آدم علیہ السلام کی وجہ فضیلت یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی ۔ یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کر دیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شرافت اور فضیلت حضرت آدم کو اس لئے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں ، فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں ، زمین ، آسمان ، پہاڑ ، تری ، خشکی ، گھوڑے ، گدھے ، برتن ، چرند ، فرشتے ، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے نام بتائے گئے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد عرضھم آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لئے آتا ہے ۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کے لئے ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ) 24 ۔ النور:45 ) اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کو پانی سے پیدا کیا جن میں سے بعض تو پیٹ کے بل گھسٹتے ہیں بعض دو پیروں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں ۔ علاوہ ازیں عرضھن بھی حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت میں ہے اور حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں عرضھا بھی ہے ۔ صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی ، جیسے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا ۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث لائے ہیں ۔ مسئلہ شفاعت ٭٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان دار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہو گا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چنانچہ یہ سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں ۔ جو ہم اس سے راحت پائیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ۔ انہیں اپنا گناہ یاد آ جائے گا ۔ تم نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لئے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ یہ سب آپ کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے ۔ آپ فرمائیں گے تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی ۔ یہ سن کر سب کے سب حضرت موسیٰ کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آ جائے گا اور شرمندہ ہو جائیں گے اور فرمائیں گے تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں ۔ یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں ۔ اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہو جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا ۔ مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہو گا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا ، کہئے سنا جائے گا ، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی ۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا ۔ میرے لئے حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا ۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا ۔ پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہو گی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا پھر چوتھی بار ضرور ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لئے جہنم کی مداومت واجب ہو گئی ہو ( یعنی شرک و کفر کرنے والے ) صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے ۔ یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔ پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ ۔ لیکن قول پہلا ہی ہے ۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں ۔ تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں ۔ اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں ۔ انہی کے نام بتاؤ ۔ اور اگر تم نہیں بتا سکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہو گا ؟ فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کر دی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں سبحان اللہ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) تو ہم جانتے ہیں لیکن دعا ( سبحان اللہ ) کیا کلمہ ہے؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لئے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے ۔ حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے ۔ حضرت آدم نے نام بتا دئے کہ تمہارا نام جبرائیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے ، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دئے ۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِنْ تَجْــهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي ) 20 ۔ طہ:7 ) تم بلند آواز سے کہو ( یا نہ کہو ) اللہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ حیز کو جانتا ہے اور ارشاد فرمایا آیت ( الا یسجدوا ) الخ کیوں یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جو تمہارے ہر باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے ۔ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جر تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا ۔ فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا ۔ ابن عباس ابن مسعود اور بعض صحابہ اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ابو العالیہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہو گیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم علیہ السلام کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے ۔ حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بےخبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے ۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی ۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی ۔ اب جب کہ فرشتوں نے حضرت آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کر لیا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں سب سے اولیٰ قول حضرت ابن عباس کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا ۔ اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لئے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کر دیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں ۔ بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ ) 49 ۔ الحجرات:4 ) جو لوگ تمہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا ۔ اسی طرح آیت ( وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:72 ) میں بھی اپنے دل میں بدی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ۔
[٤٣] خلافت کے لئے ضروری شرط :۔ انسان کو فرشتوں سے جو زائد چیز ودیعت کی گئی تھی۔ وہ تھی زمین کی اشیاء کے نام، ان کے خواص، ان خواص کا علم ہونے سے آگے نامعلوم باتوں تک پہنچنے (تحقیق یا استنباط) کی قوت و استعداد، زمین میں نظام خلافت کے قیام کے لیے یہ قوت انتہائی ضروری تھی جو فرشتوں میں نہیں تھی۔
کسی ورکشاپ کی ذمہ داری سپرد کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے اوزاروں کا علم کون رکھتا ہے، ظاہر ہے کہ انھیں وہی استعمال کرسکتا ہے جو کم از کم ان کا نام جانتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی اشیاء کے نام آدم (علیہ السلام) کو سکھائے اور فرشتوں پر واضح کیا کہ زمین کی خلافت کے لیے صرف تسبیح و تقدیس کافی نہیں بلکہ علم اسماء بھی ضروری ہے جو آدم کو عطا کیا گیا ہے، فرشتوں کو نہیں۔ رہی یہ بات کہ فرشتوں کو یہ علم کیوں نہیں دیا گیا اور انھیں زمین کی خلافت کیوں نہیں سونپی گئی تو اس کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے : ( اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) . بیشک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔- 3 اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا علم جزوی ہے اور وہ مقرب ہونے کے باوجود علم غیب نہیں رکھتے۔ غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ [ النمل : ٦٥ ] عائشہ (رض) نے فرمایا : ” جو شخص تمہیں کہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے تھے تو بلاشبہ اس نے جھوٹ کہا، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ “ [ بخاری، التوحید، باب ( عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدًا ۔۔ ) :- ٧٣٨٠ ]
اس کے بعد فرشتوں کو اس کا کچھ تفصیلی علم کرانے کے لئے ایک خاص واقعہ کا اظہار کیا گیا کہ تمام کائنات عالم کے نام اور ان کے خواص وآثار جن کے علم کی صلاحیت صرف آدم (علیہ السلام) ہی میں ودیعت کی گئی تھی فرشتوں کی فطرت وجبلت اس کے مناسب نہ تھی وہ سب آدم (علیہ السلام) کو سکھائے اور بتلائے گئے تھے مثلاً دنیا کی نافع ومضر چیزیں اور ان کے خواص وآثار، ہر جاندار اور ہر قوم کے مزاج و طبائع اور ان کے آثار، ان چیزوں کے معلوم کرنے کے لئے طبیعت ملکی متحمل نہیں فرشتہ کیا جانے کہ بھوک کیا ہوتی ہے پیاس کی تکلیف کیسی ہوتی ہے نفسانی جذبات کا کیا اثر ہوتا ہے کسی چیز سے نشہ کس طرح پیدا ہوتا ہے سانپ اور بچھو کا زہر کس بدن پر کیا اثر کرتا ہے،- غرض زمینی مخلوقات کے نام اور خواص و آثار کی دریافت فرشتوں کے مزاج اور مخصوص طبیعت سے بالکل علیحدہ چیز تھی یہ علم صرف آدم ہی کو سکھلایا جاسکتا تھا انہی کو سکھلایا گیا پھر قرآن کی کسی تصریح یا اشارہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آدم (علیہ السلام) کو یہ تعلیم کسی تنہائی میں فرشتوں سے علیحدہ دی گئی اس لئے ہوسکتا ہے کہ تعلیم سب کے لئے عام ہی ہو مگر اس تعلیم سے فائدہ اٹھانا آدم (علیہ السلام) کی طبیعت میں تھا وہ سیکھ گئے فرشتوں کی فطرت میں نہ تھا وہ نہ سیکھ سکے اسی لئے یہاں تعلیم کو آدم کی طرف منسوب کیا گیا اگرچہ یہ تعلیم فی نفسہ عام تھی آدم اور ملائکہ دونوں کو شامل تھی اور یہ بھی ہوسکتا کہ ظاہری تعلیم کی صورت ہی عمل میں نہ آئی ہو بلکہ آدم (علیہ السلام) کی فطرت میں ان چیزوں کا علم ابتدائے آفرینش سے ودیعت کردیا گیا ہو جیسے بچہ ابتداء ولادت میں ماں کا دودھ پینا جانتا ہے بطخ کا بچہ تیرنا جانتا ہے اس میں کسی ظاہری تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔- اب رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں تو سب کچھ ہے وہ فرشتوں کا مزاج اور طبیعت بدل کر ان کو بھی یہ چیزیں سکھا سکتے تھے تو ان کو کیوں نہ سکھایا گیا ؟ مگر اس کا حاصل تو یہ ہوا کہ فرشتوں کو ہی انسان کیوں نہ بنادیا کیونکہ اگر فرشتوں کی جبلت و فطرت کو بدلا جاتا تو پھر فرشتے نہ رہتے بلکہ انسان ہی ہوجاتے،- خلاصہ یہ ہے کہ زمینی مخلوقات کے اسماء اور ان کے خواص وآثار کا آدم (علیہ السلام) کو علم دیا گیا جو فرشتوں کے بس میں نہیں تھا اور پھر ان مخلوقات کو فرشتوں کے سامنے کرکے سوال کیا گیا کہ اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ ہم سے زیادہ کوئی مخلوق اعلم و افضل پیدا نہیں ہوگی یا یہ کہ زمین کی خلافت ونیابت کے لئے فرشتے بہ نسبت انسان کے زیادہ موزوں ہیں تو ان چیزوں کے نام اور خواص بتلاؤ جن پر خلیفہ زمین کو حکومت کرنا ہے، - یہاں سے یہ فائدہ بھی حاصل ہوگیا کہ حاکم کے لئے ضروری ہے کہ اپنی محکوم رعایا کے مزاج و طبائع سے اور ان کے خواص وآثار سے پورا واقف ہو اس کے بغیر وہ ان پر عدل و انصاف کے ساتھ حکمرانی نہیں کرسکتا جو شخص یہ نہیں جانتا کہ بھوک سے کیسی اور کتنی تکلیف ہوتی ہے اگر اس کی عدالت میں کوئی دعویٰ کسے کو بھوکا رکھنے کے متعلق پیش ہو تو وہ اس کا فیصلہ کیا اور کس طرح کرے گا ؟