ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام صرف حضرت آدم علیہ السلام کو سکھائے گئے تھے، اور فرشتے اس تعلیم میں شریک نہیں تھے۔ اس صورت میں ان سے ان ناموں کے بارے میں پوچھنا یہ جتانے کے لئے تھا کہ تم میں وہ صلاحیت نہیں رکھی گئی جو آدم علیہ السلام کی تخلیق سے مقصود ہے، دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آدم علیہ السلام کو سکھاتے وقت فرشتے موجود تھے لیکن چونکہ ان میں ان باتوں کو سمجھنے یا یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے وہ امتحان کے وقت جواب نہ دے سکے۔ اس صورت میں ان کے جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ ہمیں وہی علم حاصل ہوسکتا ہے جو آپ ہمیں دینا چاہیں اور اس کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کردیں۔