- غرض اسی واقعہ سے حق تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ بتلا دیا کہ زمین کی نیابت کے لئے معصوم ہونے کو دیکھنا نہیں بلکہ اس کو دیکھنا ہے کہ وہ زمین کی چیزوں سے پورا واقف ہو ان کے استعمال کے طریقوں اور ان کے ثمرات کو جانتا ہو اگر تمہارا یہ خیال صحیح ہے کہ فرشتے اس خدمت کے لئے زیادہ موزوں ہیں تو ان چیزوں کے نام اور خواص بتلاؤ ،- فرشتوں کا اظہار رائے چونکہ کسی اعتراض یا فخر و غرور یا اپنا استحقاق جتلانے کے لئے نہیں بلکہ محض اپنے خیال کا اظہار ایک نیاز مندخادم کی طرح اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے تھا اس لئے فوراً بول اٹھے : قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَ آ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ :- (پاک ہیں آپ، ہم کو علم نہیں، مگر وہی جو آپ نے عطا فرمایا بیشک آپ بڑے علم و حکمت والے ہیں) جس کا حاصل اپنے خیال سے رجوع اور اس کا اقرار تھا کہ زیادہ اعلم و افضل مخلوق بھی موجود ہے اور یہ کہ زمین کی نیابت کے لئے وہی موزوں ہیں، - دوسرا سوال اس جگہ یہ ہے کہ فرشتوں کو اس کی کیسے خبر ہوئی کہ انسان خوں ریزی کرے گا کیا انھیں علم غیب تھا ؟ یا محض اٹکل اور تخمینہ سے انہوں نے یہی سمجھا تھا ؟- اس کا جواب جمہور محققین کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ان کو انسان کے حالات اور اس کے ہونے والے معاملات بتلا دئیے تھے جیسا کہ بعض آثار میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے آدم (علیہ السلام) کو خلیفہ زمین بنانے کا ذکر فرمایا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ ہی سے اس کا خلیفہ کا حال دریافت کیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی نے ان کو جو بتلایا (روح المعانی) اس سے فرشتوں کو تعجب ہوا کہ جب انسان کا یہ حال ہے کہ وہ فساد وخوں ریزی بھی کرے گا تو اس کو نیابت زمین کے لئے منتخب فرمانا کس حکمت پر مبنی ہے،- اسی کا جواب تو حضرت حق جل شانہ کی طرف سے آدم (علیہ السلام) کے علمی تفوق کا اظہار فرما کر دے دیا گیا اور فساد و خون ریز سے جو شبہ اس کے استحقاق نیابت پر کیا گیا تھا، اس کا جواب اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ میں اجمالاً دے دیا گیا جس میں اشارہ ہے کہ جس چیز کو تم نیابت و خلافت کے منافی سمجھ رہے ہو درحقیقت وہ ہی اس کی اہلیت کا بڑا سبب ہے کیونکہ نیابت زمین کی ضرورت ہی رفع فساد کے لئے ہے جہاں فساد نہ ہو وہاں خلیفہ اور نائب بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں غرض یہ بتلا دیا گیا کہ منشائے الہی یہ ہے کہ جس طرح اس نے ایک ایسی مقدس معصوم مخلوق فرشتے پیدا کردئیے جس سے کسی گناہ خطاء کا صدور ہو ہی نہیں سکتا اور جس طرح اس نے شیاطین پیدا کردئیے جن میں نیکی اور بھلائی کی صلاحیت نہیں اسی طرح ایک ایسی مخلوق بھی پیدا کرنا منشاء خداوندی ہے جس میں خیر وشر، نیکی اور بدی کا مخلوط مجموعہ ہو، اور جس میں خیر وشر کے دونوں جذبات ہوں اور جو جذبات شر کو مغلوب کرکے خیر کے میدان میں آگے بڑھے اور رضائے خدا وندی کا خلعت حاصل کرے،- واضع لغت خود حق تعالیٰ ہیں : - اس قصہ آدم (علیہ السلام) اور تعلیم اسماء کے واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ زبان اور لغت کے اصل واضع خود حق سبحانہ وتعالیٰ ہی کو واضع لغت قرار دیا ہے،- آدم (علیہ السلام) کا تفوق فرشتوں پر :- اس واقعہ میں قرآن حکیم کے یہ بلیغ الفاظ بھی قابل نظر ہیں کہ جب فرشتوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ ان چیزوں کے نام بتلاؤ لفظ اَنْ ۢبِــُٔـوْنِىْ ارشاد فرمایا گیا کہ مجھے بتلاؤ اور جب آدم (علیہ السلام) کو اسی چیز کا خطاب ہوا تو لفظ اَنْۢ بِــٔھُم فرمایا گیا یعنی آدم (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ فرشتوں کو یہ اسماء بتلائیں، - اس طرز بیان کے فرق سے واضح ہوگیا کہ آدم (علیہ السلام) کو معلم درجہ دیا گیا اور فرشتوں کو طالب علم کا جس میں آدم (علیہ السلام) کو فضلیت وتفوق کا ایک اہم صورت سے اظہار کیا گیا ہے اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علوم میں بھی کمی اور زیادتی ہوسکتی ہے کیونکہ جس چیز کا ان کو علم نہیں تھا آدم (علیہ السلام) کے ذریعہ ان کو بھی ان چیزوں کا اجمالی طور پر کسی نہ کسی درجہ میں علم دے دیا گیا
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰۗىِٕكَۃِ ٠ ۙ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاۗءِ ھٰٓؤُلَاۗءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٣١- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
قول باری ہے :- (علم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملٓئکۃ فقال انبونی باسماء ھولآء ان کنتم صدقین۔ (اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا : اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو اگر تم سچے ہو) یہ قول باری اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ نے حضرت آدم کو تمام اشایء کے نام سکھا دیئے، یعنی اجنسا کا ان کے معانی کے ساتھ کیونکہ اسماء کے ذکر میں لفظ کے اندر عموم ہے اور قو ل باری : ثم عرضھم علی المٓئکۃ کے اندر اس بات پر دلالت ہے کہ اللہ نے حضرت آدم کی اولاد کے ناموں کا ارادہ کیا تھا جیسا کہ الربیع بن انس سے مروی ہے۔ تاہم حضرت ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے کہ اللہ نے حضرت آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیئے تھے۔- اگر یہاں کہا جائے کہ قول باری : عرضھم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ذوی العقول کے اسماء تھے اس لئے کہ (ھم) کی ضمیر ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتی ہے، غیر ذوی العقول کے لئے استعمال نہیں ہوتی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے جب ذوی العقول اور غیر ذوی العقول دونوں کا ارادہ کیا تو پھر ذوی العقول کے اسم کی تغیب درست ہوگئی جیسا کہ یہ قول باری ہے : خلق کل دابۃ من مآء فمنھم من یمشی علی بطنہ و منھم من یمشی علی رجلین ومنھم من یمشی علی اربع (اور اللہ ہی نے ہر چلنے والے جانور کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ سو ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں اور وہ بھی جو دوپیروں پر چلتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو چار پیروں پر چلتے ہیں) جب جملے کے اندر ذوی العقول داخل ہوگئے تو پھر سب کو یہی درجہ دیا گیا۔ زیر بحث آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ کی طرف سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام مختلف زبانوں کے اصول سے واقف کرا دیا گیا تھا اور اللہ نے انہیں یہ اصول ان کے معانی کے ساتھ سکھا دیئے تھے کیونکہ معانی کے بغیر اسماء کی معرفت کی کوئی فضیلت نہیں ہوتی۔ یہ بات علم کے شرف اور اس کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیلت سے آگاہ کرنا چاہا تو انہیں تمام اسماء کا ان کے معانی کے ساتھ علم عطا کردیا حتی کہ حضرت آدم نے فرشتوں کو ان اسماء کی خبر دی۔ فرشتوں کو ان اسماء کا علم نہیں دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے حضرت آدم کی فضیلت کا اعتراف کرلیا۔- بعض لوگوں کا قول ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی زبان طوفان نوح تک ایک تھی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس طوفان میں اہل زمین کو غرق کردیا صرف نوح (علیہ السلام) کی نسل سے زندہ رہ جانے والے بچ رہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کی اولاد بڑھی اور تعداد زیادہ ہوگئی تو انہوں نے بابل میں ایک اونچا محل تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تاکہ اگر طوفان دوبارہ آئے تو اس محل کے ذریعے اپنا بچائو کرلیں۔ اسی دوران میں اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان کی تحلیل کردی اور ہر گروہ اپنی سابقہ زبان بھول گیا اور پھر اللہ نے وہ زبانیں سکھائیں جو وراثت میں ان کی اولاد کو م لیں اور پھر یہ لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں بکھر گئے اور نئے نئے شہر آباد کئے۔- بعض لوگ اس نظریے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک کامل العقل انسان کا اپنی وہ زبان بھلو جانا ناممکن ہے جس میں وہ کل تک گفتگو کرتا تھا، بلکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد مذکورہ تمام زبانیں جانتی تھی، یہاں تک کہ یہ سب گروہ روئے زمین میں بکھر گئے اور ہر ایک گروہ نے صرف اسی زبان پر اقتصار کرلیا جس کے ذریعے آج ان کی بول چال ہوتی ہے۔ باقیمانہ تمام زبانیں ترک کردیں جن کا انہیں علم تھا۔ ان کی اولاد نے یہ زبانیں ان سے نہیں سیکھیں یہی وجہ تھی کہ ان کے بعد آنے والی نسلیں تمام زبانیں نہیں جانتی تھیں۔
(٣١) چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام اولاد کے نام سکھادیے اور ایک قول یہ ہے کہ جانوروں وغیرہ کے نام حتی کہ پیالہ اور چینی تک کے نام بتلادیے، پھر ان چیزوں کے نام ان فرشتوں پر (جن کو سجدہ کا حکم ملا تھا) پیش کیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے مخلوق اور ان کی اولاد کے متعلق اطلاع دو ، اگر تم اپنی پہلی بات میں سچے ہو۔
آیت ٣١ (وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا) - مفسرّین کا تقریباً اجماع ہے کہ اس سے مراد تمام اشیاء کے نام ہیں اور تمام اشیاء کے ناموں سے مراد ان کی حقیقت کا علم ہے۔ آپ انسانی علم ( ) کا تجزیہ کریں تو وہ یہی ہے کہ انسان ایک چیز کو پہچانتا ہے ‘ پھر اس کا ایک نام رکھتا ہے یا اس کے لیے کوئی اصطلاح ( ) قائم کرتا ہے۔ وہ اس نام اور اس اصطلاح کے حوالے سے اس چیز کے بارے میں بہت سے حقائق کو اپنے ذہن میں محفوظ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام نام سکھا دیے۔ گویا کل مادّی کائنات کے اندر جو کچھ وجود میں آنے والا تھا ‘ ان سب کی حقیقت سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو امکانی طور پر ( ) آگاہ کردیا۔ یہ انسان کا اکتسابی علم ( ) ہے جو اسے سمع و بصر اور عقل و دماغ سے حاصل ہوتا ہے۔ - انسان کو حاصل ہونے والے علم کے دو حصے ہیں۔ ایک الہامی علم ( ) ہے جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے بھیجتا ہے ‘ جبکہ ایک علم بالحواس یا اکتسابی علم ( ) ہے جو انسان خود حاصل کرتا ہے۔ اس نے آنکھوں سے دیکھا ‘ کانوں سے سنا ‘ نتیجہ نکالا اور دماغ کے کمپیوٹر نے اس کو پراسیس کر کے اس نتیجے کو کہیں حافظے ( ) کے اندر محفوظ کرلیا۔ پھر کچھ اور دیکھا ‘ کچھ اور سنا ‘ کچھ چھو کر ‘ کچھ چکھ کر ‘ کچھ سونگھ کر معلوم ہوا اور کچھ اور نتیجہ نکلا تو اسے سابقہ یادداشت کے ساتھ کر کے نتیجہ نکالا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً ) (بنی اسرائیل ) انسان کو یہ اکتسابی علم ( ) تین چیزوں سے حاصل ہورہا ہے : سماعت ‘ بصارت اور عقل۔ عقل اس تمام کو جو اسے مہیا ہوتا ہے ‘ حواس ( ) کے ذریعے سے پراسیس کرتی ہے اور فائدہ اخذ کرتی ہے۔ یہ علم ہے جو بالقوۃ ( ) حضرت آدم (علیہ السلام) کو دے دیا گیا۔ اب اس کی ہو رہی ہے اور درجہ بدرجہ وہ علم پھیل رہا ہے ‘ بڑھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ کہاں تک پہنچے گا ‘ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اس نصف صدی میں علم انسانی میں جو ہوا ہے میں اور آپ اس کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ اکثر بڑے بڑے سائنس دانوں کو بھی اس کا ادراک و شعور نہیں ہے کہ انسانی علم نے کتنی بڑی زقند لگائی ہے۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی لائن کے بارے میں تو جانتا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہوگیا۔ مثلاً ایک سائنس دان صرف فزکس یا اس کی بھی کسی شاخ کے بارے میں جانتا ہے ‘ باقی دوسری شاخوں کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ یہ دور سپیشلائزیشن کا دور ہے ‘ لہٰذا علم کے میدان میں جو بڑا دھماکہ ( ) ہوا ہے اس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ایک چیز جو آج ایجاد ہوتی ہے چند دنوں کے اندر اندر اس کا نیا آجاتا ہے اور یہ چیز متروک ( ) ہوجاتی ہے۔ ابلاغ اور مواصلات ( ) کے اندر انقلاب عظیم برپا ہوا ہے۔ آپ یہ سمجھئے کہ اقبال نے جو یہ شعر کبھی کہا تھا ‘ اس کی تعبیر قریب سے قریب تر آرہی ہے َ - عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں - کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے - اور یہ ” مہ کامل “ اس وقت بنے گا جب دجّال کی شکل اختیار کرے گا۔ دجّال وہ شخص ہوگا جو ان تمام قواعد طبیعیہ ( ) کے اوپر قابو پالے گا۔ جب چاہے گا ‘ جہاں چاہے گا بارش برسائے گا۔ وہ رزق کے تمام خزانے اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور اعلان کر دے گا کہ جو اس پر ایمان لائے گا اسی کو رزق ملے گا ‘ کسی اور کو نہیں ملے گا۔ اس کی آواز پوری دنیا میں سنائی دے گی۔ وہ چند دنوں کے اندر پوری دنیا کا چکر لگا لے گا۔ یہ ساری باتیں حدیث میں دجال کے بارے میں آئی ہیں۔ وہ آدم کے اس اکتسابی علم ( ) کی اس حد کو پہنچ جائے گا کہ فطرت کے تمام اسرار ( ) اس پر منکشف ہوجائیں اور اسے قواعد طبیعیہ پر تصرفّ حاصل ہوجائے ‘ وہ انہیں کرلے ‘ قابو میں لے آئے اور انہیں استعمال کرے۔ - انسان نے جو سب سے پہلا ذریعہ توانائی ( ) دریافت کیا وہ آگ تھا۔ آج سے ہزاروں سال پہلے ہمارے کسی جدّ امجد نے دیکھا کہ کوئی چٹان اوپر سے گری ‘ پتھر سے پتھر ٹکرایا تو اس میں سے آگ کا شعلہ نکلا۔ اس کا یہ مشاہدہ آگ پیدا کرنے کے لیے کافی ہوگیا کہ پتھروں کو آپس میں ٹکراؤ اور آگ پیدا کرلو۔ چناچہ آگ اس دور کی سب سے بڑی ایجاد اور اوّلین ذریعۂ توانائی تھی۔ اب وہ توانائی ( ) کہاں سے کہاں پہنچی پہلے اس آگ نے بھاپ کی شکل اختیار کی ‘ پھر ہم نے بجلی ایجاد کی اور اب ایٹمی توانائی ( ) حاصل کرلی ہے اور ابھی نمعلوم اور کیا کیا حاصل ہونا ہے۔ واللہ اعلم ان تمام چیزوں کا تعلق خلافت ارضی کے ساتھ ہے۔ لہٰذا فرشتوں کو بتایا گیا کہ آدم کو صرف اختیار ہی نہیں ‘ علم بھی دیا جا رہا ہے۔- (ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلآءِکَۃِ لا) (فَقَالَ اَنْبِءُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰوؤلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ )- اگر تمہارا یہ خیال صحیح ہے کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے زمین کا انتظام بگڑ جائے گا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :42 انسان کے علم کی صُورت دراصل یہی ہے کہ وہ ناموں کے ذریعے سے اشیاء کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے ۔ لہٰذا انسان کی تمام معلومات دراصل اسمائے اشیاء پر مشتمل ہیں ۔ آدم کو سارے نام سکھانا گویا ان کو تمام اشیاء کا عِلم دینا تھا ۔
29: ناموں سے مراد کائنات میں پائی جانے والی چیزوں کے نام ان کی خاصیتیں اور انسان کو پیش آنے والی مختلف کیفیات کا علم ہے مثلاً بھوک، پیاس، صحت اور بیماری وغیرہ، اگرچہ آدم (علیہ السلام) کو ان چیزوں کی تعلیم دیتے وقت فرشتے بھی موجود تھے ؛ لیکن چونکہ ان کی فطرت میں ان چیزوں کی پوری سمجھ نہیں تھی اس لئے جب ان کا امتحان لیا گیا تو وہ جواب نہیں دے سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر انہیں باور کرادیا کہ جو کام اس نئی مخلوق سے لینا مقصود ہے وہ فرشتے انجام نہیں دے سکتے۔